اولیاء اللہ و صوفیاء عظّام کی پوری جماعت میں سب سے زیادہ محبوبیت اور شہرت جس مردِخداآگاہ وخودآگاہ کے حصے میں آئی ہے دنیا اس کو سیّدنا الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے اسم ِ گرامی سے جانتی ہے -قانون قدرت ہے کہ جب ہر طرف مادیت اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لیتی ہے اور اس سے نکلنے کا بظا ہر کوئی ر استہ نہیں ہوتا تواس وقت ایسی ’’ہستی مبارک‘‘ کا انتخاب فرماتاہے جس کے وجود مسعود سے نہ صرف صدیوں کا خلا پُر ہوتا ہے، بلکہ آئندہ آنے والے لوگوں کو کامیاب زندگی گزارنے کا ایک طریق بھی عطا ہوتا ہے-
القابات:
سیّد الاسیاد، امام الاولیاء زعیم العلماء، شہنشاہ بغداد، واہبُ المراد، قُطب الارشاد، فرد الافراد، مرجع الاوتاد، محبوب سبحانی قطب ربانی شہبازِ لامکانی،اشہب لامکانی ، باز اللہ الاشہب، پیران پیر دستگیر، الحسنی و الحسینی، محی الدین، غوث الاعظم-
لقب محی الدین کی وجہ تسمیہ :
سیدی حضور شہنشاہِ بغدادؒسے کسی نےآپ کے لقب مبارک ’’محی الدین‘‘ کے بارے عرض کیا تو آپؒ نے ارشادفرمایا:
’’511ھ میں برہنہ پاؤں بغداد شریف آرہا تھاکہ راستے میں مجھے ایک بیمار شخص ملا جو انتہائی کمزور اور اس کا رنگ اڑا ہوا تھا، اس نے میر انام لے کر مجھے سلام کیا اور قریب آنے کو کہا، جب میں ا س کے قریب پہنچاتوا س نے مجھے سہارادینے کیلئے کہا،(آپؒفرماتے ہیں جیسے ہی میں نے اس کو سہارادیا)تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم صحت مند ہونے لگا اس کے چہرے پہ تر و تازگی آنے لگی،اس نے کہا ،آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہارکیا تو اس نے کہا کہ ’’انا الدین‘ میں دینِ اسلام ہوں ،میں قریب المرگ ہوگیاتھاکہ اللہ عزوجل نے مجھے تمہاری بدولت دوبارہ زندہ فرمایا -اس کے بعد جب میں جامع مسجد میں آیا تو ایک شخص نے میرے جوتے پکڑے اور کہا ’’یاسید ی محی الدین‘‘ جب میں نماز پڑھنے لگا تو چاروں طرف سے لوگ آکر میرے ہاتھ چومنے لگے اور مجھے ’’یامحی الدین‘‘کہہ کرپکارنے لگے، حالانکہ اس سے پہلے کسی نے مجھے اس لقب (مبارک) سے نہ پکاراتھا‘‘-[1]
نسب مبارک و ولادت باسعادت:
آپؒ حسنی،حسینی سید ہیں،والدہ کی طرف سے آپؒ کو نسبیت حسینی حاصل ہے یعنی کہ سید محی الدین ابومحمد عبد القادر بن امۃ الجبار بنت سیدی عبداللہ صومعی بن سید ابو جمال الدین محمد بن جواد بن امام سید علی رضا امام موسٰی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن زین العابدین بن امام ابو عبد اللہ حسین بن امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) - [2]
آپؒکے حسنی نسب مبارک اور ولادت باسعادت کے بارے میں امام شعرانیؒلکھتے ہیں:
’’ابو صالح سیدی عبد القادر جیلانی بن موسیٰ بن عبد اللہ بن یحیٰ الزاہد بن محمد بن داؤد بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن عبد اللہ بن حسن المثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی اطالب (رضی اللہ عنھم) -آپؒکی ولادت باسعادت (یکم رمضان المبارک) 470ھ اور وصا ل مبارک11 ربیع الثانی 561ھ بمطابق 17مارچ،1078ء وصال مبارک12 فروری 1166ء میں ہوا‘‘- [3]
بچپن مبارک :
آپؒ کے بارے میں مشہور ہے:
’’آپؒ رمضان شریف کے روزوں میں دن کے وقت اپنی والدہ (ماجدہ) کا دودھ نہیں پیتے تھے‘‘- [4]
اسی طرح آپ ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
’’جب میں 10سال کا تھااپنے گھر سے مدرسہ جارہا تھا تو مَیں دیکھ رہا تھا کہ میرے اِردگرد فرشتے چل رہے ہیں- جب مَیں مدرسے پہنچا تو بچوں سے فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کے ولی کے لیے جگہ چھوڑ دو تاکہ وہ تشریف فرما ہوجائیں‘‘- [5]
ابتدائی تعلیم وظاہری علوم کی تکمیل:
اللہ عزّوجل جس سے دین کا کا م لیتا ہے اس کو سب سے پہلے امتحان اور مشقت کے کٹھن مراحل سے گزارتا ہے، جس کی وجہ سے ناصر ف اللہ عزوجل اُن کیلئے قُرب کی منازل کو آسان فرماتا ہے بلکہ وہ دوسروں کیلئے رول ماڈل بن جاتے ہیں اور لوگ ان کے زندگی مبارک سے سبق حاصل کر کے اپنے مقصد حیات کا تعین اور قبلہ سیدھا کرتے ہیں -یہی وجہ ہے جب آپؒ کی والدہ ماجدہؒ نے آپ ؒ کو دینی تعلیم کیلیے روانہ فرمایا،اُس وقت آپ ؒ بچپن کی اُس عمر مبارک میں تھے کہ آپؒ کی والدہ ماجدہ ؒ کو رقم آپؒ کی کپڑوں میں سلائی کرنی پڑی اور الوداع کرتے ہوئے سچ بولنے کی نصیحت فرمائی اور ارشاد فرمایا:مَیں تمہیں اللہ پاک کے حوالے کرتی ہوں-شاید مَیں تمہیں اپنی زندگی میں (دوبارہ) نہ دیکھ سکوں‘‘-
آپؒ اپنی والدہ محترمہؒ کے خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری والدہ میری انتہائی مشتاق ہوتیں تھی تو مجھے خط لکھتیں میں آپ کو لکھتا کہ اگر آپؒ چاہیں تو میں یہ چھوڑ کر آپ کی طرف آ جاتا ہوں- آپؒ مجھے جواباًلکھتیں کہ (میرے پاس) نہ آؤ اور تعلیم حاصل کرتے رہو‘‘ -[6]
(نوٹ:اس میں ان والدین کیلئے سبق ہے جو حضو ر غوث پاک ؒ کی محبت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن اپنی اولادوں کو علم ِ دین کے لیے وقف کرنے سے گر یز کرتے ہیں )
تزکیہ نفس اورمجاہد ہِ نفس :
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ عزوجل نے دونوں جہانوں کی کامیابی کا سارا دارومدار محض علم پہ نہیں بلکہ ’’تزکیہ نفس‘‘ پہ فرمایا ہے تزکیہ ِ نفس کے بغیر اللہ عزوجل کاقرب وصال نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے اور اللہ عزوجل کے قرب و وصال اورمعرفت وپہچان کا سب سے بڑاذریعہ ہی تزکیۂ نفس ہے - جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘[7]
’’بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا ‘‘-
علم ِ دین تزکیہ نفس کیلئے روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے-یہی وجہ ہے کہ آپؒ میدانِ علم کی طرح تزکیہ کے میدان میں بھی اپنی مثا ل آپ نظر آتے ہیں جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’25 سال تک مَیں بالکل تنہا رہ کر عراق کے بیابانوں اور ویران مقامات میں سیاحت کرتا رہا اور 40سال تک مَیں عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا-مَیں عشاء کے بعد ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر قرآن مجید شروع کرتا اور نیند کے خوف سے اپنا ایک ہاتھ کھونٹی سے باندھ دیتا اورا خیررات تک پورا قرآن مجیدتلاوت کر دیتا‘‘-[8]
علم باطنی و علم لدنی کے وارث:
جہاں تک علمِ لدنّی کی بات ہے تو اس کی خوبیوں کی کوئی انتہاء نہیں ہے- مشائخ نے شیخ الکمیمانی اور شیخ البزاز سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، ان دونوں نے فرمایا:
’’ہم شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی (قدس اللہ سرّہٗ)کی بارگاہ میں حاضر تھے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)دودھ نوش فرما رہے تھے کہ اچانک آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے ایک طویل مراقبہ فرمایا- پھر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے فرمایا: ابھی میرے دل میں علمِ لدنی کے 70دروازے کھولے گئے ہیں ہر دروازے کی وسعت زمین و آسمان جتنی ہے پھر خاص الخاص کی معرفت کی ایسی باتیں بیان فرمائیں کہ حاضرین میں سے ہر ایک حیران رہ گیا‘‘-[9]
’’یہی وہ فیضانِ علم تھا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ ) کی مجلس میں70ہزرا آدمی ہوا کرتے تھے‘‘- [10]
سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی نظر عنایت :
یہ یادرہے کہ انسان جتنے بھی علوم کے سمندر پی لے جب تک باعثِ تخلیق کائنات(ﷺ) کی نظرِ عنایت شامل نہ ہو اس علم کا فیضان لوگوں تک منتقل نہیں ہو سکتا،اس لیے آپ (قدس اللہ سرّہٗ ) ارشادفرماتے ہیں :
’’مجھے ایک بار رسول اکرم (ﷺ) کی زیارت ہوئی تو آپ (ﷺ)نے فرمایا: بیٹا! تم وعظ کیوں نہیں کرتے؟ مَیں نے عرض کی: یا رسول اللہ(ﷺ)! میں عجمی ہوں، بغداد کے فصحاءِ عرب کے سامنے کس طرح کلام کر سکتا ہوں-آنحضرت (ﷺ) نے حکم دیا کہ اپنا منہ کھولو- جب مَیں نے منہ کھولا تو آپ (ﷺ) نے سات بار میرے منہ میں لعابِ دہن (مبارک) ڈالا اور حکم دیا کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاتے رہو- لیکن میرا بدن کانپنے لگا- مَیں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا کہ میرے سامنے کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں: اپنا منہ کھول دو-جب مَیں نے منہ کھولا تو آپ ؒ نے 6 بار اس میں لعابِ دہن(مبارک) دیا-مَیں نے عرض کی: یا حضرت! سات بار کیوں نہیں؟ آپ نے بتایا: آدابِ رسولِ خدا کی پاسداری ہے، یہ کَہ کر آپ ؒغائب ہوگئے‘‘- [11]
یہی وہ اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس سے انعام تھا، جس کی بناء پہ آپؒ فرمایا کرتے تھے:
’’ جب میری طرف سے کوئی قول معلوم ہوتواس کو اللہ عزوجل کی طرف سے سمجھ کر قبول کرو کیونکہ وہی ہے جس نے مجھ سے کہلوایا ہے‘‘- [12]
’’قدمى هذه على رقبة كل ولى الله‘‘[13]
’’میرایہ قدم اللہ عزوجل کے ہر ولی کی گردن پہ ہے ‘‘-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ واقعۂ معراج پہ اپنا روحانی مشاہدہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’جان لے کہ جب حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) معراج کی رات کو قربِ الٰہی کی طر ف بڑھے تو حضرت پیر دستگیر قدس سرہ العزیز نے اپنی گردن آپ (ﷺ) کے قدموں میں رکھ دی جس پر پیغمبر صاحب (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ اب آپ کا قدم جملہ اولیائے اللہ کی گردن پر ہوگا‘‘-[14]
تصانیفِ مبارکہ:
آپ (قدس اللہ سرّہٗ ) نے متعدد تصانیف رقم فرمائیں جن میں سے چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:
’’الغنیۃ لطالبی طریق الحق، الفتح الربانی و الفیض الرحمانی، جلاء الخاطر من کلام شیخ عبد القادر، فتوح الغیب، بھجۃ الاسرار، سر الاسرار، الرسالۃ الغوثیۃ، حزب الرجاء و الانتھاء، معراج لطیف المعانی، یواقیت الحِکم، المواھب الرحمانیۃ، الفیوضات الربانیۃ، تحفۃ المتقین و سبیل العارفین، رسائل شیخ عبد القادر،دیوان شیخ عبد القادر، تنبیہ الغبی الی رؤیۃ النبی (ﷺ)، الرد علی الرافضۃ، حزب عبد القادر الکیلانی، مسک الختام-
قبلہ اول فلسطین کی آزادی میں شہنشاہ بغدادؒ کا ناقابل فراموش کردار:
حضور غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ) کے صاحبزادوں بالخصوص آپ (قدس اللہ سرّہٗ ) کے لختِ جگر شیخ عبد العزیز بن عبد القادر ؒ سمیت آپؒ کے مدرسہ باب القادریہ کے ہزاروں طلباء نے صلیبی جنگوں میں سُلطان صلاح الدین ایّوبی ؒ کی معاونت کی اُن میں سینکڑوں نے جام ِ شہادت نوش فرمایا-سلطان صلاح الدین ایوبی عراق کے معروف کُرد قبیلہ سے تھے اور حضور غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ ) کے مریدین میں سے تھے-[15]
کرامات مبارکہ :
حضورغوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ ) کی ذات اقدس سے جس قدر کرامات کا ظہورا ہوا ہے اور جس طرح مفسرین ، محدثین، فقہاء، مؤرخین اور اولیاء اللہ نے آپ کی کرمات کو نقل کیا ہے اولیائے کاملین میں سے کسی اور سے اس قدر کرامات کا ظہور نہیں ہوا-جیسا کہ علامہ آلوسی شیخ ابن تیمیہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قال في حقه الشيخ ابن تيمية:إن كراماته قد ثبتت بالتواتر،بين الأكابر والأصاغر‘‘[16]
’’سیدنا غوث اعظم ؒ کے حق میں شیخ ابن تیمیہ نے کہاکہ بے شک آپؒ کی کرامات اکابر و اصاغر (چھوٹے بڑے یعنی سب کے نزدیک)تواتر سے ثابت ہیں ‘‘-
سیدنا غوث الاعظم ؒ کا مقام و مرتبہ(قصیدہ غوثیہ کے آئینہ میں)
حضور شہنشاہ ِ بغداد ؒ کی ولایت پہ نہ صرف تمام سلاسل ِ تصوف (چشتی، سہروردی، نقشبندی، قادری) متفق ہیں بلکہ تمام مکاتب فکر بھی آپ ؒ کے مقام ومرتبے اور شان ورفعت کو سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے- مختصر یہ کہ آپ ؒ کی ولایت و فقر پہ اجماع امت ہے-اس لیے آپؒ کے ہرقول وفعل کونہ ہم غیر اہم قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہم اس کو عام آدمی کا قول یافعل قراردے سکتے ہیں بلکہ اس کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں-یہاں ہم آپؒ کے نثری کلام کے علاوہ منظوم کلام سے صرف چند اشعار کولکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور ان اشعار میں غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے خاص بندوں کو ایسے مقام ومرتبے سے نوازتا ہے جس تک عام بندے کی رسائی ناممکن ہوتی ہے اور نہ ہم ان کے مقام و مرتبے کو عقل وخرد کے پیمانے سے ماپ سکتے ہیں :
وَ وَلَّانِی عَلَ الاقَطَاب جَمْعًا |
’’مجھے حق نے تمام اقطاب کا حاکم بنایا ہے، میر احکم ہر حال میں (زمانے )پر نافذ ہے ‘‘-
وَ لَو القَیتُ سَرِّی فَوقَ میِّتٍ |
’’اگر مَیں اپنا راز مردہ جسم پہ ڈالوں تو وہ اللہ عزوجل کی قدرت سے (زندہ ہوکر) کھڑاہوجائے گا‘‘-
مُرِیْدِیْ لَاتَخَفْ اَللہُ رَبِّیْ |
’’اے میرےمرید!نہ ڈرو،اللہ عزوجل میرا رب ہے، اس نے مجھے وہ رفعت عطافرمائی ہے جس سے مرادوں تک پہنچا ہوں‘‘-
اَنَا الْجِیْلِیْ مُحْیِ الدِّیْنِ اِسْمِیْ |
’’میری جائے پیدائش جیلان ہے اور محی الدین میرا نام ہے اور میری سلطنت ولایت کے جھنڈے پہاڑوں کی چوٹیوں پر لہرا رہے ہیں ‘‘-
وَ کُلُّ وَلِیْ لَہٗ قَدَمْ وَ اِنِّیْ |
’’ہر ولی کسی نہ کسی(نبی) کے قدم پر ہوتا ہے اور مَیں آسمان کمال کے بدر کامل سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے نقشِ قدم پر ہوں‘‘-
نَظَرْتُ الیٰ بَلَاد اللہِ جَمعاً |
’’خدا کے سب کے سب شہر میرے سامنے یوں ہیں جیساکہ رائی کے دانے ہتھیلی پر ہوں‘‘-
عربی شاعری میں حضور غوث الاعظمؒ کو خراج عقیدت:
ابو الهدٰى الصيادیؒ فرماتے ہیں :
ما طاب من ذكـريـه قلب متيم |
’’جو کوئی بھی اُن کا ذکر کرتا ہے تو اس کا دل مطمئن ہوجاتا ہےاور اُس کے دل میں محبت پیدا ہوجاتی ہے‘‘-
ما بحسن الظـن مـدت راحة |
’’جو کوئی بھی اُن کے بارے میں گمان اچھا رکھتا ہے- وہ کبھی اُس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے‘‘-
فاتن علی حلاق’’دیوان عربی‘‘ میں حضور غوث پاک ؒ کی بارگاہ میں یوں عرض گزار ہوتے ہیں:
و يا وارث اجعلني لعلمك وارثا |
’’اے علم کے وارث مجھے اپنے علم کا وارث بنا، مجھے رشد و ہدایت عطا کر اے افضل رشد و ہدایت والے‘‘-
صبور وستار فوفق عزيمتي على |
’’اے صبر دینے والے گناہوں پر پردہ ڈالنے والے میرے معاملات سے آپ آگاہ ہیں مجھے بھی صابر بنا دے‘‘-
امام يافعیؒ فرماتے ہیں:
غوث الوراء غيث النداء نور الهدی |
’’اے غوث اعظمؒ آپ کی شان وراء الورا ہے آپ ہی میری ندا سننے والے ہیں اور آپ ہی میرےلیے نورِ ہدایت ہیں اورآپ میرے لیے چودھویں کے چاند اور آفتاب کی روشنی ہیں‘‘-
شیخ ابوسعید قیلوی ؒ فرماتے ہیں :
تزاحم تیجان الملوک ببابہٖ |
’’بادشاہوں کے تاج آپ ؒ کے دروازے پر ہجوم کرتے ہیں اورسلام کے وقت ان کا ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے ‘‘-
اذا عاینتہٗ من بعید ترجلت |
’’جب (دیکھنے والے) اُس (در اقدس کو) کو دُور سے دیکھتے ہیں تو پیدل چلنے لگتے ہیں اور جو نہ چل سکیں وہ سر کے بل چلتے ہیں‘‘- [17]
ابومحمد عبداللہ مکی ؒ لکھتے ہیں:
غوث الورٰی غیث الندٰی نور الھدٰی |
’’آپ ؒ مخلوق کے معین ومددگار اور اس کے حق میں بارانِ رحمت اور نورِہدایت ہیں ،آپ ؒ چودہویں رات کے چاند اورروشن دن کے سورج سے بھی زیادہ روشن ہیں ‘‘-
قطا طالہٗ کل بشرق ومغرب |
’’آپ ؒ کے حکم مبارک کے سامنے مشرق و مغرب کے تمام اولیاء اللہ نے اپنی گردنیں جھکائیں اور صرف ایک فرد واحد نے اپنی گردن نہیں جھکائی تو اسے (منصبِ ولایت سے) معزول کر کے عتاب (سزا) دی گئی‘‘-
قاضی ابوبکر بن قاضی موفق الدین اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن الفتاح المصری ؒ شان ِ غوث اعظم سرکار ؒ کو یوں بیان فرماتے ہیں :
اِجْعَلْکَ مَدِیْحَکَ اِنْ اَرَدْتَّ تَقَرُّبًا |
’’اگر تُو ظاہر وباطن میں اللہ عزوجل کے قرب ووصال کا ارادہ اور طالب ہے تو اپنی مدح کو سیدی رسول اللہ (ﷺ)، آپ (ﷺ)کی آل پاک وصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے نام کر ‘‘-
اَصْحَابُہٗ نِعْمَ الصَّحَابِ وَ فَضْلُھُمْ |
’’آپؒ کے احباب ومرید وہ بزرگ ہیں کہ جن کی فضیلت و بزرگی ہرایک مخالف وموافق پہ واضح و ظاہر ہے‘‘-
سندھی شاعری میں حضور غوث الاعظمؒ کو خراج عقیدت:
سندھی کلام میں وحدت نامہ کے نام سے کلام کی ابتدا کرتے ہوئے حضرت سچل سرمست اپنی شاعری میں اپنے مرشد کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اُجرائي آفتاب کان، ھادي شال ھُئن، |
’’میرے مرشد آفتاب کی طرح صاف و شفاف اور ہادی رہیں-پنجتن پاک کی برکت سے دارین میں ان کا اظہار ہو-غوث الاعظم حضور شہنشاہ بغداد کے خلیفہ ہوں اور ان سے روشنی (نور) حاصل ہو- میرے مرشد کی مسند حضور غوث الاعظم ؒ کی حرمت اور خیر سے قائم رہے‘‘-
انڈونیشئن شاعری میں حضور غوث الاعظمؒ کو خراج عقیدت:
انڈونیشا کے مشہور شاعر شیخ حمزہ فانسوری(Shaykh Hamzah Fansuri) فرماتے ہیں:
’’میں حمزہ جو فانسور کا بیٹا ہوں-شہر نو ی میں مجھے مانا گیا-ارفع علم میں نے جس سے حاصل کیا-جیلان کے عبدالقادر سید کہلائے ‘‘-
’’حمزہ فانسوری، اپنی اصل میں خاکی-مصفیٰ ہوا متوجہ ہونے پر سید عبد القادر کی طرف -وہ جگہ جگہ بے قرار پھرتا رہااور آخر کار اسے اپنے میں آشکار پایا‘‘-
فارسی شعراء کا حضور غوث الاعظمؒ کو خراج عقیدت:
حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندؒ فرماتے ہیں:
بادشاہِ ہر دو عالم شاہ عبدالقادر است |
’’حضرت عبدالقادر جیلانیؒ دونوں عالم کے بادشاہ ہیں-حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ حضرت آدمؒ کی اولاد کے سردار ہیں‘‘-
حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتی اجمیری فرماتے ہیں:
یا غوثِ معظم نْورِ ھْدیٰ |
’’اے غوث معظم! آپ ہدایت کے نور ہیں ،اللہ عزوجل اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے محبوب ہیں -دونوں جہاں کی سلطان اور چمکتے ستارے ہیں،دنیا کے انتظام و نگہبانی کا مدار آپؒ پر ہے‘‘-
حضرت خواجہ قطب الدینؒ بختیار کاکی چشتی دہلوی فرماتے ہیں:
قبلہ اہلِ صفا حضرت غوث الثقلین |
’’حضرت غوث الثقلین اہل صفا کا قبلہ ہیں -حضرت غوث الثقلین ہر جگہ کے دستگیر ہیں-آپ ؒ کے قدموں کی خاک اہل نظر کی روشنی ہے-حضرت غوث الثقلین آنکھوں کو بینائی بخش دیں‘‘-
مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ فرماتے ہیں:
گویم ز کمالِ تو چہ غوث الثقلینا |
’’اے غوث الثقلین آپ کے کیا کمال بیان کروں-آپ (ﷺ)محبوب نبی اور حسن و حسین کی آل ہیں‘‘-
سیّدنا شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
غوث اعظم دلیلِ راہِ یقین |
’’غوث اعظم راہ یقین کی دلیل ہیں- یہ حق ہے کہ آپ ؒ اکابرین دین کے رہبر ہیں-جملہ اولیاء میں آپؒ ممتاز ہیں جیسے پیغمبر (ﷺ) انبیاء میں ممتاز ہیں ‘‘-
حضرت شاہ ابو المعالی قادری لاہوری فرماتے ہیں:
گر کسے واللہ بہ عالم از مئے عرفانی است |
’’واللہ ! کائنات میں اگر کسی کو تصوف و عرفان کہ مئے نصیب ہےتو شاہ عبد القادر جیلانی ؒ کے صدقے و طفیل سے ہے‘‘-
حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی سہروردی ؒفرماتے ہیں:
دستگیرِ بے کساں و چارہ بے چارگان |
’’حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ بے کسوں کے دستگیر اور بے چاروں کے چارہ گر، رحمۃ للعلمین (ﷺ) کے خاص بندوں میں سے ہیں ‘‘-
حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں:
حافظ از معتقد انست، گرامی دارش |
’’حافظ معتقدین میں سے ہے اس کی عزت کرو-کیونکہ بہت ہی مکرم روح کی عنایت اس کے شامل حال ہے‘‘-
میرزا حسن اصفہانی جن کا تخلص صفی علی شاه ہے، فرماتے ہیں کہ:
ز عبد القادر ار خواهی شد آگاه |
’’اگرسیّدنا عبد القادرؒ کو جاننا چاہتا ہے تو وہ عین الله تعالیٰ کی قدرت کےشاہدہیں‘‘-
الا در کل مقدورات صادر |
’’خبردار! حتی المقدور(ظاہری) چیزیں آپؒ پر اسم قادرمطلق سے ظاہر ہوتی ہیں‘‘-
نظیری نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
دگر نبود ز شرط ادب در آوردن |
’’ادب حاصل کرنے کی اور کوئی شرط نہیں،سوائے تیری مدح کی راہ،گیلان والے صاحب حکمت کی مدح ہو‘‘-
یعنی تو سیدنا الشیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی تعریف و توصیف کو اپنے اوپر لازم کرلے تواللہ عزوجل تجھے ادب کی دولت سے نوازدے گا-
بارگاہ ِ غوث الثقلین ؒ میں حضرت سلطان باھوؒ کا نذرانہ عقیدت:
شفیعِ اُمّتِ سرورؐ بود آں شاہِ جیلانی |
’’شہنشاہ ِ جیلان شاہ عبدالقادر جیلانیؒ اُمت ِسرورِ کائنات (ﷺ) کے شفیع ہیں- سبحان اللہ ! اُن کے ربّ نے اُنہیں کیسی شاندار قدرت عطا کر رکھی ہے ‘‘-
سکندر می کند دعویٰ کہ ہستم چاکرِ آں شاہ |
’’سکندر بھی اُن کی غلامی کا دم بھرتا ہے-اے شاہ ِ جیلانؒ!افلاطون کو آپؒ کے علم کے سامنے اپنی لاعلمی کا اعتراف ہے‘‘-
بہ ایں حشمت بہ ایں قدرت بہ ایں عظمت |
’’ایسی حشمت، ایسی شوکت، ایسی قدرت اور ایسی عظمت والا کوئی ہوا ہے نہ کوئی ہو گا -خداکی قسم! آپؒ کاثانی کوئی نہیں‘‘-
حضرت سلطان باھو ؒ اپنے پنجابی کلام میں بھی حضور غوث پاک ؒ کو یوں خراج عقیدت پیش فرماتے ہیں:
بَغداد شہر دی کِیا نِشانی اُچیاں لَمیاں چِیراں ھو |
ایک جگہ مزید فرماتے ہیں:
سُن فریاد پِیراں دیا پِیرا میری عرض سُنیں کَن دَھر کے ھو |
سیّد سُلطان بہادر علی شاہ صاحب ؒ اپنی معروضات ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں :
تینوں چُنیا رسول اللہ (ﷺ) |
اردو شعراء کا حضور غوث الاعظمؒ کو خراج عقیدت:
مولانا احمد رضا خان قادری برکاتیؒ فرماتے ہیں:
تو حسینی، حسنی کیوں نہ ہو محی الدین |
بیدم شاہ وارثی فرماتے ہیں:
یاد آتی ہے مجھے جس دم ادائے غوث پاک |
امیر مینائی فرماتے ہیں:
کَیا غَم مِری مدَد پہ اگر غوثِ پاک ہیں |
حفیظ تائب فرماتے ہیں:
اطاعت سرورِ دیں کی روایت غوث اعظمؒ کی |
شکیل بد ایونی فرماتے ہیں:
دلربا ہے کس قدر شان جمال غوث پاک ؒ |
بزبانِ ندیم بھابھہ :
دل دار بھلے دل دار جی اک بھیک نظر کی ڈال |
حرف آخر:
حضور شہشاہِ بغداد ؒ کی سیرت مبارک کا بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ؒ نے سب سے پہلے آقا کریم(ﷺ) کی سنت مبارک (ترک ماسوی اللہ اور توکل علی اللہ ) کو اپناتے ہوئے سب سے پہلے اپنے آپ علم وعمل کے سانچے میں ڈھالا- جب اللہ عزوجل نے آپ ؒ کوعلم وعمل کا پیکر بنایا،تو آپؒ نے اس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دین ِ مصطفٰے (ﷺ) کو درپیش چیلنجز کو اپنی نگاہِ کرم اور عمل سے ختم فرمایا-یہاں تک کہ آپ ؒ کو اللہ رب العزت کی بارگاہِ صمدیت سے ’’محی الدین‘‘ کا خطاب ملا-غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آج پھر دین پہ چاروں طرف سے مختلف طریقوں سے یلغار کی جا رہی ہے اور یہ حملوں سے سخت ہیں کیونکہ آج کا دشمن ظاہر کم اور مخفی زیادہ ہے -اس لیے ہمیں چاہیے کہ حضورشہنشاہ ِ بغداد ؒ کی زندگی مبارک کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے اپنے آپ کو علم وعمل سے آراستہ کر کے وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور دشمن (چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی) اس کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکشت فاش دینے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں-آج ضرور ت ہے کہ حضور شہنشاہ ِ بغداد ؒ کی دستِ اقدس سے لکھی ہوئی تصانیف کو عام کیا جائے تاکہ ہر خاص وعام ان سے استفادہ کرے ،ان تصانیف مبارکہ میں سے منتخب ابواب کو نہ صرف مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے بلکہ سرکاری سطح تک سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں ان کی شمولیت کو یقینی بنا کر آپؒ کی سیرت اور تعلیمات مبارکہ سے آگاہی بخشنے کا انتظام و بندوبست کیا جائے -اللہ عزوجل ہمارا حامی و ناصر ہو!
٭٭٭
[1]قلاہدالجواہر
[2]مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، ماہنامہ (لاھور، العارفین پبلیکیشنز، جنوری،2012ء)،ص:31-32
[3]الشَّعْرانی،عبد الوهاب بن أحمد بن علی،الطبقات الكبرى، (مصر: مكتبة محمد المليجی الكتبی وأخيه)،باب: ومنهم أبو صالح سيدي عبد القادر الجيلی (ؓ)، ج:1،ص:108
[4]زبدۃ الاسرار ، از شاہ عبد الحق محدث دہلوی
[5]ایضاً
[6]غبطۃ الناظر، ابن حجر العسقلانیؒ
[7]الاعلیٰ:14
[8]ملا علی قاری ؒ،نزہۃ الخاطر الفاتر فی مناقب سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؓ، اقبال احمد فاروقی ،مترجم (لاہور،قادری رِضوی کتب خانہ،2007ء)ص:72-73۔
[9]ایضاً
[10]قلائد الجواہر
[11]زبدۃ الآثار
[12]فتح الربانی
[13]مظهري، محمد ثناء الله (1225 هـ)۔التفسير المظهري۔(الناشر: مكتبة الرشدية – الباكستان1412هـ) ج:10،ص:288۔ سورة الضّحى، زیرِآیت: 11
[14]نورالھدٰی
[15]مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، ماہنامہ (لاھور، العارفین پبلیکیشنز، جنوری،2016ء)،ص:9-10
[16] الآلوسي،نعمان بن محمود بن عبد الله،جلاء العينين في محاكمة الأحمدين،(الناشر: مطبعة المدني، 1401ھ)،باب: محنة القول بخلق القرآنج:01،ص:243
[17]الشنطوفی، امام ابوالحسن ؒ،بججۃ الاسرار (لاہور، شبیر برادرز، 2011ء)،ص:311۔