﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
امام ابوبکر عبد العزیز بن الشیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’مجھے شیخ القدوہ حضرت ابو الحسن علی بن الھیئتی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب آپ کے والد ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی ﴿سٹیج﴾ پر تشریف فرما ہوتے اور ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ﴾ فرماتے تو زمین کا ہر ولی آپ ﴿کو سننے﴾ کے لیے خاموش ہو جاتا چاہے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا یا غائب اور اسی لیے آپ اسے دُہراتے اور اس کے بعد ﴿تھوڑی دیر کے لیے﴾ خاموش ہو جاتے- فرشتوں اور اولیائ کرام کی آپ کی مجلس میں کثرت ہوتی تھی- اس مجلس میں غائبانہ شخصیات حاضرین سے زیادہ ہوتی تھیں- اس مجلس کے تمام حاضرین پر ﴿اللہ تعالیٰ کی﴾ رحمت بارش کی طرح برستی تھی -‘‘
شیخ ابو زکریا حضرت یحییٰ بن نصربن عمر البغدادی المنشائ نے جو کہ ’’صحراوی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، خبر دیتے ہوئے بتایا کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ؛
’’ایک مرتبہ میں نے قرض خواہوں کی وجہ سے جنّوں کو طلب کیا تو میں نے اپنی روٹین سے زیادہ ہی ان کے جواب کو متاخر پایا ﴿یعنی وہ فوری حاضر نہ ہوئے﴾ - اس کے بعد جب وہ میرے پاس آئے تو کہنے لگے کہ جب شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ لوگوں سے خطاب فرما رہے ہوں تو اس وقت بلاوا نہ بھیجا کرو- میں نے پوچھا وہ کس لیے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں- میں نے ﴿حیران ہو کر ﴾ پوچھا کہ تم بھی ﴿شیخ غوث الاعظم کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو﴾؟ انہوں نے کہا کہ ان کی مجلس میں ہماری تعداد انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے - ہمارے کئی گروہوں نے ﴿ان کے دست مبارک پر﴾ اسلام قبول کر لیا ہے- ہم نے بھی ان کے دست مبارک پر ﴿کفر و شرک سے﴾ توبہ کر لی ہے -‘‘
شیخ ابو حفص حضرت عمر بن حسین العطسی نے کہاکہ ایک مرتبہ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا؛
’’اے عمر! میری مجلس سے الگ نہ ہونا بے شک اس میں خلعتیں ایک ایک کرکے ﴿آسمان سے﴾ آتی ہیں پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو ان ﴿خلعتوں﴾ سے محروم رہ گیا-‘‘
شیخ ابو حفص نے بتایاکہ اس بات کو کئی دن گزر گئے کہ ایک دن میں مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا- میں نے ﴿خواب میں﴾ دیکھا کہ آسمان سے سرخ و سبز خلعتیں اتر رہی ہیں اور اہل مجلس پر نچھاور ہو رہی ہیں- میں نے بیقرار ہو کر اپنی آنکھیں کھولیں اور ابھی اٹھا ہی تھا تاکہ اہلِ مجلس کو ﴿ان خلعتوں کے بارے﴾ بتا دوں کہ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے آواز دے کر فرمایا؛
’’اے میرے بچے! خاموش، ﴿لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ﴾ خبر ،مشاہدہ کی مانند نہیں ہوتی-‘‘ ﴿۱﴾
انہی حضرت ابو حفص کی ہی روایت ہے ، انہوں نے کہا ؛
’’ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں ، مَیں بالکل آپ کے سامنے بیٹھا تھا کہ نور کے ایک چراغ کی صورت میں کوئی چیز آسمان سے اترتی ہے اور شیخ کے منہ مبارک کے قریب ہو جاتی ہے پھر وہ بڑی تیزی سے آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے- ایسا تین مرتبہ ہوا- میں نے از راہِ تعجب ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر لوگوں کو اس کے بارے بتا دوں- آپ نے فورا مجھے فرمایا کہ بیٹھے رہو مجالس کی بھی کچھ امانتیں ہوتی ہیں- پس میں بیٹھ گیا اور اس کا تذکرہ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد ہی کیا-‘‘
شیخ ابو عبد اللہ محمد بن خضر الحسینی الموصلی نے کہا کہ میں نے اپنے والد محترم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ؛
’’شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مجلس کی ابتدائ میں مختلف علوم ﴿ظاہری﴾ کے بارے گفتگو فرماتے تھے- جب آپ اپنی کرسی پر تشریف فرما ہوتے تو نہ کوئی تھوکتا، نہ کوئی ناک جھاڑتا، نہ کھانسی کرتا، نہ کلام کرتا اور آدھی مجلس گزرنے تک آپ کی ہیبت سے نہ ہی کوئی کھڑا ہوتا تھا- پھر شیخ ﴿ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ فرماتے کہ قال کی گفتگو تمام ہوئی اب ہم حال ﴿کے تذکرے﴾ کی طرف آتے ہیں پس ﴿یہ سنتے ہی﴾ لوگوں پر شدید بیخودی ﴿کی کیفیت﴾ غالب ہو جاتی اور ان پر حال اور وجد طاری ہو جاتا تھا-‘‘
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی کرامت تھی کہ لوگوں کی کثرت کے باوجود مجلس میں دور بیٹھا ہوا بھی اسی طرح آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی آواز کو سنتا تھا جس طرح نزدیک بیٹھا ہوا سن رہا ہے- آپ اہلِ مجلس کے دلوں سے مخاطب ہوتے تھے اور کشف کے ذریعے ان کے قریب ہوتے تھے- جب آپ کرسی پر کھڑے ہوتے تو لوگ آپ کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے اور جب آپ فرماتے کہ خاموش ہوجائو تو آپ کی ہیبت اتنی تھی کہ سوائے سانسوں کے کوئی آواز نہیں آتی تھی-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں لوگ ہاتھ چھوڑتے تو وہ اپنے درمیان موجود ﴿غیبی﴾ مردوں پر جا لگتے جنہیں وہ چھو کر محسوس کرتے حالانکہ وہ دکھائی نہ دیتے تھے- لوگ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی گفتگو کے دوران فضائ میں سے رونے کی آوازیں سنتے تھے-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی پر تشریف فرما ہو کر فرماتے کہ اے لوگو! میرا یہاں ﴿کرسی پر﴾ بیٹھنے کے دوران تمہارا ﴿مجلس میں﴾ بیٹھنا تمہیں مجھ سے ﴿کسی صورت﴾ غافل نہ کرے ﴿کیونکہ﴾ یہاں ولایت ہے، یہاں درجات ہیں- اے توبہ چاہنے والو! بسم اللہ آگے بڑھو، اے عافیت طلب کرنے والو! بسم اللہ پیش قدمی کرو، اے اخلاص لینے والو! بسم اللہ آگے آئو- میرے پاس ہر ہفتہ میں ایک بار آئو، ہر مہینہ میں ایک مرتبہ آئو یا ہر سال میں ایک دفعہ یا اپنی عمر بھر میں ایک ہی بار آجائو اور ہزاروں ہزار انعامات لے جائو- اے لوگو! مجھ سے ایک بات سننے کے لیے ہزار سال کا سفر ﴿کرنا پڑے تو﴾ کرو اور جب یہاں ﴿میری مجلس میں﴾ داخل ہو جائو تو پھر اپنے عمل، زہد، پرہیزگاری اور احوال کی ظاہری خلعت کو اپنے اوپر سے اتار پھینکو اور وہ چیز حاصل کرو جو میرے پاس تمہارے لیے ﴿خاص﴾ ہے- میرے پاس ملک کے رازدار اور خواص حاضر ہوتے ہیں- اولیائ اور غیبی افراد مجھ سے ﴿اللہ تعالیٰ کی﴾ پاک بارگاہ کی حاضری کے لیے تواضع سیکھتے ہیں- اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اَولیائ میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو میری مجلس میں حاضر نہیں ہوتا- زندہ اپنے جسموں کے ساتھ آتے ہیں اور فوت شدگان اپنی ارواح کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں-
بہت سے مشائخ حضرت شیخ ابو سعید القیلوی سے ﴿یہ﴾ روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں؛
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیائ کرام کو شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں کئی بار دیکھا ہے- بے شک آقا ﴿علیہ الصلوۃ و السلام﴾ اپنے غلام کو شرفِ عزت بخشتے ہیں- بے شک انبیائ کرام کی ارواح زمین و آسمان میں ایسے آتی جاتی رہتی ہیں جیسے آفاق میں ہوا چلتی ہے- میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ حاضر ہو تے ہیں- میں نے غیبی افراد اور جنوں کو دیکھا کہ وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں- ابو العباس حضرت خضر علیہ السلام کو تو میں نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس اکثر دیکھا ہے- میں نے ان سے ﴿اس مجلس کے بارے ﴾ عرض کی تو انہوں نے فرمایا کہ جو شخص ﴿حقیقی طور پر﴾ فلاح چاہتا ہے اس پر اس مجلس کی حاضری ضروری ہے-‘‘
شیخ الجلیل الشریف حضرت ابو العباس احمد بن الشیخ عبد اللہ الازھر الحسینی نے خبر دیتے ہوئے بتایا ؛
﴿حَضَرْتُ مَجْلِسَ شَیْخِنَا الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجَیْلِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ کَانَ فِی الْمَجْلِسِ نَحْوٌ مِّنْ عَشْرَۃِ الْاٰفِ رَجُلٍ
’’میں شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں تقریبا دس ہزار کے قریب افراد تھے-‘‘
وَّ کَانَ الشَّیْخُ عَلِیُّ بْنُ الْھَیْئَتِیُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ، جَالِسًا تَجَاہَ الشَّیْخِ تَحْتَ دَکَّۃِ الْمُقْرِیِ فَاَخَذَتْہُ سِنَۃٌ
’’ شیخ علی بن الھیئتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے چبوترے کے نیچے تشریف فرما تھے کہ انہیں اونگھ آگئی-‘‘
فَقَالَ الشَّیْخُ لِلنَّاسِ اسْکُتُوْا فَسَکَتُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الْقَائِلُ اِنّھُمْ لَا یُسْمَعُ اِلَّا اَنْفَاسُھُمْ
’’شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے لوگوں سے کہا کہ خاموش ہو جائو - وہ سب ایسے خاموش ہوئے کہ کہنے والا کہتا ہے کہ سانسوں کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی-‘‘
ثُمَّ نَزَلَ مِنَ الْکُرْسِیِّ وَ وَقَفَ بَیْنَ یَدَیَّ الشَّیْخِ عَلِیٍّ مُتَاَدِّبًا وَّ جَعَلَ یُحَدِّقُ عَلَیْہِ
’’پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی سے نیچے تشریف لائے اور شیخ علی بن الھیئتی کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر انہیں بڑی توجہ سے دیکھنے لگے-‘‘
ثُمَّ اسْتَیْقَظَ الشَّیْخُ عَلِیٌّ فَقَالَ لَہ، اَرَاَیْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ قَالَ نَعَمْ
’’یہاں تک کہ شیخ علی بن الھیئتی بیدار ہو گئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں-‘‘
قَالَ مِنْ اَجْلِہٰ تَاَدَّبْتُ فِیْمَا وَصَّاکَ؟
’’ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ اسی لیے میں با ادب ﴿کھڑا﴾ ہو گیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کس چیز کی وصیت فرمائی؟‘‘
قَالَ بِمُلَازَمَتِکَ
’’انہوں نے کہاکہ ﴿نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ساتھ پیوستہ رہنے کی ﴿وصیت فرمائی﴾-‘‘
قَالَ الشَّیْخُ عَلِیٌّ لِلنَّاسِ الَّذِیْ رَاَیْتُہُ فِی النَّوْمِ رَاٰہُ الشَّیْخُ فِی الْیَقْظَۃِ﴾
’’ پھر شیخ علی بن الھیئتی نے لوگوں کو بتایا کہ ﴿اے لوگو!﴾ جس ذات ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو میں نے خواب میں دیکھا ہے اسی ذات ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے جاگتے ہوئے دیکھا ہے-‘‘
