کوانٹم مکینکس (جدید طبیعات کا سائنسی اور فلسفیانہ پہلو)

کوانٹم مکینکس (جدید طبیعات کا سائنسی اور فلسفیانہ پہلو)

کوانٹم مکینکس (جدید طبیعات کا سائنسی اور فلسفیانہ پہلو)

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن جنوری 2017

انسانی علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ علم کی مختلف شعبہ جات میں تقسیم ہوئی ہے  قدیم دور کے یونانی فلسفی آج کے دور کے سائنسی، معاشرتی اور دیگر شعبہ جات بھی شاملِ بحث رکھتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب انسان نے تجربات کا طریقہ کار سیکھا اور اس کے زیرِ بحث موضوعات نے وسعت اختیار کی تو دلائل اور منطقی مباحث کے ساتھ سائنسی طریقہ کار بھی پروان چڑھا سائنسی طریقہ کار کی ایک اہم اساس کسی بھی تجربہ یا مشاہدہ کا قابلِ تکرار ہونا ہے یعنی جسے کوئی بھی شخص دہرا سکتا ہو جیسے نیوٹن کے کشش ثقل کے قوانین کوئی بھی شخص تجربہ کر سکتا ہے اور ہر کسی کو اُس تجربے کے مخصوص آلات اور ماحول میں ایک ہی نتیجہ ملتا ہے- آج کے دور میں بھی یہ اساس قائم ہے تاہم جدید طبیعات  میں بہت چھوٹے ذرات کے مطالعہ کی سطح پر کچھ ایسی تبدیلیاں ہوئی ہیں جنہوں نے طبیعات میں ایک نئی فلسفیانہ بحث کو جنم دیا ہے- بعض تبدیلیاں تو ایسی وقوع پذیر ہوئی ہیں جو مافوق العقل محسوس ہوتی ہیں لیکن نِت نئے جدید آلات اسی کی مرحونِ منت ہیں -طبیعات میں آنے والی اس تبدیلی نے جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے روز مرہ کی زندگی میں استعمال کو جِلا بخشی ہے، وہیں فلسفہ اور سائنس کے زیرِ بحث موضوعات میں ایک بار پھر یگانگت لائی ہےاس میں قابلِ ذکر موضوعات ’’شعور‘‘کا مطالعہ، انسان کے اپنے فیصلوں میں خود مختار ہونا اور ہماری کائنات کے علاوہ دیگر بہت سی  کائناتوں کی موجودگی کی بحث شامل ہے-ساتھ ہی ساتھ اس بحث نے بھی جنم لیا ہے کہ سائنس کائنات کی حقیقت کس حد تک جان سکتی ہے؟ زیرِ نظر مضمون بیسویں صدی کے اوائل میں طبیعات میں آنے والی اس حیران کُن تبدیلی اور اس کے فلسفیانہ پہلوؤں پر گفتگو کرے گا-

جدید طبیعات:

انیسویں صدی کے اختتام پر طبیعات کے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اُس وقت تک دریافت ہونے والے سائنسی قوانین مثلاً نیوٹن کے قوانین اور برقی مقناطیسیت وغیرہ کی روشنی میں اب کائنات کوصحیح طور پرکھنا اور جاننا  ممکن ہو گیا ہےاور کسی بھی چیز کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنا اور اس کے مستقبل کی حالت کو جاننا ممکنات میں شمار ہو گیا ہے- لیکن اُس وقت چند تجربات میں ایسے بنیادی سوال ابھرے جن کا جواب اس وقت موجود سائنسی نظریات دینے سے قاصر رہے  اور ان کی وضاحت کرتے کرتے  بیسویں صدی کی ابتدا میں طبیعات کے ایسے نظریہ (theory) کی بنیاد رکھی گئی  جس نے تجربات ،ایجادات اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں تو انقلاب برپا کر دیا مگر  انسان کے سائنسی تصور کو چیلنج کردیا ایسے انقلابی سائنسی نظریات  میں سے ایک کوانٹم مکینکس (Quantum Mechanics) ہے-

