محبوب سُبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکی تعلیمات نے عالم اسلام کے مرکز بغداد میں ٹوٹے پھوٹے معاشرے کو حیاتِ نَو کی نوید سنا کرامت مسلمہ کے لاغر و لاچار وجود میں تازہ روح پھونک دی-اس وقت سے آج تک آپ کی تعلیمات حق کی تلاش اور سچ کی جستجو کرنے والوں کی دستگیری کر رہی ہیں -
اولیاء اللہ کے سردار:
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح) اپنی تصنیف لطیف ’’شمس العارفین ‘‘ میں محی الدین عبد القادر الجیلانی ؒ کی کا تعارف یوں کرواتے ہیں:
’’مرشد کو ایسا صاحب نظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدین ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزاراں ہزار طالبوں مریدوں میں سے بعض کو معرفت الا اللہ میں غرق کر دیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضوری بخش دیتے ہیں‘‘-[1]
حافظ ابو العز عبدالمغیث بن حرب البغدادی فرماتے ہیں کہ:
’’میرے ساتھ بہت سےمشائخ عظام اس محفل میں تشریف فرما تھے جس محفل میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رض) نے فرمایا:
’’قدمی هذه على رقبهِ كُلّ وَلِي الله‘‘
’’ میرا یہ قدم ہر ایک ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘-
تو سب سے پہلے شیخ علی بن الہیتی (رح)کھڑے ہوئےاور آپؒ کا قدم مبارک اپنی گردن پر رکھ لیا اس کے بعد مجلس میں موجود تمام لوگوں نے اپنی اپنی گردنیں جھکا دیں ‘‘-[2]
علمی خدمات:
سلسلہ عالیہ قادریہ کی ابتداء، تعلیمات اور عالمگیریت:
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی جس زمانہ میں بغداد آمد ہوئی اس دور میں عباسی سلطنت کے تمام ممالک میں عجیب و غریب ہنگامے برپاتھے -[3] صلیبی دہشتگرد شام پر حملہ آور ہونے کیلئے منصوبے بندی کئے بیٹھے تھے[4] جبکہ انطاکیہ اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے - ان کی عزتیں غیر محفوظ تھیں اور ان کے اموال کو لوٹاجا رہا تھا -[5]جبر و بربریت اور فتنہ و فساد کے اس ماحول میں بھی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ بغداد میں تحصیل علم میں مصروف تھے - آپؒ نے بڑے بڑے شیوخ، علماء اور فقہاء سے مختلف علوم و فنون سیکھے - آپؒ نے اپنے وقت کے نامور محدثین سے کتب حدیث پڑھیں-آپؒ 30 برس تک علوم شریعت کے قواعد و ضوابط سیکھنے میں مصروف رہے- [6]حضرت الشیخ ابوسعید المخرمی ؒکے وصال کے بعد ان کے مدرسہ کی تعلیمی ذمہ داری حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے سنبھالی- مدرسہ کی نئی تعمیر سن 527 ھ بمطابق 1133 ءمیں مکمل ہوئی -[7]
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے تلقین کا آغاز 1133ء میں کیا اور1166ء یعنی اپنے وصال تک اس شعبہ کے ذریعے علم کے موتی بکھیرتے رہے-[8] حضرت شیخ عبد القادر ؒ فاضل اجل تھے اور آپؒ کوعلم شریعت و لغت سے متعلق 13علوم پر کامل عبور حاصل تھا - [9] ان میں فن قراءت، علوم تفسیر قرآن و حدیث ،فقہ،خلاف، اصول اور علوم لغت شامل تھے -[10]
مشہور روایتوں سے واضح ہے کہ آپؒ مذاہب حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح)کے مطابق فتوی دیتے تھے ، یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ آپؒ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان الکوفی ؒ کے مذہب پر بھی فتویٰ جاری فرماتے تھے- [11]
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے طالبان مولیٰ ، اصول و فروع، تفسیر کلام الٰہی، احوال و حقائق جیسے موضوعات پر گراں قدر کتابیں تحریر فرمائیں - ان میں سے کچھ شائع ہوئیں، کچھ مخطوطات کی صورت میں موجود ہیں-اکثر شائع شدہ تصانیف کا دنیا کی کئی مشہور زبانوں میں ترجمہ ہوا آپؒ کی بہت سی تصانیف مبارکہ کا یورپ اور امریکہ میں انگریزی زبان میں ترجمہ شائع کیا گیا- قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپؒ نے ان تصانیف میں جن اصطلاحات و موضوعات کا ذکر فرمایا ہے وہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں موجود موضوعات، ارشادات و معانی کے عین مطابق ہیں- [12]
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں مارگولتھ مقالہ ’’عبدالقادر محی الدین جیلانیؒ‘‘ میں کہتے ہیں کہ کتب شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ آپؒ کے فیض و فضل ، تفقہ فی الدین او رعلمی تبحر کی منہ بولتی تصویریں ہیں-
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے جس طالب و مرید کی تعلیم و تربیت مکمل فرماتے اسے دوسرے مقامات یا ممالک میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے روانہ فرما دیتے- آپؒ کی ظاہری زندگی ہی میں مختلف خلفاء نے مختلف ممالک میں تعلیمات اسلام کی تلقین شروع کردی - آپؒ کے وصال کے بعد آپؒ کی اولاد اور خلفاء نے آپ کے مشن کو جاری رکھا- دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاک وہند میں بھی بے شمار لوگوں کو آپؒ کی نظر کے فیض یافتہ خلفاء کی بدولت دولت ایمان نصیب ہوئی -آج سلسلہ عالیہ قادریہ کے پیروکار ،کئی معروف علماءاور صوفیاء بہت سے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں،جن میں سب سے زیادہ مشہور ممالک درج ذیل ہیں:
عراق، شام، مراکش، ترکیہ، روس ، آذربائیجان، چیچنیا ، بوسنیا ہرزیگووینا، یورپ ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ ، الجزائر، فلسطین، لبنان، صومالیہ، تنزانیہ، کینیا، یوگنڈا، موزمبیق، کیمرون، نائجیریا، ساؤتھ افریقہ ، چین، گھانا، ایران، الجیریا، سوڈان، مالی، گنی، چاڈ، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، انڈونیشیا، یوگوسلاویہ، مصر، تیونس، لیبیا، متحدہ عرب امارات ، عمان، کویت، سعودی عرب، بحرین، ملائیشیا، اریٹیریا ، یمن ، بنگلہ دیش ، برما، سری لنکا، ہندوستان جاوا اور سماٹرا، ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمیوں کے تکمیل ایمان اور لاکھوں غیر مسلموں کے قبول اسلام کا ذریعہ سلسلہ عالیہ قادریہ بنا- [13]
مصری سکالر ڈاکٹر یوسف زیدان نے سلسلہ عالیہ قادریہ کا تسلسل برقرار رہنے اور اس کی عالمگیریت کے حوالے سے تین اہم نکات بیان کیے:
- شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے سلسلہ عالیہ قادریہ کی بنیاد قرآن پاک اور سنت رسول(ﷺ) پر رکھی کیونکہ یہ دونوں ہی بنیادی ماخذ اسلام ہیں-
- سیدنا شیخ عبد القادرجیلانیؒ کی کثیر اولاد ہے، چنانچہ آپؒ کے وصال کے بعد صاحبزادگان نے آپؒ کے سلسلہ عالیہ کی تعلیمات کو زندہ رکھا-
- اسلامی دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے بہت سے صوفیاء نے آپؒ کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور آپؒ کے وصال کے بعد ان صوفیاء نے آپؒ کے سلسلہ عالیہ کی تعلیمات کو آنے والے لوگوں تک پہنچایا- [14]
مسلمانوں کے ثقافتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی اختلافات و فسادات ، دنیا پرستی ، اخلاقی پستی اور بے راہ روی کے اس دور میں آپؒ نے اشاعت علم اور امت کی روحانیت پر مبنی تعلیم و تربیت کے ذریعے ایک خاموش انقلاب برپا کردیا-تجدید و اشاعت دین کے لئے آپؒ کی مسلسل تگ و دو کی وجہ سے ہی آپؒ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے - [15]
سلسلہ قادریہ اور اصلاح و تربیت کا طریقہ كار:
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے ایک کامل نصاب تعلیم ترتیب دیا جس کا مقصد مریدین اور علم حاصل کرنے والوں کی علمی،سماجی، ثقافتی اور روحانی تربیت تھی - اس نصاب کے ذریعے ان کی تمام شرعی، روحانی ،ظاہری اور باطنی ضروریات پوری ہو جاتیں - اس نصاب میں مندرجہ ذیل امور شامل تھے:
الف- ثقافتی ا ور مذہبی نصاب تعلیم و تربیت:
تربیتی نصاب کا انتخاب طالب علم یا مرید کی عمر کے مطابق ہوتا اوریہ تربیتی نصاب یکے بعد دیگرےکئی علوم و فنون پر مشتمل تھا جن میں حفظ و قراءت ، عقائد و اصول،تفسیر قرآن، حدیث ، اصول فقہ اور آداب و اخلاق وغیرہ شامل تھے - مریدین کے لئے ایک ہی وقت میں فقہ اور تصوف دونوں کی تعلیم لازم و ملزوم تھا-
ب- روحانی نصاب تعلیم وتربیت:
اس میں ریاضت و مجاہدہ کی عملی تربیت شامل ہے - جس میں عبادت کو اس کے مکمل ذوق کیساتھ اختیار کرنا ، رات دن اور مختلف مہینوں اور دنوں کے مطابق مختلف دعائیں ، اسی طرح مختلف مہینوں اور دنوں کے مطابق مختلف اذکار، خلوت و عزلت نشینی، آدابِ صحبت و مجالس، ذوقِ شب بیداری، مراقبہ، لطائف و اشارات کو سمجھنا ، انوار تجلیات سہنے کی تاب اور اس طرح کے تمام امور جو سالک کو آغاز سے آخر تک درکار ہوتے ہیں - اس عملی تعلیمی طریقہ کار کے ذریعے طالب ، مرید کا تزکیہ ہوتا ہے اور اصلاح کا عمل مستحکم ہو جاتا ہے -
ج- سماجی نصاب تعلیم و تربیت:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ہاں صوفی وہ نہیں جو دنیا سے علیحدہ ہو کر تنہائی میں زندگی گزارے (البتہ تربیت کی خاطر گوشہء تنہائی اختیار کرنا الگ بات ہے جیسے اعتکاف بیٹھنا یا پرانے وقتوں میں سفرِ حج تھا) - اس لئے آپؒ نے لوگوں کے درمیان مضبوط تعلق کو قائم فرمایا اور ان اعمال کی روک تھام کی جو معاشرتی اتحاد کو توڑنے کا سبب بنتے ہیں- اسی طرح آپؒ نے مریدین کو بغیرمحنت و مشقت کے رزق حلال کمانے، معاون کے عطیات پر زندگی گزارنے ، لوگوں سے دست سوال دراز کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام امور جو انہیں ان کی معاشرتی حیثیت سے گرا دیں ان سے بچانے کی نہ صرف تدبیر کی بلکہ انہیں امانت داری کے ساتھ تجارت اور معاش حلال کےقواعدو ضوابط بھی سکھائے - آپؒ نے فرمایا:
’’مالداروں کے ساتھ بردباری سے اور فقراء کے ساتھ عاجزی سے رہو- خود پر فقراء کی صحبت لازم کر لو اور ان سے حسنِ ادب اور سخاوت سے پیش آؤ- مرید کو چاہئے کہ وہ دولتمندوں کی داد و دہش کے سامنے کمزور نہ ہو اور نہ ان کی اس عطا کا لالچ کرے کیونکہ ان کی خوشامد میں انسان کے دین اور اخلاق کیلئے بڑے خطرے ہیں ‘‘-[16]
اختتامیہ :
سیدنا عبد القادرغوث الاعظم ؒ نے اپنی خداداد روحانی کمالات، فطری استعداد اور ملکہ اجتہاد سے طریقت کو نئی زندگی بخشی، آپؒ مشہور سلسلہ عالیہ (قادریہ) کے بانی ہیں - آپ کی زندگی میں لاکھوں انسان اس طریقہ سے مستفید ہوکر ایمان کی حلاوت سے آشنا اوراسلامی زندگی اوراخلاق سے آراستہ ہوئے اور آپؒ کے بعد آپؒ کے مخلص خلفاء نے تمام ممالک اسلامیہ میں دعوت الی اللہ اور تجدید ایمان کا یہ سلسلہ جاری رکھا جن سے نور بصیرت حاصل کرنے والوں کی تعداد کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا- آپؒ سے وابستہ تمام صوفیائے کرام دنیا کے جس ملک میں تشریف لے کر گئے وہاں اپنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کے درمیان عالمگیر امن، بھائی چارہ، پیار و محبت، تعظیم انسانیت ، اصلاح انسانیت، ہمدردی اور مساوات وغیرہ کو پروان چڑھایا ہے اس لیے نہ صرف آپ کے سلسلہ عالیہ کو عالمگیر شہرت نصیب ہوئی بلکہ دین اسلام پوری دنیا میں تیزی سے پھیلا-
٭٭٭
[1](شمس العارفین، ص:29)
[2](قلائد الجواهر فی مناقب شيخ عبدالقادر گیلانی، محمد بن یحییٰ تادفی ص 77-78)
[3](ابن الدبیشی ،محمد سعید ،المختصر المحتاج الیہ من تاريخ بغداد، ایڈیشن1، جلد :3)
( منثورا مطالعه و تحقیق مصطفی عبد القادر ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ،ص :124))
[4](علیوی جعفر موسی، عبد القادر الجيلانی والتصوف، بغداد یونیور سٹی ، 2002 ، ص 198)
[5](ا لبدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج: 3 ، ص: 43)
[6](ابن الوروی ’’مخطوط خريدة العجائب وفريدة الغرائب‘‘ نسخہ سالم الآلوسی- ص: 181)
[7](محمد بن جریر الطبری ، جامع البيان فی تأويلہ القرآن، ج: 5، ص: 176 )
[8](جغرافیۃ الباز الاشہب، د جمال الکیلانی، ، دار الباز فلوریڈا -امریکہ ،ص:55)
[9](مصطفی جواد ، اصول التاریخ والادب، ج23، ص 54- التادفی ،حوالہ گزشتہ، ص:43)
[10](السبکی ، طبقات الشافعية الكبری ، ج:5، ص: 153-161)
[11](ابن کثیر،البدایہ والنھایہ، ج12، ص 131-)
[12](جغرافیۃ الباز الاشہب د جمال الکیلانی، ت ، ، دار الباز فلوریڈا -امریکہ، ص:61)
[13](جغرافية الباز الاشهب ، د.جمال الكيلانی ، ، 2014 ، ص :122)
[14](الطريق الصوفی و فروع القادريۃ بمصر،يوسف زيدان، بيروت، ص175 -178)
[15](ارشاد الاریب للیاقوت ، ج5 ص274 ، بہجة الاسرار، ص113 تا 117)
[16](مسالک الابصار،ابن فضل اللہ ، ج: 1، ق:1، ص :104)