گلستانِ سعدی میں حکایاتِ غوث الاعظمؒ

گلستانِ سعدی میں حکایاتِ غوث الاعظمؒ

گلستانِ سعدی میں حکایاتِ غوث الاعظمؒ

مصنف: محمد عظیم نومبر 2022

 شیخ  سعدی شیرازیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’گلستان‘‘ باب دوم ’در اخلاقِ درویشاں‘ میں فرماتے ہیں:

’’عبد القادر گیلانی را دیدند رحمۃ  اللہ علیہ در حرم کعبہ روی بر حصا نہادہ بود و می گفت اے خداوند ببخشای و اگر مستوجب عقوبتم مرا روز قیامت  نابینا بر انگیز تا در روئے نیکاں شرمسار نباشم‘‘

’’لوگوں نے شیخ  عبد القادر گیلانی (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا کہ  آپؒ کعبہ کے حرم میں پیشانی کنکریوں پر رکھے ہوئے تھے اور  عرض کر رہے تھے اے خداوند تعالیٰ! بخش دے اور اگر مَیں سزا کا مستحق ہوں تو مجھے قیامت  میں نابینا(بینائی کے بغیر) اٹھانا تا کہ نیک آدمیوں کے سامنے مجھے شرمندگی نہ ہو‘‘-

شیخ سعدیؒ نے یہ حکایت غوث الاعظم شیخ عبد القادر گیلانی(رضی اللہ عنہ) کی طرف منسوب کر کے ذکر کی ہے-اس میں  آپ (رضی اللہ عنہ) کی عاجزی و انکساری  اور تعلقِ باللہ کا ذکر کیا ہے-اس میں سالکین کے لئے یہ سبق موجود ہے کہ جب  بندہ اپنے خالق کی طرف رجوع کرے تو اس کی بارگاہ سےبخشش کو طلب کرے اور خود کو اس کی بارگاہ کا مجرم ٹھہرائے-چاہے اللہ تعالیٰ نے اسے غوثیتِ کبرٰی کے رتبوں سے نوازا ہو-

شیخ سعدی شیرازیؒ حکایت کے اختتام پہ ایک خوبصورت قطعہ کی صورت میں اپنا تبصرہ لکھتے ہیں:

 روی برخاک عجز میگویم
اے کہ ہرگز فرامشت نکنم

 

  ہر سحر گہ کہ بادمی آید
ہیچت از بندہ یادمی آید[1]

’’عاجزی کی خاک پر پیشانی  رکھ کر مَیں کہتا ہوں  کہ جب بھی صبح کے وقت ہوا چلتی ہے-اے  وہ  ذات! جس  کو  مَیں کبھی نہیں بھولتا ہوں، کچھ تجھے بھی  اپنے بندہ کی یاد آتی ہے‘‘-

غوث الاعظم شیخ عبد القادر گیلانی(رضی اللہ عنہ) کی اس عاجزی  سے متاثر ہوکے شیخ سعدی نے عاجزی کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے ذکر اور یاد کا تذکرہ کرتے ہوئے  یہ بیان فرمایا  ہے کہ بندگی یہ  ہے کہ بندہ خدا کو یاد کرے  اور کمالِ بندگی یہ ہے کہ اس بندے کو خدا یاد کرے- جیسا کہ  قرآن کریم میں بھی ان دونوں درجوں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ ‘‘         [2]                       ’’تم  مجھے یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا‘‘-


[1](گلستانِ سعدی، باب دوم اخلاقِ درویشاں، حکایت:3)

[2](البقرۃ:152)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر