﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
الشیخ القُدوَہ ابو الحسن علی بن الھیئتی نے یہ کہتے ہوئے خبر دی کہ
﴿زُرْتُ مَعَ سَیِّدِی الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَ الشَّیْخِ بَقَا بْنِ بُطُو قَبْرَ الْاِمَامِ اَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ فَشَھِدْتُہُ خَرَجَ مِنْ قَبْرِہٰ وَ ضَمَّ الشَّیْخَ، عَبْدَ الْقَادِرِ اِلٰی صَدْرِہٰ وَ اَلْبَسَہ، خِلْعَۃً وَّ قَالَ یَا شَیْخٌ ، عَبْدَ الْقَادِرِ قَدْ اَفْتَقِرُ اِلَیْکَ فِیْ عِلْمِ الشَّرِیْعَۃِ وَ عِلْمِ الطَّرِیْقَۃِ وَ عِلْمِ الْحَالِ وَ فِعْلِ الْحَالِ- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ﴾
’’میں نے سیّدی شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اور شیخ بقا بن بُطو کے ہمراہ امام احمد بن حنبل کے مزار کی زیارت کی- رضی اللہ عنہم اجمعین- میں نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبل اپنی قبر سے باہر تشریف لائے اور شیخ عبد القادر کو اپنے سینے سے لگایا- آپ کو خلعت پہنائی اور فرمایا: ’اے شیخ عبد القادر! مجھے ﴿مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لیے﴾ علمِ شریعت ، علمِ طریقت ، علمِ حال اور عملِ حال ﴿کے اجرا﴾ میں تمہاری ضرورت ہے-‘‘
قابلِ صد احترام ابو عبد اللہ محمد بن الشیخ ابو العباس الخضر الحسینی الموصلی نے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:-
’’ مَیں نے اپنے والد محترم کو یہ بات کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں ، مَیں نے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسہ کو بہت بڑے وسیع میدان میں دیکھا جس میں خشکی و تری کے تمام مشائخ موجود تھے اور شیخ محی الدین ان کی صدارت فرما رہے تھے- مشائخ میں سے جن کے سروں پر عمامے تھے وہ بہت بڑی تعداد میں تھے- کسی کے عمامہ پر ایک چادر تھی ، کسی کے عمامہ پر دو چادریں تھیں اور شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے عمامہ پر تین چادریں تھیں- دورانِ خواب مَیں ان چادروں کے بارے سوچتا رہا ﴿کہ ان سے کیا مراد ہے؟﴾ اور جب اسی سوچ میں بیدار ہوا تو آپ میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے فرمایا کہ اے خضر! ایک چادر علمِ شریعت کی تعظیم کرنے کی ﴿وجہ سے ﴾ ہے، ایک چادر علمِ طریقت کو عزت بخشنے کی ہے اور ایک چادر علمِ حقیقت کو بزرگی دینے کی ہے- ‘‘
مشائخ نے روایت کیا ہے کہ:-
﴿قِیْلَ لَہ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا سَبَبُ تَسْمِیَّتِکَ بِمُحْیِ الدِّیْنِ
’’آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کس وجہ سے آپ کا نام محی الدین رکھا گیا؟ ‘‘
قَالَ رَجَعْتُ مِنْ سِیَاحَتِیْ اِلٰی بَغْدَادَ حَافِیًا فَمَرَرْتُ بِشَخْصٍ مَّرِیْضٍ مُّتَغَیَّرِ اللَّوْنِ نَحِیْفِ الْبَدَنِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ
’’آپ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن مَیں اپنے سفر سے واپس بغداد پیدل آرہا تھا کہ ایک بیمار شخص کے پاس سے گذرا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور بدن کمزور تھا-‘‘
فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَبْدَ الْقَادِرِ فَرَدَدْتُ عَلَیْہِ السَّلَامَ
’’اس نے مجھے کہا اے عبد القادر ! تجھ پر سلام ہو - مَیں نے اس کے سلام کا جواب دیا-‘‘
فَقَالَ اُدْنُ مِنِّیْ فَدَنَوْتُ مِنْہُ فَقَالَ اجْلِسْنِیْ
’’ اس نے کہا میرے قریب ہو جائو- مَیں اس کے قریب ہوگیا- اس نے کہا میرے پاس بیٹھ جائو-‘‘
فَاَجْلَسْتُہُ فَنَمٰی جَسَدُہ، وَ حَسُنَتْ صُوْرَتُہ، وَ صَفٰی لَوْنُہ،
’’ مَیں اس کے پاس بیٹھا تو اس کا جسم تندرست ہونے لگا ، اس چہرہ اچھا ہوگیا اور رنگ بھی صاف ہوگیا-‘‘
فَقَالَ اَتَعْرِفُنِیْ قُلْتُ لَا
’’ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ مَیں نے کہا نہیں!‘‘
قَالَ اَنَا الدِّیْنُ وَ کُنْتُ صِرْتُ کَمَا رَأَیْتَنِیْ وَ قَدْ اَحْیَانِیَ اللّٰہُ سُبْحَانَہ، بِکَ فَاَنْتَ مُحْیِ الدِّیْنِ
’’اس نے کہا کہ مَیں دِین ہوں اور میری حالت ویسی ہوگئی تھی جیسے آپ نے دیکھی ، پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کے سبب مجھے زندہ کردیا ہے پس آپ محی الدین ﴿دین کو نئی زندگی بخشنے والے﴾ ہیں-‘‘
فَانْصَرَفْتُ اِلَی الْجَامِعِ فَلَقِیَنِیْ رَجُلٌ وَّ قَالَ یَا سَیِّدُ مُحْیِ الدِّیْنِ
’’ ﴿اس ملاقات کے بعد﴾ مَیں جامع مسجد کی طرف گیا تو ایک آدمی مجھے ملا اور کہا اے سید محی الدین!‘‘
فَلَمَّا قَضَیْتُ الصَّلٰوۃَ اَھْرَعَ النَّاسُ اِلَیَّ یُقَبِّلُوْنَ یَدَیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ یَا مُحْیِ الدِّیْنِ وَ مَا دُعِیْتُ بِھَا مِنْ قَبْلُ- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ﴾
’’پس جب میں نے نماز ادا کر لی تو لوگ تیزی سے میری طرف دوڑے، میرے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور کہتے جاتے یا محی الدین! اس سے پہلے مجھے اس نام سے نہیں بلایا گیا- ‘‘رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طریقت کا تذکرہ:
شیخ ابو محمد علی بن ادریس الیعقوبی نے روایت کی اور کہا کہ شیخ ابو الحسن علی بن الھیتی سے شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ عنہ کی طریقت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:-
’’آپ کا قدم تفویض ﴿سپردگی﴾ اور آپ کی موافقت ’’لاحول و لاقوۃ‘‘ کے ساتھ اور آپ کا طریق مقامِ عبودیت میں ایک ایسے راز کو پنہاں رکھنے کے ساتھ خالص اور منفرد توحید ہے جو عبد کے قائم مقام ہے نہ کسی شئے کے سبب اور نہ کسی شئے کے لیے اور آپ کی عبودیت کو ربوبیت کی نگاہِ کمال سے تراشہ گیا تھا- آپ ایسے عبد تھے جو احکامِ شریعت کے قصد کے ساتھ تفریق سے جمعیت کی طرف بلند ہو گئے-‘‘
حضرت شیخ عدی بن مسافر سے پوچھا گیا کہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:-
’’آپ قلب و روح کی موافقت اور ظاہر و باطن کے اتحاد کے سبب اقدار کی گذرگاہوں ﴿تقدیرِالٰہی﴾ کے نیچے خشک تنے کی مانند تھے اور نفع و ضرر اور قرب و دوری کو دیکھے بغیر نفسانی صفات سے مبرا تھے-‘‘
حضرت شیخ بقا بن بُطو نے فرمایا:-
’’شیخ عبد القادر کا طریق قول و فعل اورنفس و قلب کا اتحاد، اخلاص و تسلیم کا ملاپ ہے اور ہر خطرہ، ہر لحظہ، ہر نفس ، ہر ﴿ظاہری و باطنی﴾ واردات اور ہر حال میں قرآن و سنت کا نفاذ اور اللہ کی معیت میں ثابت قدم رہنا ہے-‘‘
حضرت شیخ ابو الفرح عبد الرحیم سے منقول ہے ، وہ فرماتے ہیں:-
’’میں بغداد آیا اور سیّدنا الشیخ محی الدین عبد القادررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا- پس میں نے جو آپ کا حال، فراغتِ قلبی اور خلوتِ راز دیکھی اس نے مجھے ہکا بکا کر دیا- پھر جب میں ام عبیدہ کی طرف لوٹا تو اپنے ماموں شیخ احمد کو اس کے بارے بتایا- انہوں نے کہا کہ میرے بچے! کون ہے جو شیخ عبد القادر کی قوت جیسی قوت رکھتا ہو یا جس مقام پر وہ فائز ہیں اور جس مقام تک وہ پہنچے ہیں؟ ‘‘
حضرت شیخ العارف ابو الحسن علی القرشی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں:-
’’جب میں نے شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو دیکھا تو ﴿گویا﴾ ایک ایسے مرد کو دیکھا جس کی قوت طریقتِ الٰہی میں بڑھ گئی ، جو اہلِ طریقت میں طاقت اور مضبوطی میں سب سے قوی ہے- آپ کا طریق وصف، حکم اور حال میں توحید تھا اورآپ کی تاکید ظاہر و باطن میں شریعت تھی- آپ کا وصف قلبِ فارغ ﴿جو دنیاوی مشاغل سے فارغ﴾ تھا- آپ رب کے مشاہدہ میں ﴿مخلوق سے﴾ غائب ہوتے تھے اور ایسے راز سے حاضر تھے جس میں شکوک و شبہات کی گنجائش نہیں، آپ کا راز ایسا کہ اغیار اسے پا نہ سکیں، قلب ایسا کہ عمائدین بھی اس تک رسائی نہ پائیں- آپ کے پشت پر ’کنز اکبر‘ ﴿عظیم خزانہ﴾ اور آپ کے قدم کے نیچے ملک اعظم ﴿عظیم سلطنت و ملک﴾ رکھ دیا گیا-‘‘
اور﴿ایک روایت﴾ منقول ہے ،آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ؛
’’ایک دن مجھے تنگی محسوس ہوئی جس کے بوجھ تلے نفس تھرتھرانے لگا اور اس نے راحت ، خوشی اور چھٹکارے کی طلب کی- مجھے کہا گیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ میں نے کہا مجھے ایسی موت چاہیے جس میں زندگی نہ ہو اور ایسی زندگی چاہیے جس میں موت نہ ہو- مجھ سے پوچھا گیا کہ ایسی موت کونسی ہے جس میں زندگی نہیں اور ایسی زندگی کونسی ہے جس میں موت نہیں؟ میں نے کہا کہ وہ موت جس میں زندگی نہیں وہ مخلوق سے میری جنس کی موت ہے پس میں انہیں نفع و نقصان میں دکھائی نہ دوں- وہ موت میرے نفس کی، میری خواہش کی، میری دنیاوی اور اخروی خیالات و آرزئوں کی پس میں ان تمام میں زندہ نہ رہوں اور خود کو ﴿مبتلا﴾ نہ پائوں- جہاں تک وہ زندگی جس میں موت نہیں ﴿کا سوال ہے﴾ تو وہ میری زندگی اللہ رب العزت کے اس فعل کے ساتھ ہے جس میں میرا وجود نہ ہو اس ذات عزوجل کے ساتھ میرا وجود اس معاملے میں موت ہے- جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے تب سے یہ میرا بہترین ارادہ ہے-‘‘
شیخ العارف حضرت ناصر الدین بن قاعد الاوانی سے آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول﴿کے آخری جملے بہترین ارادہ﴾ کے بارے پوچھا گیا ﴿کہ اس کا کیا مطلب ہے﴾؟ تو انہوں نے فرمایا؛
’’یہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا اس وقت تک بہترین ارادہ تھا جب تک آپ اس بات سے موصوف رہے کہ آپ کا کوئی ارادہ ہے وگرنہ آپ نے اپنی ذات کے لیے اختیار اور صفت ارادہ کی حالت سے منقطع ہو چکے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ کا حال اللہ عزوجل کی معیت میں ترکِ اختیار اور نفی ارادہ کا تھا- ‘‘
شیخ العارف حضرت ابو عبد اللہ محمد بن ابو الفتح الھروی فرماتے ہیں؛
’’میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی چالیس سال خدمت کی ہے- آپ اس مدت کے دوران عشا ئ کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا کرتے تھے- رات کے وقت خلیفہ آپ کی بارگاہ میں خدمت کی غرض سے کئی بار حاضر ہوتا لیکن فجر تک اسے موقع نصیب نہ ہوتا-مَیں نے آپ کے پاس کئی راتیں گزاری ہیں- آپ رات کے ابتدائی حصہ میں تھوڑی سی نماز پڑھتے پھر آپ ذکر فرماتے یہاں تک کہ رات کی پہلی تہائی گزر جاتی- آپ ﴿ان اسمائ الحسنیٰ کا وِرد﴾ فرماتے ﴿المحیط ، العالم، الرب، الشھید، الحسیب ، الفعال، الخلاق، الخالق، الباری، المصور﴾ آپ کا جسم مبارک ایک مرتبہ گھٹ جاتا پھر بڑھ جاتا اور ہوا میں اتنا بلند ہوتا کہ میری نظروں سے غائب ہوجاتا پھراچانک آپ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے یہاں تک کہ رات کی دوسری تہائی بھی گزر جاتی- آپ بہت طویل سجدہ فرماتے تھے، اپنے چہرہ اقدس کو زمین سے ملا لیتے پھر مراقبہ کرتے ہوئے متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے تو آپ پر ایسا نور چھا جاتا تھا جو آنکھوں کو چندھیا دیتا یہاں تک کہ آپ اس میں نظروں سے اوجھل ہو جاتے- مَیں آپ کے پاس السلام علیکم ، السلام علیکم کی آوازیں سنتا تھا اور آپ ان کے سلام کا جواب دیتے تھے یہاں تک کہ آپ فجر کے نماز کے لیے تشریف لے جاتے-‘‘
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’میں پچیس سال تک تنہا رہا، عراق کے جنگل بیابانوں اور کھنڈرات میں گھومتا پھرتا رہامیں لوگوں کو نہیں پہچانتا تھا اور وہ مجھے نہیں جانتے تھے- رجال الغیب اور جنوں کے گروہ میرے پاس آتے رہے جنہیں میں اللہ عزوجل کے راستے کی پہچان کرواتا رہا- چالیس سال تک عشا ئ کے وضو سے فجر کے نماز ادا کی- پندرہ سال تک ﴿یہ معمول رہا کہ﴾ مَیں عشائ کی نماز پڑھتا پھر قرآن پاک کھول لیتا حالانکہ مَیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا اور میرا ہاتھ نیند کے ڈر سے دیوار پر میخ سے بندھا ہوتا تھا یہاں تک کہ سحری تک قرآن کے آخر تک پہنچ جاتا- تین سے چالیس چالیس دنوں تک کوئی چیز نہ پاتا کہ جس سے غذا حاصل کروں- جس حالت میں بھی مجھے نیند آتی تو میں اس کو جھڑکتا تو وہ چلی جاتی- میرے پاس دنیا اپنی زیب و زینت اور اپنی شہوات کے ساتھ بڑی حسین و جمیل صورتوں میں آتی تو میں اسے ڈانٹتا تو وہ فوری طور پر بھاگ جاتی- میں برج میں گیارہ سال ٹھہرا رہا جسے اب ’’برج العجمی‘‘ کہتے ہیں- میرے اس میں زیادہ ٹھہرنے کی وجہ سے اس کا نام ’’البرج العجمی‘‘ پڑ گیا- ایک مرتبہ میں نے اس میں اللہ عز وجل سے عہد کیا کہ میں اس وقت تک نہیں کھائوں گا جب تک وہ مجھے لقمہ لقمہ کر کے نہ کھلائے اور اس وقت تک نہیں پیؤں گا جب تک وہ مجھے نہ پلائے- میں اسی حالت میں چالیس روز تک رہاکہ کوئی چیز نہیں کھاتا تھا- چالیس روز بعد ایک آدمی آیا جس کے پاس روٹی اور کھانا تھااس نے میرے سامنے رکھا اور چلا گیااور مجھے چھوڑ دیا- شدت بھوک کی وجہ سے میرے نفس نے اس کو کھانا چاہا لیکن میں نے ﴿اپنے آپ سے﴾ کہا کہ اللہ کی قسم جو میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے اس کو نہیں توڑوں گا- پس میں نے اپنے پیٹ سے ایک چیخ سنی جو بھوک بھوک کر رہا تھا لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں کی-میرے پاس سے شیخ ابو سعید المخزومی گزرے انہوں نے یہ چیخ سنی تو میرے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عبد القادر یہ ﴿آواز﴾ کیسی ہے؟ میں نے عرض کی کہ یہ نفس کی بے قراری ہے لیکن روح اپنے مولیٰ کے ساتھ سکون میں ہے- انہوں نے فرمایا کہ ’’باب الارج‘‘ کی طرف آئو - وہ مجھے میرے حال میں چھوڑ کر تشریف لے گئے- میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں نہیں جائوں گا- پس میرے پاس ابو العباس خضر علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اٹھیں اور ابو سعید کی طرف جائیں ﴿میرا دل مطمئن ہو گیا﴾- میں ان کے پاس آیا تو کھانا تیار پایا پس وہ مجھے ﴿اپنے ہاتھ سے﴾ لقمہ لقمہ کرکے کھلانے لگے یہاں تک کہ میں سیر ہو گیا پھر انہوں نے مجھے اپنے ہاتھو ں سے خرقہ پہنایا اور میں نے ان کی خدمت کرنے لگا- اس سے پہلے میں اپنے سفروں میں ہی مشغول تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا جسے میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اس نے کہا کہ کیا تم صحبت اختیار کرو گے ؟ میں نے کہا جی ہاں- اس نے کہا کہ ایک شرط ہے کہ تم میری مخالفت نہیں کرو گے - میں نے کہا ٹھیک ہے- انہوں نے کہا یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس نہ لوٹ آئوں- وہ میرے پاس ایک سال تک نہ آیا- پھر وہ میرے پاس لوٹا تو میں اپنی اسی جگہ پر تھا پس وہ میرے پاس بیٹھاکچھ لمحے بیٹھا پھر کھڑا ہوا اور کہا اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں اٹھنا جب تک میں تمہارے پاس نہ لوٹ آئوں- پھر وہ دوسرا سال بھی مجھ سے غائب رہا پھر آیا اور اسی طرح تیسرے سال تک غائب رہا - پھر جب واپس پلٹا تو اس کے پاس روٹی اور دودھ تھا اور اس نے کہا کہ میں الخضر ہوں اور مجھے حکم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کھانا کھائوں- پس ہم نے اکٹھے کھانا کھایا - پھر اس نے کہا کہ اٹھیں اور بغداد میں داخل ہو جائیں-‘‘
حضرت الشیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے پوچھا گیا کہ ان برسوں میں غذائی توانائی کہاں سے ملتی رہی؟ تو آپ نے فرمایا کہ بچی ہوئی خوراک سے ﴿جو لوگ میرے پاس چھوڑ جاتے تھے﴾-
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا؛
