انسان اپنے اچھے اخلاق اور کردار سے پہچانا جاتا ہے- اخلاق اور سمجھ انسان کو باقی مخلوق سے امتیاز کرتی ہیں- انسانیت کی عمارت جن اخلاقی ستونوں پر قائم ہے ان میں ذاتی احتساب، معاشرتی بہبود، بھائی چارہ، ایثار و محبت شامل ہیں-دنیا جس طرح تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ہے وہیں اتنی ہی پھرتی سے بے راہ روی،احساس کی کمی، نفسا نفسی اور اخلاقی انحطاط بھی دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے-معاشرے کو سنوارنے میں ہمیشہ ان اشخاص کا کلیدی کردار رہا ہے جنہوں نےہر انسان کو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر جانا ہے اور ہر بھید بھاؤ بالاتر ہوکر انسانیت کے ترازو پر تولہ ہے-اسلام کا تصورِ انسانیت بھی اسی پر قائم ہے جسے حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے خطبہ حجۃ الوداع میں پیش فرمایا تھا-
خالقِ حقیقی ازل سے ہر دور میں ایسے لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو معاشرے میں انہی نیک اعمال کے عَلم بردار ہوتے ہیں- خاتم النبیین کی امت میں سے اولیاء کاملین نے معلمِ اخلاق (ﷺ) کی رِیت کو جاوداں رکھا ہے- سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی علیہ الرحمہ انہی ستاروں میں سے ہیں جن کی زندگی رسالتِ مآب (ﷺ) اور آل و اصحاب (رض) کی پیروی کرتے گزری-آج ہم من حیث القوم مجموعی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں- چہ مسلم چہ کافر اخلاق کی قحط سالی ہر سو پھیلی ہوئی ہے-
زیرِ مطالعہ مقالہ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کی تعلیمات سے اخذ کردہ چند اقتباسات پر مبنی ہے جن سے ہمیں عصرِ حاضرمیں اخلاقی انحطاط کا قلع قمع کرنے کی راہیں میسر ہوسکتی ہیں-
صبروشکر ہزار دولت ہے:
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمَوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ‘‘[1]
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں- جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی ﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں‘‘-
معاشی تنگی، ذہنی پریشانی جیسے مسائل میں جو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اس کےلئے کامیابی ہے-صبر کرنے سے وجود میں توکل الی اللہ پیدا ہوتا ہے اور انسان مخلوقِ خدا پر رحم کرتا ہے- آپ فرماتے ہیں:
’’ارشاد ہے:
’’وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘
’’جس نے اللہ پر بھروسہ کیا، تو اُسے وہی کافی ہے‘‘-
چنانچہ تم اپنے صبر و توکل کی بدولت محسنین میں ہو جاؤ گے- بیشک اللہ نے محسنین کی جزاء کا تم سے وعدہ فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے:
وَكَذٰلِكَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِيْنَ
’’ہم یونہی احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں ‘‘-
اور بایں سبب اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب بنا لے گا، اس لیے کہ اُس کا ارشاد ہے:
’’اَنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنیْنَ‘‘
’’اللہ تعالیٰ محسنوں کو محبوب بنالیتا ہے‘‘-
اب تو معلوم ہو گیا کہ صبر دنیا و آخرت میں ہر نیکی و سلامتی کی اصل و بنیاد ہے- [2]
