اہل علم و شعور اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت امتِ مسلمہ کس اضطراب و کشمکش سے گزر رہی ہے یعنی نہ ممالک محفوظ ہیں اور نہ ہی امتِ اسلامی کی عصمتیں-اس زبوں حالی میں ہمارے پاس فقط ایمان کی دولت تھی- لیکن افسوس! اب دولتِ ایمان بھی غیر محفوظ ہے-چونکہ دولتِ ایمان ہی مسلمان کا سرمایہ ٔ کُل ہے تو جولوگ اس دولت کے درپے ہیں وہ اپنے وسائل اور پراپیگنڈا کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سے دولتِ ایمانی اور تقویٰ کو زائل کرنا چاہتے ہیں- حکیم الامت ہماری کامیابی کا راز یوں بیان فرماتے ہیں:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے |
حکیم الامت ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں:
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت |
یعنی اگر مسلمان دولتِ دین و ایمان سے محروم ہو کر دنیا کا جاہ و جلال پالے تو ایسی تجارت مسلمان کیلئے خسارا ہے-
الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے اس دور میں گمراہی اور جہالت کے پھیل جانے کے باوجود بھی آقا کریم (ﷺ) کی امت سے ہدایت کو اس طرح کلیتاًنہیں اٹھایا جس طریقے سے اس امت سے قبل کی امتوں سے ہدایت کو اٹھایا جاتا رہا ہے-کیونکہ اس امت میں آج بھی اہل ہدایت و اہل تقویٰ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں-
مسلمان جس ہدایت سے اپنے ایمان کو تقویت دیتا ہے وہ از روئے قرآن و سنت ان لوگوں کی صحبت و تربیت سے میسر آتی ہے جن کو قرآن مجید ’’صالحین‘‘ کہتا ہے- انبیائے کرام (علیھم السلام) منصب نبوت پہ سرفراز تھے انہیں بارگاہِ صمدیت سے وحی ہوتی تھی لیکن پھر بھی تعلیمِ امت کیلئے وہ صالحین کی صحبت کی دعا کرتے تھے-جیسا کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) بارگاہ ِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں:
’’رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ج فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ قف اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِج تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo ‘‘[1]
’’ اے میرے رب بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے مِلا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں‘‘-
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی دعا کرتے ہیں:
’’ رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo‘‘[2]
’’اے میرے رب مجھے علم و عمل میں کمال عطا فرما اور مجھے اپنے قربِ خاص کے حامل لوگوں میں شامل فرما‘‘-
انبیاء کرام (علیھم السلام) نہ صرف خودصالحین تھے بلکہ اُن کی کامل پیروی و اطاعت کرنے والے بھی صالحین بنے، اِس لئے انہوں نے اپنے اُمتیوں میں رغبت پیدا فرمائی کہ صالحین اور ابرار کی قربت و صحبت اختیار کریں-اللہ تعالیٰ نے جن کو علومِ روحانیہ اور اپنے قرب خاص کی منازل عطا فرمائیں ان کو بھی صالحین کہا جاتا ہے - یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام (علیھم السلام) نے اپنے اسلوبِ تربیت سے اپنی امتوں کو یہ بتایا ہے کہ اگر ہدایت و فلاح کے طالب ہو تو بارگاہِ صمدیت میں دعا گو رہو کہ اے اللہ!ہمیں صالحین کی معیت و صحبت عطا فرما-
اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ‘‘‘[3]
’’(اے حبیب مکرم(ﷺ) اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں‘‘-
امام طبریؒ نے ’’تفسیر طبری‘‘، امام بیہقیؒ نے ’’شعب الایمان‘‘ اور امام قرطبیؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
’’فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) يَلْتَمِسُهُمْ حَتَّى أَصَابَهُمْ فِي مُؤَخِّرِ الْمَسْجِدِ يَذْكُرُوْنَ اللهَ‘‘
’’پس رسول اللہ (ﷺ) انہیں تلاش کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ جب آپ (ﷺ) نے انہیں مسجد کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے پایا‘‘-تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي لَمْ يُمِتْنِيْ حَتَّى أَمَرَنِيْ أَنْ أَصْبِرَ نَفْسِيْ مَعَ قَوْمٍ مِّنْ أُمَّتِيْ،
’’سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں،جس نے مجھے موت نہیں دی یہاں تک مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے آپ کو اپنی امت کے ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھوں‘‘-
(پھر آپ (ﷺ) نے اپنے غلاموں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا) مَعَكُمُ الْمَحْيَا وَمَعَكُمُ الْمَمَاتُ‘‘
تمہارے ساتھ ہی میرا جینا ہے اور تمہارے ساتھ میرا مرنا ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کو اپنی امت کی نصیحت و تربیت کے لیے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو ہر وقت میری یاد میں مشغول اور میری رضا اور جمال کے طالب ہیں ان کو اپنے قریب کر لوتاکہ یہ آپ (ﷺ)کی امّت کے لیے حجت بن جائے کہ جو بھی میرے قرب کا طالب بنے تو اہلِ ذکر کی صحبت و معیّت کو اختیار کرے-کیونکہ جہاں اہلِ ذکر، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں وہاں ملائکہ آسمان سے نزول فرما کر ان کو رحمتِ الٰہی کی لپیٹ میں لے لیتے ہیں- اس لئے اہلِ ذکر کی مجلس و صحبت، قربت و معیت حتیٰ کہ ان کی ہمسائیگی اور قرب و جوار رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا سبب ہوتا ہے -آقا پاک (ﷺ)کی امت کی ایک رمز بڑی لطیف و عجیب ہے کہ اُمّت محب ہے اور نبی محبوب-اصول یہ ہے کہ ہمیشہ محب محبوب کو چاہتا ہے مگر جب سرکار دو عالم (ﷺ) کی اُمت کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت کی انتہاء نہیں رہتی کہ یہاں محب تو محبوب کو چاہتا ہے، ساتھ ہی ساتھ محبوب بھی اپنے محب کو چاہتا ہے- یعنی جیسے اُمّت آقا کریم (ﷺ) کی محبت میں آپ (ﷺ) کی قربت چاہتی ہے اسی طرح آقا کریم (ﷺ) اپنی امّت کی محبت میں اپنی اُمّت کو اپنے قریب فرمانا چاہتے ہیں-یہاں اُمت کی تربیت مقصود ہے کہ جب بھی یہ امت اپنی ترجیحات مقرر کرےتو سب سے پہلے طلبِ الٰہی اور اہلِ ذکر کو تلاش کر کے ان کی صحبت اختیار کرے کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے-
اسی طرح قرآن مجید نے ہمیں یہ راہ دکھائی کہ جب انسان اللہ رب العزت کے ذکر سے غافل ہو کر معصیت و تقصیروں کے سمندر میں ڈوبنے لگے اور اپنے لئے پناہ تلاش کرے تو ارشادِ ربانی کے اس احسانِ عظیم کو یاد کرکے اس پر عمل کرے:
’’وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘[4]
’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (ﷺ)تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ‘‘-
یعنی جب اُمت نا فرمانی و سر کشی میں ڈوب جائے تو آقا کریم (ﷺ) کے دَر پہ اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش طلب کرے-اگر حضور نبی کریم (ﷺ) شفاعت فرمادیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرما دے گا-
اب یہاں فطری طور پر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ حکم مبارک فقط اُس زمانے کیلیے خاص تھا جس میں سرکار دو عالم (ﷺ) اپنی حیاتِ ظاہری میں جلوہ فرما ہیں یا جب آقا کریم (ﷺ) اس دنیاسے بہ تقاضائے ظاہر پردہ پوشی فرما جائیں گے تو اُس وقت یہ حکم بھی ساقط ہو جائے گا؟
اس سوال کا جواب آقا کریم (ﷺ) کے اس دنیا فانی سے رحلت فرمانے کے بعد صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا عمل ہے- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ آیت مبارکہ محض سرکار دو عالم (ﷺ) کی حیاتِ ظاہری کیلئے خاص نہیں ہے بلکہ سرکار دو عالم (ﷺ) اس دنیا میں اپنی حیاتِ ظاہری کے ساتھ جلوہ فرما ہوں یا اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد اپنی قبر انور میں، اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تا قیامت اہل ایمان کیلئے صادر ہے کہ جب بھی اپنی جانوں پہ ظلم کر بیٹھو تو آقا کریم(ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرو -
آقا کریم (ﷺ) کی قبر انور کے قریب بیٹھنا صالحین کا طریق ہے- کئی محدثین و مفسرین کرام حضرت عُتْبِیْ (رضی اللہ عنھم) سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ (ﷺ)، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) سَمِعْتُ اللهَ يَقُوْلُ {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّابًا رَحِيْمًا}’’وَقَدْ جِئْتُكَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِيْ مُسْتَشْفِعًا بِكَ إِلَى رَبِّيْ‘‘
’’مَیں رسول اللہ (ﷺ) کی قبر انورکےپا س بیٹھا ہوا تھاکہ ایک اعرابی آیااورعرض کی: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) میں نے اللہ پاک کا فرمان مبارک سنا ہے : } وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْكَ۔۔۔ الآية{ ’’مَیں اپنے گناہوں کی بخشش کیلئے آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں اور آپ (ﷺ)کو اپنے رب کی بارگاہ میں شفیع بناتا ہوں‘‘-
حضرت عتبیؒ فرماتے ہیں کہ پھر اس اعرابی نے آقا کریم (ﷺ) کے مزار مبارک کی طرف اشارہ کر کے یہ اشعار پڑھے :
يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهٗ |
’’اے ان سب سے افضل ترین ہستی جن کا جسدِ مبارک اس سر زمین میں آرام فرما ہے جن کی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ہیں میری جان اس قبر پر قربان ہو، جس میں آپ (ﷺ) محوِ استراحت ہیں، اسی میں پارسائی ہے اور اس میں جود و سخاہے‘‘-
ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ فَغَلَبَتْنِيْ عَيْنِيْ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) فِي النَّوْمِ
’’(حضرت عُتبیؒ فرماتے ہیں کہ) یہ شعر کہنے کے بعد اعرابی لوٹ گیااورمجھے نیند آگئی- میں نے خواب میں نبی پاک (ﷺ) کی زیارت کی‘‘-
آپ (ﷺ) نےارشادرفرمایا:
يَا عُتْبِىْ، اِلْحَقِ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَهٗ[5]
’’اے عتبی !جاؤ اعرابی کو ملو اور اسےخوشخبری دے دوکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا‘‘-
امام نَسَفیؒ اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:
’’جَاءَ أَعْرَابِيٌّ بَعْدَ دَفْنِهٖ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَرَمَى بِنَفْسِهٖ عَلَى قَبْرِهٖ وَحَثَا مِنْ تُرَابِهٖ عَلَى رَأْسِهٖ وَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ ، قُلْتَ فَسَمِعْنَا وَكَانَ فِيْمَا أَنْزَلَ عَلَيْكَ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ---» الآية . وَقَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَجِئْتُكَ أَسْتَغْفِرُ اللهِ مِنْ ذَنْبِيْ فَاسْتَغْفِرْ لِيْ مِنْ رَّبِّيْ فَنُوْدِيَ مِنْ قَبْرِهٖ قَدْ غُفِرَ لَكَ‘‘[6]
’’حضورنبی کریم (ﷺ) کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی حاضر ہوا اور آپ (ﷺ) کے مزارمبارک سے لپٹ گیا اور اس کی خاکِ شفاء اٹھا کر اپنے سر پر لگائی اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) نے جو کچھ فرمایا ہم نے سن لیا اور جو کچھ آپ (ﷺ) پر نازل ہوا اس میں یہ آیت مبارکہ بھی ہے ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ‘‘---الآية ‘‘اور میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں خدمت اقدس میں حاضر ہوں میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں آپ (ﷺ)میرے لئے اپنے ر ب سےدعا کیجئےتو حضور اکرم (ﷺ) کی قبر مبارک سے آواز آئی کے بےشک تجھے بخش دیا گیا‘‘-
قرآن مجید تا ابد ہدایت کی رہنمائی کرنے والا ہے اور ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے کہ جب بھی اپنی جانوں پہ ظلم کر کے معصیت و سرکشی میں ڈوب جاؤ تو حضور نبی کریم (ﷺ) کے در پہ حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا کرو اللہ تعالیٰ کے کرم اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی شفاعت سے گناہ بخش دیے جائیں گے-گویا قرآن مجید کی آیت مبارکہ کی دلیل کے ساتھ آقا کریم (ﷺ) کی قبر انور سے توسل اختیار کرنا صحابہ کرام اور صالحین(رضی اللہ عنھم) کا طریق ہے-
سیدنا ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)، مدفون استنبول، جنہیں آقا کریم (ﷺ) کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، کے متعلق حضرت داؤد ابنِ صالح (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک دن مروان سرکار دو عالم (ﷺ) کی قبر انور پہ آیااور اس نے ایک شخص کو دیکھاجس نے اپنا چہرہ آقا کریم (ﷺ) کےمزار مبارک پر رکھا ہوا تھا-پس اس (مروان) نے کہا:
’’أَتَدْرِىْ مَا تَصْنَعُ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُو أَيُّوبَ فَقَالَ نَعَمْ جِئْتُ رَسُوْلَ اللّهِ (ﷺ) وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ (ﷺ) يَقُوْلُ لَا تَبْكُوْا عَلَى الدِّيْنِ إِذَا وَلِيَهٗ أَهْلُهٗ وَلَكِنِ ابْكُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهٗ غَيْرُ أَهْلِهٖ‘‘[7]
’’کیا تو جانتا ہے کہ تو کیا کرر ہا ہے؟تو (قبرِ رسول (ﷺ) پہ جھکا ہوا) وہ شخص اس کی طرف متوجہ ہواپس جو کہ حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ) تھے پس آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا ہاں (مجھے معلوم ہے کہ مَیں کیا کر رہا ہوں) فرمانے لگے: ’’مَیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا-میں نےاللہ کے رسول (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم دین پر اس وقت نہ رو جب اس کے والی اس کے اہل ہوں ، لیکن تم اس پر رو،جب اس کے والی غیر اہل ہوں‘‘-
پہلی بات: سرکار دو عالم (ﷺ) کی قبرِ انور کے متعلق صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا عقیدہ تھاکہ وہ آپ (ﷺ) کی قبر انور کو فقط پتھر نہیں سمجھتے بلکہ وہ آقا کریم(ﷺ) کے روضہ اقدس پہ اس لئے حاضر ہوتے ہیں تاکہ وہ آقا کریم(ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ (ﷺ) کی شفاعت حاصل کرسکیں-
دوسری بات:حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ) کا یہ فرمان ’’تم دین پر اس وقت نہ رو جب اس کے والی اس کے اہل ہوں اورلیکن تم اس پر رو، جب اس کے والی غیر اہل ہوں‘‘ فرمانے کا مدّعا یہ تھا کہ آج دین پہ آہ و بکا اور گریہ زاری کرنے کاوقت ہے-کیونکہ آج دین اہل لوگوں کی بجائے نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے-جس کی شناخت حضرت ایوب انصاری نے یوں کی کہ مَیں قبرِ رسول (ﷺ) پہ حاضر ہوں اور مروان مجھے روکتا ہے-افسوس! کہ اسے روضۂ رسول (ﷺ) اور عام قبر میں فرق معلوم نہیں ہے- حالانکہ آقا کریم (ﷺ) مجھے دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی -
سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے ردِّ عمل سے معلوم ہواکہ جو زیارتِ روضۂ مصطفےٰ کریم (ﷺ) سے روکے اور خود کو دین کا نمائندہ کہے تو سمجھ جاؤ کہ دین نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے-
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نہ صرف آقا کریم (ﷺ)کی قبر انور کو بلکہ مؤمنین کی قبر وں کے قرب اور نسبت کو بھی اپنے لیے باعث برکت سمجھتے تھے- ’’صحیح بخاری، کتاب الجنائز‘‘ میں حضرت عمر و بن میمون الاَوْدِیْ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، وہ امیر لمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) کی وفات سے قبل کا بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا انہوں نے کہا :
’’اِذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا فَقُلْ: يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ثُمَّ سَلْهَا، أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ‘‘
’’اے عبد اللہ! تم اُم المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس جاؤ،پس ان سے کہو کہ عمر آپ کو سلام کَہ رہا ہے پھر آپ (رضی اللہ عنہا)سے سوال کرنا کہ کیا میں اپنے صاحبوں (سیدی رسول اللہ (ﷺ) اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ) کے ساتھ دفن کر دیا جاؤں؟‘‘-حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا)نے کہا:
’’كُنْتُ أُرِيْدُهٗ لِنَفْسِيْ فَلَأُوْثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِيْ، فَلَمَّا أَقْبَلَ، قَالَ: لَهُ مَا لَدَيْكَ؟ قَالَ: أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘
’’میں اس جگہ کا اپنے لئے ارادہ رکھتی تھی، پس میں آج ان کو ضرور اپنے اوپر ترجیح دوں گی پھر جب حضرت عبد اللہ بن عمر آئے تو حضرت عمر نے پوچھا: تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ انہوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! حضرت اُم المومنین نے آپ کے لئے اجازت دے دی ہے‘‘-
حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:
’’مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُوْنِي، ثُمَّ سَلِّمُوْا، ثُمَّ قُلْ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِيْ، فَادْفِنُوْنِيْ، وَ إِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلَى مَقَابِرِ المُسْلِمِيْنَ‘‘[8]
’’اس جگہ سے زیادہ میرے نزدیک اور کوئی جگہ اہم نہیں تھی، پس جب میری روح قبض کرلی جائے تو مجھے وہاں اٹھا کر لے جانا، پھر سلام عرض کرنا، پھر عرض کرنا عمر بن خطاب اجازت طلب کر رہا ہے، پس اگر آپ (ﷺ) میرے لئے اجازت دے دیں تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا‘‘-
تینوں شارحینِ بخاری حافظ ابن بطال، حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدر الدین (رحمتہ اللہ علیھم) حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے اس فرمان ’’ اگر مجھے آپ (ﷺ)کے روضہ اقدس میں مدفون ہونے کی اجازت نہ ملے تو پھر مجھے مسلمانوں کی قبور کے ساتھ دفنانا‘‘ پر متفق ہیں اور قبورِ صالحین و مؤمنین جوارِ رحمت ہوتے ہیں اور وہاں کثیر برکات ہوتی ہیں -
’’اَلْحِرْصُ عَلَى مُجَاوَرَةِ الصَّالِحِيْنَ فِي الْقُبُوْرِ طَمَعًا فِيْ إِصَابَةِ الرَّحْمَةِ إِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ وَفِيْ دُعَاءِ مَنْ يَّزُوْرُهُمْ مِنْ أَهْلِ الْخَيْرِ‘‘
’’اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت کے حصول کی طمع کرتے ہوئے قبرستان میں صالحین کے پڑوس پر حرص کرنی چاہیےجب وہ (رحمت) ان پر نازل ہوتی ہے اور نیک لوگوں میں سے جو ان کی زیارت کیلئے آتے ہیں ان سے دعا کے حصول میں بھی (اسی طرح طمع و حرص کرنی چاہیے)‘‘-
گویا صالحین کی قبور کے قرب و جوار میں رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ بنتا ہے- قرآن مجید نے ابرار و صالحین کی معیت میں موت آنے کو بطور دعا کے سکھایا ہے :
’’رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ‘‘[9]
’’اے ہمارے رب! تو ہمارے گناہ بخش دے، ہماری برائیاں مٹا ڈال اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر‘‘-
صالحین و صدیقین کی صحبت کی ترغیب ان الفاظ میں بھی ارشاد فرمائی:
’’وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[10]
’’اور اہلِ صدق کے ساتھ ہو جاؤ‘‘-
اب آئیے! اس جانب کہ صالحین کی قبور کی زیارت اور بعد از وفات صالحین سے توسل کے بارے اسلاف کا کیا طریق اور عقیدہ تھا-پہلی بات یہ جان لینی چاہئے کہ قیامت سے قبل لیکن اس جہانِ فانی سے جانے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جسے ’’عالمِ برزخ‘‘ کہا جاتا ہے-اس کی تفصیل اور مقدمہ کی وضاحت کیلئے ایک الگ نشست درکار ہوگی، لیکن اس کی مختصر ترین وضاحت اور تفہیم ’’سنن ترمذی‘‘ شریف کی اس حدیث پاک سے ہوتی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِّيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ‘‘[11]
’’بے شک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے‘‘-
مؤمنین و صالحین کی قبور جنت کے باغ ہوتی ہیں ، کیونکہ ان کی زندگی اور عالمِ برزخ میں انہیں پاکیزہ رزق دیئے جانے کی تصدیق قرآن پاک سے ہوتی ہے :
’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاطبَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘[12]
’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں‘‘-
یہ فرمان تو شہداء کے بارے ہے ، ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں حضرت ابو درداء(رضی اللہ عنہ)کی روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے انبیائے کرام (علیھم السلام)کی بعد از وفات زندگی کے بارے فرمایا:
’’فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ‘‘[13]
’’اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں انہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘-
صحابۂ کرام(رضی اللہ عنھم) کا آقا کریم(ﷺ) کی ذاتِ اقدس کے بارے یہی عقیدہ تھا کہ آپ (ﷺ) اپنی قبر انور میں زندہ ہیں- حافظ ابن کثیرؒ ’’البداية والنهاية‘‘ میں امام بیہقیؒ کی سند کے ساتھ اور امام ابن ابی شیبہؒ ’’مصنف ابی ابن شیبہ‘‘ میں حدیث پاک کو روایت کرتے ہیں کہ مالک الدار جو حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتےہیں کہ :
’’أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِيْ زَمَنِ عُمَرَ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ (ﷺ) فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اِسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوْا فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهٗ اِئْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيْمُوْنَ‘‘
’’حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آیا، ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی) رسول اللہ (ﷺ) کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہے ہیں -حضور نبی کریم (ﷺ) اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور اس شخص سے فرمایا: عمر کے پاس جاؤ، اس کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘‘-
قحط سے نجات کا سوال آقا کریم (ﷺ) کی قبرِ انور پہ ہوا-آقا کریم (ﷺ) سوال سن کر جواب بھی عطا فرماتے ہیں اور ’’دافع البلاء‘‘ ہوتے ہوئے قحط سے چھٹکارہ عطا کرنے کی کرم نوازی بھی فرماتے ہیں- کیونکہ عالمین کی رحمت سے کوئی کبھی خالی نہیں لوٹا-
آقا کریم (ﷺ)کی قبرِ انور پہ حاضر ہونے کی ترغیب خود رسالت مآب (ﷺ) نے دلائی- امام بیہقیؒ روایت فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ زَارَ قَبْرِیْ، أَوْ قَالَ: مَنْ زَارَنِیْ کُنْتُ لَہُ شَفِیْعًا أَوْ شَھِیْدًا‘‘[14]
’’جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا): میری زیارت کی، (روزِ قیامت)مَیں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا‘‘-
حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی قبرِ اطہر کی زیارت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ زَارَ قَبْرِیْ، وَجَبَتْ لَہٗ شِفَاعَتِیْ‘‘[15]
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘-
حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے:
’’مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِيْ بَعْدَ وَفَاتِيْ فَكَاَ نَّمَا زَارَنِيْ فِيْ حَيَاتِيْ‘‘[16]
’’میری وفات کے بعد جس نے حج کیا پھرمیری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی‘‘-
آقا کریم (ﷺ) کے روضۂ مبارک پہ حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنا یوں ہے جیسے سرکار دو عالم (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں آپ (ﷺ)کی بارگاہ میں حاضر ہونا-
اسی طرح صحابہ و آئمہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے عقیدے سے معلوم ہوا کہ وہ صالحین کی قبور سے برکتِ ظاہری اور برکتِ روحانی دونوں حاصل کیا کرتے تھے-
آفتابِ علمِ حدیث امام ابن حبان (رضی اللہ عنہ) (المتوفی: 354ھ) لکھتے ہیں:
’’وَمَا حَلَّتْ بِيْ شِدَّةٌ فِيْ وَقْتِ مَقَامِيْ بِطُوْس فَزُرْتُ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَى الرِّضَا صَلَوَاتُ اللهِ عَلىَ جَدِّهٖ وَ عَلَيْهِ وَدَعَوْتُ اللهِ إِزَالَتَهَا عَنِىْ إِلَّا أُسْتُجِيْبَ لِيْ وَ زَالَتْ عَنِّىْ تِلْكَ الشِّدَّةُ وَهَذَا شَيْءٌ جَرَّبْتُهٗ مِرَارًا فَوَجَدْتُّهٗ كَذٰلِكَ ‘‘[17]
’’اور جب طوس (موجودہ مشہد) میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی میں نے (امام) علی بن موسی رضا (صلوات الله على جده وعلیہ) کی قبرکی زیارت کی اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کیلئے دعا کی تو میری دعا قبول کی گئی اور مجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیاتو اسی طرح پایا‘‘-
یعنی اللہ پاک حضرت علی بن موسٰی رضا (رضی اللہ عنہ) کی قبرِ انور کی برکت کے توسل سے امام ابن حبانؒ کی پریشانی کو رفع فرماتے-
امام ابوبکر احمد بن علی المعروف خطیب البغدادی ’’تاریخِ بغداد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’إِبْرَاهِيْمُ الْحَرْبِيْ، يَقُوْلُ: قَبْرُ مَعْرُوْفٍ اَلتَّرْيَاقُ الْمُجَرَّبُ‘‘
’’امام ابراہیم حربیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت معروف کرخیؒ کی قبر مبارک مجرب تریاق (یعنی ظاہری و باطنی مسائل کا بارہا تجربہ شدہ علاج) ہے‘‘-
امام عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن محمد الزہریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :
’’قَبْرُ مَعْرُوْفِ اَلْكَرْخِيْ مُجَرَّبٌ لِقَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَيُقَالُ: إِنَّهٗ مَنْ قَرَأَ عِنْدَهٗ مِاَئَةَ مَرَّةٍ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَسَأَلَ اللهَ تَعَالٰى مَا يُرِيْدُ قَضَى اللهُ لَهٗ حَاجَتَهٗ‘‘[18]
’’حضرت معروف کرخیؒ کی قبر مبارک حاجات کے پورار ہونے کیلئے بہت مجرب (بارہا مرتبہ کاملین سے تجربہ شدہ) ہےاور ی بھی کہا جاتا ہے کہ جس نے بھی حضرت معروف کرخیؒ کی قبر کے پاس سو دفعہ ’’ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ پڑھااور اللہ تعالیٰ سے جو بھی سوال کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کوپورا فرما دیتے ہیں‘‘-
یعنی کوئی بھی حاجت مند حضرت معروف کرخیؒ کی قبر مبارک پہ حاضر ہوکر سو مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر آپؒ کی روح کے توسل سے جوبھی دعا مانگے گا اللہ پاک اس کی حاجت پوری فرما دے گا-
امام ذہبیؒ بھی ’’سیرأعلام النبلاء‘‘ میں حضرت ابراہیم حربیؒ کے حوالے سے روایت کر کے اس پر مزید تبصرہ فرماتے ہیں کہ :
’’يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اِتَّفَقَ،اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي‘‘[19]
’’آپؒ کی اس سے مراد یہ تھی کہ حضرت معروف کرخیؒ کی قبر مبارک کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ سحری کے وقت، فرض نمازوں کے بعد اور مساجد میں (دعا قبول ہوتی ہے)بلکہ مضطر آدمی کی دعاہر جگہ قبول ہو تی ہے یہ بات متفق علیہ ہے-اے اللہ میں تیری معافی کےلئے بے چین ہوں پس تو مجھے معاف فرما دے‘‘-
امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کی قبرِ انور کی برکات کے بیان میں حضرت علی بن میمونؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے امام شافعیؒ کو یہ روایت فرماتے ہوئے سناکہ:
’’إِنِّيْ لَأَتَبَرَّكُ بِأَبِيْ حَنِيْفَةَ وَأَجِيْءُ إِلَى قَبْرِهٖ فِيْ كُلِّ يَوْمٍ، يَعْنِيْ زَائِرًا، فَإِذَا عُرِضَتْ لِيْ حَاجَةٌ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَجِئْتُ إِلَى قَبْرِهٖ وَسَأَلْتُ اللهَ تَعَالَى الْحَاجَةَ عِنْدَهٗ، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّيْ حَتَّى تُقْضَى‘‘[20]
’’بیشک مَیں امام ابو حنیفہؒ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کیلئے آتا ہوں جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے‘‘-
امام شافعیؒ جو امیر المومنین فی الحدیث اور بانیٔ فقۂ شافعی ہیں، وہ امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کی قبر انور پہ حاضر ہوکر ان کی روح کے توسل سے بارگاہِ صمدیت میں اپنی مشکل کیلئے ہاتھ اٹھا کردعا کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ نیچے آنے سے پہلے اللہ پاک ان کی مشکل کو رفع فرما دیتے ہیں-
اولیاء و صالحین کی مزارات کی زیارات کیلئے طویل سفر اختیار کرنے اور ان کے قرب میں دعا کرنے پہ تسلسل بلکہ ’’تواتر‘‘ کے ساتھ ہر زمانے کے صالحین و اکابرین سے ثابت ہے-زائرینِ حرمین کا شہدائے اُحد بالخصوص سیدنا امیرِ حمزہ(رضی اللہ عنہ) کی زیارت کو جانا ، اہلِ عرب و عجم کا سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی(رضی اللہ عنہ) کی قبر کی زیارت کو جانا، اہل مراکش کا رجالِ سبع کی قبور کی زیارت کو جانا جن میں امام قاضی عیاض مالکی بھی ہیں ، اہلِ شام کا مزاراتِ صحابہ و انبیائے کرام اور صوفیائے شام بالخصوص محی الدین ابن العربی کے مزار مبارک پہ جانا ، اسلامیانِ مغرب و اناطولیہ کا استنبول میں سیدنا ابو ایوب انصاری و دیگر صحابہ(رضی اللہ عنھم) کے مزارات کی زیارت کو جانا، سرزمینِ انبیا و صالحین مصر میں عرب و افریقہ کے شیوخ و اکابرین کا مقابرِ انبیا و صحابہ و اہلِ بیت و صالحین کا زائر ہونا، عرب و عجم کے علما و صالحین کا ثمر قند میں سیدنا امام بخاریؒ اور سیدنا حضرت خواجۂ نقشبند ؒ کے مزارات کی زیارت کو جانا، اہلِ ہند میں سے صالحین و اولیاء کا حضرت داتا صاحبؒ ، اجمیر شریفؒ، حضرت محبوبِ الٰہی ؒ، مدینۃ الاولیاء ملتان اور حضرت سلطان العارفین سلطان باھُو ؒ کی قبور کی زیارت کو جانا باعث برکت و باعثِ ظفرمندی عمل رہا ہے اور ہے اور انشاء اللہ تا قیامت رہے گا-
بے شک حقیقی مشکل کشا اللہ رب العالمین ہے اور اسی نے ہماری مشکل کشائی کرنی ہے-لیکن اہل اللہ کی قبور پر حاضر ہوکر ان کے توسل و مقامِ برکت سے دعا مانگنا اور مالک حقیقی کی برکتیں اور رحمتیں حاصل کرنا صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین(رضی اللہ عنھم)، فقہاء، محدثین و مفسرین اور صوفیاء کرام (رحمتہ اللہ علیھم) کا بالاجماع بر حق عقیدہ ہے- لہٰذا نہ یہ بدعت ہےاور نہ شرک؛ اگر کوئی از روئے تکفیر اسے بدعت اور شرک کہے تو وہ خود نا آشناءِ علمِ دین ، محرومِ مطالعۂ سیرتِ صحابہ و تابعین، دُور افتادہ و گمراہ شدہ از طریقِ اسلاف و اکابرین اور نافہمِ مقامِ اؤلیاء و صالحین ہے -
ستم ہائے تکفیر نے آج امت کا طول و عرض جلا رکھا ہے اور تباہ کر رکھا ہے، کسی بھی بینا آنکھ سے پوشیدہ نہیں کہ انبیاء کرام (علیھم السلام) اور اؤلیاءکرام(رحمتہ اللہ علیھم)کی ناقدری اور ان کے مزارات و مقامات کی توہین حتیٰ کہ جولائی 2016 ء میں مدینہ منورہ میں رسالت مآب (ﷺ) کے روضۂ اقدس پہ حملہ کر کے شدید ترین بے حرمتی کی وجہ سے اِس امت پر کیا آفت ٹوٹ پڑی ہے- یعنی عربوں کو عجمی اور عجمیوں کو عربی برداشت نہیں، تعصب و کینہ اس قدر پھیل گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا شکار ہیں- جس کی واضح مثال میانمار اور شام میں بلکتے، روتے، چیختے اور آدھے دھڑوں میں کٹے ہوئے بچوں کی چیخ و پکار ہے-
کاش! کہ آقا کریم (ﷺ) کے کلمہ گو جو اپنے آپ کو اُمتِ مصطفٰے (ﷺ) کہنے کا دعوٰی تو کرتے ہیں مگر اس شام کو جلانے کے درپے ہیں، وہ یہ جان سکتے کہ آقا کریم (ﷺ) کو مُلکِ شام سے کتنی محبت تھی-ترمذی شریف کی حدیث ہے، حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
ہم رسول اللہ (ﷺ)کے پاس بیٹھے چمڑے کے ٹکڑوں سے قرآن مجید جمع کر رہے تھے- تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : «طُوْبَى لِلشَّامِ فَقُلْنَا: لِأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟
”شام کیلئے خوشخبری ہو“- ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ)! کس وجہ سے خوشخبری؟ تو آپ (ﷺ)نے فرمایا: ’’لِأَنَّ مَلَائِكَةَ الرَّحْمٰنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا‘‘[21]
”رحمان کے فرشتوں نے اپنے پَر شام پر پھیلائے ہوئے ہیں-
امام احمد بن حنبل اور امام طبرانیؒ حضرت عبد اللہ بن حارث (رضی اللہ عنہ)سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے سیدنا حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ)کو فرماتے سنا اور عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا:
’’أَلَا فَالْإِيمَانُ حَيْثُ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ ‘‘[22]
’’ خبردار! فتنوں کے وقت ایمان شام کی سرزمین میں ہو گا‘‘-
یعنی شام وہ سر زمین ہے جہاں انبیاء کرام (علیھم السلام) اور آقا کریم (ﷺ)کے عشاق گئے، جہاں سیدنا حضرت بلال حبشی، سیدنا خالد بن ولید، شیخ محی الدین ابن العربی، فاتح القدس سلطان صلاح الدین ایوبیؒ مدفون ہیں-گویا شام وہ خطہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دائمی برکت عطا فرمائی- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَنَجَّیْنٰـہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْہَا لِلْعٰـلَمِیْنَ‘‘[23]
’’ اور ہم نے اسے اور لوط کو نجات بخشی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے جہاں والوں کیلئے برکت رکھی ‘‘-
امام طبریؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’وَ نَجَّيْنَا إِبْرَاهِيمَ وَ لُوطًا مِنْ أَعْدَائِهِمَا نَمْرُودَ وَ قَوْمِهِ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ، {إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ} [الأنبياء: 71] وَهِيَ أَرْضُ الشَّامِ‘‘
’’اور ہم نے سر زمینِ عراق سے ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کو ان کے دشمنوں یعنی نمرود اور اس کی قوم سے اس زمین کی طرف نجات عطا فرمائی جس میں ہم نے عالمین کیلئے برکت رکھی اور اس زمین سے مراد شام کی سرزمین ہے‘‘-
صد افسوس! جس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے دائمی برکت عطا فرمائی اسے فقط اک حکومت کو بچانے اور ہٹانے پر جلایا گیا اور فرقہ وارانہ جنگ کو فروغ دیا گیا-لیکن کوئی اس نتیجہ سے کیوں غافل ہے کہ اس عجمی اور عربی تعصب کی سزا وہاں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں معصوم بچے اور بوڑھے بھگت رہے ہیں اس کی سزا عالمِ اسلام بھگت رہا ہے - لوگ کیوں اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھیں ہیں کہ آج دنیا نے شامیوں پر اپنے بارڈرز کلوز کر رکھے ہیں کہ کوئی اُن شامی مہاجرین کو پناہ نہیں دے سکتا جبکہ دشمن ان معصوموں کے اوپر گولے برسانے اور اس سرزمین کو خون سے سیراب کرنے کے لئے بآسانی وہاں پہنچ جاتا ہے-کیا یہ دنیا کا دوہرا معیار نہیں ہے؟
شام کو جلانے والے طرفین! آقا کریم (ﷺ)کا فرمان یاد رکھو! آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيْكُمْ‘‘
’’جب اہل شام میں فساد برپا ہوجائے گا تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہیں رہے گی‘‘-
اُمت میں وحدت و یگانیت، اُلفت و مُحبت پیدا کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ اس اُمت کے مرد و زن کو بیَک وقت یہ آواز اٹھانا ہو گی کہ شام میں پراکسی وار اور غیر شامیوں کی مداخلت کو ختم کیا جائے-
دوسری بات جو پراکسیز ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں وہ انٹرنیشنل ہیں اور پاکستان میں بھی موجود ہیں- مَیں سلام پیش کرتا ہوں، اپنی قومی سلامتی کے اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان اور ISI کو کہ انہوں نے اس مشکل ترین وقت میں جس طریق سے قومی وحدت برقرار رکھی ہوئی ہے- یعنی اس بدترین فرقہ واریت کے باوجود بھی انہوں نے شام کی جنگ کو یہاں نہیں گھسنے دیا-
آقا کریم (ﷺ) کا کلمہ گوہونے کے ناطے ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے کہ ہم آقا کریم (ﷺ) کی اس بکھری امت کو نفرت و تعصب سے پاک کرکے متحدکرنے کی کاوش کریں- جس کا واحد راستہ اللہ رب العزت کا فرمان اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے کہ ’’جب اپنی جانوں پر ظلم کر چکو تو میرے محبوب کی بارگاہ میں آجایا کرو‘‘- آج اس اُمت کو اجتماعی طور پہ آقا کریم (ﷺ) کے دربار کا قصد کرنے کی ضرورت ہے - کیونکہ بزبانِ حکیم الامت:
حکمتِ مغرب سے مِلّت کی یہ کیفیّت ہوئی |
یا رسول اللہ (ﷺ)! حکمت مغرب نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، آپ (ﷺ)اپنی حکمتِ مصطفوی سے ہم سب کو یکجا فرما دیں-
دربارِ عالیہ حضرت سلطان باھُوؒ سے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ آئیں! فتنوں کے اس دور میں اللہ رب العزت کی رضا اور آقا کریم (ﷺ) کے عشق سے دلوں کو منور کر کے اس قافلۂ حق کا حصہ بنیں اور اس پیغام کو قولاً عملاً پھیلانے کیلئے جدو جہد کریں تاکہ اس امت میں اتحاد و یگانگت، الفت اور محبت پیدا ہو- اللہ تعالیٰ ہم سب کی مساعی کو قبول فرمائے- آمین
٭٭٭
[1](یوسف:101)
[2](الشعراء:83)
[3](الکہف:28)
[4](النساء:64)
[5](تفسیر ابن کثیر)
[6](مدارك التنزيل وحقائق التأويل، زیر آیت، النساء: 64)
[7](مسند أحمد/المستدرك على الصحيحين للحاكم/مجمع الزوائد)
[8](صحیح بخاری، کتاب الجنائز)
[9] آلعمران: 193
[10] التوبہ: 119
[11] (سنن ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ)
[12] (آلعمران ۔ 169 )
[13] (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز)
[14](سنن الکبریٰ، رقم الحدیث:10053)
[15](سنن دار قطنی، ج:2، ص:278)
[16](المعجم الکبیر للطبرانی)
[17](الثقات ابن حبان)
[18](تاریخ بغداد)
[19](سیر اعلام النبلاء)
[20](تاریخ بغداد)
[21](سنن الترمذي، کتاب المناقب)
[22]( مسند أحمد بن حنبل/المعجم الکبیر للطبرانی)
[23](الانبیاء:71)