حضرت شیخ ابو محمد عبد الملک ذیّال سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا؛
’’مَیں شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں تھا- آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے- آپ کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی ﴿جس کی نوک لوہے کی تھی﴾- میرے دل میں خیال آیا کہ کاش آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اس لاٹھی سے مجھے بطورِ کرامت کچھ دکھائیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اس لاٹھی کو زمین پر گاڑھ دیا- اچانک اس میں سے نور چمکا اور آسمانوں کی طرف بلند ہو گیا جس سے پوری فضائ منور ہو گئی- ایک گھنٹہ تک یہی حالت رہی پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے لاٹھی کو اٹھا لیا تو اس کی پہلی والی حالت ہو گئی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ اے ذیّال تم نے یہی چاہا تھا؟ ‘‘
مشائخ نے حضرت شیخ ابو سعود احمد بن ابو بکر الحریمی، البغدادی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا؛
’’ایک ابومظفر حسن بن نعیم نامی تاجر حضرت شیخ حماد دباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ:
’حضورِ والا! میں نے تجارت کی غرض سے سفر کرنے کا ارادہ کیا ہے ﴿برکت کی دعا فرمائیں﴾‘-
شیخ حماد نے انہیں فرمایا کہ :
’اگر تم اس سال سفر کرو گے تو قتل کر دیئے جائو گے اور تمہارا مال بھی لوٹ لیا جائے گا‘-
وہ ﴿تاجر یہ سن کر﴾ ان کی بارگاہ سے غمگین ہو کر نکلا تو ﴿راستے میں﴾ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے ملاقات ہوئی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ابھی نوجوان تھے- اس ﴿تاجر﴾ نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اپنا قصہ بیان کیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے فرمایا کہ :
’تم سفر کرو ، مَیں ضمانت دیتا ہوں کہ صحیح سلامت اور مال کے ساتھ واپس لوٹو گے‘-
﴿آپ کی تسلی دینے سے﴾ اس نے سفر کیا اور ﴿تجارت کرتے ہوئے﴾ اپنا مال ہزار دینار ﴿بمع منافع﴾ کے بدلے فروخت کیا- پھر حاجاتِ ضروریہ کے لیے ایک حوض میں داخل ہوا اور اس کے کسی سوراخ میں وہ ہزار دینار رکھ دیئے- وہاں سے نکلتے ہوئے انہیں بھول گیا اور اپنی منزل پر لوٹ آیا جہاں اس کو نیند کا غلبہ ہوا اور سو گیا- اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک قافلہ میں ہے جسے عربوں نے لوٹ لیا ہے اور جو بھی قافلہ میں تھا اسے قتل کر دیا ہے- ان میں سے ایک ﴿ڈاکو﴾ اس کی طرف آتا ہے اور اسے بھی قتل کر دیتا ہے- ﴿یہ خواب دیکھ کر﴾ وہ گھبرا کر اٹھتا ہے تو اپنی گردن پر خون کے نشان دیکھتا ہے اور تلوار کی چوٹ کے درد کا بھی احساس ہوتا ہے- اسے اچانک اپنے ہزار دینار ﴿بھی﴾ یاد آتے ہیں تو وہ تیزی سے اٹھتا ہے اور ﴿حوض کی طرف جاتا ہے﴾ اسی جگہ پر اسے اپنا مال مل جاتا ہے- جب وہ واپس بغداد پہنچتا ہے تو دل میں سوچتا آ رہا تھا کہ پہلے میں شیخ حماد کی زیارت کے لیے جائوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا پھر پہلے شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے ملاقات کروں جن کی بات ﴿میرے حق میں﴾ درست ثابت ہوئی- ﴿ابھی وہ اسی سوچ میں جا رہا تھا کہ﴾ انہیں’ سلطان بازار‘ میں شیخ حماد مل گئے اور اس کو﴿ دیکھتے ہی﴾ فرمایا کہ:
’اے ابو مظفر! تم پہلے شیخ عبد القادر سے جا کر ملو کیونکہ وہ محبوبِ الٰہی ہیں جنہوں نے تمہارے حق میں سترہ مرتبہ دعا مانگی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے جاگتے ہوئے قتل کو خواب میں تبدیل کر دے اور تمہارے مال کے نقصان کو تمہاری بھول سے بدل دے-‘
وہ ﴿تاجر سیدھا﴾ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ:
’شیخ حماد نے تجھے کہا ہے کہ مَیں نے تمہارے حق میں سترہ مرتبہ دعا مانگی ہے- ﴿مجھے﴾ معبودِ حقیقی کی عزت کی قسم! میں نے اس ﴿ذات﴾ کی بارگاہ میں تمہارے لیے ہر سترہ میں سترہ مرتبہ یہاں تک کہ مکمل ستر ﴿۰۷﴾ مرتبہ دعا کی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا جاگتے ہوئے قتل کو جو تمہارے مقدر میں لکھا جا چکا تھا، اسے خواب میں بدل دیا ہے اور تمہارے مال کے نقصان کو جو تمہارے مقدر میں لکھا تھا ﴿تمہاری﴾ بھول میں تبدیل فرما دیا اور ﴿یاد رکھو کہ﴾ ﴿یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہ، اُمُّ الْکِتَابِ﴾ ﴿سورۃ الرعد۳۱، آیت ۹۳﴾ اﷲ جس ﴿لکھے ہوئے﴾ کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور ﴿جسے چاہتا ہے﴾ ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب ﴿لوحِ محفوظ﴾ ہے ‘‘-
حضرت شیخ ابو مظفر منصور بن مبارک واسطی سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ:-
’’جب مَیں نوجوان تھا تو شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا- میرے ساتھ ایک کتاب بھی تھی جو کچھ فلسفہ اور علومِ رُوحانیات پر مشتمل تھی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے جماعت سے ہٹ کر ، میری کتاب دیکھے بغیر اور مجھ سے یہ پوچھے بغیر کہ اس میں کیا لکھا ہے، مجھ سے ﴿مخاطب ہوتے ہوئے﴾ فرمایا کہ: ’تیری یہ کتاب تیری بُری دوست ہے اسے دھو ڈالو ﴿یعنی اس سے دور رہو﴾‘﴿۱﴾- پس میں نے ﴿دل میں﴾ پختہ ارادہ کر لیا کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے سے اٹھوں اور اس کتاب کو گھر میں ﴿جا کر﴾ پھینک آئوں پھر اس کے بعد شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناراضی﴾ کے ڈر سے کبھی اسے ہاتھ نہ لگائوں اور میرا دل بھی اس کتاب میں میری محبت کی وجہ سے ﴿دوبارہ﴾ اسے دھونے کی بات نہ سنے- حالانکہ اس کے کچھ مسائل اور احکامات میرے ذہن میں پختہ ہو چکے تھے- مَیں اس ارادے سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے تعجب سے دیکھا تو مَیں اٹھ نہ سکا اور مقید ہو کر ﴿بیٹھا﴾ رہا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے فرمایا کہ: ’اپنی کتاب مجھے دکھائیں‘- پس جب مَیں نے ﴿آپ کو دکھانے کے لیے﴾ اسے کھولا تو وہ سفید کاغذ تھے- مَیں نے وہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سپرد کر دی- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کتاب کے صفحات کو ﴿کافی دیر تک﴾ غور سے دیکھا تو فرمایا کہ: ’﴿ارے﴾ یہ محمد بن ضریس کی فضائل قرآن پر کتاب ہے‘- ﴿یہ فرما کر﴾ وہ کتاب مجھے ﴿واپس﴾ عطا فرما دی- ﴿جب میں نے اسے کھول کر دیکھا تو﴾ وہ واقعتا محمد بن الضریس کی فضائلِ قرآن پر کتاب ﴿بن چکی﴾ تھی جو بہت ہی خوبصورت خط میں لکھی ہوئی تھی ﴿۲﴾- ﴿اور اس سے بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ﴾ مَیں نے اس ﴿پہلی کتاب﴾ میں سے جو فلسفہ کے مسائل اور روحانی احکامات ﴿۳﴾ یاد کیے ہوئے تھے وہ سب بھول گیا اور وہ میرے باطن سے ایسے مٹے کہ ﴿لگتا تھا﴾ آج تک کبھی پڑھے ہی نہیں تھے‘‘-
روایت ہے کہ آپ ﴿سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ’’جیلان‘‘ کے کچھ مشائخ حاضر تھے- انہوں نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ﴿وضو والے﴾ لوٹے کو دیکھا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور خادم ﴿خلیفہ﴾ مجلس میں ﴿بیٹھا﴾ ہے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے خادم کو ایسی ﴿غضبناک﴾ نگاہ سے دیکھا کہ جو ﴿اس پر ﴾ موت کی طرح ٹوٹ کر پڑی پھر لوٹے کو ایک نظر دیکھا تو وہ خود ہی گھوم کر قبلہ کی طرف ہو گیا-
روایت ہے کہ ایک دن آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مدرسے میں شیخ بقا بن بُطو، شیخ علی بن ہیئتی، شیخ ابو سعید قیلوی اور شیخ ماجد کُردی حاضرِ خدمت تھے- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے خادم ﴿خلیفہ﴾ کو دستر خوان لگانے کا حکم فرمایا- جب اس نے ﴿دسترخوان﴾ لگا دیا اور سب کھانے میں مصروف ہو گئے تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے ﴿از راہِ شفقت اس﴾ خادم سے فرمایا کہ:
’ تم ﴿بھی﴾ بیٹھ جائو اور ہمارے ساتھ کھانا کھا لو‘-
اس ﴿خادم﴾ نے عرض کیا کہ :
’مَیں روزے سے ہوں‘-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :
’کھا لو تمہیں روزے کا اجر بھی مل جائے گا-‘
﴿وہ خادم ہچکچایا تو﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:
’کھا لو تمہیں روزے کی سنت کا ثواب بھی مل جائے گا‘-
اس خادم نے کہا کہ:
’مَیں روزے سے ہوں‘-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ﴿جوشِ رحمت میں﴾ فرمایا کہ:
’کھا لو تمہیں صوم الدہر ﴿عمر بھر﴾ کے روزے کا ثواب مل جائے گا‘-
اس ﴿خادم﴾ نے ﴿تیسری بار بھی﴾ کہا کہ مَیں روزے سے ہوں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے غضبناک نگاہ سے دیکھا تو وہ زمین پر گر پڑا، اس کا جسم پھول گیا اور وہ خون کی قَے کرنے لگا- وہاں پر موجود مشائخ نے اس ﴿کو معاف کرنے﴾ کی سفارش کی اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی ناراضی کو دور کیا یہاں تک کہ آپ اس ﴿خادم﴾ سے راضی ہوئے اور وہ اپنی اسی حالت پر لوٹ آیا جیسے اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں ﴿۴﴾-
روایت ہے کہ :-
’’شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک شخص کی کرامات بہت مشہور تھیں اور وہ ﴿انہی کرامات کے زعم میں﴾ دعویٰ کرتا تھا کہ میرا مقام حضرت یونس نبی ﴿علیٰ نبینا و علیہ السلام﴾ سے بڑھ گیا ہے ﴿نعوذ باللہ من ذلک﴾- پس جب اس شخص کا آپ ﴿شیخ غوث الاعظم ﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ اقدس پر جلال آگیا- آپ تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ﴿یہ بات سن کر﴾ آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ سے تکیہ اٹھایا اور اپنے سامنے پھینکتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے اس کا دل جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے- ﴿اس فرمان کے بعد﴾ لوگوں نے اس ﴿دعویٰ کرنے والے﴾ کو زندہ نہ دیکھا- پھر کسی نے اس کو خواب میں بڑی اچھی حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے جملے کو معاف کر دیا ہے اور اپنے نبی حضرت یونس ﴿علیہ السلام﴾ سے بھی اس بات کی معافی دلوا دی ہے اور ﴿اس معاملے میں﴾ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی حضرت یونس ﴿علیہ السلام﴾ کی بارگاہ میں حضرت شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ میری سفارش کرنے والے تھے پس مَیں نے ﴿انہی کی بدولت﴾ بہت زیادہ بھلائی پائی ہے-‘‘﴿۵﴾
مشائخ نے ﴿ایک واقعہ کی﴾ خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ:-
’’ایک دفعہ تیز ہوا کے دن ایک چیل اڑتے ہوئے اہلِ مجلس پر سے گزری پس اس نے ﴿اس زور سے﴾ چیخ ماری کہ حاضرینِ محفل کو تشویش میں مبتلا کر دیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایاکہ ’اے ہوا !اس کا سر پکڑ لو‘ پس وہ اسی وقت ایک جگہ گر پڑی اور اس کا سر دوسری جگہ پر- شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرسی ﴿سٹیج﴾ پر سے نیچے تشریف لائے اور اس ﴿چیل﴾ کو اپنے ایک ہاتھ میں پکڑااور دوسرے ہاتھ کو اس کے اوپر رکھ کر فرمایا ﴿بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم﴾ پس وہ ﴿چیل﴾ زندہ ہوکر اڑ گئی- لوگوں نے اس ﴿منظر﴾ کا ﴿اپنی آنکھوں سے﴾ مشاہدہ کیا-‘‘
مشائخ نے خبر دیتے ہوئے روایت بیان کی:-
’’ایک دن کسی عورت نے حضرت شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اپنا بیٹا پیش کیا اور عرض کی کہ ’میرے اس بیٹے کو آپ سے بہت ہی زیادہ لگائو ہے، مَیں اللہ عز وجل کی رضا کی خاطر اس کو اپنے حق سے آزاد کرتی ہوں پس یہ آپ کا ہوا‘- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے قبول فرما لیا اور اسے بزرگوں کے طریقے اور مجاہدہ ﴿کرنے﴾ کا حکم ارشاد فرما دیا- ﴿کچھ عرصہ بعد﴾ ایک دن اس کی ماں اسے دیکھنے آئی تو جاگنے اور بھوک کی وجہ سے وہ پیلا اور کمزور ہو چکا تھا اور وہ جو کی روٹی کھا رہا تھا- وہ ﴿عورت﴾ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے ایک برتن میں بھنی ہوئی مرغی کی ہڈیاں پڑی ہیں- آپ ﴿کھانا﴾ تناول فرما چکے تھے- اس ﴿عورت﴾ نے عرض کیا’ یاسیدی! آپ مرغی کھاتے ہیں اور میرا بیٹا جو کی روٹی کھاتا ہے ﴿اس کے حال پر بھی رحم فرمائیں﴾‘- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ:-
﴿قُوْمِیْ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُحْیِ الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیْمٌ﴾
’﴿اے مرغی!﴾ اللہ کے حکم سے اٹھ جا جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمانے والا ہے‘-
پس ﴿یہ فرماتے ہی وہ ہڈیاں﴾ پوری مرغی ﴿بن کر﴾ کھڑی ہوگئیں اور بولنے لگیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ﴿اس بچے کی ماں کو تسلی دیتے ہوئے﴾ فرمایا کہ:
’ جب تیرا بیٹا اس مقام پر پہنچ جائے گا پھر جو چاہے کھائے‘‘﴿۶﴾-
اعلیٰ حضرت شیخ ابو الحسن علی قرشی نے ﴿اپنے چشم دید واقعہ کی﴾ خبر دی کہ:-
’’مَیں اور شیخ علی بن ھیئتی شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بارگاہ میں حاضر تھے، ﴿اس وقت ہجری﴾ سال پانچ سو انچاس ﴿۹۴۵ھ﴾ تھا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ایک تاجر ابو غالب فضل اللہ بن اسماعیل بغدادی ازجی نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ :’یاسیّدی! آپ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ :-
’جس کو دعوت دی جائے پس وہ دعوت کو قبول کرے- ‘
یہاں مَیں آپ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہوں‘- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ’ اگر مجھے اجازت ملی تو مَیں آئوں گا‘- پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے تھوڑی دیر خاموشی سے سر جھکانے کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے ﴿ہم چلتے ہیں﴾- پس آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنی خچر پر سوار ہوئے تو شیخ علی نے اس کی دائیں لگام پکڑ لی اور مَیں نے اس کی بائیں لگام، پس ہم اس کے گھر پہنچ گئے- ﴿اچانک دیکھا﴾ وہاں پر بغداد کے بڑے بڑے مشائخ، علمائ اور سرکردہ لوگ جمع تھے- دستر خوان بچھایا گیا جس میں ہر طرح کا میٹھا اور نمکین کھانا موجود تھا- ﴿اسی دوران﴾ ایک بہت بڑی بند ٹوکری لائی گئی جسے دو بندوں نے اٹھایا اور دستر خوان کے آخر میں لا کر رکھ دیا گیا- ابو غالب نے کہاکہ بسم اللہ ﴿شروع فرمائیں﴾- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے خاموشی سے سر جھکایا ہوا تھا آپ نے نہ خود کھایا، نہ کھانے کی اجازت دی اور نہ ہی کسی نے کھانا شروع کیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی ہیبت سے اہلِ مجلس ﴿کی یہ حالت تھی کہ ان﴾ کے سروں پر گویا پرندے بیٹھے تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے اور علی بن ھیئتی کو اس ٹوکری کی طرف آنے کا اشارہ فرمایا- پس ہم اس کو اٹھانے چل پڑے ، وہ بہت بھاری تھی ﴿بہر حال﴾ ہم نے اسے اٹھا کر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے رکھ دیا- آپ نے ہمیں اسے کھولنے کا حکم دیا- جب ہم نے اسے کھولا تو اس میں ابو غالب ﴿تاجر﴾ کا اندھا، کوڑھی اور فالج زدہ لڑکا پڑا تھا- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:
