﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
روایت ہے کہ شیخ صدقہ بغدادی آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آستانہ پر آئے- لوگ ابھی ﴿جلسہ گاہ میں﴾ بیٹھے تھے اور شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے خطاب کا انتظار کر رہے تھے- وہ ﴿شیخ صدقہ﴾ آیا اور ﴿جلسہ گاہ میں﴾ مشائخ کے درمیان بیٹھ گیا- جب شیخ ﴿غو ث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی پر تشریف فرما ہوئے، ابھی کوئی گفتگو نہ فرمائی، نہ قاری کو ﴿قرآن پاک کی کوئی آیت﴾ تلاوت کا حکم دیا اور ﴿فقط آپ کے تشریف لانے سے ہی﴾ لوگوں پر ایک عظیم وجد طاری ہوگیا تو شیخ صدقہ نے اپنے دل میں کہا؛
’’ شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ نے کوئی خطاب نہیں کیا اور قاری نے کوئی تلاوت نہیں کی تو یہ ﴿لوگوں پر﴾ کس وجہ سے وجد طاری ہو گیا ہے‘‘؟
پس شیخ ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کی طرف توجہ کی اور فرمایا ؛
’’ اے یہ ﴿خیال کرنے والے﴾! میرا ایک مرید ’’بیت المقدس‘‘ ﴿فلسطین﴾ سے یہاں ﴿بغداد تک﴾ چھ قدموں میں ﴿فاصلہ طے کر کے﴾ آیا اور میرے ہاتھ پر ﴿بیعت کر کے﴾ توبہ کی- آج حاضرین اس کی مہمان نوازی میں مصروف ہیں‘‘-
شیخ صدقہ نے پھر دل میں سوچا؛
’’ کون ہے جو ’’بیت المقدس‘‘ سے یہاں چھ قدموں میں پہنچا اور اس نے کس چیز سے توبہ کی اور اس کو شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کرنے﴾ کی کیا ضرورت تھی‘‘؟
شیخ ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ پھر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا ؛
’’اے یہ ﴿سوچنے والے﴾ وہ ﴿بھی میرے ہاتھ پر﴾ توبہ کرتا ہے جو ﴿بطورِ کرامت یا استدراج﴾ ہوا میں چلتا ہے پھر اس ﴿شعبدہ بازی﴾ کی طرف رجوع نہیں کرتا اور وہ میرا اس لیے حاجت مند ہے کہ میں اسے اللہ تعالیٰ کی محبت کا راستہ سکھائوں‘‘-
پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا؛
﴿اَنَا سَیْفِیْ مَّشْھُوْرٌ وَ قَوْسِیْ مَوْتُوْرٌ وَ نِبَالِیْ مُفَوَّقَۃٌ وَ سِھَامِیْ صَائِبَۃٌ وَ رُمْحِیْ مَنْصُوْبٌ وَ فَرَسِیْ مَسْرُوْجٌ،
’’مَیں وہ ہوں کہ میری تلوار ﴿باطل کو کاٹنے میں﴾ مشہور ہے، میری کمان تنی ہوئی ہے، میرے تیروں کے سوفار﴿۱﴾ لگے ہوئے ہیں، میرے تیر اپنے نشانے پر لگنے والے ہیں، میرے نیزے نصب شدہ ہیں، میرے گھوڑے پر زین کَسی رہتی ہے‘‘-
﴿اَنَا نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ، اَنَا سَلَّابُ الْاَحْوَالِ، اَنَا بَحْرٌ لَا سَاحِلَ لَہ،، اَنَا دَلِیْلَۃُ الْوَقْتِ، اَنَا الْمُتَکَلِّمُ فِیْ غَیْرِیْ﴾
’’ میں اللہ تعالیٰ ﴿کے عشق و محبت﴾ کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوں، میں احوال کو سلب کرنے والا ہوں، میں ایسا سمندر ہوں جس کا کوئی کنارہ نہیں، میں وقت کا واضح راستہ ہوں اور میں اپنی ذات کی نفی ﴿کی حالت﴾ میں مخاطب ہوتا ہوں‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’میں محفوظ ہوں، میں منتظَر ہوں- اے روزہ دارو، اے شب بیدارو، اے پہاڑ پر رہنے والو! تمہارا پہاڑ لرز اٹھا- اے گرجا والو ! تمہارے گرجے گر گئے- ﴿تم سب﴾ اللہ کے حکم کی طرف متوجہ ہو جائو، بے شک ہمارا حکم اللہ کی طرف سے ہے- اے طریقت کی بیٹیو، اے مردو، اے ابدالو، اے اَوتادو، اے بہادرو، اے بچو! آگے بڑھو اور اس سمندر سے ﴿اپنا اپنا حصہ ﴾ حاصل کر لو جس سمندر کا کوئی کنارا نہیں ہے-
﴿مجھے﴾ میرے رب کی عزت کی قسم! بے شک خوش بخت اور بد بخت میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور ﴿ان کے احو(رح)ال تبدیل کرنے کے لیے﴾ میری نگاہ بار بار لوحِ محفوظ کی طرف لوٹتی رہتی ہے- مَیں اللہ کے سمندرِ علم کا غوطہ خور اور اس کا مشاہدہ کرنے والا ہوں- میں تم سب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ﴿راہنما﴾ ہوں- میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم کا نائب اور زمین میں آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کا وارث ہوں‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
﴿اَلْاِنْسُ لَھُمْ مَشَائِخٌ وَ الْجِنُّ لَھُمْ مَشَائِخٌ وَ الْمَلَآئِکَۃُ لَھُمُ الْمَشَائِخُ وَ اَنَا شَیْخُ الْکُلِّ﴾
’’انسانوں کے مشائخ ﴿پیر﴾ ہیں، جنوں کے مشائخ ﴿پیر﴾ ہیں، فرشتوں کے ﴿بھی﴾ مشائخ ﴿پیر﴾ ہیں اور میں ﴿ان﴾ سب کا شیخ ﴿پیرانِ پیر﴾ ہوں‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرضِ وصال میں اپنی اولاد سے فرمایا؛
’’میرے اور تمہارے ﴿حتیٰ کہ﴾ ساری مخلوق کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے- کسی کو مجھ پر قیاس نہ کرنا اور نہ مجھے کسی پر قیاس کرنا‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’میں مخلوق کے امور سے ماورائ ہوں، میں ان کی عقلوں سے ﴿بھی﴾ ماورائ ہوں- اے مشرق و مغرب میں رہنے والو، اے آسمانوں میں رہنے والو! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ؛
﴿اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ﴿سورۃ البقرۃ ۲، آیت ۰۳﴾
’’ جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘ -
میں ان میں سے ہوں جسے تم نہیں جانتے- دن رات میں مجھے ستر مرتبہ پکارا جاتا ہے کہ ﴿اے عبد القادر!﴾ مَیں نے تجھے چُن لیا ہے اور اپنی آنکھوں پر رکھا ہے-
﴿مجھے﴾ کہا جاتا ہے کہ اے عبد القادر! بات کر تیری بات سنی جائے گی- کہا جاتا ہے کہ اے عبد القادر! تجھے میرے حق کی قسم ، کلام کرمیں تیری بات کو رد نہیں کروں گا- اللہ کی قسم، مَیں جو کچھ بھی کرتا ہوں اس کا مجھے حکم دیا جاتا ہے‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’جب میں تم سے اللہ کے کلام سے خطاب کرتا ہوں تو تم ﴿اس کی تصدیق کرکے﴾ کہو کہ ﴿یا شیخ عبد القادر!﴾ تم نے سچ کہا- بے شک میں ایسے یقین کے ساتھ خطاب کرتا ہوں جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں- مجھے بلایا جاتا ہے تو میں بولتا ہوں، مجھے عطا کیا جاتا ہے تو میں تقسیم کرتا ہوں، مجھے حکم دیا جاتا ہے تو میں ﴿وہ کام﴾ کرتا ہوں- ذمہ داری اس ﴿ذات﴾ پر ہے جس نے مجھے حکم دیا ہے اور دیت عقل مند پر ہے-
تمہارا مجھ کو جھٹلانا تمہارے دین کے لیے زہرِ قاتل ہے اور تمہاری دنیا و آخرت کے برباد ہونے کا سبب ہے- میں ﴿تیز ترین﴾ تلوار کا ماہر ہوں- میں ﴿باطل سے﴾ بہت زیادہ لڑائی کرنے والا ہوں- اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے- اگر میرے منہ میں شریعت کی لگام نہ ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا جمع رکھتے ہو- اگر میری زبان پر حکم کی لگام نہ ہوتی تو پیمانۂ یوسف بول پڑتا کہ اس میں کیا ہے لیکن علم نے عالِم کے دامن کو پکڑا ہوا ہے کہ ﴿خدا را﴾ وہ اس کے رازوں کو ظاہر نہ کرے‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’جو کچھ تمہارے ظاہر میں ہے اور جو کچھ تمہارے باطن میں ہے میں ﴿سب﴾ جانتا ہوں کیونکہ تم میرے سامنے شیشے کے برتنوں کی مانند ہو ﴿جس میں اندر باہر سب کچھ نظر آتا ہے﴾‘‘-
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
﴿کُلُّ رِجَالِ الْحَقِّ اِذَا وَصَلُوْا اِلَی الْقَدْرِ اَمْسَکُوْا اِلَّا اَنَا وَصَلْتُ اِلَیْہِ وَ فُتِحَ لِیْ فِیْہِ رَوْزَنَۃٌ فَاَوْلَجْتُ فِیْھَا
’’سب مردانِ حق جب ﴿مقامِ﴾ تقدیر تک پہنچے تو خاموش ہو گئے مگر میں اس تک پہنچا تو میرے لیے ایک کھڑکی کھول دی گئی جس میں مَیں داخل ہو گیا‘‘-
فَنَازَعْتُ اَقْدَارَ الْحَقِّ بِالْحَقِّ لِلْحَقِّ فِی الْحَقِّ
’’پس مَیں نے حق کی تقدیروں سے حق کی وجہ سے، حق کے لیے ،حق میں جھگڑا کیا ‘‘-
فَالرَّجُلُ ھُوَ الْمُنَازِعُ لِلْقَدْرِ لَا الْمُوَافِقُ لَہ،﴾
’’پس ﴿حقیقی﴾ مرد وہ ہے جو ﴿دین کے معاملہ میں﴾ تقدیر سے جھگڑنے والا ہو نہ کہ اس کی موافقت کرنے والا‘‘ -﴿۲﴾
آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’اے لوگو! جب قبر میں تمہارے پاس منکر نکیر ﴿سوال و جواب کرنے والے دو فرشتے﴾ آئیں گے تو ان سے پوچھنا وہ تمہیں میرے بارے میں بتائیں گے ﴿کہ میں کون ہوں﴾‘‘-
شیخ ابو الفضل حضرت احمد بن القاسم بن عبدان القریشی ، البغدادی، البزاز سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا؛
’’شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ طیلسان ﴿شنیل کی سبز چادر﴾ استعمال فرماتے ، علمائ کا ﴿خاص﴾ لباس پہنتے اور عام لباس کی بہ نسبت قیمتی لباس پہنتے تھے-
ایک دن آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا مرید میرے پاس دینار ﴿سونے کے سکے﴾ لے کر آیا اور مجھے کہا کہ میں وہ کپڑا خریدنا چاہتا ہوں جو ایک دینار فی گز ہو نہ اس سے ذرا کم ہو نہ زیادہ- میں نے اسے یہ ﴿قیمتی﴾ کپڑا دیتے ہوئے پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ میرے مرشد سیّدی عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے لیے ہے- میں نے اپنے دل میں سوچا کہ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے خلیفہ کے لیے بھی کوئی ﴿قیمتی﴾ کپڑا نہیں چھوڑا- ابھی یہ خیال میرے دل میں پوری طرح آیا ہی نہ تھا کہ میرے پائوں میں ایک ایسی میخ کھب گئی جس کی اتنی درد ہوئی کہ مجھے موت نظر آنے لگی- لوگ اس میخ کو نکالنے کے لیے میرے گرد اکٹھے ہوئے لیکن نہ نکال سکے- میں نے انہیں ﴿اشارہ کرتے ہوئے﴾ کہا کہ مجھے شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس لے چلو- جب مجھے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے لٹایا گیا تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا ؛
’ اے ابولفضل! تم اپنے باطن میں ہم پر بدگمان کیوں ہو گئے تھے؟ اس معبود ﴿حقیقی﴾ کی عزت کی قسم، میں اس وقت تک کوئی لباس نہیں پہنتا یہاں تک کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ تجھ پر میرے حق کی قسم وہ لباس پہنو جو ایک دینار فی گز ہو- اے ابو الفضل! یہ ﴿میرے لیے﴾ کفن ہے اور میت کا کفن سب سے خوبصورت ہوتا ہے- یہ ہزار موت مرنے کے بعد ملتا ہے‘-
پھر اپنا ہاتھ میرے پائوں پر لگایا تو وہ میخ نکل گئی- پھر شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا ؛
’ اس کے ہم پر اعتراض نے اس کے لیے میخ کی شکل اختیار کر لی تھی ‘‘-
رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عن جمیع الصالحین-
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی کچھ خوارق و کرامات کا تذکرہ:
﴿شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں﴾ یہ بات پہلے ہو چکی ہے کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی کرامات کی کوئی انتہائ نہیں اور نہ ہی ان کی گنتی کرنا ممکن ہے- ہم ﴿یہاں اس کتاب میں﴾ بطورِ مثال ان میں سے تھوڑی سی تعداد بیان کریں گے اور تھوڑی مقدار ہی کثرت پر دلالت کرے گی ﴿ان شائ اللہ تعالیٰ﴾-
ایک روایت ہے ؛
’’آپ ﴿سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے عرض کی گئی کہ آپ کو کب معلوم ہوا کہ آپ اللہ کے ولی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ؛
’ جب میں دس سال کا تھا تو ﴿ایک دن﴾ اپنے گھر سے نکل کر مکتب ﴿سکول﴾ کی طرف جا رہا تھا- ﴿راستہ میں﴾ مَیں فرشتوں کو دیکھتا ہوں جو میرے ارد گرد چل رہے ہیں- جب میں مکتب میں پہنچتا ہوں تو فرشتوں کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ ﴿اے بچو!﴾ اللہ کے ولی کے لیے جگہ خالی کر دو تاکہ وہ بیٹھ جائیں -‘ ﴿اسی طرح﴾ ایک دن ہمارے قریب سے ایک آدمی گزرا جسے اس دن سے پہلے میں نے نہیں دیکھا تھا- پس اس نے فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے سن لیا اور ان میں سے کسی ایک سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟ تو وہ بولے کہ عنقریب یہ عظیم شان والا ہوگا- اسے عطا کیا جاتا ہے منع نہیں کیا جاتا، اسے قدرت دی جاتی ہے حجاب میں نہیں رکھا جاتا، اسے قرب عطا کیا جاتا ہے دھوکہ میں نہیں رکھا جاتا ‘ -
﴿آپ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ﴾ پھر چالیس سال بعد میں نے اس شخص کو پہچان لیا وہ اس وقت کے ابدالوں میں سے تھا‘‘-
شیخ القُدوہ ، حضرت ابو عبد اللہ محمد بن قائد اوانی نے خبر دیتے ہوئے کہا؛
’’ مَیں شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا کہ کسی سائل نے عرض کیا کہ آپ کا معاملہ کس بات پر درست ہوا؟ تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا ؛
’ صدق پر کیونکہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا نہ کبھی اس وقت ﴿جھوٹ بولا﴾ جب میں مدرسہ میں تھا‘-
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اپنے علاقہ میں جب میں چھوٹا ﴿بچہ﴾ تھاتو عرفہ کے دن میں قریبی آبادی کی طرف نکلا- میں ایک کھیتی باڑی والی گائے کے پیچھے چلا تو وہ گائے میری طرف متوجہ ہو گئی اور مجھے کہا کہ اے عبد القادر! تم اس کام کے لیے پیدا نہیں کیے گئے اور نہ تجھے یہ حکم دیا گیا ہے- میں گھبرا کر اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا اور چھت پر چڑھ گیا- پس میں نے عرفات کے میدان میں لوگوں کو کھڑے دیکھا- میں اپنی ماں کے پاس آیا اور صالحین کی زیارت کی خاطر اور علم کے حصول کے لیے بغداد جانے کی اجازت مانگی‘‘-
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا؛
’’میں اپنے علاقے میں جب بچہ تھا، جب کبھی میں ارادہ کرتا کہ بچوں کے ساتھ کھیلوں تو کسی آواز کو سنتا تھا جو مجھے یہ کہتی؛
’ اے بابرکت بچے میری طرف آئو ‘-
میں ڈر کر بھاگ جاتا تھا اور اپنی ماں کی گود میں چھپ جاتا- میں اب بھی تنہائی میں یہ آواز سنتا ہوں-
﴿مزید﴾ فرمایا کہ جب میں جوان تھا تو اپنے سفر کے دوران یہ آواز سنتا تھا کہ مجھے کہا جاتا، اے عبد القادر! میں نے تجھے ﴿بالخصوص﴾ اپنے لیے بنایا ہے‘‘-
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غیب کی وہ خبریں بھی دیتے تھے جو تیس یا چالیس سال یا اس کے بھی بعد واقع ہوتی تھیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے مرید میں فوری تصرف فرماتے جس سے اس کے لیے ملک و ملکوت کے باطن کھل جاتے- اس بارے بھی بہت زیادہ حکایات نقل کی گئی ہیں- مہینے اور سال آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس آتے رہتے ہیں اور اپنے اندر ہونے والے واقعات سے آگاہ کرتے ہیں-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے شہزادے شیخ سیف الدین عبد الوہاب سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا؛
’’ہر مہینہ اپنے چاند نکلنے سے پہلے میرے والد محترم شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آتا ہے اگر اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ﴿کسی کے لیے﴾ کوئی سزا یا برائی ہو تو وہ ﴿مہینہ﴾ ایک بری شکل میں آتا ہے اور اگراس مہینہ میں اللہ کی تقدیر میں ﴿کسی کے لیے﴾ نعمت و بھلائی ہو تو وہ ایک حسین و جمیل صورت میں آتا ہے‘‘-
بہت سارے مشائخ نے خبر دی جن میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے شہزادہ سیّد السادات سیف الدین عبد الوہاب بھی ہیں، انہوں نے فرمایا؛
’’ہم سب جمعہ کے دن سہ پہر کو شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس بیٹھے تھے- پانچ سو ساٹھ ﴿۰۶۵ھ﴾ ہجری کا جمادی الثانیہ کا مہینہ ختم ہو چکا تھا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک خوبصورت چہرے والا نوجوان آیا اور شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس آکر بیٹھ گیا- اس نے ﴿آتے ہی﴾ کہا ؛
’السلام علیک یا ولی اللہ! میں رجب کا مہینہ ہوں، میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کو بتائوں کہ مجھ میں خیر ہی خیر ہے‘-
﴿راوی نے﴾ کہا کہ رجب کے مہینے میں لوگوں نے بھلائی ہی دیکھی- ﴿اسی طرح﴾ جب ہفتہ کے روز رجب کا مہینہ ختم ہو چکا تھا تو ایک بدشکل شخص آیا- ہم بھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس بیٹھے تھے اس نے کہا ؛
’السلام علیک یا ولی اللہ! میں شعبان کا مہینہ آپ کے پاس آیا ہوں ﴿تاکہ یہ بتائوں﴾ کہ مجھ میں یہ مقدر کیا گیا ہے کہ ’’بغداد‘‘ میں ہلاکتیں ، ’’حجاز‘‘ میں قحط اور ’’خراسان‘‘ میں تلوار ﴿کی لڑائی﴾ ہوگی ‘-
پس اسی طرح ہوا جیسا اس نے کہا- شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہِ رمضان میں کچھ دن بیمار ہو گئے- ہم بھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس حاضر تھے- اس دن آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس شیخ علی بن الھیئتی، شیخ ابو النجیب عبد القاہر السہروردی، شیخ ابو الحسن الجوسنی اور ان کے علاوہ دیگر مشائخ بھی تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ایک روشن جسامت والا شخص آیا جو پُر وقار بھی تھا- اس نے کہا ؛
’السلام علیک یا ولی اللہ! میں رمضان کا مہینہ ہوں- میں اس تقدیر کی معذرت کرنے آیا ہوں جو مجھ میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے لیے مقدر کی گئی ہے اور میں آپ کو الوداع کہتا ہوں- یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے ‘-
﴿یہ کہہ کر﴾ وہ چلا گیا- اس سے اگلے سال کے ربیع الثانی میں شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا وصال ہوگیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اگلا رمضان کا مہینہ نہ پایا‘‘-
شیخ ابو القاسم عمر بن مسعود بزاز اور شیخ ابو حفص عمر کمیمانی دونوں نے ﴿اکٹھے روایت کرتے ہوئے﴾ کہا؛
’’شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مجلس میں حاضرین کے سروں پر ہوا میں چلتے تھے- ﴿۳﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ فرماتے ہیں کہ جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے وہ مجھے سلام کہتا ہے، نیا سال آتا ہے تو وہ مجھے سلام کہتا ہے اور اس میں جتنے واقعات ہونے ہوتے ہیں اس کی مجھے خبر دیتا ہے- مہینہ ، ہفتہ اور دن آکر مجھے سلام کہتے ہیں اور جو کچھ ان میں ہونا ہوتا ہے وہ مجھے ﴿پہلے ہی﴾ بتا دیتے ہیں‘‘-
مشائخ نے شیخ العارف ابو الخیر بشر بن معروف سے روایت کرتے ہوئے خبر دی- اس نے کہا کہ میں اور شیخ ابو سعید اور وہ مشائخ جن کے نام اس ﴿روایت کے﴾ بیان کے دوران ذکر کیے گئے ﴿جو آگے آرہے﴾ ہیں، وہ سب آپ ﴿شیخ غوث الاعظم ﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسہ میں آپ کی خدمت میں حاضر تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا؛
’’تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجت مانگے وہ حاجت میں اسے ﴿بارگاہِ الٰہی سے﴾ عطا کروں گا‘‘-
پس شیخ ابو سعود احمد بن حریمی نے کہا کہ میں اختیار کو ترک کرنا چاہتا ہوں- شیخ محمد بن قائد نے کہا کہ میں مجاہدہ کرنے کی قوت چاہتا ہوں- شیخ ابو قاسم عمر بزاز نے کہامیں خوفِ الٰہی چاہتا ہوں- شیخ ابو محمد حسن فارسی نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میری ایک خاص کیفیت تھی جس سے میں محروم ہو گیا ہوں، میں اپنی اسی حالت کی واپسی اور کچھ مزید اس پر ﴿مہربانی﴾ چاہتا ہوں- شیخ جمیل ، صاحب الخطوہ نے کہا کہ میںوقت کی حفاظت چاہتا ہوں- شیخ ابو حفص عمر غزال نے کہا کہ میں علم میں بہت زیادہ اضافہ چاہتا ہوں- شیخ خلیل صرصری نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب تک میں مقامِ قطبیت کو نہ پا لوں اس وقت تک مجھے موت نہ آئے- شیخ ابو برکات ھمامی نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں استغراق ﴿فنایت﴾ چاہتا ہوں- شیخ ابو فتوح، جو ابنِ خصری نصر بغدادی کے نام سے مشہور ہیں، نے کہا کہ میں قرآن و حدیث کا حافظ بننا چاہتا ہوں- شیخ ابو الخیر ﴿اس روایت کے راوی﴾ نے کہا کہ میں ایسی معرفت چاہتا ہوں جس کے ذریعے میں اللہ تعالیٰ کی حاضرات ﴿الہام و تجلّیات﴾ اور اس کے غیر میں فرق کر سکوں- ابو عبد اللہ بن ہبیرہ نے کہا کہ میں وزارت کی نمائندگی چاہتا ہوں- ابو فتوح عبد اللہ بن ہبۃ اللہ نے کہا کہ میں ﴿خلیفہ کے﴾ گھر کا دربان بننا چاہتا ہوں- ابو قاسم بن صاحب نے کہا کہ میں ’’باب العزیز‘‘ کا دربان بننا چاہتا ہوں-
﴿ان سب کی حاجات سن کر﴾ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا؛
’’ہم نے ہر ایک کو وہ سب کچھ ﴿جو اس نے مانگا﴾ تمہارے رب کی عطا سے دے دیا اور تمہارے رب کی عطا محدود نہیں ہے‘‘-
راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جس نے جو کچھ مانگا وہ اس نے پالیا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کو اسی حالت میں دیکھا جس کی اس نے چاہت کی تھی- سوائے شیخ خلیل صرصری کے، کیونکہ ابھی وہ وقت ہی نہیں آیا تھا جس میں ان کے قطب ہونے کا وعدہ کیا گیا-اس روایت ﴿کی مزید تفصیل﴾ میں یہ آیا ہے کہ شیخ خلیل صرصری کو اپنی وفات سے سات دن پہلے قطب بنا دیا گیا- ﴿راوی نے سب کے حالات بتاتے ہوئے﴾ کہا کہ شیخ ابو سعود ترکِ اختیار میں بڑی انتہائ تک پہنچے اور نہایت ہی اونچے مقام پر فائز ہو گئے- میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
’’میری جائے نماز سے باہر مجھے ﴿کبھی﴾ کوئی خیال آیا ہی نہیں‘‘-
اور شیخ ابن قائد نے مجاہدہ کرنے کی ایسی قوت کو پایا کہ اس کے ہم زمانہ میں سے کوئی ویسی قوت کو نہ پہنچ سکا- وہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں زمین کے نیچے ﴿تہہ خانہ وغیرہ میں﴾ پہلے چودہ سال ﴿عبادت میں گزارنے کے بعد پھر﴾ چودہ سال کے لیے بیٹھ گئے- میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
’’میں نے بھوک کو بھوکا رکھا، پیاس کو پیاسا رکھا، نیند کو سلائے رکھا، بیداری کو جگائے رکھا، خوف کو ڈرائے رکھا اور بلائیں مجھ سے ﴿ڈر کر﴾ بھاگ گئیں اور اللہ کی ذات میرے معاملے پر غالب ہو گئی‘‘-
اور شیخ عمر بزاز خوفِ الٰہی میں اعلیٰ مرتبے تک پہنچ گئے یہاں تک کہ شدّتِ خوف میں کسی وقت ان کے آنکھوں کی چربی ان کے حلقوں تک بہتی- جہاں تک شیخ حسن فارسی کا معاملہ ہے تو وہ ابھی مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان پر نگاہ فرمائی تو وہ ﴿پہلے﴾ وجد میں آگئے پھر اسی وقت ﴿آرام سکون سے﴾ کھڑے ہو گئے- میں نے اگلے دن ان سے ملاقات کی اور ان کی حالت کے بارے پوچھا تو انہوں بتایا ؛
’’﴿کل﴾ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے اُس نگاہ کے ذریعے میری سابقہ حالت پر مزید اضافہ کے ساتھ لوٹا دیا ہے ‘‘-
شیخ جمیل نے وقت کی حفاظت اور سانسوں پر ﴿اسم اللہ ذات کی﴾ ایسی توجہ کو حاصل کر لیا جو ان کے علاوہ ہمارے جاننے والوں میں سے کوئی نہ حاصل کر سکا- جب وہ بیت الخلائ میں جاتے تو اپنی تسبیح کو دیوار کی کھونٹی پر لٹکا کر جاتے تو اس کا ایک ایک دانہ اس وقت تک گھومتا رہتا جب تک وہ اسے پکڑ نہ لیتے- میں نے انہیں اس کیفیت میں کئی بار دیکھا- شیخ عمر غزال نے ہر طرح کے علوم کو جمع کر لیا اور ان میں سے بہت سارا حفظ بھی کر لیا- ایک مرتبہ انہوں نے اپنی لائبریری سے ہزار کتابیں فروخت کر دیں اور ان کے بیچنے کی وجہ سے ان کی سرزنش کی گئی تو انہوں نے ﴿بیچنے کی وجہ بتاتے ہوئے﴾ کہا کہ یہ سب میرے حافظے میں موجود ہیں- شیخ ابو برکات ہمامی ابھی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان پر نگاہ فرمائی تو وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے- انہیں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے سے اٹھا لیا گیا- ﴿چونکہ انہوں نے استغراق کا سوال کیا تھا اس لیے﴾ اب انہیں ہوش ہی نہیں ہے- وہ کتنا عرصہ بغداد سے غائب رہے- کافی مدت کے بعد میں نے انہیں ’’کوفہ‘‘ کے کھنڈرات میں دیکھا- انہوں نے اپنی پھٹی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائی ہوئی تھیں- میں نے ان سے بات کی لیکن انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا تو میں لوٹ آیا- پھر کئی سالوں بعد، میں ’’بصرہ‘‘ کی طرف آیا تو میں نے انہیں اسی حالت میں ہی ’’بطایح‘‘ ﴿۴﴾ کے ٹیلے پر دیکھا- میں نے ان سے بات کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا- میں جاکر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا؛
﴿اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ بِحُرْمَۃِ الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ اَنْ تَرُدَّ عَلَیْہِ عَقْلًا حَتّٰی یُکَلِّمَنِیْ﴾