یہ روایت بھی ہے کہ ﴿شوقِ الٰہی میں﴾ اس روز سات افراد اس دنیا سے رخصت ہو گئے-
ایک دن آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری گفتگو ان سے ﴿بھی﴾ ہے جو کوہِ قاف سے میری مجلس میں حاضر ہوتے ہیں - ان کے قدم ہوا میں اور ان کے دل حضرت قدس ﴿بارگاہِ الٰہی﴾ میں ہیں- ان کی ٹوپیاں اور چُغے اپنے رب کی طرف شدّتِ شوق سے جل جاتے ہیں- آپ کے ایک فرزند سیّدنا عبد الرزاق ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ بھی منبر پر اپنے والد محترم کے قدموں میں بیٹھے تھے- انہوں نے اپنا سر ہوا کی جانب بلند کیا تو ایک لمحے کے لیے اچھلے پھر ان پر غشی طاری ہو گئی اور ان کا لباس اور چغہ جلنے لگا- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نیچے اترے اور ان کی آگ بجھائی اور فرمایا کہ اے عبد الرزاق تم بھی انہی میں سے ہو-
سیّدنا عبد الرزاق ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے پوچھا گیا کہ کس چیز نے آپ کو بے ہوش کر دیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا ؛
’’ جب میں نے ہوا میں دیکھا تو کچھ افراد زمین پر نظریں جھکائے خاموشی سے آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے کلام کو سن رہے تھے- آسمان بھر چکا تھا اور ان کے لباسوں اور کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی- ان میں سے کوئی چیخ رہا تھا اور دوڑ رہا تھا، کوئی جلسہ گاہ میں گر رہا تھا اور کوئی اپنی جگہ پر کھڑا تھرتھرا رہا تھا-‘‘
منقول ہے کہ قاری نے آپ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ﴿قرآن پاک کی﴾ یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ﴾ کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟ تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کھڑے ہو گئے تو آپ کے جلال سے لوگ بھی کھڑے ہوگئے- آپ نے کھڑے ہوتے ہی انہیں اشارہ کیا کہ اپنے حال پر ﴿بیٹھے﴾ رہو- پھر یہ فرمانا شروع کر دیا کہ ﴿تم میں سے﴾ کون ﴿اَلْمُلْکُ لِیْ﴾ ’’ بادشاہی میرے لیے‘‘ کہہ رہا ہے؟ آپ نے اس ﴿سوال﴾ کو اتنی بار دہرایا کہ ایک آدمی کھڑا ہوگیا جو بزرگ صالحین میں سے تھا اور احمد ذرار کے نام سے معروف تھا- وہ کثرت سے عبادت گزار اور بہت زیادہ مجاہدہ کرنے والا تھا- اس نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ بادشاہی میرے لیے ہے کیونکہ یہ میری ہے اور اس کی مثل کوئی نہیں ہے- پس شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے بڑی پُرجلال آواز میں پکارتے ہوئے فرمایا کہ اے احمق تو کب سے اس بادشاہی کا حق دار تھا، وہ کب تیری تھی، تو نے کب آزمائش کو دیکھا جو تیری چراگاہ کے گرد چکر لگاتی ہے اور اس ﴿بادشاہی﴾ کے لیے تیری طرف راستہ بنا لیا؟
پس اس فقیر نے چیخ ماری اور اس پر سیاہ رنگ کا اونی لباس تھا وہ اس نے اتار پھینکا اور بے لباس ہو کر جنگل کی طرف بھاگ نکلا-
شیخ العارف حضرت ابو محمد فرح بن شہاب الشیبانی نے خبر دیتے ہوئے کہا ؛
’’جب شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرے کی شہرت ہونے لگی تو بغداد کے سو بڑے فقیہ اس بات پر اکٹھے ہوئے کہ ان میں سے ہر ایک ان ﴿سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فنی و علمی ایک ایک ایسا مسئلہ پوچھتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو- وہ ﴿سو فقہائ﴾ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وعظ کی مجلس میں آئے- میں بھی اس دن مجلس میں تھا- جب ان پر مجلس رکی ﴿یعنی شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے﴾ تو شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا- آپ کے سینے مبارک سے نور کی ایک چمک ظاہر ہوئی ، جسے وہی دیکھ سکا جسے اللہ تعالیٰ نے دکھانا چاہا، اور وہ ان سو ﴿فقیہوں﴾ کے سینوں سے گزر گئی- جیسے ہی وہ ان میں سے ہر ایک کے سینے سے گزری تو وہ مبہوت و پریشان ہو گئے- پھر وہ سب ایک ہی طرح چلّائے اور گریبان پھاڑ ڈالے، اپنے سروں سے عمامے اتار پھینکے اور کرسی ﴿سٹیج﴾ پر جا کر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے قدموں میں اپنے سر رکھ دیئے- تمام مجلس والوں نے بھی ایک ایسی چیخ ماری کہ ﴿راوی کہتے ہیں﴾ میں سمجھا پورا بغداد اس چیخ سے لرز اٹھا ہے- پھر آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان ﴿فقہائ﴾ کو ایک ایک کرکے اپنے سینے سے لگانا شروع فرما دیا- اس کے بعد ہر ایک سے فرمایا کہ تمہارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے یہاں تک کہ ہر ایک کا سوال اور اس کا جواب ذکر فرما دیا-‘‘
﴿اس واقعہ کے﴾ راوی نے ﴿مزید﴾ کہا؛
’’جب مجلس ختم ہوئی تو میں ان ﴿فقہائ﴾ کے پاس گیا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ جب ہم بیٹھے تو ﴿اچانک﴾ ہم اپنا تمام علم بھول گئے یہاں تک کہ وہ علم ہم سے ایسے منسوخ ﴿سلب﴾ ہو گیا گویا کبھی ہمارے قریب سے ہی نہیں گزرا تھا- جب ہم آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سینہ مبارک سے لگے تو ہمارا مسلوب شدہ علم ہم میں سے ہر ایک کو واپس مل گیا اور ہمیں ہمارے سوال یاد آگئے اور ان سوالوں کے ایسے جواب ارشاد فرمائے گئے کہ جنہیں ہم ﴿بھی﴾ نہیں پہچانتے- ‘‘
شیخ العارف حضرت ابو القاسم محمد بن احمد بن علی الجہنی نے خبر دیتے ہوئے بتایا؛
’’میں شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرسی ﴿سٹیج﴾ کے نیچے بیٹھا تھا- آپ کے چند نقبائ ﴿نگرانی کرنے والے محافظ﴾ تھے جو کرسی ﴿سٹیج﴾ کی ہر سیڑھی ﴿پائیدان﴾ پر جوڑا جوڑا بیٹھے تھے- کرسی ﴿سٹیج﴾ کے نیچے لوگ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی ہیبت سے ایسے ﴿سہمے لگ رہے﴾ تھے کہ جیسے کسی شیر سے خوف کھائے بیٹھے ہوں- ایک مرتبہ آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے کلام میں اس حد تک مستغرق ہوئے کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے عمامے کا ایک لَڑ ﴿پلّو﴾ کھل گیا جس کی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو خبر نہ ہوئی- تمام حاضرینِ مجلس نے بھی اپنے عمامے اور چادریں اتار کر کرسی ﴿سٹیج﴾ کے نیچے رکھ دیں- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اس گفتگو سے فارغ ہوئے تو مجھے ﴿راوی کو﴾ فرمایا کہ اے ابو القاسم! لوگوں کو ان کی چادریں اور عمامے واپس لوٹا دو- پس میں نے ایسا ہی کیا- میرے پاس صرف ایک پٹکہ ﴿دوپٹہ﴾ رہ گیا ﴿جس کے بارے میں﴾ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کس کا ہے- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ یہ ﴿پٹکہ﴾ مجھے دے دو- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اسے اپنے کندھے پر رکھا کہ ﴿فوراً﴾ وہ غائب ہو گیا- جب شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نیچے تشریف لائے تو میرے کندھے یا ﴿شاید﴾ ہاتھ کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو القاسم! جب اہلِ مجلس نے اپنے عمامے اتارے تھے تو ﴿ایران کے شہر﴾ ’’اصفہان‘‘ سے بھی ہماری ایک بہن نے اپنا پٹکا اتار ﴿کر یہاں ڈال﴾ دیا تھا- جب تم نے تمام لوگوں کو ان کی چیزیں واپس کر دیں تو میں نے اسے اپنے کندھے پر رکھا تو اس ﴿ہماری بہن﴾ نے ’’اصفہان‘‘ سے ﴿باطنی تصرف کے ساتھ﴾ ہاتھ لمبا کر کے اسے اٹھا لیا- ‘‘
قاضی القُضاۃ ﴿چیف جسٹس﴾ ابو صالح نصر نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے چچا ابو عبد اللہ سیّد عبد الوہاب ﴿شہزادۂ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنھما﴾ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ؛
’’میں نے عجمی ﴿غیر عربی﴾ شہروں کا سفر کیا اور طرح طرح کے علوم میں مہارت حاصل کی- جب میں بغداد واپس آیا تو اپنے والد ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے عرض کیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی موجودگی میں لوگوں سے خطاب کروں- آپ نے مجھے اجازت عطا فرما دی- پس میں کرسی ﴿سٹیج﴾ پر چڑھا اور جو اللہ نے چاہا مختلف علوم اور وعظ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوا- میرے والد محترم بھی سماعت فرما رہے تھے- ﴿میرے خطاب سے﴾ کوئی دل نہ کانپا اور کوئی آنسو نہ نکلا- اہل مجلس میرے والد محترم کو پکارنے لگے اور التجا کی کہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ہم سے خطاب فرمائیں- پس میں اتر آیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے تشریف فرما ہوتے ہی فرمایا کہ کل میں روزے سے تھااور اُمّ یحییٰ ﴿یحییٰ کی ماں﴾ نے میرے لیے انڈے پکائے- میں نے انہیں پیالے میں ڈال کر اس کو مٹی کے ایک کوزے پر رکھ دیا- ایک بلی نے آکر اسے گرا دیا اور وہ ٹوٹ گیا- سیّد عبد الوہاب نے فرمایا کہ ﴿اتنی بات سن کر﴾ مجلس میں بیٹھنے والے چیخ چیخ کر آہ و زاری کرنے لگے- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نیچے تشریف لائے تو میں نے اس معاملے ﴿کا راز جاننے﴾ کے لیے عرض کی- تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ اے میرے بچے! تم اپنے سفر کے راہنما ہو، کیا ﴿کبھی﴾ اس طرف بھی سفر کیا ہے؟ اور اپنی انگلی ﴿مبارک﴾ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا-
﴿سیّد عبد الوہاب فرماتے ہیں﴾ میں اس کے بعد جب بھی کبھی کرسی ﴿سٹیج﴾ پر چڑھتا ہوں اور لوگوں سے خطاب کرتا ہوں تو بہت کم ہی کوئی ﴿میری بات سے﴾ متاثر ہوتا ہے- پس میں اترتا ہوں تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ تشریف فرما ہوتے ہیں اور ﴿خطاب کرتے ہوئے﴾ فرماتے ہیں کہ اے ناسمجھو! ﴿اصل﴾ بہادری صبر ہے چاہے لمحے کا ہو- ﴿آپ کی بات سنتے ہی﴾ لوگ پُرجوش ہو جاتے ہیں- میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اس بارے میں پوچھتا تھا ﴿کہ یہ کیا معاملہ ہے؟﴾ تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ فرماتے کہ تم اپنے آپ میں مخاطب ہوتے ہو اور میں اپنے آپ سے باہر- آپ ﴿راوی﴾ نے فرمایا کہ جب مجلس میں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کبھی کبھار فرماتے کہ میں اس سوال پر بات کرنے کی ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے﴾ اجازت لے لوں- پس آپ سر ﴿مبارک﴾ جھکا لیتے تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی اور ایک وقار غالب آجاتا- ﴿اس کیفیت کے بعد﴾ پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ وہی کچھ فرماتے جو اللہ تعالیٰ چاہتا- ‘‘
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ معبود ﴿حقیقی﴾ کی عزت کی قسم میں اس وقت تک مخاطب نہیں ہوتا جب تک مجھے یہ نہیں کہا جاتا کہ تجھے میرے حق کی قسم خطاب کرو ، مَیں ﴿اللہ تعالیٰ﴾ نے تجھے اس بات کے رد ہونے سے امن بخش دیا ہے ﴿یعنی مطمئن رہو تمہاری بات ہر حال میں پوری ہوگی﴾-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ایک دن اپنی مجلس میں خطاب فرمایا تو ﴿اتفاقاً﴾ کچھ لوگوں پر کمزوری غالب ہوئی ﴿وہ آپ کی طرف مکمل طور پر متوجہ نہ ہوئے﴾- پس آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ میری گفتگو سننے کے لیے سبز پرندے بھیجنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے- ابھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بات مکمل ہی نہ ہوئی تھی کہ پوری مجلس سبز پرندوں سے بھر گئی جنہیں تمام حاضرین نے دیکھا- اسی طرح کسی دوسرے روز آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ایسے ہی فرمایا تو ایک خوبصورت سبز پرندہ آیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی آستین میں داخل ہوگیا اور باہر ہی نہ نکلا-
کسی روز آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں ایک عجیب و غریب پرندہ آیا جسے لوگ ﴿تعجب سے﴾ دیکھنا شروع ہو گئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ معبود ﴿حقیقی﴾ کی عزت کی قسم اگر میں اس پرندے کو کہوں کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مر جا تو یہ ﴿اسی وقت﴾ مر جائے گا- ابھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے یہ بات مکمل ہی نہ فرمائی کہ وہ پرندہ جلسہ گاہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑا-
شیخ القدوہ ، حضرت بقا بن بُطو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ؛
’’ایک مرتبہ مَیں شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی کی ﴿اوپر سے﴾ پہلی سیڑھی ﴿سٹیپ﴾ پر تشریف فرما ہوکر خطاب فرما رہے تھے کہ اسی دوران آپ نے ﴿اچانک﴾ خطاب روک دیا اور لمحے کے لیے دوسری طرف متوجہ ہوئے اور نیچے زمین پر اتر آئے- پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی پر تشریف لے گئے اور ﴿اوپر سے﴾ دوسری سیڑھی ﴿سٹیپ﴾ پر تشریف فرما ہو گئے- میں نے مشاہدہ کیا کہ ﴿اوپر والی﴾ پہلی سیڑھی تا حدِّ نگاہ وسیع ہو گئی ہے اور اس پر سبز ریشمی فرش ﴿قالین﴾ بچھ گیا ہے- اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﴿ ﷺ﴾ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم تشریف فرما ہیں ﴿اور شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنبھالا ہوا ہے﴾ کہ کہیں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ گر نہ جائیں- پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا جسم مبارک ﴿تجلّیات سے﴾ سکڑنے لگا یہاں تک کہ چڑیا جتنا رہ گیا پھر بڑھنے لگا یہاں تک ﴿بڑھ گیا﴾ کہ بہت بڑی گھبراہٹ میں ڈالنے والی صورت اختیار کر گیا- پھر ﴿اچانک﴾ یہ تمام ﴿مشاہدہ﴾ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا-‘‘
شیخ بقا بن بُطو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﴿ﷺ﴾ کے صحابہ کرام کی زیارت کے بارے پوچھا گیا ﴿کہ وہ کس صورت میں تھی؟﴾ تو انہوں نے فرمایا؛
’’ ان کی ارواح نے ﴿اپنی اپنی﴾ صورت اختیار کر لی تھی اور بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ایسی قوت عطا کی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ ﴿اپنی اپنی صورتوں میں﴾ ظاہر ہو جاتے ہیں- ‘‘
پھر ان ﴿شیخ بقا بن بُطو﴾ سے شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مبارک﴾ کے سکڑنے اور بڑھنے ﴿کی حکمت﴾ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ؛
’’پہلی تجلی ایسی صفت کی تھی جس کے سامنے نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ کی مدد کے بغیر کوئی بشر نہیں ٹھہر سکتا اسی لیے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو نہ پکڑتے تو عنقریب آپ ﴿تجلی کی واردات سے﴾ گر پڑتے- ﴿جبکہ﴾ دوسری تجلّی مشاہدہ کی حیثیت سے صفتِ جلال کی تھی اسی لیے آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ پرورش پانے اور بڑھنے لگے- یہ اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے-‘‘
آپ ﴿سیّدنا شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہفتہ میں تین مرتبہ خطاب فرماتے تھے- ایک جمعہ کی صبح، دوسرا ہفتہ کی صبح اور تیسرا منگل کی شام- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں عراق کے بڑے بڑے مشائخ، جیّد علمائے کرام اور عراق کے صدور مفتیان مثلا شیخ بقا بن بُطو، شیخ ابو سعید القیلوی، شیخ علی بن الھیئتی، شیخ ابو النجیب عبد القاہر السہروردی، شیخ ماجد الکُردی، شیخ مطر البادرانی اور ان کے علاوہ ﴿دیگر﴾ مشائخ ، علمائ اور اولیائ تشریف لایا کرتے تھے-
ایک راوی کا قول ہے؛
’’مجھے نہیں معلوم کہ شیخ عبد الرحمن طفسونَجی بغداد میں ﴿کبھی﴾ آئے لیکن میں نے انہیں ﴿دریائے دجلہ کے کنارے شہرِ﴾ ’’طفسونَج‘‘ میں کافی کافی دیر تک ﴿اپنے گھر میں﴾ کھڑے ہوئے دیکھا ہے - وہ فرماتے تھے کہ جو کوئی شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا خطاب سننا چاہتا ہے وہ ﴿میرے﴾ اس گھر میں داخل ہو جائے- ان کے بزرگ ساتھی اس گھر میں داخل ہوتے اور آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا خطاب سنتے- کبھی کبھار ان میں سے کچھ ﴿آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطاب﴾ لکھتے اور اس پر اس دن کی تاریخ ڈال لیتے جو بعینہ وہی ہوتی تھی-‘‘
اسی طرح شیخ عدی بن مسافر سے منقول ہے کہ وہ ﴿عراق کی ایک وادی﴾ ’’لالُش‘‘ کے پہاڑ پر ﴿رہتے﴾ تھے، فرماتے ہیں؛
’’جو شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا خطاب سننا چاہتا ہے وہ ﴿میرے﴾ اس گھر میں بیٹھ جائے- ان کے پاس اس گھر میں ان کے اکابر ساتھی بیٹھتے ہیں اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا خطاب سنتے لگتے ہیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اسی وقت ﴿اپنے جلسہ گاہ میں﴾ فرما رہے تھے کہ عین بعین شیخ عدی بن مسافر ﴿بھی﴾ تم میں موجود ہیں-‘‘
آپ کی مجلس میں دو یا تین افراد ﴿فرطِ محبت میں﴾ وصال فرما جاتے تھے- مجلس میں چار سو ﴿کے قریب﴾ سیاہی کی دواتوں سے لکھا جاتا تھا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اکثر جلسہ گاہ میں موجود افراد کے سروں پر ہوا میں چند قدم چلتے پھر اپنی کرسی پر لوٹ آتے- ﴿۲﴾
روایت ہے کہ ایک دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطاب فرما رہے تھے کہ ہوا میں چند قدم چلے اور فرمایا؛
’’اے اسرائیلی! ٹھہر جائو اور محمدی خطاب سنتے جائو‘‘
پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنی جگہ پر تشریف لے آئے- ﴿جب جلسہ ختم ہوا تو﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اس معاملہ کی ﴿وضاحت کے بارے﴾ عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا ؛
’’ہمارے جلسہ سے ابو العباس حضرت خضر ﴿علیہ السلام﴾ بڑی تیزی سے گزر رہے تھے، مَیں نے ان کی طرف قدم بڑھائے اور انہیں وہ کہا جو تم نے سنا-‘‘
اس طرح کی حکایات بہت زیادہ ہیں-
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس ان یہود و نصاریٰ سے کبھی خالی نہیں ہوتی تھی جو ﴿آپ کے دستِ مبارک پر﴾ مسلمان ہو جاتے تھے- اسی طرح ڈاکو، بد مذہب اور دیگر فسادی ﴿بدمعاش﴾ وغیرہ بھی ﴿آپ کے دستِ مبارک پر﴾ توبہ کرتے تھے- آپ کے دستِ مبارک پر پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی مسلمان ہو چکے تھے اور دوسرے رسوائے زمانہ اور ان جیسے لاکھوں کی تعداد میں تائب ہو گئے تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ انہیں کیسے تبدیل فرما دیتے ہیں-
ایک روایت ہے کہ
’’ایک دن کوئی راہب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بارگاہ میں آیا اور مجلس میں آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا پھر لوگوں کو بتایا کہ میں ’’یمن‘‘ کا ایک باشندہ ہوں- میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو میں نے اپنے خیال میں یہ مضبوط ارادہ کیا کہ میں اہلِ زمین میں سے سب سے بہترین شخص کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا- میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے نیند آگئی- میں نے خواب میں حضرت عیسیٰ ابن مریم صلوۃ اللہ علیہ و سلامہ کو دیکھا جو مجھے فرما رہے تھے کہ بغداد جائو اور شیخ عبد القادر الجیلانی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لو- اس وقت وہ اہلِ زمین میں سب سے بہترین آدمی ہیں-‘‘
دوسری مرتبہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس تیرہ عیسائی آئے اور آپ کی مجلس میں آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا- پھر انہوں نے بتایا:
’’ہم عرب کی عیسائی ہیں، ہم نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو ﴿مسلمانوں کی مجموعی پسماندگی دیکھ کر﴾ ہم شک میں مبتلا ہو گئے کہ کس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے لیے جائیں- غیب سے ایک آواز آئی جس کی بات کو ہم نے صرف سنا اور اسے دیکھا نہیں- وہ ﴿غیبی آواز﴾ کہتی ہے کہ اے فلاح و کامیابی کے سوارو! بغداد آکر شیخ عبد القادر کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لو- بے شک وہ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنی برکت سے تمہارے دلوں میں ایمان کو ایسا نقش فرما دیں گے جو ان کے علاوہ ﴿موجودہ﴾ تمام انسانوں میں سے کوئی بھی دلوں میں نقش نہیں کر سکتا-‘‘
﴿جاری ہے---﴾
توضیحی نوٹ از مترجم:
﴿۱﴾ ﴿ سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شیخ ابو حفص کو اپنا مشاہدہ اہلِ مجلس کو نہ بتانے کے حکم دینے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی مجلس میں ہر ایک کو ایک جیسا مشاہدہ نہیں ہوتا تھا جس کو جو توفیق ہوتی وہ صرف وہی کچھ نظارہ کر سکتا تھا-﴾
﴿۲﴾ ﴿ہوا میں مجلس والوں کے سروں پر چند قدم چلنا پھر لوٹ آنا سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روحانی عمل اور باطنی تصرف تھا اور اس کا مشاہدہ بھی آنکھ والوں کو ہی نصیب ہوتا تھا- ظاہر پرستوں کو تو آپ صرف سٹیج پر بیٹھے ہی دکھائی دیتے تھے- جیسا کہ پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ ’’اکھ بنوا جاہل بیچارہ تا ویکھیں ایہہ نور نظارہ‘‘ کہ اس طرح کے نورانی نظارے دیکھنے کے لیے کسی کامل راہنما سے باطن کی آنکھ ٹھیک کروانی چاہیے پھر ان روحانی اور باطنی مناظر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے- ﴾
﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
امام ابوبکر عبد العزیز بن الشیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’مجھے شیخ القدوہ حضرت ابو الحسن علی بن الھیئتی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب آپ کے والد ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی ﴿سٹیج﴾ پر تشریف فرما ہوتے اور ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ﴾ فرماتے تو زمین کا ہر ولی آپ ﴿کو سننے﴾ کے لیے خاموش ہو جاتا چاہے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا یا غائب اور اسی لیے آپ اسے دُہراتے اور اس کے بعد ﴿تھوڑی دیر کے لیے﴾ خاموش ہو جاتے- فرشتوں اور اولیائ کرام کی آپ کی مجلس میں کثرت ہوتی تھی- اس مجلس میں غائبانہ شخصیات حاضرین سے زیادہ ہوتی تھیں- اس مجلس کے تمام حاضرین پر ﴿اللہ تعالیٰ کی﴾ رحمت بارش کی طرح برستی تھی-‘‘
شیخ ابو زکریا حضرت یحییٰ بن نصربن عمر البغدادی المنشائ نے جو کہ ’’صحراوی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، خبر دیتے ہوئے بتایا کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ؛
’’ایک مرتبہ میں نے قرض خواہوں کی وجہ سے جنّوں کو طلب کیا تو میں نے اپنی روٹین سے زیادہ ہی ان کے جواب کو متاخر پایا ﴿یعنی وہ فوری حاضر نہ ہوئے﴾ - اس کے بعد جب وہ میرے پاس آئے تو کہنے لگے کہ جب شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ لوگوں سے خطاب فرما رہے ہوں تو اس وقت بلاوا نہ بھیجا کرو- میں نے پوچھا وہ کس لیے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں- میں نے ﴿حیران ہو کر ﴾ پوچھا کہ تم بھی ﴿شیخ غوث الاعظم کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو﴾؟ انہوں نے کہا کہ ان کی مجلس میں ہماری تعداد انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے - ہمارے کئی گروہوں نے ﴿ان کے دست مبارک پر﴾ اسلام قبول کر لیا ہے- ہم نے بھی ان کے دست مبارک پر ﴿کفر و شرک سے﴾ توبہ کر لی ہے-‘‘
شیخ ابو حفص حضرت عمر بن حسین العطسی نے کہاکہ ایک مرتبہ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا؛
’’اے عمر! میری مجلس سے الگ نہ ہونا بے شک اس میں خلعتیں ایک ایک کرکے ﴿آسمان سے﴾ آتی ہیں پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو ان ﴿خلعتوں﴾ سے محروم رہ گیا-‘‘
شیخ ابو حفص نے بتایاکہ اس بات کو کئی دن گزر گئے کہ ایک دن میں مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا- میں نے ﴿خواب میں﴾ دیکھا کہ آسمان سے سرخ و سبز خلعتیں اتر رہی ہیں اور اہل مجلس پر نچھاور ہو رہی ہیں- میں نے بیقرار ہو کر اپنی آنکھیں کھولیں اور ابھی اٹھا ہی تھا تاکہ اہلِ مجلس کو ﴿ان خلعتوں کے بارے﴾ بتا دوں کہ شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مجھے آواز دے کر فرمایا؛
’’اے میرے بچے! خاموش، ﴿لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ﴾ خبر ،مشاہدہ کی مانند نہیں ہوتی-‘‘ ﴿۱﴾
انہی حضرت ابو حفص کی ہی روایت ہے ، انہوں نے کہا ؛
’’ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں ، مَیں بالکل آپ کے سامنے بیٹھا تھا کہ نور کے ایک چراغ کی صورت میں کوئی چیز آسمان سے اترتی ہے اور شیخ کے منہ مبارک کے قریب ہو جاتی ہے پھر وہ بڑی تیزی سے آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے- ایسا تین مرتبہ ہوا- میں نے از راہِ تعجب ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر لوگوں کو اس کے بارے بتا دوں- آپ نے فورا مجھے فرمایا کہ بیٹھے رہو مجالس کی بھی کچھ امانتیں ہوتی ہیں- پس میں بیٹھ گیا اور اس کا تذکرہ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد ہی کیا-‘‘
شیخ ابو عبد اللہ محمد بن خضر الحسینی الموصلی نے کہا کہ میں نے اپنے والد محترم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ؛
’’شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مجلس کی ابتدائ میں مختلف علوم ﴿ظاہری﴾ کے بارے گفتگو فرماتے تھے- جب آپ اپنی کرسی پر تشریف فرما ہوتے تو نہ کوئی تھوکتا، نہ کوئی ناک جھاڑتا، نہ کھانسی کرتا، نہ کلام کرتا اور آدھی مجلس گزرنے تک آپ کی ہیبت سے نہ ہی کوئی کھڑا ہوتا تھا- پھر شیخ ﴿ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ فرماتے کہ قال کی گفتگو تمام ہوئی اب ہم حال ﴿کے تذکرے﴾ کی طرف آتے ہیں پس ﴿یہ سنتے ہی﴾ لوگوں پر شدید بیخودی ﴿کی کیفیت﴾ غالب ہو جاتی اور ان پر حال اور وجد طاری ہو جاتا تھا-‘‘
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی کرامت تھی کہ لوگوں کی کثرت کے باوجود مجلس میں دور بیٹھا ہوا بھی اسی طرح آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی آواز کو سنتا تھا جس طرح نزدیک بیٹھا ہوا سن رہا ہے- آپ اہلِ مجلس کے دلوں سے مخاطب ہوتے تھے اور کشف کے ذریعے ان کے قریب ہوتے تھے- جب آپ کرسی پر کھڑے ہوتے تو لوگ آپ کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے اور جب آپ فرماتے کہ خاموش ہوجائو تو آپ کی ہیبت اتنی تھی کہ سوائے سانسوں کے کوئی آواز نہیں آتی تھی-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں لوگ ہاتھ چھوڑتے تو وہ اپنے درمیان موجود ﴿غیبی﴾ مردوں پر جا لگتے جنہیں وہ چھو کر محسوس کرتے حالانکہ وہ دکھائی نہ دیتے تھے- لوگ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی گفتگو کے دوران فضائ میں سے رونے کی آوازیں سنتے تھے-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی پر تشریف فرما ہو کر فرماتے کہ اے لوگو! میرا یہاں ﴿کرسی پر﴾ بیٹھنے کے دوران تمہارا ﴿مجلس میں﴾ بیٹھنا تمہیں مجھ سے ﴿کسی صورت﴾ غافل نہ کرے ﴿کیونکہ﴾ یہاں ولایت ہے، یہاں درجات ہیں- اے توبہ چاہنے والو! بسم اللہ آگے بڑھو، اے عافیت طلب کرنے والو! بسم اللہ پیش قدمی کرو، اے اخلاص لینے والو! بسم اللہ آگے آئو- میرے پاس ہر ہفتہ میں ایک بار آئو، ہر مہینہ میں ایک مرتبہ آئو یا ہر سال میں ایک دفعہ یا اپنی عمر بھر میں ایک ہی بار آجائو اور ہزاروں ہزار انعامات لے جائو- اے لوگو! مجھ سے ایک بات سننے کے لیے ہزار سال کا سفر ﴿کرنا پڑے تو﴾ کرو اور جب یہاں ﴿میری مجلس میں﴾ داخل ہو جائو تو پھر اپنے عمل، زہد، پرہیزگاری اور احوال کی ظاہری خلعت کو اپنے اوپر سے اتار پھینکو اور وہ چیز حاصل کرو جو میرے پاس تمہارے لیے ﴿خاص﴾ ہے- میرے پاس ملک کے رازدار اور خواص حاضر ہوتے ہیں- اولیائ اور غیبی افراد مجھ سے ﴿اللہ تعالیٰ کی﴾ پاک بارگاہ کی حاضری کے لیے تواضع سیکھتے ہیں- اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اَولیائ میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو میری مجلس میں حاضر نہیں ہوتا- زندہ اپنے جسموں کے ساتھ آتے ہیں اور فوت شدگان اپنی ارواح کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں-
بہت سے مشائخ حضرت شیخ ابو سعید القیلوی سے ﴿یہ﴾ روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں؛
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیائ کرام کو شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں کئی بار دیکھا ہے- بے شک آقا ﴿علیہ الصلوۃ و السلام﴾ اپنے غلام کو شرفِ عزت بخشتے ہیں- بے شک انبیائ کرام کی ارواح زمین و آسمان میں ایسے آتی جاتی رہتی ہیں جیسے آفاق میں ہوا چلتی ہے- میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ حاضر ہو تے ہیں- میں نے غیبی افراد اور جنوں کو دیکھا کہ وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں- ابو العباس حضرت خضر علیہ السلام کو تو میں نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس اکثر دیکھا ہے- میں نے ان سے ﴿اس مجلس کے بارے ﴾ عرض کی تو انہوں نے فرمایا کہ جو شخص ﴿حقیقی طور پر﴾ فلاح چاہتا ہے اس پر اس مجلس کی حاضری ضروری ہے-‘‘
شیخ الجلیل الشریف حضرت ابو العباس احمد بن الشیخ عبد اللہ الازھر الحسینی نے خبر دیتے ہوئے بتایا ؛
﴿حَضَرْتُ مَجْلِسَ شَیْخِنَا الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجَیْلِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ کَانَ فِی الْمَجْلِسِ نَحْوٌ مِّنْ عَشْرَۃِ الْاٰفِ رَجُلٍ
’’میں شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلس میں تقریبا دس ہزار کے قریب افراد تھے-‘‘
وَّ کَانَ الشَّیْخُ عَلِیُّ بْنُ الْھَیْئَتِیُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ، جَالِسًا تَجَاہَ الشَّیْخِ تَحْتَ دَکَّۃِ الْمُقْرِیِ فَاَخَذَتْہُ سِنَۃٌ
’’ شیخ علی بن الھیئتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سامنے چبوترے کے نیچے تشریف فرما تھے کہ انہیں اونگھ آگئی-‘‘
فَقَالَ الشَّیْخُ لِلنَّاسِ اسْکُتُوْا فَسَکَتُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الْقَائِلُ اِنّھُمْ لَا یُسْمَعُ اِلَّا اَنْفَاسُھُمْ
’’شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے لوگوں سے کہا کہ خاموش ہو جائو - وہ سب ایسے خاموش ہوئے کہ کہنے والا کہتا ہے کہ سانسوں کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی-‘‘
ثُمَّ نَزَلَ مِنَ الْکُرْسِیِّ وَ وَقَفَ بَیْنَ یَدَیَّ الشَّیْخِ عَلِیٍّ مُتَاَدِّبًا وَّ جَعَلَ یُحَدِّقُ عَلَیْہِ
’’پھر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کرسی سے نیچے تشریف لائے اور شیخ علی بن الھیئتی کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر انہیں بڑی توجہ سے دیکھنے لگے-‘‘
ثُمَّ اسْتَیْقَظَ الشَّیْخُ عَلِیٌّ فَقَالَ لَہ، اَرَاَیْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ قَالَ نَعَمْ
’’یہاں تک کہ شیخ علی بن الھیئتی بیدار ہو گئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں-‘‘
قَالَ مِنْ اَجْلِہٰ تَاَدَّبْتُ فِیْمَا وَصَّاکَ؟
’’ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ اسی لیے میں با ادب ﴿کھڑا﴾ ہو گیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کس چیز کی وصیت فرمائی؟‘‘
قَالَ بِمُلَازَمَتِکَ
’’انہوں نے کہاکہ ﴿نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ساتھ پیوستہ رہنے کی ﴿وصیت فرمائی﴾-‘‘
قَالَ الشَّیْخُ عَلِیٌّ لِلنَّاسِ الَّذِیْ رَاَیْتُہُ فِی النَّوْمِ رَاٰہُ الشَّیْخُ فِی الْیَقْظَۃِ﴾
’’ پھر شیخ علی بن الھیئتی نے لوگوں کو بتایا کہ ﴿اے لوگو!﴾ جس ذات ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو میں نے خواب میں دیکھا ہے اسی ذات ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے جاگتے ہوئے دیکھا ہے-‘‘
یہ روایت بھی ہے کہ ﴿شوقِ الٰہی میں﴾ اس روز سات افراد اس دنیا سے رخصت ہو گئے-
ایک دن آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر?