پیوست ہو گئے ہیں انا کے جگر میں تِیر بغداد کی جدائی میں بہتے ہیں خُوں کے نِیر دولت ولائے فقر کی ہے کس قدر کثیر ہو آپ کا جو ساتھ تو میں سب سے ہوں امیر جھکتا ہے اس محل پہ تونگر ہو یا فقیر گُن گا رہا ہے آپ کے ہو شاہ یا وزیر گرچہ نحیف شخص ہوں جتنا بھی ہوں حقیر میں قادری فقیر اسی در کا ہوں اسیر آپ ہیں سفیرِ امن، ہیں آپ دستگیر اپنے کرم کی بھیک عطا ہو پیرانِ پیر
کُرلا رہی ہے رُوح مرا جسم ہے نڈھال دُنیا کی خواہشوں میں ہوئی زندگی مُحال میرے غلاظتوں میں بدلنے لگے ہیں خال ہو جائے ختم سیّدی یہ خواہشوں کا جال پیرانِ پیر آپ ازل سے ہیں بے مثال پوشیدہ آپ سے تو نہیں ہے کسی کا حال دکھلائیے غلام کو اپنا کبھی جمال کیجئے نظر سے رُوح کے برتن کو مالا مال آیا ہوں لے کے آج دعاؤں کے سُرخ تھال ہو آپ کی نگاہ تو مٹی سے نکلیں لعل
مفلس غلام کرب کی شدت سے چُور ہے اور آپ کا محل بھی بہت مجھ سے دُور ہے للہ اپنے پاس بُلا لیجئے مجھے اور میری مفلسی کی دوا دیجئے مجھے
|