حضور سیدنا غوث الاعظم (رح) نے صبر کرنے والے کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو اُن کا پورا اجر بےشمار دیا جائےگا اللہ پاک سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اس کی نظر کے سامنے ہے جو کچھ بھی برداشت کر نیوالے اس کی وجہ سے برداشت کرتے ہیں، اس کے ساتھ ایک ساعت کے لئے صبر کرو کہ بر س ہا برس اس کے لطف انعام کو دیکھتے رہو گے ایک ساعت کا صبر ہی تو شجاعت ہے‘‘- [3]
جو مشکالات پر صبر اختیار کرےوہ کمزور نہیں بلکہ دلیر اور بہادر ہے- آپؒ فرماتے ہیں:
’’اہل اللہ تمنائیں کرتے ہیں کہ تکالیفِ خداوندی سے کبھی خالی نہ رہیں -وہ جانتے ہیں کہ اس کی تکلیف اور اس کے قضاؤ قدر پر صابر رہنے میں دنیا اور آخرت کی بہت کچھ بھلائی ہے-وہ موافقت کرتے ہیں حق تعالیٰ کی اس کے تصّرفات اور اس کی تبدیلیوں میں- وہ کبھی صبر میں ہیں اور کبھی شکر میں کبھی قرب میں اور کبھی بعد میں کبھی مشقت میں کبھی راحت میں، کبھی تو نگری میں کبھی فقر میں- کبھی عافیت میں اور کبھی مرض میں ان کی ساری آرزو اپنے قلوب کی حق تعالیٰ کے ساتھ حفاظت رکھنا ہے یہی ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہے- تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش ان کو اور ساری مخلوق کو حق تعالیٰ کے ساتھ سلامتی نصیب ہو وہ ہمیشہ حق تعالیٰ سے مخلوق کی بہبودی کا سوال کرتے ہیں ‘‘- [4]
حق گوئی و بےباکی:
حق گوئی ایک بنیادی درس ہے جو آپؒ کواپنے گھر سے ملا اور یہی اخلاق کا بنیادی اور لازم درس ہے جسے قرآن اس طرح بیان فرماتا ہے:
’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ‘‘[5]
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ‘‘-
بچپن میں آپ ؒ کی حق گوئی کی وجہ سے ڈاکوؤں کے ایمان لانے والا واقعہ زبان زدِ عام ہے- آپؒ کی تعلیمات میں جابجا حق گوئی کا حکم ہے- آپؒ فرماتے ہیں:
’’بچو جھوٹی قسم کھانے سے کہ وہ آباد شہروں کو چٹیل بیابان بنا چھوڑتی ہے کہ مال اور دین دونوں کی برکت لے جاتی ہے تجھ پر افسوس کہ اپنی تجارت کو جھوٹی قسم سے رواج دیا اور اپنے دین کا خسارہ اُٹھاتا ہے اگر تجھے عقل ہوتی تو جانتا کہ اصل خسارہ یہی ہے تو کہتا ہے کہ خدا کی قسم اس جیسا مال شہر بھر میں کہیں نہیں اور نہ کسی کے پاس موجود ہے خدا کی قسم یہ اتنے کا ہے اور خداکی قسم مجھ کواتنے میں پڑا ہے حالانکہ تو اپنی ساری گفتگو میں جھوٹا ہے پھر اپنے جھوٹ پر گواہی دیتا اور اللہ عزو جل کی قسم بھی کھاتا ہے کہ میں سچا ہوں- عنقریب وقت آئے گا کہ تو اندھا اور اپاہج ہوگا - خدا تم پر رحم کرے ‘‘-[6]
مخلوقِ خدا کی امداد:
اسلام نے زکوٰۃ و صدقات کا سلسلہ رکھا ہے تاکہ ضرورت مند کی داد رسی ہو سکے- سائل کی مدد کرنا سنتِ نبوی(ﷺ)ہے اور آپؒ نے بھی اس فعل امر پر کافی زور دیا ہے- آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اگر کسی چیز کے دینے کی طاقت ہو خواہ ذرا سی ہو یا بہت سی تو سائل کو واپس نہ کرو- عطا کو محبوب سمجھنے میں حق تعالیٰ کی موافقت کرو اور شکر گزار بنو کہ اُس نے تم کو اس کا اہل بنایا اور عطا پر قدرت بخشی تجھ پر افسوس ہے جبکہ سائل اللہ عزوجل کا ہدیہ ہے- (جو تیرے پاس بھیجا گیا ہے) اور تو اس کو دینے پر قدرت بھی رکھتا ہے- تو ہدیہ کو اُس کے بھیجنے والے پر کس طرح رد کرتا ہے‘‘- [7]
تنگی و پریشانی میں عام انسان کا نفس اس پر غالب ہوتا ہے اور اکثر صحیح اور غلط کی تمیز باقی نہیں رہتی- ضروری ہے کہ صاحبِ توفیق ایسے لوگوں کی امداد کریں کہ بروزِ قیامت ان سے اس متعلق بھی پوچھ گچھ ہوگی- ارشاد ہوتا ہے:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا حق تعالیٰ قیامت کے دن انبیاء اور علماء سے فرمائےگا کہ تم مخلوق کے محافظ تھے پس بتاؤ اپنی رعایا کے متعلق تم نے کیا کیا اور فرمائےگا بادشاہوں اور تونگروں سے کہ تم میرے خزانوں کے خزانچی تھے پس فقراء کے ساتھ میل جول بھی رکھایا نہیں ؟ یتیموں کی پرورش بھی کی اور مال میں سے وہ حق نکالا بھی جو میں نے تمہیں فرض کیا تھا‘‘- [8]
جو لوگ مال کی طمع کرتے ہیں اور صدقات و زکوٰۃ اور غرباء کی امداد سے منع کرتے ہیں- ان کے متعلق حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ شخص جو حق تعالیٰ کے کرم سے آگاہ ہو گیا ہے تو اس کے پاس بخل نہ پائےگا - ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ عزوجل کو پہچان گیا ہے اس کے نزدیک اللہ کے سوا ہر چیز بے قدر بن گئی ہے ،بخل تو خصلت ہے نفس کی ‘‘- [9]
اخلاق دل سے ہےاور نیک دل کبھی بھی خیرات کرتے وقت ڈھنڈورا نہیں پیٹتےبلکہ سفید پوشی کا خیال رکھتے ہیں- حضورغوث پاکؒ فرماتے ہیں:
’’راز کا چھپانا، مصیبتوں، بیماریوں اور خیرات کا مخفی رکھنا منجملہ خوبیوں کے خزانوں کے ہے-اپنے داہنے ہاتھ سے خیرات دے اور کوشش کر کہ اس کی خبر تیرے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو ‘‘- [10]
معاشرے میں خوشحالی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب وہاں کے تمام لوگ ایک دوسرے کااور ضرورت مند کا احساس کریں- آپؒ فرماتے ہیں:
’’بیٹا! روزہ رکھ اور جب افطار کرے تو اپنی افطاری میں سے کچھ فقراء کو بھی دیا کر- تنہا مت کھا کیونکہ جو شخص تنہا کھاتا ہے اور دوسرے کو کھلاتا نہیں اس پر اندیشہ ہے محتاج اور بھیک منگا بن جانے کا-صاحبو! (افسوس کہ ) تم سیر ہو کر کھاتے ہو حالانکہ تمہارے پڑوسی بھو کے ہیں‘‘- [11]
میل ملاپ رکھنا اور اعلیٰ اخلاق اپنانا:
عیب پوشی کوماقبل بیان میں آپؒ نے اخلاقی خزائن میں سے فرمایا ہے-اور آپؒ نے بدلہ، غیبت ، کینہ وغیرہ سے بچنے کا حکم دیا ہے- آپؒ اسی متعلق فرماتے ہیں:
’’بیٹا! دوستوں اور احباب کے ساتھ معاشرت اچھی رکھنی چاہئے- ان سے شِگُفتہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے- جو کچھ، وہ چاہیں ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت نہ کی ہو- اس کے کرنے میں گناہ کا ارتکاب ،شریعت کی مخالفت اور حدود اللہ سے تجاوز نہ ہو- دوستوں سے جھگڑنے کی بجائے ان کا مددگار ہونا چاہئے لیکن شرائط وہی ہوں جو ہم نے بیان کر دی ہیں - دوستوں کی مخالفت پر برداشت کرو- ان کی طرف سے پہنچنے والے دُکھ پر صبر کرو- اُن سے کینہ نہ رکھو- کسی دوست کے متعلق برائی اور کھوٹ دل میں چھپا نہ رکھو- اس کی غیر حاضری میں غیبت نہ کرو بلکہ سامنے بھی بُرا نہ کہو - دوست کی غیر حاضری میں اس پر الزام اور برائی کو دور کرنے کی کوشش کرو اور جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے عیب دوسرے دوستوں سے چھپاؤ- اگر کوئی دوست بیمار ہو جائے تو اس کی بیمار پرسی کے لئے جاؤ - اگر کسی وجہ سے نہ جا سکو تو بعد از صحت اُسے مبارکباد ضرور دو- اگر خود بیمار ہو جاؤ اور کوئی دوست عیادت کے لئے نہ آئے تو انہیں معذور خیال کرو- پھر اگر وہ دوست بیمار ہو جائے تو اُس سے بدلہ نہ لو بلکہ عیادت کیلئے ضرور جاؤ - جو رشتہ توڑے اُس سے رشتہ جوڑو- جو عطا سے محروم رکھے اُس کو دو - جو ظلم کرے اُس سے انصاف کرو- جو برائی کرے اُس کو اپنے دل میں معذور سمجھو اور خود اپنے ہی نفس کو بُرا کہو‘‘- [12]
عصرِ حاضر میں غیبت گوئی فیشن بنتا جا رہا ہے-gossipsکےاسی ٹرینڈ نے لوگوں میں منافرت پیدا کردی ہے- لوگ غیبت گو کی عزت نہیں کرتے اور اس کی باتوں میں صداقت بھی نہیں رہتی- نیز اس متعلق حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں:
’’کیا تو نے جناب رسول الله (ﷺ) کا ارشاد نہیں سنا کہ جو شخص (غیبت کر کے) دن بھر لوگوں کے گوشت کھاتا رہا اس کا روزہ نہیں ہوا- آپ نے بیان فرما دیا کہ کھانا پینا اور افطار کرنے والی چیزوں ہی کے چھوڑنے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ گناہوں کا چھوڑنا بھی اضافہ کرنا چاہئے - پس بچو غیبت سے کہ وہ نیکیوں کو اس طرح کھا لیتی ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا لیتی ہے‘‘- [13]
نرم خو ہونا:
لوگوں سے محبت سے بات کرنا اور بڑوں سے ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا سنتِ نبوی(ﷺ)ہے- اسی کے برعکس تکبر اخلاقِ رذیلہ میں اولیت پر آتا ہے جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسان کو حقیر جانتا ہے جو نفس کی طرف سےہے- آپؒ فرماتے ہیں:
’’ اپنے نفسوں میں تواضع اختیار کرو اور بندگانِ خدا پر تکبّر مت کرو-اپنی غفلتوں سے جاگ اُٹھو کہ تم بڑی گہری غفلت میں ہو گویا کہ تم حساب سے فارغ ہو چکے اور پُل صراط کو عبور کر چکے اور جنّت میں اپنے مکانات دیکھ چکے ہو‘‘- [14]
مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’صاحبو! چھوڑو تکبر کرنا اللہ تعالیٰ پر اور اس کی مخلوق پر اپنی حقیقت کو پہچانو اور تواضع کرو اپنے نفسوں میں تمہاری ابتداء ایک نطفہ ہے جس سے گھن آوے ‘‘- [15]
تکبر اخلاقی انحطاط کی جڑ ہے اور اللہ تعالیٰ کے قہر اور ناراضگی کا باعث ہے جس پر آپؒ نے ارشاد فرمایا:
’’پس لوگ دولت و ثروت کے نشہ میں اس ابدی حقیقت کو فراموش کرتے ہوئے غرور تکبّر اختیار کرلیں اور غفلت و مصیبت میں پڑ جائیں یا غریب و نادار لوگوں کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہوئے اُن سے خلافِ انسانیت سلوک کریں وہ اللہ کے مغضوب و مقہور ٹھہر کر مبتلائے مصائب و آلام کیوں نہ ہوں‘‘-[16]
اسی طرح جس وجود میں حسد آجائے وہ کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوجاتا ہے ، ذاتی جمود پیدا ہوتا ہےاور انسان ترقی نہیں کر پاتا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مرتکب ہوتا ہے- آپ(رح) فرماتے ہیں:
’’پس میں تجھے تیری سلامتی اور فلاح و بہبود کیلئے تاکید کرتا ہوں کہ کسی بھی مسلمان بھائی کی خوشحالی و فارغ البالی کو دیکھ ہرگز حسد نہ کر، بلکہ اُس کی تو نگری و خوشحالی اور ترقی و کامیابی دیکھ کر مسرور مطمئن ہو اور نہایت فراخ دلی کے ساتھ اُسے مُبارک باد دے، اِس طرز عمل سے اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے رضامند ہوگا اور اپنی گوناگوں نعمتیں تجھ پر وسیع و بسیط کر دے گا‘‘- [17]
اسلام نے نیک اخلاق کی بنیاد کا کلیہ درستگئ قلب سے مشروط فرمایا ہے-آپؒ اسی بابت فرماتے ہیں:
’’جب قلب صحیح بن جاتا ہے تو مخلوق پر شفقت اور ترس کھانے سے لبریز ہو جاتا ہے ‘‘- [18]
تعصب سے پرہیز کرنا:
آج اخلاقی پستی کی وجہ سے ہم دوسروں کے عقائد، ذات پات، زبان، نسل، ثقافت وغیرہ پر شدید الفاظ کستے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں- دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات، قرآن مجید کی توہین، آقا کریم (ﷺ) اور انبیاء (ع)کی ذواتِ مقدسات پر لغو گوئی اسی تعصب کا نتیجہ ہے- حضورغوث پاکؒ تعصب کے خاتمے کا درس دیتے ہیں:
’’مذہب کے بارے میں تعصب کو چھوڑ (اپنے امام کے سوا دوسروں پرطعن کرنے لگے)اور مشغول ہو ایسے کام میں جو تجھ کو فائدہ پہنچائے دنیا اور آخرت میں عنقریب تو اپنا انجام دیکھ لے گا‘‘- [19]
احترامِ انسان :
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے- ہر انسان خواہ وہ کلمہ گو ہے یا کافر یا حتیٰ کہ قدرتِ الٰہی کو بالکل بھی تسلیم نہیں کرتا وہ مخلوقِ خدا ہے- لہٰذا جب بھی کسی انسان سے بات کی جائے تو انداز اور الفاظ کا چناؤ مناسب ہو جس سے سامنے والی کی تضحیک نہ ہو-کیونکہ حضور رسالتِ مآب خاتم النبیین (ﷺ)”معلمِ اخلاق“ ہیں- اسلام سراپا اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے-احترامِ انسانیت اول ہے- حضور غوث پاکؒ فرماتے ہیں:
’’کسی کو ہرگز ہرگز یہ نہ کہو کہ اے تَہی د ست، اور اے وہ شخص جس سے دنیا اور اہل دنیا نے منہ پھیر لیا ہے- یا اے گمنام، یا اے بھوکے پیاسے، یا اے برہنہ تن، یا اے تفتہ جگر، یا اے پرا گندہ حال جو کسی زمین کے گوشہ یا مسجدوں وویراں جگہ میں پڑا ہوا ہو، اور ہر دروازہ سے دھتکارا ہوا ہو، اور وہ ہر مراد سے دور، شکستہ دل اور اس کے دل میں ہر حاجت و مراد کا اثر دحام ہو- (مطلب یہ کہ جس شخص کو ایسے حال میں مبتلاء دیکھو، اسے از راہ تحقیر و تذلیل ان الفاظ سے نہ پکارو‘‘- [20]
ادب و اخلاق کا تعلق دو اہم نکات میں موجود ہے اور ان پر عمل کرکے ہم عصرِ حاضر میں اخلاقی انحطاط سے نکل سکتے ہیں- حضور غوث الاعظمؒ اس متعلق فرماتے ہیں:
’’ایک بزرگ نے فرمایا ہے کہ”ساری بھلائی دو باتوں کے اندر ہے یعنی حق تعالیٰ کے حکم کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اس کی مخلوق پر شفقت کرنا“-ہر وہ شخص جو حق تعالیٰ کے حکم کی عظمت نہ کرے اور اللہ کی مخلوق پر شفقت نہ رکھے وہ اللہ سے دور ہے- ‘‘- [21]
حرفِ آخر:
عصرِ حاضرمیں اخلاقی انحطاط کے خاتمے کی خاطرہمیں دوبارہ اسلاف کے طریق کو اختیار کرنا ہوگا- اخلاق کا درس محبت و اخوت کا پیغام ہےاور یہی درس اور پیغام جملہ اولیاءاللہ نے مخلوقِ خدا تک پہنچایا ہے-بالخصوص وہ تمام اشخاص جو سیدنا غوث الاعظمؒ کی نسبت سے خود کو منسلک کیے ہوئے ہیں ان پر لازم ہے کہ فقط زبانی کلامی عقیدت کی بجائے اپنے وجود کو ان کے اس طریقِ عمل اور کردار کے نمونے میں ڈھالیں، ان کی تعلیمات و تلقین کا لبادہ اپنے تن اور من پر اوڑھیں تا کہ ہمارے وجود سے آقا کریم (ﷺ) کے اخلاق، محبت و شریعت کی خوشبو آئے-
٭٭٭
[1](البقرۃ:155-156)
[2](فتوحُ الغیب شرح الغیب،مقالہ سی ام،ص:98-99)
[3]( فتح الباری ، ص:11،مجلس :1)
[4]( فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربّانی، مجلس:18، ص: 128)
[5]( التوبہ: 129)
[6]( فتوح الغیب، مجلس: 14 ،ص: 88)
[7]( الفتح الربانی، ص:32،مجلس:1)
[8](فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،ص:72)
[9]( الفتح الربانی ، مجلس : 14 ، ص: 107)
[10](الفتح الربانی ، ص:35)
[11]( فتح ربانی،ص:130)
[12]( ملفوظات غوث اعظم، ص: 23-24)
[13]( فتوح الغیب، مجلس: 14 ،ص:87)
[14]( فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الرّبانی،مجلس:20،ص:143)
[15]( فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الرّبانی،مجلس:6،ص:56)
[16](فتوح الغیب، ص:119)
[17]( فتوح الغیب ،ص: 104)
[18]( الفتح الربانی ، مجلس:14،ص : 105)
[19]( فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربّانی،مجلس :3، ص: 34)
[20]( فتوحُ الغیب شرح الغیب،مقالہ بست و پنجم،ص:82)
[21]( فیوض یزدانی الفتح الربّانی،مجلس:23،ص:128-129)