نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لِّلْعَالَمِیْنَo (الانبیاء :۱۰۷)
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ
یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ،وَعَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہo
انتہائی واجب الاحترام، معزز و محترم، بھائیو ، بزرگو اور ساتھیو،السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ!
سلطان العارفین ، حضر ت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ سے چلائی گئی اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان اور مبلغین کی دعوت پہ آج کی اس تقریب میں تشریف لانے پہ مَیں آپ تمام بھائیوں ، بزرگوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں -
اور آپ جانتے ہیں کہ سلطان العارفین ، حضر ت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ سے چلائی گئی یہ جماعت قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے اُس آفاقی اور عالمگیر پیغام کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے جو اِسلام کا آفاقی اور اَبدی پیغام اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعے اور اپنے نیک ، برگزیدہ اور صالح بندوں کے ذریعے اپنی مخلوق میں ہدایت اور اپنی ذات کی طرف لوگوں کو بلانے کیلئے بھیجا ہے-اور بالخصوص جو پیغام اس کائنات میں امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ لے کرتشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ مَیں نے وہ دین جو مختلف انبیاء لے کر یہاں آتے رہے اور مختلف عوام، قبائل اور خطوں میں دعوت دیتے رہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آقا پاکﷺ تک ۵۴۰۰ سال کے عرصہ میں وہ دین جو ارتقاء پذیر رہا اُس کو اپنے محبوب ﷺ پر مکمل فرما دیا ہے اور اپنے محبوبﷺ کو اِس شان کیساتھ جلوہ گر کیا کہ مَیں نے اُنہیں کسی خاص بستی ، قبیلے یا کسی خاص خطے کا نبی بنا کر نہیںبھیجا ہے کہ وہ ایک زبان بولنے والے نبی ہیں بلکہ فرمایا :
{وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لِّلْعَالَمِیْنَo }(الانبیاء :۱۰۷)
’’میرے محبوب کی رحمت کا دائرہ دو عالم میں نہیں بلکہ تمام جہانوں میں جو جہان ازل سے ابد تک قائم ہیں اُن سب پر میرے محبوب کی رحمت محیط ہے-‘‘
اور آقا پاکﷺ نے جس طریقے سے اُس شانِ رحمت کا اِظہار کیا ، آفاق اور کائنات کا وہ عالمگیر پیغام اُسی وسعت سے رسولِ پاکﷺ نے بیان فرمایا جس وسعت سے اللہ تعالیٰ نے اِس کائنات کو پیدا کیا تھا -اور پروفیسر مائیکل ہارٹ جس نے دُنیا کے سو(۱۰۰)عظیم لوگوں پر کام کیا -
(The 100: A Ranking of The Most Influenttial Persons in History, by Prof. Michael Hart, Citadel Press, New York, USA 1992)
اس کتاب میں مصنف نے انتخاب کیا کہ تاریخِ انسانی کے سو (۱۰۰)عظیم ترین با اثر لوگ کون تھے ؟ تو اُن میں اُس نے یہ لکھا کہ دُنیا کی عظیم ترین شخصیات جو گزر ی ہیں اُ ن میں سب سے بلند تر شخصیت محمد رسول اللہﷺ کی ہے اور اُس کی دلیل پروفیسر ہارٹ نے یہ دی ہے کہ دُنیا میں دو طرح کے اَفکار رائج رہے شخصیات کی ایک جہت الٰہیات اور فکریات کے حوالے سے تھی جس میں مذہب بھی آجاتا ہے ، کتابی مذاہب ،غیر کتابی مذاہب اور مشرک مذاہب بھی آجاتے ہیں اور دوسری ایسی شخصیات گزری ہیں جن کا مذہب اور فکر سے ہٹ کے اُمورِ دُنیوی سے واسطہ تھا جس میں بالخصوص فتوحات اور بالعموم نظامِ حکومت، نظامِ سلطنت، نظامِ معیشت حتّیٰ کہ آرٹ اور اِ س طرح کے تمام شُعبہ جات تھے اور اُس نے کہا کہ مَیں نے جب تحقیق کی تو مجھے دو بڑی شخصیات نظر آئیں ایک طرف سیّدنا عیسیٰ بن مریم (ں) - وہ مذہب اور فکریات میں سب سے بلند ترین بااثر ہستی تھے اور دوسری طرف فتُوحات میں (یعنی امُورِ دُنیوی میں) مجھے چنگیز خان نظر آیا لیکن میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف مذہب ، فکر اور الٰہیات میں بلند مقام رکھتے تھے اور چنگیز صرف اُمورِ دُنیوی میں بلند مقام رکھتا تھا اُسے مذہب سے کوئی واسطہ نہ تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف مذہب اور فکریات سے تعلق رکھتے تھے اُن کا اِس طرح سے عدل ومعیشت سے کوئی واسطہ نہ تھا جس طرح چنگیز کا تخت و تاج سے تھا اور مجھے اِن دونوں شخصیات کے مطالعہ کے بعد ایک تیسری شخصیت نظر آئی جس شخصیت کی فتوحاتِ دُنیوی چنگیز خان سے بڑھ کر تھیں جنہوں نے عدل بھی دیا اور معیشت بھی دی اور دوسری طرف فکریات اور الٰہیات کے میدان میں جن کی فکر سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بلند تر تھی وہ شخصیت اُمورِ دنیوی میں اور اُمورِ دینی میں بھی عظیم ترین شخصیت تھی اور وہ شخصیت ’’ محمد رسول اللہ ﷺ ‘‘ کی شخصیت تھی-
“My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular level.”
ترجمہ: ’’میرا (حضرت) محمد (ا) کو دُنیا کی بااثر ترین شخصِیَّات کی فہرست میں سب سے اوپر رکھنا شاید بہت سے قارئین اور دیگر لوگوں کیلئے حیران کُن بات ہو اور شاید وہ اِس پہ سوال اُٹھائیں مگر (یہ حقیقت ہے کہ ) آپ (ا) تاریخ کی واحِد ایسی شخصیت ہیں جو مذہبی و دُنیاوی امُور ، دونوں میں ، انتہائی کامیاب رہے ‘‘-
دین و دُنیا میں امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی شخصیت کا ظہور نہیںہوا - پروفیسر مائیکل ہارٹ نے آزادانہ انداز میں ، اِس سے بڑھ کر یہ کہا کہ عیسائی مذہب کا پیروکار ہوتے ہوئے عیسائیّت پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سینٹ پال کے اثرات اور بائیبل کا جائزہ لیا اور دُوسری طرف اسلام پر رسولِ پاک ﷺ کے اثرات اور قرآن کا جائزہ لیا اور یہ سٹیٹ منٹ دی کہ
It is probable that the relative influence of Muhammad on Islam has been larger than the combined influence of Jesus Christ and St. Paul on Christianity.
ترجمہ :’’ یہ غالب بات ہے کہ صرف (حضرت) محمد (ا) کا اِسلام پر اثر اُس سے بڑھ کر ہے جو اَثر (حضرت) عیسیٰ (ں) اور سینٹ پال دونوں کا مُشترکہ طور پہ عیسائیت پہ ہے ‘‘ -
اِس لئے آقا پاک ﷺ نے جو نظام وضع فرمایا اُس نظام نے انسان کو ایک فرد سے لے کر معاشرے تک رہنمائی عطا کی اور آپ ﷺ نے جتنے بھی افراد کی تربیت کی وہ سب کے سب جہاں دین میں ایک درجۂ کمال رکھتے تھے وہ اپنے اُمورِ ظاہری میں بھی اُسی طرح ایک بے مثال اور عظیم ترین کردار تھے اس کی وجہ یہ تھی آقا پاک ﷺنے اُن پر کائنات کا تصوّر واضح کردیا تھا کہ یہ کائنات تم سے ہے ، اِس کائنات کی چمک دمک اور رونق تمہارے اخلاق کی رونق سے ہے اور تمہاری چمک دمک سے اِس کائنات کی چمک دمک ہے -اگر انسان کا کرداراور اخلاق تاریک ہے تو یہ کائنات تاریک ہے اگر انسان کا کردار اور اخلاق تباہ ہو جائے تو یہ کائنات تباہ ہوجاتی ہے، اگر انسان اپنے کردار میں ظالم واقع ہو تو اِس زمین پر ظلم عام ہوجاتا ہے ،اگر انسان اپنے کردار اور اخلاق میں وحشی ہو تو اِس پوری زمین پر وحشت پھیل جاتی ہے اِس لئے آقا پاکﷺ نے اِنسان کی بنیاد سے اِصلاح فرمائی کہ جہاں جہاں سے اُس کے اندر خرابی واقع تھی وہاں وہاں سے آقا پاکﷺ نے اُس کی اصلاح فرمائی - کیونکہ روشن کردار کائنات کو روشنی دے سکتا ہے اور پُختہ اخلاق و کردار کی بدولت ہی اِنسانی اُلفت و محبت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے جب تک اِنسان کے کردار میں شگفتگی و اپنائیت پیدا نہیں ہوتی تب تک کائنات کے نظام پہ وحشت و اجنبیّت چھائی رہتی ہیں:
ہزار قافلہ بیگانہ واردید و گزشت
کسے کہ دید بہ اَنداز ِ محرمانہ کُجاست
ترجمہ: ’’ (تہذیبوں کے) ہزاروں قافلے اِس زمین کو بیگانوں کی طرح دیکھتے ہوئے گزرگئے ، مگر جس نے (اس زمین کو ) اپنائیت کی نگاہ سے دیکھا ہو وہ کہاں ہے ؟ ‘‘
اور انسان بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہے اور اُن تینوں حصوں سے انسان اِس دُنیا میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنا کردار ادا کرتا ہے ، پہلا حصہ انسان کا جسم ہے ، دوسرا حصہ انسان کی عقل ہے اور تیسرا حصہ انسان کی رُوح ہے - یہ جسم اِس دُنیا میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ، اِس دُنیا کے سامنے انسان کو Represent کرتا ہے کہ اُس کے اندر کیا ہے ؟ اُس کی عقل میں کیا ہے ؟ اُس کی رُوح میں کیا ہے؟ جو کچھ انسان کی عقل اور رُوح میں ہوتا ہے وہی کچھ انسان کے اِس بدن سے ظاہر ہوجاتا ہے اِسی لئے نفسیات دانوں کا ایک بڑا معروف محاورہ ہے-
’’آدمی کی عقل اعضاء کو کنٹرول کرتی ہے آدمی کے اعضاء عقل کو کنٹرول نہیںکرتے-‘‘
آدمی کے اعضاء کی حرکت اور آدمی کے بدن کے جتنے بھی اعمال ہیں وہ آدمی کی عقل اور فکر کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو کچھ اِس کی فکر میںہے وہی اُس کے بدن سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور عقل کاجو تعلق رُوح کیساتھ ہے کہ اگر رُوح مر جائے ، اگر آدمی رُوح کو زندہ نہ رکھ سکے ، اگر رُوح بیدار نہ ہو تو عقل آوارہ ہوجاتی ہے جس طریقے سے آپ دیکھیں کہ اگر کسی کی عقل مرجائے ، یعنی اُس کی دماغی صلاحیتیں Dead Leval پر پہنچ جائیں ، وہ کُند ہوجائیں تو اُس آدمی کے بدن کا آپ دُنیا میں کوئی فائدہ دیکھتے ہیں ؟اُسے بے وقوف ، بے عقل ،ناقص العقل، مخبوط الحواس کہتے ہیں گویا اِس وجود کا احترام آدمی کی عقل سے ہے اور عقل کااحترام آدمی کی رُوح سے ہے کہ اگر رُوح مرجائے تو عقل آوارہ ہوجاتی ہے ، عقل وحشت اختیار کر جاتی ہے ، عقل درندگی اختیار کرجاتی ہے ، عقل راستے سے بھٹک جاتی ہے ،عقل اپنا نصب العین کھو بیٹھتی ہے جس طریقے سے ایک قوم کو زندگی بسر کرنے کیلئے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اُسی طرح آدمی کی عقل کو سفر طے کرنے کیلئے ایک واضح Directionکی ضرورت ہے اگر عقل کے پاس Direction نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ تباہی کے راستے پر چل پڑے تو آقا پاک ﷺ نے آدمی کی عقل ، جسم اور رُوح اِن تینوں کو رہنمائی عطا فرمائی کہ ایک معاشرہ اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب مُعاشرہ اپنی اجزائے ترکیبی کے مطابق تشکیل پاتا ہے - اور ناچیز کے اَخذ کردہ نتائج کے مُطابق مُعاشرے کے تین بُنیادی اجزائے ترکیبی ہیں :
(۱)اُس معاشرے میں اچھے انسان ہوں ، اچھا کردار اور اچھا اخلاق واقع ہو -
(۲) دوسری بات معاشرے میں پختہ فکر اور مثبت علمی جدو جہد ہواگر پختہ فکر اور مثبت علمی جدو جہد کا فقدان واقع ہو تو بھی معاشرہ مکمل نہیں ہوتا -عقل کو پختگی کیساتھ ایک مثبت سمت چاہیے - اور
(۳) تیسری چیز معاشرے میں سکون اور اطمینان ہے ، بے سکون، بے اطمینان اور بے یقینی کے شکار معاشرے تباہ و بربادہوجاتے ہیں وہ کبھی اپنی منزل پر نہیںپہنچ سکتے -
آقا پاکﷺ نے جسم کو ، عقل کو اور رُوح کو کیا رہنمائی عطا فرمائی؟
اِ س کی بنیادی وضاحت صحیح مسلم شریف کی حدیث سے ملتی ہے ویسے متفق علیہ حدیث ہے صحیح بخاری میں بھی روایت کی گئی ہے اور دیگر متعدد کُتبِ احادیث میں بھی روایت کی گئی ہے عموماً علمائے کرام کے مابین حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے -
حدیثِ جبریل: -
’’ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہم آقا پاک ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے ایک شخص آیا جسے ہم میں سے کوئی بھی نہ جانتا تھا اور اُس شخص کے چہرے پر سفر اور تھکاوٹ کے کوئی آثار نہیں تھے اور بالکل بے داغ اور تاز ے سفید لباس میں ملبوس تھا اور اُس کا چہرہ بہت ہشاش بشاش تھا اور جہاں آقا پاکﷺ تشریف فرما تھے وہ آیا اور بالکل آپ ﷺ کے قریب دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اُس نے اپنے گھُٹنے آقا پاکﷺ کے بالکل قریب یعنی برابر کردیے، ہم بڑے حیران ہوئے نہ تو مدینہ میں کوئی ایسا آدمی ہے پھر اگر یہ مسافر ہے تو مسافر تو تھکا ہوا ہوتا ہے اُس کے کپڑے بھی گر دآلود ہوتے ہیں اور یہ تو ہشاش بشاش ہے یہ کون شخص ہے ؟اور اتنا بے تکلف ہے کہ آقا پاک ﷺ کے قریب بیٹھ گیا ہے اور یہ پہچانتا بھی ہے کسی اور سے مصافحہ یا معانقہ نہیں کیا یہ سیدھا نبی پاک ﷺکے پاس آیا اور سوال کرتا ہے -
{یا محمد اخبرنی عن الاسلام}
اے محمد ﷺ !مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟
{فقال رسول اللّٰہ ﷺ الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمد رسول اللّٰہ }
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اِسلام یہ ہے کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ گواہی دو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں -
{وتقیم الصلاۃوتؤۃ الزکوٰۃو تصوم رمضان وتحج البیت عن الستطاعۃالسبیل}
اور نماز قائم کرواور زکوٰۃ ادا کرواور رمضان میں روزے رکھواور اللہ کے گھر کا حج کرو جب بھی تمہیں اُس کی استطاعت میسر ہو-
{قال صدقت فعجبنالہ یسئلوو یصدقوا}
اے محمدﷺ ! آپ نے سچ کہا-
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ پہلے یہ آقا ﷺ سے پوچھتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟جب آپ بتا دیتے ہیں تو پھر وہ تصدیق کرتا ہے کہ آپ نے سچ کہا ، پہلے سوال کرتا ہے پھر آپﷺ کے جواب کی تصدیق کرتا ہے -پھر دوسرا سوال کرتا ہے :
{فقال اخبرنی عن الایمان}
اے محمد ﷺ ! مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیے کہ ایمان کیا ہے؟
آقا پاک ﷺنے فرمایا :
{ان تؤمن باللّٰہ وملٓئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخرو تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ}
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو ، اُس کے فرشتوں پر ایمان لائو، اُس کی کتب پر ایمان لائو، اور اُس نے جو رسول بھیجے اُن پر ایمان لائو، یومِ آخرت پر ایمان لائو ،اور خیر و شر پر ، قضا و قدر یعنی تقدیر پر ایمان لائو جو اللہ کی طرف سے تقدیرِ بر حق ہے اُس پر ایمان لائو-
دوسری بار اُس نے کہا {قال صدقت}اُس نے کہا یا رسول اللہﷺ آپ نے سچ کہا اور ساتھ ہی اُس نے تیسرا سوال کیا :
{قال فاخبرنی عن الاحسان}
اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے احسان کے بارے میں بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟
{قال ان تعبداللّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہٗ یراک }
رسول پاک ﷺ نے فرمایا! کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، جب تم اُسے نہیں دیکھ سکتے تو یہ یقین پختہ کر لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے-
اب یہ تین سوال اُس شخص نے کیے اس کے بعد اُس نے قیامت کے متعلق سوال کیاقیامت سے متعلق جواب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اور حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب وہ شخص حضور کے اُن جوابوں کی تصدیق کر کے چلا گیا تو آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
{یا عمر اتدری من السائل }
اے عمر تم جانتے تھے کہ سوال پوچھنے والا کون تھا؟
{قلت اللّٰہ اعلم و رسلہ }
مَیں نے عرض کی اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں -
آقا پاک ﷺنے فرمایا :
{فانہ جبریل اتاکم یعلمکم دینکم }
اے عمر یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کیلئے آئے تھے -
اِنسانِ کامل کی تشکیل کیلئے حدیثِ جبریل کا عَملی اِطلاق :
اب یہ تین سوال جبریل امین نے آقاپاک ﷺ کی بارگاہ میں کیے اِن تین سوالات کو آپ اِنسان کی اُن بنیادی اجزائے ترکیبی کی طرف لے کر آئیں کہ جہاں اِس معاشرہ کو اپنی Sustainabilityکیلئے ، اپنے استحکام اور بقاء کیلئے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے جیسا کہ ناچیز پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ (۱) انسان کا وجود اچھے کردار اور اچھے اخلاق کا مالک ہو اور (۲) اُس کی عقل و فکر پختہ و مثبت ہو اور (۳) اُسے سکون اور اطمینان میسر ہو - یعنی (۱) جسم (۲)عقل اور (۳) رُوح- تو جبریل نے جو پہلا سوال کیا صحیح مسلم کی روایت کے مطابق کہ اِسلام کیا ہے؟آقا پاک نے جو جواب عطافرمایا اس جواب کے تمام اجزاء کا تعلق آدمی کے جسم سے ہے آقا پاک نے فرمایا سب سے پہلے توحید کا اقرار کرو ، پھر رِسالت کی گواہی دو ، پھر نماز ادا کرو، پھر زکوٰۃ ادا کرو ، پھر روزہ رکھو اور اللہ کے گھر کا حج کرو-
(۱) اسلام کا تعلق آدمی کے جسم سے ہے -
(۲) ایمان کا تعلق آدمی کی عقل سے ہے - اور
(۳) احسان کا تعلق آدمی کی رُوح سے ہے -
گویا وجود کی اِصلاح پہلے اور پھر عقل کو ایک سمت دینا اور تیسرے مرحلے میں اپنی رُوح کو بیدار کرنا - تاکہ آدمی کے وجود اور عقل کے جتنے بھی گوشے ہیں ان میں اشتراکِ کار اور وِحدتِ عمل پیدا کی جاسکے تاکہ آدمی ایک مکمل انسان بن سکے جو اِس معاشرے میں اپنا مثبت اور تخلیقی کردار ادا کرسکے- احکامات و امُورِ دین میں اگر غور کیا جائے تو حدیثِ جبریل ہمیں اکثر پہلؤں پہ عملی طور مرحلہ وار مُنطبق ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور کم و بیش اِسی ترتیب (اسلام ، ایمان اور احسان ) سے نافذ ہوتی دِکھائی دیتی ہے - اِس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر قِلّتِ وقت کے پیشِ نظر صرف چند ایک پیشِ خِدمت ہیں -
(۱) عقیدۂ توحید پر حدیثِ جبریل کا مرحلہ وار عملی اِطلاق :
(۲) بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں تعلُّق اور حدیثِ جبریل کا مرحلہ وار عملی اِطلاق :
(۳) نمازِ کامل پہ حدیثِ جبریل کا مرحلہ وار عملی اِطلاق :
(۴) قرآن فہمی اور حدیثِ جبریل کا مرحلہ وار عملی اِنطباق :
(۱) عقیدۂ توحید پر حدیثِ جبریل کا مرحلہ وار عملی اِطلاق :
پہلی مِثال ہم اپنی بالکل پہلی بُنیاد یعنی عقیدۂ توحید سے دیکھتے ہیں- ہم ان تینوں (اسلام ، ایمان اور احسان) کواپنے عقیدہ ٔ تو حید پر بھی مرحلہ وار منطبق ہوتا ہوا دیکھتے ہیں کہ بدن کیساتھ توحید کا جو عقیدہ وابستہ ہے اس کا تعلق اسلام کیساتھ ہے جسے حدیثِ جبریل میں اسلام کہا گیا ہے-یعنی ظاہر میں آدمی آگ کی پرستش سے ، سورج کی پرستش سے ، ستاروں کی عبادت سے ، بتوں کی عبادت سے ، غیراللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے ، اللہ کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ ریز ہونے سے تائب ہوجاتا ہے اور وہ دعویٰ کرتا ہے کہ