﴿قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُعَافًا﴾
’اللہ کے حکم سے صحت مند ہو کر کھڑے ہو جا‘-
وہ بچہ ﴿صحیح سلامت کھڑا ہوکر﴾ دوڑنے لگا- وہ ﴿آنکھوں سے﴾ دیکھنے لگا اور ﴿اب﴾ اس میں کوئی بیماری نہیں تھی- حاضرین ﴿جوش سے﴾ نعرے لگانے لگ گئے- پس شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ لوگوں کی بھیڑ سے باہر تشریف لے آئے اور کوئی چیز نہ کھائی-
مَیں شیخ ابو سعید قیلوی کے پاس آیا اور اس ﴿واقعہ﴾ کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا کہ:
’شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اللہ کے حکم سے کوڑھیوں اور اندھوں کو ٹھیک فرماتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں‘‘﴿۷﴾-
مشائخ نے روایت بیان کی ہے کہ اس ﴿شیخ ابو الحسن قرشی﴾ نے کہا کہ:-
’’ایک مرتبہ مَیں آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں موجود تھاکہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ایک رافضی گروہ دو بند ٹوکرے لایا اور عرض کرنے لگا کہ بتائیں کہ ان میں کیا کیا ہے؟ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی ﴿سٹیج﴾ سے نیچے تشریف لائے اور ایک ٹوکرے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اس میں ایک اپاہج بچہ ہے- پھر اپنے بیٹے عبد الرزاق ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو حکم دیا کہ وہ اسے کھولے- جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک اپاہج بچہ تھا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اللہ کے حکم سے اٹھ تووہ اٹھ کر دوڑنے لگا- پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے دوسرے ٹوکرے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اس میں ایک ایسا بچہ ہے جسے کوئی بیماری نہیں ہے- پھر آپ نے اپنے بیٹے ﴿سیّدنا عبد الرزاق﴾ کو اسے کھولنے کا حکم دیا - جب انہوں نے کھولا تو اس میں موجود بچہ اٹھ کر چلنے ہی لگا تھا کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کی پیشانی ﴿کے بالوں﴾ کو پکڑ کر فرمایا بیٹھ جا تو وہ بچہ بیٹھ گیا- وہ سب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ہاتھ پر رافضیت سے تائب ہوگئے- ﴿یہ مشاہدہ دیکھ کر﴾ مجلس میں تین بندے وفات پا گئے- ‘‘
مشائخ نے حضرت شیخ عدی بن مسافر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’ایک مرتبہ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ عنہ خطاب فرما رہے تھے کہ آسمان سے بارش نازل ہوگئی جس سے کچھ اہلِ مجلس اِدھر اُدھر ہوئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا:-
﴿اَنَا اَجْمَعُ لَکَ وَ اَنْتَ تُفَرِّقُ﴾
’میں تیرے لیے ﴿لوگوں کو﴾ اکٹھا کرتا ہوں اور تو ان کو بکھیر دیتا ہے‘
پس ﴿اسی وقت﴾ بارش اہلِ مجلس سے ہٹ گئی اور مدرسے سے باہر باقی جگہوں پر اسی طرح ہوتی رہی لیکن مجلس والوں پر ایک قطرہ بھی نہ گرا-‘‘
اس طرح کی حکایات بہت زیادہ ہیں-
ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ تشریف فرما تھے ایک شخص جس کے سر پر بہترین عمامہ تھا جس کا شملہ اس کے کندھوں کے درمیان تھا، اس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے جن پر کمربند بھی باندھا ہوا تھا کہ وہ اچانک ہوا میں تیر کی طرح تیز اڑتا ہوا آیا- جب وہ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سر کے قریب آیا تو عقاب کے شکار پر جھپٹنے کی طرح نیچے اترا اور آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کو سلام کہا اور ﴿اسی طرح واپس﴾ ہوا میں چلا گیا- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اس کے متعلق عرض کیا گیا ﴿کہ وہ کون تھا؟﴾ تو آپ نے فرمایا کہ وہ رجالِ غیب کے سرداروں میں سے تھا- ان پر اللہ کی سلامتی ہو-
اس طرح کی روایات بے شمار ہیں-
مشائخ نے حضرت شیخ ابو الحسن بن طنطنہ بغدادی سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ انہوںنے فرمایاکہ:-
’’ مَیں شیخ محی الدین عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت کیا کرتا تھا- مَیں اکثر راتوں کو جاگتا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی حاجت کا منتظر رہتا تھا- ایک رات آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے تو میں نے آپ کو لوٹا پیش کیا جو آپ نے نہ پکڑا اور مدرسے کے ﴿مین﴾ دروازے کی طرف چل پڑے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے لیے دروازہ ﴿خود بخود﴾ کھل گیااور آپ ﴿اس سے باہر﴾ تشریف لے گئے- میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے تھا- مَیں ﴿اپنے آپ سے﴾ کہتا رہا کہ آپ کی میری طرف توجہ نہیں ہے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ چلتے رہے یہاں تک کہ بغداد ﴿شہر﴾ کے دروازے تک پہنچ گئے- یہ دروازہ بھی آپ کے لیے کھل گیا اور آپ ﴿اس سے باہر﴾ تشریف لے گئے- پھر جب میں نکلا تو دروازہ ﴿خود بخود﴾ بند ہوگیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اچانک ایک ایسے شہر میں داخل ہو گئے جس سے میں ناواقف تھا- آپ اس شہر کے ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے جو مسافر خانہ کی طرح تھا- اس میں چھ افراد تھے جنہوں نے فوراً آپ کو سلام کیا- میں وہاں ایک ستوں کے پیچھے ﴿چھپ کر﴾ کھڑا ہوگیا- اس مکان کی ایک طرف سے میں نے ﴿کسی مریض کے ﴾ کراہنے کی آواز سنی- تھوڑی دیر بعد وہ آواز خاموش ہو گئی- ایک آدمی آیا اور اس طرف چلا گیا جہاں سے میں نے وہ آواز سنی تھی- پھر ایک ﴿فوت شدہ﴾ شخص کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر لایا- ایک اور شخص آیا جس کا سر ڈھانپا ہوا نہیں تھا اور اس کی مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، وہ ﴿آکر﴾ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے بیٹھ گیا- شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے کلمہ شہادت پڑھایا ﴿اور مسلمان کیا﴾ ، اس کی مونچھیں چھوٹی کروائیں اور اسے ٹوپی پہنائی اور اس کا نام محمد رکھا اور ان ﴿چھ افراد﴾ سے فرمایا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ یہ شخص اس فوت شدہ کے متبادل ہے- انہوں نے کہا کہ ہم نے سن کر اطاعت کی- پھر شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اٹھے اور انہیں الوداع کہا- میں بھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پیچھے نکل آیا- ہم تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ بغداد کے دروازے پر پہنچ گئے- وہ دروازہ پہلے کی طرح کھل گیا- پھر مدرسے کا دروازہ بھی اسی طرح کھل گیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے گھر تشریف لے گئے-
جب اگلے دن میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے بیٹھا تاکہ اپنی عادت کے مطابق سلام کروں تو میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:
’ اے میرے بچے سلام کرو اور گھبرائو نہیں!
پس مَیں نے ﴿حوصلہ پا کر﴾ آپ سے التماس کی کہ جو کچھ مَیں نے دیکھا ہے اس کی حقیقت بیان فرمائیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ؛
’وہ نہاوَند کا شہر تھا ﴿۸﴾ اور جو تم نے چھ افراد دیکھے وہ چنے ہوئے ابدال تھے اور جس کے کراہنے کی آواز تم نے سنی وہ ان میں سے ساتواں ﴿ابدال﴾ تھا- وہ بیمار تھا- جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو مَیں اس کے پاس چلا گیا- اور جس نے ایک ﴿فوت شدہ﴾ شخص کو اپنے کندھے پر اٹھایا تھا وہ ابو العباس حضرت خضر ﴿علیہ السلام﴾ تھے جو اسے اٹھا کر لے گئے تاکہ اس کے کفن دفن کا بندوبست کریں- اور وہ شخص جسے مَیں نے کلمہ شہادت پڑھایا وہ قسطنطینیہ ﴿استنبول، ترکی﴾ کا ایک آدمی تھا- وہ ایک عیسائی تھا اور مجھے حکم دیا گیا کہ اسے فوت شدہ ﴿ابدال﴾ کی جگہ متعین کرنا ہے- پس اسے لایا گیا اور اس نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا- اب وہ ان ﴿سات ابدالوں﴾ میں شامل ہے-‘
راوی نے فرمایا کہ ؛ آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھ سے عہد لیا کہ مَیں آپ کی زندگی میں یہ بات کسی کو نہیں بتائوں گا‘‘-
﴿جاری ہے---﴾
توضیحی نوٹ از مترجم:
﴿۱﴾ ﴿صحبت میں تاثیر ہوتی ہے- بُری صحبت بُرے اثرات مرتب کرتی ہے چاہے وہ ایک بُری کتاب کی سنگت ہو یا پھر کسی بُرے انسان سے دوستی ہو- جب ایک بے جان اور غیر متحرک کاغذ کے کالے حروف انسان پر اچھے بُرے اثرات چھوڑ سکتے ہیں تو ہمیں اپنے موبائل، سمارٹ فونز کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس کی چمکدار سوشل ایپلی کیشنز اوررنگین سافٹ ویئرز ہم پر اچھے اثرات مرتب کر رہے ہیں یا بُرے ، ان سے ہم مفید اور اِصلاح کا کام لے رہے ہیں یا یہ ہمارا وقت برباد کر رہے ہیں؟ حضرت سیدنا غوث الاعظم اور حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق وقت کو غنیمت شمار کرنا چاہیے اور ایک لمحے کی بلکہ ایک سانس کی بھی غفلت کفر و ناشکری کے زُمرے میں آجاتی ہے﴾-
﴿۲﴾ ﴿محمد بن ایوب بن یحیٰ بن الضریس، ابو عبد اللہ الرازی ، آپ حُفاظ الحدیث میں سے ہیں- ۰۰۲ھ میں آپ کی وِلادت ہوئی اور ۴۹۲ھ میں مقامِ ’’رَی‘‘ پر آپ کا وِصال ہوا- آپ کے مشائخ میں حضرت ابو ولید طیالسی، مسلم بن ابراھیم، احمد بن یونس، مسدد بن مسرہد، محمد بن کثیر، عبد اللہ ابن جراح، سھل بن بکار، محمد بن منہال، حفص بن عمر حوضی، سلیمان بن حرب شامل ہیں جبکہ شاگردوں میں حضرت عبد الرحمن بن ابو حاتم، علی بن شہریار، احمد بن اسحاق الطیبی، ابو عَمرو اسماعیل بن نجید، احمد بن عبید ہمدانی، عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب الرازی جیسی شخصیات موجود ہیں- آپ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ امام ذہبی نے کہا کہ آپ حافظ الحدیث اور قابلِ اعتماد بزرگ مصنف ہیں- ابو یعلیٰ خلیلی نے کہا کہ ابن الضریس ثقہ ہیں اور محدث ابن محدث ہیں اور آپ کے دادا یحیٰ بن الضریس حضرت سُفیان ثوری کے اصحاب میں سے تھے- رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین-
آپ کی کتاب کا مکمل نام ﴿فَضَائِلُ الْقُرْآنِ وَ مَا اُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ بِمَکَّۃَ وَ مَا اُنْزِلَ بِالْمَدِیْنَۃِ﴾ ہے- یہ کتاب غزوَت بدِیر کی تحقیق سے مکتبہ دار الفکر ، دمشق ﴿شام﴾ سے ۸۰۴۱