عصر حاضر، تصوف اور اخلاقیات: افکارِشیخ عبدالقادر جیلانی کی روشنی میں

عصر حاضر، تصوف اور اخلاقیات:  افکارِشیخ عبدالقادر جیلانی کی روشنی میں

عصر حاضر، تصوف اور اخلاقیات: افکارِشیخ عبدالقادر جیلانی کی روشنی میں

مصنف: ڈاکٹر عنبرین یسیٰن خان نومبر 2023

ترقی پسند لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ مادی ترقی کے ساتھ صوفی ازم دم توڑ دے گا مگر یہ آج کے دور میں بھی اتنا ہی سراہا جاتا ہے جتنا کسی بھی دور میں سراہا جاتا رہا ہوگا بلکہ اب سوشل میڈیا کے دور میں مرشد اور طالب کا رابطہ اور بھی بڑھ گیا ہے- ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس کا حصہ بن رہے ہیں اور یہ اسلام کا ایک اہم مکتبۂ فکر بن کر ابھر رہا ہے- صوفیاء اپنے مریدوں سے کچھ طلب نہیں کرتے سوائے انسانی خدمت کے- یہ انسانی اقدار کی بہترین تصویر پیش کرتے ہیں اور مادی دور میں بھی اخلاقی بیداری پر زور دیتے ہیں-روحانی معاملات پر توجہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق کی پاسداری پر بہت زور دیتے ہیں- صوفیاء اجتہاد کا پرچار کرتے ہیں تاکہ اسلام کی بنیادی اصولوں اور موجودہ دور میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے-صوفی ازم کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قُدرت کی نمائندگی کرتی ہے اس لیے ہر شے قابل قدر ہے-

شیخ عبد القادر جیلانی اپنی کتاب ’’سر الاسرار‘‘ میں بارہا اخلاقیات اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں- اگر ان سب عوامل کا بغور جائزہ لیں تو یہ موجودہ دور کے نظریہ ’’virtue ethics‘‘ سے بہت مماثلت رکھتے ہیں خاص طور پر اس کے agent based virtue کے نقطۂ نظر سے بہت قریب ہیں جس میں کوئی بھی اچھائی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کے برعکس کرنا مناسب نہیں -نہ یہ کسی سزا کے خوف سے کی جاتی ہے اور نہ ہی محض ذاتی تسکین کے لیے- شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ جو لوگ گناہوں سے خوف کی وجہ سے توبہ کرتے ہیں ان کی توبہ ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے باغ میں سے خودرو گھاس کی محض شاخیں کاٹے اور اس کی جڑیں ختم نہ کرے- صوفی ازم برائی سے نفرت سکھاتا ہے- ایک کامل تائب کی مثل ایسی ہے جیسے کوئی شخص خودرو گھاس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے- غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی توبہ کبھی کامل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے دل سے حسد، بغض اور کینہ جیسی برائیوں کو ختم نہ کرے- اگر توبہ کے بعد دوسروں کو ایذا دینے والی خصلتیں مثلا گالی گلوچ اور غیبت بہتان اپنی جگہ قائم ہے تو توبہ بھی خدا کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں-توبہ کی دو اقسام ہیں توبہ ظاہری اور توبہ باطنی- توبہ ظاہری اعضا کی برائیوں سے توبہ ہے اور توبہ باطنی اوصاف ضمیمہ کے اوصاف حمیدہ میں بدل جانے کو کہتے ہیں- اسی طرح دعوت دین کیلئے بھی غوث الاعظم نے اخلاقیات اور مواعظ حسنہ پر زور دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ عالم علم و ادب سے وعظ کرتا ہے اور جاہل مار پیٹ سے کام لیتا ہے-

معاشرے کی سدھار کے لیے غوث الاعظمؒ نے حضور  پاک (ﷺ) کی کچھ احادیث کو بیان کیا ہے جو کچھ یوں ہیں کہ (1) کبر اور عُجُب ایمان کو تباہ کر دیتے ہیں (2) غیبت زنا سے بڑھ کر گناہ ہے (3) حسد نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے گناہ لکڑیوں کو (4) سوئے ہوئے فتنے کو جگانے والے پر اللہ کی لعنت ہے (5) بخیل جنت میں ہر گز نہیں جائے گا خواہ وہ عابد ہی ہو (6) ریا شرک خفی ہے اور ریا  کا مرتکب کفر کا مرتکب ہے (7) چغل خور ہرگز جنت میں نہیں جائے گا-

 سیدی شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنی تصنیف ِلطیف ’’سر الاسرار ‘‘ میں فرما یا کہ سعید کی چار علامات ہیں جب اسے امین بنایا جائے تو عدل کرتا ہے ،کسی سے وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے، گفتگو کرے تو سچ بولتا ہے اور کسی سے جھگڑے تو گالم گلوچ نہیں کرتا اور اسی سے متصل آپ فرماتے ہیں :

 

 

’’علامۃ الشقی اربعۃ اذا تمن خان ، و اذا عاھد اخلف ، و اذاتکلم کذب ، واذا خاصم شتم ولا یعف عن زلۃ اخوانہ لان العفو ھو اجل خصائل الدین ‘‘

’’شقی کی بھی چار علامات ہیں جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے ،جب کسی سے وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا ، جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ کرتا ہے اور اپنے بھائیوں کی لغزیشوں کو معاف نہیں کرتا حالانکہ عفودر گزر سے کام لینا دینِ اسلام کی عظیم خوبی ہے ‘‘-

ان احادیث کا agent based virtue کے نظریے سے جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ اخلاقیات کا بنیادی پیمانہ یہی ہے کہ اچھائی اور برائی کو بلحاظ اچھائی اور برائی زمان و مکان کی قید سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے- کوئی شخص خود کو ایمان کے کتنے ہی اعلی معیار پر گردانے اگر اس میں غرور ہے تو اس کا ایمان خالص نہیں رہے گا- غیبت جو کہ ایک سماجی برائی ہے اس کو زنا سے برا قرار دیا گیا ہے تاکہ لوگ یہ سمجھ سکیں گے دوسروں کو ایذا دینا زیادہ برا ہے بہ نسبت ایسے گناہوں سے جس کا تعلق محض انسان کی اپنی ذات سے ہے -اسی طرح حسد اور چغل خوری جیسی برائیوں کو بھی ناپسند کیا گیا ہے جو کہ سراسر دوسروں کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں-

علم و عرفان اور فقرکی اس دولت سے کسی زمانے اور کسی دور کو محروم نہیں رکھا گیا صوفیائے کرام نے ہر دور میں اس کی عملی تفسیر پیش فرمائی مادیت کے اس دور ِ جدید میں قدامت پسنداورمادہ پرست لوگوں کا زعم باطل تھا کہ صوفیانہ نقطہ ِ نظر دم توڑ جائے گا مگر انہیں کیا خبر تھی کہ یہ فکر کسی دنیوی پودے سے نہیں پھوٹی بلکہ اس کا آغاز تو ہزاروں صدیاں قبل انسانی وجود کی تخلیق سے پہلے ارواحِ انسانی سے ’’الست بربکم‘‘ کے سوال اور ’’قالوا بلیٰ شھدنا‘‘کے جواب سے ہو چکا تھا اور جب تک اس کائنات میں دل سے اللہ کا ذکر کرنے والا ایک بھی فرد موجود رہے گا قیامت قائم نہیں ہو گی یہی صوفی ازم کے قیامت تک باقی رہنے کی دلیل ہے -  یاد رکھنا چاہئے کہ تصوف ایک الگ طبقہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی روح ہے ، جنہوں نے بھی اس راہ کو اختیار کیا وہی در حقیقت اسلام کی حقیقی تعلیمات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں ۔ یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جو دین اسلام میں درخشندہ ستارے کا کردار ادا کرتے ہیں جن کے دم قدم سے روشنیاں پھوٹتی ہیں- وہ سارے منارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں اور لوگوں میں محبتیں بانٹنے کے ساتھ اوصاف حمیدہ پیدا کرتے ہیں اور خصائل رذیلہ سے دور رکھتے ہیں- جیساکہ امام غزالی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر علمی وعملی ،فنی و تحقیقی ، ادبی و اخلاقی زندگی کا ماحاصل یہ اخذکیا ہے کہ:

میں نے جانا کہ یقیناً بے شک صوفیائے کرام ہی اللہ کے راستے پر بطورِ خاص چلنے والے ہیں اور بے شک ان کی سیرت سب سے اچھی سیرت ہےاور ان کا طریق تمام طریقوں سے درست ہے ان کا اخلاق سب سے پاکیزہ اخلاق ہے-بلکہ اگر تمام عقل والوں کی عقل کو اور تمام فلسفیوں کے فلسفہ کی حکمتوں کو جمع کیا جائے اور شریعت کے اسرار و رموز سے واقف علماء کرام اگر ان صوفیاء کے اخلاق اور سیرت سے کچھ تبدیلی کرنا چاہیں اور اس سے بہتر لانا چاہیں تو اس طرف کوئی راستہ نہیں پائیں گے بے شک صوفیاء کی تمام تر حرکات و سکنات چاہے ان کی ظاہری اور باطنی ہوں یہ سب مشکاۃ نبوت کے نور سے لی گئی ہیں اور روئے زمین پر نور نبوت سے بڑھ کر کوئی نور روشن(فیض بخشنے والا) نہیں ‘‘ -[1]

 

 

پس اگر ہم معاشرے میں صوفیانہ تعلیمات کو جدید نظریاتی بنیادوں پر جانچیں تو یہ آج بھی اتنی ہی قابل عمل ہیں جتنی کسی بھی دور میں رہی ہوں گی- مگر یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ آج کے دور میں ان پر عمل درآمد کی ضرورت ماضی کے ہر دور سے قدرے زیادہ ہے کیونکہ یہ دور اخلاقی پستی کا شکار ہے اور صرف صوفیانہ تعلیمات پر عمل ہی اس پستی سے نکلنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے-حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو صوفی ازم جتنا پہلے موثر تھا تو اس مادیت پرست دور میں آج بھی اتنا ہی موثر ہے بلکہ اس سائنسی دور میں موبائل ایجاد نے تو خاص طور پر جس بات کو سمجھنا مشکل تھا کہ کیسے ایک مرشد اپنے مرید طالب مولیٰ کو سینے سے لگا کر فیضان الٰہی کو منتقل کردیتا ہے اور ہزاروں میل دوربیٹھ کر کیسے ایک طالب صادق پر نظر توجہ کرسکتا ہے تو مقام غور ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کا ہمارے موبائل کی سکرین پر نظر آنا اور whatsapp کے ذریعے audios اور videos کے ذریعے پیغامات کا موصول ہونا اور bluetooth یا zarux کے ذریعے ایک موبائل سے چیزوں کا دوسرے موبائل میں منتقل ہونا مرشد کا طالب میں فیض منتقل کرنے کی عکاسی ہے ،یا نہیں-بس شرط یہ ہے کہ number اور connection درست ہو -تو ابھی مرشد اور طالب کے دلوں کا آپس میں connection ضروری ہے - یہ جو طالب کو تزکیہ نفس اور مجاہدایت کی بھٹی سے گزارا جا تاہے اُس کا مقصد بھی یہی ہوتاہے کہ طالب کے دل کا ربط مرشد کے دل کے ساتھ قائم ہوجائے اور اُس کا دل اس قابل ہوجائے کہ وہ فیضان الٰہی اور فیضان نبوی (ﷺ) کو قبول کرسکے تو جب طالب کے دل کاربط مرشد کے دل کے ساتھ ہوجاتا ہے تو مرشدکو چاہیے اُسے سینے سے لگائے یا پھر نگاہ سے توجہ کرے تووہ فیضان طالب مولیٰ کے دل میں اترجاتا ہے تو پھر وہ دونوں ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتےہیں -پھر وہ طالب اپنے اندر سے اللہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ دل ہی تو وہ مرکز ہے جہاں سے انوار پھوٹتے ہیں - اس لیے تو حضور غوث پاکؒ فرماتےہیں ،کہ انسان کا دل ایک آئینہ ہے جس میں جمال الٰہی کا عکس نظر آتاہے اورجمال الٰہی کا یہ مشاہدہ کسی شیخ واصل بااللہ کی تلقین ہی سے حاصل ہوتاہے -[2]

پھر اُس فیض یافتہ طالب کا شمار اولیاء اللہ میں ہوتاہے اور وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ وہ اپنے مرشد اکمل کی طرح دعوت الی اللہ دے پھر وہ دن رات معاشرے کی تہذیب و تمدن میں اپنا کردار اداکرتا ہے اور معاشرے کو اُن کی اخلاقی پستیوں سے نکال کرایک پُر امن، باوقار اور ایک فلاحی معاشرہ بنا دیتا ہے اور لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرکے اور اُن کی روحانیت بیدار کرکے اللہ کے قریب کردیتاہے گویا کہ وہ بندہ اللہ کا نمائندہ بن کر معاشرے میں زندگی گزارتاہے اور یہی تصوف کی حقیقت ہے -اسی بناپرغوث الاعظم فرماتے ہیں کہ جو اللہ کا ولی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی زمین کا خوشبودار پھول ہے جسےاہل تصدیق سونگھتے ہیں تو اُن کے دلوں میں شوق الٰہی موجزن ہوجاتاہے اُن کی عبادت اُن کے اخلاق و درجہ فنا کے مطابق بڑھ جاتاہے کیونکہ جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُن کی قربت بڑھتی ہے اُسی قدر اُن کا مرتبہ فنا بڑھتاہے -[3]

٭٭٭



[1]( مجموعہ رسائل امام الغزالی، ص:62)

[2](سرالاسرار ،ص:74)

[3]( سرالاسرار،ص:42)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر