علامہ اقبال کے رول ماڈل خانوادہ اہل بیتِ رسولﷺ : تربیتی خطاب

علامہ اقبال کے رول ماڈل خانوادہ اہل بیتِ رسولﷺ : تربیتی خطاب

علامہ اقبال کے رول ماڈل خانوادہ اہل بیتِ رسولﷺ : تربیتی خطاب

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی نومبر 2014

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

 اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo (الاحزاب :۳۳)

 اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ

 یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ،وَعَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہo

جے کر دین علم وچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھُو

اٹھارہ ہزار جو عالم آہا اوہ اگے حسینؓ دے مردے ھُو

جے کجھ ملاحظہ سرور(ﷺ) دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھُو

جیکر مندے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بندے کردے ھُو

پر صادق دین تنہاں دے باھُوؒ جو سر قربانی کردے ھُو

واجب الاحترام، بھائیو ، بزرگو - السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ!

محرام الحرام یا ا س کے علاوہ کوئی بھی ایسا موقع ہو جس کی نسبت اس طرح کی ہستیوںسے ہوکہ جن کے وجود، جن کی تخلیق عام انسانوں سے مختلف ہواُن کی مٹی کا خمیر ، اُن کے عقل کی لطافت اور اُن کی روح کی نورانیت عام انسانوں کی تخلیق سے مختلف ہوتو وہاں پر مجھ جیسے کمتر، حقیر ، ناچیز، کم علم کا علم اور عمل اِس قابل نہیں ہوتا کہ ایسی ہستیوں ،ایسے پاکیزہ اور نورانی نفوسِ قدسیہ کے متعلق ہم کسی قسم کی کوئی بھی رائے دے سکیں- اُن کی تخلیق ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ، اُن کی مٹی کا خمیر کہاں سے اٹھایا گیا ؟ کیسے گوندھا گیا ؟ کیسے تیار کیا گیا؟یہ ہماری زبان کے بیان سے باہرہے،اُن کی عقل کی تطہیر و تلقین اور تربیت کیسے کی گئی ؟ یہ فہمِ انسانی سے ماورا ہے- اگر فہمِ انسانی میں آبھی جائے تو اِس کا ابلاغ و بیان ممکن نہیں - اوراُن کی روح کس طرح سے تخلیق پائی ؟ اُسے جوہرِ نور سے کس طرح مزین کیا گیا ؟ جو کہ خود ایک نور ہے اور تہہ بہ تہہ ہے اُسے کوئی کیسے اور کیونکر بیان کرسکتا ہے؟یہ مجھ جیسے کمتر ناقص اور کم علم لوگوں کے بس کی بات نہیں جیسے کسی نے کیا خُوب کہا تھا:

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازُک تر

کہ رَہ گُم کردہ می آید جنیدؔ و یایزیدؔ ایں جا

کہ یہ آسمان کے نیچے ادب کا ایسا مقام ہے رسولِ پاک ﷺ کی ذاتِ گرامی ہو یا اُن کے اہلِ بیت کے نفوسِ قدسیہ ہوں یا پنجتن پاک ہوں یہ اِس آسمان کے نیچے اتنے مقدس ترین مقام ہیں ، اتنے حساس ترین مقام ہیں کہ یہ عرش سے بھی زیادہ نازک ہیں ، بایزید بسطامی اور جنید بغدادی جیسی ہستیاں بھی یہاں سَر جھکا کر آئی ہیں -

چاہے پنجتن پاک ہوں ، اہلِ بیتِ رسول ہوں ، اُمّہات المؤمنین ہوں ، خُلفائے راشدین ہوں یا جمیع صحابہ کرام ہوں ہمیں بہر طور ادب ، تقدس اور احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے- اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسی ہستیاں نہیں کہ جن کے متعلق منفی نُقطۂ نِگاہ سے کسی بھی قسم کی کوئی بھی اختلافی گفتگو کی جائے اِن کا وقار ہے ، اِن کی تعظیم ہے ، اِن کا احترام ہے جو انسانوں نے قائم نہیں کیا بلکہ خود اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے عطا فرمایا ہے - دوستو ! ایسا وقار Challangable ہے، ایسا احترام قابل صد سوال ہوسکتا ہے جو احترام کسی بندے کو کسی بندے نے دیا ہو لیکن جو احترام اپنے خاص بندوں کو خود پروردگار نے عطا کیا ہو اُس احترام پر کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا ، حدِّ تقدُّس و حدِّ احترام کو پھلانگ کر کسی طرح کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، کوئی Challange نہیں ہوسکتا - کسی کو اختلاف ہے تو اُسے قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن نے اِنہیں کتنی عظمت و رفعت عطا کی ، اُن کی تطہیر، شان، احترام کی قسمیں اُٹھائیںاور بالخصوص جو پنجتن پاک کی ذواتِ مُقدسہ ہیں اُن کے متعلّق تو صِرف اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ اِسلام کی ابتد ا سے لے کر آج تک ہر وہ ہستی، ہر وہ شخصیّت جس کے متعلق آپ سمجھتے ہیں کہ اِن کا نفس ،نفسِ مطمئنہ تھا ، اِن کا قلب صفا شدہ تھا ، اِن کی روح بیدار تھی، اِن کا سینہ روشن تھا ، مقامِ فقر سے روشناس تھے ، ان کی روحانیت ان کے وجود میں اُجاگر تھی ، اِنہیں اپنے خالق کا قرب و وِصال نصیب تھا ، آپ جس بھی ایسی ہستی کا کھوج نکال لیں گے اس کے قدموں کے نشانات اہلِ بیت اور پنجتن پاک کی چوکھٹ پر جائیں گے-مختلف سلاسلِ تصوف میں بالخصوص سلسلۂ قادریہ میں یہ جو دعوتِ قبور کا نظریہ ہے اس کیلئے جتنے بھی صوفیاء آئے ہیں اُن کے ہاں قبور سے اکتساب فیض کیلئے یہ وظیفہ مروج رہا ہے :

لی خمسۃ اُطفیٰ بہا حرالوبا الخاتمہ

المصطفیٰ والمرتضیٰ وابنا ھما والفاطمہ

یہ اکتساب فیض کا طریقہ رہا ہے کہ وہ کسی اللہ والے کو وسیلہ بناتے ہیں ، اللہ سے مانگتے ہیں تو اُس درمیان وہ اہلِ بیت ، پنجتن پاک کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں ، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

(۱)پنجے محل پنجاں وچ چانن ڈیوا کت ول دھرئیے ھُو

(۲)پنجے مہر پنجے پٹواری حاصل کت ول بھرئیے ھُو

پنجے امام تے پنجے قبلے سجدہ کت ول کرئیے ھُو

باھُو جے صاحب سر منگے ہرگز ڈھل نہ کرئیے ھُو

(۱) کہ میں تعریف کرنا چاہتاہوں ، ان کی توصیف کا دیا جلانا چاہتا ہوں ، اُن کے فضائل بیان کرنے کا چراغ روشن کرنا چاہتاہوں ، لوگوں کو کچھ بتانا چاہتاہوں کہ یہ فقر کے کتنے خوبصورت قصر، کتنے پُر شِکُوہ محل ہیں ؟

(۲) برصغیر کے دیہاتوں میں یہ رواج رہا ہے ، اب بھی ہے لیکن وہ قوانین دَم توڑ رہے ہیں کہ زمین کا جو حاصل ہوتا تھا وہ مہر یا پٹواری کو بھرا جاتا تھا ، بعض علاقوں میں ملک اور خان کہلاتے ہیں یہاں جھنگ کے گردو نواح میں مہر کہلاتے تھے ، کہ میری ریاضت اور مشقت کا حاصل کس کو جاکر ادا کروں اورحضرت سلطان باھُو نے بنیادی طور پر یہ تصو ر دیا کہ جنہیں تم ’’ پنجتن‘‘ کہتے ہو یہ ایسے پنجتن ہیں اور ایسے یکجا ہیں کہ تم جس کی توصیف کرنا چاہو گے دیگر چاروں کی توصیف ساتھ ہی شروع ہوجائے گی - اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

{  اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo }(الاحزاب :۳۳)

’’اے میرے نبی کے اہلِ بیت!تمہارا اللہ یہی چاہتا ہے تمہارے لیے کہ تم کو نجاست سے دور کردے اور تمہیں پوری طرح پاک و صاف کردے-‘‘

صحیح مسلم شریف میں اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیثِ پاک ہے :

عن عائشۃ قالت خرج النبی ﷺغداۃ وعلیہ مرط مرحل من شعراسود فجاء الحسن بن علی فادخلہ ثم جاء الحسین فدخل معہ ثم جائت فاطمۃ  فادخلھا ثم جاء علی فادخلہ ثم قال انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا

 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں :ایک صبح جب رسول پاک ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے اُون کی بنی ہوئی ایک بڑی مُنقش قسم کی چادر اوڑھ رکھی تھی تو سامنے سے امام حسن تشریف لارہے تھے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حسن بن علی ؓ کو اپنی چادر میں لے لیا پھر ساتھ ہی حضرت امام حسین آگئے آپ نے اُن کو بھی اُس چاد ر کے اندر لے لیا اورساتھ سیدہ ، طیبہ ، طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا بھی آگئیں رسولِ پاک ﷺ نے اُن کو اُسی چادر میں لے لیا اور ساتھ ہی شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ ؓ تشریف لائے تو رسولِ پاکﷺنے اُن کو بھی اُسی چاد ر میں داخل کر لیا اب امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ، مولائے شبابِ جنت سیدنا حسن و سید الشھداء امام حسین کو ، حضور سیدۃ النساء کو اور حضرت مولا علی ؓ کو اُسی چادر میں لے لیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے ان چاروں کو اپنے سمیت اُس چادر میں لے لیا تو اُس وقت آقا پاک ﷺ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی :

{  اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo} (الاحزاب :۳۳) (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ - المستدرک علی الصحیحین)

غالباً یہی وہ آغاز ہے جہاں سے پنجتن پاک کے نظریہ کی بنیاد پڑتی ہے - ایک ہی چادر میں آگئے اور وہ چادر کونسی تھی جسے اقبال کہتے ہیں :

؎اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

وہ کالی کملی تھی اور اُس کالی کملی سے پانچ تن کے وجود کا اظہار ہوتا ہے ،ان کاا علان ہوتاہے کہ یہ وہ پانچ تن ہیں جن کی خاطر یہ بزمِ کون و مکان سجائی گئی - اس لئے مَیں نے جیسے ابتدا میں عرض کیا کہ اِن ہستیوں کے متعلق ہم کسی بھی قسم کی کوئی بھی بات کریں ہمارے مدِ نظر ان کا تقدس ، احترام اور تعظیم رہنی چاہیے- ہماری مختلف قسم کی فرسودہ روایات بن چکی ہیں ہمیں اس طرح کی کوئی گفتگو کرنے سے قبل سب سے پہلے اپنی ذات کا یہ احاطہ کرلینا چاہیے کہ مَیں کہاں پہ کھڑا ہوں ؟ اور پھر مَیں کس پر کچھ کہنے جارہاہوں ؟ میری حیثیت،اوقات، مقام کیا ہے؟اور جس کے متعلق مَیں کچھ کہنے جارہاہوں اُن کی مقام و منزلت ، قدرو قیمت کیا ہے؟اور جن کی مقام و منزلت خدا نے مقرر کی ہو، جن کی تطہیر خدا نے بیان کی ہو، جن سے محبت کا حکم خالقِ کریم نے قرآن کریم میں عطا کیا ہوپھر وہ شخصیات ہمارے کلام سے ماورا ہیں اور مَیں تو یہ بھی سمجھتاہوں کہ اگر مجھ جیسے ناقص لوگ اُن کے مقام کا احاطہ کرنے لگ جائیں ، اُن کے مقام کی بلندی کو بیان کرنا چاہیں تو بھی بے ادبی کا احتمال اُس میں شامل ہے- مثلاً ایک سادہ آدمی کنویں میں گر گیا اور آوازلگارہا ہے کہ مجھے بچائو ، مجھے بچائوتو اُس علاقے کا ڈی سی قریب سے گھوڑے پر گزر رہا تھا وہ نیچے اترا اس نے آدمی کو کنویں کے اندر ڈوبتے دیکھا تو اُس نے رسی نیچے پھینکی اور اُس آدمی کو باہر نکالاتو اُس آدمی نے بڑے زور سے اُس کو جپھی دی وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ڈی سی ہے اور اُسے کہتا ہے کہ میری دعا ہے کہ خدا تجھے اس موضع کا پٹواری لگائے اب بظاہر تو اس نے اپنی طرف سے اظہارِ محبت کیا تھا لیکن اسے کیا معلوم کہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے اور کس مقام کی دعادے رہا ہے - مجھ جیسے جاہل لوگ وہ مزدور ہوتے ہیں جو نادانی و کم فہمی کے کنویں میں گر جاتے ہیں اور جو ، اُن کی دستگیری کرتا ہے ہم نکل کر جب ان کا مقام بیان کرتے ہیں تو اسی طرح کی بے ادبی کا احتمال ہم سے جاری رہتا ہے - ہمیں تو یہ بھی زیب نہیں کہ ہم ان کا مقام بیان کریں ، اُن کی رفعت اتنی ہے کہ ہمارے وہم و گمان سے بالا ترہے ، ان کا مقام اتنا بلند ہے کہ بلندی سے بھی بلند ہے اس لیے ہمیں یہ اختیار ہی نہیں کہ ہم اُن کے مقام کا تعین کر سکیں، اُن کے مقام کے متعلق کسی کو سمجھا سکیںلیکن اتنا ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اپنی روحانیت کا سر چشمہ اُن ہستیوں کو سمجھیںاور قرآن و سنت میں اُن کی جو تعظیم اور حرمت بیان کی گئی ہے اُس کو قائم کریں-اور وہ مباحث جو صدیوں سے سینہ در سینہ ، کتب در کتب چلتی آرہی ہیں ہمیں بر سرِ راہ ، سڑکوں ، چوراہوں ، گھر اور ڈیروں پر بیٹھے ہوئے اس طرح کی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے - اور مَیں آج کے موقع کی مناسبت سے بالخصوص اپنے تحریکی ساتھیوں سے بغرضِ اصلاح و تربیّت اس لیے کہہ رہاہوں کہ ہم سب یہاں اپنے مرشد کریم کے آستانہ پر جمع ہیں بانیٔ اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ پر جمع ہیں اور ہم یہاں کچھ لینے آئے ہیں ، طلب،جستجو، آرزو ، تمنا لے کر آئے ہیں تو ہمارے لئے سب سے پہلا سبق اہلِ بیت اور پنجتن پاک کے ادب کا سبق ہے - حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں :

بے ادباں ناں سارادب دی گئے ادباں توں وانجے ھُو

جیہڑے تھاں مٹی دے بھانڈے کدی نہ ہوندے کانجے ھُو

جیہڑے مڈھ قدیم دے کھیڑے ہوون کدی نہ ہوندے رانجھے ھُو

جیں دل حضور نہ منگیا باھُو گئے دوہیں جہانیں وانجے ھُو

کہ جن میں پنجتن پاک اور اہلِ بیت کا ادب نہیں ہے وہ مٹی کے برتن ہیں وہ کبھی بھی کانچ کے برتن نہیں ہو سکتے ، وہ کبھی بھی سجا کے شلف میں نہیں رکھے جا سکتے ، شلف میں وہی رکھے جائیں گے جو کانچ کے برتن ہوں گے جو ادب و احترام سے مُزَیَّن ہوں گے-

جب رسول پاک ﷺ نے عیسائیوں کے ایک وفد سے مُباہلہ فرمایا تو اُس وقت حکم مبارک یہ تھا کہ اپنی عورتوں ، بچوں اہلِ خانہ سمیت وہاں پر آجائو-

سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں :

{لما نزلت ھذہ ایۃندعوا ابناء نا وابناء کم دعا رسول اللّٰہ ﷺ علی و فاطمہ و حسن و حسین فقال اللھم ھولاء اہل بیتی}

جب دعوتِ مُباہلہ کی آیت ’’تو آپ فرما دیجئے کہ آؤ کہ ہم اپنے اور تمہارے بیٹوں اور اپنی اور تمہاری عورتوں کو بُلائیں ‘‘ (العمران ۶۱) نازِل ہوئی تو رسول پاک ﷺ نے اپنے اہلِ خانہ میں حضرت علی ؓ ، سیدۃ النساء اور حضرات حسنین کریمین کو بلایا اور رسول پاک ﷺنے یہ ارشاد فرمایا : الہ العالمین مَیں اپنے اہلِ بیت سمیت آگیا ہوں- (صحیح مسلم شریف کتاب فضائل الصحابہ - جامع الترمذی شریف کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ)

تو یہ پنجتن کا جو نظریہ ہے یہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی اُس روایت سے اور بوقتِ مباہلہ رسول پاک ﷺ جس طرح اپنے اہلِ بیت کے ہمراہ اُس وفد سے مباہلہ کرنے کیلئے وہاں تشریف لائے یہ وہ بنیادی تصور ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے مہیا کیا ہے کہ یہ وہ اہلِ بیت ہیں جن کی محبت و مودّت اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر لازم قرار دی ہے-اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا کتنا بڑا مقام ہے رُوحانیت کے کن عظیم مراتب و مناصب پہ آپ رحمۃ اللہ علیہ جلوہ فرما ہیں -

میں شہباز کراں پروازاں وچ دریا کرم دے ھُو

زبان تاں میری کُن برابر موڑاں کم قلم دے ھُو

افلاطون ارسطو جیہیں میرے اگے کس کم دے ھُو

حاتم طائی جیہیں لکھ کروڑاں در باھُو دے منگدے ھُو

فقر کے سلطانِ پنجم اہلِ بیتِ رسُول کے متعلق کیا فرماتے ہیں :

خاک پایم از حسین و از حسن

معرفت گشت است بر من انجمن

کہ مَیں حسنین کریمین کے قدموں کی خاک ہوں ، ان کی خاکِ پاک کے صدقے اللہ نے معرفت کو مجھ پر تمام فرما دیا ہے -

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہی ارشاد فرمایا :

{ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی}(الشوریٰ:۲۳)

اے محبوب ﷺ آپ اپنی قوم کو ارشاد فرما دیجیئے کہ میں اِس پر تُم سے کچھ اُجرت نہیں مانگتا سوائے اہلِ قرابت کی مودَّت کے -

کہ مَیں تم سے کسی اُجرت کا طلبگار نہیں ہوں ، مَیں نے تمہیں جو دولتِ ایمان، دولتِ رسالت، دولتِ یقین، دولتِ دین و دنیا، اِ س جہان کی دولت اور اُس جہان کی دولت عطا کی ، یہ ساری دولت بانٹنے پر ، یہ تمام مقامات عطا کرنے پر کسی بھی چیز کی اجرت کا طالب نہیں ہوں لیکن اگر مجھے تم سے کوئی اُجرت چاہیے تو اے محبوب ا آپ اپنی قوم کو ارشاد فرما دیجیئے کہ وہ میرے اقربا کی مودَّت اور محبت ہے-

محبت اور مودّت میں ایک فرق یہ ہے کہ جس طریقے سے بطخ کو پانی سے محبت ہے ، بطخ پانی میں خوش رہے گی ، پانی میں تیرتی رہے گی لیکن اگر اسے پانی سے نکال دیں تو پانی سے باہر رہ کر زندہ رہ سکتی ہے مر نہیں جاتی یہ بطخ کی پانی سے محبت ہے -جبکہ مچھلی کو پانی سے مودّت ہے آپ مچھلی کو پانی سے نکال دیں وہ تڑپ تڑپ کر مرجائے گی پانی کے بغیر زِندہ نہیں رِہ سکے گی یہ مچھلی کی پانی سے مودّت ہے - اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ اے محبوب اپنی امت کو یہ ارشاد فرما دیجیئے کہ مَیں تم سے کسی اُجرت کا طلبگار نہیں ہوں سوائے اپنے اقربا کی مودّت کے -کہ تمہیں ان سے اتنی شدت سے مودت ہوجائے کہ اُن کے وسیلہ اور محبت کے بغیر، ان سے اکتسابِ فیض کیے بغیر ، ان کے دامن سے اپنے دامن کو گانٹھے بغیر تمہاری زندگی محال ہوجائے ، زندگی ممکن ہی نہ رہے - یہ رسولِ پاک ﷺ نے ہم سے ایمان کی اُجرت طلب کی ہے - امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اِس آیت مبارکہ سے متعلق رسول پاک ﷺ  کی بارگاہ میں سوال کیا :

{یا رسول اللّٰہ من قرابتک؟ھولاء الذین وجبت مودت الینا ھم قال علی و فاطمۃ ولداھما}

یارسول اللہ ﷺ  وہ آپ کے اقربا کون ہیں جن کی مودت قرآن نے ہمارے اوپر واجب کی ہے؟ آقا پاک نے فرمایا وہ علی ہے اور فاطمہ ہے اور اُن کے دونوں بیٹے (یعنی حضرت امام حسن اور حضرت امام حُسین ) - (زرقانی علی المواھب - دُرِّ منثُور للسیوطی - المستدرک علی الصحیحین للحاکم )

تو بات واضح ہو گئی کہ رسول پاک ﷺ  کے اقربا امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ ، سیّدہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھما اور اُن کی آل کی مودت ہمارے اوپر قرآن نے واجب کی ہے - صحابہ کرام رسول پاک ﷺ  کی بارگاہ میں کیا سوال عرض کرتے ہیں؟

{من قرابتک ھولاء الذین ’’وجبت‘‘ علینامودتھم}

یارسول اللہ ﷺ  ! آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی مودّت ہمارے اوپر ’’واجب‘‘ کی گئی ہے-

مفتی صاحبان موجود ہیں ، آپ تمام شُرکأ ساتھی احباب بھی اہلِ علم ہیں ، سلطان العارفین کی نسبت رکھتے ہیں ، قرآن و سنت سے واقف ہیں - واجب کیا ہوتا ہے ؟نماز کے واجبات چھوڑ دیں آپ کیسے نماز ادا کریں گے؟اگر ایک واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو اُس پر نماز میں سجدہ سہو لازم ہے اور رسول پاک ﷺ کے گھرانے کی مودت جب ہمارے اوپر واجب کردی گئی ہے تو اِس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئیے اِس کے قضا کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیئے - واجبات میں بھی یہ واجب عام نہیں ہے بلکہ اِس کی ایک انتہائی منزلت ہمارے اَسلاف نے بیان فرمائی ہے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستی بھی ان کی محبت و مودت کو اپنے ایمان اور عشق کی اساس سمجھتے ہیں اکابرینِ اِسلام کے نزدیک یہ ایسا واجب ہے کہ جِس کے بغیر آدمی کی عمارتِ ایمانی کی تعمیر ہی ممکن نہیں کیونکہ سَلف صالحین نے اِسے اسلام و ایمان کی اَساس قرار دیا ہے - جس طرح اَسلاف کا ایک قول ہے :

 {لکل شی اساس واساس الاسلام حب اصحاب رسول ﷺو حب اہل بیتہ}

کہ ہر چیز کی ایک اساس ہوتی ہے لیکن دینِ اسلام کی اساس رسول پاک ﷺ کے صحابہ کرام اور اہلِ بیت سے محبت ہے-

رسول پاک کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اہلِ بیت اطہار علیھم السلام سے محبت کیے بغیر ہمارے ایمان کی اساس قائم ہی نہیں ر ہ سکتی ، ہمارے ایمان کی عمارت کھڑی ہی نہیں سکتی ،جس کا دِل ان کی طرف مائل نہیں اور ان کی ذواتِ مُقدّسہ سے اپنا عملی،علمی ، فکری ، روحانی رشتہ جوڑنے کیلئے جن کا دل راغب نہیں ہے ان کے اعمال، ایمان ، ایقان ، افکار، اقوال اور جدو جہد کی کوئی اَساس نہیں ہے-اساس صرف اُسی کی ہے جس کو صحابہ کرام کا احترام بھی ہے اور محبت بھی اور اہلِ بیت کا احترام بھی ہے اور محبت بھی -رسالت مآبﷺ  نے اسی لیے لازم قرار دیاکہ تمہاری جو اساس ہے اُس اساس کے متعلق اپنی اولاد کو سمجھائیے، پڑھائیے- آج میری ، آپ کی بلکہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم نے اپنے اِس روحانی ورثہ کو اپنی اولادوں میں منتقل کرنا ہے - رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تلقین کرو-

{حب نبیکم و حب اہلبیتہ و قرأۃ القرآن}

{حب نبیکم}

اولین بنیادی چیز تمہارے اندر نبی پاک ﷺ  کی محبت ہے-

غلامیٔ رسول میں موت بھی قبول ہے

نہ ہو جو عشقِ مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مردِ مسلمان بھی کافر و زندیق

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محمد کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی

خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی

اور دوسری شرط یہ ہے کہ

{وحب اہل بیتہ} اور اہلِ بیت کی محبت-

بانیٔ اِصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے جوبنیادی درُوس و اَسباق عطا فرمائے اُن میں ایک اولین چیز تھی کہ طالبِ صادق کیلئے پانچ چیزیں فرض ہیں پہلی چیز وہ فرمانبردار ہو، دوسری چیز وہ باادب ہو، تیسری چیز وہ باغیرت ہو، چوتھی چیز وہ با حیا ہواور پانچویں چیز وہ با وفا ہو اور آپ اس کی وضاحت میں فرماتے تھے کہ مرشد کی فرمانبرداری سالک کیلئے لازِم ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ قرآن کریم کی آیت تلاوت فرماتے کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو ، نبی ﷺ  کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو‘‘اور مرشد اولی الامر ہوتا ہے-

مرشد شاہ ہے کون و مکاں دا

آمر امر ہے کن فکاں دا

حافظ مالک سود و زیاں دا

دم بدم میرے غم مٹائی

واہ پیر محمد رمز بتائی

مَیں وچ مَیں نہ رہ گئی کائی

آپ فرماتے تھے کہ پہلی بات یہ ہے کہ وہ فرمانبردار ہو -

 دوسری چیز ادب : کس کا ادب ہو ؟ مرشد کا ادب ہو،مرشد کی آل کا ادب ، اس کے اہلِ بیت کا ادب ہو ، اُس کی سنگت میں بیٹھنے والوں کا ادب اس کی متعلقات(Belongengs ) کا ادب،اور عشاق نے تو یہ کہا ہے کہ اُس کے پالتو اور فالتو جانوروں کا ادب-

؎یار فرید اساں کوٹ مٹھن دے کتیاں دے پر کتڑے

مشہور بات ہے کہ مجنوں کسی کتے کے پائوں چوم رہا تھا لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا میاں قیس یہ کیا کر رہے ہو؟اس نے کہا اسی طرح کا کتا مَیں نے لیلیٰ کی گلی سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا تو مَیں نے کہا ہو نہ ہو کتا وہی ہوگا تو لیلیٰ کی محبت میں وہ اس کی گلی کے کتے کے قدم چوم رہا تھا -

تیسری بات غیرت :کس کی غیرت؟ مرشد کی غیرت، اُس کے فرامین ، آل ، سنگت، قرب و جوار میں رہنے والوں کی غیرت کیونکہ

غیرت ہے طریقتِ حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

اصل طریقت تو غیرت کو کہتے ہیں ،فقرمکمل تو غیرت سے ہوتا ہے اگر غیرت نکل جائے تو وجود میں کچھ نہیں بچتا-

تا کُجا بے غیرتِ دیں زیستن

اے مُسلماں ، مُردن است ایں زیستن

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ داراؔ

چوتھی چیز حیا:اُس کی ذاتِ گرامی کے سامنے حیا، اُس کی غیر موجودگی میں اُس کا حیا،اُس سے کیے گئے عہد و پیمان کا حیا، اس سے کیے گئے وعدے کا حیا ، اُس کے دیئے گئے اَحکامات کا حیا ، آپس میں کئے گئے فیصلوں کا حیا ، مرشد کی آل ، سنگت ساتھ ، قرب و جوار ، گلی کوچوں اور اس کے متعلقات کا حیا -

پانچویں چیز وفا:مرشد سے وفا ، اُس کی ذاتِ گرامی سے وفا، اُس کی آل ، سنگت ساتھ اور اُس کے مشن سے وفا ، اُس کے دیئے گئے اَحکامات اور کئے گئے فیصلوں سے وفا -

بات بہت زیادہ طویل ہو جائے گی مگر انتہائی اختصار کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی روحانی زندگی کا بارگاہِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام میں اندازِ حاضری اور طریقِ کار دیکھا جائے تو یہ پانچوں چیزیں اظہر من الشمس ہو کر سامنے آتی ہیں کہ وہ پیکرِ فرمان برداری ، پیکرِ ادب ، پیکرِ غیرت ، پیکرِ حیا اور پیکرِ وفا تھے - اِن پانچوں اُمُور کی ایک ایک جہت اور اُس کی گہرائی و بُلندی کے ہر معیار پر وہ صادق تھے ہر زاویہ اور ہر طرف سے اُن کا جائزہ لیا جائے وہ اپنی ذات میں کوئی کمی نہیں رکھتے تھے - قیامت تک آنے والے طالبانِ مولیٰ کیلئے اگر صادق اور سچی مثالیں ہیں تو وہ امام الانبیا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہ میں تربیّت لینے والے اُن طالبانِ مولیٰ کی ہیں جنہیں ہم منصبِ صحابی پہ فائز دیکھتے ہیں - طلبِ مولیٰ کا یہ معیار ’’معیارِ ابراھیمی‘‘ کہلاتا ہے جو مستعار ہے سیّدنا حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کہ جنہوں نے مطلوب و محبوب کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش پہ اپنے آپ کو یوں پورا اُتارا کہ تاریخِ اِنسانی اُس کی نظیر لانے سے قاصر ہے - یہ گزارشات مَیں اِس لئے کر رہا ہوں کیونکہ یہاں آنے کا مقصد بنیادی طور پر تربیتِ نفس ہے ، تربیتِ فرد ہے- یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں تربیّتی نُقطۂ نِگاہ سے اپنانا ہم سب پرلازم ہے - اگر حسینیت کے نعرے لگا کر ہم یہاں سے اٹھ جائیں اور گھر میں جاکر وہ کام کریں جو سارے حسینیت کے خلاف چلنے والے کرتے ہیں تو ہم نے سفر کی مشکلات اور سردی کی شدّت کو برداشت کر کے حاصل کیا کیا ؟ دوستو! گو کہ خلوصِ دل سے کیا گیا ذِکرِ حسین عبادت ہے ، ذکرِ اہلِ بیت عبادت ہے ، ذکرِ صحابہ عبادت ہے مگر مقصود صرف ذکر کرنا نہیں ہے بلکہ مقصودان کے اس طریقِ عمل اور طریقِ تربیت کو اپنانا ہے یہی شکوہ تو اقبال کرتے ہیں کہ تعلیم ہے تربیت نہیں ہے ، ذکر تعلیم ہے اور عمل تربیت ہے -

آپ بد ر کے ہیروز دیکھ لیں یا کسی بھی غزوہ کے ہیروز دیکھ لیں ، کربلا کے ہیرو ز دیکھ لیں سب کے سب وہی تھے جو (۱) تابع فرمان تھے، (۲) مؤدب تھے، (۳) جن میں غیرت تھی ، (۴) وہ با حیا تھے اور (۵) صاحبِ وفا تھے - آج بھی ہمارے اندر یہ پانچ اوصاف پیدا ہوجائیں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر کی تعمیر کر سکتے ہیں ، ہم اقبال کے شاہین اوروہ مردِ مومن بن سکتے ہیں جس کا تصور ہمیں قرآن نے دیا ہے اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین بنیادی چیزیں تمہارے اوپر لازم ہیں

{حب نبیکم ، حب اہل بیتہ و قرأ ت القرآن}

تمہارے نبی کی محبت ، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت، قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا -

اسی طرح رسول اللہ ﷺ  نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے اور صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے-

الا ایھا الناس انما انا بشر یوشک ان یاتینی رسول ربی فاجیب وانا تارک فیکم الثقلین اولھما کتاب اللہ فیہ الھدی والنورفخذوا بکتاب اللہ واستمسکوا بہ فحث علی کتاب اللہ ورغب فیہ ثم قال واھل بیتی اُذَکِّرْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ ،  اُذَکِّرْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ ،  اُذَکِّرْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ

خبردار اے لوگو!بے شک مَیں تم میں سے بشر ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آجائے (اشارہ حضرت عزرائیل کی طرف تھا) پس میں اُس کا بلاوا قبول کر لوں ، مَیں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کے جارہاہوں پہلی چیز مَیں اللہ کی کتاب چھوڑے جارہاہوں جس میں (تمہارے لئے ) ہدایت ہے اور نور ہے - تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور دوسری چیز وہ میرے اہلِ بیت ہیں اور مَیں تم کو اپنے اہلِ بیت کے متعلق ڈراتا ہوں اور پھر فرمایا مَیں تم کو اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں -تیسری بار پھر فرمایا مَیں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتاہوں- (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ - مُسند حضرت امام احمد بن حنبل - مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب اہلِ بیتِ رسول ﷺ )

اہلِ بیت کے متعلق سہ بارگی پروردگارِ عالَم سے ڈرانے کا مطلب کیا تھا ؟ اُن سے حب داری ، اُن سے محبت ، اُن کی مودَّت ، اُن سے اکتسابِ فیض ! اور ایک مقام پر رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا : ’’کوئی بندہ تب تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہیں کرتا اور میرے اہلِ بیت اُس کے اہلِ خانہ سے زیادہ اُسے عزیز نہ ہو جائیں اور جب تک کہ وہ میری اولاد کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبت نہ کرے‘‘(مجمع الزوائد للھیثمی) - اِسی طرح ایک اور مقام پہ فرمایا کہ ’’جس شخص کو مجھ سے زیادہ کسی شخص سے محبت ہے اُس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا ، جس شخص کو میرے صحابہ سے زیادہ کسی اور کے رُفقاء سے محبت ہے اُس کا ایمان بھی مکمل نہیں ہوسکتا اور جس شخص کو میرے گھر سے زیادہ کسی اور گھر سے محبت ہے اُس کا ایمان بھی مکمل نہیں ہوسکتا اس لئے مَیں تمہیں اپنے اہلِ بیت سے متعلق اللہ سے ڈراتاہوں کہ جس سے بے وفائی کرو گے خدا بخش دے گا ،جس سے بے حیائی کرو گے اللہ بخش دے گا لیکن مَیں تمہیں اپنے اہلِ بیت سے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں اگر ان کی نافرمانی کرو گے ، ان سے محبت سے کمی کرو گے تو اللہ کے حضور تمہاری بخشش نہیں کی جائے گی ‘‘-

اہلِ بیت رسول ﷺ کی مودَّت اور اُن کا احترام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بڑھ کر کسی نے نہیں کیا ہم احادیث کے قاری ہیں جبکہ وہ ہستیاں احادیث کی عامل و کامل صُورت تھیں - صحابہ کرام کی زندگی کے عملی نمونے سے اِس کی بے شُمار اَمثال پیش کی جا سکتی ہیں - مثال کے طور پہ میں محبتِ حضور سیّدۃ النسأ رضی اللہ عنھا پہ سیّدنا فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کرتا ہوں جسے امام حاکم علیہ الرحمۃ نے المستدرک علی الصحیحین میں ، حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے المُسند میں اور امام ابنِ ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المُصَنَّف میں نقل فرمایا ہے :

{عن عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ دَخَلَ عَلیٰ فَاطِمَۃُ بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ }

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ رسولِ پاک ﷺ کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے 

{فَقَالَ یَا فَاطِمَۃُ !  وَاللّٰہ ! مَا رَأَیْتُ اَحَداً اَحَبَّ اِلیٰ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ  مِنْکَ}

حضرت عمر نے کہا ، اے فاطمہ ! مجھے اللہ کی قسم ! کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ  کو آپ سے بڑھ کر کسی سے پیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا-

حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا :

{واللّٰہ!  مَا کَانَ اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ بَعْد اَبِیْکَ ﷺ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْکَ }

مجھے ؒؒاللہ کی قسم اے سیدہ ، اے طیبہ ، اے طاہرہ! کہ آپ کے والد گرامی رسولِ پاک ﷺ کی ذات کے بعد مجھے آپ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں ہے -

یہ صحابہ کرام کی زندگی کا وہ عملی درس تھا جو رسولِ پاک ﷺ  سے انہوں نے اس بات پر سیکھا تھا کہ اہلِ بیت کی محبت اِسلام کی اساس ہے ، اہلِ بیت کی محبت کو ترک کر دو گے تو ایمان تمہارے وجود میں جگہ نہیں پکڑ سکتا یہ وجود خالی کھوکھا رہ جائے گا - جس طرح شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ المشہدی فرماتے ہیں :

؎روح محبت تیری ہے ایہہ تن خالی کاشانہ

اے میرے آقا یہ تن تو خالی ایک پنجرہ ہے آپ ﷺ  کی محبت اس کی روح ہے اگر اس سے آپ کی محبت نکل جائے تو اس تن میں کچھ بھی نہیں بچتا-

اس لئے اہلِ بیت سے محبت ، عقیدت اور وسیلہ پکڑنا یہ ہمارے اوپر لازم اور واجب ہے اور ہمارے سلف صالحین کا کیا طریقہ تھا؟جیسے مَیں نے کہا کہ آپ کسی بھی بزرگ کے قدموں کے نشانات پر چل پڑیں ان کے قدم آپ کو اہلِ بیت ، پنجتن پاک کے قدموں پر لے کر چلیں گے- امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آل نبی ذریعتی

ارجو بھم اعطی غداً

وھموا الیہ وسیلتی

بیدی الیمینی صحیفتی

’’میری نجات کا ذریعہ میرے نبی ﷺ کی آل ہے اور اللہ کی بارگاہ میں میرا وسیلہ اہلِ بیت ہی تو ہیں- مجھے اہلِ بیت کے وسیلے پر یہ یقین ہے کہ قیامت کے دن میرا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا-‘‘

گویا حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ہماری بخشش کی سند اہلِ بیت ، پنجتن پاک ، امام عالی مقام سید الشہداء کی محبت میں ہے- ایک اور مقام پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

یا اھل بیت رسول اللّٰہ حبکم

فرض من اللّٰہ فی القران انزلہٗ

یکفیکم من عظیم الفخرانکم

من لم یُصَلِّ علیکم لا صلوٰۃ لہٗ

اے رسول پاک ﷺ  کے اہلِ بیت ! آپ لوگوں کی محبت اللہ کی طرف سے ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے ، وہ قرآن جو اللہ نے نازل کیاآپ کی محبت ہم پر اس قرآن میں فرض کی گئی ہے- اے اہلِ بیتِ رسول ﷺ ! آپ کو تو یہی فخر کافی ہے کہ اگر کوئی مسلمان آپ پر درود نہ پڑھے تو اُس کی نماز بھی مکمل نہیں ہوتی-

یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کل جہانوں کیلئے جو نصیحت نازل کی گئی ہے ( قرآن حکیم ) اُس میں اللہ تعالیٰ نے محبتِ اہلِ بیت اطہار کو فرض فرمایا ہے جس طرح قرآن پاک کامُخاطَب کُل جن و انس ہیں لہٰذا محبتِ اہلِ بیت بھی کل جن و انس پہ فرض کی گئی ہے اور اکابرینِ اُمَّت کے فرامین اور اہلِ بیت سے متعلق آیات کی تفسیرات و تشریحات و تعبیرات کا مُطالعہ کر کے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ محبتِ اہلِ بیت کا فریضہ دیگر فرائض کے ساتھ ساتھ کس قدر اہم و ضروری ہے - پھر اِس سے آگے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں تو اتنا فخر ہی بہت ہے کہ ہم اُمّتِ مصطفیٰ ﷺ سے ہیں اور ہماری نسبت محبوبِ خُدا سے ہے ہماری شناخت ہماری پہچان ہمارا سب کچھ نسبتِ محبوبِ خُدا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل و اہلِ بیت کی نسبت ہے جبکہ اہلِ بیت کو فخر کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ مؤمن جب دُنیا سے قطع تعلق کر کے تمام امُورِ دُنیاوی سے بے رغبت ہو کر رجوع الی اللہ اختیار کرتا ہے یعنی نماز میں مشغُول ہوتا ہے جس کا ایک ایک حرف براہِ راست خداوند تعالیٰ کو مخاطب کر کے ادا کیا جاتا ہے اُس انہماک و اشتغال میں بھی مؤمن اہلِ بیت پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتا ہے بلکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اے اہلِ بیت رسول ﷺ جو مؤمن دورانِ نماز آپ پر سلام نہیں بھیجتا اُس کی نماز حدِّ قبُولیّت کو پہنچ سکتی ہی نہیں - یہ صرف امام شافعی کا قول نہیں ہے بلکہ یہ رسولِ پاک ﷺ  کی حدیث مبارک بھی ہے:

{عن ابی مسعود الانصاری ص قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من صلی صلاۃً لم یصل فیھا علیَّ و اہل بیتی لم تقبل منہ }

حضرت ابو مسعود الانصاری ص سے روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی اور مجھ پر میرے اہلِ بیت پر درود نہیں پڑھااُس کی نماز قبول ہی نہیں ہوتی-(السنن للدار قطنی - التحقیق فی الاحادیث الخلاف ، علامہ ابن جوزی )

نماز قابلِ قبول ہی تب ہوتی ہے جب رسولِ پاک ﷺ  اور آپ کی آل پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے وگرنہ نماز کی تکمیل ہی نہیں ہوتی -حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو کہ جلیل القدر صحابی اور سابقین اوّلین میں سے ہیں فرماتے ہیں:

{حب آل محمد ﷺ خیر من عبادۃ سنۃٍ}

رسولِ پاک ﷺ کی آل سے محبت کا اظہار کرنا ایک برس کی عبادت سے افضل ہے-

وہ خوش نصیب روحیں ہیں جو رسولِ پاکﷺ  کی آل کا ذکر کرتے ہیں ان کی تعظیم کرتے ہیں -

آپ شُرکائے کرام کی نسبت چونکہ سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ سے ہے تو اس لئے ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جب حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب المدنی اپنے فیض کی طلب میں مدینہ منورہ سے سفر کرتے ہوئے حضو ر غوث پاک کی بارگاہ میں اور پھر ایک طویل مسافت فرماکر اسی جذبہ طلب کے ساتھ بارگاہِ سلطان العارفین میں حاضر ہوتے ہیں اور ان کے دل میں طلب الٰہی کا جذبہ موجزن تھا تو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا استقبال فرمایا اور اپنے سامنے بٹھا دیا اور قرآن نے رسول پاک ﷺ  کا صحابہ کرام کو فیض عطا کرنے کا جو طریقہ بیان کیا ہے کہ اپنی نظر سے فیض عطا فرماتے تھے - حضرت سلطان العارفین نے ان کے پیمانہ ٔ طلب کو فقرِ محمدیﷺ  سے لبریز فرمادیاتو حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب اٹھ کر کھڑے ہوئے اور وجودِ سلطان العارفین کے طواف کی نیت باندھ لی ،حضرت سلطان باھُو نے فرمایا شاہ صاحب ! ایک تو شریعت کی پابندی ہے طواف کرنے کی دوسرا اگر آپ شریعت کی پابندی کو توڑ بھی دیں تو مَیں ایک آلِ رسول کو یہ اجازت کیسے دے سکتاہوں کہ وہ اٹھ کر میرا طواف شروع کردے-

ایک بات شریعت کی تھی کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور دوسرا آپ آلِ رسول ہیں اور ہم نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ آلِ رسول سے پایا ہے وہ دوسری بار پھر اٹھے طواف کے قصد سے تو حضرت سلطان باھُو نے پھر انہیں منع فرمایا دیا اور جب حضرت پیر عبداللہ شا ہ صاحب تیسری بار اٹھے تو حضرت سلطان باھُو نے بڑے زور سے گھٹنے پر ہاتھ مار کر بٹھا دیا اور ہم نے اپنے مرشد پاک حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے سنا ہے کہ حضرت سُلطان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پیر عبداللہ شاہ صاحب کے گھٹنوں کو اتنی روحانیت کے جلال میں دبایا کہ وہ اپنے گھٹنوں سے معذو ر ہوگئے -مرشد کے مقام پر ہوتے ہوئے بھی آل رسول کے احترام کو اتنا برقرار رکھا ہے کہ اگر یہ سیدذات وجد و ذوق میں میرا طواف شروع کردیتا ہے کہ کہیں یہ بھی بے ادبی نہ ہوجائے کہ ایک آلِ رسول نے تمہارا طواف کیا اور تم نے اسے منع بھی نہیں کیا- اور ویسے شرعا ً بھی حکم ہے کہ طواف بیت اللہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر روا نہیں ہے یعنی حرمِ کعبہ جو کہ مکۃالمکرمہ میں موجود ہے کے علاوہ کسی بھی چیز کا طواف کرنا شریعتِ اِسلامی کی رُو سے انتہائی سختی سے منع ہے اور ایک درویشِ کامل مردِ خود آگاہ کی سب سے اوّلین ڈیوٹی ہی شرعِ رسول ﷺ کی پاسداری ہے لہٰذا وہ کسی بھی طور حدودِ شریعت پھلانگنے کی اِجازت نہیں دیتا -

دوستو ! ناچیز یہ بھی عرض کرتا چلے کہ حضور سُلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ کا بھی اہلِ بیت سے اور پنجتن پاک سے کمال عشق ہے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’فقیرِ باھُو‘‘ نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ پنجتن پاک سے پایا ہے - بلکہ آپ اپنا تعارُف بھی اِسی حوالے سے فرماتے ہیں :

دوست دارم سیداں نورِ نبی

نوردیدہ فاطمہ حضرت علی

’’جانتے ہو باھُو کون ہے؟باھُو وہ ہے جو نبی کے نور،سیدہ زہرہ کی آل اور مولائے کائنات شیرِ خدا کی آل سادات سے دوستی رکھنے والا ہے- یہ باھُو کا تعارف ہے-‘‘

آپ مؤمنین و طالبین کو تاکید فرماتے ہیں کہ سادات کرام کی دُشمنی و بے ادبی سے خود کو دور رکھّو کیونکہ اِن کی نسبت محسنِ انسانیّت ﷺ سے ہے -

دشمنِ سادات دشمنِ مصطفیٰ

دشمنِ مصطفیٰ دشمنِ خدا

’’جو سادات سے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ رسولِ پاک سے بغض و عداوت رکھتا ہے ،اور جو رسولِ پاک ﷺ  سے عداوت رکھتا ہے اللہ اُس کے خلاف اعلانِ جنگ فرماتا ہے -‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ سادات سے دُشمنی جھنّم کا سودا ہے جبکہ سادات سے محبت جنّت کا سودا ہے -

دشمنِ سید بوداہل از بلشت

دوست دارِ سیداں اہل از بہشت

’’جو سادات کے دشمن ہیں وہ جہنم کی آگ کا ایندھن ہیں اور جو اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے بہشت کا وعدہ فرما رکھا ہے -‘‘

دشمنِ سید بود اہل از خبیث

دوست دارِ سیداں اہل از حدیث

’’جو سادات کا دشمن ہے وہ اہل خباثت میں سے ہے اور جو سادات سے حبداری رکھتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جو احادیثِ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہیں-‘‘

یعنی اہلِ بیت سے عناد و دُشمنی پہ بندے کو اس کا نفس اُکساتا ہے تاکہ بندہ اعمالِ صحیحہ کو چھوڑ کر اعمالِ خبیثہ میں مُبتلا ہو جائے چونکہ دین خود سعید ہے اس لئے بندے کو فطرتِ سعید پر لاتا ہے جبکہ اِس کے بر عکس نفس خود خبیث ہے اور بندے کو بھی فطرتِ خبیث پر لانے کو شش کرتا ہے - ایک اور مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں :

سیداں را عزت و شرف از خدا

دشمنِ سید بود اہل از ہوا

’’ سادات کو یہ عزت تو اللہ نے عطا کی ہے او ر جو سادات سے دشمنی رکھتا ہے وہ اہلِ ہوا میں سے ہے -‘‘

اسی لئے آپ نے سادات سے محبت ، حبداری کے متعلق بار بار طالبانِ مولیٰ کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر ان کی شان میں گستاخی ہوگی اگر ان کی شان سے کمتر الفاظ کا استعمال کرو گے تو وہ تمہارے لیے ظاہری و باطنی خسارے کا موجب بن جائے گا -

حبیبی ، خلیلی ، شیخ التّصوُّف ، شیخ الطریقت دانندۂ رمُوزِ معرفت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی الاُندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

{فلا تعدل باھل البیت خلقاً فاھل البیت ھم اھل السیادۃ فبغضھم من الانسان خسرٌ حقیقیٌّ وَحُبُّھم عبادۃٌ }

’’اہلِ بیت کے برابر کسی کو نہ کرو کیونکہ اہلِ بیت سردار ہیں اور اگر کوئی شخص اہلِ بیت سے بغض رکھتا ہے تو اس کیلئے یہ حقیقی خسارہ ہے ، جبکہ اہلِ بیت سے محبت کرنا عبادت ہے-‘‘

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ نے بُغضِ اہلِ بیت کو حقیقی خسارہ کیوں فرمایا ؟ اور محبتِ اہلِ بیت کو درجۂ عبادت کیوں فرمایا ؟ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو ہم گزشتہ گفتگو میں اِس پہ بات کر آئے ہیں اور آئندہ گفتگو میں بھی اِس پہ ایک دو چیزیں سامنے آجائیں گی لیکن پہلا سوال بڑا اہم ہوجاتا ہے کہ آخر ایسی کیا خاص بات ہے جس وجہ سے بڑے بڑے اہلِ مراتب ، اوربا اعتبارِ رُوحانی بہت بُلند مناصِب پہ فائز ہستیا ں عداوتِ اہلِ بیت سے منع فرما گئے ہیں حتّیٰ کہ معمُولی سا لفظی و کلامی تجاوُز بھی منع کیا گیا ہے - آخر کیوں ؟ اس سوال کا جواب انسانی شعور کی وُسعتوں میں تب تک نہیں سما سکتا جب تک کہ امام الانبیا حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ مبارکہ میں رجُوع نہیں کرتا اور دربارِ نبوی ﷺ سے اِس پر ظاہری و باطنی راہنمائی نہیں چاہتا - جب ہم رسولِ پاک شہہِ لولاک ﷺ کی احادیثِ مُبارکہ میں جھانکتے ہیں تو وہاں ہمیں اس کے جوابات نظر آتے ہیں کہ اِس کے ظاہری و باطنی اسباب کیا ہیں ؟ متعدّد احادیث پاک یہ راہنمائی فراہم کرتی ہیں کہ اہلِ بیت رسول ﷺ دُنیا و آخرت میں امان کی علامت اور امان کا وسیلہ ہیں - جس نے اِن سے محبت کی اُس نے فلاح خریدی جس نے اِن سے عداوت کی اُس نے ہلاکت خریدی - اِس موضوع پہ وسیع ذخیرۂ احادیث میں سے صرف چند ایک احادیثِ پاک کو سامنے رکھ کر اَندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہ مبارک میں محبتِ اہلِ بیت کس قدر اہمیّت رکھتی ہے - کہیں تو حضور پُر نور ﷺ اپنے اہلِ بیت کو کشتیٔ نوح سے تشبیہہ دیتے ہیں اور کہیں اہلِ زمین کیلئے امان قرار دیتے ہیں اور کہیں پُل صراط سے گزرنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یعنی دُنیا کی کامیابی بھی اور آخرت کی کامیابی بھی دونوں کا وسیلہ اپنے اہلِ بیت کی محبت کو اور ان سے وابستگی کو قرار دیا - حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ ’’مُسنَد‘‘ میں، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المعجم الکبیر میں اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ المستدرک میں بیان فرماتے ہیں :

{عن ابی ذر انہ قال وھوآ خذٌ بباب الکعبۃ سمعت النبی ﷺ یقول الا ان مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا ھلک}

’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کا دروازہ پکڑاہوا تھا (یعنی بیت اللہ کی حرمت کو حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنا گواہ بناکر کہتے ہیں) کہ رسولِ پاک ﷺ  کو ہم نے یہ فرماتے ہوئے سنا ’’اے لوگو ! آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت اس طرح موجود ہیں جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تھی جو اُس کشتی میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو کشتی سے اتر گیا وہ ہلاک ہوگیا ‘‘-

سُبحان اللہ ! کیا شان ہے اور کیا مقام ہے اہلِ بیتِ رسول ﷺ کا - دوستو ! یہی بات ناچیز نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہی تھی کہ اِن ہستیوں کی شان بندوں کی بڑھائی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ یہ ربِّ کائنات کی بارگاہ سے بڑھائی جاتی ہے - جنہوں نے واقعۂ قومِ نوح علیہ السلام پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اُس قوم میں کشتی کا ہونا کیا تھا؟ اُس پہ بیٹھنا کیا تھا ؟ اور اُس سے اُتر جانا کیا تھا ؟ جس نے آنے والے طوفان کا اِدراک کر لیا وہ کشتی میں سوار ہوا اور نجات پا گیا مگر جو آنے والے طوفان کا اِدراک اور اُس کی تندی ، تیزی اور شِدّت و تباہی کا غلط اندازہ لگا بیٹھا وہ کشتی میں سوار نہ ہوا اور ہلاک ہو گیا - مادِیّت ، نفسانیّت اور شیطانیّت ایک طوفانِ ہلاکت آمیز کی مانند ہیں جس نے اِس طوفان کا اِدراک کیا اور اہلِ بیت کی محبت کے وسیلہ کو اِختیار کیا وہ نجات پا گیا - مگر جو اِنسان نفس و شیطان اور محبتِ دُنیا کے فتنے کو نہ سمجھ سکا ، دانستہ یا نادانستہ طور پہ کشتی تک نہ پہنچ سکا وہ ہلاکت میں مُبتلا ہو گیا - جو شخص بھی نجات یافتہ گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے وہ اعمالِ صالحہ اختیار کرے قرآن و سُنّت کو اُصولِ حیات بنائے اور محبتِ اہلِ بیت کو وسیلہ پکڑے ، یہ میرا یا کسی اور کا نہیں بلکہ خود حضرت رسالت مآب شارع علیہ السلام کا اِرشاد و اِعلان ہے - مجھے اِس مقام پہ اپنے پیر و مرشد شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ المشہدی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بیت مبارک یاد آرہا ہے - آپ طالبِ مولیٰ و سالکِ راہ کو مُخاطب کر کے فرماتے ہیں :

ز- زیان کرے شیطان تنہاں جیڑے پیر نوں بانہدے وِسار بیلی

ہوئے غرقِ طوفان ، کنعان وانگوں ، کیتے نفس خبیث خوار بیلی

صُورت پیر دی کشتی اَمان میاں ، ہو سوار! نہ رَکھ اَفکار بیلی

کہ شیطان ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو بآسانی گمراہ کردیتا ہے جنہوں نے اپنے راہبر کو بھُلا دیا - جو رہبر کو بھُول بیٹھے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی طرح غرقِ طوفان ہو گئے اور نفس کی خباثتوں کے ہاتھوں رُسوا ہو گئے - حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تو ’’تلبیسِ اِبلیس‘‘ سے بچنا چاہتا ہے اور نفس کی خباثتوں کی تباہ کاریوں اور رُسوائیوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے تو راہبر کی صُورت امان کی کشتی ہے اُس میں بے فکر و بے خوف ہو کر سوار ہوجا وہ تجھے نفس ، شیطان اور دُنیا کے طوفان سے باحفاظت نکال لے جائے گا -

اِسی طرح ایک اور حدیثِ پاک کے اَلفاظ کے مُطابق اہلِ بیت کا وجُود کائنات کی بقا کی ضمانت ہے - امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ خصائص الکبریٰ میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ رسول پاک شہہِ لولاک ﷺ فرماتے ہیں:

{النجوم امان لاہل السماء فاذا ذاھبت النجوم ذھب اھل السماء}

’’آسمان کے نیچے یہ پھیلے ہوئے ستارے جو تم دیکھتے ہو ، جو چمکتے ہیں ، جو روشنی مہیا کرتے ہیں یہ آسمان میں رہنے والوں کیلئے امان ہیں ، سلامتی ہیں-جب یہ ستارے آسمان سے جھڑجائیں گے تو اہلِ آسمان برباد ہوجائیں گے-‘‘

{و اھل بیتی امان لاھل الارض فاذا اھل بیتی  ذھب اھل الارض}

’’رسول ﷺ  نے فرمایا میرے اہلِ بیت زمین والوں کیلئے امان ہیں ، اگر اس زمین میں میرے اہل بیت مٹ گئے تو اس زمین پر رہنے والے مٹ جائیں گے-‘‘

یعنی اہلِ بیت کا ہونا اہلِ زمین کیلئے ضمانتِ امن و سلامتی ہے اورحدثِ پاک کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب زمین سے اہلِ بیت کا وجود مِٹ جائے گا تو یہ فانی دُنیا بھی مِٹا دی جائے گی - یہ حدیثِ پاک قرآن پاک کے اِس حکم کی تائید و تصدیق کرتی ہے کہ { میری زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے } گویا اُن صالحین سے مُراد اہلِ بیت بھی ہیں جب وارث مِٹ گئے تو دیگر اہلِ زمین بھی مِٹا دیئے جائیں گے - جب تک قرآن و سُنّت کی سمجھ نہیں آئی تھی تو دیوانوں مستانوں کا یہ نعرہ بڑا اجنبی لگتا تھا کہ ’’دُنیا حُسین کی ہے‘‘ مگر قرآنِ پاک اور احادیثِ پاک کی سمجھ آنے کے بعد اِس میں شک نہیں رِہ گیا کہ دُنیا حُسین کی ہے ، دُنیا حسن کی ہے ، دُنیا آلِ زہرا کی ہے ، دُنیا اہلِ بیت کی ہے ، دُنیا اہلِ بیت کی تعلیمات کا دامن پکڑنے والوں کی ہے ، دُنیا اہلِ بیت کے نقشِ قدم پہ چلنے والوں کی ہے کیونکہ یہ دُنیا اُن اہلِ بیت کے قدموں کی برکت سے قائم ہے - بات پھر ابتدائی گفتگو کی طرف پلٹ رہی ہے کہ یہ منصب اُنہیں کسی بندے نے تفویض نہیں کیا نہ ہی ایسے بُلند و بالا مقامات کسی اِنسان کے اختیار میں ہیں کہ کسی دوسرے اِنسان کو اِن پہ سرفراز کر سکے یہ مقامات ، یہ رفعتیں ، یہ بلندیاں خود مالکِ کائنات پروردگارِ عالم جلّ شانہٗ عطا فرمانے والے ہیں - اگر اِن مقامات کا حوالہ زُبانِ نبوی ﷺ سے ہے تو قرآن اُس پاک گوہر فشاں زُبانِ مبارک کے متعلّق کہتا ہے {میرا محبوب ﷺ اپنی مرضی سے تو بولتا ہی نہیں جو ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی کیا جاتا ہے } - یہ ارشاداتِ نبوی تو تھے اہلِ بیت اور اِس فانی دُنیا سے متعلق - بالکل اِسی طرح کے ارشادات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آخرت سے متعلق بھی فرمائے ہیں - کیا آپ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن پل صراط پر کامیاب کون ہوگا؟ایک روایت میں رسول پاک ﷺ  نے فرمایا:

{اثبتکم علی الصراط اشدکم حبا لاھل بیتی واصحابی}(کنزالعمال، فیض القدیر)

’’جس شخص کو میرے اہلِ بیت اور صحابہ کرام سے شدت سے محبت ہوگی وہ شخص پل صراط سے کامیابی سے گزر جائے گا-‘‘

یعنی جو شخص پُل صراط پہ کامیابی کا طالب و متمنی ہے اُس کیلئے محبتِ اہلِ بیت اور محبتِ صحابہ کرام لازم ہے - اگر اِس مذکورہ حدیث سے مختصر سا نتیجہ اخذ کیا جائے تو وہ یہی ہوگا کہ انفرادیت میں ہماری ذاتی فلاح و اِصلاح اِسی میں ہے کہ ہم پورے خلوص ، احترام اور عقیدت سے اہلِ بیت اور صحابہ کرام کی محبت کو اختیار کریں اور اجتماعیّت میں ہماری مِلّی بقا اِس میں ہے کہ ہم اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام کے طریقِ عمل کو اختیار کریں - ہماری سلامتی اہل بیت سے ہے اور ان کا ذکر بلند کرنا ،محبت کرنا یہ ہمارے لیے اس دنیا میں لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جہان کی سرداری بھی اوراُس جہان کی سرداری بھی اہلِ بیت کو عطا فرمادی ہے - حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

{عن حذیفۃ : قال رسول اللہ ﷺ : ان ھذا ملک لم ینزل الارض قط قبل ہذہ اللیلۃ استأذن ربہ ان یسلم علی ویبشرنی بأن فاطمۃ سیدۃ نساء اھل الجنۃ وان الحسن والحسین  سید اً شباب اھل الجنتۃ}

’’رسول پاک ﷺ  نے فرمایا کہ میرے پاس رات کو ایک فرشتہ آیا جو اس سے قبل زمین پہ کبھی نہیں اُترا تھا اُس نے اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگی کہ وہ آکر میرا سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ میری لختِ جگر سیدہ ، طیبہ ، طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھاجنت میں خواتین کی سردار ہوں گی اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہلِ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہوں گے-‘‘(جامع الترمذی ، کتان المناقب عن رسول اللہ ﷺ - سنن الکُبریٰ للنسائی، باب فضائلِ صحابہ - مُسنَد احمد بن حنبل )

یہ دُنیا بھی اہلِ بیت کے قدموں کے تصدق سے قائم ہے اور اُس جہان میں بھی ہماری امان اہلِ بیت سے محبت کے نتیجے میں ہے-اس حدیث سے ضمناً چند نکات ہمارے سامنے آتے ہیں-

(۱) پہلا نکتہ اِس سے رسول پاک ﷺ  کی وُسعتِ عِلم کا معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاک ﷺ  نے فرمایا کہ میرے پاس ایک ایسا فرشتہ آیا جو اس سے پہلے کبھی زمین پہ نہیں آیا - دوستو ! آپ ملائکہ کی تعداد کا شُمار نہیں لگا سکتے دو تو میرے ساتھ ہیں باقی آپ اپنی بھی گنتی کر لیں اور دُنیا جہان کے اِنسانوں کی گنتی کر لیں ، عرش پہ ، طبق در طبق آسمانوں پہ ، سیّاروں اور ستاروں میں کہاں کہاں ؟کتنے کتنے؟ ، زمین پہ ، درختوں پہاڑوں صحراؤں گھاٹیوں وادیوں دریاؤں سمندروں پانیوں میں کہاں کہاں ؟ کتنے کتنے ؟ الجُملہ ، عقلِ اِنسانی کیلئے شمار و حساب ممکن ہی نہیں - مگر ہمارے محبوبِ پاک شہہِ لولاک ﷺ کو معلوم ہے کہ (۱) یہ کونسا فرشتہ ہے (۲) اِس کی ڈیوٹی کہاں اور کیا ہے اور (۳) کیا یہ اِس سے قبل زمین پہ اُترا ہے یا نہیں -

(۲) الفاظِ حدیث پہ غور کریں کہ {استأذن ربہ ان یسلم علی} ’’اُس نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ آکر میرا سلام کر لے ‘‘- گویا رسول پاک ﷺ کی زیارت کے قصد سے جانا یہ ملائکہ کی نہ صرف سنت ہے بلکہ عرش پر فرشتے آپ ﷺ کی زیارت اور ملاقات کیلئے بے تاب رہتے ہیں - دیارِ رسول ﷺ کی طرف جانا ملائکہ کی سُنَّت ہے -

(۳) تیسرے نُکتہ کو سمجھنے کیلئے حدیثِ پاک کے دو الفاظ بڑے ذومعنی انداز میں سامنے آئے ہیں جو کہ بظاہرباہم دِگر متصادم بھی ہیں مگر ایک دوسرے سے اِس خوبصورتی سے جُڑے ہیں کہ حکمت کا ایک سمندر موجزن ہے اُن الفاظ میں - ایک لفظ ہے {استأذن ربہ}’’فرشتے نے رب سے اجازت لی ‘‘ - اور دوسرا لفظ ہے {یبشرنی}’’مجھے خوشخبری دے ‘‘ - اِس سے پہلے کہ ناچیز اگلی بات بیان کرے یہاں ذرا رُک کر حُکم اور اجازت کے درمیانی فرق پہ غور کر لیا جائے - حکم وہ ہوتا ہے کہ جو کسی کے کہے بغیر صاحبِ حکم اپنی طرف سے کسی کو کوئی پیغام / حکم دے کر بھیجے جبکہ اجازت یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا اپنی خوشی یا چاہت کے تحت صاحبِ حُکم سے کسی کام کے کرنے یا کسی پیغام کے پہنچانے کی اجازت طلب کرے - گو کہ اِذن بھی حکم کے معانی میں مستعمّل ہے مگریہاں مُراد اِجازت لی گئی ہے - وہ فرشتہ اجازت لے کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں بشارت دینے آیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! آپ کی لختِ جگر نُورِ نظر خواتینِ جنَّت کی سردار ہونگی اور آپ کے نواسے امام حسن اور امامِ حُسین رضی اللہ عنھما جوانانِ جنّت کے سردار ہوں گے - اُس فرشتے کا آنے کا مقصد ایک تو حضور علیہ السلام کی زیارت تھی اور دوسرا بشارت تھی کہ جب میں یہ بشارَت عرض کروں گا تو رُخِ مُصطفیٰ ﷺ پہ تبسُّم پھیل جائے گا آپ خوش ہونگے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ (۱) حضور علیہ السلام کی خوشنودی کا عمل ملائکہ بھی اختیار کرتے ہیں کیونکہ خوشنودیٔ مصطفیٰ ﷺ ہی میں خوشنودیٔ پروردگار ہے (۲) ملائکہ کو معلوم تھا کہ کس طرح کی بات آپ کی بارگاہ میں عرض کریں گے تو آپ خوش ہونگے لہٰذا اُنہوں نے آپ کے اہلِ بیت سے متعلق خوشخبری عرض کی - گویا رسول پاک شہہِ لولاک ﷺ سے استعانت مانگتے وقت ،جب ہم گنبدِ خضریٰ پر حاضر ہوں یا ہم یہاں پر بیٹھے ہوں ، تو یہ ملائکہ کی سنت ہے کہ مصطفیٰ کی خوشنودی اسی میں ہے کہ ان کے سامنے اُن کے ذکر کے ساتھ اُن کی آل کا ذکر بھی جائے-

(۴) چوتھی بات جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فرشتے کو جنت کی سرداری کا کیسے پتہ چلا یہ کوئی اس دنیا کی بات تو نہیں تھی کہ فلاں قبیلے کی سرداری فلاں کو دے دی گئی ہے اور فلاں کی فلاں کو-بلکہ یہ تو جنت کی بات ہو رہی تھی پتہ نہیں کتنے ہزار سال باقی رہتے تھے اگر اس امر کی خوشخبری فرشتہ دینے آیا تو اُس کو عرش پہ کس نے بتایا سیّدہ فاطمہ اور سیّدنا حسن و حسین کے بارے میں ؟ عرش پہ کون اعلان کرتا ہے؟ اور یہ تمام باتیں کس کے علم کے لائق ہیں؟ اور جنّت کی سرداری فرد یا اَفراد کو عطا کرنا کس کے دائرۂ قُدرت میں ہے ؟ جس کی قُدرت کا اختیار ہے اور جس کے علم کے لائق یہ امر ہے عرش پہ مجلسِ ملائکہ میں اعلان و ارشاد بھی وہی فرماتا ہے - یعنی اپنے نوریوں کے سامنے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ رسولِ پاک ﷺ کے اہلِ بیت کی توصیف اورتعریف بیان کرتے ہیںگویا اپنی محافل اور نشستوں میں اہلِ بیت کی توصیف و تعریف بیان کرنا سُنّتِ پروردگارِ عالَم ہے اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں ، موجود لوگوں کے سامنے ذِکرِ اہلِ بیت سُنّتِ اِلٰہی ادا کرنے کے مترادف ہے - جب اہلِ بیت کی توصیف و تعریف و فضیلت فرشتے آسمانوں پہ کرتے ہیں ، جب اہلِ بیت کی توصیف و تعریف و فضیلت رسولِ پاک شہہِ لولاک ﷺ محفلِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں بیان فرماتے ہیں ، جب اہلِ بیت کی توصیف و تعریف و فضیلت خود خالقِ کائنات ، مالکِ ارض و سماوات عرش پہ نوریوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں تو ہم خاکیوں کے بس میں اور ہے ہی کیا توصیف و تعریف اور فضیلتِ اہلِ بیت بیان کرنے کے سوا ؟ طریق و ترتیب و محبتِ اہلِ بیت اختیار کرنے کے سوا ؟

اور اپنی بات کو موضوع کے آخری حِصّے کی طرف لے جاتے ہوئے مَیں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو بات مَیں نے ابتدا میں کی کہ جتنے بھی لوگ روحانیت کے کمال یا معراج کو پہنچے چاہے وہ جس بھی پسِ منظر سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے بھی اُن کو فیض تھا میں اس کے بارے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس کو بھی ، جب بھی ، کہیں بھی ، کبھی بھی ، کچھ بھی عطا ہوا وہ پنجتن پاک کے تصدق عطا ہوا ، ان کے توسُّل اور وسیلہ سے عطا ہوا -

مثلاً حکیم الامت علامہ محمد اقبال - ان کا علمی پسِ منظر دیکھیں ، گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے تھے ، وہاں لیکچرر رہے ، داڑھی نہیں تھی ، موسیقی سے شغف رکھتے تھے ، انگریزی ، جرمنی اور دیگر مغربی علوم و اَلْسَنَہ پر اتنی مہارت کہ مشرق و مغرب آج یہ ماننے پر مجبور ہے کہ عالمِ اسلام کی پچھلی دو صدیوں میں اگر کوئی عظیم ترین فلسفی تھا جو مغرب و مشرق کا واقف تھا وہ ڈاکٹر سر محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) تھا ، بیرسٹر ایٹ لاء لندن سے کیا ، پی ایچ ڈی جرمنی سے کی اور بڑے بڑے فلاسفہ ٔ مغرب کو پڑھاان سے ملاقات رہی ان سے میل جو ل رہا سارا کچھ اپنی جگہ لیکن آپ جب بھی اقبال کے رول ماڈل دیکھیں گے آپ کو اقبال کے رول ماڈل میں پنجتن پاک کی ذواتِ مُقدّسہ نظر آئیں گی - آپ ابتدا تا انتہا اقبال کی فکر کو دیکھیں ، اقبال کی فکر کا بنیادی مآخذ ہی یہ پانچ شخصیات ہیں - (۱) حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (۲) سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (۳) سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا (۴) سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور (۵) سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ - پہلے صرف ایک مختصر جائزہ کے طور پہ اور اقبال کے مؤقّف کو مختصراً سمجھنے کی خاطر اِن پانچوں شخصیّات کا زُبانِ اقبال سے ایک تعارُف دیکھتے ہیں اس کے بعد اہلِ بیت کی ان عظیم شخصیّات پہ اقبال کی تفصیلی رائے دیکھیں گے -

(۱) امام الانبیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :-

بمصطفیٰ برساںخویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

’’کہ آقا کی ذات تک اپنے آپ کو پہنچائو، وہاں تک نہیں پہنچو گے تو سب بو لہبی ہے کوئی ایمان وغیرہ کچھ نہیں ہے-‘‘

؎نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

حضور ﷺ سے عشق نہیں ہے تو سب کچھ بِلا سُود ہے ،بدبختی ہے-

(۲) سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ :-

اس کے بعد مولائے کائنات شیرِ خدا کی دو بنیادی صفات ہیں ایک ’’علویت‘‘ جو ان کے علم و حکمت ، دانش و بصیرت پر اور باب مدینۃ العلم ہونے کے منصب پر دلالت کرتی ہے اور دوسری ’’حیدریت‘‘ جو کہ حضرت مولائے کائنات کی سپاہ گری اور ان کی ہمت و شجاعت پر قائم ہے-آپ شروع سے آخر تک دیکھ لیں اقبال نے مسلمانوں کو جو رول ماڈل عطا کیا ہے وہ شیرِ خدا کی ذاتِ گرامی ہے-

کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق

کبھی سوز و سرورِ انجمن عشق

کبھی سرمایۂ محراب و منبر

کبھی مولا علی خیبر شکن عشق

تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر

کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری

نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفہ پنجہ فگن نئے

وہی فطرتِ اسد اللہی ، وہی مرحبی وہی عنتری

ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ

اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن

یا خالدِ جانباز ہے یا حیدرِ کرار

فکرِ اقبال میںجگہ جگہ یہ حیدریت پھیلی ہوئی ہے-

(۳) سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا :-

اور پھر آپ سیدہ زہرہ رضی اللہ عنھا کی ذات گرامی کا مطالعہ کریں تو اقبا ل نے باقاعدہ طور پر ’’فلسفۂ بتولیت‘‘ کی بنیاد رکھی کہ فلسفہ بتولیت کیا ہے؟اقبال نے سیدہ زہرہ رضی اللہ عنھا کو کس طرح خراجِ تحسین پیش کیا؟ارمغانِ حجاز فکرِ اقبال کا نچوڑ ہے اگر اقبال کو سمجھنا ہے تو ارمغانِ حجاز کو سمجھو- اُس میں اِقبال دُخترانِ مِلّت سے فرماتے ہیں :

اگر پندِ یز درویشی پذیری

ہزار امت بمیرد تُو نمیری

’’اگر اس فقیر اقبال کی نصیحت یاد رکھ لو ہزاروں قومیں مر جائیں گی (اے دخترِ اسلام!) تیری قوم کبھی نہیں مرے گی-‘‘

نصیحت کے طور پر اقبال کیا فرماتے ہیں:

بتولیِ باش و پنہاں شو ازیں عصر

کہ در آغوش شبیرِی بگیری

بتولیت کو اپنا لے اور اس جہان کی گندی آلودہ نگاہوں سے اپنے آپ کو اوجھل کر لے ،پھر تیری آغوش میں شبیر اور حسین پیدا ہوں گے-

(۴) سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ:-

اِسی طرح اقبال سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو جس انداز میں یاد کرتے ہیں وہ نوجوانانِ اِسلام کیلئے بڑا عظیم سبق ہے جو کہ یاد رکھنے اوراپنے آپ پہ نافذ کرنے کے لائق ہے - {حافظِ جمعیّتِ خیر الاُمم} کہ آپ نے قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ کی وِحدت و جمعیّت کو قائم فرمایاحتّیٰ کہ {پشتِ پازد بر سرِ تاج و نگیں} تاج و تخت و سلطنت آپ کی دسترس میں تھے مگر آپ نے بقائے اِسلام اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ کیلئے تاج و تخت و سلطنت کو قبول نہ فرمایا اور آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشارت کے عین مُطابق دو مسلمان گروہوں میں صُلح کروائی -

(۵) سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ :-

اقبال کے ہاں ’’شبیریّت‘‘ بھی ایک مُستقل فلسفے کے طور پہ موجود ہے - ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے ’’شبیراور شبیریّت ‘‘ اور واقعۂ کربلا کو ایک تاریخ یا تاریخ کا واقعہ گرداننے کی بجائے اِسے ایک رُوحانی واقعہ قرار دیا ہے اقبال اس واقعہ سے جتنے بھی نتائج اخذ کرتے ہیں اُن تمام کا تعلُّق بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پہ معاملاتِ رُوحانیّہ سے ہے - اور پھر سیدنا امام عالی مقام کی رسم شبیری :

؎نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

اور فقر کا استعارہ بھی اقبال نے شبیریت کے طور پر لیا-

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری

اک فقر ہے شبیری ، اُس فقر میں ہے مِیری

میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری

اقبال کا پورا فلسفہ پنجتن پاک کے گرد گھومتا ہے اگر آپ فکرِ اقبال سے پنجتن پاک کا فلسفہ نکال دیں تو فکرِ اقبال میں کچھ بھی نہیں بچے گا- جس طرح حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے آپ کی کیا رائے ہے؟ قائدا عظم نے کہا کہ اسلام کی تاریخ سے حضرت عمر ص کو نکال دو تو اسلام کی تاریخ میں کچھ بھی نہیں ہے،عمر (ص) ہیں تو اسلام کی تاریخ ہے - اسی طرح اقبال کی فکر میں پنجتن پاک ہیں تو اقبال کی فکر ہے اگر پنجتن پاک کا وجود فکرِ اقبال میں نہیں ہے تو فکرِ اقبال کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا - اقبال کی جتنی بھی شاعری ہے وہ ساری کی ساری شاعری بنیادی طور پر نوجوانانِ ملت کی تربیت کیلئے تھی کہ ملت کے نوجوانوں کو کس طریقے سے بیدار کیا جائے؟ان کی شخصیت کی تربیت کیلئے اقبال نے ایسے رول ماڈل چنے جن سے نوجوانوں کو کچھ مل سکتا ہے مثلاً اقبال انبیا ء کو اپنا رول ماڈل بناتے ہیں اور فارسی و اُردو شاعری میں جگہ جگہ ’’ابراھیمی ‘‘ اور ’’کلیمی ‘‘ کے استعارات بھرے پڑے ہیں :

٭ مِٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مُسلماں ، کہ ہے

اِس کی اذانوں سے فاش سرِّ ’’کلیم‘‘ و ’’خلیل‘‘

٭ نہ سلیقہ مجھ میں ’’کلیم‘‘ کا نہ طریقہ تجھ میں ’’خلیل‘‘ کا

میں ہلاکِ جادوئے سامری تُو قتیلِ شیوۂ آذری

حضرت علامہ ، خُلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کو نوجوانانِ اِسلام کے سامنے رول ماڈل کے طور پہ پیش کرتے ہیں کہ اُن کے نفُوسِ قُدسیّہ اور اُن کی اَرواحِ عالیّہ کی تب و تابِ جاودانہ نوجوانوں کی جوان دھڑکنوں میں آتشِ عشقِ الٰہی اور حرارتِ ایمانی کو کامل طور پہ پھونک سکتی ہے - مثلاً حضرت علامہ اقبال اپنے آقا و مولا تاجدارِ مدینہ ﷺ کو مخاطب کر کے عرض کرتے ہیں :

ازاں فقرے کہ با صدّیق دادی

بشورے آور ایں آسُودہ جاں را

’’یا رسول اللہ ﷺ ! جو فقر آپ نے سیّدنا صدّیقِ اکبر ص کو عطا فرمایا اُس فقر سے میرے حال پہ بھی کرم فرما دیجئے‘‘-

اقبال عرب کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ {باز اندر آفریں رُوحِ عُمر} کہ اگر دُنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے متمنّی ہو تو اپنے وجُود میں رُوحِ حضرت عُمر فاروق ص کو پیدا کرو - سیّدنا عُثمان ذی النورین ص کی دولتِ حیا و سخا کو بھی اقبال نے لازمی طور پہ اپنائے جانے والے عمل کے طور پہ لیا ہے کہ جس کا ناپید و نایاب ہونا زوالِ اُمَّت کے اسباب میں سے ایک ہے :

حیدری فقر ہے ، نے دولتِ عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے

 اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا دیگر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو بھی رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا ہے اور اُن کے بعض خواص کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے - بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پہ تو اقبال نے پوری پوری نظمیں لکھیں ہیں مثلاً سیّدنا بلالِ حبشی ص اور سیّدنا اُبو عبیدہ بن الجراح ص اور دیگر صحابۂ کرام - اور بعض صحابہ کرام کو اقبال جا بجا اپنی شاعری میں عروج ، کمال ، بلندی ، رفعت ، فقر ، زور ، روحانیت ، حقانیّتِ اِسلام اور اِس طرح کے دیگر استعارات و اشارات و تعبیرات کے ساتھ پیش کرتے ہیں - مثلاً حضرت ابو ایوب انصاری ص ، حضرت خالد بن ولید ص ، حضرت ابُوذر غفاری ص ، حضرت سلمان فارسی ص اور حضرت اویسِ قرنی ص - بطورِ مثال صرف تین اشعار ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں :

٭ مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا زورِ حیدرؓ ، فقرِ بُوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ

٭ یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بُوذرؓ و دلقِ اویسؓ و چادرِ زہراؓ

٭ درمسلماں شانِ محبوبی نماند

خالدؓ و فاروقؓ و ایوبیؓ نماند

نوجوانانِ مِلَّت میں رُوحانی شعور بیدار کرنے کیلئے اقبال نے عظیم المرتبت صُوفیائے کرام کو رُول ماڈل کے طور پیش کیا تاکہ ہماری توجُّہ اپنی خودی کی تعمیر ، اپنے باطن کی صفائی ، اپنے نفس کے تزکیّہ ، اپنے قلب کے اطمینان اور اپنے سینہ کی روشنی پہ رہے اس لئے اقبال نے بارہا مرتبہ مُتعدَّد مقامات پہ کہا کہ خِلافتِ الٰہیَّہ کا حق دار وہی نوجوان ہو سکتا ہے جو اپنی روحانیّت کی بیداری کیلئے کوشاں ہو جس کا سینہ پاک و صاف ہو اور باطن آباد و بیدار ہو - صوفیائے کرام میں سے اقبال نے حضرت جنید بغدادی ، حضرت بایزید بسطامی ، حضرت داتا علی ہجویری ، حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت محبوبِ الٰہی ، حجۃ الاسلام الامام محمد بن محمد بن محمد الغزالی ، حضرت میانمیر ، حضرت فرید الدّین عطّار ، حضرت مولانا جلال الدین رومی ، حضرت شاہ شمس تبریزی اور حضرت منصُور حلاج جیسی جلیل القدر شخصیّات کو رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا -

اقبال نے تاریخِ اِسلام کے درخشاں ابواب واوراق کو اِس انداز میں نمایاں کیا جس سے کہ نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے اپنا تعلُّق استوار کرنے میں آسانی ہو ہم نوجوانوں کو اَسلاف کا قلب و جگر پیدا کرنے میں مدد مِلے - وہ پُرسوز روحیں جو پرچمِ اِسلام کی مُحافظت پہ مامور رہیں اور اِسی پرچم کی رفعت کی خاطر قُربان ہوئیں مثلاً سُلطان صلاح الدّین ایُّوبی ، سُلطان محمود غزنوی ، اورنگزیب عالمگیر ، ٹیپو سُلطان شھید اور احمد شاہ ابدالی اور دیگر - اقبال نے مذکورہ شخصیّات کو رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا کیونکہ {وِحدت کی حفاظت نہیں بے قُوّتِ بازُو } اور { عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بُنیاد} - اِن لوگوں کی تابناک و زندہ و تابندہ تاریخ ہمیں جہانبانی و جہان سازی کا ڈھنگ سکھاتی ہے -

الغرض اقبال کے نظامِ فکر میں اقبال کے رول ماڈلز کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اقبال کس طرح کی شخصیّات کو اپنا اور نوجوانانِ مِلّت کا آئیدیئل سمجھتے ہیں ظاہر ہے کہ جِسے آئیڈیئل مانا جاتا ہے یا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے اُس کا عمل اور اُس کی فِکر آدمی کی راہنما ئی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور آدمی خود کو اُنہی کے نقشِ قدم اور طریقِ عمل پہ گامزن رکھنے کی کوشش کرتا ہے -

جب ہم اقبال کے ہاں اہلِ بیتِ رسول ﷺ کو رول ماڈل کے طور پہ دیکھتے ہیں تو اُن کی تفصیلات میں جھانک کر اَندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کس قدر گہرا رُوحانی رابطہ و تعلُّق رکھتے ہیں - پھر اقبال کے ہاں انتہا درجے کی عقیدت دیکھنے کو ملتی ہے مگر آج کی اِس نشست کا اسلوب چونکہ تربیّتی ہے تو اس لحاظ سے اہم بات یہ ہے اقبال نے کس طرح اہلِ بیتِ رسول ﷺ کی ذاتی و مِلی اور انفرادی و اجتماعی زندگی سے دُختران و نوجوانانِ مِلّت کیلئے اعلیٰ ترین پیمانے کے اسباق اخذ کئے ، نصیحتیں حاصل کیں ، نتائج مرتب کئے اور بصیرت فراہم کی - کلامِ اقبال میں تذکرۂ اہلِ بیت میں اقبال کی محبت و عقیدت عشق کی انتہا کو پہنچی ہے اور درسِ عمل ایک انقلابی قُوَّت کے طور پہ اُبھرا ہے -

 اس لئے مَیں نے چند اشعار بالخصوص اپنے نوجوان ساتھیوں کے لئے منتخب کیے ہیں کہ اقبال نے شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ ص کی ذاتِ گرامی میں ہمارے لیے کیا رول ماڈل اور آئیڈیئل دیکھا یہ حضرت علامہ اقبال کی باقاعدہ ایک نظم ہے جس کا نام ’’در شرح اسرار و رموزِ اسمائے علی المرتضیٰ‘‘ ہے جس میں علامہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ ص کے اسماء کے اسرارو رموز اور پوشیدہ حکمتیں کیا ہیں ؟

مسلم اوّل شہہ مرداں علیؓ

عشق را سرمایۂ ایماں علیؓ

’’مرد بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ ص کی ذاتِ گِرامی نے نبُوَّتِ مصطفیٰ ا کی گواہی دی اور اہلِ عشق کے ایمان کا سرمایہ حضرت علی المرتضیٰ ص کی ذات گرامی ہے‘‘-

از ولاے دود مانش زندہ ا م

در جہاں مثلِ گوہر تابندہ ام

’’مَیں اس کائنات میں حضرت علی المرتضیٰ ص کے خاندان کی محبت کی وجہ سے زندہ ہوں اور میرا گوہر زمانے میں حضرت علی المرتضیٰ ص سے نسبت کی وجہ سے چمکتا ہے ‘‘-

زم زم ار جو شد زخاک من ،  ازوست

مے اگر ریزد ز تاکِ من ،  ازوست

اقبال کے وجود میں زم زم کا جو چشمہ پوری آب و تاب سے پھوٹتا ہے اس چشمے کی طاقت و قوت وہ حضور مولائے کائنات کی نسبت کی برکت بتاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اگر میرے جام میں گردشِ مئے ہے یعنی ’’میرا دامن خالی نہیں ہے‘‘ تو یہ بھی حضرت علی المرتضیٰ ص کی نسبت کی برکت ہے -

قوتِ دینِ مبیں فرمودہ اش

کائنات  آئیں پذیر از دودہ اش

’’حضرت علی المرتضیٰ ص وہ ہیں جنہیں نبیﷺ  نے دین کی قوت کہااور یہ کائنات جس آئین پر چل رہی ہے یہ آئین مولائے کائنات کے خاندان نے قائم کیا ہے-‘‘

ہرکہ دانائے رموزِ زندگیست

سرِ اسمائے علیؓ داند کہ چیست

’’جس آدمی کو بھی زندگی کے راز و رموز سے آشنائی ہے اُسے یہ معلوم ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ص کے اسماء کا راز کیا ہے؟‘‘

حضرت علی المرتضیٰ ص کو نبی پاک ﷺ نے جو لقب عطا کیا وہ’’ بوتراب‘‘ تھااور اقبال ابو تراب کی تشریح بیان کرتے ہیں کہ تراب مٹی کو کہتے ہیں ایسی مٹی جو ظلمت میں گوندھی ہوئی ہو- انسان تو تراب ہے ، تراب سے ابو تراب کیسے بنا ؟

خاکِ تاریکے کہ نامِ او تن است

عقل از بیدادِ او در شیون است

’’یہ تاریک مٹی جس کا نام تم اپنا وجود رکھتے ہواس تاریک مٹی کی وجہ سے انسان کی عقل تاریکی میں مبتلا ہوگئی ‘‘-

کیونکہ اس وجود کی خواہشات اتنی الٹی پھلٹی ہیں مثلاً اس وجود نے اپنی خواہشات کی خاطر پوری دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا آج دنیا میں آگ اور لوہے کی جنگ ہورہی ہے اقبال فرماتے ہیں کہ ’’اس مٹی کی تاریکی کی وجہ سے یہ پورا جہان ظلمت کدہ بن گیا -‘‘

فکر گردوں رس زمیںپیما ازو

چشمِ کور و گوش نا شنوا ازو

’’انسان کا وہ فکر جو فلک پر پرواز کرتا ہے اس وجود کی خواہشات کی بدولت وہ زمین کی گہرائیوں میں مُردار ہوچکا ہے اسی مٹی کی تاریکی کی وجہ سے انسان کے دل کی آنکھیں اندھی اور دل کے کان بہرے ہوچکے ہیں -‘‘

از ہوس تیغِ دورو دارد بدست

راہرواں را دل بریں رہزن شکست

’’اس وجود کے ہوس پرستانہ رویّہ کی بدولت انسان نے اپنے ہاتھ میں دو دھاری تلوار اٹھائی ہوئی ہے اور اس دنیا میں چلنے والوں کے سَر کاٹتی پھرتی ہے -‘‘

اب ’’تراب‘‘ سے اِنسان ’’ابو تراب‘‘ کیسے بنتا ہے ؟ یعنی وجود کی ظُلمت پہ رُوح کی نورانیّت کس طرح غالب آتی ہے ؟

شیِر حق ایں خاک را تسخیر کرد

ایں گلِ تاریک را اکسیر کرد

’’کہ حضرت علی المرتضیٰ ص نے(اپنی قوّتِ روحانیّہ سے) اپنے وجود کی مٹی کو مسخر کر لیا اور اپنے اس وجود کے فاتح ٹھہرے،تسخیرِ وجود نے اس ظلمت کی مٹی کو سونا بنا دیا-‘‘

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

لا یحتاج جنہاں نوں ہویا فقر تنہاں نوں سارا ھُو

نظر جنہاں دی کیمیا ہووے اوہ کیوں مارن پارا ھُو

مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است

’’بو تراب‘‘ از فتح اقلیم تن است

’’وہ علی المرتضیٰ جن کی تلوار سے حق روشن ہوا انہیں ابو ترابی اس ’’تن‘‘ کے فتح کرنے سے عطاہوئی اپنے تن کو فتح کر کے وہ ’’تراب‘‘ سے ’’بوتراب‘‘ ہو گئے-‘‘

’’ ابوترابیت‘‘ کیا ہے ؟ کہ آدمی ہوس سے آزاد ہوجائے، حرص و طمعہ سے آزاد ہو جائے ، نفس کی پلید خواہشات سے خود کو پاک کرلے ، دِل پہ مادیّت کی تہہ در تہہ جمی ہوئی گرد غُبار کو نورانیّتِ اطاعتِ حق تعالیٰ سے اُتار دے ، اِس وجود پہ اس وجود کی ہر ایک حالت و حرکت پہ حکمِ خداوندی کو نافذ کردے ، اپنے ظاہر و باطن کی ہر کیفیّت میں خود کو پروردگار عالم کے روبرو سمجھے ، بدن پہ عملاً اللہ کی حکومت قائم ہو جائے ، انسان اپنے عمل میں بھی فکر میں بھی اور اِحساس میں بھی عاملِ قُرآن بن جائے یعنی بدن عابد بن جائے عقل عالم بن جائے اور رُوح عارف بن جائے ، بدن شریعت کے تابع ہو جائے عقل قرآن کے تابع ہو جائے اور رُوح اَنوارِ مُشاہدات میں مُشتغل و مُستغرق ہو جائے - جب تک جسم کی ظُلمت رُوح کی نورانیّت پہ غالب رہتی ہے تب تک آدمی ’’تُراب‘‘ ہی رہتا ہے یعنی ظُلمت میں ڈوبا رہتا ہے لیکن جب نگاہِ کامل کی تربیّت سے بدن کی ظُلمت مغلوب ہو جاتی ہے اور رُوح کی نورانیّت غالب آجاتی ہے آدمی ’’ابو تُراب‘‘ کے مقام کا شناسا ہو جاتا ہے اقبال کے بقول ’’بدن کو تسخیر کر لیتا ہے‘‘ - اور جب ابو ترابیت مل جاتی ہے ، آدمی اللہ کا دوست بن جاتا ہے تو مرزا غالب نے کہا تھا :

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بُوئے دوست

مشغولِ حق ہوں بندگی ٔ بو تراب میں

’’ارے میاں ! محبوب کے محبوب سے محبوب کی خوشبو آتی ہے ، دوست کے دوست سے دوست کی خوشبو آتی ہے ذکر ابو تراب کا کررہاہوں اور عبادت اللہ کی شُمار ہو رہی ہے ‘‘-

ہر کہ در آفاق گردد بو تراب

باز گرداند ز مغرب آفتاب

’’اس انفس و آفاق کے عالم میں جو کوئی بھی ابو تراب بن گیا جس نے اپنی مٹی کو مسخر کر لیااسے اللہ کی طرف سے یہ قوت عطا ہوجاتی ہے کہ وہ مغرب میں ڈوبے ہوئے سورج کو (اپنی انگلی کے اشارے سے) پھر سے طلوع کر سکتا ہے ‘‘-

ہر کزیں بر مرکبِ تن تنگ بست

چوں نگیں بر خاتم دولت نشست

’’جس کسی نے بھی تن کے گھوڑے پر اپنی زین کے تنگ کَس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی شہنشاہی عطا کردی -پھر اس کو نگینہ کی طرح اقتدار کی انگوٹھی میں جڑ دیا جاتا ہے-‘‘

صُوفیہ نے جو اکثر مقامات پہ زور دے کر فرمایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ سے پہلے جہاد فی اللہ ضروری ہے یعنی جہاد بالسیف سے پہلے جہاد بالنفس ضروری ہے کیونکہ جہاد بالنفس بندے کو ’’تراب‘‘ سے ’’بوتراب‘‘ کرتا ہے اور ’’بوتراب‘‘ ہوئے بغیر جہاد بالسیف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بندے کی ہوس مری ہوئی نہیں ہوتی اور جب تک ہوس زندہ ہے جہاد اللہ کی راہ میں کیسے ہوگا ؟ ہر آن ہر زمان ہر گھڑی نفس و شیطان کے غلبے کا خدشہ موجود ہے جو آدمی کو کسی بھی بھیانک گمراہی میں مُبتلا کر سکتے ہیں - اِس فلسفہ کو سمجھنے کیلئے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مطالعہ لازِم ہے کہ کس طرح آپ ا نے اپنے رُفقا کو مکہ مکرمہ میں تیرہ برس تک مختلف امتحانات اور آزمائشوں میں اپنے ساتھ رکھا تاکہ اُن صحابہ کرام و صحابیات کا تزکیّہ نفس ہو جائے اور اُن کی روحانیت زندہ و بیدار ہو جائے اِسی تربیّت کا اثر تھا اِسی رُوحانی بیداری کا ثر تھا اور اِسی باطن آبادی کا اثر تھا کہ دُنیا کی کوئی آندھی کوئی طوفان اُن کے پائے مُبارک میں لغزش نہیں لا سکی -اِس لئے بزرگانِ دِین نے کہا ہے کہ اگر نفس کی خواہشات سے آزاد ہوگئے ، اپنی چاہت پر اللہ کی چاہت غالب آگئی ، اپنی رضا پر اللہ کی رضا غالب آگئی پھر وہ مجاہد میدانِ جہاد میں جہاد کے قابل ہوجاتا ہے- علامہ اقبال بُو تراب کے اِسے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خُدا ص کو تسخیرِ بدن نے اِس جہان میں کیا مقامات عطا فرمائے اور اُس جہان یعنی آخرت میں کیا مقامات عطا فرمائے :

زیر پایش این جاہ شکوہ خیبر است

دست او آنجا قسیمِ کوثر است

’’اس دُنیا میں خیبر و مرحب کی ہیبت و شوکت اُن کے قدموں میں پامال ہوئی اور اُن کا ہاتھ بروزِ حشر اُمّت میں جامِ کوثر تقسیم فرمائے گا ‘‘-

اقبال نے کمال کا اشارہ کیا ہے اِس میں کہ جس طرح سے کہ ہاتھوں اور پاؤں کی مثالیں دی ہیں - آپ جانتے ہیں کہ کسی کی پاؤں کی طرف کرنا حقارت کی علامت ہے اور ہاتھ آگے کرنا وہ بھی کچھ تقسیم کرنے کیلئے یہ عزت و وقار کی علامت ہے - جس طرح دُنیا کو قرآن پاک نے متاعِ قلیل کہا ہے جسے کہ تمام انبیا و صُلحا نے حقیر کہا اِسی طرح آخرت کے دن کو قرآن نے بار بار بڑا دِن کہا جس دن اللہ تعالیٰ کی ہیبت کے سوا کسی کی ہیبت نہ ہو گی - اقبال نے اشارہ یہ کیا ہے کہ دُنیا حقیر و بے وُقعت ہے لہٰذا مال و دولتِ دُنیا اور اس کے پرستاروں کا شِکُوہ و دبدبہ حضرت علی المرتضیٰ ص کے قدموں میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ بڑے دِن جس دن کہ دُنیا کی مادِیَّت میں بڑی شانیں رکھنے والوں کی بھی ٹانگیں کانپتی ہوں گی اُس دِن حوضِ کوثر پہ شیرِ خُدا ص اپنے دستِ یداللّٰہی سے جام تقسیم فرماتے ہونگے یعنی اُس دِن وہ اُن میں سرِ فہرست ہونگے جنہیں اللہ نے اپنی بارگاہِ خاص سے مقامِ خاص عطا فرمایا ہو گا - اِس میں نوجوانانِ اِسلام کیلئے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ اگر تم بھی اپنی مٹی کو مسخّر کر لو گے اگر اپنی چاہتوں کو اللہ کی چاہت کے سپرد کر دو گے اور اپنی رضا کو اللہ کی رضا کے تابع کر دو گے یعنی اپنی مٹّی کی ظُلمت کو مِٹا کر اپنی رُوح کے نور کو غالب کر دو گے تو اِس جہان کی شوکتیں بھی تمہارے قدموں میں ڈال دی جائیں گی اور آخرت کے دِن بھی اللہ کی بار گاہ کے مکرمین میں تمہارا شمار ہو گا - آگے فرماتے ہیں :

از خود آگاھی یداللہی کند

از یداللہی شھنشاھی کند

’’وہ خُود آگاہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بن جاتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بن کر دُنیا پر حکُومت کرتا ہے ‘‘-

یہ اِشارہ ہے حضرت علی المرتضی شیرِ خُدا ص کے مقاماتِ باطنی و رُوحانی کی طرف کہ آپ کی اصل قُوّت ید اللّٰہی ہے جو کہ ملکوتی و لاہوتی طاقت سے حاصل ہوتی ہے - آپ ص کی ذاتِ گرامی کی طرف اِشارہ کر کے اقبال نے سبق جوانانِ اِسلام کو دیا ہے جب تُم عظمتِ رفتہ کی بحالی اور قیامِ خلافت علیٰ منہاج النبُوّۃ کی جدّ و جُہد کرتے ہو اور خود کو ناکام پاتے ہو تو مایُوس نہ ہو جایا کرو بلکہ اپنے آپ کا تجزیّہ کرو اپنے باطن کا جائزہ لو کہ کیا کہیں کسی مقام پہ کوئی کمی تو واقع نہیں ہو رہی ؟ اگر تمہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو یہ غور کرو کہ کیا تم نے تن سے سفر زیادہ کیا ہے یا من سے ؟ تن کا سفر جتنا بھی طے کر لو منزل نہیں ملتی یہ تھک ہار جاتا ہے ، ٹوٹ جاتا ہے ، بکھر جاتا ہے ، اِس کی توانائیاں ماند پڑ جاتی ہیں ، یہ ضُعف میں مُبتلا ہو جاتا ہے ، اِس کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں ، اِس کے اعضا کی پُھرتیاں ختم ہو جاتی ہیں ، یہ ناتوان و بے جان ہو جاتا ہے - البتّہ اگر من کا سفر شروع ہوجائے تو ایک ہی جَست عُمر بھر کا سفر طے ہو جاتا ہے ، جوانوں کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے کیونکہ من کی نگاہ ہی تو اقبال کے فلسفہ میں ’’عقابی روح‘‘ ہے اور یہی عشق کا سفر ہے -

عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قِصّہ تمام

اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

 جب عشق کے پرِ پرواز لگ جاتے ہیں تو رفتار زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے اگر باطن بیدار ہو جائے یعنی مَن کی دُنیا آباد ہوجائے تو من تھکتا نہیں ، من تھمتا نہیں ، ہارتا نہیں ضُعف و ناتوانی کا شِکار نہیں ہوتا ، اُس کی ہر آنے والی گھڑی ہر گزری ہوئی گھڑی سے زیادہ توانا، زیادہ مضبوط اور زیادہ قوی ہوتی جاتی ہے- وہ مقصُودِ زندگی کو پا لیتا ہے یعنی لافانی ذات کا قُرب حاصل کرلیتا - یہ تو ہے انتہائی مقام ! اِس کی ابتدا ہوتی ہے ، یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے تزکیّۂ نفس سے ، کہ آدمی اپنے باطن کی پاکیزگا کا اہتمام کرے اور ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی طیّب و طاہر کرے تاکہ اُس کے ہاتھ برکتِ ید اللّٰہی کے قابل ہو سکیں -

؎از خود آگاہی یداللّٰہی کند

جب بندہ اپنی خودی کو تلاش کرنے کا سفر شروع کرتا ہے ، اپنے من کی کائنات میں اُترتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا اسمِ ذاتی اُس کا دوست و ہمدم ہوتا ہے اور دل کی کیاری میں چنبے کی بوٹی پُنگر جاتی ہے اور من کے باغیچے میں ھُو کی خوشبو پھیل جاتی ہے یعنی اپنے من کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اِس مقام کو مقامِ خود آگاہی کہتے ہیں، خود آگاہی کو پالینے کے بعد اُسے یداللہی کا منصب نصیب ہوجاتا ہے - یداللہی کا منصب کیا ہے؟ پہلے وہ مٹی ہے ، وہ مٹی کسی کامل ہُنر دان و ہُنر مند کے پاس گئی ، اُس نے اُس مٹی کو گوندھ کر اس کی تطہیر کردی اس کا تزکیہ اور تصفیہ کردیا اور اس کو اس کی خودی سے آگاہ کردیااور پھر ایک ایسا مقام آجاتا ہے {ویدہ التی یبطش بھا } مَیں اس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے -

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں ، کار کُشا و کار ساز

یہ کوئی عام چیز نہیں ہے جو مَیں نے بیان کی ہے یہ صحاحِ سِتّہ میں بیان شُدہ حدیثِ قدسی ہے اورپھر بندہ ہر چیز کو نورِ الٰہی سے دیکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس زمین پر اپنے نظام کے نفاذ کیلئے تیار کرتا ہے جب اُس کی مٹی پہ اُس کی روح غالب آجاتی ہے تو اُس کے اعضا کی قُوّت کے اندر قدرت کی طرف سے اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غیر معمولی قُوّت اُسے عطا ہو جاتی ہے جیسے اقبال کہتے ہیں کہ

دِل اگر اِس خاک میں زِندہ و بیدار ہو

تیری نِگَہ توڑ دے آئینۂ مھر و ماہ

چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خُودی

ایک سپاہی کی ضرب ، کرتی ہے کارِ سِپاہ

اُس کی آنکھوں کو ، زبان کو ، کانوں کو ، پاؤں کو اور ہاتھوں کو قُوتِ خاص مل جاتی ہے- اور پھر وہ اللہ کے نظام کے نفاذ کی جدو جہد کرتا ہے جب اُس کے ہاتھوں کو یداللہی کی طاقت عطا کر دی جاتی ہے تو اقبال کہتے ہیں :

؎از یداللّٰہی شہنشاہی کند

پھر یداللہی کے بعد شہنشاہی کا منصب عطا کیا جاتا ہے - اسی لیے مَیں اکثر اصلاحی جماعت کے نوجوانوں کو مبارک دیتا ہوں کہ آج تم جس سفر کو طے کر رہے ہو یہ اقبال کے اُس شعر کی تعبیر ہے کہ

ہو چکا گو قوم کی شانِ جمالی کا ظہور

ہے مگر باقی ابھی شانِ جلالی کا ظہور

جہاں پر آج یہ تحریک ہے یہ خدا کی طرف سے اس کی شانِ جمالی کا اظہار ہے - شرح در اسمائے علی مرتضیٰ ص میں آگے پھر اقبال فرماتے ہیں کہ اس یداللہی و شھنشاہی کی بنیادی سیڑھی کیا ہے؟اگر تو حکمرانی کرنا چاہتا ہے تو حکمران بننے کا پہلا دستور کیا ہے؟

حُکمراں باید شُدن بَر خاکِ خویش

تا مئے روشن خُوری از تاکِ خویش

’’تُجھے سب سے پہلے اپنے بدن کی خاک پر حُکمرانی قائم کرنی چاہئے تاکہ تجھے اپنے وجود ہی سے مئے ناب نصیب ہو سکے ‘‘-

؎حکمراں باید شدن بر خاک خویش

سب سے پہلے اپنی اس ۶ فٹ کی عمارت کا حکمران بن، حکمران بننے کیلئے لازم ہے کہ پہلے اپنی مٹی پر حکمرانی کر-حکمران کی پہلی ذمہ داری کیا ہے؟

{یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوٰیٰ}(ص:۲۶)

’’اے دائود ہم نے آپ کو زمین میں خلافت عطا کی تاکہ لوگوں میں انصاف قائم کرو اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی بالکل ہی نہ کریں -‘‘

حکمران اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے تحت اپنی رعایا کو چلانا چاہتا ہے اِس لئے لازِم ہے کہ حکم چلانے والے کا اپنا وجود اللہ اور اُس کے رسول ا کے اَحکامات و محبت کا مُطیع ہونا چاہیئے - حضور غوثِ پاک ، شہنشاہِ بغداد ، پیرانِ پیر ، دستگیر ، محبوبِ سُبحانی ، قُطبِ ربّانی ، شہبازِ لامکانی محی الدین سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی الحسنی الحسینی والبغدادی رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ مُبارک میں حاکمِ بغداد آیا اُس نے عرض کی حضور مجھے ایسی نصیحت فرمائیں کہ میں لوگوں کا صحیح طریقے سے احتساب کر سکوں حضور غوث الاعظم سرکار رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو اپنے نفس کا احتساب نہیں کرسکتا وہ لوگوں کا کیا احتساب کرے گا؟

؎تا مئے روشن خوری از خاکِ خویش

تاکہ تجھے ادھار یا مستعار لی ہوئی شراب نہیں بلکہ اپنے وجود میں بنی ہوئی شراب میسر آسکے -

خاک گشتن مذہبِ پروانگیست

خاک را اَبْ شو کہ ایں مردانگیست

’’خاک ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ مٹی کا با پ بن جا اصل مردانگی یہ ہے -‘‘

سنگ شو اے ہمچو نازک گل بدن

تاشوی بنیادِ دیوارِ چمن

’’اے مٹی کی طرح نازک بدن پتھرکی طرح سخت ہوجا ،تاکہ تُو چمنِ دین کی دیوار کی بنیاد کے کام آسکے-‘‘

ازگلِ خود آدمے تعمیر کن

آدمیِ را عالمے تعمیر کن

’’اپنی مٹی سے اپنے اندر ایک آدم کو پیدا کر اور اپنے اس آدم سے اس پورے جہان کی تشکیل کر-‘‘

ایران کے ایک بہت بڑے دانشور جو آج بھی وہاں پر مستند ہیں ان سے کسی نے پوچھا تھا کہ اقبال کیا ہے؟ انہوں نے دو جملے کہے کہ

(۱) اقبال اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے -

(۲)اور اقبال کے اندر وہ روحِ علی ہے جو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے مزین ہے -

اقبال فکرِحُسین کا تسلسل ہے - اقبال کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ نوجوانوں کی سیرت سازی کی جائے اور نوجوانوں کی سیرت کی تعمیر کیلئے اقبال نے جو استعارہ ڈھونڈا ہے وہ اہلِ بیت اور پنجتن پاک کے استعارے ہیں اقبال کی ساری کی ساری انقلابی شاعری کا دارومدار یا حسینیت پر ہے یا بتولیت یا حیدریت یا مصطفویت پر ہے -اور اسی کتاب ’’ اسرار و رموز‘‘ میں جو خراج تحسین سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا کی بارگاہ میں پیش کیا ہے کہ اتنی گہرائی میں علامہ اترے ہیں کہ آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جس طریقے سے خاتونِ جنت کی سیرت کو خواتینِ اسلام کے سامنے پیش کیا ہے مَیں سمجھتاہوں ہم اگر اپنی بیٹیوں ، بہنوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم وہ قوم بن سکتے ہیں جو قوم ہمیں رسولِ پاک ﷺ نے بنایا تھا -

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرہ عزیز

’’سیدہ مریم بنت عمران (والدہ عیسی علیہ السلام)وہ ہمیں عیسی علیہ السلام کی نسبت سے عزیز ہیں ،لیکن سیدۃ النساء ہمیں تین نسبتوں سے عزیز ہیں - ‘‘

پہلی نسبت :-

نورِ چشمِ رحمۃ اللعالمین

آں امام اوّلین و آخرین

’’کہ وہ رحمۃ اللعالمین کی نورِ چشم، آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے دل کی راحت ہیں -‘‘

آنکہ جاں درپیکر گیتی دمید

روزگارِ تازہ آئیں آفرید

’’وہ رحمۃ اللعالمین جن کے دم قدم سے اللہ نے دو نوں جہانوں کے بدن میں روح پھونکی،اور اس کائنات کو رسومات سے چھٹکارا دے کر ایک نیا آئین مہیا کیا-‘‘

 دوسری نسبت :-

با نوئے آں تاجدارِ ھل اتی

مرتضی، مشکل کشا ، شیرِ خدا

’’جو تاجدارِ ھل اتیٰ ، علی المرتضیٰ ، مشکل کشا ، شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہیں-‘‘

پادشاہ وکلبۂ ایوانِ او

یک حسام و یک زرہ سامانِ او

’’جو ایک بادشاہ ہیں لیکن ایک جھونپڑی میں رہتے رہے اور ان کی وفات کے بعد ان کا جو سامان نکلا وہ کیا تھا ایک تلوار اور ایک زِرہ-‘‘

تیسری نسبت :-

مادرِ آں مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آں کارواں سالارِ عشق

’’آپ کی تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ پرکارِ عشق کے مرکز ’’سیّدنا امام حسن‘‘ اور کاروانِ عشق کے سالار ’’سیّدنا امام حُسین‘‘ کی والدہ ماجدہ ہیں ‘‘-

آں یکے شمعِ شبستانِ حرم

حافظِ جمعیتِ خیر الامم

’’ایک وہ ہیں جو اسلام کی اندھیری رات میں شمع کی حیثیت رکھتے ہیںاوررسول پاک کی امت کی جمعیت کے محافظ ہیں -‘‘

کیونکہ رسول پاک نے فرمایا تھا کہ ’’ میرا بیٹا حسن میری امت کے بہت بڑے جھگڑے کا خاتمہ کرے گااور میری امت کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا‘‘ - حیاتِ صحابہ کی کتب کے مُصنّفین بیان فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن ص کی صُورت رسولِ پاک شہہِ لولاک ا کی صُورتِ مُبارک سے بہت مُشابہت رکھتی تھی اگر کسی نے رسول پاک کی زیارت کرنی ہوتی تو وہ امام حسن کے چہرے کو دیکھتا تھا- حضرت مولا علی ؓ سے روایت ہے:

{عن علی ابنِ ابی طالب ص قال: الحسن ص اشبہ برسول اللّٰہ ا ما بین الصدر الی الرأس }(سنن ترمذی، مسند احمد)

’’حضرت علی المرتضیٰ ص فرماتے ہیں :کہ حضرت امام حسن ص سینہ سے لے کر سر تک اپنے نانا کی کامل شبیہ ہیں ‘‘-

تا نشیند آتشِ پیکارو کیں

پشتِ پازد بر سرِ تاج و نگیں

’’جب مسلمانوں میں جھگڑا پیدا ہوا تو حضرت امام حسن نے تخت و تاج کو ٹُھکرا کر اُمّتِ رسول کی وِحدت کو بچا لیا -‘‘

ہم نوجوانوں کیلئے اب اس میں سیرت سازی یہ ہے کہ ہم یہ تہیّہ کر لیں کہ ہمارے وجود سے ، ہمارے افکار و گفتار و کردار سے ، ہمارے افعال و اقوال و اعمال سے اور ہماری تقاریر و تحاریر و تجاویز سے مِلّتِ اِسلامیّہ کی وِحدت و یکجہتی میں دراڑ نہیں آنے پائے گی اگر کہیں ہمارا کردار اتحاد وحدتِ اُمّت کے منافی جاتا ہے تو ہمیں سیّدنا امام حسن ص کو اپنا آئیڈیئل اور رول ماڈل بنانا چاہئے {حافظِ جمعیتِ خیر الامم}- اگر عالمی منظر نامے میں ہم اپنی اسلامی حیثیت کو دیکھیں تو یہ بر ملا کہنا پڑتا ہے کہ یہ ملت اب مزید کسی تفرقہ پرستی و فرقہ وارانہ فساد کی مُتحمّل نہیں ہو سکتی - بلکہ اقبال ایسے نوجوان تیّار دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو حضرت امام حسن کی طرح رسولِ پاک ﷺ کی امت کی وِحدت کے محافظ بن جائیں -دوستو! آپ جس آستان پر موجود ہیں یہاں سے تو ہمیشہ تلقین ہی یہی کی گئی ہے کہ خود فرقہ واریّت سے پاک کریں اور قرآن و سُنّت کے اُس حقیقی معیار پہ لائیں جہاں ہم کسی فرقہ کے نمائندہ کہلانے کی بجائے اِسلام کے نمائندہ کہلائیں اور شایَد زیادہ درست بھی یہی ہے ، قرآن و سُنّت کا پیغام بھی یہی ہے ، سلف صالحین و اولیائے کاملین نے بھی اِسی بات کی تلقین کی ہے ، سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی پیغام ہے اور حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین نے بھی اِسی بُنیاد پر اپنی تحریک کو قائم فرمایا ہے :  

ناں میں سنی ناں میں شیعہ میرا دوہاں توں دل سڑیا ھُو

مک گئے پینڈے خشکی والے جدوں دل دریا وِحدت وچ وڑیا ھُو

واں دگر مولائے ابرارِ جہاں

قوتِ بازوئے احرارِ جہاں

’’اور دوسری وہ ہستی ہے جو کائنات کے نیکوں کی امیر ہے ، دنیا بھر کے جتنے بھی حریت پسند ہیں ان کے بازو کی قوت امام حسین ص کی ذاتِ گرامی ہیں -‘‘

در نوائے زندگی سو ز از حسین

اہلِ حق حریت آموزاز حسین

’’اس زندگی کے نغمے میں جو سوز و ساز ہے و ہ امام عالی مقام سیدنا امام حسین ص کی ذات گرامی سے ہے اور جو اہلِ حق ہیں انہیں آزادی کا سبق حریت، غیرت، شجاعت، حق پر ڈٹ جانے کا سبق ، حق کیلئے کٹ جانے کا سبق وہ امام عالی مقام ص کی شخصیت سے ملتا ہے-‘‘

سیرتِ فرزندہا از امہات

جوہرِ صدق و صفا از امہات

’’مائیں بیٹوں کی سیرت و کردار بناتی ہیں اور انہیں صدق و صفا کا جوہرِ کامل عطا کرتی ہیں -‘‘

اِقبال کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یہ دونوں شھزادگان حسنین کریمین کا رُوحانی و مِلّی رُتبہ سیّدہ زہرہ رضی اللہ عنھا کی تربیّت کا اثر تھا -

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادراں را اسوۂ کامل بتول

’’جو تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اوراس کا کامل ترین نمونہ سیدہ فاطمہ ہیں اور آج کی مائوں کا کامل اسوہ وہ بھی سیدہ فاطمہ ہی ہیں -‘‘

بہر محتاجے دلش آں گونہ سوخت

با یہودے چادرِ خود را فروخت

’’ایک محتاج (کی مدد )کیلئے آپ کا دِل اِس قدر تڑپا کہ اپنی چادر ایک یہودی کو فروخت کر کے اُس کی مدد کی ‘‘-

اگر ایک سائل در پر آگیا اور اس کو عطا کرنے کیلئے گھر میں کوئی رقم نہ تھی لیکن یہ خیال آیا کہ مَیں سخیوں کے سخی کی بیٹی ہوں جس کے دربار سے کبھی کوئی خالی نہیں گیا ، لوگ کیا کہیں گے کہ رحمۃ اللعالمین ، جہاں بھر میں خزانے تقسیم کرنے والے کی بیٹی کے در سے سائل خالی چلا گیا تھا ، اس محتاج کو خالی واپس جاتا دیکھ کر آپ کا دل گداز ہوگیا اور اپنے سَر کی چادر ایک یہودی کو فروخت کردی کہ میرے در سے یہ منگتا خالی نہ چلا جائے -کسی نے کیا خوب کہا تھا:

چور ہن وی اتھوں بن کے آوے ولی

چور اوتھے نہ جاوے تے مَیں کی کراں

کہ چور تو آج بھی اُن کی چوکھٹ سے ولی بَن کے آتے ہیں اگر کوئی اُن کی چوکھٹ تک جائے ہی ناں ، قصد ہی نہ کرے تو میں کیا کر سکتا ہوں - کیا ہم نے رسول پاک ﷺ سے ان کی رحمت اور شفاعت طلب کرتے وقت کبھی سیدہ زہرہ رضی اللہ عنھا کو وسیلہ بنایا ہے ؟ ان کی ذات گرامی کے توسل سے رسول پاک کی بارگاہ تک رسائی اختیار کرو اور حضرت سلطا ن باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے سیدۃ النساء رضی اللہ عنھا کیلئے ایسے عظیم اَلقابات استعمال فرمائے ہیں کہ عقل دنگ رِہ جاتی ہے - رسالہ روحی شریف میں آپ فرماتے ہیں کہ سات سلطان الفقراء کی پہلی روح حضور سیدۃ النساء کی ہے اور دوسرا آپ فرماتے ہیں کہ وہ خاتونِ قیامت ہیں ہر جگہ پر خاتونِ جنت کہا گیا لیکن آپ نے خاتونِ قیامت کہا ہے ،ہم ان کے درپر، ان کی چوکھٹ سے مانگ کر تو دیکھیں، ان کا نمونہ عمل اپنا کر تو دیکھیں- اقبال مزید گوہر بکھیرتے ہیں :

نوری و ہم آتشی فرمانبرش

گم رضایش در رضائے شوہرش

’’چاہے ملائکہ ہیں ، چاہے جنات ہیں وہ سب کے سب سیدۃ النسا ء کے حکم کے تابع ہیں ، (اِس قدر قُوّت و اِختیار کے باوجود کمال یہ ہے کہ) اُن کی رضا اپنے شوہر کی رضا میں گم تھی -‘‘

آں ادب پروردۂ صبر و رضا

آسیا گردان و لب قرآں سرا

’’آپ نے صبر و رضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی ، ہاتھوں سے چکی چل رہی ہوتی تھی اور ہونٹوں پہ قرآن جاری ہوتا تھا - ‘‘

گریہ ہائے او زبالیں بے نیاز

گوہر افشاندے بد امانِ نماز

’’آپ کے آنسو آپ کے تکیہ پر کبھی بھی نہیں گرے (یعنی تنگیٔ حالات پہ کبھی رنج نہیں ہوا ) البتّہ نماز کے دوران آپ کے آنسو موتیوں کی طرح بہتے تھے-‘‘

اشکِ او بر چید جبریل از زمیں

ہمچو شبنم ریخت بر عرش بریں

’’ان کے آنسوئوں کا اتنا تقدس تھا کہ جبریل امین زمین پر وہ آنسو نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ گرنے سے پہلے ان آنسوئوں کو اٹھا لیتے تھے اور شبنم کی طرح عرش پر اُن آنسوؤں کو نچھاور کردیتے -‘‘

پھر اقبال کہتے ہیں کہ اے سیّدہ ! اے لختِ جگرِ رسول! مَیں مجبور ہوں کہ ایک طرف میرے باطن کی عقیدت ہے ایک طرف میرے اندر کا وجد و ذوق ہے اور ایک طرف آپ کے بابا کی شریعت ہے -

رشتۂ آئینِ حق زنجیر پا ست

پاسِ فرمانِ جنابِ مصططفیٰ است

’’اللہ کے دین کا رشتہ میرے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے رسولِ پاک کے فرمان کا پاس ہے -‘‘

ورنہ اے سیدۃ النساء ! میری عقیدت یہ چاہتی ہے کہ

ورنہ گردِ تربتش گردیدمے

سجدہ ہا برخاکِ او پاشید مے

’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کی قبر کا طواف شروع کردوںاور اگر آئینِ حق تعالیٰ سے میرا رشتہ اُستوار نہ ہو اور اگر مجھے رسول پاک کی شریعت کا پاس نہ ہو تو میں آپ کی قبر کو سجدے کروں، اس مٹی کو سجدے کروں جس میں آپ کا وجود پوشیدہ ہے-‘‘

یہ مقام ہے سیدۃ النساء کا کیونکہ وہ نورِ چشمِ رحمۃ اللعالمین ہیں ، وہ فقر کی سلطانِ اوّل ہیں لیکن اس عقیدت کے باوجود ، عشق کی اس انتہا کے باوجود اقبال نے شریعت مصطفوی کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا-کہہ بھی نہیں سکے لیکن اظہار کردیا کہ یا سیدہ! آپ کے مقام کو کون جانتا ہے؟

یہ وہ اُسوہ ہے ہماری بیٹیوں ، بہنوں کیلئے ہمارے اہلِ خانہ کیلئے اگر اسے ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں - صوفیاء نے ایک واقعہ اکثر پیش کیا کہ ایک بال سیدۃ النساء کی پیشانی سے باہر آیا ہوا تھا تو سورج نے حیا کی اور طُلوع نہ ہوا - دوستو ! ایسی گود میں شبیر و شبّر ، حسن اور حسین پلتے ہیں-

میرے بھائیو اور بزرگو یہ وہ اسوۂ حسنہ ہے ، یہ وہ مقام ہے جس کو ہم نے سنناہے ، سمجھنا ہے اور عمل پیرا ہونا ہے -اور آخر میں حضرت علامہ کی ایک نظم جس کانام ’’ در معنی ٔ حریت اسلامیہ و سرّ حادثہ ٔ کربلا‘‘ ہے کہ اسلامی حریت کیا ہے؟اور حادثۂ کربلا کیا ہے؟

آں شنید ستی کہ ہنگامِ نبرد

عشق با عقلِ ہوس پرورچہ کرد

’’کہ کیا تُو نے اس ہنگامہ کے متعلق سنا ہے کہ جس میں عشق نے عقلِ ہوس پرور کو ٹھکانے لگا دیا تھا -‘‘

آں امام عاشقاں پورِ بتول

سروِ آزادے ز بستانِ رسولؐ

’’وہ عاشقوں کے امام سیدہ فاطمہ کے فرزند جو حضورِ اکرم ﷺ کے باغ کے سیر و آزاد تھے -‘‘

کیا ہوا ؟ شہادتِ حسین کا راز کیا تھا؟

اللّٰہ اللّٰہ بائے بسم اللّٰہ پدر

معنیٔ ذبح عظیم آمد پسر

’’اللہ اللہ - جن کے والد کا رُتبہ بسم اللہ کی ’’ب‘‘ ہونا ہے اُن کا اپنا مقام قرآنی وعدہ ’’ذبحِ عظیم‘‘ کی عملی تعبیر ہے ‘‘

حدیث مبارک ہے کہ پورا قرآن سورۃ فاتحہ میں ہے اور سورۃ فاتحہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’ب‘‘ کے نقطہ میں ہے -اور حضرت علی ص  سے کسی نے پوچھا کہ نقطہ کا راز کیاہے؟ آپ نے فرمایا کہ نقطے کا راز مَیں ہوں ، نقطے کا راز علی ہے- واہ کیا شان ہے کہ بسم اللہ کا نقطہ والد بنے اور ذبح عظیم کا معنی وہ بیٹا امام حسین ص  بنے - اور یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب حضرت اسماعیل ں کی جگہ مینڈھا رکھ دیا گیا تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کیلئے ایک عظیم ذبیحہ تیار کر رکھا تھا اور اس کیلئے اقبال نے اپنے اردو کلام میں بھی اشارہ کیا-

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اس کی اسماعیل

کہ اس کی ابتدا اسماعیل ں سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا امام عالی مقام ص  پر ہوتی ہے -

بہرِ آں شہزادۂ خیر الملل

دوش ختم المرسلیں نعم الجمل

’’بہترین امت (امت مسلمہ) کے شہزادے کیلئے حضور ختم المرسلین کا دوشِ مبارک سواری تھی اور کیا ہی اچھی سواری تھی-‘‘

یہ حدیث مبارک ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کندھے پر ایک طرف امام حسن ص  اور دوسری طرف امام حسین ص  بیٹھے تھے تو سامنے حضرت عمر فاروق ص  آگئے انہوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یارسول اللہ ا کتنے اچھے سوار ہیں تو حضور ا نے فرمایا اے عمر ( ص ) ! سواری بھی کیا اچھی ہے-

سر خ رُو عشقِ غیور از خونِ او

شوخی ٔ ایں مصرع از مضمونِ او

’’کہ عشقِ غیور ان کے خون سے سرخرو ہوا-مصرعہ عشق کی شوخی اسی مضمون (واقعہ کربلا) سے ہے-‘‘

پھر اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمانو ! کبھی غور کیا ہے کہ تمہارے درمیان ، اِس اُمَّت کے درمیان نوسۂ رسول ا کی کیا حیثیت ہے ؟ اُن کا وجد تمہارے درمیان کس اہمیّت کا حامل ہے ؟

درمیانِ اُمَّت آں کیواں جناب

ہمچو حرف قل ھواللہ در کتاب

’’حضور ا کی اس امت کے درمیان سیدنا امام حسین ص  اس اہمِیَّت کے ساتھ موجود ہیں ، جس طرح قرآن میں سورۃ اخلاص کی اہمیت ہے -‘‘

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید

ایں دو قوت از حیات آید پدید

’’موسیٰ ں اور فرعون اپنے دور میں تھے اور یہاں شبیر اور یزید اپنے دور میں تھے اور حق و باطل کی یہی وہ قوت ہے جو ہر عہد اور ہر دور میں ایک دوسرے کے سامنے رہی ہے -‘‘

اور آج بھی اگر دیکھیں تو اقبال یہی کہتے ہیں :

نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے

وہی فطرتِ اسد اللہی ، وہی مرحبی ، وہی عنتری

’’نہ میدا ن نیا ہے ، نہ جنگ لڑنے والے نئے ہیں،ایک طرف علی ص کی فطرت بھی وہی ہے اور دوسری طرف مرحب کی فطرت بھی وہی ہے-‘‘

زندہ حق از قوتِ شبیری است

باطل آخر داغِ حسرت میری است

’’کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ ہے اور باطل کا انجام حسرت کی موت ہے -‘‘

چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت

حُرّیّت را زہر اندر کام ریخت

’’عہدِ یزید میں خلافت جب احکاماتِ قرآن کی بجائے ذاتی مفادات پر استوار ہوگئی تو گویا حریت کے حلق میں زہرِ قاتل اُنڈیل دیا گیا -‘‘

خاست آں بر جلوۂ خیرالاممؓ

چوں سحابِ قبلہ باراں در قدم

جب اسلام پر یہ کیفیت آگئی کہ قرآن مسلمانوں کے درمیان سے اٹھ گیا اور اللہ کی وفا داری کی بجائے مسلمان ، بندوں کے وفادار ہوگئے اللہ کی حاکمیت کے بجائے جب بندوں کو حاکمِ اعلیٰ ماننے لگ گئے، جب اللہ کی اطاعت کی بجائے حکمرانوں کی اطاعت کرنے لگ گئے یہ وہ وقت تھا جب مدینے سے حریت کا وہ بادل اٹھا اور رسولِ پاک ﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے کربلا کی خاک پر حریت کا وہ بادل برسا جہاں پر اسلام کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی ، جہاں لوگوں کو یہ مفہوم ملا کہ قرآن اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ بندوں سے وفاداری کی بجائے اللہ سے وفاداری قائم کی جائے اقبال کہتے ہیں جس طرح مکے کی اُس بے آب و گیاہ وادی سے اللہ کے نظام کو قائم کرنے کیلئے رسولِ پاک ﷺنکلے تھے اُسی طرح رسولِ پاک ﷺ کے بعد اُسی جلوے کو زندہ کرتے ہوئے مدینہ کی خاک سے کربلا کی طرف محمد الرسول اللہ ﷺ  کا نواسہ سفر شروع کرتا ہے -

بر زمینِ کربلا بارید و رفت

لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت

’’یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا ،اس ویرانے میں گُل ہائے لالہ اُگائے اور آگے بڑھ گیا -‘‘

تا قیامت قطعِ استبداد کرد

موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد

قیامت تک کیلئے امام عالی ص  مقام نے جبر کا ہاتھ کاٹ دیااور امام عالی مقام ص  کے خون سے حریت کے، دین کے چمن کی آبیاری ہوئی ، دین کے اس پودے کو جب کوئی پانی سازگار نہیں آرہا تھا اُس امام عالی مقام ص  نے اپنا اور اپنے عزیز و اقارب کے خون کی قُربانی سے دین کے اس مرجھاتے ہوئے پودے کو آبیاری عطاکی اور دین کو ایک نئی زندگی عطا کی-اسی لئے کسی نے کیا خوب کہا تھا:

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جب خونِ حسین ص  اسلام کو عطا ہوتا ہے اس وقت اسلام میں وہ روح پڑتی ہے اور میرے نوجوان ساتھیو! آج کا وقت بھی اگر آپ دیکھیں یہ حالات کربلا سے مختلف نہیں ہیں اقبال پکارتا ہے حسین کدھر ہیں ؟ حسرت کرتا ہے اور کہتا ہے :

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہیں منتظر ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

خاکِ حجاز منتظر ریگِ عراق تشنہ کام

خونِ حسین باز دہ کوفہ و شامِ خویش را

’’ حجاز کی مٹی تمہارے خون کی منتظر ہے عراق کی ریت پھر تمہارے خون کی پیاسی ہوچکی ہے، تُوکیوں سو گیا ہے جا کہ کوفہ و شام آج پھر خونِ حسین کے متلاشی ہیں کیونکہ آج پھر شجرِ دین مرجھا رہا ہے ، یہ پھر تیرا خون مانگتا ہے ، یہ تیرا جذبہ مانگتا ہے ، یہ تری استقامت مانگتا ہے ، یہ دین سے تیری وفادار ی مانگتا ہے ، یہ اللہ سے تیری وفا داری مانگتا ہے-‘‘

 اسی لئے اقبال کہتے ہیں کہ

؎موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد

آج دین کا چمن پھر مرجھا رہا ہے اے مسلمانو! حسین ص  کے ماننے والو ! دین کے اس چمن کی اگر آبیاری ہو گی تو پھر تمہارے خون سے ہوگی اُس خون سے کم اب دین کی آبیاری نہیں ہوسکتی اس لئے ہم جب حسینیت کی بات کرتے ہیں تو اگر حسینیت کا وہ فکر و جذبہ حق ہے تو آج اس جذبے کو نوجوانوں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہے کہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو مانا جائے یہ ہمارے اوپر دیگر نظام مسلط کیے جارہے ہیں کبھی سیکو لر ازم ، جاگیرداری کا سلسلہ اور سود نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اگر حسینیت پر یقین رکھتے ہو تو سُود کے خلاف، جاگیرداری کے خلاف، سرمایہ داری، لادینیت کے خلاف جہاد کرو-ہم حسین کا نام بھی لیں ، حسین کے نام پر محافل بھی منعقد کروائیں اور ہمارے ہوتے ہوئے ان نظام ہائے باطل کے خلاف کوئی جدو جہد بھی نہ ہو رہی ہو تو یہ جواز بن جائے گا کہ ہمیں حسینیت سے نسبت نہیں ہے ، ہمیں حسینیت کی پیروکاری نہیں ہے ، ہمیں اہلِ بیت سے محبت نہیں ہے - اپنے آپ کو تیار کر لو ، اپنی صفوں کو درست کر لو آج اگر دین کی آبیاری ہوگی تو پھر میرے اور آپ کے خون سے ہوگی قربانیوں سے اور جہاد سے ہوگی-

بحرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است

پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است

’’وہ نواسۂ رسول کربلا کی ریت میں خون سے لت پت ہیں ،کیا پیغام اُس سے تم لے رہے ہو؟وہ دین کی حفاظت کیلئے خاک و خون میں مل گئے اسی لیے وہ ’’لا الٰہ الّااللہ ‘‘ کی بنیاد بن گئے -‘‘

( سر داد، نہ داد دست، در دستِ یزید

حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین)

مدعایش سلطنت بودے اگر

خود نکردے باچنیں سامانِ سفر

’’اگر اُن کا مقصُود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اِتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ یہ سفر اِختیار نہ کرتے ‘‘-

اگر یہ دو شھزادوں کی لڑائی ہوتی یعنی امام عالی مقام ص  کا مدعا سلطنت ہوتا تو اپنی بیویوں ، بچوں اور ان کے نئے نویلے سہاگ کو ، امام قاسم ص  کے سہرے کی لڑیوں کو اپنے ساتھ لے کر نہ چلتے وہ سلطنت کی جنگ لڑنے نہیں بلکہ وہ حق کی جنگ لڑ نے جا رہے تھے -

دشمناں چوں ریگِ صحرا لا تعد

دوستانِ او بہ یزداں ہم عدد

’’جس طرح صحرائے کربلا کی ریت کے ذرے نہیں گنے جاسکتے اسی قدر امام عالی مقام ص کے سامنے جو دُشمن کھڑے تھے اُن کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا- جبکہ حضرت امام عالی مقام کے دوست لفظِ یزدان کے اعداد کے برابر یعنی صرف بہتر(۷۲) تھے-‘‘

اِس شعر کے دوسرے مصرعہ میں اقبال کی علم الاعداد پہ دسترس کا اَندازہ ہوتا ہے اور کِس طرح اقبال نے بہتّر (۷۲) شُہدائے کربلا کا لفظِ یزداں سے عددی و رُوحانی تعلُّق تلاش کیا ہے چونکہ یزدان اللہ تعالیٰ کا اسمِ صفت ہے اور شُہدائے کربلا کی قُربانی خالصتاً للہ تھی اِس لئے اُن کا تعلُّق بااللہ اُن کے عدد سے بھی معلوم ہوتا ہے - اگر بہتّر (۷۲) کا مُفرد عدد نکالیں تو وہ پانچ (۵) بنتا ہے جس کی نسبت پنجتن پاک سے بنتی ہے - بہرحال یہ ایک بالکل الگ حکیمانہ بحث ہے - اقبال پھر {وفدینہ بذبحٍ عظیم} کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

سر ابراہیم و اسماعیل بود

یعنی آں اجمال را تفصیل بود

’’کربلا میں حضرت ابراہیم ں اور حضرت اسماعیل ں کے راز کو منکشف کیا گیا یعنی وہ اشارہ جو قرآن نے ذبح عظیم کا دیا تھا امام عالی مقام ص نے اس اشارے کو تفصیل فراہم کی -‘‘

عزمِ او چوں کوہساراں استوار

پائدار و تند و سیر و کامگار

’’ان کا عزم پہاڑوں کی مانند محکم تھا پائیدار تھا اور آمادہ بہ عمل تھا اور وہ کامیاب ہوئے-‘‘

تیغ بہرِ عزت و دین است و بس

مقصدِ او حفظِ آئین است و بس

’’امام عالی مقام ص کی تلوار صرف دین کی عزت اور آئینِ دین کی حفاظت کیلئے وہاں پر نکلی تھی -‘‘

ماسویٰ اللہ را مُسلماں بندہ نیست

پیشِ فرعونے سرش اَفگندہ نیست

’’مسلمان اللہ کے علاوہ کسی کا بندہ نہیں اور نہ ہی وہ کسی فرعونِ وقت کے سامنے سر جُھکاتا ہے -‘‘

خونِ او تفسیر ایں اسرار کرد

ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد

’’سیدنا امام عالی مقام ص کے خون نے اِ س راز (گزشتہ شعر میں بیان کیا گیا ) کی تفسیر پیش کی اور اپنے خُون کے نذرانہ سے ملتِ اسلامیہ کو بیدار کیا-‘‘

تیغِ لا چوں از میاں بیروں کشید

از رگِ ارباب باطل خوں کشید

’’انہوں نے صحر ائے کربلا میں جب ’’لا‘‘ کی تلوار میان سے نکالی تو اہلِ باطل کی رگوں سے خون نچڑ گیا -‘‘

نقش الا اللّٰہ بر صحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نوشت

لوگو ! تُم سمجھتے ہو کہ امام عالی مقام ص کی گردن سے ٹپکنے والا خون ریگزارِ کربلا میں یوں ہی مِل رہا تھا - ارے نہیں :

’’امام عالی مقام ص کا خون کربلاکی ریت پر نقشِ الا اللہ قائم کررہا تھا-ہماری نجات کے مضمون کا عنوان امام حسین ص کے خون سے لکھا گیا -‘‘

اقبال کہتے ہیں قرآن سمجھنا چاہتے ہو؟قرآن کی رمز سمجھنا چاہتے ہو؟خدا کا دین کس طرح مکمل ہوتا ہے ؟{لیظھرہ علی الدین کلہ - الیوم اکملت لکم دینکم}اس کی عملی تشریح کیا ہے ؟ نوجوانو ! کس کی سیرت تمہاری سیرت کی تعمیر کر سکتی ہے؟ کس کی برقِ سوزاں کی تجلّی تمہارے خرمنِ خواہشات کو جلا سکتی ہے ؟ کس کے عشق کی بھٹھی کی آگ تمہیں کُندن کر سکتی ہے ؟ کس کی آتشِ صداقت تمہارے وجود سے کذب و رِیا کے جراثیم جلا سکتی ہے ؟ کِس کی طیّب و طاہر سانسوں کی حرارت تمہاری سانسوں کو یادِ اِلٰہی اور رضائے اِلٰہی میں گم ہونا سِکھا سکتی ہے ؟ وہ آتشِ قلب نوجوانانِ اِسلام کہاں سے سیکھ سکتے ہیں ؟ کِس کے چراغ کی لَو تمہارے چراغ کو روشن کر سکتی ہے ؟ کس کی آتشِ ایمانی تمہارے شعلۂ نَم خوردہ میں شررِ زندگی پھونک سکتی ہے ؟ اِقبال اِن سوالات کا ایک جامع ترین جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :

رمزِ قرآں از حسین آموختیم

ز آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم

’’ہم نے قرآن کا راز امام عالی مقام ص سے سمجھا ہے اور انہی کی روشن کی ہوئی آگ سے ہم نے آزادی کے شعلے اکٹھے کیے ہیں‘‘ -

اور پھر اقبال اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج یہ حالت ہے :

شوکتِ شام و فرِِّ بغداد رفت

سطوتِ غرناطہ ہم از یاد رفت

’’دمشق و بغداد کے محلّات کی شان و شوکت جاتی رہی ، اور سطوتِ غرناطہ (ہسپانیّہ/ اسپین) کی یاد بھی ہمارے ذہنوں سے نِکل گئی ‘‘-

’’شام و عراق کی شوکت بھی گئی ‘‘ اقبال نے دو طرف اشارہ کیا ہے اس وقت شام میں اُمویوں کی حکومت تھی ، بغداد میں عباسیوں کی خلافت قائم تھی - اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ بادشاہوں کے محلّات کے دبدبے اور اُن کا احترام جاتا رہا شام کی شوکت بھی چلی گئی اور بغداد کا دبدبہ بھی چلا گیا غرناطہ یعنی سپین کی سطوت بھی ہمارے دماغ کی یاد داشت سے نکل گئی - لیکن !

تارِ ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز

تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز

’’ لیکن ! ہماری زندگی کے تار ابھی تک امامِ عالی مقام ص کے زخم سے لرزاں ہیں - اُنہوں نے صحرائے کربلا میں احیائے دین کی جو تکبیر بُلند کی تھی وہ آج بھی ہمارے ایمانوں کو تازہ رکھّے ہوئے ہے -

امام عالی مقام ص کی ذاتِ گرامی کے جسموں پر لگے ہوئے زخموں سے آج بھی ہماری روح وہی درد اور تکلیف محسوس کرتی ہے حسین کو مٹانے والے مٹ گئے، نقشِ حسین مٹانے والے مٹ گئے ،لیکن اگر باقی رہا ہے تو امام عالی مقام کا نام باقی رہا ہے ، باقی رہا ہے تو خونِ حسین باقی رہا ہے ، آج بھی کربلا کی ریت کے ذروں سے بانگِ تکبیر بلند ہورہی ہے ، نعرۂ تکبیر اگر قائم ہے تو یہ امام عالی مقام ص  کے دم قدم سے قائم ہے - اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

فقرِ عُریاں گرمی ٔ بدر و حنین

فقرِ عُریاں بانگِ تکبیرِ حسین

فقر کے نام لیوائو! سمجھو فقر کیا ہے؟فقرِ عریاں بدر و حنین کی گرمی ہے ،فقرِ عریاں امام عالی مقام ص  کی وہ بانگِ تکبیر ہے جو انہوںنے کربلا میں بُلند کی تھی - ہم آج یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم فقر کی کیفیتِ جمال میں تو آگئے ہیں اور اس سے آگے ہماری منزل کیفیتِ جلال ہے جیسے اقبال کہتے ہیں :

اے صبا اے پیک دور افتادگاں

اشکِ ما بر خاکِ پاکِ او رساں

’’پھر اقبال بادِ صبا (ہوا)کو مخاطب کر کے کہتے ہیں تُو آج امام عالی مقام ص کے درِ اقدس پر جا اور ہمارے آنسوئوں کے یہ چند تحفے امام عالی مقام ص کی نظر کر دے امام عالی مقام ص کی بارگاہ میں پیش کردے -‘‘

؎کہ گر قبول افتد زہے عزو شرف

اے امام عالی مقام ص ! یہ آپ کی یاد میںچند آنسوؤں کا حقیر سا تُحفہ ہے جو ہم آپ کی بارگاہ میں بھیج رہے ہیں -

لیکن میرے بھائیو اور ساتھیو! یاد رکھیں

یہ وہ اسوۂ کامل ہے ،یہ تربیت کا وہ عملی سبق ہے جسے ابتدا سے بندہ ناچیز نے عرض کیاکہ پنجتن پاک کا یہ عملی نمونہ ہے اگر یہ ہمارے وجود میں آجائے ، اگر ہم اسے بنظرِ غائر دیکھ لیں اور اِسے اپنا لیں تو یہ بات ہمارے بقا کی ، وفا کی ، افتخارکی ، وقار کی ضامن ہے لیکن اگر حب اہلِ بیت نہیں اگر وسیلۂ پنجتن نہیں یعنی مصطفویت ، حیدریت ، بتولیت، شبیریت اور نظریّۂ حافظِ جمعیّتِ خیر الامم کو ہم نے نہیں اپنایا تو پھر ہمارے وجود اس طرح سے نہیں تیار ہوسکتے - حضور ﷺ کی اس امت میں رہتے ہوئے ان پانچ شخصیات کے اسوۂ حسنہ پر عمل نہیں کیا تو نہ ہمارا حضور سے کوئی عہد قائم ہے اور نہ ہی اہلِ بیت سے-ہمارے یہ عہد اگر قائم ہوں گے تو وہ ہمارے عمل سے ہوں گے-ہم اپنے مرشد، قائد کی بارگاہ میں بیٹھے ہیں ہمیں یہاں سے جو قوت لے کر جانی ہے ، جو جذبہ یہاں سے لے کر جانا ہے وہ عمل کی قوت اور جذبہ لے کر جانا ہے تو پھر یہاں آنا ، بیٹھنا اور بولنا، سننا بھی بے سُود نہ ہوگا - یہ سارا کچھ ہمارے لیے سودمند اور اچھائی کا باعث بنے گا اگر ہم یہاں امام عالی مقام ص  کا عزم لے کر اٹھتے ہیں ، وہ فقرِ عریاں لے کر اٹھتے ہیں ، وہ بانگِ تکبیر لے کر اٹھتے ہیں ،وہ قوتِ عمل لے کر اٹھتے ہیں کہ پہلے ہم اپنی اس خاک کے حکمران بن جائیں ، تصورِ اسم اعظم سے اپنے دل کی دنیا کو روشن کر لیں ، اس خاک کو مسخر کر لیں جب یہ خاک مسخر ہوجائے گی اور یہ نفس امارہ سے نفسِ مطمئنہ بن جائے گا،قلب صاف اور روح بیدار ہوجائے گی، ہمیں وہ معرفتِ ذاتِ حق تعالیٰ نصیب ہوجائے گی ، ہم جہاد بالنفس سے آگے نکل جائیں گے اورپھر ہمیں آگے جانا ہے جس کی طرف اقبال ہمیں تیار کرتے ہیں کہ اپنے نفس کا تزکیہ کر ، اپنے قلب کا تصفیہ کر، اپنی روح کو بیدار کر کیونکہ تُو نے اِس دنیا کی امامت کا فریضہ سر انجام دینا ہے -

سبق پھر پڑھ عدالت کا ، صداقت کا، شجاعت کا

لیے جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

تم نے دنیا کی امامت کا فریضہ سر انجام دینا ہے - جدو جہد کرو ، اپنے اندروہ عزمِ عمل باندھو، قوم کی اس فقرِ جلالی کا ظہور قریب تر ہوچکا ہے -

؎قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے

لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب

عالَمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں

میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب

تیار ہو جائیے وہ امامت کی ڈیوٹی آپ نے سر انجام دینی ہے ، وہ غلامی ٔ حسین ص  ، غلامی ٔ حسن ص  ، غلامی ٔ بتول رضی اللہ عنھا، غُلامیٔ شیرِ خُدا  ص اور غلامی ٔ  مصطفے ﷺ کی ڈیوٹی آپ نے سر انجام دینی ہے - خدا کی اس زمین پر جانشینِ سلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں اللہ کے نظام کا نفاذ کرنا ہے -

اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے-

٭٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر