سیّدنا عبد القادر الجیلانی ص ﴿۰۷۴ھ تا ۱۶۵ھ - ۷۷۰۱ئ تا ۶۶۱۱ئ ﴾ آپ ابو محمد عبد القادر بن موسیٰ بن عبد اللہ ہیں- مغرب کے مصادر و علمی حلقوں میں آپ کو شیخ بوعلام ﴿صاحبِ علَم﴾ الجیلانی کہا جاتا ہے جبکہ مشرق میں عبد القادر الجیلانی کے نام و لقب سے معروف ہیں- آپ ﴿غوث الاعظم﴾ کے لقب سے بھی مشہور ہیں- آپ حنبلی فقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور صوفیا کے امام ہیں- آپ کے پیروکاروں نے آپ کو ﴿باز اللّٰہ الاشہب﴾ ﴿اللہ تعالیٰ کا بلند پرواز شاہین﴾، ﴿تاجُ الْعَارِفِیْن﴾، ﴿مُحْیِ الدِّیْنِ﴾ ﴿دین کو عملی طور پر زندہ کرنے والے﴾ اور ﴿قطبِ بغداد و شہنشاہِ بغداد﴾ کے القابات سے بھی ذکر فرمایا ہے- تصوف کا طریقہ قادریہ آپ سے منسوب ہے اور دیگر تمام سلاسُلِ تصوّف بھی آپ کی ذاتِ گرامی کے فیض سے فیض یافتہ ہیں -
آپ ﴿ص﴾ کی وِلادت و پرورش :
آپ کی وِلادت باسعادت ۱۱، ربیع الثانی، ۰۷۴ھ ﴿۷۷۰۱ئ﴾ کو ہوئی ﴿۱﴾ آپ کی جائے وِلادت﴿۲﴾ میں اختلاف ہے جس کے بارے مختلف روایات پائی جاتی ہیں- ان سب سے اہم قول یہ ہے کہ آپ کی وِلادت موجودہ ایران کے شمال میں بحرِ قزوین ﴿Caspian Sea﴾ کے ساحل پر واقعہ ’’جیلان‘‘ میں ہوئی- دوسرا قول یہ بھی ہے کہ آپ ’’جیلان العراق ‘‘میں پیدا ہوئے یہ بغداد کے جنوب سے چالیس کلومیٹر دور ’’مدائن‘‘ کے قریب ایک تاریخی قصبہ ہے- ﴿بغداد کے﴾ مدارس میں تاریخی تعلیم حاصل کرنے سے بھی اس ﴿قول﴾ کو ثابت کیا گیا ہے اور گیلانی خاندان ﴿تعلیم کے معاملہ میں﴾ بغداد پر ہی اعتماد کرتے تھے﴿۳﴾﴿۴﴾- حضور غوث الاعظم نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو مصادرِ علمی کے مطابق صالحین میں شمار ہوتے ہیں- آپ کے والد حضرت ابو صالح موسیٰ زہد و تقویٰ میں معروف تھے جن کی زندگی بھر کا طرزِ عمل اعمالِ صالحہ کے ذریعے نفس کا تزکیہ اور مجاہدہ تھا اسی لیے ان کا لقب ﴿جنگی دوست﴾ تھا﴿۵﴾-
آپ ﴿ص﴾ کا خاندان:
آپ کا شجرہ شریف یوں منقول ہے: ابو محمد عبد القادر بن موسیٰ، بن عبد اللہ ، بن یحییٰ ، بن محمد، بن دائود، بن موسیٰ، بن عبد اللہ، بن موسیٰ ﴿الجون﴾، بن عبد اللہ ﴿المحض﴾، بن الحسن ﴿المثنّٰی﴾، بن الحسن ، بن علی ﴿المرتضیٰ﴾، بن ابو طالب، بن عبد المطلب، بن ہاشم، بن عبد مناف، بن قصی، بن کلاب، بن مرہ، بن کعب، بن لوئی، بن غالب، بن فہر، بن مالک، بن قریش، بن کنانہ، بن خزیمہ، بن مدرکہ، بن الیاس، بن مضر، بن نزار، بن معد، بن عدنان﴿۶﴾-
آپ کی اولاد کثیر تعداد میں تھی جن کی تعلیم و تربیت آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے فرمائی- ان میں سے دس بیٹوں نے کافی شہرت پائی-
۱-حضرت شیخ عبد الوہاب بن عبد القادر الجیلانی
۲-حضرت شیخ عیسیٰ بن عبد القادر الجیلانی
۳- حضرت شیخ عبد العزیز بن عبد القادر الجیلانی
۴-حضرت شیخ عبد الجبار بن عبد القادر الجیلانی
۵- حضرت شیخ عبد الرزاق بن عبد القادر الجیلانی
۶- حضرت شیخ ابراھیم بن عبد القادر الجیلانی
۷- حضرت شیخ یحییٰ بن عبد القادر الجیلانی
۸- حضرت شیخ موسیٰ بن عبد القادر الجیلانی
۹- حضرت شیخ صالح بن عبد القادر الجیلانی
۱۰- حضرت شیخ محمد بن عبد القادر الجیلانی
اب اِن شہزادگانِ غوث الاعظم کا مختصراً تعارف بیان کیا جاتا ہے :-
۱-حضرت شیخ عبد الوہاب:
ان کا شمار بڑے صاحبزادگان میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے والد ﴿شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مدرسہ میں آپ کی زندگی کے دوران ہی آپ کی نیابت کرتے ہوئے تدریس فرمائی - پھر آپ کے بعد وعظ فرمایا، فتویٰ نویسی کی اور درس و تدریس فرمائی- اختلافی مسائل میں فصاحت ، عمدہ مزاح اور مہذبانہ انداز میں بڑی اچھی گفتگو کے مالک تھے- صاحبِ مروت اور سخاوت والے تھے - امام ’’الناصر لِدِیْنِ اللّٰہ‘‘ نے آپ کو لوگوں کے شکایات سننے پر معمور فرما دیا، پس آپ لوگوں کی ضروریات کو امام تک پہنچاتے تھے- آپ کی وفات ۳۷۵ھ میں ہوئی ، جبکہ دوسری روایت کے مطابق ۳۹۵ھ میں ہوئی جو کہ ’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں درج ہے اور ’’حلبہ‘‘ میں آپ کے والد محترم ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خانقاہ میں آپ کی تدفین ہوئی-
۲-حضرت شیخ عیسیٰ:
آپ نے بھی تدریس کی ، وعظ فرمایا اور کئی کتب تحریر فرمائیں جن میں سے ایک کتاب ’’جواہر الاسرار و لطائف الانوار‘‘ صوفیائ کے علم کے بارے میں ہے- آپ مصر تشریف لے گئے اور وہیں حدیث پاک کی تدریس فرمائی اور وعظ و نصیحت کی- مصر کے بے شمار فقہائ آپ سے فیض یافتہ ہیں- آپ نے ۳۷۵ھ میں وفات پائی-
۳- حضرت شیخ عبد العزیز:
آپ ایک تواضع پسند عالم تھے جنہوں نے وعظ بھی فرمایا اور تدریس بھی کی- بہت سے علمائ نے آپ سے استفادہ کیا- آپ نے سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کے ہمراہ ’’عسقلان‘‘ میں صلیبیوں سے جنگ بھی فرمائی اور ’’القدس‘‘ شریف کی زیارت بھی کی- آپ ’’جبال الحیال‘‘ کی طرف تشریف لے گئے اور وہیں ۲۰۶ھ میں وفات پائی- آپ کا مزار مبارک شہرِ’’ عقرہ ‘‘ میں ہے جو عراق میں ’’موصل‘‘ کے اطرافی اضلاع میں واقع ہے-
۴-حضرت شیخ عبد الجبار:
آپ نے اپنے والد گرامی ﴿ رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے علمِ فقہ حاصل کیا اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ بہت اچھی کتابت فرماتے تھے- آپ بھی صوفیائ کے طریقے پر چلے اور ’’حلبہ‘‘ میں اپنے والدِ گرامی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خانقاہ میں ہی مدفون ہوئے-
۵- حضرت شیخ عبد الرزاق:
آپ متقی، حافظ، حدیث پاک کا عمدہ علم رکھنے والے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک پر فقیہ اور صاحبِ تصانیفِ کثیرہ تھے- آپ انتہائی پرہیزگار تھے اور اپنے گھر میں ﴿بھی﴾ لوگوں سے ﴿ملنے سے﴾ کنارہ کشی فرماتے تھے- آپ صرف نمازِ جمعہ کے لیے ہی باہر تشریف لایا کرتے تھے- آپ کا وصال ۳۰۶ھ میں ہوا- آپ کی تدفین بغداد کے ’’باب الحرب‘‘ میں ہوئی-
۶- حضرت شیخ ابراھیم:
آپ نے اپنے والدگرامی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ نے عراق میں ’’واسط‘‘ کی طرف کوچ فرمایا اور وہیں پر ۲۹۵ھ میں وفات پائی-
۷- حضرت شیخ یحییٰ:
آپ بھی بہت بڑے فقیہ تھے جن سے لوگوں کی کثیر تعداد نے استفادہ کیا- پہلے آپ مصر کی طرف تدریس و تعلیم اور ارشاد و تلقین کیلئے تشریف فرما ہوئے پھر بغداد لوٹ آئے اور یہیں ۰۰۶ھ میں وفات پائی اور ’’حلبہ‘‘ میں اپنے والد گرامی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خانقاہ میں مدفون ہوئے-
۸- حضرت شیخ موسیٰ:
آپ نے اپنے والدِ گرامی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ سیکھی اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ نے ’’دمشق‘‘ کی طرف سفر فرمایا، وہیں ہزاروں تلامذہ کو حدیث پاک پڑھائی اور وہیں رہائش اختیار فرما لی- پھر آپ مصر بھی منتقل ہوئے لیکن دمشق لوٹ آئے اور وہیں وفات پائی- آپ اپنے والد گرامی ﴿ رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی اولاد میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے-
۹- حضرت شیخ صالح:
اکثر ممالک میں آپ کی یہی کنیت مشہور ہے- کچھ مخصوص علمی کتب میں آپ کی سیرت کا تذکرہ کیا گیا ہے- آپ بغداد میں اپنے والد گرامی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے قریب ہی مدفون ہیں-﴿۷﴾
۱۰- حضرت شیخ ابو الفضل محمد:
رئیس الاصحاب ، جمال المسندین، شیخ العالم و الفاضل ، ابو الفضل محمد ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے بھی اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- آپ سے اور دیگر علمائ سے سماعتِ حدیث کی- یہ بھی علم میں ثقہ اور پاکدامن تھے- ۵۲ ذی القعدہ ، ۰۰۶ھ میں بغداد میں وفات پائی اور روضۂ غوث الاعظم (رض) میں مدفون ہوئے-﴿۸﴾
شیخ عبد القادر الجیلانی(رض) بغداد شریف میں:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنی ابتدائی عمر میں ہی اپنے خاندان کے افراد سے علومِ شریعت کا کچھ حصہ حاصل کر لیا تھا- پھر آپ علم کی جستجو میں بغداد تشریف لے آئے- آپ بغداد میں ۸۸۴ھ بمطابق ۵۹۰۱ئ میں تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک اٹھارہ سال تھی﴿۹﴾ اور خلیفہ المستظھر باللّٰہ کا زمانہ تھا- بغداد میں ٹھہرنے کے بعد آپ شیخ ابوسعید المخرمی کے مدرسے سے منسوب ہوگئے جو ﴿باب الازج﴾ کے ایک محلہ میں واقع تھا- یہ ﴿الرصافہ﴾ کی جانب دور مشرق کی سمت واقع ہے جسے اب ﴿محلہ باب الشیخ﴾ کہتے ہیں-
جس عہد میں شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ بغداد تشریف لائے اس وقت دولتِ عباسیہ کے چاروں اطراف میں انتشار پھیلا ہوا تھا- ﴿ایک طرف﴾ جہاں صلیبی ﴿عیسائی﴾ شام کی سرحدوں پر جنگ کر رہے تھے اور ’’انطاکیہ‘‘ اور ’’بیت المقدس شریف‘‘ پر قبضہ کر چکے تھے اور اس میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو شہید کر دیا اور مالِ کثیر لے اڑے تھے- ﴿دوسری طرف﴾ ترکی بادشاہ ’’برکیاروق‘‘ نے بغداد پر حملہ کے ارادہ سے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ کوچ کیا تاکہ خلیفہ کو اس کے وزیر ’’ابن جہیر‘‘ کو معزول کرنے پر مجبور کرے- خلیفہ نے سلجوقی بادشاہ ’’محمد بن ملکشاہ‘‘ سے مدد طلب کی- ترکی اور سلجوقی بادشاہوں کے درمیان کئی معرکے ہوئے جن میں حتمی فتح کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا- جب بھی ان دونوں میں سے کوئی دوسرے پر غالب ہو جاتا تو جمعہ کے خطبہ میں اسی بادشاہ کا نام خلیفہ کے نام کے بعد شروع ہو جاتا-
﴿تیسری طرف﴾ فرقہ باطنیہ بھی خفیہ سازشوں میں مصروف عمل تھا اور مسلمان سالاروں اور قائدین کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کرنے کے قابل ہو گیا تھا- سلجوقی بادشاہ ایک بہت بڑا لشکر تیار کر کے ایران کی طرف چل پڑا اور قلعہ ’’اصفہان‘‘ کا محاصرہ کر لیا جو فرقہ باطنیہ کا مرکز تھا- شدید حصار بندی کے بعد قلعہ والوں نے ہتھیار پھینک دیئے- بادشاہ اس قلعہ پر قابض ہو گیا اور اس میں جو فتنہ باز تھے انہیں قتل کر دیا-
’’بنی اسد ‘‘ کے قبیلہ کے ’’بنی مزید‘‘ کے سرداروں میں سے ایک سردار ’’صدقہ بن مزید‘‘ تھا جو عربوں اور کُردوں کے ایک لشکر کے ساتھ بغداد پر قبضہ کرنے کے لیے نکلا- سلجوقی بادشاہ نے سلجوقیوں کے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور اس پر قابو پایا-
﴿چوتھی طرف﴾ مجرم اور ان کے علاوہ بے روزگار اور بدمعاش بھی بادشاہوں کی لڑائیوں میں مصروفیت سے فائدہ اٹھاتے تھے اور شہروں کا امن تباہ و برباد کر دیتے تھے- وہ لوگوں کو قتل کرتے اور ان کے اموال چھین لیتے تھے- پس جب بادشاہ لڑائی سے واپس پلٹتے تو وہ ان مجرموں کی سرزنش میں مشغول ہو جاتے تھے-
اس افراتفری کے ماحول میں شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ بغداد میں تعلیم حاصل فرما رہے تھے- آپ نے حنبلی مشائخ کی کثیر تعداد سے علمِ فقہ حاصل کیا جن میں سے ایک شیخ ابو سعید المخرمی تھے- پس آپ فقہی مسلک، اختلافی مسائل اور علمِ اصول کے ماہرِ کامل ہو گئے- آپ نے ادب بھی پڑھا اور عظیم محدثین سے حدیث پاک کی سماعت بھی فرمائی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ تیس ﴿۰۳﴾ سال تک علم شریعت کو اس کی اصول و فروع کے ساتھ سیکھتے رہے-
شیخ عبد القادر الجیلانی (رض) ’’بعقوبہ‘‘ میں:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا اپنی زندگی میں ایک سفر بغداد سے ’’بعقوبہ‘‘ کی طرف حصولِ معاش کی غرض سے ہوا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’اہلِ بغداد کی ایک جماعت فقہ سیکھنے میں مشغول تھی- جب پیداوار کا موسم آتا تو وہ ’’الریف‘‘ کی طرف چلے جاتے تھے اور وہاں سے کچھ غلہ حاصل کر لیتے تھے- ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ آئو ’’بعقوبہ‘‘ کی جانب چلیں تاکہ وہاں سے کچھ حاصل کریں---- مَیں ان کے ساتھ چل پڑا- ’’بعقوبہ‘‘ میں شریف بعقوبی نامی ایک صالح مرد رہتا تھا- مَیں ان کی زیارت کے لیے چلا گیا- انہوں نے مجھے فرمایا؛
﴿مُرِیْدُو الْحَقِّ وَ الصَّالِحُوْنَ ، لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ شَیْئًا﴾
’حق کے طالب اور صالحین کبھی لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے‘
اور مجھے لوگوں سے مانگنے سے روک دیا- اس کے بعد میں کسی جگہ بھی ﴿رزق کے سوال کی غرض سے﴾ نہیں گیا-‘‘
اس سفر کی شیخ عبد القادر جیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی ذات میں ایک وسیع تاثیر ہے جہاں اس واقعہ نے آپ پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے اور آپ کو ایک فائدہ مند اور دور رَس سبق سکھایا ہے وہیں شیخ عبد القادر الجیلانی کے سوال کرنے سے رک جانے کے عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نصیحت قبول کرنے کی تعمیل میں ﴿کس قدر﴾ سچا ارادہ رکھتے ہیں جیسا کہ نیکی کے کاموں میں آپ کی اطاعت گزاری کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے-﴿۰۱﴾
آپ ﴿رضی اللّٰہ عنہ﴾ کا وعظ و تدریس فرمانا:
شیخ ابو سعید المخرمی نے ’’باب الازج‘‘ میں واقعہ اپنے مدرسے میں اپنے شاگر رشید، سیدنا عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو ۱۲۵ھ کے شروع میں ہی مجالسِ وعظ کا امیر مقرر فرما دیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اس میں ہفتہ میں تین دن یعنی اتوار ، جمعہ کی صبح اور منگل کی رات کو وعظ فرمایا کرتے تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا ابتدائی کلام یہ تھا:
﴿غَوَّاصُ الْفِکْرِ یَغُوْصُ فِیْ بَحْرِ الْقَلْبِ عَلٰی دُرَرِ الْمَعَارِفِ، فَیَسْتَخْرِجُھَا اِلٰی سَاحِلِ الصَّدْرِ، فَیُنَادِیْ عَلَیْھَا سِمْسَارَ تَرْجُمَانِ اللِّسَانِ، فَتَشْتَرِیْ بِنَفَائِسِ اَثْمَانٍ حُسْنَ الطَّاعَۃِ، فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ﴾
’’فکر کا غوطہ خور دِل کے سمندر میں معرفت کے موتیوں پر غوطہ زن ہوتا ہے ، پس وہ انہیں نکال کر سینہ کے ساحل پر لاتا ہے، پھر ان پر زبان کے ماہر ترجمان کو بلاتا ہے، پھر وہ زبان عمدہ قیمتوں کے بدلے حُسنِ اطاعت کو ایسے گھروں ﴿مسجدوں﴾ میں خریدتی ہے جن کو بلند کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے رکھی ہے- ‘‘
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ میں یہ استطاعت تھی کہ وعظِ حسنہ کے ساتھ بے شمار ظالم حاکمین کو ان کے ظلم کرنے سے روک دیا، بہت سے گمراہوں کو گمراہی سے بچا لیا- جہاں وزرائ، سردار اور خاص طبقہ کی شخصیات آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی مجلسوں میں حاضر ہوتی تھیں وہیں عام لوگوں پر بھی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے وعظ کی بہت زیادہ تاثیر ہوتی تھی- ایک لاکھ قزاقوں اور بد بختوں نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ہاتھ پر توبہ کی- پانچ ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی آپ کے دستِ اقدس پر مسلمان ہوئے- بعض مؤرخین کا اندازہ ہے کہ شیخ الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی ﴿۸۵۰۱ئ تا ۱۱۱۱ئ ﴾ سے ملاقات کی - آپ امام غزالی علیہ الرحمہ کی تحریک کی تائید فرمائی ، یہاں تک کہ اپنی تصنیف شریف ﴿الغنیۃ﴾ بھی امام غزالی کی کتاب ﴿احیائ علوم الدین﴾ کی طرح تحریر فرمائی ﴿۱۱﴾ ﴿۱۲﴾-
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے وعظ سننے والوں کے دلوں پر قابو پا لیتے تھے حتی کہ ایک مرتبہ آپ اپنی وعظ کی کرسی پر اپنی گفتگو میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ آپ کے عمامہ شریف کا ایک لڑ کھل گیا اور آپ کو خبر بھی نہ ہوئی تو حاضرین نے بھی اپنے عمامے اتار دیئے اور انہیں بھی پتا نہ چلا-
ابو سعید المبارک المخزومی کی وفات کے بعد ان کا یہ مدرسہ شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے سپرد کر دیا گیا- پس آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اس میں تدریس اور فتویٰ نویسی کے لیے تشریف فرما ہوئے- علم کے متلاشی آپ کے مدرسہ کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونے لگے حتی کہ مدرسہ ان پر تنگ ہو گیا، پس اس مدرسہ کے ساتھ جو گھر اور جگہیں تھیں انہیں اس مدرسہ کے ساتھ ملایا گیا جس سے مدرسہ اتنا مزید ہوگیا- اس کی تعمیر میں مالداروں نے اپنا مال خرچ کیا اور فقرائ نے خود مزدوری کی یہاں تک کہ اس کی عمارت ۸۲۵ھ بمطابق ۳۳۱۱ئ میں مکمل ہوگئی اور مدرسہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے نام سے منسوب ہوگیا-
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ایسے بصیرت افروز عالِم تھے کہ لغت اور شریعت کے تیرہ علوم میں کلام فرماتے تھے جبکہ طلبائ آپ کے مدرسہ میں آپ کے پاس علمِ تفسیر، سماعتِ حدیث، فقہی مسلک، اختلافی مسائل، علمِ اصول اور علومِ زبان ﴿علمِ لغت و گرائمر﴾ پڑھتے تھے اور قرآن پاک قرأت سے تلاوت کرتے تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ امام الشافعی اور امام احمد بن حنبل کے فقہی مذہب پر فتویٰ دیتے تھے اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے امام ابو حنیفہ النعمان کے فقہی مذہب پر بھی فتویٰ دیا- ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین﴾
آپ ﴿رضی اللّٰہ عنہ﴾ کا طریقِ تربیت:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ﴿طلبائ کی﴾ تربیت کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ کے بنیادی اوصاف سے متصف دس اصول منتخب فرمائے جو کہ درج ذیل ہیں:
۱- طالب علم اللہ تعالیٰ کی سچی یا جھوٹی قسم نہیں اٹھائے گا، نہ جان بوجھ کر اور نہ بھول کر:
کیونکہ جب وہ اس کا اپنے اوپر لازمی اہتمام کرے گا تو یہ عمل اسے قسم کو مکمل طور پر چھوڑ دینے پر مجبور کر دے گا اور اس کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے انوار کا دروازہ اس پر کھول دے گا جس کی تاثیر وہ اپنے دل میں پائے گا اور مخلوق کے نزدیک اس کی عزت، ترقی اور استحکام بڑھ جائے گا-
۲- طالب علم جھوٹ سے پرہیز کرے گا، مذاق میں بھی اور سنجیدگی میں بھی:
جب اسے اس کی عادت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس کے سینہ کو کھول دے گا اور اس کا علم خالص ہو جائے گا، اس کا باطن مکمل طور پر سچا ہو جائے گا اور اس کا اس پر اثر بھی ظاہر ہوگا-
۳- جو وعدہ کرے وہ پورا کرے اور وعدہ کرنے سے پرہیز کرنے کی مکمل کوشش کرے:
کیونکہ یہ عمل اس کے لیے جھوٹ اور قسم میں مبتلا ہونے سے زیادہ ضامن بخش ہے- جب وہ یہ عمل کرے گا تو اسے سخاوت کا در اور حیائ کا درجہ نصیب ہو جائے گا اور سچے لوگوں کی محبت عطا ہو گی-
۴- مخلوق میں سے کسی چیز پر لعنت کرنے سے پرہیز کرے اور کسی ذرہ اور جو اس سے بڑھ کر ہو اسے تکلیف نہ پہنچائے:
یہ نیک اور سچے لوگوں کے اخلاق میں سے ہے کیونکہ اس عمل کا پھل سلامتی اور ہلاکت کے اکھاڑوں میں گرنے سے حفاظت ہے- یہ عمل بندوں کی رحمت کا سبب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اسے بلند درجات عطا فرماتا ہے-
۵- کسی کو بد دعا کرنے سے اجتناب کرے اور اگر کوئی اس پر زیادتی کرے تو قول اور فعل سے اس کا مقابلہ نہ کرے:
اگر یہ عمل کرے گا اور اسے اپنے تمام آداب میں شامل کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بلند ہو جائے گا اور تمام مخلوق کی محبت کو پا لے گا-
۶- کسی اہلِ قبلہ پر شرک، کفر یا منافقت کا الزام نہ لگائے:
یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیادہ قریب ہے، اخلاقِ حسنہ کے زیادہ نزدیک ہے، علم کے جھوٹے دعوے سے دور ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے زیادہ نزدیک ہے- یہ ایسا بزرگی والا دروازہ ہے جو بندہ پر تمام مخلوق کی رحمت کا باعث بنتا ہے-
۷- گناہوں کی طرف نگاہ کرنے سے بچے اور اپنے اعضائ کو بھی ان سے بچا کر رکھے:
اس سے نفس بلند مقامات کی طرف تیزی سے ترقی کرتا ہے اور اعضائ آسانی سے اطاعت گزاری کی طرف مائل ہوتے ہیں-
۸- ضرورت چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، اس میں مخلوق پر بھروسہ نہ کرے:
متقین کا شرف اور عابدین کی ساری عزت اسی میں ہے- اسی عمل سے بندہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر قوی ہوتا ہے- اللہ کے ساتھ باقیوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور اس کی عطائوں پر بھروسہ کرتا ہے- بندہ کے نزدیک حق کے معاملہ میں مخلوق یکساں ہو جاتی ہے اور یہ عمل اخلاص کے زیادہ قریب ہے-
۹- اپنے اندر سے انسانوں سے وابستہ لالچ ختم کر دے:
یہی خالص بے نیازی، بہت بڑی عزت اور صحیح توکل ہے- یہ زہد ﴿تصوف﴾ کے اسباق میں سے ایک سبق ہے اور اسی کے سبب بندہ پرہیزگاری کو پاتا ہے-
۱۰- عاجزی اِختیار کرنا، اور اسی کے سبب منزل بلند ہوتی ہے؛
یہ تمام اخلاق کی بنیادی صفت ہے ، اس کی وجہ سے بندہ صالحین کی منازل کو پا لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ظاہر و باطن میں راضی ہوتے ہیں- یہ تقویٰ کا کمال ہے- ﴿۴۱﴾
آپ ﴿رضی اللّٰہ عنہ﴾ کے فرمودات:
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے اہم فرمودات درج ذیل ہیں:
التوحید:
’’جسے توحید نصیب نہیں اس کا کوئی اخلاص اور کوئی عمل ﴿قابلِ قبول﴾ نہیں- شرک بالخلق سے اپنے آپ کو بچائو، حق عزوجل واحد ہے اور وہی تمام اشیائ کا خالق ہے- تمام چیزیں اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں- اے غیر اللہ سے چیزوں کو مانگنے والے! تم عقلمند نہیں ہو- کیا کوئی چیز ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے نہ ہو؟ تم مخلوق کے غلام ہو، منافقت اور دکھلاوے کے بندے ہو، تم اخلاق کے، لذتِ نفس کے اور تعریف کے غلام ہو- تم میں سے کون ایسا ہے جسے ﴿اس مالک کی حقیقی﴾ بندگی کا یقین حاصل ہو چکا ہے مگر جسے اللہ عزوجل چاہے- وحدت والے ہی ﴿حقیقی﴾ افراد ہیں- کوئی دنیا کی عبادت کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہے، وہ اس دنیا کے ختم ہونے سے ڈر رہا ہے- کوئی مخلوق کی عبادت کر رہا ہے، ان سے خوف کھاتا ہے اور انہی سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے- کوئی جنت کی عبادت کر رہا ہے، اس کی نعمتوں کا طالب ہے لیکن اس کے خالق کا طالب نہیں ہے- کوئی آگ کی پوجا کر رہا ہے، اس سے ڈرتا ہے لیکن اس کے خالق سے خوف نہیں کھاتا- مخلوق کیا ہے، جنت کیا ہے، آگ کیا ہے اور اس کے سوائ کون ہے؟ اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿وَ مَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ﴾
’’اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دین کو اسی کے لیے خالص کر کے، سب سے جدا ہو کر اللہ کی عبادت کرو-‘‘
القضا ئ و القدر:
’’خیر و شر کے تمام واقعات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتے ہیں لیکن مومن کو اس بات کا حکم ہے کہ وہ شرکی مقدار کو اسی قدر خیر سے دور بھگائے- پس وہ کفر کو ایمان سے تبدیل کرے، بدعت کو سنت کے ذریعے، نا فرمانی کو اطاعت کے ذریعے، بیماری کو دوائ کے ساتھ، جہالت کو معرفت کے ساتھ، دشمنوں کو جہاد کے سبب اور تنگ دستی کو عمل کے ذریعے زائل کرے ----- ﴿وغیرہ وغیرہ﴾ پس اللہ کے بندوں نے حق کی تقدیروں سے حق کے ساتھ حق کے لیے جھگڑا کیا- مرد وہ ہے جو ﴿دین کے معاملہ میں﴾ تقدیر سے جھگڑنے والا ہو نہ کہ اس کی موافقت کرنے والا ﴿یعنی کسی کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں یہی لکھ دیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں وغیرہ ﴾-‘‘
الایمان:
’’ایمان عمل اور اخلاص کا مجموعہ ہے- پس عمل سے منافقت ختم ہوتی ہے اور اخلاص سے ریا کاری کی نفی ہوتی ہے- ﴿ایمان میں﴾ اخلاص ہی اصل مقصد ہے- اخلاص یہ ہے کہ عمل کرتے ہوئے دھیان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رہے ﴿تصورِ اسم اللہ ذات کی مشق سے عمل میں خلوص پیدا ہوتا ہے﴾- اللہ تبارک و تعالیٰ مومن کو کتاب و سنت کے راستے سے دنیا کے عیب دکھا دیتا ہے پس اس کے دل میں ﴿اس دنیا سے﴾ زہد یعنی کنارہ کشی پیدا ہوجاتی ہے- پس اس صورت میں دنیا کی عمارت اسے نقصان نہیں دیتی چاہیے وہ ہزار منزلہ ہی کیوں نہ بنا لے کیونکہ وہ اسے اپنے لیے نہیں بناتا بلکہ دوسروں ﴿کے آرام﴾ کے لیے بناتا ہے- اس کی تعمیر میں وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے ﴿یعنی رزقِ حلال سے بناتا ہے﴾ اور ﴿اس دنیا کے معاملہ میں﴾ قضا و قدر کی موافقت کرتا ہے- وہ اس عمارت کو ﴿شہرت کے لیے نہیں بلکہ﴾ مخلوق کی خدمت اور انہیں آرام پہنچانے کی غرض سے بناتا ہے- وہ نان و نفقہ ﴿معیشت ﴾کی تاریکیاں مٹا کر روشنی لے کر آتا ہے اور اس میں سے خود ایک ذرہ بھی نہیں کھاتا- ﴿اس عمل کی بدولت﴾ اس کے لیے ایسا ﴿روحانی﴾ رزق مخصوص ہو جاتا ہے جس میں اس کے علاوہ کوئی اس کا شریک نہیں ہوتا-‘‘
الامر بالمعروف و النہی عن المنکر:
’’جب تم مخلوق کو دعوت دو اور خود حق پر نہ ہو تو تمہارا ان کو دعوت دینا تمہارے لیے مصیبت بن جائے گا- جب بھی تم حرکت کرو گے تو برکت آئے گی اور جب بھی بلند مرتبے کی خواہش رکھو گے تو ذلیل ہو جائو گے- تمہاری زبان میں شفقت نہیں ہے، تمہارے ظاہر میں باطنیت ﴿روحانیت﴾ نہیں ہے، تمہارا گھومنا پھرنا بے مقصد ہے، تمہاری تلوار کاٹھ ﴿لکڑی﴾ کی ہے اور تمہارے تیر گندھگ ﴿Sulfur﴾ کے ہیں ﴿جس سے کسی کا شکار نہیں کیا جا سکتا﴾- ﴿۵۱﴾
شیخ عبد القادر الجیلانی (رض) کے دور میں حکمرانوں کی حالت:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے بہت سے ظالم حکمرانوں کو اپنی عمدہ وعظ و نصیحت کے ذریعے ظلم کرنے سے روک دیا اور بہت سے گمراہوں کو گمراہی سے بچا لیا- آپ نے حکمرانوں کو بالخصوص اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور شریعت کی مخالفت میں ان کی پیروی کرنے سے عوام کو خبردار کیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:
’’حکمران اکثر مخلوق کے لیے خدا بن گئے ہیں- دنیا، دولت، خوشحالی، چشم پوشی اور اقتدار، خدا بن بیٹھے ہیں- تم پر افسوس! کہ تم شاخ کو اصل بنا بیٹھے ہو، تم نے مرزوق کو رازق بنا دیا ہے، غلاموں کو مالک بنا دیا ہے، محتاج کو غنی سمجھ لیا ہے، عاجز کو طاقتور اور مردہ کو زندہ سمجھ بیٹھے ہو- جب تم دنیا کے جابروں، فرعونوں، بادشاہوں اور امیروں کی تعظیم کرو گے اور اللہ عزوجل کو بھول جائو گے اور اس کی عظمت بیان نہیں کرو گے تو ﴿روزِ قیامت﴾ تمہارا فیصلہ بھی اس شخص کی طرح ہوگا جس نے بتوں کی پوجا کی ﴿ یعنی تجھ میں اور ایک بت پرست میں کوئی فرق نہیں ہوگا﴾- جس ﴿چیز یا شخص﴾ کی تم نے ﴿اللہ تعالیٰ کو بھلا کر﴾ تعظیم کی ﴿تو سمجھ لو کہ﴾ وہ تمہارا بت بن گیا-‘‘
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے بلا امتیاز ان والیوں اور وظیفہ خوروں کے عیوب و نقائص کو بھی ظاہر فرمایا جو ﴿ظالم﴾ بادشاہوں کے احکامات کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے تھے- شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی حکام کو تنبیہ صرف عام تقریروں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان خاص حالات میں بھی ہوتی جن میں ﴿شریعت کی﴾ خلاف ورزی اور مظالم ظاہر ہوتے تھے-
خلیفہ المقتفی نے ۱۴۵ھ بمطابق ۶۴۱۱ئ میں یحییٰ بن سعید المعروف ابن المرجم کو قاضی بنا دیا- اس نے عوام پر ظلم کرنے، اموال بنانے اور رشوت لینے کی انتہائ کر دی- اس کی مخالفت میں اشتہارات لکھے گئے اور انہیں مساجد اور بازاروں میں چپکایا گیا لیکن کسی میں طاقت نہیں تھی کہ اس کی مخالفت میں سامنے آئے- ابن الجوزی کا نواسہ ذکر کرتا ہے کہ شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مسجد میں خلیفہ کی موجودگی کو غنیمت سمجھ کر منبر پر ہی انہیں یہ کہتے ہوئے مخاطب فرمایا:
﴿وَلَّیْتَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ اَظْلَمَ الظَّالِمِیْنَ وَ مَا جَوَابُکَ غَدًا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ؟﴾
’’﴿اے خلیفہ!﴾ تم نے ظالموں کے ظالم کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے، کل ﴿روزِ قیامت﴾ رب العالمین کی بارگاہ میں تیرا کیا جواب ہوگا؟‘‘
پس شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے نصیحت فرمانے اور ظالم حکام کی مذمت فرمانے پر خلیفہ نے اس مذکورہ قاضی کو معزول کر دیا- اس طرح کی صورتِ حال وزیروں، رئیسوں اور دربانوں کے ساتھ اکثر پیش آتی رہتی تھی- تاریخ کی کتابوں میں یہ درج ہے کہ یہ سب شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مشاہدات پر توجہ دیتے تھے کیونکہ انہیں آپ کی صلاحیت اور مقاصد کی سچائی کا یقین تھا- شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ حکمرانوں کے قریب جانے اور شک و شبہ کی جگہوں سے دور رہنے کی حتی الامکان کوشش فرماتے تھے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے بارے ذکر کیا جاتا ہے کہ آپ نے کبھی کسی حاکم کے دروازے پر جا کر اپنے درد کا قصہ نہیں سنایا-
سلطان صلاح الدین ایوبی کے مجاہدین تیار کرنے میں آپ (رض) کی کاوشیں:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ نے ایمان کی روح کو ہر طرف پھیلانے کے لیے ایک نئی تحریک کا اہتمام فرمایا- آپ نے اس تحریک پر بھروسہ کرتے ہوئے بغداد میں اپنے مدرسہ کو کھول دیا اور مدارس کے رضا کاروں کے لیے رہائش، کھانا اور عطیات فراہم کئے- پھر مدرسہ کے یہ رضا کار جہانِ اسلامی کے تمام ممالک میں پھیل گئے اور اسی مدرسہ کی فکر وطرز پر تقریبا چار سو ﴿۰۰۴﴾ مدارس کھولے اور ان کا نعرہ یہ تھا:
’’ہر فقہی مسلک اور فکر والے لیے ﴿یہ پیغام کہ﴾ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صلیبی ﴿عیسائی﴾ قبضہ سے بیت المقدس کی آزادی‘‘
جو اس پر تقریبا نوے ﴿۰۹﴾ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں-
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے تزکیہ کے لیے سلوک کے طریقے کو اپنایا- ایمان کے دسترخوان پر ہی انسان تیار ہوتے ہیں- عملی طور پر شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ رضا کاروں کی ایک فوج ظفرِ موج تیار کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ایک فکر کو لیا اور پھر اسے مدارس سے باہر تمام ممالک میں پھیلا دیا- ﴿یوں﴾ مردوں اور عورتوں کی ایک نئی قوم تیار ہو گئی یہاں تک تاریخ میں درج ہے کہ ملکِ شام و عراق میں خواتین درجہ افتائ تک پہنچیں- جس مدت میں سلطان صلاح الدین ایوبی حکمران بنے اس میں آٹھ سو ﴿۰۰۸﴾ خواتین شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مرکزی مدرسہ یا اس کی شاخوں سے فارغ التحصیل تھیں-
بیت المقدس سے ناپاک قبضے کا چھٹکارا اس سے اہم تھا اور اسی طرح دوسرے کا احترام چاہے اس کا فکری یا فقہی مسلک کوئی ہو اور اسی طرح زہد فی الدنیا ﴿تصوف﴾ کہ وہ اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں نہ کہ دل میں- یہ وہ بات ہے جس کی شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے خطابات میں بار بار تاکید فرمائی اور اسباب کو اختیار کرنے کی دعوت دی چاہے مخالفت میں چاہے جنگ میں جبکہ منحرف صوفی کو مخاطب کرتے ہوئے پورے وثوق سے اس بات کی تاکید فرماتے کہ اسباب کو ترک کرنا خلافِ شریعت ہے کیونکہ اسباب کو ترک کرنے والا اور نماز کا تارک ایک برابر ہے کہ نماز بھی تو فحاشی اور منکرات سے بچانے والے اسباب میں سے ایک مضبوط سبب شمار ہوتی ہے- اسی طرح تمام عبادات کا حال ہے- ﴿۷۱﴾
حضور غوث الاعظم کے بیٹوں سمیت آپ کے مدرسہ باب القادریّہ کے ہزاروں طلبا نے صلیبی جنگوں میں سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کی معانت کی اُن میں سے ہزاروں غازی اور سینکڑوں شہید ہوئے- سُلطان صلاح الدین ایوبی عراق کے معروف کُرد قبیلہ سے تھے اور حضور غوث الاعظم کے مریدین میں سے تھے- آج بھی کردوں کی اکثریت سلسلہ قادریّہ سے وابستہ ہے چاہے وہ عراق میں بسنے والے ہیں، شام میں بسنے والے ہیں یا ترکی میں، اُن کا رابطہ طریقہ قادریّہ سے ہے-
جیسا کہ شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے سے پہلے فلاحی مدارس کی ناکامیوں کا بھی جائزہ لیا جیسے ابو حامد امام الغزالی کا مدرسہ تھا جو عقلی فکری مکتبۂ فکر کی ﴿مضبوط﴾ بنیادوں پر قائم ہوا، جہاں اس کا منتظمِ اعلیٰ سلطان نظام الملک سلجوقی تھا لیکن بیس ﴿۰۲﴾ سال بعد مدرسہ اپنے قدموں پر کھڑا نہ رہ سکا- یہیں سے شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے مدرسہ بنانے کی فکر کو حاصل کیا اور بعینہ تزکیہ کے اسلوب کو اپنا کر ایک علمی نصاب مرتب کیا- شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے اس نعرہ کو بلند کیا کہ:
’’ ہر مسلک کے لیے---- قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘ ﴿۸۱﴾
شیخ عبد القادر الجیلانی (رض) کی لکھی ہوئی کتابیں:
شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ نے بہت سی کتابیں شریعت کے اصول، فروعات، اہل احوال، اہلِ حقائق اور تصوف کے بارے میں لکھی ہیں- ان میں سے کچھ چھپ چکی ہیں، کچھ ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی نسخے ہیں اور کچھ عکس کی صورت میں محفوظ ہیں- ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:-
۱-اغاثۃ العارفین و غایۃ من الواصلین
۲-اوراد الجیلانی
۳-آداب السلوک و التوصل الی منازل السلوک
۴-تحفۃ المتقین و سبیل العارفین
۵-جلائ الخاطر
۶-حزب الرجا و الانتہائ
۷-الحزب الکبیر
۸-دعائ البسملۃ
۹-الرسالۃ الغوثیہ:
ان میں سے کچھ کے نسخہ بغداد میں مکتبۃ الاوقاف میں موجود ہیں-
۱۰-الرسالۃ فی الاسمائ العظیمۃ للطریق الی اللّٰہ
۱۱-الغنیۃ لطالبی طریق الحق: ﴿اسلامی آداب و اخلاق کے بارے یہ آپ کی بڑی مشہور کتاب ہے اس کے دو حصے ہیں﴾-
۱۲-الفتح الربانی و الفیض الرحمانی: ﴿یہ بھی آپ کی مشہور کتابوں میں سے ایک ہے یہ آپ کی مجالسِ وعظ و ارشاد کی رُوداد ہے﴾-
۱۳-فتوح الغیب: ﴿یہ عقائد و ارشاد میں آپ کے فرمودات پر مشتمل ہے جس میں ۸۷ فرمودات درج ہیں﴾-
۱۴-الفیوضات الربانیہ: ﴿یہ آپ کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے لیکن آپ کے ورد، وظائف، دعائوں اور آپ کی محافل پر مشتمل ہے ﴾-
۱۵-معراج لطیف المعانی
۱۶-یواقیت الحکم
۱۷-سر الاسرار: ﴿یہ تصوف کے موضوع پر بڑی معروف کتا ب ہے اس کا ایک نسخہ بغداد میں مکتبہ قادریہ پر اور ایک نسخہ استنبول یونیورسٹی کے مکتبہ میں موجود ہے- ’’العارفین پبلیکشنز‘‘ نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے﴾-
۱۸-الطریق الی اللّٰہ: ﴿یہ کتاب تنہائی، بیعت اور سات آسمانوں کے بارے میں ہے﴾-
۱۹-رسائل الشیخ عبد القادر: ﴿یہ پندرہ خطوط پر مشتمل ہے جن کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے- اس کا نسخہ استنبول یونیورسٹی کے مکتبہ میں موجود ہے﴾-
۲۰-المواھب الرحمانیہ: ﴿’’روضات الجنات‘‘ کے مصنف نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے﴾-
۲۱-حزب عبد القادر الجیلانی: ﴿یہ ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے جو بغداد میں مکتبۃ الاوقاف پر موجود ہے﴾-
۲۲-تنبیۃ الغبی الی رؤیۃ النبی: ﴿قلمی نسخہ ہے جو مکتبہ الفاتیکان بروما میں موجود ہے﴾-
۲۳-الرد علی الرافضہ: ﴿یہ کتاب آپ کی طرف منسوب ہے حالانکہ یہ محمد بن وہب کی کتاب ہے- خطی نسخہ ہے جو بغداد میں مکتبۃ القادریہ پر موجود ہے﴾-
۲۴-وصایا الشیخ عبد القادر: ﴿یہ بھی مکتبہ فیض اللہ مراد میں زیرِ رقم ۱۵۲ موجود ہے﴾-
۲۵-بہجۃ الاسرار و معدن الانوار فی مناقب الباز الاشہب: ﴿یہ شیخ عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مواعظ ہیں جنہیں نور الدین ابو الحسن علی بن یوسف اللخمی الشطنوفی نے اکٹھا کیا ہے﴾-
۲۶-تفسیر الجیلانی: ﴿اس کا قلمی نسخہ طرابلس شام میں مکتبہ رشید گرامی پر موجود ہے اِسے استنبول ترکی سے ’’مرکز الجیلانی للبحوث‘‘ نے سات جلدوں میں شائع کیا ہے ﴾-
۲۷-الدلائل القادریہ
۲۸-الحدیقۃ المصطفویہ: ﴿یہ فارسی اور اردو میں شائع ہو چکی ہے﴾-
۲۹-الحجۃ البیضائ
۳۰-عمدۃ الصالحین فی ترجمۃ غنیۃ الصالحین
۳۱-بشائر الخیرات
۳۲-ورد الشیخ عبد القادر الجیلانی
۳۳-کیمیائ السعادۃ لمن اراد الحسنیٰ و زیادۃ
۳۴-المختصر فی علم الدین
۳۵-مجموعہ خطب﴿۰۲﴾
۳۶- السفینۃ القادریّہ ﴿یہ آپ کے درُودِ صُغریٰ و درُودِ کبریٰ پہ مشتمل ہے﴾-
آپ ﴿رضی اللّٰہ عنہ﴾ کے منتخب فرمودات:
آپ نے فرمایا کہ؛
٭ قرآن و سنت کے دو پروں سے حق کی طرف پرواز کرو
٭ دنیا کو اپنے دلوں سے نکال کر ہاتھوں پر لے آئو یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی
٭ اسم اعظم یہ ہے کہ جب تم اللہ کہو تو اس وقت تمہارے دل میں اس کا غیر نہ ہو
٭ اپنے دل کے دروازوں کے چوکیدار بن جائو، جس کو اللہ تعالیٰ داخل ہونے کا حکم دے اسے داخل ہونے دو اور جس کے نکالنے کا حکم دے اسے نکال باہر کرو- اپنے دلوں سے ہوا و ہوس کو نکال دو یہ ہلاک کر دے گی
٭ کسی پر ظلم نہ کرو حتیٰ کہ برا گمان بھی نہ رکھو بے شک تمہارا رب کسی ظالم کے ظلم کو معاف نہیں فرماتا
٭ جب بھی تم نے نفس سے جہاد کیا اور اسے اطاعت کے ذریعے قتل کر دیا تو تم زندہ ہو گئے اور جب بھی تم اس نفس کی تعظیم کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں اسے نہ جھڑکا تو تم مردہ ہو گئے- فرمایا یہ اس حدیث کا مفہوم ہے کہ ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ آئے ہیں
٭ مرد وہ نہیں جو ﴿دین کے معاملہ میں﴾ تقدیر کے سامنے سر جھکا لیتا ہے- بے شک مرد وہ ہے جو ﴿بری﴾ تقدیر کو ﴿اچھی﴾ تقدیر سے دور کر دیتا ہے
٭ مستحق اور غیر مستحق ہر ایک کے لیے بھلائی کرو اور اجر اللہ تعالیٰ پر ہے
٭ میں نے تمام اعمال کی چھان بین کی، میں نے سب سے افضل کام ﴿بھوکے کو﴾ کھانا کھلانا پایا- میں چاہتا ہوں کہ اگر دنیا میرے قبضے میں آ جائے تومیں اسے بھوکوں کو کھلا دوں گا-
٭ انسان کی محبت کا اس وقت تک بھروسہ نہ کرو جب تک تم اس کو تنگی کی حالت میں نہ آزما لو
٭ دنیا میں شہد کی مکھی کی طرح ہو جائو کہ اگر تم کوئی چیز کھائوتو پاکیزہ ہی کھائو اور اگر ﴿کسی کو﴾ کھلائو تو حلال ہی کھلائو- جب کوئی چیز تمہارے قبضے میں آ جائے تو نہ اسے توڑو اور نہ اس پر خراش لگائو
اور فرمایا کہ:
٭ تین کام ایسے ہیں جو تمہارا وقت برباد کرتے ہیں؛ ایک جو گزر گیا اس پر حسرت و افسوس کرنا کیونکہ وہ اب نہیں لوٹے گا، دوسرا تیرے ا?