اسلام نے جس انداز میں ہماری سماجی اور معاشرتی تشکیل فرمائی ہے اور جس دنیاوی اور اُخروی فلاح کی دعوت دی ہے اس کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اس پر صحیح طرح عمل پیرا ہوکر رضائے الٰہی و رضائے مصطفےٰ کریم (ﷺ) کے حصول کی جدوجہد کریں - کوئی بھی عام انسان وہ چاہے مزدور ہے یا کاشتکار، جاگیردار ہے یا سرمایہ دار، امیر ہے یا غریب ، اس کی کئی خواہشات و آرزوئیں ہو سکتی ہیں لیکن جب وہ کلمہ طیبہ ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھ کے دائرہ ٔاسلام میں داخل ہوگیا تو اس کی سب سے بنیادی اور سادہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُسے ایمان پر موت نصیب ہو-یعنی جب وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے تو اس کی زبان پر اللہ پاک کی توحید اور اس کے آخری رسول (ﷺ) کی گواہی جاری ہو- آدمی بھلے کتنا گنہگار و غافل کیوں نہ ہو، مگر وہ اپنے گناہوں کے باوجود اللہ کریم و رحیم کی ذات پر یہ مان ضرور رکھتا ہے یعنی اپنے رب کی رحمت سے پُر امید ہوتا ہےکہ میرا اللہ مرنے سے پہلے مجھے ہدایت ضرور دے گا-اللہ تعالیٰ کی ذات پر بندے کا یہ وہ مان ہے جو بندے کو اپنے رب سے جوڑے رکھتا ہے-اسی طرح مالک حقیقی بھی بندے کو اسی رحمت کی جانب بلاتا ہے-کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پہ غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے اپنے غضب سے نہیں بلکہ اپنی رحمت سے معاملہ فرماتا ہے-
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھنے پہ زمین کے باشندوں کو متوجہ کیا ہے آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ مالکِ حقیقی کو کس قدرمجھ حقیر و پُر تقصیر کے ایک ایک احساس کا خیال ہے- انہی احساسات میں سے ایک احساس ایسا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو در پیش ہوتا ہے، مگر ہم اس بارے بہت کم سوچتے اور بولتے ہیں- قرآن مجید نے بھی بتکرار ہماری توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے -
سورہ النسا ء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنْۢبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا ‘‘[1]
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت دارپڑوسی اور اجنبی پڑوسی اور مجلس کے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلاموں کے ساتھ (نیکی کرو) بیشک اللہ مغرور متکبر کو پسند نہیں کرتا‘‘-
یعنی اللہ کی عبادت کرو، کسی بھی چیز میں اس کی ذات کے ساتھ کوئی شریک نہ ٹھہراؤ، والدین، عزیز و اقارب، یتیموں،مساکین،محتاجوں اورغرباء کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو ، اپنے نزدیکی پڑوسی سے بھی اور اپنے اجنبی پڑوسی سے بھی احسان کا معاملہ کرو، اپنے شریکِ سفر جو تمہاری مسافرت میں ہے چاہے جاننے والا ہو یا اجنبی ہو اس کے ساتھ بھی احسان کا معاملہ رکھو، جو راہ چلتا مسافر ہو تم اپنے گھر میں بیٹھے ہو، اپنی بستی میں ہو، اپنی آبادی کے اندر ہو، اپنے عزیز و اقارب اور والدین بیوی بچوں کے ساتھ ہو اور تمہارے گھر کے سامنے سے جو شاہراہ گزر رہی ہے، جہاں سے قافلے گزرتے ہیں، جہاں سے لوگ سفر کرتے ہوئے گزرتے ہیں- اپنی سواریوں پر یا پیدل جس بھی طریقے سے وہاں پر گزرتے ہیں- فرمایا ’’وَابْنِ السبِيلِ‘‘جو راستے میں چل پڑتا ہے جو مسافر ہوتا ہے اس مسافر کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو- پھر فرمایا اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو یعنی اپنے غلام اور لونڈیوں کے ساتھ بھی احسان کا معاملہ کرو- بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ ان معاملات میں تکبر اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا-
اس طرح ’’يَتَامٰى‘‘ پر بات کی جائے یا اقرباء پر، پڑوسی پر بات کی جائے یا اجنبی پر تو اس پر الگ الگ ابواب ہیں جن سے قرآن مجید و سنتِ رسول (ﷺ) کی روشنی ہمارے دلوں کو نصیب ہوتی ہے-لیکن آج کی گفتگو کا بنیادی موضوع اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم مبارک ’’وَ ابْنِ السَّبِيْلِ‘‘راہ چلتے مسافر کے ساتھ احسان کرنا ہے-یعنی ہمارا خالق ہمیں فرماتا ہے کہ مسافر کے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے؟
جب آدمی سفر میں ہوتا ہے تو وہ اپنے اہل و عیال اور اپنے وطن سے دور ہوتا ہے، اس کی کوئی جان پہچان والا نہیں ہوتا، اس کے دکھ کا کوئی محرم نہیں ہوتا، اگر وہ روئے تو کوئی اس کا ایسا اپنا نہیں ہوتا جو اس کے آنسوؤں کو پونچھے، اگر وہ کسی بات پہ غمزدہ و پریشان ہے تو وہاں اسے دِلاسہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا - اس لیے رب ذوالجلال نے راستہ بتایا کہ یہ مخلوق، یہ زمین جو تمہارے لئے کشادہ کر دی گئی ہے اس میں تم ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ اس حد تک کرو کہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو، کسی سے تمہاری قرابت ہو یا نہ ہو، کسی سے تمہاری محبت ہو یا نہ ہو، اگر کوئی مسافر سفر کو اختیار کئے ہوئے تمہیں مل جاتا ہے تو اس مسافر کو میرا مہمان سمجھ کر اس کے ساتھ محبت اختیار کرو اور احسان کا معاملہ فرماؤ-اس لیے جو مسافر ہوتا ہے اہل راز، صوفیاء، نرم دل والے دردمند لوگ اس کو خدائی مہمان کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اپنے مہمان سے بڑھ کر مسافر کی خدمت کرنا زیادہ اجر کاعمل ہے-کیونکہ وہ خدا کے توکل پر سفر کر رہا ہوتا ہے اور خدائی مہمان بن کر زمین کے اوپر چل رہا ہوتا ہے-
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ:
بزرگاں مسافر به جان پرورند |
اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو بزرگی و عظمت عطا کرتا ہے وہ اپنے قریب سے گزرنے والے مسافر پہ اپنی جان بھی نثار کر دیتے ہیں اور اس خدمت کے باعث اللہ عزوجل ان کو اپنی اس زمین میں نیک نامی عطا فرماتا ہے-
تبه گردد آن مملکت عن قریب |
’’تم عنقریب اس مملکت کو تباہ ہوتے دیکھو گے کہ جس میں مسافر پریشان ہو کر گزرے‘‘-
نکو دار ضیف و مسافر عزیز |
’’مسافر اور مہمان کا خیال کرو کیونکہ جب یہ آتے ہیں تو رحمت بھی ساتھ لاتے ہیں اور آفت بھی ‘‘-
رحمت اور آفت اس بات پر منحصر ہے کہ اس مسافر کے ساتھ رویہ کیسا رکھا گیا- یعنی اگر وہ مسافر مہمان نوازی سے خوش ہوا تو آ فت اٹھ جائے گی اور رحمت رہ جائے گی ہے اور اگر وہ پریشان ہوا تو رحمت اٹھ جائے گی اور آفت رہ جائے گی-
قرآن کریم کی جب تلاوت کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی کتاب زمین پر نازل نہ فرماتا تو ہمارے درمیان نہ عزیز و اقارب کا احساس ہوتا نہ مساکین کا، نہ یتیموں کا احساس ہوتا نہ مسافروں کا-سورہ النساء کی مذکورہ آیت مبارکہ میں ’’وَ الصَّاحِبِ بِالجَنْۢبِ‘‘، ’’اورمجلس کے ساتھی‘‘ سے بھی احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا ہے یعنی وہ ساتھی جو تمہارے ساتھ رہ رہا ہے یا سفر کر رہا ہے-
حضرت عبد اللہ ا بن عباس (رضی اللہ عنہ) اور متعدد رواۃِ تفاسیر کے حوالوں سے متعدد مفسر ین نے یہ لکھا ہے کہ جو تمہارے ساتھ سفر کر رہا ہوتا ہے اس کے تم پر دو حقوق ہوتے ہیں-ایک تو یہ ہوتا ہے کہ وہ مسافر ہے ،اس کا مسافر ہونا آپ پر ایک حق عائد کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ آپ کا پڑوسی ہے اور اس کے پڑوسی ہونے کا حق بھی آپ پر عائد ہوتا ہے-اس لئےمسافر کا خیال رکھنا ہم پر لازم آتا ہے-
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں جس بھی جگہ پر مال کی تقسیم کا حکم دیا ہے اس مال میں مسافر و راہگیر کا حق رکھ دیا ہے- چاہے صدقہ ہو یا ز کوٰۃ، مال غنیمت ہو یا مالِ فے ہو مال کی ہر تقسیم میں مسافر کا حصہ ہے ، اس بات سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مسافر سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے-
اللہ تعالیٰ کو مسافر سے محبت کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت ان حقوق کو بیان کرنے کے بعد کرنا چاہوں گا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسافر کے لئے بیان فرمائے ہیں-
سورہ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ‘‘[2]
’’اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت میں جب کبھی اپنا مال خرچ کرو تو اسے اپنے رشتہ داروں ، مساکین ویتیم اور مسافر پہ خرچ کرو-
اسی طرح جب لوگوں نے آقا کریم (ﷺ) سے پوچھا کہ مال کا بہترین مصرف کیا ہے یعنی کس جگہ مال کو خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں ایک اور مقام پہ ارشاد فرمایا:
’’قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِيْنَ وَ الْيَتَمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ‘‘[3]
’’آپ فرما دیں جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے‘‘-
جب کبھی جنگ ہوتی ہے اور مسلمان اس جنگ میں فتح یاب ہوجاتے ہیں تو جو مال اس جنگ سے ان کے حصے میں آتا ہے وہ مال غنیمت ہوتا ہے-جو علاقہ بغیر جنگ کے فتح کیا جاتا ہے تو اس علاقے کا جو مال حصے میں آتا ہے وہ مالِ فے کہلاتا ہے - البتہ ان دونوں کے احکام الگ الگ ہیں-اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال غنیمت اور مالِ فے دونوں میں مسافر کا حق رکھا ہے-
مالِ غنیمت کے متعلق سورہ الانفال میں حکمِ مبارک ہے کہ:
’’وَ اعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ لِلّهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ‘‘[4]
’’ اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لوتو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول (ﷺ)و قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے‘‘-
اسی طرح مالِ فے کے متعلق سورہ الحشر میں حُکمِ ربانی ہے:
’’مَا أَفَاءَ اللّهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ أَهْلِ الْقُرٰى فَلِلهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ‘‘[5]
’’ جو غنیمت (اَموالِ فَے) دلائی اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول (ﷺ)کی ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے‘‘-
اسی طرح صدقات میں بھی مسافر کا حق رکھا-سورہ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا:
’’إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسٰكِينِ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِيْنَ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّهِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اللّهِ ط وَ اللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ‘‘[6]
’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)-یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے ‘‘ -
اسی طرح کسی کا بھی حق ادا کرنے کی بات ہو تو اس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسافر کو اہمیت عطا فرمائی اور فرمایا کہ جو تم فضول خرچی کرتے ہو اس کا شاید تمہیں وقتی نفع مل جاتا ہو، تمہارے نفس کی وقتی تسکین ہوجاتی ہو لیکن یہ فضول خرچی قبر اورآخرت میں کوئی نفع نہیں دےسکی گی-اس لئے اگر تم قبر اور آخرت کا نفع چاہتے ہو تو فرمایا:
’’وَآتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا‘‘[7]
’’قریبی رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو ‘‘-
یعنی اگر تم ان لوگوں پر خرچ کروگے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی اپنی بارگاہ سے تمہیں مقامِ عظیم عطا فرمائے گا -
اس مسئلے کو قرآن مجید میں جس طریقے سے بار بار بیان کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھا جائے کہ قرآن جب ایک بات کا ایک مرتبہ حکم کردے تو وہ ایک مرتبہ کا حکم اسلام میں فرض بن جاتا ہے اور اس فعل کی انجام دہی اللہ تعالیٰ کے قرب اور رضا کا موجب بن جاتی ہے اور جس بات کو اللہ تعالیٰ نے بتکرار بیان کیا ہو، بار بار جس کے حق کو ہم پر جتلایا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات عام نہیں ہےوہ پہلو عام نہیں ہے، وہ شخص عام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں محبوب رکھتا ہے-
یہ تو وہ حقوق ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ تم مسافر کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو- اب آپ از روئے ایمان دیکھیں کہ خود خالقِ اکبر نے ’’وَابْنِ السَّبِيْلِ‘‘ راہ چلتے ہوئے مسافر کو کیا حق عطا کیا اور ہم اجتماعی طور پہ کس قدر اُن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں کہ ان کی راہوں میں گڑھے کھود رکھتے ہیں، ان کی راہوں میں سواریوں کے سامنے رکاوٹیں پیدا کررکھتے ہیں،ان کے لئے لگے ہوئے سائن بورڈز جن کی مدد سے وہ اپنا راستہ لے کے چلتے ہیں ان کے اوپر اپنے اشتہارات چسپاں کر رکھتے ہیں، جو راستہ ان کی سواریوں کے گزرنے کیلئے حکومتیں اور ریاستیں بنا رکھتی ہیں، ان پہ اپنے مکانات کی تعمیرات کیلئے اینٹیں کھڑی کر رکھتے ہیں، ریت پھیلا رکھتے ہیں، گنے کے سیزن میں ٹرالیوں پہ اُوور لوڈنگ کے جرم کے ساتھ ساتھ مسافروں کیلئے شمار سے باہر مشکلات بنا رکھتے ہیں- راستوں کے اطراف میں بیماریاں پھیلاتی گندگیوں کے ڈھیر بنا رکھتے ہیں، مردہ جانوروں کو راستوں پہ پڑا رکھتے ہیں جن کے تعفن اور بد بو سے مسافروں کو تکلیف پہنچتی ہے -کبھی سوچا ہے کہ ان گڑھوں، اینٹوں اور ٹرالیوں کے سبب ان کے اوپر کیا کچھ گراں گزرتا ہے- غور کریں کہ لوگ جن سے سہولت چھین رہے ہیں ہمارے رب نے انہیں کیا سہولت عطا کی ہے؟ جن کا حق لوگ مار رہے ہیں، اللہ نے انہیں کیا حق دیا ہے؟
توجہ کیجئے! کہ قرآن نے مسافر کو کیا حقوق دیے ہیں-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا أَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ‘‘[8]
’’اور تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو بعد کے دنوں میں ان (روزوں) کی گنتی پوری کرے‘‘-
از روئے قرآن مجید ، اگر کوئی مریض یا کوئی مسافر ہے اس کو روزے میں چھوٹ ہےکہ وہ بے شک روزہ نہ رکھے-ہاں! اگر وہ اپنے مقام پر لوٹ جائےتو جو اس کے روزے قضا ہوئےان کا عدد شمار کر کے اُتنے روزے رکھ لے-
اسی طرح پھر اسلام کا عظیم ترین فریضہ نماز ہے-اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مسافر کو اس میں بھی تخفیف دی ہے- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ‘‘[9]
’’ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو)‘‘-
قرآن پاک کی رُو سے جب لوگ زمین پر سفر کرتے ہیں ، سفر کی وجہ سےاُن پر دشواری اور مشکل آن پڑتی ہے تو کوئی گناہ نہیں ہے کہ اپنی نماز میں قصر کرلو، یعنی اگر اس وقت چار رکعت فرض ہے تو فقط دو ادا کی جائیں - اندازہ لگائیے! کہ نماز اور روزے جیسے اہم فریضے میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسافر کو رعایت عطا فرمادی-
میرے دوستو اور ساتھیو! یہ وہ احکام ہیں جو نہ میں نے کہے، نہ کسی مسلک یا فرقے کے مفتی نے، نہ کسی مسلک کے بانی نے کہے اور نہ ہی متاخرین، متوسطین اور متقدمین میں سے کسی امام یا شیخ کا قول ہے- مسافر کے یہ وہ حقوق ہیں جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے -
اس لیے معاشرت اور سماج کے اعتبار سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ قرآن مجید کے ان احکام پہ غور کیا جائےاور ان کو نافذِ جاں کرکے دیکھا جائے کہ ہم کس قدر قرآن کے ان احکامات پر عمل پیرا ہیں- کیونکہ ان فرمودات کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جو اللہ نے بیان کردیا اسے سن لیا جائے اور وہاں سے اٹھ جایا جائے ’’نشستن و گفتن و برخاستن‘‘- بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنا احتساب کرے اور یہ دیکھے کہ اللہ نے جو اسے حق دیا، کیا میں کسی مقام پہ، کسی موڑ پہ اس کا حق مار تو نہیں رہا؟ خدائے پاک نے جسے سہولتیں اور رعایتیں عطا فرمائی ہیں، کیا کسی عمل یاسبب سے مَیں اس کی سہولیات چھین تو نہیں رہا؟اگرہمارے پڑوس میں جاننے والا، یا کوئی محلہ دار اس کا حق چھینتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو از روئےقرآن ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اس سے مسافر کے حق کا مطالبہ کیا جائے،اس کی اصلاح کی جائے، اس کے دل و دماغ اور اس کی عقل و فکر میں اس بات کو اچھی طرح بٹھا دیا جائے کہ میرے بھائی! یہ جو سماج ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حسن و خوبصورتی اور ایک دوسرے کا احساس پیدا فرمایا ہے، اس خوبصورتی کو نہ گنوایا جائے اور اس احساس کے دامن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے-
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مسافر بندے کی محبت ہمارے دل میں پیدا فرمائی ہے وہ اس لئے پیدا فرمائی ہے کہ کوئی کسی بھی خطے کا باسی ہو، کسی بھی قبیلے اور رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو، ہمارے قلب کی محبت اس انسان کے قلب کی محبت سے جوڑنی جائے اور بنی نوع انسان دنیا میں کسی کونے میں بھی پھیل جائے، بنی نوع انسان کے دل سے محبت و الفت، اخوت اور بھائی چارے کے احساس کو ختم نہ کیا جاسکے- کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے اولادِ آدم کو ایک ہی باپ کی سُلب سے پیدا کیا ہے- آپ ہی بتائیں کہ دو بھائیوں پہ کس طرح محبت لازم آتی ہے؟؟؟ از روئے دین کسی راہ چلتے آدمی کے متعلق وہی محبت محسوس کی جائے جو اپنے بھائی کے متعلق کی جاتی ہے- اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے درمیان معاملہ کا حسن رکھا ہے-یعنی رشتوں کا احساس اور رشتوں کی خوبصورتی رکھی ہے-
جس مرحلے پہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے تمہارے لیے فلاں فلاں چیز حلال کردی اس میں ایک حکمِ مطلق ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ ‘‘[10]
’’تمہارے لیے دریا کا شکار (مچھلیاں) اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدے کی خاطر حلال کر دیا گیا ہے‘‘-
’’لَكُمْ‘‘ دو بار فرما کر حکم ارشاد فرمایا کہ ’’تمہارے لیے‘‘- یہاں تمہارے سے مراد سب کیلئے ہے-اس سب میں ہم سب آجاتے ہیں، کوئی اپنے قبیلے میں ہو یا حالتِ جنگ میں، کوئی امیر ہو یا غریب ،الغرض تمام انسانوں کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے مطلقاً حکم فرمادیا تو اس کے بعد کسی چیز کی تخصیص کی ضرورت نہیں رہ جاتی- لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ حکم فرما کر فرمایا ’’وَ لِلسَّيَّارَةِ‘‘ ہم نےمسافروں کے اوپربھی اس کو حلال کردیا ہے-
سائل نے کہا میرے مولیٰ! جب سب پہ حلال ہوگیا تو پھرمسافرکو اس میں تخصیص دینے کی یا مسافرکو اس میں بطور خاص بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غیب سے صدا آئی اس لئے کہ تم پر یہ واضح ہو جائے کہ میں نے تمہیں یہ حق مسافر کےدل کی نرمی کے سبب عطا فرمایا ہے-یعنی اگر وہ سمندر میں سفر کر رہا ہو تو اور اس کے رختِ سفر میں کھانے پینے کا سبب ختم ہوجائے تو وہاں وہ بھوک سے نہ مرے -اس لئے میں نے اس کی دلجوئی کی خاطر مچھلیوں کو تم پرحلال کردیا ہےاور اس آبی مخلوق کو جب کبھی بھی تم کھانے لگو تو یہ سوچ لیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے دل کی حساسیت اورمسافر کو یہ سہولت فراہم کرنے کیلئے تمہارے اوپر بھی یہ حلال کردیا ہے-
اسی طرح مالک کریم نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیھم السلام)کا واقعہ بیان فرمایا کہ جب وہ ملے، پھر آگے گئے، حضرت خضر (علیہ السلام) پہلے کشتی کو پھاڑتے ہیں، پھر ایک بچے کو مارتے ہیں، پھر جس بستی میں وہ دیوار کھڑی کرتے ہیں اس بستی میں پہنچنے کا منظرقرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ:
’’فَانْطَلَقَا وقفہ حَتّٰى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةِ نِ اسْتَطْعَمَآ أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ أَنْ يَّنْقَضَّ فَأَقَامَهُ ط قَالَ لَوْ شِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً ‘‘[11]
’’پھر دونوں (حضرت موسیٰ اور حضرت خضر)چل پڑے یہاں تک کہ جب دونوں ایک بستی والوں کے پاس آپہنچے، دونوں نے وہاں کے باشندوں سے کھانا طلب کیاتو انہوں نے ان دونوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا، پھر دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی تو (خضر (علیہ السلام) نے) اسے سیدھا کر دیاموسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس (تعمیر) پر مزدوری لے لیتے‘‘-
اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے مہمان نوازی کا حکم فرما رکھا تھا اور قرآن نے ان دو مسافروں (سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر (علیھم السلام)کو کھانا نہ دینے پہ ان کی اخلاقی پستی اور اخلاقی گراوٹ کو بیان کیا ہے کہ یہ ان مسافروں کا حق تھا کہ وہ بھوک اور پیاس کی حالت میں ان بستی والوں سے کھانا طلب کرتے تو بستی والوں کو چاہئے تھا کہ حسبِ استطاعت مسافروں کی خدمت کرتے- گویا جہاں مسافر کا رختِ سفرختم ہو جائے تو یہ مسافر کا شرعی، اخلاقی حق ہے کہ وہ جہاں سے گزررہا ہو وہاں سے طعام کی اشیاء طلب کرسکتا ہے - اگر وہاں کے لوگ اسے یہ حق نہیں دیتے تو از روئے قرآن یہ ان اہلِ قریہ کی اخلاقی گراوٹ اور اخلاقی پستی کا سبب ہے -
قرآن کریم نے انبیاء کرام (علیھم السلام) کے جو اوصاف بیان کئے ہیں ان میں سے ایک بڑا وصف اجنبیوں کی مہمان نوازی کو بتایا ہے- از روئے قرآن پاک مسافروں کی مہمان نوازی پیغمبروں کے اخلاق کا فیض ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ہَلْ اَتٰـکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰـمًاط قَالَ سَلٰـمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ فَرَاغَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ‘‘[12]
’’کیا آپ کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزّز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے-جب وہ (فرشتے) اُن کے پاس آئے تو انہوں نے سلام پیش کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جواباً) سلام کہا، (ساتھ ہی دل میں سوچنے لگے کہ) یہ اجنبی لوگ ہیں-پھر جلدی سے اپنے گھر کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے کی سجی لے آئے‘‘-
یعنی جب فرشتے معزز مہمان کے طور پر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام)کے پاس آئے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ یہ تو مجھے اجنبی لگتے ہیں، میرا ان سے کوئی تعارف نہیں ہے،ان کا لباس اور رنگ و روپ بالکل اجنبی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے گھر گئے اور ایک فربہ بچھڑے کی سجی اپنے مہمانوں کیلئے لے کر آئے- گویا وہ فرشتے جو ان کے سامنے آئے تھے وہ بظاہر اجنبی تھے مگر جیسے ہی معلوم پڑا کہ میرے دروازے پر کوئی مہمان مسافر آیا ہے تو جو کچھ ان کے گھر میں موجود تھاان کی خدمت میں پیش کردیا-
اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو ’’سورہ ھود‘‘ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ:
’’وَ لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآئَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ فَلَمَّا رَآٰ اَیْدِیَہُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَہُمْ وَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃًط قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ‘‘[13]
’’اور بے شک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے سلام کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جوابًا) سلام کہا، پھر (آپ (علیہ السلام)نے) دیرنہ کی یہاں تک کہ (ان کی میزبانی کے لیے) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے پھر جب (ابراہیم (علیہ السلام) نے) دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں اجنبی سمجھا اور (اپنے) دل میں ان سے کچھ خوف محسوس کرنے لگے، انہوں نے کہا: آپ مت ڈریئے! ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘-
یعنی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام)کے گھر میں جو کچھ بھی پکا ہواتھا، تکلف نہیں کیا ، یہ نہیں دیکھا کہ مَیں ان کا معیار دیکھ لوں، ان کی طلب پوچھ لوں بلکہ ان کی طلب کے بغیر فقط یہ معلوم ہونے پر کہ وہ راہِ للہ مسافر ہیں ، آپ کے پاس جو کچھ بن پڑا ان کے سامنے لا کے پیش کردیا- اس لیے جو مہمان نوازی ہے یہ سنتِ ابراہیم علیہ السلام ہے-
یہی وجہ ہے کہ مالک کریم نے ہمیں حکم فرمایا کہ:
’’فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘‘[14]
’’پس تم ابراہیم(علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہوگئے تھے‘‘-
خدمتِ مسافر اور خدمتِ مہمان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پسندیدہ شیووں میں سے ایک شیوہ ہے-حضراتِ عرفاء میں سے کسی کا شعر ہے کہ :
از فروغِ روئے مہماں شد منور خانہ ام |
یعنی اللہ تعالیٰ جو مہمان آپ کی طرف بھیجتا ہے ان کے ذریعےتمہارے گھروں کو روشنی عطا فرماتا ہے- اس لئے گھر کو فانوس اور مہمان کو شمع بنالو اورخود پروانے کی مانند اس شمع کے گرد منڈلاتے رہو-کیونکہ یہ انبیاء کرام (علیھم السلام)کا شیوہ اور طریق ہے-
حضرت سعید بن مُسیّب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’كَانَ إِبْرَاهِيْمُ أَوَّلَ النَّاسِ ضَيَّفَ الضَّيْفَ ‘‘[15]
’’حضرت ابراہیم (علیہ السلام)مہمان نوازی فرمانے میں سب سے اول تھے ‘‘-
حجۃ الاسلام امام ابو حامد الغزالیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’کَانَ اِبْرَاہِیْمُ الْخَلِیْلُ صَلٰوَاتُ اللہِ عَلَیْہِ وَ سَلَامُہٗ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّأکُلَ خَرَجَ مِیْلًا اَوْ مِیْلَیْنِ یَلْتَمِسُ مَنْ یَّتَغَذَّی مَعَہٗ وَ کَانَ یُکْنٰی اَبَا الضَّیْفَانِ‘‘[16]
’’حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمتیں اور سلامتی ہو ) جب کھانا تناول فرمانا چاہتے تو ایک یا دو میل باہر جاتے کہ کوئی ساتھ کھانے والا ملے- اسی لئے آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کنیت ’’ابو الضیفان‘‘ تھی‘‘-
’’ابو ضیفان‘‘کا مطلب ہے ضیافت و مہمان نوازی کرنے والے -
حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’کُلُّ بَیْتٍ لَا یَدْخُلُہٗ ضَیْفٌ لَا تَدْخُلُہُ الْمَلَائِکَۃُ‘‘[17]
’’جس گھر میں مہمان نہیں آتا اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے‘‘-
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی غریب و نادار ہے جو استطاعت نہیں رکھتا وہ بھی اسں نعمت سے محروم ہے-بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صاحب استطاعت ہو مگر اس کی بد اخلاقی اور بخل و کنجوسی کی وجہ سے مہمان اس کے گھر میں آنا جانا چھوڑ جائیں تو اس کے متعلق فرمایاکہ اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے- اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسافر یا مہمان پر بخل کرنے پر وعید فرمائی ہے کہ:
’’نِالَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالبُخْلِ وَ یَکْتُمُوْنَ مَآاٰتٰـہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖط وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْنًا‘‘[18]
’’جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور اس (نعمت) کو چھپاتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے-(تو)اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-
اس سے آگے بھی تمام آیات انہی احکام سے متعلق ہیں:
’’وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ رِئَآئَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِط وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًا‘‘[19]
’’اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کیلیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخرت پر اور شیطان جس کا بھی ساتھی ہوگیا تو وہ برا ساتھی ہے‘‘-
یعنی وہ لوگوں کے لیے خرچ کرتا ہے نہ کہ اس لیے کہ میرے خالق کا حکم ہے جس کے متعلق مجھے یومِ آخرت اس کی بارگاہ میں حساب دینا ہے- اس لئے جس کی نیت ریا کاری و اپنی نیک نامی ہوگی اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو خوب جانتا ہے اور جو ریاکاری کیلیے ایسے کام کرے اس نے شیطان کو اپنا دوست بنا رکھا ہے اور شیطان سے برا دوست بھلا کون ہوسکتا ہے؟ اس لیے جو آدمی استطاعت رکھتے ہوئے بھی مسافر کی دلجوئی و خدمت سے محروم رہتا ہے تو نہ صرف ملائکِ رحمت اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتے بلکہ از روئے قرآن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عنقریب ہم اسے اپنے عذاب کی گرفت میں لیں گے-
آقا کریم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو جو حسنِ معاشرت کا طریق سکھایا اس کی جھلک آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام و اہل بیت اطہارِ (رضی اللہ عنھم)کی حیاتِ طیبہ کے ہر ایک پہلو میں نظر آتی ہے-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ بَاتَ بِهِ ضَيْفٌ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا قُوتُهُ وَقُوتُ صِبْيَانِهِ فَقَالَ لاِمْرَأَتِهِ نَوِّمِي الصِّبْيَةَ وَ أَطْفِئِي السِّرَاجَ وَ قَرِّبِيْ لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَكِ‘‘[20]
’’انصار کے ایک شخص کے گھر رات کو ایک مہمان آگیا-اس کے پاس اپنے اور بچوں کے علاوہ کھانا نہیں تھا-اس نے اپنی زوجہ محترمہ سے کہا کہ بچوں کو سُلا دے اور چراغ کو بجھا دے اور (کھانے میں) جو کچھ ہے وہ مہان کے قریب کر دے (تاکہ وہ پیٹ بھر کر کھا سکے)‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ(ان کے اس عمل پر) یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
’’وَيُؤْثِرُوْنَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ‘‘[21]
’’اور وہ اپنی جانوں پر ان (اسلام کے مہمانوں) کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید (خود) ضرورت ہو‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل سے اتنا خوش ہوا کہ ان کی تعریف فرماتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا کہ جو اپنی جانوں پر اسلام کے ان مہمانوں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے- لیکن کیا ہی خوبصورت لوگ ہیں جن کو ان کا ایمان مبارک ہو کہ وہ اپنی ذات، اپنے بچوں اور اہل خانہ کی بجائے راہ چلتے مسافروں اور اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے مہمان کو ترجیح دیتے ہیں-
’’حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’الْخَيْرُ أَسْرَعُ إِلَى الْبَيْتِ الَّذِيْ يُغْشٰى مِنَ الشَّفْرَةِ إِلَى سَنَامِ الْبَعِيْرِ‘‘[22]
’’ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اسی طرح دوڑتی ہے جیسے چھڑی اونٹ کےکوہان پر‘‘ -
جب اونٹ ذبح ہوتا ہے تو اونٹ کی کوہان کا گوشت سب سے زیادہ مزیدار ہوتا ہے- اس لئے آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ جب تم اونٹ ذبح کرنے کے بعد جس طرح اونٹ کی کوہان کا گوشت حاصل کرنے کیلئے اُجلت میں اس کی جانب لپکتے ہو، اسی طرح جب کوئی اپنے گھر میں مہمانوں اور مسافروں کی خدمت کرتا ہے اس کی طرف خیر و نیکی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی ہے-اس لئے اچھائی، بھلائی ،خیراور نیکی کو جلد حاصل کرنے کا اس سے آسان کوئی راستہ نہیں کہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کی جائے -
حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے عرض کیا :
’’يَا رَسُوْلَ اللّهِ إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلاَ يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى ‘‘
’’یا رسول اللہ (ﷺ)آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور (بعض دفعہ) ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے- آپ (ﷺ)کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے ؟
آپ (ﷺ)نے ہم سے فرمایا :
’’إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوْا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِيْ لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوْا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوْا فَخُذُوْا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِيْ لَهُمْ‘‘[23]
’’جب تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور وہ تمہاری ایسی ضیافت کریں جیسے ایک مہمان کی ضیافت کی جاتی ہے تو اس کو قبول کرو اور اگر وہ تمہاری ایسی ضیافت نہ کریں تو تم ان سے اس قدر ضیافت کا سامان وصول کرو جتنا ان پر ان کے حال و رواج کے مطابق ایک مہمان کا حق ہے‘‘-
یعنی صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ ایک اخلاقی عیب تھا کہ اگر کوئی قبیلہ یا قوم اپنی طرف آنے والے مہمانوں کا خیال نہ رکھے-
ابراہیم بن موسیٰ الشاطبی المالکیؒ اور دیگر متعدد فقہاء کرام ؒ نے اس پہ بڑی طویل مباحث فرمائی ہیں کہ مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر فرض ہے- جبکہ بعض فقہاء کرام (رحمتہ اللہ علیھم) نے فرمایا ہے کہ دیہی علاقوں میں جہاں آبادی کم ہو، وسائل نہ ہوں اور مال و اسباب کی خرید و فروخت نہ ہو سکے تو وہاں مہمان نوازی فرض ہے لیکن اگر کوئی بڑی جگہ یا بڑے شہر کی بات ہو تو یہ فرض نہیں رہتی بلکہ سنت یا مستحب بن جاتی ہے-کیونکہ وہاں قیام و طعام کے لئے مسافر خانے موجود ہوتے ہیں- مال و اسباب کے خرید و فروخت کے لئے دکانیں اور بازار موجود ہوتے ہیں-
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ثَلاَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ
تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے بہت سخت دکھ دینے والا عذاب ہو گا
- رَجُلٌ عَلٰى فَضْلِ مَاءٍ بِالطَّرِيْقِ يَمْنَعُ مِنْهُ ابْنَ السَّبِيْلِ،
’’ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو اس پانی سے منع کرے (یعنی نہ پینے دے)‘‘-
- ’’دوسرا وہ شخص جو امام سے بیعت کرے اور بیعت کی غرض صرف دنیا کمانا ہو اگر وہ امام اسے کچھ دیدے تو بیعت پوری کرے ورنہ توڑ دے ‘‘-
- ’’تیسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے کچھ مال متاع عصر کے بعد بیچ رہا ہو اور قسم کھائے کہ اسے اس سا مان کی اتنی قیمت مل رہی تھی اور پھر خریدنے والا اُسے سچا سمجھ کر اس مال کو لے لے حالانکہ اُسے اِس کی اتنی قیمت نہیں مل رہی تھی‘‘-[24]
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لاَ شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ ‘‘[25]
’’تین افراد کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی شک نہیں (1)مظلوم کی دعا، (2)مسافر کی دعا اور (3)والد کی اپنے بیٹے کے خلاف دعا‘‘-
حضرت عمرو بن حارث (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
’’مَا تَرَكَ رَسُوْلُ اللّهِ (ﷺ) دِيْنَارًا وَ لَا دِرْهَمًا، وَ لَا عَبْدًا، وَ لَا أَمَةً إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَآءَ الَّتِيْ كَانَ يَرْكَبُهَا، وَ سِلَاحَهُ، وَ أَرْضًا جَعَلَهَا لِابْنِ السَّبِيْلِ صَدَقَةً‘‘[26]
’’رسول اللہ (ﷺ) نےنہ کوئی درہم و دینار اور نہ کوئی غلام یا لونڈی ترکہ میں چھوڑی سوائے آپ کے سفید خچر کے جس پر آپ سواری فرماتے، اپنے اسلحہ کے اور کچھ زمین کے جسے آپ نے مسافروں کیلئے وقف فر ما دیا تھا‘‘-
مسلمان بھائیو اور بہنو! ہم جس دین سے تعلق رکھتے ہیں، جس نبی پاک شہہِ لولاک (ﷺ) کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود کو جن کا عاشق کہتے ہیں ان کی ذات اقدس نے ہماری زندگی کے سماجی و معاشی و معاشرتی طریق کے ایک بھی پہلو کو خالی نہیں چھوڑا جس پہ ہمیں رہنمائی نہ عطا فرمائی ہو- اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے وجود، اہل خانہ، اہلِ محلہ میں ان عظیم ترین اخلاقِ نبوت کے فیوض و برکات کو پیدا کریں جس کے ذریعے ہمارے معاشرے میں اسلامی و روحانی تربیّت کی جھلک نظر آسکے-
حجۃ الاسلام امام غزالیؒ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ حضرت! مَیں اگر ایسی بستی کو دیکھتا ہوں جہاں کفار غالب اور مسلمان مغلوب ہیں تو آپ کیا فرمائیں گے کہ اسلام مغلوب اور کفر غالب کیوں آگیا؟ امام غزالیؒ نے فرمایا : اس کی وجہ یہ ہو گی کہ کفار نے مسلمانوں کی صفات اور مسلمان نے کفار کی صفات اختیار کر رکھی ہونگی-
جو لوگ مغرب کا رہن سہن جانتے ہیں،یورپ، امریکا، آسٹریلیا، یوکے اور دیگر ممالک میں سفر کرتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ انہوں نے وہاں ایک راہ گیر کا، مسافر کا کیا حق رکھا ہے؟؟؟ان کے ہاں جس طرح بڑے بڑے چوراہوں پہ گاڑیوں کے لئے سگنل ہوتے ہیں اسی طرح پیدل چلنے والوں کے لئے اشارے بنائے گئے ہیں- جس وقت پیدل چلنے والوں کا اشارہ کھل جاتا ہے اس وقت کوئی گاڑی وہاں سے نہیں گزر سکتی- اگر زیبرا کراسنگ کے اوپر کسی پیدل گزرنے والے کو کوئی گاڑی ٹکر مار دے تو عین ممکن ہے کہ لائسنس تاحیات بین کرنے کے ساتھ نہ ادا کیاجا سکنے والا جرمانہ عائد کر دیا جائے جسے ادا کرتے کرتے زندگی بیت جائے کیونکہ ایک راہگیر کی حق تلفی ہوئی ہے-لیکن یہاں روزانہ کی بنیاد پہ ہمارے اندھا دھند چلنے والے ڈرائیورز بچوں، عورتوں اور مال و اسباب کو کچلتے ہیں -ساٹھ ساٹھ ستر ستر مسافر ایک وقت میں جاں بحق ہوجاتے ہیں- اس کا ذمےدار کون ہے؟؟؟ یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِمام غزالیؒ کا قول کس حد تک صادق ہے-
حضرت ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’اَلسَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَ شَرَابَهُ وَ نَوْمَهُ، فَإِذَا قَضَى نَهْمَتَهُ، فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ‘‘[27]
’’سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے ، اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو فوراً گھر واپس آ جائے‘‘-
مسافرت میں آدمی سختی و تنگی میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کے وجود میں غم اور اجنبیت کی کیفیت ہوتی ہے-جیسا کہ سُلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں کہ:
شالا مُسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جِنہاں توں بھارے ھو |
خدا تجھے مسافر نہ کرے، کیونکہ بعض اوقات پردیس میں تنکوں کی وقعت مسافر سے بڑھ جاتی ہے-
اَسیں پَردیسی سَاڈا وطن دوراڈھا باھوؒ دَم دَم غم سَوایا ھو |
ہم پردیسی مسافر ہیں ، ہمارا وطن بہت ہی دُور ہے، ہماری ہر ایک سانس میں غم بھرا ہے-
یعنی سفر جس طریق سے ایک عام آدمی کے بدن پر بوجھ بن جاتا ہے اسی طرح انسان کی روح بھی مسافرت کے اندر ہے-اس کیلئےیہ عالم جہاں ہم رہتے ہیں یہ ناسوت ہے اور ناسوت روح کا مقام نہیں ہے روح کا مقام عالم ارواح ہے جسے صوفیاء کرام نے لاہوت بھی فرمایا ہے- گویا روح لاہوت سے ناسو ت کی طرف سفر کرتی ہے جس کے باعث وہ یہاں آ کر بیگانگی و اجنبیت محسوس کرتی ہے- اسی لیے بچہ جیسے ہی جنم لیتا ہے اُس کی روح کی چیخ و پکار بچہ کے رونے سے ظاہر ہوتی ہے- یعنی روح یہ بیان کر رہی ہوتی ہے کہ مَیں ایک اجنبی وطن میں آگئی ہوں اسی لیے دین نے روح کا بھی ایک حق رکھا ہے کہ وہ بھی مسافر ہے- اُس مسافر کا بھی حق ہے کہ اس کی تسکین کا سامان کیا جائے- روح کی تسکین و اطمینان کا طریقہ رب العالمین نے فرمایا ہے کہ :
’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo‘‘[28]
’’خبردار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دِ لوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-
چونکہ روح کا مقام دل اور فواد ہےاس لیے جب آدمی دل سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو دل کو اطمینان ملتا ہے اور دل کے اطمینان سے روح کو تسکین نصیب ہوتی ہے-اس لئے حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
الست بربکم سُنیا دِل میرے نِت قالوا بلٰی کوکیندی ھو |
میرے دل نے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ کا خطاب سُنا تھا میری روح ہر وقت ’’قَالُوْا بَلٰی‘‘ کا جواب پکارتی ہے- میری روح پہ اس کے دیس / وطنِ اصلی (یعنی عالمِ لاہوت) کی محبت غالب رہتی ہے اس محبت کا اِضطراب ایک لمحہ بھی چین نہیں آنے دیتا -
اصلی وطن تو لاہوت ہے یہ ناسوت تو وطنِ اقامت ہے جہاں انسان اپنا ایک عارضی فریضہ گزار کے چلا جاتا ہے-آپؒ فرماتے ہیں کہ :
بَنھْ چَلایا طَرف زَمین دے عَرشوں فَرش ٹِکایا ھو |
ہمیں باندھ کر زمین کی طرف پھینک دیا، عرش سے اٹھاکر ہمارا ٹھکانہ فرش بنا دیا گیا-اے دنیا! ٹھہر، ہمارے ساتھ جھگڑا مت کر، ہمارا دل پہلے سے گھبرارہا ہے ہم پردیسی ہیں، ہمارا وطن دور ہے اور ہر لمحہ غم بڑھتا جا رہا ہے-
یعنی روح بھی مسافرت میں پسیج جاتی ہے اور آدمی بھلے اپنے ہی گھر و خویش قبیلے میں نہ کیوں بیٹھا ہو آدمی کا بدن بھی مسافر ہے- کیونکہ اس کا وجود اُس کی تشکیل سے لے کرقبر میں جانے تک بھی مسافرت میں ہوتا ہے-بقول شیخ ابراہیم ذوق:
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے |
یعنی انسان نہ اپنی خوشی آتا ہے نہ جاتا ہے- بقول حکیم الامت:
خودی کی یہ ہے منزلِ اولیں |
خدا کے بندو! غور کرو کہ یہ چرند پرند، وادیاں، صحرا، پہاڑ یہ ہمارا چیزیں نشیمن نہیں ہے بلکہ ہماری مسافرت کی ایک منزل ہے جہاں ہمیں ایک مسافر کی مانند بھیجا گیا ہے-بزبانِ شاعر:
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے |
از روئے قرآن روح اور بدن ایک راستے کے مسافر ہیں- اس لیے رفاقتِ راہ کا حق بھی ایک دوسرے پہ رکھتے ہیں اور ہمسائیگی کا حق بھی ایک دوسرے پہ رکھتے ہیں-بدن کا حق روح کے اوپر ہے اور روح کا حق بدن کے اُوپر ہے- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :
دِل دریا خُواجہ دیاں لہراں، گھُمن گھیر ہزاراں ھو |
یہاں تین باتوں کا ذکر ہے؛
پہلی ’’ہک پردیسی‘‘ یعنی میرا بدن بھی یہاں اجنبی ہے اور میری روح بھی-کیونکہ ہمیں عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں مسافر بنا کر بھیجا گیا-
دوسری ’’نیوں لگ گیا‘‘یعنی ہم نے مالک حقیقی سے محبت کی ہے اور اس کے بارِ امانت کو قبول کیا ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط‘‘
’’بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین پر اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش فرمائی پس تمام چیزیں اِس بوجھ کو اُٹھانے سے عاجز آگئیں اور ڈر گئیں اور اِنسان نے اِس کو اُٹھا لیا ‘‘-
تیسری ’’بے سمجھی دیاں ماراں ھو‘‘ کے متعلق فرمان ہے کہ:
’’اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo‘[29]
’’بیشک تُو بڑا ظالم اور نادان ہے‘‘-
یعنی انسان مالک حقیقی کی بارِ امانت اٹھا تو لیتا ہے لیکن انسان کا دل اللہ پاک کی ذات، اس کی بندگی،اس کے ذکر، اُس کے قرب سے غافل رہتا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس کے بدن اور روح کو عذاب بھگتنا پڑتا ہے -اِس لئے بدن کا حق یہ ہے کہ روح اس بدن کو سرشار رکھے اور روح کا حق بدن کے ذریعے تسکین پہنچنا ہے اور روح کی تسکین کا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے، اللہ اور اس کے نبی کی محبت و اطاعت کرنا، اُن کی رضا و خوشنودی کے راستے کو اختیار کرنا، یہ تمام تقاضے بدن طے کرتا ہے- مثلاً کلمہ، نماز،روزہ، زکوٰۃ اور حج، بدن کے اعضاء سے ادا کئے جاتے ہیں-اِس لئے فرمایا گیا کہ جب تمہارا بدن اللہ کی عبادت میں غرق ہوجاتا ہے اس وقت تمہارا جسم اپنی روح کے حق کو ادا کررہا ہوتا ہے- کیونکہ اس بدن کے اوپر روح کا حق ہے کہ یہ بدن روح کی نجات و بقاء کیلئے اپنا کردار ادا کرے- جب بدن روح کا حق ادا کرتا ہے تو اُس کے صلہ میں روح بدن کو عزت و وقار اور شان و شوکت عطا کرتی ہے اور اپنی بلندیٔ درجات کے سبب برزخ و بہشت میں بھی اس جسم کو تکلیف نہیں پُہنچنے دیتی-کیونکہ یہ دونوں مسافر ہیں اور از روئے قرآن جب دو مسافر اکھٹے ہوجائیں تو ایک کا دوسرے پر حق عائد ہوجاتا ہے اور جو ان دونوں کے حق کو مارتا ہےوہ مجرم ہے-اس لیے بندے پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کی شریعت کو اپنائے-
اصلاحی جماعت کی یہی دعوت و پیغام ہے کہ آئیے! آقا کریم (ﷺ) کی شریعت کو اپناتے ہوئے اپنے ظاہر و باطن کی پاکیزگی کو حاصل کریں جو ہماری دنیاوی اور اُخروی نجات کا ذریعہ ہے- کیونکہ جب انسان اللہ اور اس کے رسول کریم (ﷺ) کی جانب رغبت اختیار کر کے چل پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے راستے میں آسانیاں پیدا فرماتا ہے اور اس کے لئے اپنی رحمت کے تمام دروازے کھول دیتاہے-اس لئے تمام ساتھیوں کو بالخصوص نوجوانوں کو یہ دعوت دیناچاہوں گا کہ آپ آئیں اور اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مبلغین جو امن و محبت کی سفید دستاریں اپنے سروں پر سجائے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے اس پیغام کو پھیلانے کے لئے دنیا بھر میں اپنی جدوجہد کو قائم کئے ہوئے ہیں ، کے ساتھ مل کر اس تربیت و اخلاق کو حاصل کریں جو انبیاء کرام (علیھم السلام) کے اخلاق کا فیض ہے جسے حاصل کرنا ہر مومن مسلمان پر لازم کیا گیا ہے- کیونکہ یہ جماعت ادب و اخلاق اور دین کی وہ تعلیم عطا فرماتی ہے کہ جس سے ہمارے جھگڑے و فسادات مٹتے ہیں اور آپس میں امن ومحبت، اخوت و بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے-اس لئے اصلاحی جماعت میں شامل ہو کر اس پیغام کو خود بھی سمجھیں اور اپنی آئندہ نسلوں تک بھی کتاب و سنت کا یہ عملی طریق عملی طور پر منتقل کریں-اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو-آمین!
٭٭٭
[1](النساء:36)
[2](البقرۃ:177)
[3](البقرۃ:215)
[4](الانفال:41)
[5](الحشر:7)
[6](التوبہ:60)
[7](الاسراء:26)
[8](البقرۃ:185)
[9](النساء:101)
[10](المائدہ:96)
[11](الکہف:77)
[12](الذاریات:24-26)
[13](سورۃھود:69-70)
[14](آلِ عمران:95)
[15](الموَطّا امام مالک، کتاب صفۃ النبی(ﷺ)
[16](احیاء علوم الدین، کتاب الآداب الاکل)
[17](ایضاً)
[18](النساء:37)
[19](النساء:38)
[20](صحیح مسلم، کتاب الاشربہ)
[21](الحشر:9)
[22](سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ)
[23](صحیح مسلم، کتاب اللقطہ)
[24]( صحیح بخاری، کتاب الاحکام)
[25](جامع الترمذی، کتاب البر و الصلۃ)
[26]( صحیح بخاری، کتاب المغازی)
[27](صحیح بخاری، کتاب الحج)
[28](الرعد:28)
[29](الاحزاب:72)