’’دنیا اپنی زیب و زینت اور خواہشات کے ساتھ میرے پاس مختلف صورتوں میں آتی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی طرف توجہ کرنے سے بچائے رکھا- میرا نفس میرے پاس مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا کبھی وہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے گریہ زاری کرتا اور کبھی وہ مجھ سے جھگڑا کرتا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں بھی میری مدد فرمائی-اور شیاطین میرے پاس مختلف بازاری عورتوں کی شکل میں کبھی پیدل صفیں بنا کر آتے اور کبھی مختلف اسلحہ کے ساتھ سوار ہو کر آتے اور انتہائی بن سنور کر آتے اور میرے ساتھ جھگڑا کرتے اور مجھے آگ کے نیزے مارتے پس میں اپنے دل میں ایسی مضبوطی پاتا جس کی کوئی تعبیر نہیں کی جاسکتی اور میں اپنے باطن میں ایک مخاطب کو سنتا جو کہتا کہ اے عبدالقادر اٹھو ﴿اور ڈٹ کر مقابلہ کرو﴾ بے شک ہم نے تمہیں ثابت قدمی عطا کی ہے اور اپنی خاص نصرت سے تمہاری مدد کی ہے پس وہ ﴿شیطان﴾ دائیں بائیں بھاگ جاتے اور جہاں سے آتے وہیں چلے جاتے- ان میں ایک شیطان اکیلا آیا اور کہا کہ یہاں سے چلا جا نہیں تو میں تیرے ساتھ یہ کروں گاوہ کروں - پس وہ مجھے بہت زیادہ ڈرانے دھمکانے لگا- میں نے اسے اپنے ہاتھ سے ﴿زور کا ﴾ تھپڑ مارا پس وہ میری طرف دوڑا تو میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کہا تو وہ جل گیا- ایسا کئی بار ہوا-ایک مرتبہ میں نے اسے اپنے سے دور بیٹھا ہوا دیکھا وہ رو رہا تھا اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے عبد القادر میں تجھ سے مایوس ہو گیا ہوں- میں نے اسے کہا اے لعنتی! دفع ہو جا میں تجھ سے کبھی مطمئن نہ ہوں - اس نے کہا کہ یہ میرے لیے اور زیادہ سخت ہے-پھر اس نے میرے اردگرد مجھے بہت سے شرک ،جال اور پردے دکھائے- میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ دنیا کے شرک ہیں جو میری طرف سے تجھ جیسے ﴿سالکین﴾ کو پہنچتے رہتے ہیں- پھر میں نے ان تمام کی طرف پورا سال توجہ کی یہاں تک وہ سب مجھ سے دورہو گئے - پھر مجھے بہت ساری ایسی چیزیں دکھائی گئیںجو میرے ساتھ ہر طرف سے جڑی ہوئی تھیں میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو مجھے کہا گیا کہ یہ مخلوق کے اسباب ہیں جو آپ سے چمٹے ہوئے ہیں- میں ان کی طرف دوسرے سال متوجہ رہا یہاں تک وہ سب ختم ہوگئے اور میں ان سے جدا ہوگیا- پھر میرے باطن کو میرے لیے ظاہر کیا گیاپس میں نے اپنے دل میں بہت سے تعلقات دیکھے تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کے ارادے اور اختیارات ہیں- میں اگلے سال ان کی طرف متوجہ ہوا یہاں تک کہ وہ سب ختم ہو گئے اور میرا دل ان سے بھی خالص و پاک ہوگیا-پھر مجھ پر میرا نفس ظاہر کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کی محبتیں باقی اور خواہشات زندہ ہیں اور اس کے شیطان سرکش ہیں- میں اس آخری سال ان کی طرف متوجہ ہوا تو نفس کی محبتیںختم ہو گئیں اور خواہشات مر گئیں اور نفس کے شیطان سرکشی سے باز آگئے اور سارا معاملہ خالصتاً اللہ کے لیے ہو گیا، میں اکیلا رہ گیااور سارے کا سارا وجود میرے پیچھے رہ گیا اس کے بعد بھی میں اپنے مطلوب تک نہ پہنچا تو میں نے توکل کا دروازہ کھولا تاکہ اس کے ذریعے اپنے مطلوب تک پہنچ سکوں لیکن اس کے پاس بھی تنگی تھی پھر میں شکر کے دروازے تک پہنچا، پھر تسلیم کے دروازے تک پھر باب الفنائ، پھر باب القرب، پھر باب المشاہدہ تک پہنچا تو میں نے سب میں تنگیٔ دامان کو پایاپھر میں ’’الفقر‘‘ کے دروازے کی طرف دوڑا پس وہ کشادہ تھا پس میں اس میں داخل ہو گیا تو اس میں ہر اس چیز کو پایا جسے میں نے چھوڑ دیا تھا - پس اس دروازے میں سے میرے لیے بہت بڑا خزانہ کھول دیا گیا اور اس میں مجھے بہت بڑی عزت اور خالص آزادی عطا فرما دی گئی-باقی چیزیں مٹا دی گئیں اور صفات منسوخ ہو گئیں اور یہ وجودِ ثانی ظاہر ہوگیا- الحمد للہ ‘‘
﴿فرزندِ غوث الوریٰ﴾ شیخ جلیل حضرت ضیائ الدین ابو نصر موسیٰ بن الشیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں؛
’’میں نے اپنے والد ﴿سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے سنا ، وہ فرماتے ہیں کہ میں جنگل و بیابان کے کسی سفر کے لیے روانہ ہوا - میں کچھ دن رکا رہا- میں نے کہیں پانی نہ پایا تو میری پیاس بڑھ گئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کر دیا اور مجھ پر اس میں سے کوئی چیز بارش کی طرح اتری جس سے میں سیراب ہوگیا- پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے افق چمک اٹھا اور میرے لیے ایک صورت ظاہر ہوئی جس میں سے مجھے پکارا گیا کہ اے عبد القادر میں تیرا رب ہوں پس میں نے حرام چیزوں کو تیرے لیے حلال کر دیا ہے پس تو جو چاہے حاصل کر- میں نے کہا کہ میں شیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں، اے لعنتی دور بھاگ! پھر اچانک وہ نور اندھیرے میں تبدیل ہوگیا اور وہ صورت بھی دھواں بن گئی پھر اس نے کہا کہ اے عبد القادر حکمِ ربی میں تیرے علم نے اور تیری منازل کے احوال میں تیرے فہم و فراست نے تجھے مجھ سے بچا لیا ہے- اس طرح کے واقعہ سے اہلِ طریقت کے ستر افراد کو گمراہ کیا ہے- میں نے کہا کہ میرے رب کے فضل اور احسان کی وجہ سے میرے بچت ہوئی ہے- ‘‘
راوی نے فرمایا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ شیطان ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اس بات سے کہ میںنے حرام چیزوں کو تجھ پر حلال کر دیا ہے-
شیخ ابو القاسم حضرت عمر بن مسعود البزاز سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیںکہ میں شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ؛
’’ میری ﴿طریقت کی﴾ ابتدائ میں احوال مجھے مختلف راستوں پر ڈالتے رہے ہیںپس میں ان پر غالب آتا، ان کو قابو کرتا اور دوڑ پڑتا حالانکہ میں نہیں جانتا ہوتا تھا ﴿کہ میں کہاں ہوں﴾- ایک مرتبہ مجھ پر ظاہر ہوا کہ میں جہاں رہتا ہوں وہاں سے کافی دور موجود ہوں اور ایک مرتبہ تو حال نے مجھے بغداد کے کھنڈرات میں پھینک دیا تھا اور میں ایک گھنٹہ تک دوڑا حالانکہ میں نہیں جانتا تھا ﴿کہ کہاں ہوں﴾ -پھر مجھ پر عیاں ہوا کہ میں اونٹوں کے شہر میں ہوں اوراس جگہ اور بغداد کے درمیان بارہ دنوں کی مسافت ہے- میں اپنے معاملہ میں سوچ بچار کر رہا تھا کہ اچانک ایک عورت کہنے لگی کیا توتم عبد القادر ہو کر اس معاملہ میں تعجب کرتے ہو-‘‘
شیخ ابو عبد اللہ حضر ت محمد بن الخضر بن عبد اللہ الحسینی الموصلی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے والد نے فرمایا؛
’’میں نے شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیرہ سال تک خدمت کی ان تیرہ سالوں میں مَیں نے انہیں لطف اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان پر مکھی بیٹھتے ہوئے دیکھا ہے- وہ کسی بڑے امیر کی تعظیم کے لیے کھڑے نہیں ہوئے اور نہ کسی بادشاہ کے دروازے پر المناک ہوئے اور نہ ہی بادشاہ کے فرش پر بیٹھے اور ایک مرتبہ کے علاوہ نہ ہی کسی بادشاہ کا کھانا کھایا- آپ بادشاہوں کے فرش پر بیٹھنے والوں اور ان کے حواریوں کو فوری آنے والا عذاب خیال کرتے تھے - اور جب وہ خلیفہ کو خط لکھتے تو ﴿یوں﴾ لکھتے تھے کہ عبد القادر تجھے یہ حکم دیتا ہے اور اس کا حکم تجھ پر نافذ ہے اور اس کی اطاعت تجھ پر لازم ہے- وہ تمہارے لیے نمونہ ہے اور تجھ پر حجت ہے- جب وہ ﴿خلیفہ﴾ آپ کے خط کا معائنہ کرتا تو اسے تسلیم کر لیتا‘‘
راویوں نے کہا کہ
’’ایک دن آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں نقیب النقبائ بن الالقی حاضر ہوا- وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آپ کی بارگاہ میں نہیں آیا تھا- الشیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے کہا کہ کاش تجھے پیدا ہی نہ کیا جاتا- اب جبکہ تجھے پیدا کر دیا گیا ہے تو تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ کیوں پیدا کیا گیا ہے؟اے سونے والے جاگ، اپنی آنکھیں کھول اور دیکھ کہ تمہارے سامنے کیا ہے؟ تمہارے پاس عذاب کے لشکر آ چکے ہیں- اے پیدل چلنے والے، اے زائل ہونے والے، اے منتقل ہونے والے! ہزار سال تک سفر کر تاکہ مجھ سے حکمت کی ایک بات سن سکے اور وہ تیرے لیے کافی ہوگی- مقام و مرتبے اور مال و دولت کی کثرت نے تجھ جیسے کئی لوگوں موٹا تازہ کیا پھر انہیں ہلاک کر دیا-دو قدم ہیں ﴿جنہیں طے کرکے﴾ میں اللہ تعالیٰ تک پہنچا ایک نفس اور دوسرا مخلوق اور اے مرید! تمہاری کیا حالت ہے؟ دو قدم ہیں ﴿جنہیں طے کرکے﴾ میں اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچا ایک دنیا اور دوسرا آخرت ہے مگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹتے ہیں-‘‘
جب آپ کرسی مبارک سے نیچے تشریف لائے تو آپ کے کسی شاگرد نے آپ سے عرض کی؛
’’یا سیّدنا آپ نے ﴿اس شخص کے بارے﴾ قول مبارک کو بہت زیادہ فرما دیا ہے تو آپ نے فرمایا بے شک یہ نور ہے جس سے اس کی تاریکی روشن ہوگئی ہے- ‘‘
راوی نے کہا کہ وہ ﴿نقیب النقبائ بن القی﴾ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے مجلس میں حاضر ہوتا رہا - وہ مجلس کے وقت سے پہلے حاضر ہو جاتا اور آپ کے سامنے تواضع و عاجزی کر کے بیٹھ جاتا یہاں تک کہ اس کا وصال ہو گیا- رحمہ اللہ تعالیٰ-
روایت ہے کہ کسی سائل نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ آپ کا معاملہ کس بات پر درست ہوا؟ تو آپ نے فرمایا کہ صدق پر کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنی والدہ محترمہ سے بغداد کے سفر کی اجازت طلب کرنا ، آپ کی والدہ کا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت عطا فرمانا اور چالیس دینار کا آپ کی گودڑی میں سینا پھر ڈاکوئوں سے ملاقات ہونا اور آپ کا ان سے سچ بولنا اور ان کا آپ کے ہاتھ پر توبہ کرنا یہ قصہ ﴿آپ کے سچ کی علامت کے طور پر﴾ بہت ہی مشہور ہے-
روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے اگر کوئی بیٹا یا بیٹی وصال فرما جاتی تو آپ مجلس کو نہیں چھوڑتے تھے- آپ کرسی پر تشریف فرما ہوتے جب جنازہ حاضر ہو جاتا تو اتر کر اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے تھے-
یہ بھی روایت ہے کہ ٹھنڈی راتوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک ہی قمیض ہوتی تھی اور آپ کے بدن مبارک سے پسینہ نکلتا پس آپ کے ارد گرد ایک شخص مقرر ہوتا جو آپ کو پنکھے سے ہوا دیتا جیسے شدید گرمیوں میں ہوتا ہے-
ایک روایت منقول ہے کہ آپ کے پاس فقہائ اور فقرائ جمع تھے - آپ ان سے قضائ اور تقدیر کے بارے گفتگو فرما رہے تھے- جب آپ ان سے گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک چھت سے آپ کے کمرے میں ایک بہت بڑا سانپ گرا- جو آپ کے قریب تھے وہ سبھی دور ہو گئے پس آپ اکیلے رہ گئے- سانپ آپ کے کپڑے کے نیچے سے داخل ہوا اور آپ کے جسم مبارک پر چلتا ہوا آپ کی گریبان سے باہر نکلا اور آپ کی گردن کے ارد گرد لپٹ گیا- اس کے باوجود آپ نے اپنی گفتگو کو منقطع نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ تبدیل فرمائی- پھر وہ سانپ نیچے اترا اور آپ کے سامنے اپنی دُم پر کھڑا ہوگیا اور آواز نکالی- پھر آپ نے اس سے گفتگو ایسی گفتگو فرمائی جسے ہم میں سے کوئی بھی نہ سمجھ سکا پھر وہ سانپ چلا گیا- جب لوگ آپ کے قریب آئے تو آپ سے عرض کی کہ سانپ نے آپ سے کیا کہا اور آپ نے سانپ سے کیا فرمایا؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سانپ نے مجھ سے کہا کہ اس طرح میں نے بہت سارے اولیائ کرام کو آزمایا ہے اور آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا - میں نے اس سے کہا کہ جب تم مجھ پر گرے تو میں قضائ اور تقدیر کے بارے گفتگو کر رہا تھا تو ایک چھوٹا کیڑا ہی تو ہے تجھے قضائ اور تقدیر حرکت دیتی ہے اور روک کر رکھتی ہے پس میں نے چاہا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو-
شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وعظ کا تذکرہ:
روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شروع میں مجھے نیند اور بیداری میں حکم دیا جاتا اور منع کیا جاتااور کلام کا غلبہ ہوتا اور میرے قلب پر اس کی کثرت ہوتی پس میں خاموش نہیں ہوسکتا تھا- میری مجلس میں دو تین آدمی بیٹھ کر ہی سنتے تھے- پھر لوگوں میں یہ بات پھیل گئی اور مجھ پر مخلوق کی ایک بھیڑ لگ گئی- میں باب الخلیسہ میں مصلیٰ پر بیٹھتا تھا پھر یہ جگہ لوگوں پر تنگ ہو گئی تو شہر سے باہر کرسی بنائی گئی - لوگ گھوڑوں ، خچروں ، گدھوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر آتے تھے اور مجلس کے باہر دیوار کی مانند کھڑے ہوتے تھے- مجلس میں ستر ہزار کے قریب لوگ حاضر ہوتے تھے-
مشائخ نے خبر دی ، شیخ عبد الوہاب، شیخ عبد الرزاق، عمر بن الکمیمالی اور البزاز سے منقول ہے سب نے کہاکہ ہم نے شیخ کو کرسی پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ؛
﴿رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِیْ یَا بُنَیَّ لِمَ لَا تَتَکَلَّمُ ، فَقُلْتُ یَا اَبَتَاہُ اَنَا رَجُلٌ اَعْجَمِیٌّ کَیْفَ اَتَکَلَّمُ عَلٰی فُصَحَآئِ بَغْدَادَ
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے مجھے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تم کلام کیوں نہیں کرتے؟ میں عرض کی نانا حضور میں ایک عجمی ہوں پس بغداد کے فصیح لوگوں سے کیسے کلام کروں؟
فَقَالَ افْتَحْ فَاک،َ فَفَتَحْتُ، فَتَفَلَ فِیْہِ سَبْعًا ، وَّ قَالَ لِیْ تَکَلَّمْ عَلَی النَّاسِ ، وَادْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو، میں نے اپنا منہ کھولا ، تو آپ نے اس میں سات مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا ، اور فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کرو ، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف حکمت اور وعظِ حسنہ سے بلائو-
فَصَلَّیْتُ الظُّھْرَ وَ جَلَسْتُ وَ حَضَرَنِیْ خَلْقٌ کَثِیْرٌ فَارْتَجَّ عَلَیَّ
پس میں نے ظہر کی نماز ادا کی اور بیٹھ گیا- میرے سامنے بہت ساری مخلوق حاضر تھی کہ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی -
فَرَاَیْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَایِمًا بِاِزَائِیْ ، فَقَالَ لِیِ افْتَحْ فَاکَ ، فَفَتَحْتُہُ ، فَتَفَلَ فِیْہِ سِتًّا
پس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھا- انہوں نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو ، پس میں نے اپنا منہ کھولا ، تو انہوں نے اس میں چھ مرتبہ اپنا لعابِ دہن ڈالا -
فَقُلْتُ لَہ، لِمَ لَمْ تُکْمِلْھَا سَبْعًا ؟ قَالَ اَدَبًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ تَوَارٰی عَنِّیْ﴾
میں نے عرض کی کہ سات مرتبہ مکمل کیوں نہ کیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ادبِ رسول ﷺ کی وجہ سے ، پھر آپ مجھ سے غائب ہو گئے-
اور میں نے کہا؛
﴿غَوَّاصُ الْفِکْرِ یَغُوْصُ فِیْ بَحْرِ الْقَلْبِ عَلٰی دُرَرِ الْمَعَارِفِ، فَیَسْتَخْرِجُھَا اِلٰی سَاحِلِ الصَّدْرِ، فَیُنَادِیْ عَلَیْھَا سِمْسَارَ تَرْجُمَانِ اللِّسَانِ، فَتَشْتَرِیْ بِنَفَائِسِ اَثْمَانٍ حُسْنَ الطَّاعَۃِ، فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ﴾
’’فکر کا غوطہ خور دِل کے سمندر میں معرفت کے موتیوں پر غوطہ زن ہوتا ہے ، پس وہ انہیں نکال کر سینہ کے ساحل پر لاتا ہے، پھر ان پر زبان کے ماہر ترجمان کو بلاتا ہے، پھر وہ زبان عمدہ قیمتوں کے بدلے حُسنِ اطاعت کو ایسے گھروں ﴿مسجدوں﴾ میں خریدتی ہے جن کو بلند کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے رکھی ہے- ‘‘
سب نے کہا کہ یہ وہ پہلا کلام ہے جو شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ نے کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے ارشاد فرمایاتھا-
﴿جاری ہے---﴾
﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
الشیخ القُدوَہ ابو الحسن علی بن الھیئتی نے یہ کہتے ہوئے خبر دی کہ
﴿زُرْتُ مَعَ سَیِّدِی الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَ الشَّیْخِ بَقَا بْنِ بُطُو قَبْرَ الْاِمَامِ اَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ فَشَھِدْتُہُ خَرَجَ مِنْ قَبْرِہٰ وَ ضَمَّ الشَّیْخَ، عَبْدَ الْقَادِرِ اِلٰی صَدْرِہٰ وَ اَلْبَسَہ، خِلْعَۃً وَّ قَالَ یَا شَیْخٌ ، عَبْدَ الْقَادِرِ قَدْ اَفْتَقِرُ اِلَیْکَ فِیْ عِلْمِ الشَّرِیْعَۃِ وَ عِلْمِ الطَّرِیْقَۃِ وَ عِلْمِ الْحَالِ وَ فِعْلِ الْحَالِ- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ﴾
’’میں نے سیّدی شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اور شیخ بقا بن بُطو کے ہمراہ امام احمد بن حنبل کے مزار کی زیارت کی- رضی اللہ عنہم اجمعین- میں نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبل اپنی قبر سے باہر تشریف لائے اور شیخ عبد القادر کو اپنے سینے سے لگایا- آپ کو خلعت پہنائی اور فرمایا: ’اے شیخ عبد القادر! مجھے ﴿مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لیے﴾ علمِ شریعت ، علمِ طریقت ، علمِ حال اور عملِ حال ﴿کے اجرا﴾ میں تمہاری ضرورت ہے-‘‘
قابلِ صد احترام ابو عبد اللہ محمد بن الشیخ ابو العباس الخضر الحسینی الموصلی نے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:-
’’ مَیں نے اپنے والد محترم کو یہ بات کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں ، مَیں نے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسہ کو بہت بڑے وسیع میدان میں دیکھا جس میں خشکی و تری کے تمام مشائخ موجود تھے اور شیخ محی الدین ان کی صدارت فرما رہے تھے- مشائخ میں سے جن کے سروں پر عمامے تھے وہ بہت بڑی تعداد میں تھے- کسی کے عمامہ پر ایک چادر تھی ، کسی کے عمامہ پر دو چادریں تھیں اور شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے عمامہ پر تین چادریں تھیں- دورانِ خواب مَیں ان چادروں کے بارے سوچتا رہا ﴿کہ ان سے کیا مراد ہے؟﴾ اور جب اسی سوچ میں بیدار ہوا تو آپ میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے فرمایا کہ اے خضر! ایک چادر علمِ شریعت کی تعظیم کرنے کی ﴿وجہ سے ﴾ ہے، ایک چادر علمِ طریقت کو عزت بخشنے کی ہے اور ایک چادر علمِ حقیقت کو بزرگی دینے کی ہے- ‘‘
مشائخ نے روایت کیا ہے کہ:-
﴿قِیْلَ لَہ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا سَبَبُ تَسْمِیَّتِکَ بِمُحْیِ الدِّیْنِ
’’آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کس وجہ سے آپ کا نام محی الدین رکھا گیا؟ ‘‘
قَالَ رَجَعْتُ مِنْ سِیَاحَتِیْ اِلٰی بَغْدَادَ حَافِیًا فَمَرَرْتُ بِشَخْصٍ مَّرِیْضٍ مُّتَغَیَّرِ اللَّوْنِ نَحِیْفِ الْبَدَنِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ
’’آپ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن مَیں اپنے سفر سے واپس بغداد پیدل آرہا تھا کہ ایک بیمار شخص کے پاس سے گذرا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور بدن کمزور تھا-‘‘
فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَبْدَ الْقَادِرِ فَرَدَدْتُ عَلَیْہِ السَّلَامَ
’’اس نے مجھے کہا اے عبد القادر ! تجھ پر سلام ہو - مَیں نے اس کے سلام کا جواب دیا-‘‘
فَقَالَ اُدْنُ مِنِّیْ فَدَنَوْتُ مِنْہُ فَقَالَ اجْلِسْنِیْ
’’ اس نے کہا میرے قریب ہو جائو- مَیں اس کے قریب ہوگیا- اس نے کہا میرے پاس بیٹھ جائو-‘‘
فَاَجْلَسْتُہُ فَنَمٰی جَسَدُہ، وَ حَسُنَتْ صُوْرَتُہ، وَ صَفٰی لَوْنُہ،
’’ مَیں اس کے پاس بیٹھا تو اس کا جسم تندرست ہونے لگا ، اس چہرہ اچھا ہوگیا اور رنگ بھی صاف ہوگیا-‘‘
فَقَالَ اَتَعْرِفُنِیْ قُلْتُ لَا
’’ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ مَیں نے کہا نہیں!‘‘
قَالَ اَنَا الدِّیْنُ وَ کُنْتُ صِرْتُ کَمَا رَأَیْتَنِیْ وَ قَدْ اَحْیَانِیَ اللّٰہُ سُبْحَانَہ، بِکَ فَاَنْتَ مُحْیِ الدِّیْنِ
’’اس نے کہا کہ مَیں دِین ہوں اور میری حالت ویسی ہوگئی تھی جیسے آپ نے دیکھی ، پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کے سبب مجھے زندہ کردیا ہے پس آپ محی الدین ﴿دین کو نئی زندگی بخشنے والے﴾ ہیں-‘‘
فَانْصَرَفْتُ اِلَی الْجَامِعِ فَلَقِیَنِیْ رَجُلٌ وَّ قَالَ یَا سَیِّدُ مُحْیِ الدِّیْنِ
’’ ﴿اس ملاقات کے بعد﴾ مَیں جامع مسجد کی طرف گیا تو ایک آدمی مجھے ملا اور کہا اے سید محی الدین!‘‘
فَلَمَّا قَضَیْتُ الصَّلٰوۃَ اَھْرَعَ النَّاسُ اِلَیَّ یُقَبِّلُوْنَ یَدَیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ یَا مُحْیِ الدِّیْنِ وَ مَا دُعِیْتُ بِھَا مِنْ قَبْلُ- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ﴾
’’پس جب میں نے نماز ادا کر لی تو لوگ تیزی سے میری طرف دوڑے، میرے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور کہتے جاتے یا محی الدین! اس سے پہلے مجھے اس نام سے نہیں بلایا گیا- ‘‘رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طریقت کا تذکرہ:
شیخ ابو محمد علی بن ادریس الیعقوبی نے روایت کی اور کہا کہ شیخ ابو الحسن علی بن الھیتی سے شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ عنہ کی طریقت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:-
’’آپ کا قدم تفویض ﴿سپردگی﴾ اور آپ کی موافقت ’’لاحول و لاقوۃ‘‘ کے ساتھ اور آپ کا طریق مقامِ عبودیت میں ایک ایسے راز کو پنہاں رکھنے کے ساتھ خالص اور منفرد توحید ہے جو عبد کے قائم مقام ہے نہ کسی شئے کے سبب اور نہ کسی شئے کے لیے اور آپ کی عبودیت کو ربوبیت کی نگاہِ کمال سے تراشہ گیا تھا- آپ ایسے عبد تھے جو احکامِ شریعت کے قصد کے ساتھ تفریق سے جمعیت کی طرف بلند ہو گئے-‘‘
حضرت شیخ عدی بن مسافر سے پوچھا گیا کہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:-
’’آپ قلب و روح کی موافقت اور ظاہر و باطن کے اتحاد کے سبب اقدار کی گذرگاہوں ﴿تقدیرِالٰہی﴾ کے نیچے خشک تنے کی مانند تھے اور نفع و ضرر اور قرب و دوری کو دیکھے بغیر نفسانی صفات سے مبرا تھے-‘‘
حضرت شیخ بقا بن بُطو نے فرمایا:-
’’شیخ عبد القادر کا طریق قول و فعل اورنفس و قلب کا اتحاد، اخلاص و تسلیم کا ملاپ ہے اور ہر خطرہ، ہر لحظہ، ہر نفس ، ہر ﴿ظاہری و باطنی﴾ واردات اور ہر حال میں قرآن و سنت کا نفاذ اور اللہ کی معیت میں ثابت قدم رہنا ہے-‘‘
حضرت شیخ ابو الفرح عبد الرحیم سے منقول ہے ، وہ فرماتے ہیں:-
’’میں بغداد آیا اور سیّدنا الشیخ محی الدین عبد القادررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا- پس میں نے جو آپ کا حال، فراغتِ قلبی اور خلوتِ راز دیکھی اس نے مجھے ہکا بکا کر دیا- پھر جب میں ام عبیدہ کی طرف لوٹا تو اپنے ماموں شیخ احمد کو اس کے بارے بتایا- انہوں نے کہا کہ میرے بچے! کون ہے جو شیخ عبد القادر کی قوت جیسی قوت رکھتا ہو یا جس مقام پر وہ فائز ہیں اور جس مقام تک وہ پہنچے ہیں؟ ‘‘
حضرت شیخ العارف ابو الحسن علی القرشی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں:-
’’جب میں نے شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو دیکھا تو ﴿گویا﴾ ایک ایسے مرد کو دیکھا جس کی قوت طریقتِ الٰہی میں بڑھ گئی ، جو اہلِ طریقت میں طاقت اور مضبوطی میں سب سے قوی ہے- آپ کا طریق وصف، حکم اور حال میں توحید تھا اورآپ کی تاکید ظاہر و باطن میں شریعت تھی- آپ کا وصف قلبِ فارغ ﴿جو دنیاوی مشاغل سے فارغ﴾ تھا- آپ رب کے مشاہدہ میں ﴿مخلوق سے﴾ غائب ہوتے تھے اور ایسے راز سے حاضر تھے جس میں شکوک و شبہات کی گنجائش نہیں، آپ کا راز ایسا کہ اغیار اسے پا نہ سکیں، قلب ایسا کہ عمائدین بھی اس تک رسائی نہ پائیں- آپ کے پشت پر ’کنز اکبر‘ ﴿عظیم خزانہ﴾ اور آپ کے قدم کے نیچے ملک اعظم ﴿عظیم سلطنت و ملک﴾ رکھ دیا گیا-‘‘
اور﴿ایک روایت﴾ منقول ہے ،آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ؛
’’ایک دن مجھے تنگی محسوس ہوئی جس کے بوجھ تلے نفس تھرتھرانے لگا اور اس نے راحت ، خوشی اور چھٹکارے کی طلب کی- مجھے کہا گیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ میں نے کہا مجھے ایسی موت چاہیے جس میں زندگی نہ ہو اور ایسی زندگی چاہیے جس میں موت نہ ہو- مجھ سے پوچھا گیا کہ ایسی موت کونسی ہے جس میں زندگی نہیں اور ایسی زندگی کونسی ہے جس میں موت نہیں؟ میں نے کہا کہ وہ موت جس میں زندگی نہیں وہ مخلوق سے میری جنس کی موت ہے پس میں انہیں نفع و نقصان میں دکھائی نہ دوں- وہ موت میرے نفس کی، میری خواہش کی، میری دنیاوی اور اخروی خیالات و آرزئوں کی پس میں ان تمام میں زندہ نہ رہوں اور خود کو ﴿مبتلا﴾ نہ پائوں- جہاں تک وہ زندگی جس میں موت نہیں ﴿کا سوال ہے﴾ تو وہ میری زندگی اللہ رب العزت کے اس فعل کے ساتھ ہے جس میں میرا وجود نہ ہو اس ذات عزوجل کے ساتھ میرا وجود اس معاملے میں موت ہے- جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے تب سے یہ میرا بہترین ارادہ ہے-‘‘
شیخ العارف حضرت ناصر الدین بن قاعد الاوانی سے آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول﴿کے آخری جملے بہترین ارادہ﴾ کے بارے پوچھا گیا ﴿کہ اس کا کیا مطلب ہے﴾؟ تو انہوں نے فرمایا؛
’’یہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا اس وقت تک بہترین ارادہ تھا جب تک آپ اس بات سے موصوف رہے کہ آپ کا کوئی ارادہ ہے وگرنہ آپ نے اپنی ذات کے لیے اختیار اور صفت ارادہ کی حالت سے منقطع ہو چکے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ کا حال اللہ عزوجل کی معیت میں ترکِ اختیار اور نفی ارادہ کا تھا- ‘‘
شیخ العارف حضرت ابو عبد اللہ محمد بن ابو الفتح الھروی فرماتے ہیں؛
’’میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی چالیس سال خدمت کی ہے- آپ اس مدت کے دوران عشا ئ کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا کرتے تھے- رات کے وقت خلیفہ آپ کی بارگاہ میں خدمت کی غرض سے کئی بار حاضر ہوتا لیکن فجر تک اسے موقع نصیب نہ ہوتا-مَیں نے آپ کے پاس کئی راتیں گزاری ہیں- آپ رات کے ابتدائی حصہ میں تھوڑی سی نماز پڑھتے پھر آپ ذکر فرماتے یہاں تک کہ رات کی پہلی تہائی گزر جاتی- آپ ﴿ان اسمائ الحسنیٰ کا وِرد﴾ فرماتے ﴿المحیط ، العالم، الرب، الشھید، الحسیب ، الفعال، الخلاق، الخالق، الباری، المصور﴾ آپ کا جسم مبارک ایک مرتبہ گھٹ جاتا پھر بڑھ جاتا اور ہوا میں اتنا بلند ہوتا کہ میری نظروں سے غائب ہوجاتا پھراچانک آپ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے یہاں تک کہ رات کی دوسری تہائی بھی گزر جاتی- آپ بہت طویل سجدہ فرماتے تھے، اپنے چہرہ اقدس ک