سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانیؒ سے فیض یافتہ چند ایک نامورمحدثین

سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانیؒ سے فیض یافتہ  چند ایک نامورمحدثین

سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانیؒ سے فیض یافتہ چند ایک نامورمحدثین

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری نومبر 2023

غوث الثقلین، محبوب سبحانی، غوث الاعظم،الشیخ محی الدین عبدالقادر الجیلانی ،الحسنی والحسینی علم شریعت اور علم معرفت وحقیقت کے بحر بے کنارتھے -شریعت کی اٹھتی موجوں اور معرفت و حقیقت کی لہروں کو دیکھ کر طالبان علم اور طالبان مولا نے اسی سمندر کی طرف رُخ کیا اور اس میں غوطہ زن ہوکر اپنی اپنی مرا د کے گوہر نایاب حاصل کیے- علم شریعت و طریقت کے اس چمکتے سورج نےاپنی ضیاپاشیوں سے نہ صرف متلاشیانِ علم کو روشن کیا بلکہ طالبان مولیٰ کے سینوں کو بھی معرفت و حقیقت کے انوار سے منور کردیا- یوں دونوں طبقات ایک ہی وقت میں ایک ہی مہتاب سے مستفید ہوتے رہے -

وقت کے بڑے بڑے علماء ومشائخ اور محدثین اکتساب علم و فیض کرنے کیلئےدورونزدیک سے اتنی کثرت سے آپ کی بارگاہ میں پہنچے کہ آپ کے مدرسہ کی جگہ کم پڑگئی اور شرکاءمجلس کی تعدادہزاروں تک پہنچ گئی جن میں سینکڑوں کی تعداد میں علماء و محدثین آپ کے ملفوظات عالیہ کو لکھتے تھے -

قارئین !عموعی طور پر یہ دیکھاگیاہے کہ لوگ صوفیاء بشمول حضورغوث پاکؒ اُن کو صرف زہد وتقوی ، جو دوسخا اور کرامات کے حوالے سے پہنچا نتے ہیں اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں منبر و محراب سے جتناکچھ سننے کو ملتاہے وہ اتنا ہی علم اور سوجھ بوجھ رکھتے ہیں حالانکہ اگر حقیقت میں دیکھاجائے تو زہد و تقوی اور کرامات یہ صوفیاکی سیرت کا ایک پہلو ہے کل زندگی نہیں ہے- ایک کامل واکمل صوفی ہمہ جہت شخصیت ہوتاہے- جہاں وہ ایک طرف نگاہ سے لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرکے دلوں کو طہارت عطا کرتاہے تو دوسری طرف علوم و فنون کے عُقد ے بھی حل کرتاہے -

عموماً بڑے لوگوں کو ان کی اپنی سیرت اور خواص سے مطالعہ کیا جاتا ہے ، جبکہ بعض دفعہ ان کے شیوخ اور اساتذہ کے حوالے سے بھی ان کا مطالعہ ان کو مزید جاننے میں رہنمائی کرتا ہے - لیکن ان دونوں طریقوں کے بر عکس زیر نظر مضمون میں ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں ان کے شاگردوں کے مطالعہ سے جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ سر چشمہ کیسا تھا جس سے اس قدر شیریں دریا رواں ہوئے -

الحافظ امام عبدالرزاق بن عبدالقادر:

آپ کا نام عبدالرزاق کنیت ابوبکر ہے -آپ حضور شیخ عبدالقادرالجیلانیؒ کے صاحبزاد ےہیں اُن کی ولادت 528ھ میں ہوئی -[1]

تحصیل علم :

آپ نے سب سے زیادہ افادہ اور اکتساب علم اپنے والد محترم شیخ عبدالقادرالجیلانی ؒسے کیا -امام  ذہبی فرماتےہیں :

’’ سمع الکثیر بافادۃ ابیہ‘‘

’’انہوں نے سب سے زیادہ سماع اور افادہ اپنے والد سے کیا-

اس کے علاہ آپ نے محمد بن صرحا، ابو الفضل الدرموی، حافظ ابی الفضل بن ناصر ،ابوبکر بن الزغوانی اور ابوالکرم بن الشہرزوری سے بھی اکتساب علم کیا -

آپ سے ابو عبداللہ بن دبیثی، مجدالدین بن النجار اور ضیاء المقدسی نے حدیث کا سماع کیا -[2]

علمی مقام و مرتبہ:

امام ذہبی ان کو الامام المحدث، الحافظ الزاہد اور محدث بغداد جیسے القابات سے یاد کرتےہیں علامہ ابن نقطہ الحنبلی اُن کی ثقاہت بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’و کان ثقۃحافظا‘‘[3]             ’’وہ ثقہ اور حافظ تھے ‘‘-

علامہ مبارک بن احمد الاربلی فرماتے ہیں :

’’وہ حافظ،ثقہ اور حدیث کی گہری معرفت رکھنے والے مذہب حنبلی کے فقیہہ تھے- کثرت کے ساتھ عبادت کرنے والے اور کثرت عبادت کی وجہ سے لوگوں سے کم میل جول رکھنے والے تھے‘‘-[4]

وفات :

اُن کا وصال ماہِ شوال 603ھ کو بغداد میں ہُوا اور باب حرب میں آپ کو دفن کیا گیا -[5]

شیخ الاسلام موفق الدین عبد اللہ بن احمد المعروف امام ابن قدامہ المقدسی:

آپ کا نام عبداللہ، کنیت ابو محمد، لقب موفق الدین ہے-آپ سن 541ھ میں شہر نابلس کے مضافات میں علاقہ جماعیل میں پیدا ہوئے اسی نسبت کی وجہ سے اُن کو جماعیلی بھی کہا جاتاہے -[6]

اکتساب علم :

امام صاحب نے تحصیل علم کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا آپ نے کم سنی میں قرآن پاک حفظ کیا اور اِس کے بعد مختلف علماء و محدثین سے اکتساب علم کیا -

انہوں نے جب بغداد میں حضور غوث پاک کی علمی شان کا چرچا سنا توآپ فرماتےہیں کہ میں اور حافظ عبدالغنی نے 561ھ میں علم کی طلب کیلئے بغداد کا سفر کیا اور آپ کے مدرسہ میں پہنچ کر دن رات آپ کی بارگاہ سے مستفیض ہونے کی کوشش کی لیکن زیادہ عرصہ آپ سے مستفیض ہونے کا موقع نہ مل سکا اور کچھ عرصہ بعد آپ کا وصال مبارک ہوگیا -

حضور غوث پاک کے علاوہ آپ نے ہبۃ اللہ بن الحسن الدقاق، ابو الفتح بن البطی ابو زرعہ بن طاہر سے اور دمشق میں ابوالمکارم بن ہلال اور موصل میں ابو الفضل الطوسی اور مکہ میں المبارک بن طباخ سے بھی اکتساب علم کیا -

امام صاحب سے البھاء عبدالرحمن الجمال، ابو موسٰی، ابن نقطہ، ابن خلیل، ابو شامہ، ابن النجار اور اس کے علاوہ بہت سارے علماء ومشائخ نے اکتساب کیا -[7]

علمی مرتبہ:

امام ابن قدامہ ایک مایہ ناز محدث تھے،اُن کے علمی کمال کی وجہ سے امام ذہبی اُن کو شیخ الاسلام،الامام القدوہ اور العلامۃ المجتہد جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں -امام ذہبی مزید فرماتے ہیں :

’’وہ علم کے سمندر اور زمانے کے صوفیا میں سے تھے‘‘-[8]

علام ابن نجار اُن کی علمی وجاہت اور اُن کے زہد وتقویٰ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں :

’’وہ ثقہ، حجت اور بہت بڑے عالم اور عظیم فضیلت والے تھے سلف صالحین کے طریقے پر چلتے ہوئے بہت بڑے عبادت گزار اور صاحب تقویٰ تھے اُن کے چہرے پر نور اور وقار تھا لوگ اُن کا کلام سننے سے پہلے اُن کے چہرے کی زیارت سے ہی مستفید ہو جاتے تھے‘‘-[9]

علامہ عمر بن حاجب اُن کے علمی کمال کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وہ آئمہ کے امام، امت کے مفتی،اللہ تعالیٰ نے اُن کو بہت بڑی فضیلت اور کامل علم کے ساتھ خاص کیا تھا وہ کثرت کے ساتھ عبادت کرنے والے دائمی تہجد گزار تھے ہم نے اُن جیسانہیں دیکھا ‘‘-[10]

آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت دس جلدوں پہ مشتمل ’’کتاب المغنی‘‘ کو ملی جو فقہ حنبلی کی مستند ترین کتب میں شمار ہوتی ہے- اس کے علاوہ عقائد، اصول، حدیث، تصوف اور تاریخ پہ آپ کی کثیر کتب ہیں -

وفات :

اُن کی وفات سنہ 620ھ میں ہُوئی -[11]

الحافظ الکبیر امام تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی :

آپ کا نام عبدالغنی ،کنیت ابومحمد ،لقب تقی الدین ہے -

یہ 541ھ کو جماعیل میں پیدا ہوئے امام صاحب شیخ ابن قدامہ مقدسی جن کا تذکرہ ماقبل ہوچکاہے یہ اُن کی خالہ کے بیٹے ہیں اور یہ اُن سے عمر میں چار ماہ بڑے تھے-

تحصیلِ علم:

امام صاحب نے تحصیل علم کی خاطر دمشق، اسکندریہ، بیت المقدس، مصر، بغداد، خراسان، موصل، اصبہان، ہمدان کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے نامور وعلماء و مشائخ سے خوب استفادہ کیا -

خاص طور پر آپ نے بغداد کا دو مرتبہ سفر اختیار کیا، جب آپ نے شیخ موفق الدین کے ساتھ مل کر بغداد کا سفر اختیار کیا تو سب سے پہلے حضور غوث پاک کی بارگاہ میں پہنچے اور کئی دن آپ کی بارگاہ میں رہ کر اُن سے شرف تلمذ حاصل کیا اس بناپر آپ کا شمار حضور شیخ عبدالقادر جیلانی کے نامور محدثین تلامذہ میں ہوتاہے -[12]

علم حدیث میں مقام و مرتبہ :

دنیائے علم و فضل میں اُن کو الامام العالم، الحافظ الکبیر، الصادق القُدوَہ، عالم الحفاظ جیسے القابات سے یاد کیا جاتاہے -

علامہ ضیاء الدین حدیث میں اُن کے علمی مقام کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’ہمارے شیخ حافظ عبدالغنی سے جب بھی کسی حدیث کے بارے سوال کیا جاتا تو وہ نہ صرف اُس حدیث کو بیان کردیتے بلکہ اُس کے صحیح ہونے اور ضعیف ہونے کو بھی بیان کردیتے اور وہ حدیث میں امیر المؤمنین تھے‘‘-[13]

علام تاج الکندی فرماتے ہیں کہ:

’’ اما م دارقطنی کے بعد حافظ عبدالغنی جیسا محدث نہیں آیا‘‘-[14]

ابواسحاق ابراہیم بن محمد الحافظ فرماتے ہیں کہ:

’’ میں نے شام میں ساری کی ساری حدیث حافظ عبد الغنی کی برکت کی وجہ سے دیکھی ہے‘‘-[15]

تصانیف:

آپ بہت سی کتب کے مصنف ہیں اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:

v    المصباح فی عیون الاحادیث الصحاح

v    کتاب نہایۃ المرادفی السنن

v    کتاب فضائل خیر البریہ

v    الکمال فی معرفۃ رجال الکتب الستہ

v    کتاب الیواقیت

v    کتاب الروضہ [16]

وفات :

اُن کی وفات ماہ ربیع الاول سن 600 ھ میں ہُوئی -[17]

الامام الحافظ ابو سعد السمعانی :

آپ کا نام عبدالکریم ،کنیت ابو سعد ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے :عبدالکریم بن محمدبن منصوربن محمدبن عبد الجبار-اُن کی ولادت ماہ شعبان 506ھ میں مرو میں ہُوئی تو اسی نسبت کی وجہ سے اُن کو مروزی کہاجاتا ہے- اُن کی تربیت و نشوونما ایک علمی گھرانے میں ہوئی-اُن کے والداور دادا ایک نامور علمی شخصیت تھے -[18]

علمی اسفار:

امام ابو سعدالسمعانی نےتحصیل علم کی خاطر کئی ممالک اور شہروں کا سفر اختیار کیا، آپ نے اکتساب علم کیلئے نیشاپور، اصبہان، بصرہ، بسطام، بلخ جرجان، حلب، حمص، سمرقند اور ہمدان کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے نامور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا ،آپ نے بغداد کا بھی سفر اختیار کیا- وہاں کے علماء و محدثین کے علاوہ اُن کو خاص طور پر حضور غوث الاعظمؒ کی بارگاہ سے بھی مستفیض ہونے کا موقع ملا- یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اُن کو حضور شیخ عبد القادر الجیلانی ؒ کے تلامذہ میں ذکر کیا ہے جنہوں نے آپ سے حدیث کا سماع کیا ہے، امام سمعانی خود فرماتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ اُن کی مجلس میں حاضر ہُوا تو اُن کا ایسا اسرار ورموز سے بھرا درس تھا کہ مجھے سمجھ بھی نہ آئی اور میں حیران تھا کہ اُن کے باقی اصحاب بعینہ اُس درس کو دوہرار ہے تھے -[19]

علمی مقام و مرتبہ :

امام ابو سعد السمعانی ایک شہرہ آفاق محدث تھے وہ علم کے ہر میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اصحاب تاریخ اُن کو الامام الحافظ الکبیر، الاوحد الثقۃ، محدث خراسان، صاحب المصنفات الکثیرۃ جیسے القابات سے یا د کرتے ہیں علامہ ابن نجار اُن کی علمی شان کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وہ نرم مزاج،نامور حافظ ،کثیر رِحلت کرنے والے، ثقہ اور صدوق تھے اوران سے ان کے مشائخ اور ہم عصروں نے سماع کیا ہے ‘‘-[20]

وفات :

اُن کی وفات ماہ ربیع الاول 562ھ میں مرو میں ہُوئی -[21]

امام عبداللہ بن ابی الحسن الجبائی:

آپ کا نام عبداللہ ،کنیت ابو محمد ہےاور نسب نامہ کچھ اس طرح سے عبداللہ بن ابی الحسن بن ابی الفرج ہے -اُن کی ولادت سن 520ھ کے لگ بھگ جُبہ میں ہوئی ،یہ طرابلس کے مضافات میں ایک بستی کا نام ہے، اسی نسبت کی وجہ سے اُن کو جبائی بھی کہا جاتاہے-اُن کے والد نصرانی تھے لیکن آپ نے بچپن میں اسلام قبول کر لیا تھا -[22]

تحصیل علم :

آپ نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کیا اور باقی علوم کی تکمیل کیلئے انہوں نے 540ھ میں بغداد کا سفر کیا اور حضور غوث پاک ؓ کی صحبت اختیار کی اور اُن سے خوب استفادہ کیا - امام ذہبی اور علامہ زین الدین الحنبلی فرماتے ہیں:

’’آپ مدت تک حضور غوث پاک کی صحبت میں رہے اور آپ کی صحبت میں رہ کر زہد اور اصلاح وخیر کی طرف مائل رہے اور اُن سے خوب استفادہ کیا‘‘-[23]

جب حضرت عبد القادرؒ کاوصال مبارک ہوگیا تو امام صاحب اصفہان چلے گئے اور اُسی کو اپناوطن بنالیا-

علمی مقام و مرتبہ

امام عبداللہ الجبائی ایک نامور فقیہ ،محدث اور زاہد تھے-امام ذہبی اُن کو الامام القدوہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں- علامہ ابن نقطہ الحنبلی فرماتے ہیں:

’’وکان ثقۃ صالحا ‘‘    ’’وہ ثقہ اور صالح تھے ‘‘-[24]

امام ذہبی فرماتے ہیں کہ وہ بڑی قبولیت ومرتبے والے اور صاحب صدق تھے -

وفات :اُن کی وفات سن 605ھ میں ہوئی -[25]

شیخ الاسلام امام ابن الجوزی :

آپ کا نام عبدالرحمٰن، کنیت ابو الفرج، لقب جمال الدین ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے -عبدالرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبیداللہ بن عبداللہ بن حمادی بن احمد بن محمدبن جعفر الجوزی -[26]

یہ اپنے جد اعلیٰ کی نسبت سے ابن الجوزی مشہور ہیں-آپ کی ولادت سن 509یا10  کو بغدادمیں ہوئی ہے -[27]

تحصیل علم :

امام صاحب کو اپنے وقت کے نامور علماء و مشائخ سے اکتساب علم کرنے کا موقع ملاہے - جن میں ابو القاسم بن حصین، علی بن عبدالواحد، ابو السعادات احمد بن احمد المتوکلی اسماعیل بن ابی صالح المؤذن قابل ذکر ہیں-

آپ کوخاص طور پر بغداد میں حضور غوث الاعظمؒ سے بھی اکتساب فیض کرنے کا موقع ملاہے -

جس طرح مشہور بات ہے کہ امام ابن جوزی کے بیٹے علامہ محی الدین ابو محمد یوسف فرماتے ہیں کہ:

’’مجھے حافظ ابو العباس احمد البغدادی نے بتایا کہ ایک دن مَیں اور تیرے والد ( ابن جوزی ) حضور غوث پاک کی مجلس میں گئے تو قاری نے ایک آیت مبارکہ پڑھی اور آپ نے اُس کی ایک تفسیر بیان کی میں نے تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا یہ معنیٰ اور تفسیر تم جانتے ہو انہوں نےکہا میں جانتا ہوں المختصر حضور غوث پاک نے اُس آیت مبارکہ کی بارہ تفسیریں کیں اور میں تمہارے والد سے پوچھتا رہا اور وہ بتاتے رہے کہ میں اِس تفسیرکو جانتا ہوں جب آپ نے اُس آیت مبارکہ کی تیرویں تفسیر بیان کی تو امام ابن جوزی نے کہا یہ تفسیرمیں نہیں جانتا یہاں تک کہ آپ نے آیت مبارکہ کی چالیس تفسیر یں بیان کی جو نہایت عمدہ اورعزیز تھیں اور تیرے والد کہتے رہے کہ میں نہیں جانتا اور شیخ غوث الاعظم کی وسعت علمی سے اُن کا تعجب بڑھتا گیا -پھر آپ نے فرمایا کہ ہم قال کو چھوڑتے ہیں اور حال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس سے تمام اہل مجلس پر حال اور شدتِ جذبات  کی کیفیت طاری ہو گئی‘‘-[28]

امام صاحب سے نامور محدثین نے حدیث کا سماع کیا ہے جن میں اُنکے بیٹے محی الدین ابو محمد یوسف، حافظ عبد الغنی، علامہ ابن الدبیثی، امام ابن النجار اور ابن خلیل وغیرہ بڑے مشہور ہیں-

علمی شان و شوکت :

امام ابن جوزی علوم دینیہ کے بحربےکنار تھے وہ ایک نامور مفسر، محدث، فقیہ، مورخ اصولی، ادیب اور واعظ تھے- تمام علوم عربیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اصحاب سیر اُن کے علمی تبحرکی وجہ سے انہیں الشیخ الامام العلامۃ، الحافظ المفسر، شیخ الاسلام، الفقیہ الواعظ جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں -

علامہ ابن خلکان اُن کی علمی شان و شوکت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وہ اپنے زمانہ کے علامہ حدیث اوروعظ میں اپنے وقت کے امام تھے‘‘-[29]

علامہ ابن نقطۃ فرماتے ہیں:

’’وہ اپنے وقت میں وعظ میں منفرد شخصیت تھے   وہ حافظ اور ثقہ تھے ‘‘-[30]

علامہ عبداللہ بن الدبیثی اُن کی علمی وجاہت کو بیان کرتےہُوئے فرماتے ہیں :

’’ہمارے شیخ جمال الدین مختلف علوم یعنی تفسیر، فقہ، حدیث ،تاریخ اور اس کے علاوہ علوم میں بھی صاحب تصنیف تھے - حدیث اور اُس کے علوم کی معرفت اور حدیث کےصحیح اور ضعیف پر واقفیت میں اُن پر انتہاء ہوگئی ہے‘‘-[31]

وفات :

اُن کاوصال ماہ رمضان سن 597 ھ کو بغداد میں ہُوا اور اُن کو باب حرب میں دفن کیا گیا -[32]

العلامۃ المحدث امام عبد اللہ بن احمد  البغدادی المعروف ابن الخشاب :

آپ کا نام عبداللہ کنیت ابو محمد ہے -آپ سن 492 میں پیداہُوئے -

تحصیل علم :

امام صاحب نے اپنے وقت کے نامور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا آپ کے چند مشہور اساتذہ درج ذیل ہیں :

ابو القاسم علی بن حسین ،یحیی بن عبدالوہاب، ابو عبداللہ البارع ، ہبۃ اللہ بن الحصین -[33]

اور خصوصی طور پر حضور شیخ عبدالقادر الجیلانی سے بھی آپ کو مستفیض ہونے کا موقع ملا ہے اس لئے ان کا شمار آپ کے تلامذہ میں ہوتاہے-

حافظ عبد الغنی فرماتے ہیں کہ میں نے ابن خشاب سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ:

’’ میں نوجوان تھا اور علم نحو پڑھتاتھا میں نےلوگوں سے شیخ عبد القادر کے درس و تدریس اور وعظ کی تعریف و توصیف سنی تو میرا اِرادہ بنا کہ میں بھی آپ کی مجلس میں جا کر مستفید ہوں تو ایک دن میں لوگوں کے ساتھ اُن کی مجلس میں حاضر ہُوا تو میں اچھی طرح سے اُن کا کلام سمجھ نہ سکا تو میں نے دل میں کہا کہ میری نحو ضائع ہوگئی - تو جب میرے دل میں یہ بات آئی تو حضورغوث الاعظم اُس جانب متوجہ ہُوئے جس طرف میں بیٹھا تھا ،تو آپ نے فرمایا تجھے کیا ہے  کہ مجلس ذکر میں بھی تجھے نحو کی پڑی ہے اور نحو میں مشعول ہونے کو مجلس ذکر پر فوقیت دے رہاہے کیا تو ہماری صحبت اختیار نہیں کرتا ہم تجھے سیبویہ بنا دیں گے (سیبویہ ایک مشہور امام النحو کانام ہے )‘‘-[34]

امام صاحب سے مشہور محدثین نے سماع کیا ہے جن میں امام ابو سعد السمعانی ،ابوالیمن الکندی ،حافظ عبدالغنی ،شیخ موفق الدین اور ابو البقاء العکبری قابل ذکرہیں -

علمی کمال :

سیرت نگاروں نے انہیں الشیخ الامام ، العلامۃ المحدث جیسے القابات سے یاد کیا ہے-

اما م سمعانی علوم میں اُن کی کاملیت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وہ علم میں کامل اور فاضل تھے انہیں ادب، لغت، نحواور حدیث کی معرفت تامہ حاصل تھی وہ حدیث کی بڑی جلدی اور خوبصورت قراءۃ کرتے تھے ‘‘-[35]

وہ حدیث کی طرح علم النحو کے بڑے ماہر تھے اس لیے علماء انہیں امام النحو بھی کہتے تھے – ابن قدامہ فرماتےہیں :

’’امام ابن خشاب علوم عربیہ میں اپنے زمانے والوں کے امام تھے‘‘- [36]

علامہ ابن نجار فرماتےہیں کہ وہ ثقہ تھے -

وفات:

اُن کی وفات ماہ رمضان سن 567 ھ میں ہُوئی-[37]

اختتامیہ:

صوفیائے کرام کے زہد و تقویٰ ، اخلاق و آداب ، کرامات و خوارق اور طعام و کلام کے ساتھ ساتھ اُن کی علمی و فَنی جہتیں بھی ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ انہیں مد نظر رکھا جائے- جیسا کہ سلسلہ عالیہ قادریہ کے بانی پیروں کے پیر سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے روحانی پہلو کی طرح ان کی علمی جہت اس قدر عظیم اور ان کا علمی قد اس قدر بلند ہے کہ اسے عامیانہ و سطحی سوچ کا شخص تو احاطہء نگاہ میں بھی نہ لا سکے - حدیث کی طرح فقہ، عقائد، تفسیر اور علومِ دینیہ کی دیگر جہات میں بھی حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے علمی کارنامے اور تدریسی خدمات محققین سے محنت و توجہ کا مطالبہ کرتی ہیں -

٭٭٭



[1](التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید، جز:1، ص: 351)

[2](تذکرۃ الحفاظ ،جز:4،ص:120)

[3]( التقیید، جز:1، ص:351)

[4](تاریخ اربل ،جز:2،ص:491)

[5](ایضاً)

[6]( سیراعلام النبلاء ،جز:16،ص:149)

[7]( ایضاً)

[8]( ایضاً)

[9]( ایضاً،ص:150)

[10](ایضاً)

[11]( ایضاً،ص:153)

[12]( ایضاً،ص:21-22)

[13]( ایضاً،ص:24)

[14]( ایضاً)

[15]( ایضاً،ص:25)

[16](ایضاً،ص:23)

[17]( ایضاً،ص:34)

[18]( تاریخ بغداد ذیولہ، جز : 21، ص: 128- 129)

[19](سیراعلام النبلاء، جز:15، ص:180)

[20]( ایضاً،ص:193)

[21](تاریخ بغداد دو ذیولہ، جز:21، ص:129)

[22]( سیراعلام النبلاء ،جز:16،ص45)

[23](ذیل طبقات الحنابلہ ،جز:3،ص:91)

[24](اکمال الاکمال لابن نقطہ ،جز:2،ص:202)

[25](سیراعلام النبلاء ،جز:16،ص:45)

[26]( وفیات الاعیان ،جز:3،ص:140)

[27]( المنتظم ،جز:1،ص:14)

[28]( بہجۃ الاسرار مترجم ،ص:226)

[29](وفیات الاعیان ،جز:3،ص:140)

[30]( اکمال الاکمال لابن نقطہ ، جز : 2، ص : 384)

[31]( سیراعلام النبلاء،جز:15،ص:460)

[32](الوافی بالوفیات، جز:18،ص:110)

(وفیات الاعیان ، جز:3،ص:142)

[33](معجم الادباء ،جز4،ص:1494)

(سیراعلام النبلاء ،جز 15،ص:230)

[34]( تاریخ بغداد و ذیولہ ،جز:21،ص:127)

[35](انباہ الرواۃ علی انباہ النحاۃ، جز:2،ص:102)

[36](سیراعلام النبلاء ،جز:15،ص:230)

[37](انباہ الرواۃ علی انباہ النحاۃ، جز:2، ص:101)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر