واجب الاحترام بھائیو اور بزرگو اور ساتھیو! اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ!
سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ، کے آستانہ عالیہ سے چلائی گئی اِس تحریک اور اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے آغاز و مقاصد سے آپ سبھی با خوبی آگاہ ہیں جس کا مشن اور مقصد قرآنِ مجید اور حدیث مبارکہ کی روشنی میںاَولیا ئے کاملین کی تعلیمات کو عوام النّاس تک پہنچانا ہے اور جس معاشرے کے اندر، جس سوسائٹی کے اندر ہم رہ رہے ہیں اِس معاشرے کا اِستحکام اور اِس معاشرے کی ترقی اِس معاشرے میں اَمن کو قائم کرنا اور رسول پاک اِمام الانبیائ حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی اُمت کی وحدت کی محافظت، اِس ملت کی شرازہ بندی اور اِس وطنِ عزیز اِسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع اور عامۃالناس میں اِس پیغامِ ہدایت کی ترویج جس پیغامِ ہدایت نے سلگتی، سسکتی، بلکتی، روتی، مرثیہ پڑھتی اور ماتم کرتی ہوئی اِس اِنسانیت کو اَمن بھی عطا فرمایا اور اِستحکام بھی عطا فرمایا اور اِس کے آنسو بھی پونچھے اور اِس کا دُکھ درد بھی بانٹا-
میرے بھائیو اور بزرگو! اگر آپ مجھے یہ کہنے کی اِجازت دیں تو مَیں یہ ضرور عَرض کرنا چاہوں گا کہ جس عہد میں، جس دَور میں، جس زمانے میں، دینِ اسلام کا ظہور ہوا وہ عہد، وہ دَور، وہ زمانہ ایک تہذیبی جہالت کا زمانہ تھا- تہذیبی درندگی کا زمانہ تھا جگہ جگہ قتل و غارت تھی، خون خرابے تھے، فسادات تھے، خانہ جنگیاں تھیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اِنسانیت کا بہت ہی درد ناک، بہت ہی اَلم ناک اور عبرت ناک انداز میں قتل کیا جاتا تھا- قاتل کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ مجھے کس لئے قتل کیا گیا؟ بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا- بیٹیاں نفرت کی اور نامردانگی کی علامت سمجھی جاتی تھیں اور معاشرے کے اندر اِنسان کا جو وقار تھا، اِنسان کی جو عزت تھی، اِنسان کی جو توقیر تھی وہ اِس کے مادی خصائل اور مادی وسائل کی بنیاد پہ اِنسان کی عزت اور توقیر کی جاتی تھی بہ طورِ انسان، بہ طورِ اُولادِ آدم اِنسان کی اپنی حیثیت میں اِس کی عزت کھو چکی تھی اِس کا مادی سٹیٹس اگر تھا تو اِس کی عزت تھی اگر اِس کا مادی سٹیٹس نہیں تھا تو اِس کی کوئی عزت نہیں تھی-
بہ طورِ دین کے ایک اَدنی ترین طالب علم کے، ایک ناقص ترین طالب علم کے، ایک گناہ گار طالب علم کے طور پہ جب دِین کو آپ دیکھتے اور سمجھتے اور اِس کے بنیادی پیغام میں جھانکتے ہیں اور دِین کا عہدِ حاضر کے اُوپر جس عہد میں آپ اور ہم زندہ ہیں اِس عہد کے اُوپر اِس کا عملی نفاذ دیکھتے ہیں تو یقین فرمائے! اُس عہدِ جہالت کے اندر اور آج کے عہد کے اندر آپ کو کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا- آج بھی لوگ بے بنا، بے وجہ قتل کیے جاتے ہیں، آج بھی دُنیا جنگوں کے اندر اُلجھی ہوئی ہے، قتل و غارت میں اُلجھی ہوئی ہے، خون ریزی میں اُلجھی ہوئی ہے، مار دھاڑ میں اُلجھی ہوئی ہے، اَسلحہ بنانے میں اُلجھی ہوئی ہے، اَسلحہ بیچنے میں اُلجھی ہوئی ہے، اَسلحہ کی نمائش میں اُلجھی ہوئی ہے- قاتل کو پتا نہیں میں نے کیوں قتل کیا مقتول کو معلوم نہیں میں کیوں قتل کیا گیا؟ چھوٹی چھوٹی رنجشیں بڑی بڑی عداوتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں-
اِنسان کا وقار، اِنسان کی عزت اُس کے مادی سٹیٹس کے ساتھ مشروط ہو کر رہ گئی ہے- بہ طور اِنسان اِنسان اپنا وقار خود اپنے ہاتھوں سے کھوتا جا رہا ہے اور یہ اَفرا تفری کا عالم ہے کہ جیسے کسی نے صحیح کہا تھا کہ بھاگتے کُتے نے اپنے ساتھی کُتے سے کہا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا- اِس سطح پہ ہم اپنے آپ کو لے آئیں ہیں ذِلّت کمائی، رُسوائی کمائی، پستی کمائی، عبرت کمائی، اذیت کمائی، ہم نے ایذائ کمائی ہے- ہم سے مُراد یہ پورا اِنسانی مُعاشرہ ہے اور بالخصوص یہ اُمت ِمسلمہ ہے- آقاپاک ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اِنہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے- یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سی دو چیزیں ہیں، آقا کریم ﷺ نے فرمایا :-
﴿کتاب اللہ و سنۃ رسو لہ ﴾
اللہ کی کتاب چھوڑے جا رہا ہوں اور اللہ کے رسول کی سنت چھوڑے جا رہا ہوں -
اِن دونوں کو پکڑے رکھو گے اِن دونوں کو تھامے رکھو گے تو تم کبھی گمراہ بھی نہیں ہو گے اور کبھی ذلیل بھی نہیں ہو گے اور کبھی رُسوا بھی نہیں ہو گے لیکن علامہ اقبال نے کہا کہ :-
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اے بادِ صبا! کملی والے(ص) سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے اُمّت بیچاری کے دیں بھی گیا‘ دُنیا بھی گئی
اور مولانا حالی نے مسدس میں فرمایا بڑے ہی مشہور اشعار ہیں آپ اکثر سنتے ہوں گے :-
اے خاصأ خاصانِ رُسل(ص)! وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
وہ دین جو بڑی شان سے نکلا تھا
عرب سے پردیس میں آج غریب الغربا ہے
تو اِس اُمت کی، اِس قوم کی یہ حالت ہو چکی ہے جو پیغامِ قرآن کی علیم تھی، جو قرآنِ نبوی کی علیم تھی آج اِن ذِلّتوں، اِن رُسوائیوں میں آ پڑی ہے کہ وہی عہدِ جہالت کا نظارہ نظر آتا ہے جو خود آقا پاک ﷺ کی بعثت سے قبل اِس دُنیا کی تہذیبی زندگی اور اِس دُنیا کی تہذیبی درندگی میں موجود تھا-
اَبھی چند دِن پہلے میں ایک اَخبار میں دیکھ رہا تھا کہ ایک عورت کے ہاں چھَٹی بیٹی کی پیدائش ہوئی اُس کے شوہر نے اپنی بیٹیاں بھی قتل کر دیں، اُس خاتون کو بھی قتل کردیا اور اِس کے بعد خود بھی خودکشی کر لی خوف کے مارے- یہ ایک خبر نہیں ہے آپ کو رُوزانہ کی بنیاد پہ اِس مملکت ِ خداداد کے کسی نہ کسی کونے میں، کسی نہ کسی طرف سے غلاظت و جہالت میں لپٹی روایات میں مبنی ایسی کئی خبریں نظر آئیں گیں ایسی کئی خبریں آپ دیکھے گیں -مَیں سوال صرف اِتنا کرنا چاہتا ہوں اور یہ خبر صرف قوموں کی نہیں ہے یا کوئی ایسے واقعات نہیں ہیں جو اِس مُلک میں، اِس مُعاشرے میں کبھی کبھی رُو پذیر ہو جاتے ہیں یہ ہمارے گھروں کے اندر کی جنگ ہے، ہماری گلیوں میں، ہمارے محلوں میں، ہمارے قصبوں میں، ہماری بستیوں میں، ہمارے شہروں کے اندر، ہمارے دیہاتوں کے اندر، ہمارے ڈیروں پہ یہ روزمرّہ کی جنگ و جدال ہے اور کوئی یہ سمجھنے والا نہیں کوئی یہ سمجھانے والا نہیں-
اَرے خدا کے بندے! کیا وہ عورت اپنے اختیار کے ساتھ اپنی اُس بیٹی کو جنم دیتی ہے- اُس کے بس میں ہے اُس کے اختیار میں ہے؟ جس خاتون کے ہاں متواتر دو بیٹیوں کی پیدائش ہو جائے اُس خاتون ،کو اُس بیٹی کو، اُس بہو کو ہم ذِلّت و رُسوائی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کس قدر بدبخت ہے، کس قدر بدنصیب ہے کہ اُس کے ہاں بیٹے کی وِلادت ہی نہیں ہوتی، وسیب کے طعنے، شریکوں کے طعنے، شوہر کے طعنے، ساس کے طعنے، نندوں کے طعنے، بھابھیوں کے طعنے، اِدھر کے طعنے اُدھر کے طعنے اور ہم خود اپنا وقتِ وِلادت بھول جاتے ہیں-
مَیں بہ طورِ خود سُلطان اَحمد علی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا اِس خاندان کے اندر کہ جس میں مَیں پیدا ہوا، جس میں مَیں نسبت رکھتا ہوں مَیں اپنے اختیار سے اِس خاندان میں پیدا ہوا ہوں؟ آپ جس خاندان میں جس حیثیت میں پیدا ہوئے کیا آپ اپنے اختیار کے ساتھ اُس خاندان میں پیدا ہوئے؟ کیا ہم میں سے کسی کی والدہ کا، کسی کی ماں کا یہ اختیار تھا کہ وہ ہمیں ہی اِس خاندان کے اندر پرورش دیتی؟ اِس خاندان کے اندر جنم دیتی؟ آدمی کی پیدائش آدمی کی وِلادت اور آدمی کی جنس یہ آدمی کے اختیار میں نہیں ہے- یہ اُس پروردگار کے اختیار کے اندر ہے وہ کِس رُوح کو کس خاندان کے اندر کس خاتون اور کس باپ کے ہاں جنم دیتا ہے، کس باپ کی صُلب سے اور کس ماں کے رحم سے اُسے جنم دیتا ہے یہ اُس نے فیصلہ کرنا ہے یہ مرد کا فیصلہ ہے نہ عورت کا فیصلہ ہے، یہ مرد کا اختیار ہے نہ عورت کا اختیار ہے اور علمائ نے ایک طویل عرصہ سے یہ آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی، یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کی اور ریڈیالوجسٹ کو اِس بات کے اُوپر باقاعدہ قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل فراہم کیے کہ کسی بھی آدمی کو اُس کے الٹراسائونڈکا رزلٹ نہ بتایا جائے کہ بعض ایسے ظالم بھی ہوتے ہیں کہ اُنہیں اگر پتا چل جائے کہ ہمارے ہاں بیٹی کی وِلادت ہونے والی ہے تو وہ اَسقاط ِحمل کروا دیتے ہیں- کیا یہ اُس کے اختیار میں تھا کیا یہ اُس کے بس میں تھا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :-
﴿ ِﷲِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ﴾
’’اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے‘‘- ﴿الشوریٰ:۹۴﴾
زمین اور آسمان میں بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ کی ہے، وہ ہے اِس زمین کا حاکم، وہ ہے آسمانوں کا حاکم- اُس کی مرضی، اُس کا اختیار، اُس کی قدرت، اُس کی رضا، اُس کی چاہت، اُس کا ارادہ جو چاہے پیدا کرے کوئی اُس کے ارادے میں اُس کاشریک نہیں ہو سکتا وہ جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے اپنی رضا سے عطا کرتا ہے-
﴿ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ﴾
’’جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے‘‘- ﴿الشوریٰ:۹۴﴾
جسے چاہے بیٹیاں عطا کرے جسے چاہے بیٹے عطا کرے یہ اُس کی مرضی ہے یہ اُس کا اختیار ہے میرے مسلمان بھائیو! بیٹی کی وِلادت پہ اِس کے بطنِ مادر میں ہونے کی اطلاع وصول ہونے پہ رنجیدہ ہونا دُنیا میں اِس کے پیدا ہونے میں رنجیدہ ہونا، منہ سُجا لینا، شکل بگاڑ لینا، آنسو بہانا، غُصے سے تلملا اُٹھنا یہ کس کی روایت ہے، معلوم ہے یہ کس کی عادت تھی، یہ کن کی فطرت تھی، یہ کن کی رسم تھی، یہ کن کا طریقہ تھا، یہ کن کی ترتیب تھی، یہ کن کا عمل تھا ایسا کون کیا کرتے تھے؟ قرآن سے پو چھئے:
﴿ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہ، مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ﴾
’’اور جب اُن میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اُس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے‘‘- ﴿النحل :۸۵﴾
بیٹی کی وِلادت کی خبر سُن کے پورا دِن اُ س کا چہرہ سیاہ رہتا ہے اور وہ غیظ وغضب سے بھرا رہتا ہے، غصے سے بھرا رہتا ہے، تلملاتا رہتا ہے، اپنے آپ پہ جنبش کھاتارہتاہے-
﴿ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٰ اَیُمْسِکُہ، عَلَی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہ، فِی التُّرَابِ اَ لَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾
’’لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے اِس بشارت کی بُرائی کے سبب کیا اِسے ذِلّت کے ساتھ رکھے گا یا اِسے مٹی میں دبا دے گا اَرے بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں‘‘- ﴿النحل:۹۵﴾
اَرے مسلمانوں! خُدا کے لیے قرآن کے اِن اَحکامات کو پسِ پشت مت ڈالیے اور عہدِ جہالت کی وہ رسومات جن رسومات کو میرے آقا ﷺ نے ختم کردیا تھا جن کا قلع قمع فرما دیا تھا جن کو نیست و نابود کر دیا تھا، جن کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا، جن کو میرے نبی ﷺ نے اپنے درمیان سے ختم کر دیا تھا- ہم نے اُن روایات کو پھر اپنے اندر زندہ کر لیا ہے -مولانا حالی نے کیا کہا تھا حضور کی صفات بیان کرتے ہوئے :
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
مفاسد کو زِیر و زَبر کرنے والا
حضورﷺ نے اُن مواسد کو ختم کیا حضورﷺ نے تو اُن مواسد کا قلع قمع کیا حضور نے تو اُن مواسد کا گلا گھونٹ دیا اُنہیں ہمارے درمیان سے نکال دیا ہمیں ایک پاکیزہ اُمت بنادیا، ہمیں ایک پاکیزہ قوم بنا دیا، ہمیں ایک طیب و طاہر قوم بنا دیا، ہمیں خدا سے ڈرنے والی قوم، ہمیں خدا کی رضا پہ راضی رہنے والی، خدا کی عطا پہ شکر کرنے والی، خدا کی عطا پہ اُس کے شکرانے بجا لانے والی اور جو اُس نے فیصلہ کر لیا اُسے سرِتسلیمِ خم کر کے قبول کرنے والی قوم بنایا تھا- یہ ہم کن جہالتوں میں پڑ گئے اور یہ ہم پھر کن رُسوائیوں کے اندر کن ذِلتوں کے اندر پڑ گئے؟
اِمام اَحمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ’’ المُسند‘‘ میں اِمام طبرانی رحمۃاللہ علیہ نے ’’الموجب الکبیر‘‘ میں اِمام بیھقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں یہ حدیث پاک نقل کی کہ آقا ﷺ نے فرمایا :-
﴿ لاتکرہ البنات فانھن المونسات الفالیات﴾
’’ لوگو! اپنی بیٹیوں سے نفرت نہ کیا کرو اپنی بیٹیوں کو نا پسند نہ کیا کرو کیوں کہ وہ تو تمہارے ساتھ اُنس رکھنے والی ہیں تمہاری بڑی ہی قیمتی چیز ہیں‘‘-
اِس حدیث کو اِمام بیھقی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور اِمام اَحمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اِمام طبرانی رحمۃاللہ علیہ نے حضرتعقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ حضور نے فرمایا کہ اپنی بیٹیوں سے نفرت نہ کرو وہ تمہارے ساتھ اُنس رکھتی ہیں -وہ تمہارا قیمتی سرمایہ ہیں اِس لیے اللہ نے کہا کہ جب کفار کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ ُان کے ہاں بیٹی کی وِلادت ہوئی ہے تو وہ اپنا منہ کالا کیے پھرتے ہیں اپنے لیے غیظ و غضب لیے پھر تے ہیں اور کفار کی یہ حالت تھی کہ جب اُن کے ہاں بچی کی وِلادت ہوتی بیٹی پیدا ہوتی تو اُن کے گھر میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہائے! کیا ہو گیا ہائے! یہ کیا ظلم ہوا ہمارے ساتھ، یہ کیوں ہمارے ہاں پیدا ہو گئی؟ یہ کیسے ہمارے ہاں پیدا ہو گئی؟ اور شرم کے مارے وہ لوگوں سے نظریں چھپاتے لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ اَرے! یہ وہ جا رہا ہے جس کے ہاں بیٹی کی وِلادت ہوئی خاص کر مُضر، خضدار اور تمیم یہ وہ قبائل تھے جو اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے جب بیٹی تھوڑی سی بڑی ہو جاتی تو جنگل میں جا کر ایک گڑھا کھودتے اور گھر آکر بیوی کو کہتے کہ اِسے نہلائو دُھلائو صاف کرو بیوی اِس بچی کو نہلاتی دھلاتی بچی کو کیا معلوم کہ آج کیا قیامت اس پہ بیتنے والی ہے وہی ظالم باپ جس کی صُلب سے اُس کو پیدا کیا وہ اُس بچی کو لے جا تا جنگل میں اُس گڑھے کے، اُس کنویں کے کنارے پہ کھڑا کر کے وہ بیٹی کا منہ دوسری طرف کرواتا کہ وہ دیکھو کیا ہے اور پھر وہ بد بخت اپنی بیٹی کو دھکا دیتا جو اُس گڑھے میں جا گرتی اور وہ گڑھے میں با با !بابا! پکارتی رہتی اور وہ ظالم باپ اوپرمَنو مٹی ڈا(رح)لتا رہتا اور وہ بچی اُس گڑھے میں اُس مٹی میں دب کے مر جا تی ،اپنا دم توڑ جاتی-
سورۃ التکویر کو دیکھے اللہ نے کیا فرمایا ؟
﴿اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْoوَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْoوَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْoوَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْoوَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْoوَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْoوَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْo وَ اِذَا الْمَوْئ، دَۃُ سُئِلَتْoبِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾
’’جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں اور جب پہاڑ چلائے جائیں اور جب تھلکی اُونٹنیاں چھوٹی پھریں اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں اور جب سمندر سلگائے جائیں اور جب جانوں کے جوڑ بنیں اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر مارگئی‘‘؟ ﴿آیت :۱تا ۹﴾
اُس دِن زندہ دفن کی جانے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ اُسے کس جرم کے اوپر قتل کیا گیا؟ تمام علمائ اِس بات پہ متفق ہیں کہ بغیر شرعی عذر کے کہ جس میں زچہ و بچہ کے مر جانے یعنی اُن کی موت کا خدشہ ہو اِس پہ بھی بعض نے اختلاف کیا لیکن بعض نے اِس کی اجازت دی اور کہا کہ اگر ایک آدمی دانستہ طور پہ یہ جان کر کہ بیٹی ہو رہی ہے اور وہ اَسقاطِ حمل کروا دیتا ہے علمائ اِس بات پہ متفق ہیں کہ وہ بیٹی کو زندہ دفن کر دینے کے مترادف ہے لیکن ہم یہ فکر اپنے درمیان سے یہ سوچ یہ تقوٰی اپنے درمیان سے کھوتے جا رہے ہیں اور ہمارے درمیان سے اللہ کا یہ ڈر اللہ کا یہ خوف یہ خونِ نا حق یہ قتلِ ناحق، اِس کا خوف، اِس کی جواب دہی ہم نے اُس کی بارگاہ میں دَینی ہے اِس بات کا خوف ہمارے درمیان سے ختم ہوتا جا رہا ہے-
میرے دوستو ،میرے بھائیو! یہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی ذاتِ مقدس تھی جن کی پاکیزہ تعلیمات کی بدولت اِس قوم کے درمیان سے یہ جاہلانہ، ظالمانہ، جابرانہ، متشددات ہمارے درمیان سے ختم ہوئیں- ہمارے درمیان سے اِن کا قلع قمع ہوا اور آج بھی ہمیں یہ خوف ِخدا پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی قرآنِ کریم میں یہ فرماتا ہے کہ یہ بادشاہی تو میری ہے زمین کس کی بادشاہی ہے؟ آسمان کس کی بادشاہی ہے؟ میرے پروردگار یہ تیری بادشاہی ہے پھر کہا کہ﴿ یَخْلُقُ مَا یَشَآئ ﴾ کس کا اختیار ہے کہ جو چاہے پیدا کرے میرے پروردگار یہ تیرا اختیار ہے -کہا کہ کیا میری قوت و تخلیق میں میری خلاقی کے ہنر میں کیا کوئی اور شریک ہے بتائے کہ کیا پروردگار کی تخلیق میں اُس کی قوت میں کوئی اور اِس کا شریک ہے کوئی ؟جسے چاہتا ہے کون پیدا کرتا ہے؟ اللہ ‘تو پھر ہم اِس بات کو قبول کیوں نہیں کرتے کہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے ﴿یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا﴾ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے بیٹی عطا کرنا کس کا اختیار ہے؟ اللہ کا- ﴿وَیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْر﴾ جسے چاہتا ہے بیٹا عطا کرتا ہے اور اِس کے متعلق مفسرینِ کرام فرماتے ہیں علمائ نے فرمایا کہ اِس کی وجہ کیا تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں پہلے بیٹیوں کا ذکر کیا پھر بیٹوں کا ذکر کیا اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت جو عرب کا سماج تھاوہ جہالت میں ڈوبا ہوا تھا وہ ظلم و تشدت میں ڈوبا ہوا تھا اور علامہ مسعودی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر’’ روح المعانی‘‘ میں اس کے متعلق فرماتے ہیں : -
﴿ لتطییب قلوب ابائھن لما فی تقدیمھن من التشریف لان ھن سبب لتقصیر مخلوقاتہ﴾
اور یہ اِس لیے کہ اللہ تعالی اُن کے باپوں کے، اُن کے والدوں کے، ذہن کے اندر، اُن کے دِلوں کے اندر یہ پاکیزگی پیدا کر دے کہ بیٹی کا ذِکر قرآن میں اللہ تعالی نے اِس لیے پہلے کیا کہ یہ اللہ کی چاہت سے، اللہ کے ارادے سے، اللہ کی رضا سے ہے، جس کے اُوپر تمہارا رضا مند ہو جانا لازم ہے یا تو اُس کے فیصلے کو Challenge کرنے کی صلاحیت تم میں ہو کوئی بھی ہمارے درمیان جب مر جاتا ہے، جب فوت ہو جاتا ہے تو ہم فوراً ایک دوسرے سے اظہارِ افسوس کے لیے کیا کہتے ہیں؟ کہ اللہ کی مرضی، اللہ کی رضا مانتا ہوں، مَیں اللہ کے اِس حکم کو کہ کسی کو واپس لانا جو مر گیا، جو چلا گیا، جورخصت ہو گیا کیا اُس کو واپس لانا اِس دُنیا کے اندر یہ آپ کے یا میرے اختیار میں ہے ؟ہرگز نہی ہے ہمارے اختیار میں تو ہم اِسے کیا سمجھ کے قبول کرتے ہیں کہ یہ میرے ربّ کی رضا ہے تو اگر ربّ کی رضا کو وہاں تسلیم کر لیتے ہو، وہاں ربّ کی رضا کو مان لیتے ہو، وہاں ربّ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہو تو یہ بھی تو ربّ کی عطا ہے، یہ بھی تو ربّ کی رضا ہے، یہ بھی تو ربّ کی قوت وتخلیق سے پیدا ہوئی یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اللہ تعالیٰ کی مرضی سے اِس کی جنس کا تعین کیا گیا اور قرآن مجید میں ایک اور بڑا خوبصورت فلسفہ بیان کیا، اللہ تعالیٰ نے بہت ہی خوبصورت بات کی اور اِس کے متعلق مفسرینِ کرام نے اَیسی اَیسی تشریحات بیان فرمائیں ہیں کہ سبحان اللہ! دیکھ کہ آدمی کا دِل ایمان سے تازہ اور منور ہو جاتا ہے- اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:-
﴿ اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَالْبٰ قِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلًا﴾
’’مال اور بیٹے یہ جیتی دُنیا کا سنگار ہے اور باقی رہنے والی اچھی باتیں اُن کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ اُمید سب سے بھلی‘‘- ﴿سورۃالکہف : ۶۴﴾
اور اِمام قرطبی رحمۃاللہ علیہ اپنی تفسیر مبارک ’’الجامع الاحکام القرآن‘‘ میں حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول مبارک نقل فرماتے ہیں حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:-
﴿وَالْبٰ قِیٰتُ الصّٰلِحٰتیعنی البنات﴾
باقیات و صالحات سے مراد بیٹاں ہیں اور پھر فرمایا:-
﴿ الصالحات ھن عند اللہ لابائھن خیر ثوابا وخیر عملا فی الآ خرہ لمن احسن الیھن ﴾
’’یعنی نیک بیٹیاں اللہ کے ہاں اپنے احسان کرنے والے والدین کے لیے آخرت میں ثواب اور اُمید کے اعتبار سے بہتر ہیں‘‘-
حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جو بیٹیاں ہیں اُن میں اور بیٹوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ بیٹوں کو اللہ نے کہا کہ یہ دُنیَوی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور جو بیٹیاں ہیں بیٹیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا کہ یہ تمہارے لیے مالِ آخرت ہیں یہ اللہ کے ہاں اُن کی خیر ہے اللہ کے ہاں اُن کااَجر زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ جسے بیٹے کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے اُس کے لیے وہ قرآن کی رُو سے اِس دُنیا کی زینت ہے اور جسے اللہ تعالیٰ بیٹی کی نعمت سے نوازتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ وہ بیٹیاں اللہ کے نزدیک اَجر و ثواب کا باعث ہیں اور اُس کے لیے ایک اچھی اُمید کا باعث ہیں
لیکن ہم نے یہ کدورت اپنے دِلوں میں بھر رکھی ہے -یہ جذبہ نا پسندیدگی کو ہم نے اپنے دِلوں میں بھر رکھا ہے یہ بیٹی کی وِلادت پہ اور بیٹیوں کی کثرت سے وِلادت پہ ہم نے یہ جو جَاہلانہ رسومات رونے دھونے کی، طعن و تشنیع کی اپنے درمیان پیدا کر رکھی ہے قرآن نے بھی اِس کی اجازت نہیں دی، حضور کی احادیث نے بھی اِ س کی اجازت نہیںدی، حضور کے صحابہ کے عمل نے بھی اِس کی اجازت نہیںدی، حضور کے اہلِ بیتِ اَطہار کے عمل نے بھی اِس کی اجازت نہیں دی، سلف صالحین کے عمل نے بھی اِس کی اجازت نہی دی اور دینِ مبین میں کسی بھی مقام پراِس طرح کی جاہلانہ رسومات کی اجازت نہیں ہے- اِن رسومات کو کفر کہا گیا اِن رسومات کو ظُلم کا درجہ دیا گیا -
﴿جاری ہے﴾