{اشھد ان الا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ}
کہ مَیں گواہی دیتاہوں کہ جو واحد اور لاشریک اللہ ہے وہی عبادت کے لائق ہے اُس کے علاوہ نہ کوئی عبادت کے لائق ہے نہ کوئی سجدے کے لائق ہے- یہ شرطِ اسلام ہے اور اِس کا تعلق بظاہر آدمی کی بدنی عبادات کیساتھ ہے کہ آدمی اپنی بدنی عبادات میں ستاروں، چاند اور سورج ، آگ اور بتوں کی پرستش سے باز آجاتا ہے -
جب بدن سے آگے آدمی عقل میں جاتا ہے تو عقل میں جو شرک واقع ہے اُس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ہر کہ رمزِ مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
کہ جس نے رسول پاک ﷺ کے اَسرار و رموز کو سمجھ لیا ، حضور کے عشق کی رمز کو سمجھ لیا ، حضور کے طریقِ عمل کو سمجھ لیااُس کے نزدیک سب سے بڑا شرک غیر اللہ کا خوف ہے وہ چاہے کسی ظاہر کی طاقت کا ہویا باطن کی طاقت کا ہو،وہ آدمی خالصتاً اللہ کی ذات پر توکل رکھتا ہے اُسے جو بھروسہ ہوتا ہے ، جو ایمان ہوتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہوتا ہے اللہ کے علاوہ اُس کا نہ کسی پر بھروسہ ہوتا ہے اور نہ تکیہ کرتا ہے اس کا تعلق آدمی کے ایمان سے ہے ، آدمی کے عقل سے ہے ، غیراللہ کا خوف جس عقل میں آجائے وہ عقلِ ناقص ہے اُس عقل میں ابھی ایمان نہیں اترا وہ بے شک غیر اللہ کو سجدے سے انکار کرتا ہو بے شک وحدہٗ لاشریک خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو رہاہواُس کے بدن نے تو توحید کو اِختیار کر لیا ہے مگر اُس کی عقل نے اِسلام قبول نہیں کیا-اسی لئے ہمارے اَسلاف نے جو ہمیں سبق دیا وہ یہ کہتے ہیں کہ دو چیزوں کو مومن اختیار کرتا ہے ایک ترک اور دوسرا توکل {ترک ماسوی اللّٰہ}اُس کے وجود سے جو عبادات متعلق ہیں اُن میں وہ اللہ کے علاوہ ہر چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونا ترک کردیتا ہے ،کسی کے سامنے جھکتا نہیں ہے ،اور دوسری {توکل علی اللہ } وہ اللہ پر توکل اختیار کرتا ہے ، اللہ پر بھروسہ کرتا ہے ، اُسے اپنا خالق و مالک تسلیم کرتا ہے اور اپنے تمام نفع و نقصان کا ذمہ دار اُسی کو مانتا ہے -اور اِسی لیے آقاپاکﷺ نے فرمایا :
کہ جب جبریل پوچھتے ہیں کہ ایمان کیا ہے؟ آقا پاک ﷺنے فرمایا :
{ان تؤمن باللّٰہ}
وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے-
{و تؤمن بالقدر خیرہ وشرہ}
وہ قضا و قدر پر یقین رکھتا ہے -
تسلیم و رضا اختیار کرلیتا ہے، اُس کی رضا پر اپنی رضا کو قربان کردیتا ہے-اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت پر قربان کردیتا ہے اور یہی فقر اور رُوحانیت ہے جس کے بارے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
؎ فقر ، ذوق و شوق و تسلیم و رضا است
فقر کیا ہے؟فقر تسلیم و رضا کا دوسرا نام ہے-یہ ایمان ہے اور توحید میںاِ س کا تعلق آدمی کی عقل سے ہے -
عقل سے آگے جب آدمی روح کی کائنات میں پہنچتا ہے تو احسان فی التوحید کو اِختیار کرتا ہے اور مرتبۂ احسان یہ ہے کہ آدمی ہوائے نفس کی پیروی چھوڑ دیتا ہے ، اپنی خواہش کو قربان کردیتا ہے ، اپنے نفس کو قربان کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنا رکھا ہے-‘‘
ایک بُت پرستی وہ ہے جو بدن اختیار کرتا ہے دوسری بُت پرستی وہ ہے جو عقل اِختیار کرتی ہے یعنی غیر اللہ کا خوف ! اپنا پیٹ پالنے ، اپنی قوم کو چلانے کیلئے دُنیا کی بڑی طاقتوں سے جا کر بھیک مانگنا ، کشکول اُٹھا کر اغیار کی منتیں سماجتیں کرنا آئی ایم ایف کو اپنا کارساز سمجھنا اور ورلڈ بینک کی اِمداد اور قرضوں کے بغیر خود کو اور قوم کو اَفلاس کے منہ میں دیکھنے کا خوف - یہ سب عقل کا شرک ہے - اور تیسری بات یہ ہے کہ خواہشِ نفس کی اتباع کرنا ، اللہ نے جن کاموں سے منع کیا ہے اُن کاموں کو اختیار کرنا یہ بھی شرک کے ضمرے میں آتا ہے کیونکہ آدمی خدا کے حکم کے سامنے اپنے نفس کے حکم کو بڑا سمجھتا ہے اوراُس کی پیروی کرتا ہے آپ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۲۴ سے لے کر آیت ۳۶ تک 13 احکاماتِ خداوندی دیکھ لیں جو اللہ تعالیٰ نے لاگو فرمائے ہیں پوری کائنات کا احاطہ کردیا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’آج اِسلام پرانا ہوگیا اور ۱۴۰۰ سال پہلے والے دین کو لانے کی بات کرتے ہیں‘‘ اُنہیں چاہیے کہ وہ سورۃ بنی اسرائیل کا مطالعہ کریں اُنہیں اندازہ ہوجائے گاکہ معیشت سے لے کر عدل تک ، سیاست سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ،سماج سے لے کر رُوحانیت تک ، رشتہ دار، پڑوس سے لے کر ہر چیز کا اُس میں اللہ تعالیٰ نے احاطہ کردیا ہے دینِ اسلام اُسی طرح آج بھی زندہ و تابندہ اور قائم ہے- اِس لئے قرآن بھی زِندہ و تابندہ ہے اور اُسی طرح لازمِ جاں ہے جس طرح آج سے چودہ صدیاں قبل تھا لہٰذا احکاماتِ قرآن سے رُو گردانی کرکے اللہ کی چاہت سے روگردانی کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں یہ عمل رُوح کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے گویا جو نفس کی چاہت کو اللہ کی چاہت پر قربان نہیں کرتا یہ احسان کا شرک ہے ، یہ رُوح کا شرک ہے-اللہ تعالیٰ نے زِنا سے منع کیا ، شراب سے منع کیا ، سُود سے منع کیا ، حرام خوری و رشوت سے منع کیا ، ناپ تول میں کمی اور منافع خوری سے منع کیا ، اِس لئے زِنا سے جو نہیں رُکتا ، شراب ، سُود ، حرام خوری و رشوت ، ناپ تول میں کمی اور منافع خوری سے نہیں رُکتا گو کہ بظاہر تو وہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا لیکن در حقیقت ایک طرح کا وہ شرکِ خفی کررہا ہے اور آقا پاک ﷺ کی حدیث مبارک ہے آپ نے فرمایا:
’’مجھے اپنی اُمت سے یہ خدشہ نہیںہے کہ یہ بتوں کی پوجا کرنے لگیں گے مجھے اپنی اُمت سے یہ خطرہ ہے کہ یہ شرکِ خفی میں مبتلا ہوجائے گی-‘‘
اور شرکِ خفی اپنے نفس کی اتباع کرنا ہے ، اللہ اور نبی ﷺ کے احکامات کو چھوڑ کر نفس اور شیطان کے احکامات پر چلنا ہے-اور رُوح کی توحید یہ ہے کہ رُوح صرف اور صرف اللہ کے تابع ہوجاتی ہے ، اللہ کے احکامات پر عمل کرتی ہے اور نفس کی پیروی ، خواہشا ت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی معرفت تک اُس کو رسائی نصیب ہوجاتی ہے - صُوفیائے کرام نے اِس لئے سب سے پہلے ضبطِ نفس اختیار کرنے پہ زور دیا اور ایسی ترتیب اختیار کرنے کی تلقین کی جس سے کہ بندہ نفس کا غُلام بننے کی بجائے نفس کو اپنا غُلام بنائے اور خود کو نفس کی سواری بنانے کی بجائے نفس کو اپنی سواری بنائے خود اُس کا سوار بنے - نفس ایک خنّاس ہے جو وجودِ آدمی میں گھس بیٹھتا ہے اور آدمی کی دولتِ روحانی پہ ڈاکہ ڈالتا ہے - جِس طرح کہ شھبازِ عافاں حضرت سخی سُلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ المشھدی الکاظمی رحمۃ اللہ علیہ مناجات شریف میں فرماتے ہیں :
جنابِ عالی ! استغاثہ سُنو ! اِس نفس اَخبث اَظلم دا
غارت کرے خزانہ دِل دا ، لعل جواہر دَم دا
داد ، اِمداد عطا فرما ، یا قبلہ ستر و کرم دا
دے پناہ یا ملجا ماویٰ تئیں باجھ نہ میں کئیں کم دا
تیری اوٹ دا کوٹ تکے کُل عالَم عرب عجم دا
اس مسکین دا ہیں توں ساتھی وقتاں غماں الَم دا
ویرانی نفسانی کوں کر نال فضل آبادی
سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مُرشد ہادی
’’جنابِ عالی ! اپنی عدالت میں خبیث و ظالم نفس کے خِلاف میرا استغاثہ سماعت فرمائیے - کہ ہمارا یہ نفس (جو خبیث و ظالم ہے ) ہمارے دِل کے خزائن اور سانسوں کے لعل و جواہر کو غارت کرتا ہے - اے میری عیب پوشی کرنے اور کرم فرمانے والے قبلہ ! میری داد رسی فرمائیے ، میری امداد کیجئے - اے میرے ملجا و ماویٰ! مجھے اپنی رحمت کی پناہ میں لے لیجئے (کیونکہ تیری رحمت کے بغیر) میں کسی کام کا نہیں - (اے جنابِ عالی ! آپ کی چادرِ رحمت) کی اوٹ کو عرب و عجم کے گناہگار اپنی حفاظت کی پناہ سمجھتے ہیں - اِس مسکین کے غم و الم کے وقت آپ ہی تو ساتھی ہیں - اِس نفسانی کے دِل کی ویرانی کو اپنے فضل سے آباد فرمائیے - اے میرے مرشد و ہادی ! اِس مسکین کی فریاد سُنیئے ! ‘‘
نفس ہی تو ہے جو سب سے بڑی آفت ہے - سُلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سخی سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی آفت ہوتی ہے جبکہ آدمی کی آفت اُس کا نفس ہے ‘‘-
’’ اگر تیری آستین میں سیاہ ناگ گھُس جائے تو وہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے جو تیرے پہلو میں چھُپا بیٹھا ہے‘‘-
یعنی سانپ تو بندے کو ظاہر میں تکلیف میں مُبتلا کرتا ہے اور اس کا زہر آدمی کا خزانۂ صحت لُوٹ لیتا ہے جبکہ نفس بندے کے باطن میں زہر گھولتا ہے اور اِسے انسانیّت سے گرا دیتا ہے اور اِس کے خزانۂ باطن پہ ڈاکہ ڈالتا ہے جو آدمی کے سکون و اطمینان کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے نتیجے میں ایک برباد حال اور وحشی خیال انسان پرورش پاتا ہے جس کا کام دُنیا میں وحشت کی پرورش کے سوا کچھ نہیں رِہ جاتا - اِس لئے خواہشِ نفس جب رُوح پہ حکمران ہو جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ بندے سے شرک فی الاحسان کا اِرتکاب نہ ہو - تو لازِم ہے کہ مُرشدِ کامل کی نگرانی میں تصورِ اسم اللہ ذات سے خواہشِ نفس کو قابُو کیا جائے تاکہ بدن ، عقل اور رُوح پہ دین مکمل طور پہ نافذ ہو جائے یعنی اِسلام ایمان اور احسان میں بندہ کا جسم ، عقل اور روح پوری طرح ڈھل جائیں -
(۲) بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں تعلُّق اور حدیثِ جبریل کا عملی اِطلاق :
اِسی طریقے آپ جسم ، عقل اور رُوح کو یعنی اِسلام ، ایمان اور احسان کو عقیدۂ رسالت میں دیکھ لیں - عقیدۂ رسالت میں یہ اُسی طریقہ سے مرحلہ وار آتے ہیں کہ اِسلام جس کا تعلق بدن سے ہے کہ آدمی اپنے بدن کیساتھ نبی ﷺ کی اطاعت اوراحکامات کو قبول کرتا ہے اور حضور کی رسالت اور ختمِ نبو ت کا اقرار کرلیتا ہے - اور رسالت پر ایمان لانا یعنی عقل کیساتھ اُسے قبول کرنا یہ ہے کہ آدمی اپنے اعمال کی گہرائی میں آقا پاک ﷺ کی اطاعت کو قبول کرلیتا ہے اور آپ ﷺکی ذاتِ گرامی کیساتھ دل و جان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے-جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ}(ال عمران:۳۱)
اے میرے محبوب ! اپنی اُمت کو فرما دیجئے کیا تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ تمہارا اللہ تمہیں محبوب بنا لے تو محمد رسول اللہ کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بندہ بنا لے گا-
کہ آدمی ایمان کے ساتھ ، عقل کیساتھ حضور کی اطاعت کو قبول کرتا ہے اور تسلیم کرتا ہے ایمان اُس کے اُس گوشہ تک پہنچ جاتا ہے جو جسم سے اگلا درجہ ہے یہ ایمانِ بالرسالت ہے - اور تیسری بات احسان ہے جس کا تعلق رُوح سے ہے یعنی جسم اور عقل اور رُوح کا جو تعلق رِسالت سے ہے اُسے آپ یوں دیکھ سکتے ہیں کہ جسم عقل اور رُوح اُس کو ایسے قبول کر لیتے ہیں کہ جسم حضور کی رِسالت اور ختمِ نبوت کا اقرار کرتا ہے اور عقل مکمل طور پر حضورﷺ کی اتباع کو قبول کرلیتی ہے اور اُسی راستے پر چل پڑتی ہے جو راستہ ہمیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا اور جو رُوح ہے وہ باطن میں ہر وقت مجلسِ مصطفیٰ ﷺ میں حاضر رہتی ہے اور ہر وقت حضور کے چہرۂ انور کی زیارت کرتی رہتی ہے یہ احسان بالرسالت ہے - اور یہ کوئی رسمی کلامی بات نہیں ہے بلکہ اس پر بڑے بڑے شیوخ اور فقہا نے اور مفسرین نے بہت بڑی بڑی اَسناد پیش کی ہیں اور اُن کے بڑے ایمان بخش واقعات ہیں مثلاً حضرت امام عبد الوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ میزان الکبریٰ میں فرماتے ہیں اور ذہن نشین رہے کہ امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کوئی عام شخصیَّت نہیں ہیں بلکہ اِن کے متعلّق فیض الباری شرح بُخاری شریف کی پہلی جلد میں شیخ انور شاہ کشمیری نے لِکھّا ہے کہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے حالتِ بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت کی اور 8 ساتھیوں کے ساتھ حضورﷺ کی بارگاہ سے بُخاری شریف پڑھی - وہ امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق میزان الکبریٰ میں فرماتے ہیں :
’’امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وہ خوش نصیب شخصیت ہیں کہ جنہیں ۷۵ مرتبہ حالتِ بیداری میں آقا پاک ﷺ کا دیدار نصیب ہوا -‘‘
شیخِ محقق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیں کہ جب حجازِ مقدس میں جاکر وہ درسِ حدیث مکمل کرتے ہیں تو مدینہ منورہ میں وہ طلباء کو حدیث پڑھایا کرتے تھے آپ علیہ الرحمۃ ایک دن حدیث پڑھا رہے تھے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الہام میں اُن کو ارشاد فرمایا کہ اے عبدالحق ہند میں میرے دین کو تیری ضرورت ہے تو شیخ عبدالحق عرض کرتے ہیں جو لطف یہاں پر ہے وہ ہند میں نہیں ہے کہ یہاں مَیں نظر نیچی کرتا ہوں تو میری نظر حدیثِ رسول پر ہوتی ہے اور جب مَیں نگاہ اٹھاتا ہوں تو میری نگاہ روضۂ رسول پر ہوتی ہے ، یارسول اللہ ﷺحدیثِ رسول تو وہاں پر ہوگی لیکن روضہ کا لطف تو وہاں پر نہیں اُٹھا سکوں گا - آقا پاک ﷺ نے فرمایا اے عبدالحق ہند کو لوٹ جا وہاں میرے دین کو تیری ضرورت ہے نگاہ نیچی کرے گا تیری نگاہ حدیثِ مصطفیٰ پر ہوگی ، نگاہ اٹھائے گا تو تیری نگاہ چہرۂ مصطفیٰ ﷺ پر ہوگی-اور متعدد مرتبہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو آقا پاک ﷺکی زیار ت نصیب ہوئی -
یہ احسان بالرسالت ہے کہ آدمی کی رُوح آقا پاک ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتی ہے اور آقا ﷺ کے چہرے مبارک کا دیدار کرتی رہتی ہے -
شیخ روز بہان بقلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ جو ایک بہت بڑے مفسر و محدث گزرے ہیں جو صاحبِ تفسیر عرائس البیان ہیں آپ علمِ حدیث میں بھی بہت بُلند مقام رکھتے تھے اور بڑے بڑے شیوخِ حدیث اُن کی خدمت میں سَندِ حدیث کیلئے جاتے تھے اور اُن کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی اُن سے حدیث پوچھتا تو وہ خاموشی سے اُس حدیث کو سنتے رہتے اگر اُنہوں نے خاموشی سے اُس حدیث کو سن لیا تو محدثین یہ کہتے تھے کہ یہ حدیث درست ہے کیونکہ اس پر شیخ روز بہان بقلی چونکے نہیں ہیں اور وہ محدثین سَند کی تصدیق کیلئے حدیث بیان کر رہے ہوتے اور حدیث کے بیان کے دوران شیخ روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ اگر چونک جاتے تو محدثین یہ سمجھ جاتے کہ یہ حدیث آقا پاک ﷺ کی نہیں ہے اور اِس کی سند میں کسی جگہ پر غلطی واقع ہوئی ہے-اوراُس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب حدیث بیان کی جاتی تھی تو شیخ روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی باطنی قوت کے ساتھ مجلسِ محمدی ﷺ میں حاضر ہوجاتے اور حدیث کے بیان کرنے کے وقت چہرۂ مصطفیٰ ﷺ کی زیارت کرتے رہتے اگر چہرۂ مصطفیٰﷺ پر ناگواری کے آثار نہ آئیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث اپنی سند میں بالکل ٹھیک ہے اور شیخ روز بہان ادبِ مصطفیٰ ﷺ کی وجہ سے خاموش رہتے اگر چہرۂ مصطفیٰ ﷺ پر ناگواری کے آثارآجاتے تو شیخ چونک جاتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِس حدیث کی سند نہیں بیان فرمائی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنی سند میں کمزور ہے - ایک بار ایک شیخِ حدیث حضرت روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث پوچھنے کیلئے آئے تو آپ چونک پڑے اور چونک کر آپ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث نہیں ہے تو وہ شیخِ حدیث روایات گِنوانے لگے کہ حضرت ! فلاں محدث نے فلاں کتاب میں اتنی روایات کیساتھ اسے پیش کیا اور فلاںمحدث نے فلاں کتاب میں اتنی روایات اور اَسناد کیساتھ اسے پیش کیا اور آپ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہﷺ کی حدیث نہیں ہے ؟ شیخ روز بہان بقلی جلال کے عالَم میں کھڑے ہوگئے اوراُنہوں نے فرمایا :
{شُفْ ! ھٰذ ا محمد رسول اللّٰہ، وَھُوَ یَقُوْلُ مَا قُلْتُ ھٰذ ا}
’’خاموش ہوجائو ! کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ سامنے رسول اللہﷺ جلوہ گر ہیں -اور آقا پاک فرمارہے ہیں کہ مَیں نے یہ فرمان نہیں فرمایا ‘‘-
اور اسی طرح کا قول امام عبدالوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ میزان الکبریٰ میں امام جلال الدین سیوطی کے متعلق فرماتے ہیں کہ جب اُن کی خدمت میں حدیث لائی جاتی تو وہ مراقبہ کے ذریعے مجلسِ مصطفیٰﷺ میں چلے جاتے اور وہاں جاکر یہ تصدیق کرتے کہ آقا یہ آپ کا فرمان ہے یا نہیں ؟
اِسی طرح پیرانِ پیر ، محی الدین ،غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مَیں جب گیلان (ایران) سے بغداد (عرب) کی طرف نیا نیا آیا تو مَیں لوگوں کو وعظ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ میری زبان عجمی تھی اور اُن کی زبان عربی تھی مجھے اُن کی زبان نہیں آتی تھی، مَیں ایک رات سویا ہوا تھا کہ مجھے ایک رات خواب میں آقائے دوجہاں محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی آقا پاک ﷺ نے فرمایا اے عبدالقادر! اِن لوگوں کو وعظ کیا کرو، مَیں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ ! مَیں عجمی ہوں میری زبان اتنی پختہ نہیں کہ مَیں اِن عربیوں کے ساتھ گفتگو کر سکوں تو آقا پاک ﷺ نے فرمایا اے عبدالقادر اپنا منہ کھول اور آقا پاک ﷺ نے اپنا لعابِ دَہن میرے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا جا اب تیری زبان کا نطق جاتا رہا ، تیری زبان کی لکنت جاتی رہی ، تیری زبان کا نَقص جاتا رہا - فرماتے ہیں کہ مَیں صبح اُٹھا تو لوگوں کو وعظ کرنا شروع کردیا - یہ ہے رسالت میں احسان جس کا تعلق رُوح سے ہے -
زبان یعنی بدن حضور ﷺ کو نبی آخرالزمان مان لے ، عقل حضور کی کامل اتباع کرے اور رُوح کو حضور کی مجلس کی حضوری نصیب ہوجائے -
(جاری ہے)