سادہ الفاظ میں کوانٹم مکینکس کے مطابق کسی ذرہ کی ایک مقام پر موجودگی اور حرکت دونوں کومکمل طور پر نہیں ماپا جا سکتا اور ان پیمائشوں میں باہمی طور پر ہمیشہ ایک غیر یقینیت برقرار رہتی ہے یعنی اس نے بنیادی سائنسی اصولوں میں تعینات (Determinism) کی بجائے امکانات(Probability)کو سامنے لایا اور یہ کوئی محض تھیوری کی بات نہیں تھی بلکہ گزشتہ سو سال میں کئے گئے ان گنت تجربات اس امر کی مکمل توثیق کرتے ہیں یعنی کسی چھوٹے ذررہ کی کسی مقام پر موجودگی کے مشاہدہ کے بعد حرکت کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ حرکت کی بہت سی مختلف مقداروں کی ملی جلی حالت میں آجاتا ہے اور مشاہدہ کرنے پر کسی ایک میں  ملتا ہے (یعنی مشاہدہ کرنے پر ممکنہ امکانات میں سے کوئی ایک منتخب ہو جاتا ہے اور باقی امکانات یک مشت ختم ہو جاتے ہیں) تاہم ایسے ہی کسی اور ذرہ پر تجربہ دہرایا جائے تو عین ممکن ہے کہ دوسرے تجربہ میں حرکت کی کوئی مختلف مقدار ملے (تاہم ملنے والی مقدار ممکنات میں سے کوئی ایک ہی ہو گی)- یعنی کسی ایک ہی ذرہ پر بالکل ایک ہی حالات میں تجربہ دہرانے سے مختلف مقداریں مل سکنے کا امکان موجود رہتا ہے- جدید طبیعات کا یہ پہلو نہایت دلچسپ ہے اور اس میں اہم ترین چیز مشاہدہ یا تجربہ کر کے مقدار ماپنا ہے-  مشاہدہ کی اہمیت کوانٹم مکینکس میں ضرورت آج بھی زیرِ بحث ہے اور اس کی مختلف فلسفیانہ تشریحات کی جاتی ہیں تاہم یہ بھی اہم حقیقت ہے کہ  مختلف تجربات میں مختلف مقداریں ملنے  کی ایک خاص حد ہے جو کہ پلانک کے مستقل کی مقدار کے قریب ہوتا ہے جس کی مقدار  نہایت قلیل ہوتی ہے:  

Planck constant = 6.62607004 × 10-34 m2 kg /s

غیر یقینی کی سکیل اتنی چھوٹی ہونے کے سبب بڑی اشیاء پر ہمیں یہ غیر یقینیت زیادہ متاثر کُن محسوس نہیں ہوتی-

 جب ایک چھوٹے ذرہ کی ہیئت اور اس کی تمام خصوصیات کی  یقینی پیمائش  کے ممکن  ہونے کے گزشتہ نظریہ پر کاری ضرب لگی تو ان نظریات کو وسیع پیرائے میں یعنی  کائنات کی فطرت کے  تناظر میں دیکھا جانے لگا- اگرچہ بظاہر ہم کائنات میں رونما ہونے والے واقعات کی بہت اعلیٰ اور درست  حد تک پیش گوئی کرسکتے ہیں(کیونکہ زیادہ تر واقعات اتنی بڑی سکیل پر ہوتے ہیں جہاں غیر یقینیت بہت چھوٹی رہ جاتی ہے) لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات کے تمام امور بنیادی طور پر چھوٹے چھوٹے ذرات کے ذریعے ہی سرانجام پاتے ہیں چنانچہ کائنات کی کسی ایک حالت میں اس کے ہر پہلو یعنی تمام ذرات کی حرکات اور ان کے مقامات کی نشاندہی صرف عملی طور پر نہیں بلکہ اصولی طور پر (theoretically) بھی ناممکن ہو گی-ابتدا میں اپنے اچھوتے نظریات اور فطرت کی حقیقت پر غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہونے کے باعث بہت سے سائنسدانوں نےاس  نظریہ  کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور البرٹ آئن سٹائن جیسے نامور سائنسدان بھی اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ کائنات میں رونما ہونے والا ہر واقعہ متعین انداز میں ہوتا ہے اور انسان اس کا کم از کم  اصولی طور پر اس کا مکمل علم حاصل کر سکتا ہے ان کا ایک مشہور قول ہے :

‘‘God does not play dice with the universe’’

اسی طرح  کئی سائنسدانوں نے کوانٹم مکینکس کی اس عجیب و غریب فطرت کے متعلق اپنا اظہارِ خیال کیا جن میں سے چند  درج ذیل ہیں:

‘‘I think I can safely say that nobody understands quantum mechanics.’’ )Richard Feynman(

’’میرے خیال میں، میں یہ بات وثوق سےکہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی شخص کوانٹم مکینکس کو نہیں سمجھتا‘‘- (رچرڈ فائن مین)

‘‘If [quantum theory] is correct, it signifies the end of physics as a science.’’ (Albert Einstein(

’’اگر کوانٹم مکینکس درست ہے تو یہ طبیعات کے بطور ایک سائنس (بطور سائنسی مضمون) خاتمہ کی دلیل ہے ‘‘-(البرٹ آئن سٹائن)

‘‘For those who are not shocked when they first come across

quantum theory cannot possibly have understood it.’’ )Niels Bohr ( 

’’ایسے لوگ جو پہلی بار کوانٹم مکینکس کا سامنا کرتے ہوئے پریشان نہ ہوئے ہوں، وہ ممکنہ طور پر  اسے سمجھ نہیں سکے‘‘-(نیل بوہر)

جدید طبیعات کی موثریت:

کوانٹم مکینکس کے انطباقی اور امکانات کے نظریات سے بظاہراً ایسا معلوم ہونے لگتا  ہے جیسے اس نظریہ کے ذریعے ہم اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں کام نہ لے سکیں  مگر اس امر سے قطعہ ٔنظر کہ حقیقت کیا ہے، یہ بہت دلچسپ امر ہے کہ نہ صرف بیسویں صدی کے اوائل میں سامنے آنے والے طبیعات کی دنیا کے مسائل کا حل کوانٹم مکینکس  نے تلاش کیا بلکہ آج کے دورِ جدید کی اکثر ٹیکنالوجی  اسی کی مرہونِ منت ہے اور حیران کن  بات یہ ہے کہ  جدید طبیعات  انتہائی صراحت کے ساتھ سائنسدانوں کے تجربات اور امیدوں پر پورا اترتی ہے-کوانٹم مکینکس کی  پیش گوئیاں تجربات سے ملنے والے نتائج پر بہت باریکی سے پورا اترتی ہےاور ایسے آلات جو کوانٹم مکینکس کے اصولوں پر بنائے جاتے ہیں ان میں لیزر،موبائل فونز ،ایل سی ڈیز،ایل ای ڈیز، نینو پارٹیکلز،کمیونیکیشن، ایٹمی و شمسی توانائی  وغیرہ شامل ہیں- ایک ایٹم اور روشنی کے چھوٹے ذرے کے مطالعہ سے لےکر جدید  نہایت چھوٹی اور انتہائی موثر لیزر مشینوں کا بنایا جانا اسی نظریہ کے  ذریعہ ممکن ہوا ہے-

سائنس و فلسفہ کا امتزاج:

اپنے اچھوتے خواص کے باعث کوانٹم مکینکس نے فلسفیوں کو بھی متاثر کیا ہے جو جدید سائنسی علوم کو سامنے رکھتے ہوئے علومِ فلسفہ سے کائنات اور انسان  کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً غیر یقینیت کے نظریہ اور مشاہدہ کی اہمیت نے انسانی دماغ کی سوچ کی صلاحیتوں پر بحث کو نئی راہ دی ہے اور کوانٹم مکینکس کی بنیاد پر آزاد سوچ(free will) یا تعین (determinism) پر نئی بحث شروع ہو ئی- کئی سائنسدان یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب ایک چھو ٹا ذرہ انطباقی حالت میں ہوتا ہے اور اس کے متعلق سو فیصد درست انفارمیشن حاصل کرنا ممکن نہیں تو انسانی دماغ کی حالت پر بھی یہی اصول لاگو ہوتے ہیں چنانچہ انسانی دماغ میں ہونے والے فیصلوں کو سو فیصد (%۱۰۰)درست طور پر نہیں پیش گوئی کی جا سکتی چاہے دماغ کے تمام خلیوں اور باریک ترین حصوں کا سائنسی مطالعہ کیوں نہ کر لیا جائے اور یہ امر انسان کی آزاد سوچ پر دلالت کرتا ہے-

کئی سائنسدانوں نے امکانات اور انطباقی حالات کے الجھا دینے والے مسئلہ کے مسائل  کے حل کے لئے مختلف توضیحات پیش کی ہیں جن میں ایک بہت سی کائناتوں کی موجودگی کا نظریہ (many worlds interpretation) بھی ہے جس کے مطابق بالکل ہماری جیسی دیگر بہت سی کائنات بھی موجود ہیں اور کسی ذرہ کے مختلف امکانات میں موجود ہونے کی حالت میں مشاہدہ کرنے پر تمام ممکنہ مقداروں میں سے مختلف کائنات میں ہر ایک ممکنہ مقدار ملتی ہے اور ہم بھی ان کائناتوں میں سے ایک کا حصہ ہیں چنانچہ ان ممکنہ مشاہدات میں سے اپنی کائنات میں سامنے آنے والی ممکنہ مقدار کا  مشاہدہ کر لیتے ہیں- تاہم متوازی کائنات کے نظریہ کے سائنسی بنیادوں پرجانچ کے قابل  ہونے پر شکوک و شبہات موجود ہیں اسی طرح باشعور کردار کے امکانات میں سے کسی ایک کے منتخب ہونے کے مسئلہ  پر یہ دلائل بھی دیئے جاتے ہیں کہ ذرہ اس وقت تک امکانات کی حالت میں رہتا ہے  جب تک کہ مشاہدہ کرنے والے کا ذہن اس کی ممکنات میں سے ایک کا انتخاب نہ کر لے- اس کنفیوژن پر دیگرکئی توضیحات پیش کی گئی ہیں مگر ابھی تک سائنسی طور پر کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکا اور اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا کہ آیا یہ غیر یقینی اور امکانات  قدرت کا حصہ ہیں یا یہ ہمارے مشاہداتی مسائل کے سبب ہےیا کہ اس کی کوئی اور وجہ ہے-

کچھ لوگ شعور  کے انسان کی مابعدالطبیعات سے تعلق ہونے کے باعث اس کے سائنسی بنیادوں پر پرکھے جانے پر سوال بھی اٹھاتے ہیں- دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان انسانی شعور کی سائنسی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں- جدید طبیعات میں مشاہدہ کی اہمیت نے شعور پر سائنسی بحث کو جِلا بخشی ہے تاہم  کچھ سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ شعور ایسی چیز ہے جسے کبھی بھی سائنسی بنیادوں پر مکمل طور پر پرکھا نہیں جا سکے  گا- عصرِ حاضر  میں فلسفہ، طبیعات اور مابعدالطبیعات کے زیرِ مطالعہ موضوعات میں یگانگت بڑھ رہی ہے اور کئی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آنے والے دور میں ان مختلف علوم سے ایک ہی قسم کے نتائج برآمد ہوں گے جو بالآخر انسان کو اس کی حقیقی روحانی اساس کی جانب  لے جائیں گے-اس بحث کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب تمام علوم کائنات اور انسان کی ایک ہی حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں گے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر