تعلیماتِ جیلانیہ: علمِ فلسفہ کے تناظر میں (ایک مختصر مطالعہ)

تعلیماتِ جیلانیہ: علمِ فلسفہ کے تناظر میں  (ایک مختصر مطالعہ)

تعلیماتِ جیلانیہ: علمِ فلسفہ کے تناظر میں (ایک مختصر مطالعہ)

مصنف: وسیم فارابی نومبر 2023

ابتدائیہ:

جیسا کہ تمام تذکرہ نگاروں نے بیان کیا ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانیؒ اوائل زندگی حتی کہ بہت بعد تک فقہ میں امام شافعیؒ کے مذہب پر کاربند تھے اور بعد ازاں آپؒ نے امام احمد ابن حنبلؒ کی فقہ کو اختیار کر لیا تھا - یہاں یہ بات اہلِ علم کیلئے نئی نہیں ہے کہ علمِ فلسفہ کی شاخ علم الکلام جسے فقیہوں اور ماہرینِ اصول نے عقیدہ کی وضاحت کیلئے ایجاد کیا ، اس کے بارے شافعیوں اور حنبلیوں کے نقطہ نظر میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے - فقہ شافعی کے پیروکار علم الکلام کو اختیار کرتے ہوئے ابو الحسن اشعریؒ کو عقیدہ میں امام مانتے ہیں جبکہ حنبلی فقہ کے پیروکار امام احمد ابن حنبل ہی کو فقہ اور عقیدہ کا امام مانتے ہیں - اور یہ واضح ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ عقیدہ کے ثبوت کیلئے عقلی ، منطقی اور ریاضیاتی دلائل کے قائل ہیں جب کہ احمد ابن حنبل عقیدہ کی وضاحت اور ثبوت کیلئے عقلی مباحث میں نہیں جاتے بلکہ نقل (یعنی کتاب و سنت) کو کافی جانتے ہیں یہی اصول ساری حنبلی روایت میں چلا ہے، شیخ عبد القادر جیلانی سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے حنبلی علما شیخ ابن قدامہ اور شیخ ابن تیمیہ کے بارے میں بھی یہی اصول محققین نے لکھا ہے -

اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے راقم الحروف نے کوشش کی کہ ایسی جامع کتب (یا کم از کم کوئی ایک کتاب ہی) مل سکے جس میں اس خاص تناظر میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے افکار کا مطالعہ کیا جاسکے کہ فقہ حنبلی اختیار کرنے سے قبل اور اس کے بعد آپ کے کلامی اور فلسفیانہ مسائل کی تعبیرات میں کیا کوئی تبدیلیاں واقع ہوئیں ؟ اگر ہوئیں تو وہ کیا تھیں؟ نیز کیا اُن تبدیلیوں کا کوئی اثر آپ کی صوفیانہ تعلیمات پر بھی ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا تو کس قدر؟ (راقم کے نزدیک یہ سوالات اس لئے بھی غیر متعلق نہیں ہیں کہ اشعری روایت سے غزالیؒ اور ابن عربیؒ جبکہ ماتریدی روایت سے رومیؒ اور شیخ احمد سرہندیؒ کی تعلیمات اور طرزِ استدلال پہ ان کلامی روایتوں کا اثر واضح طور پہ محسوس کیا جا سکتا ہے جن کے وہ پیروکار تھے)-

لیکن مجھے اپنی کم مائیگی کا اعتراف ہے کہ کسی ایسی جامع کتاب تک اس مختصر وقت میں تاحال نہیں پہنچ سکا جس سے ان سوالات پہ راہنمائی ملتی ہو -لیکن حضرت کی اپنی تصانیف کا جہاں تک مطالعہ کیا ہے ان میں دونوں جہتیں نظر آتی ہیں - مثلاً اگر غنیۃ الطالبین کو دیکھیں تو اس میں اشعری طریقہ کار (Asharites Method) بہت حد تک نمایاں نظر آتا ہے - سر الاسرار میں اشعری و حنبلی طریق کار کا امتزاج پایا جاتا ہے لیکن فتوح الغیب اور فتح الربانی سے اب تک تو یہی اخذ کر سکا ہوں کہ یہ دو کتابیں حنبلی طریقہ کار(Hanbalites Method)

کے زیادہ قریب ہیں -گوکہ غنیۃ الطالبین اور سر الاسرار کے علاوہ دیگر کتابوں میں فلسفیانہ و کلامی مسائل کو اس طرح سے نہیں اٹھایا گیا جس طرح کہ غزالی ؒ، ابن عربیؒ یا شیخ احمد سرہندی ؒ کی کتب میں ملتے ہیں - البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسے بہت سے فلسفیانہ و کلامی مسائل بین السطور موجود ہیں جو کہ فلاسفہ و حکما اور متکلمین کے ہاں بھی بطور بحث کے رائج رہے ہیں -

زیرِ نظر مضمون ایسے موضوعات پہ بحث کرے گا جن پہ حضرت کی تعلیمات میں بھی رہنمائی موجود ہے اور جن پہ فلاسفہ اور متکلمین بھی مباحث کرتے آئے ہیں- دوسرے لفظوں میں اس کی زیادہ توجہ بین الضابطہ (interdisciplinary)  موضوعات پہ ہو گی-

 علم فلسفہ کی مروجہ تعریفات اور فلاسفہ کے بنیادی سوالات کا جائزہ لینے سے اس کی ایک جامع تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ:

’’علم و حکمت، حقائقِ اشیاء اور حقیقتِ مطلقہ (Ultimate Reality) کی جستجو کا نام فلسفہ ہے‘‘-[1]

اس تعریف کی رو سے علمِ فلسفہ کو علم ِ حقائقِ اشیاء بھی کہا جا سکتا ہے- مزید برآں ، اس علم کو کسی خاص گروہِ انسانی اور اس کے افکار کی میراث نہیں کہا جا سکتا - بلکہ یہ من جملہ فکرِ انسانی کی میراث ہے- لہٰذا تھیلیز (Thales) اور سقراط (Socrates) کو مغربی فلسفیانہ افکار کا بانی تو کہا جا سکتا ہے مگر مطلقاً علم فلسفہ کا بانی نہیں کہا جا سکتا- در حقیقت علمِ حقائقِ اشیاء کی ابتدا ابو البشر حضرت آدمؑ کے علمِ اسرار و حقائق کی اس جستجو سے ہوئی -[2]

صوفی اور فلسفی کے فرق پہ بہت کچھ کہا گیا ہے ، ان کی مماثلت میں سب سے بڑی یہ کہی جاتی ہے کہ دونوں تلاشِ حق کرتے ہیں - اور ان کے تفاوت پہ یہ کہا گیا ہے کہ فلاسفہ نے حقیقت کے ظاہری پہلو کو ہی انتہا سمجھ کر اس پر اکتفا کیا اور اس کے مخفی حقائق پر صرف قیاس آرائیاں ہی کرتے رہے-جبکہ صوفیا پوشیدہ حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے حقیقت مطلقہ تک جا پہنچے - اسکی مثال یوں دی جاتی ہے کہ فلاسفہ نے دودھ کی ظاہری حقیقت کو ہی کُل سمجھ لیا جبکہ صوفیا نے دودھ میں ہی پوشید ہ اس کی انتہا یعنی گھی تک رسائی حاصل کر کے اسے قلم بند کیا ہے- لہٰذا فلاسفہ حقیقت کے ابتدائی مقام پر ہیں اور صوفیاء نے حقیقت کے انتہائی مقام تک رسائی پائی ہے اور علمِ حقائقِ اشیاء و حقیقتِ مطلقہ میں ایک محقق کا درجہ رکھتے ہیں- اس لیے علامہ اقبال ؒ علمِ فلسفہ کی حقیقت یوں بیان کرتےہیں:

جس معنیء پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گُہر سے

علمِ فلسفہ کو متعدد شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں بنیادی چار ہیں (طبیعیات ، علمیات، ما بعد الطبیعات، اخلاقیات) میں تقسیم کیا جاتا ہے -تقریباً ہر فلسفی نے ان چاروں شاخوں پرگفتگو کی ہے- کسی بھی فلسفی یا محقق کے افکار کی گہرائی و وسعت کو سمجھنے کیلئے اس کا نظریۂ حقیقتِ انسان سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے جو کہ اس کے افکار کی عمارت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے- جس نے جتنی اور جیسی حقیقتِ انسان تک رسائی حاصل کی اس کے افکار کی نوع اور وسعت کو ویسا ہی پایا گیا ہے- اس لیے ان چاروں شاخوں کے متعلق شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تعلیمات میں پائے جانے والے افکار کو بیان کرنے سے پہلے آپؒ کا نظریۂ حقیقتِ انسان سمجھنا ضروری ہے-

حقیقتِ انسان:(Reality of Human Being)

حضرتؒ کا نظریۂ حقیقتِ انسان انتہائی جامع اور مکمل ہے- آپؒ کی تحقیق نے انسان کو جوئے کم آب نہیں بلکہ بحرِ بیکراں پایا ہے- اگر جمہورمغربی فلاسفہ کا نظریہ انسان کا خلاصہ پیش کیا جائے تو اکثریت کے نزدیک انسان درحقیقت صرف ایک حیوان (جثہ اربعہ عناصر) ہی ہے جس کے پاس سوچنے، سمجھنے اور بولنے کی اضافی صلاحیت ہے جو اسے دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے- اس سے ماورا انسان کی کوئی حقیقت نہیں ہے -[3] اگر کسی نے روح کی بات کی ہے تو وہ صرف نام کی حد تک ہے، لبادہ یا مغالطہ روح میں انہوں نے در حقیقت عقل کی خصوصیات ہی بیان کی ہیں- لیکن جسم و روح کی حقیقت کیا ہے ؟ ان دونوں کی تخلیق میں کیا کیا جوہر شامل ہیں؟ انسانی روح اور دیگر ارواح میں کیا فرق ہے؟ کیا انسان کی وجہ سے یہ زمین مرکزِ کائنات ہے؟ بعد از موت روح کہاں جاتی ہے؟ انسان کا مقصدِ تخلیق کیا ہے؟ ان سوالات کے جواب میں فلاسفہ کے پاس باہم متضاد اور بے معنی قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہیں ہے- اس کے برعکس حضرت شیخ انسان کو جسم و روح کا مرکب مانتے ہیں اور ابتدا ئے انسان کو یوں بیان فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے روحِ محمد (ﷺ) کو اپنی نورِ جمال سے پیدا فرمایا- پھر اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو عالمِ لاہوت (عالمِ ارواح) میں انہیں احسن صورت حقیقی دے کر انسان ( اس کو آپؒ نے روحِ قدس یا حقیقتِ انسانیہ کا نام دیا ہے) کے نام سے موسوم کیا اور عالمِ لاہوت ہی ان کا اصلی وطن بنایا ‘‘-[4]

اس کے بعد آپؒ جسم و روح کے آپسی تعلق کو بیان فرماتے ہیں جس پر کئی لوگوں نے کلام تو کیا مگر اس تعلق کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیا- آپؒ فرماتے ہیں:

’’پھر (اللہ تعالیٰ نے) تمام ارواح کو کائنات کے نچلے درجے یعنی عالمِ اجسام میں منتقل کیا جیسا کے فرمان حق تعالیٰ ہے ’’پھر ہم نے اسے نچلے سے نچلے درجے میں اتارا‘‘ یعنی سب سے پہلے انہیں (عالم لاہوت سے) عالمِ جبروت میں اتارا گیا جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں حرمین شریفین کے درمیان نورِ جبروت کا لباس پہنایا جہاں وہ ارواحِ سلطانی کہلائیں- پھر انھیں عالم ملکوت میں اتار کر نورِ ملکوت کا لباس پہنایا گیا جہاں وہ ارواحِ روحانی کہلائیں- پھر انھیں عالم مُلک (یہ ہمارا موجودہ اربع عناصر کا جہان ہے جس عالمِ ناسوت بھی کہتے ہیں) میں اتار کر نورِ مُلک کا لباس پہنایا گیا جہاں وہ ارواحِ جسمانی کہلائیں- پھر اللہ تعالیٰ نے عالمِ مُلک سے (یعنی اربع عناصر کے مجموعہ سے) تمام اجسام کو پیدا فرمایا- پھر اللہ تعالیٰ نے ارواحِ جسمانیہ ( جس کے باطن میں در حقیقت روح قدس ایسے پوشیدہ ہے جیسے بیج میں درخت پوشیدہ ہوتا ہے) کو اجسام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان میں داخل ہو گئیں جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی‘‘-[5]

حضرت کے ان اقتباسات سےآپؒ کا نظریہ حقیقتِ انسان قارئین کو یقیناً سمجھ آ گیا ہو گا لہٰذا اس کے بعد آپؒ کے نظریۂ علمیات، ما بعد الطبیعات اور اخلاقیات سے متعلق افکار کو سمجھنا انتہائی آسان ہو گا اور آپؒ کے افکار کی انفرادیت اور جامعیت مزید واضح ہوگی - اب ہم علمِ فلسفہ کی مختلف شاخوں سے متعلقہ آپ کے افکار کا جائزہ لیتے ہیں-

علمیات: (Epistemology)

یہ شاخ علم، اس کی حقیقت اور اس کے حصول کے ذرائع پر بحث کرتی ہے –

1- علم کیا ہے: (What is Knowledge)

حضرت کے نزدیک علم وہ ہے جس سے حقائقِ اشیاء پر آگاہی نصیب ہوتی ہے جس کا تعلق علمِ معرفتِ حق تعالیٰ سے ہے - آپؒ فرماتے ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے- اس سے مراد علم معرفت و قرب ہے ‘‘-[6]

’’روح قدسی ( حقیقتِ انسان) کی متاع علم حقیقت ہے جسے علم توحید بھی کہتے ہیں‘‘-[7]

آپؒ علم کے انتہائی مقام کو بیان فرماتے ہیں کہ:

’’مغزِ علم عمل ہے‘‘(کیونکہ)’’علم بغیر عمل کے تمہیں نفع نہیں دے گا‘‘-[8]

2-علم کے ذرائع: (Sources of Knowledge)

آپؒ کے مطابق حقیقتِ انسانیہ کے ہر مقام پر اس مقام کی حقیقت کے مطابق انسان پر علم کے نئے ذرائع آشکار ہوتے ہیں - جہاں تک جہان عنصری کی بات ہے تو اس جہان میں ہماری جسمانی و ظاہری حقیقت کو نفس یا بشر کا نام دیا گیا ہے- اس مقام پر انسان کیلئے علم کے ذرائع دو(2) ہیں - [9]

  1. I.          جسمانی حواسِ خمسہ(Sense Perception):

پانچ جسمانی حواس ( بصارت، سماعت، چھونا، چکھنا، سونگھنا) کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے تجرباتی علم (Empirical Knowledge) کہتے ہیں-

  1. II.          عقلی حواسِ خمسہ(Intellectual Perception):

 نفسانی عقل کے بھی پانچ حواس ( حسِ مشترک، حسِ واہمہ، حس خیالیہ، حسِ حافظہ، حسِ متصرفہ) ہیں- ان کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے عقلی علم(Rational Knowledge) کہتے ہیں -[10]

 درج بالا دو نوں ذرائع کے علم کو حضرت علمِ ظاہر (Superficial Knowledge) کا نام دیتے ہیں-آپؒ کے نزدیک اس کے علاوہ انسان کے روحانی حواسِ خمس بھی ہیں جن کے ذریعے حاصِل ہونے والے علم کو آپؒ علمِ حقیقت یا علمِ باطن(Innermost Knowledge) کا نام دیتے ہیں[11] ان روحانی حواسِ خمسہ کے نام درج ذیل ہیں:

1-قلب، 2- روح،3- سِر،4- خفی،5- اخفیٰ الخفی [12]

روحانی حواس خمسہ کو ایک مستند و معتبر ذریعہ علم قرار دینے میں تمام صوفیاءمتفق ہیں- حضرت سلطان باھو (رح) ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’مشق تصور اسم اللہ ذات کے علم سے نفس کو پاکیزگی، قلب کو صفائی اور روح و سر کو جلا حاصل ہوتی ہے جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اس کا قالب لباسِ قلب پہن لیتا ہے قلب لباسِ روح پہن لیتا ہے اور روح لباس سر پہن لیتی ہے جب قالب و قلب و روح و سر ایک (Unified) ہو جاتے ہیں تو اس کے وجود سے صفاتِ بد کا خاتمہ ہو جاتا ہے ظاہری حواسِ خمسہ بند ہو جاتے ہیں اورحواسِ باطن کھل جاتے ہیں اور اس کے دل میں ’’و نفخت فیہ من روحی‘‘ روح کا علم کھل جاتا ہے‘‘-[13]

شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی (رح) نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’الفتوحات المکیہ ‘‘ میں اس علم کو علم الاسرار کا نام دیا ہے- آپؒ اس علم کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’یہ علم عقل کی دسترس سے باہر ہے یہ وہ علم ہے جو کہ الہامِ الٰہی سے حاصِل ہوتا ہے - اس علم کا جاننے والا تمام علوم پر حاوی ہوتا ہے اور ان کا ماہر ہوتا ہے‘‘-[14]

محمد بن ابی بکر ہمدانی المعروف عین القضاۃ (رح)اپنی تصنیف ’’زبدۃ الحقائق‘‘ میں اس ذریعۂ علم کی وضاحت میں فرماتے ہیں:

’’(علم کا ذریعہ جو ) عقل سے ماورا ہے وہاں پر دقیق تر عقلی حقائق کے مشاہدے کیلئے بھی عقلی اصولوں ( منطق و حساب وغیرہ) کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ اس ذریعہ علم سے دقیق سے دقیق حقائق (جو عقل کیلئے سمجھنا دشوار ہوتےہیں جیسا کہ وجودِ حق تعالیٰ کا ثبوت) کا مشاہدہ ایسے ہوتا ہے جیسے عقل اپنے بنیادی اصولوں کو فورًا جان لیتی ہے ( جیسا کہ 1+1 = 2)‘‘- [15]

علامہ اقبالؒ اپنے خطبات میں اس ذریعہ علم بارے لکھتے ہیں:

’’حقیقت کلی(Ultimate Reality) جو ہمارے وقوف میں آتی ہے اور ہماری تعبیر (Interpretation) کے نتیجے میں ایک محسوس حقیقت(Experienced Reality) کا روپ دھار لیتی ہے ہمارے شعور میں داخل ہونے کے اور بھی ذرائع اختیار کر سکتی ہے اور دیگر تعبیرات کے بھی امکانات رکھتی ہے- نوع انسانی کا الہامی اور متصوفانہ ادب اس حقیقت کی ایک معقول کسوٹی ہے کہ تاریخ انسانی میں مذہبی مشاہدہ (Religious Experience) کا اثر غالب رہا ہے اس لیے اسے محض ایک وہم کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا- لہذا اس بات کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ عام انسانی تجربے کو تو حقیقت مان لیا جائے مگر مشاہدے کے دوسرے مراتب (جو حواسِ روحانی سے حاصل ہوتے ہیں) کو صوفیانہ اور جذباتی کہہ کر مسترد کر دیا جائے- مذہبی مشاہدات کے حقائق بھی دوسرے انسانی تجربات کی طرح ہی معتبر حقائق ہیں‘‘-[16]

3- عالم یا محقق کون ہے:

شیخ عبدالقادر جیلانی(رض) فرماتے ہیں:

’’جس کو یہ علم یعنی علم حقیقت حاصل نہیں وہ درحقیقت عالم ہی نہیں خواہ اس نے لاکھوں کتابیں کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں کیونکہ اس نے علم روحانیت پڑھا ہی نہیں‘‘-[17]

’’پس عالم کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود میں حقیقت انسانیت کے معنی یعنی طفل المعانی ( روح قدسی) کی نمود کرے اور اسمائے توحید (اسمِ اللہ ذات) کے دائمی شغل سے اس کی تربیت کرے اور عالمِ اجسام سے عالم روحانیت کی طرف ہجرت کرے‘‘-[18]

ما بعد الطبیعات: ( Metaphysics)

یہ شاخِ وجود (بالعموم ہر شے اور بالخصوص وجودِ خدا )، حقیقتِ وجود، مذہب اور اس سے جڑے دیگر مسائل پر بحث کرتی ہے -

1- وجودِ باری تعالیٰ: (Existence of God)

عمومی فلاسفہ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں کوئی وجود مطلق یا خدا ہے؟ اگر ہے تو کیا اس تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟ شیخ کے نزدیک انسان کی زندگی کا مقصد ہی ذاتِ حق تعالیٰ کی معرفت اور اس کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کی مصنوعات (تخلیقات) سے اس کے وجود پر دلیل پکڑ- اس کی صنعت و کاریگری میں تفکر کر بے شک تو اس کے صانع ( ذاتِ حق تعالیٰ) کی طرف پہنچ جائے گا‘‘- [19]

آپؒ ذاتِ حق تعالیٰ کے تعارف میں فرماتے ہیں:

’’اللہ عزوجل ہی خالق و رازق ہے- وہی قدیم اور ازلی و ابدی ہے- تمہارے باپ، مائیں اور دولتمندوں سے پہلے وہی موجود تھا- وہی خالق ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان کے اندر ہیں اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں- اس کی مثل کوئی شے نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے‘‘-[20]

بیشتر فلاسفہ کسی نہ کسی صورت میں وجود خدا کے قائل تو ہیں مگر ان کی اکثریت ہی کے نزدیک اس تک رسائی ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ کائنات سے ماورا محوِ استغراقِ ذات ہے جسے اس دنیا اور اس کے باسیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے[21] جبکہ آپؒ ذاتِ باری تعالیٰ کے بیک وقت پوشیدہ و ظاہر ہونے سے متعلق فرماتے ہیں :

’’پاک ہے وہ معبود ذات جو ظاہر ہے اپنی پوشیدگی میں اور پوشیدہ ہے اپنی تجلی میں‘‘-[22]

آپؒ کے نزدیک حق تعالیٰ کے ظہورِ خاص کا محل وجودِ انسانی ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’انسان کا مرتبہ درخت ( جس درخت میں ظہور فرما کر اللہ پاک نے موسیٰ (ع)سے کلام فرمایا) کے مرتبے سے ہرگز کم نہیں ہے اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اگر انسان اپنا تصفیہ کر لے یعنی صفات حیوانیہ ترک کر کے صفات انسانی اپنا لے تو اللہ تعالیٰ انسان حقیقی کی صورت میں اپنی صفات میں سے کسی صفت کی تجلی فرما دے‘‘- [23]

آپؒ مزید فرماتے ہیں کہ ظہورِ حق تعالیٰ، حضور نبی کریم (ﷺ) کے وجودِ اقدس میں اپنے کمال کو پہنچا ہے-

’’اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جمالی کا عظیم ترین مظہر حضور نبی کرم (ﷺ) کی مقدس ہستی ہے‘‘-[24]

2- مقصدِ مذہب : (Purpose of Religion)

جدید مغربی فلاسفہ کے نزدیک مذہب کی بنیاد خوف پر ہے جسے مشہور برطانوی مؤرخِ فلسفہ برٹرینڈ رسل یوں بیان کرتے ہیں کہ:

’’میرے خیال میں مذہب بنیادی طور پر خوف پر مبنی ہے- یہ کسی نامعلوم شے کی دہشت ہے اور کچھ حد تک یہ محسوس کرنے کی خواہش ہے کہ جیسے (خدا) آپ کے بڑے بھائی جیسا ہے جو آپ کی تمام مشکلات اور تنازعات میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا- درحقیقت ان سب (خیالات) کی وجہ خوف ہے یعنی کسی پراسرار شے کا خوف، شکست کا خوف، موت کا خوف‘‘- [25]

انسان میں کسی پراسرار شے، موت، تکالیف یا دیگر مخلوقات کے خوف کی بنیاد اس جہانِ فانی کی ظاہری نعمتوں کے چھن جانے کا خوف ہے جیسا کہ موت ،زندگی کے چھن جانے اور آسائش کے چھن جانے کا ہی دوسرا نام ہے- کیونکہ ایسے انسان کے دل میں خالق کی بجائے مخلوقات کی محبت سمائی ہوتی ہے- اکثر وہ خالق سے لگاؤ بھی اس لیے لگاتا ہے تا کہ خدا اس کی زندگی، مال و دیگر سامانِ آسائش کی محافظت کرے - اس لیے حضرت شیخ مخلوقات کی بجائے خالق سے محبت کرنے اور اسی سے دل لگانے کی بارہا تلقین فرماتے ہیں تا کہ انسان ہر خوف کے بندھن سے آزاد ہو جائے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’پس میں تجھے تلقین کرتا ہوں کہ تو اپنی محبت اور توجہ کو اللہ تعالیٰ کیلئے وقف کرتے ہوئے غیر اللہ سے اجتناب اختیار کر اور اس مقدس جذبہ عشق کو جو فطری طور پر ذات خداوندی سے تعلق رکھتا ہے مخلوقات میں ہرگز نہ الجھا -ورنہ تیرا قلب شرکیات میں ملوث ہو کر توحید کے معنی اور عملی تقاضوں کوسمجھنے سے قاصر رہے گا‘‘- [26]

ایک اور مقام پر آپؒ فرماتے ہیں:

’’عاقل بن اور جھوٹ مت بول-تُو کہتا تو یہ ہے کہ میں اللہ عزوجل سے ڈرتا ہوں حالانکہ ڈرتا ہے دوسروں سے-نہ کسی جِن سے ڈر اور نہ آخرت کے عذاب سے-پس ڈرنا تو اسی سے چاہیے جو عذاب دینے والا ہے-عقل مند شخص اللہ عزوجل کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے ڈرا نہیں کرتا- وہ غیراللہ کی بات نہیں کرتا-وہ غیراللہ کی بات سے بہرا ہے-ساری مخلوق اس کے نزدیک بے کس، بیمار اور محتاج ہے‘‘- [27]

اس لیے آپؒ کے نزدیک مذہب کی بنیاد خوف پر نہیں بلکہ محبت پر ہے جس کا مقصد انسان کے اند ر چھپے جذبہ ٔ حُبِ الٰہی کو پروان چڑھانا ہے جسے وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں آ کر بھول گیا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’جب ارواح کا تعلق اجسام سے قائم ہو گیا اور وہ اجسام سے مانوس ہو گئیں اور اس قول و قرار کو بھول گئیں جو انہوں نے میثاق کے دن ’’اَلَستُ بِرَبِکُم‘‘ کے جواب میں ’’قَالُو بَلیٰ‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے کیا تھا تو ان کا رجوع اپنے اصلی وطن کی طرف نہ رہا - اس پر اللہ رحمان المستعان نے ان پر رحم کیا اور ان پر آسمانی کتابیں نازل فرما کر انھیں اصلی وطن کی یاد دلائی-جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:اور انہیں ایامِ الٰہی یاد کرائیں ‘- یعنی وہ ایامِ وصال جو وہ معیت حق تعالیٰ میں گزار چکے تھے- جملہ انبیائے کرام اسی یاد دہانی کیلئے دنیا میں تشریف لائے‘‘-[28]

آپؒ کے نزدیک ، خدا کوئی نا معلوم یا مخفی شے نہیں ہے بلکہ ایک عیاں حقیقت ہے جس کی بندگی اس کی پہچان سے مشروط ہے ، ہر ایک اپنے اپنے درجہء معرفت میں رہ کر اس کی بندگی کرتا ہے - آپؒ فرماتے ہیں:

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا وہ اس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے؟ ‘‘[29]

مزید برآں، آپؒ کے نزدیک انسانوں پر مشکلات و پریشانیاں خود بخود نہیں آتی ہیں کہ جن سے بچنے کیلئے انسان مذہب کے لبادہ میں خدا کی پناہ ا ختیار کر لیتا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکم سے ہی آتی ہیں جن کا مقصد انسان کو عملی طرزِ زندگی میں قلبی طور پر مضبوط بنانا ہوتا ہے تا کہ وہ ان مشکلات سے سیکھے اور زندگی کے حقائق و مظاہرات سے ڈرنے کی بجائے بہادری سے ان کا سامنا کرے - ا س کی مزید تفصیل آگے مسئلہ خیر و شر میں آئے گی-

3- انسان کا مقصدِ حیات فطری ہے یا تجرباتی:

(Essence vs Existence)

فلاسفہ کا ایک قدیمی مسئلہ ہے کہ کیا انسان کسی خاص فطرت پر پیدا ہوتا ہے یا اپنی فطرت کا خود خالق ہے؟ جدید فلسفہ وجودیت (Existentialism)کے مطابق، انسان اس جہان میں بغیر کسی فطرت خاصہ و مقصد کے ہر طرح سے آزاد پیدا ہوتا ہے اور وہ اس جہان میں آنے کا مقصد بھی خود پیدا کرتا ہے[30] اس کے بر عکس شیخ کے نزدیک انسان فطرت اللہ پر پیدا کیا گیا ہے اور اسی کی طرف اس کا رجوع رہتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’انسانِ خاص کا رجوع اپنے وطنِ اصلی کی طرف رہتا ہے اور وہ ہے عالمِ لاہوت میں قربِ الٰہی- جو نتیجہ ہے علمِ حقیقت کا اور یہ خالِص توحید ہے‘‘- [31]

4- مسئلہ جبر و قدر:

)Free Will & Determinism(

مسئلہ جبر و قدر کا تعلق انسان کی قوتِ ارادی و فعلی سے ہے کہ کیا انسان اپنے ارادے اور افعال میں آزاد ہے یا نہیں؟ کیا انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس کی اپنی منشا سے ہوتا ہے یا یہ بیرونی عوامل(فطرت یا کوئی طاقتور خدا) طے کرتے ہیں؟ قدریہ کے نزدیک انسا ن اپنے افعال کا خود ہی خالق ہے - کوئی بیرونی عمل اس پر اثر انداز نہیں ہوتا - جبریہ کے نزدیک انسان محض مجبورہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہ بیرونی عوامل طے کرتے ہیں- در حقیقت نظریہ قدر انسان میں تحرک پیدا کرتا ہے جبکہ جبر انسان میں بے عملی کو فروغ دیتا ہے -[32]

حضرت شیخ کے نزدیک دونوں میں خرابی ہے- اگر قدریہ کو درست مان لیا جائے تو انسان خود اپنے افعال کا خالق ہو گا جبکہ ہر شے کا خالق اللہ ہے اور ہر شے کا فاعلِ حقیقی بھی اللہ ہی ہے- اگر جبریہ کو درست مان لیا جائے تو انسان میں سعی پیہم ختم ہوتی ہے- اس لیے آپؒ فرماتے ہیں:

’’مخلوق کی طرف سے سعی و محنت اور جدوجہد کے اصول کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے تاکہ تو مذہب جبر یہ کے عقائد سے نجات پائے اور یہ بھی مت کہہ کے مخلوق کے افعال میں خدا کی قدرت کو کوئی دخل نہیں اور بندہ ہی ہر ارادہ و فعل کا مختار و مجاز ہے اس عقیدہ سے تو کافر ہو جائے گا اور قدریہ میں جا شامل ہوگا بلکہ درست عقیدے کا تعین کرتے ہوئے یہ کَہ کہ مخلوق کے افعال و اعمال مشیت خداوندی سے ہیں جن کی بجا آوری کے لیے حسبِ ارشاد ’’لیس للانسان الا ما سعی‘‘ مخلوق کی طرف سے صحیح و محنت لازمی ہے‘‘-[33]

آپؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’اہل ایمان مسلمان کیلئے یہ عقیدہ رکھنا بے حد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ دانا حکمت والا ہے اور دنیا میں انسان پر کفر و نفاق و فسق وغیرہ کے جتنے احوال بھی وارد ہوتے ہیں وہ سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اور ان سے اللہ تعالیٰ کی اپنی منشا، قدرت و حکمت کا اظہار ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم راز پوشیدہ ہے جس سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے سوا اور کوئی بشر آگاہ نہیں‘‘-[34]

5- حیات بعد از مرگ: (Afterlife)

فلاسفہ کی اکثریت چونکہ روح کے وجود کو نہیں مانتی لہٰذا وہ حیات بعد الموت پر یقین نہیں رکھتی ہے- آپؒ حیات بعد الموت پر یقین رکھتے ہیں اور اس سے متعلق حقائق کی تفصیلات بیان فرما کر انسان کو مرنے کے بعد کی زندگی کی تیاری کرنے کی ترغیب دیتے ہیں:

’’بیٹا جس طرح تو بیمار ہوجاتا ہے اور تو نہیں سمجھ سکتا کہ کس طرح بیمار ہو گیا- اسی طرح تو ایک دن مر جائے گا اور سمجھ نہ سکے گا کہ کس طرح موت آ گئی‘‘-[35]

مرنے کے بعد انسان کی دوسری زندگی شروع ہوتی ہے اور نفسانی حجابات اٹھ جاتے ہیں اور انسان پر ہر شے کی حقیقت کھل جاتی ہے آپؒ فرماتے ہیں:

’’ (اگر تو اس دنیا میں حق تعالیٰ سے غافل رہا تو ) جب تجھ کو موت آئے گی تو رسوا ہونا پڑے گا کہ تیرے راز اور چھپے ہوئے حالات کھل جائیں گے اور تجھ کو چار طرف سے پھٹکار پڑے گی‘‘- [36]

6-حقیقتِ جہان:(Reality of Cosmos)

بعض فلاسفہ کے نزدیک یہ جہان قدیم ہے یعنی یہ قائم و دائم بالذات ہے اور بعض فلاسفہ نے جہان کو من جملہ خدا کا درجہ دیا ہے کہ یہ جہان اور خدا ایک ہی ہیں -[37] کچھ کج فہم لوگ اس نظریے کو افکارِ صوفیائے کرام سے بھی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ مغربی فلسفہ اور تصوف کو ایک ہی قرار دے دیا جائے- در حقیقت ایسے لوگ اسلامی تصوف اور مغربی فلسفہ دونوں سے نا بلد ہیں- تصوف تو کجا اگر وہ فقط افلاطون (Plato) اور فلاطینوس (Plotinus) کے نظریات کا مطالعہ کر لیں تو ان کے پاس اپنی ان قیاس آرائیوں کے ثبوت میں سوائے ہٹ دھرمی و ضد کے کچھ باقی نہ رہے گا-

شیخ عبدالقادر جیلانی اس جہان اور اس کی موجودات کو معدوم و حادث مانتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قائم رکھا ہوا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’اے مخاطب! تو بھی میرے نزدیک معدوم ہے اور آسمان و زمین بھی میرے نزدیک معدوم ہیں اور بجز حق تعالیٰ کے نہ مجھ کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘‘-[38]

’’ہر شے سے پہلے وہی (حق تعالیٰ) تھا - وہی ہر شے کو وجود میں لانے والا ہے اور ہر شے کے (فنا ہونے کے بعد) وہی ہو گا‘‘-[39]

’’خوب سمجھ لے کہ ساری چیزیں اسی کے(عدم سے وجود کی طرف ) حرکت دینے سے متحرک بنتی ہیں اور اسی کے ساکن (وجود سے عدم) بنانے سے ساکن بنتی ہیں‘‘-[40]

7- حقیقتِ اسباب ظاہری:

 (Reality of Causality)

اس جہانِ رنگ و بو میں ہر شے کی کوئی نا کوئی خاصیت یا طبیعت ہے جس کی وجہ سے وہ شے دوسری اشیاء میں اثر (Effect) پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جسے اُس شے کی فطرت(Nature) کہا جاتا ہے- مثال کے طور پر، آگ کی فطرت جلانا اور سورج کی فطرت روشنی پیدا کرنا ہے- فلاسفہ کے نزدیک، ہر شے کی یہی فطرت اس کی انتہا ئی حقیقت ہے جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتی اور ان حقائق کی بنیاد پر فطرت کے قوانین ( ان قوانین کو صوفیا ئے کرام عادت الٰہیہ کا نام دیتے ہیں) وجود میں آتے ہیں جو کہ اٹل ہیں - [41]

 حضرت کی تحقیق جہاں ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کی حقیقت فقط جسم انسانی تک محدود نہیں ہے اسی طرح اشیائے کائنات کی فطرت بھی فقط ظاہر تک محدود نہیں ہے - در حقیقت کائنات کی ہر شے بشمول فطرتِ انسانی اور ان کی فطرت کی وجہ سے جنم لینے والے افعال و اثرات اللہ تعالیٰ کے تصرفات کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے علم و حکمت کا اظہار فرماتا ہے- کائنات کی کسی شے کی یہ طاقت بالذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے جسے وہ جب چاہے ساقط (Suspend) یا بلکل ختم کر سکتا ہے - آپؒ فرماتے ہیں:

’’تلوار اپنی طبع سے نہیں کاٹ سکتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے کاٹتا ہے اور آگ اپنی طبع سے جلا نہیں سکتی بلکہ اللہ تعالیٰ آگ کے ذریعے سے جلاتا ہے اور کھانا اپنی ذات سے پیٹ نہیں بھرتا بلکہ حق تعالی اسکے ذریعے سے پیٹ بھرتا ہے اور پانی اپنی طبیعت سے سیراب نہیں کرتا بلکہ سیراب کرنے والا حق تعالی ہے اور پانی واسطہ ہے- تمام قسم کے اسباب کا یہی حال ہے کہ حق تعالیٰ ان کے اندر اور ان کے واسطے سے تصرف فرماتا ہے اور اسباب اس کے ہاتھ میں آلہ ہیں کہ ان کے ذریعے جو چاہے کرے‘‘-[42]

اس لیے آپؒ بار بار تاکید فرماتے ہیں کہ انسان کو اسبابِ ظاہری سے گزر کر مسبب الاسباب تک پہنچنا چاہیئے -

’’ساری مخلوق (جمادات، بناتات، حیوانات و انسان) حق تعالیٰ کیلئے اوزار کی مثل ہے اور حق تعالیٰ ان کا کاریگرہے اور ان میں تصرف کرتا ہےپس جس نے اسے سمجھ لیا اس نے اوزار کی پابندی سے رہائی پائی اور ان میں تصرف کرنے والے(اللہ تعالیٰ) پر نگاہ مرکوز کر لی‘‘-[43]

چونکہ نفسِ انسانی اسباب کو استعمال کر کر کے ان کا عادی ہو جاتا ہے اس لیے مسبب الاسباب تک وہی پہنچتا ہے جو اپنی نفسانی طبیعت سے گزر کر روحانی طبیعت کو اُجاگرکرتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’جب تو سبب کے جال کو چاک کرے گا تب خالقِ سبب تک پہنچے گا- جب تو (اپنی ) عادت کے خلاف کرے گا تب تیرے لیے ( حق تعالیٰ کی) عادت (قوانینِ فطرت) کے خلاف کیا جائے گا‘‘-[44]

’’وہی ہے جس نے ہر چیز کے لیے سبب مقرر فرما دیا ہے حکم سبب پر ہی وارد ہوتا ہے جب تو حکم پر عمل کرتا رہے گا تو اس عمل کی حقیقت تک رسائی پائے گا کہ اسباب تجھ سے اس طرح ساقط ہو جائیں گے جس طرح درخت سے پتے ساقط ہو جایا کرتے ہیں- اسباب جاتے رہیں گے اور مسبب کا ظہور ہوگا- چھلکا جاتا رہے گا اور مغز ظاہر ہوگا- مسبب الاسباب سے تعلق رکھنا ہی مغز ہے- وہی اصل ہے وہی درخت کا پھل ہے‘‘-[45]

اخلاقیات: (Ethics)

فلسفے کی اس شاخ میں انسانی افعال کے اچھے یا برے ہونے کے معیارات پر بحث کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر انسانی افعال کو خیر و شر میں منقسم کیا جاتا ہے-

1-خیر و شر کا معیار: (Criterion of Good & Bad)

مغربی فلاسفہ نے خیر و شر کو جانچنے کیلئے کئی معیارات پیش کیے ہیں جن میں سے درج ذیل اس وقت مختلف مغربی ممالک میں رائج ہیں جن کی بنیاد پر قانون سازی بھی عمل میں لائی جاتی ہے-

نظریہ افادیت پسندی(Utilitarianism): اس نظریے کے مطابق اخلاقیات کا مقصد دنیا میں خوشی اور تسکین کی مقدار کو بڑھا کر اور دُکھ اور تکالیف کی مقدار کو کم کرکے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے- لہٰذا جو اعمال لوگوں کی اکثریت کو زیادہ سے زیادہ خوشی اور کم سے کم دُکھ اور تکالیف دیں وہ اچھے اعمال ہیں - جو اعمال اس کے برعکس ہیں وہ سب بُرے اعمال ہیں-[46] یعنی یہ نظریہ بالکل نفسانی تسکین اور دنیاوی عیش و عشرت کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جو کہ مغربی فلاسفہ کے نظریۂ انسان کے عین مطابق ہے-

Virtue Ethics: اس نظریے کے مطابق اخلاقیات کا مقصد انسانی کردار میں ان خصوصیات کو پیدا کرنا ہے جو انسانی معاشرے کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہیں - فلاسفہ نے سات سے دس تک ایسی صفات بتائی ہیں جو کہ ہر انسان میں ہونا ضروری ہے لیکن یہ صفات کیسے پیدا ہونگی اس کے لئے کوئی ایک منظم طریقہ کار نہیں دیا - [47]

Deontological Ethics: اس نظریے کے مطابق اعمال اچھے یا بُرے کسی طے شدہ قوانین کے مطابق ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا ہر کسی پر لازم ہے- لیکن اس نظریے کے ماننے والوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ قوانین کسی خدا کے نہیں ہونگے بلکہ انسانی عقل اس قابل ہے کہ ایسے قوانین وضع کر سکے- [48]

محترم قارئین! ذرا غور کریں کہ نظریہ حقیقتِ انسان و مقصدِ حیات کا انسانی زندگی سے کتنا گہرا تعلق ہے- چونکہ مغربی فلسفےکے نزدیک انسان ایک حیوان کی طرح ہی ہے اس لیے ان کے اخلاقی نظریات میں تسکینِ نفس ایک قدرِ مشترک ہے اور ان کا مقصدِ حیات بھی فقط نفس پروری رہ جاتا ہے جبکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے نزدیک مقصدِ حیات ان حیوانی و نفسانی خصائل کو مغلوب کر کے صفاتِ الہیہ پیدا کرنا ہے جس سے انسان تمام عالم کیلئے باعث خیر بن جاتا ہے- چونکہ یہ محنت طلب کام ہے جس میں نفس کی مخالفت کرنا پڑتی ہے اس لیے لوگوں کی اکثریت ہمیں اخلاق کے اس مرتبے سے عاری نظر آتی ہے کیونکہ اس طریق میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو انسانی معاشرے کی بھٹی میں ڈال کر قضا و قدر کی ایسی ضربیں لگاتا ہے کہ وہ کندن بن جاتے ہیں- آپؒ فرماتے ہیں:

’’ولایت کا نتیجہ وجود میں اخلاق الہیہ کی نمود ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے اخلاق الہیہ سے متخلق ہو جاؤ چنانچہ صفات بشری کا لباس اتار کر صفت الٰہی کا لباس پہننا ہے‘‘-[49]

اللہ کے ایسے بندے ہر وقت رضائے الٰہی کے طالب رہتے ہیں اور ہمہ قسم مخلوقِ خدا کے خادم بن جاتے ہیں - اس لیے آپؒ معیارِ خیر و شر کو ایک مختصر اور جامع انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’پس خیر وہ ہے جو تجھے اللہ سے قریب کرے اور شر وہ ہے جو تجھے اللہ سے دور کرے‘‘-[50]

حضرت شیخ اس نظریۂ اخلاق کو بنیاد بنا کر انسانی معاشرے کو ایسے رہنما اصول وضع فرماتے ہیں جن پر عمل کرنے والے معاشرے قربِ الٰہی سے مستفیض ہو کر باعثِ خیر بن جائیں اور مخلوقِ خدا کو اللہ کا کنبہ سمجھ کر اس پر مہربان ہو جائیں- آپؒ نے اپنی زندگی میں ایسے کئی نفوسِ قدسیہ کو تیار فرمایا جنہوں نے موجودہ مشہور سلاسِل طریقت کی بنیاد رکھی - ان کے کردارکی مثال کیلئے یہی کہنا کافی ہے کہ ایک طرف آپؒ کے فیض یافتہ بزرگوں نے تہذیب و انسانیت سے بے بہرہ منگولوں کو حلقہ بگوشِ اسلام کر کے مسلمانوں کو ان کے فتنے سے نجات دی تو دوسری طرف آپؒ کےمریدین نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی کمان میں صلیبی لشکروں کو شکست دینے کے باوجود ان سے صلہ رحمی کا برتاؤ کیا - [51]

2- مسئلہ خیر و شر: (Theodicy)

مسئلہ خیر و شر فلسفہ کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جسے مغربی فلسفے میں Theodicy کا نام دیا جاتا ہے- یہ در حقیقت ملحدین فلاسفہ کی وجودِ خدا کے نہ ہونے پر ایک دلیل بھی سمجھی جاتی ہے- ملحدین فلاسفہ کا اعتراض یہ ہے کہ اگر کائنات میں کوئی ایسا خدا موجود ہے جو قادر مطلق اور منبع خیر ہے تو پھر جہان میں برائی و شر کا وجود کیونکر ہے ؟[52] اس سوال کے جنم لینے کی اصل وجہ وجودِ خدا کے قائل فلاسفہ کا نظریہ خدا ہے جس کے مطابق خدا تعالیٰ چونکہ منبع خیر ہے تو اس لیے وہ فقط خیر کا خالق ہے اور شر سے اسے کوئی نسبت نہیں ہے -[53]

فلاسفہ وجودِ خدا سے متعلق چونکہ عقلی طریقِ استدلال کے قائل ہیں اس لیے ان کی عقل یہی بتلاتی ہے کہ منبع خیر سے فقط خیر کا ہی ظہور ہو سکتا ہے- لیکن یہاں ایک انتہائی لطیف نقطہ ہے جسے اہل فقر و عرفان کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکا کیونکہ اس کا ادراک حسِ روحانی کے سوا ممکن نہیں- یہاں آ کر اسلامی تصوف اور یونانی فلسفہ صدور(Theory of Emanation) میں فرق واضح ہوجاتا ہے کہ ظہور حق تعالیٰ ذاتی نہیں بلکہ علمی ہے- اس غلطی کی وجہ سے یونانی فلسفے کا خدا اپنی ذات میں محو ہر شے سے ماورا و بے خبر و بے اختیار بن جاتا ہے جبکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کا رب علیم و حکیم ثابت ہوتا ہے جو بیک وقت اس جہان سے ماوارا (Transcendent) بھی ہے اور اس میں جلوہ فرما (Immanent) بھی ہے- وہ اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کے افعال سے حکمت کے چشمے جاری ہوتے ہیں-

شیخ عبدالقادر جیلانی نے اس مسئلے کو اس طرح حل فرمایا ہے کہ اللہ پاک فقط خیر نہیں مگر شر کا بھی خالق ہے - آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’اعتقاد رکھ کہ نقصان اور نفع سب اللہ ہی کی طرف سے ہے اور خیر و شر سب اسی کے ہاتھ میں ہے کہ اس کو وہ مخلوق کے ہاتھوں سے جاری کراد یتا ہے‘‘-[54]

 اس نظریے سے انسانی افعال میں خیر و شر کی تمیز ختم ہونے کا جو ابہام ہوتا ہے اسے دور کرنے کیلئے آپؒ شر کی حقیقت کو دو اقسام میں بیان کر کے واضح فرماتے ہیں- (1) مصائب و تکالیف (2) نفسانی برائیاں- اللہ تعالیٰ مصائب و تکالیف کو اپنے مقبول بندوں کو آزما کر اپنا مزید قرب عطا کرنے اور حدود اللہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے کر اپنی طرف راغب کرنے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’اس زمانے میں بجز خاص افراد کے جو شخص بھی بلا میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس کے لیے عذاب ہے نعمت نہیں ہے اور گناہوں کی سزا ہے زیادتی درجات و کرامات نہیں ہیں- البتہ اہل اللہ جو مبتلا ہوتے ہیں تو اس لیے کہ اللہ کے نزدیک ان کے مراتب بلند ہوں وہ اس کے ساتھ صبر کرتے ہیں اس لیے کہ اسی کی ذات کے طالب ہیں‘‘- [55]

’’اللہ تعالیٰ کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ بندہ مومن پر اس کے ایمان کے مطابق آفت و مصیبت ڈالتا ہے جس شخص کا ایمان جتنا قوی و توانا ہوگا اس پر بلا بھی اتنی بڑی نازل ہوگی‘‘-[56]

’’جب نفس محض اتباع ہوس اختیار کرے گا اور لذاتِ نفسانی کا پرستار ہوگا تو اتباع اوامرِ الہی سے مومن کوسوں دور جا پڑے گا اور غفلت و معصیت اس پر طاری ہوگی-ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف مائل اور راغب کرنے اور صراط مستقیم پر راغب کرنے کیلئے اس پر آفات و بلیات نازل کرتا ہے جس سے اس کے قلب و باطن کی فورًا اصلاح ہو جاتی ہے‘‘-[57]

جبکہ نفسانی برائیوں و خصائلِ حیوانی کا منبع نفسِ انسانی ہی ہے جو کہ روحانی بیداری سے ختم ہو جاتی ہیں- اس لئے آپؒ اس کا سختی سے رد کرتے ہوئے تزکیۂ نفس کی بار بار تاکید فرماتے ہیں:

’’نفس تو شر ہی شر ہے مگر جب مجاہدہ میں پڑ کر مطمئنہ بن جاتا ہے تو خیر ہی خیر ہو جاتا ہے‘‘-[58]

اس وضاحت کے بعد مشرق و مغرب کے فلاسفہ اور ان کے پیروکاروں کا وجودِ شر کی بنیاد پر وجودِ خدا پر قیاس آرائیاں در حقیقت ہٹ دھرمی اور نفس پرستی وتوہم پرستی کے سوا کچھ نہیں ہیں-

اختتامیہ:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات پر افضلیت اس وجہ سے بخشی ہے کہ انسان ظاہری و باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی فطری استعداد رکھتا ہے لیکن اس استعداد کا مَحل انسانی روح ہے- اس لیے شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ بیداری روح و معرفت حق تعالیٰ ہے جس کے بغیر انسان نفس کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا- نفسانی مقام پر انسان کے علم و فکر کا مقصد بھی نفسانی و مادی تسکین رہ جاتا ہے جس کی انتہا یہ ہے کہ فرد انفرادی طور پر اور معاشرہ اجتماعی طور پر بے سکونی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے- اس دور میں انسان نے علم و تحقیق کو ذریعہ معاش بنا کر فقط علمِ ظاہرحاصِل کر کے روحانی علوم کو سراسر فراموش کر دیا ہے- جس کا نتیجہ آئے روز بڑھتی ہوئی نفسانیت و حیوانیت سے لبریز مادیت پرستی (Materialism) ہے جو اس وقت شرق و غرب میں پھیل چکی ہے- انسانی زندگی اور اس کی اقدار کو سرِعام پامال کیا جا رہا ہے اور لوگوں میں چھپی ہوس اور درندگی نئے نئے واقعات کی صورت میں منظر ِ عام پر آ رہی ہے- لہٰذا اس پُر فتن دور میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات و طریق تحقیق مشعلِ راہ ہے جو اس حیوانیت و نفسانیت پر قابو پا کر انسان کو روحانی مشاہدات سے تسکینِ دل و روح عطا کر سکتی ہیں جس کی بنیاد پر ایک مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جس میں انسان اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر سکتا ہے- جیسا کہ اقبال نے کہا:

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پا مردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

٭٭٭



[1]https://www.britannica.com/topic/philosophy

[2]( آلِ عمران: 164)

[3]https://plato.stanford.edu/entries/human-nature/

[4]( سر الاسرار ، ص :21)

[5](سر الاسرار، ص:23)

[6]( سرالاسرار، ص :55)

[7]( سرالاسرار، ص :83)

[8](فتح الربانی، مجلس سوم)

[9]https://open.library.okstate.edu/introphilosophy/chapter/an-introduction-to-western-epistemology/

[10]Studies in Muslim Philosophy by M.Saeed Sheikh, p-67.

[11](سر الاسرار ،ص :25)

[12](سر الاسرار ص :95)

[13]( شمس العارفین : ص 53)

[14]( الفتوحات المکیہ: ص : 153)

[15](زبدۃ الحقائق: ص 53)

[16]( تجدیدِ فکریاتِ اسلام: ص 32)

[17]( سرالاسرار ،ص:63)

[18]( سر الاسرار،ص: 65)

[19]( الفتح الربانی: ص 35)

[20]( الفتح الربانی: ص 94)

[21]https://iep.utm.edu/god-west/

[22](سر الاسرار، ص: 113)

[23]( سر الاسرار، ص: 195)

[24]( فتوح الغیب: ص 33)

[25]https://users.drew.edu/~jlenz/whynot.html

[26](فتوح الغیب: ص 90)

[27]( الفتح الربانی)

[28](سر الاسرار،ص: 23)

[29]( سر الاسرار: ص 27)

[30]https://thomas-oppong.medium.com/jean-paul-sartre-existence-precedes-essence-experience-life-on-your-own-terms-21f2a09d32f5

[31](سرالاسرار: ص 39)

[32]https://iep.utm.edu/freewill/

[33](فتوح الغیب،ص: 37)

[34]( سر الاسرار، ص: 117)

[35](الفتح الربانی: ص 133)

[36](الفتح الربانی: ص 227)

[37]http://www.muslimphilosophy.com/ip/rep/B039

[38](الفتح الربانی، ص :552)

[39]( الفتح الربانی، ص: 42)

[40]( الفتح الربانی، ص: 278)

[41]https://plato.stanford.edu/entries/causation-metaphysics/

[42](الفتح الربانی، ص: 460)

[43](الفتح الربانی،ص :179)

[44]( الفتح الربانی،ص :327)

[45](الفتح الربانی، ص: 514)

[46]https://iep.utm.edu/util-a-r/

[47]https://plato.stanford.edu/entries/ethics-virtue/

[48]https://ethics.org.au/ethics-explainer-deontology/

[49]( سر الاسرار،ص :91)

[50](الفتح الربانی)

[51])Saladin by A.R.Azam, p:48(

[52]https://plato.stanford.edu/entries/evil/

[53]https://www.jstor.org/stable/20129216

[54](الفتح الربانی، ص: 343)

[55](الفتح الربانی، ص: 89)

[56]( فتوح الغیب،ص :64)

[57]( فتوح الغیب، ص: 65)

[58]( الفتح الربانی، ص: 10)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر