فقرعشقِ الٰہی کاانتہائی درجہ ہے-فقر کی ابتدا معرفتِ ربِ کریم ہے اوراِس کی انتہافنافی اللہ بقابااللہ کے مراتب ہیں -تشنۂ قرب عاشق دریائے وحدتِ حق تعالیٰ سے جام بھر بھر کے پیتے ہیں مگر پیاس ہے کہ بُجھنے کانام ہی نہیں لیتی-خدائے برحق کے انواروتجلیات غیر مُتناہی ہیں تو پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ فقیر عاشق کی طلبِ قرب محدود ہو؟اللہ تعالیٰ ان فقرأ پہ بارانِ نور برساکراپنے ربّ العالمین ہونے کاپتہ دیتاہے تو فقرأ اُسے جذب کرکے ’’ہل من مزید ‘‘کانعرۂ مستانہ بلندکر کے،اپنی کامل بندگی کاثبوت دیتے ہیں-ایسے تابندہ ستاروں سے آسمانِ اِنسانیت ازل سے چمک رہا ہے اوراَبد تک دمکتارہے گا-عاشق فقرأ کو اہل تصوف پہ ایسے برتری حاصل ہے کہ جیسے زمین پر آسمان کو اوران کی فضیلت اہل طریقت پہ ایسے ہے جیسے مرشد کامل اپنے مریدوںمیں افضل ہوتاہے-ان عاشقوں پہ سلطان الفقرأ کو تخصیص عطا کی گئی-سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہ ،العزیز اورحضرت سلطان باھُو قدس سرہ ،العزیز دونوں سلطان الفقر کی مرتبہ پہ فائز ہیں-فقر کی تشریح مختصر ترین الفاظ میں حضرت سُلطان باھُو نے یوں کی :
’’پس فقر کو مالک الملکی مراتب حاصل ہیں ‘‘- ﴿عین الفقر﴾
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی توصیف میں حضرت سُلطان باھُو فرماتے ہیں :
’’حضرت محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ شکمِ مادر ہی میں مراتب ِفقر پر سرفراز ہوئے اور اہل ِفقر ہو کر شریعت ِ محمدی ﷺ کی پاسداری میں مقامِ محبوبیت پر پہنچے اور بارگاہِ الٰہی سے فقیر محی الدین کا خطاب پایا‘‘ - ﴿عین الفقر ﴾
سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو کی توصیف میں آپ کے محبُوب خلیفہ پیر سیّد سُلطان بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
٭سبحان اللہ سُلطان صاحب دا، محل، مُقدّس وادی
’’ھُو ‘‘ ’’ اللّٰہ ‘‘ تے ’’یاھُو‘‘ دی ہے صدا ندا مُنادی
وجدانی، عرفانی دی واہ اِس جا کُل آبادی
اکسیر نظر تے قُلزمِ رحمت تعریف اُس راہ نُمأ دی
٭ہیں دریا بخشائش دا، باران سحابِ کرم دا
روئے زمین تے فیض حضرت دا اُچھلن بحرِ ہُمم دا
نظر اکسیر نوازیں جینوں عارف کریں قِدَمْ دا
پنج تن پاک اورصحابہ کرام کے بعد اگر سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ کسی سے متأثر ہیں تو وہ ہستی مبارک بلاشبہ سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی الحسنی والحسینی کی ہے-ایساکیوں نہ ہو؟کہ جب حضور غوث الاعظم کے قدم مبارک کاتمام اولیائے کرام کی گردنوں پہ ہونا خالق ِ دوجہان کی اپنی رضا ہواِسی لئے سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ آپ کو پیرانِ پیر کے لقب سے یاد کرتے ہیں:
سن فریاد پیراں دیا پیرا میری عرض سنیں کن دھر کے ھُو
بیڑا اڑیا میرا وچ کپراندے جتھے مچھ نہ بہندے ڈر کے ھُو
شاہ جیلانی محبوب سبحانی میری خبر لیو جھٹ کر کے ھُو
پیر جنہاندے میراں باھُو (رح) اوہی کدھی لگدے تر کے ھُو
٭
سن فریاد پیراں دیا پیرا میں آکھ سناواں کینوں ھُو
تیرے جیہا مینوں ہور نہ کوئی میں جیہاں لکھ تینوں ھُو
پھو ل نہ کاغذ بدیاں والے دَر توں دھک نہ مینوں ھُو
میں وچ ایڈ گناہ نہ ہوندے باھُو توں بخشیندوں کینوں ھُو
مرشد کے مقامِ قرب کی پہچان ہونا بڑی غَنیمت ونعمت ہے اوراِسی پہچان سے اِنسان میں حقیقی عجز واِنکسار ی دَر آتی ہے-حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اَپنی تعلیمات میں جابجا سیّدناحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ، العزیز کے مقاماتِ فنافی اللہ وبقابااللہ کا شعور عطا فرمایا اور مناجات سے اپنی عاجزی کابھی اِظہار فرمایاکیونکہ یہ مناجات خلوص ِ دِل اورمحبتِ غوث سے سرشاری کے عالم میں اَدا ہوئیں اِس لئے سماعت کرنے والے کے قلب ورُوح پہ براہِ راست تاثیر بَپا کرتیں ہیں- حضرت سُلطان باھُو نے اپنی تصانیف میں متعدّد مقامات پر طالبانِ مولیٰ کو یہ رہنُمائی دی کہ اگر کسی عُقدے میں مُبتلا ہو جائیں یا کسی کو رجعت پڑ جائے یا کوئی امتحان آگھیرے تو اُس پریشانی کے عالَم میں حضرت غوث الاعظم کی ذات اللہ تعالیٰ کی عطأ کی ہوئی طاقت سے دستگیری اور مدد فرماتے ہیں :
’’اگر کسی کو مشکل پیش آجائے اور وہ شیخ محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کو تین بار اِن الفاظ سے پکارے ’’اُحْضُرُوْابَمَلَکَ الْاَرْوَاحِ الْمُقَدَّ سِ وَالْحَیُّ الْحَقِّ یا شیخ عبد ا لقادر جیلانی حاضر شو-‘‘ اور ساتھ ہی تین بار دل پر کلمہ طیب کی ضرب لگائے تو اُسی وقت حضرت پیر(رح) دستگیر تشریف لے آتے ہیں اور سائل کی امداد کر کے اُس کی مشکل حل فرما دیتے ہیں‘‘-﴿شمس العارفین﴾
عشقِ الٰہی وارَفتگی کی ایسی رَاہ ہے کہ جس میں چہار سُو محبت ہی محبت ہے - اپنی خبر نہ کسی غیر کی ، فقط اُلفت ہی عاشق کانام ،ذات اورپہچان ہے - ایسے میں محب ومحبوب کو الگ الگ خانوں میں کیسے رکھیں؟کیونکہ اِن میں سے ہر ایک دوسرے کو ترجیح دیتاہے-کچھ ایسی ہی بات سلطان الفقرأ کے باہم پائی جاتی ہے-یہ بھی درست ہے کہ اِن کی باہمی خاصیت گوہرِ فقر ہے کہ جس پہ آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فخر کااِظہار فرمایا-یہ ہستیاں جب ایک دوسرے کی تعریف میں رَطبُ اللِّسِان ہوں تو ثنا فقر کی ہی مقصود ہوتی ہے-فقر اِن کاعشق ومحبت واُلفت ہے، فقراِن کاقلب و رُوح وجان ہے،فقر ان کے کردار وگفتار کاغماز ہے اورفقر ہی اِن کادین وایمان وشریعت وطریقت ہے - اِن میں سے کسی ایک کی رَفاقت نصیب ہونا فقرکی رَفاقت ہے-اِسی لئے سلطان العارفین نے طالبانِ مولیٰ کی تربیت کے لئے حضور غوث الاعظم کی رہنمائی لازم قرار دی ہے-
’’ یاد رہے کہ اگر کوئی شخص پورے یقین و اعتقا د اور اخلاصِ خاص کے ساتھ کہہ دے ’’یا شیخ عبد القادرجیلانی شَیْ ئًً لِلّٰہِ اُمْدُدْنِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ تو اُس پر ابتدا و انتہا کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے اور وہ ہدایت ِمعرفت اور ولایت ِفقر کے کمال پر پہنچ جاتا ہے‘‘ ﴿ نور الہُدیٰ﴾
یہ مدارج و مقامات حضرت غوث الاعظم کو ہی کیوں نصیب ہوئے ؟ یہ ایسا سوال ہے جو درج بالا عبارت پڑھ کر فوراً ہی ذہن میں جنم لیتا ہے تو ’’ بے خُودی بے سبب نہیں غالب ‘‘ اِس کی بھی کوئی وجہ ہوگی - حضرت غوث الاعظم کے اِس مقام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حضرت سُلطان باھُو اپنی ایک مشاہداتی عبارت بیان فرماتے ہیں:
’’جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ معراج کی رات قربِ الٰہی کی طرف بڑھے تو حضرت پیر دستگیر قدس سرہ ،العزیز نے اپنی گردن آپ(ص) کے قدموںمیں رکھ دی جس پر پیغمبر صاحب ﷺ نے فرمایا کہ اب آپ کا قدم جملہ اولیائے اللہ کی گردن پر ہوگا- ’’ اے محی الدین ! میرا قدم آپ کی گردن پر آیا ہے اور آپ کا قدم تمام اؤلیائے اللہ کی گردنوں پر ہوگا - ‘‘ ﴿نور الھُدیٰ ، محک الفقر کلاں ﴾
جس طرح کہ قصیدۂ غوثیّہ میں حضرت غوث الاعظم خُود فرماتے ہیں :
’’ تمام اولیأ پر میرا قدم ہے اور مُجھ پر رسول اللہ ﷺ کا قدم مُبارک ہے -‘‘
اُس کی شان کاصحیح اندازہ کیونکر لگایا جاسکتا ہے کہ جس کی گردن آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا پایۂ تخت ہو-اَیسے مرشد کے دِیدار کا کروڑوں آنکھیں بھی اِحاطَہ نہیں کرسکتیں اَوریہ شان سیّدعبدالقادر جیلانی قدس سرہ، العزیز کی ہے کہ جن کے دِیدار میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں مستغرق ہیں اوراَبدالآباد تک محوِ دِید رہیں گی - طالبانِ حق مُلتمِس ہیں کہ سلطان العارفین اِنہیں بھی وہ چشم وقلب عطا کریں کہ جس سے یہ بھی دیدِ حق باھُو کے پُر نور جلوئوں میں محوِ استغراق ہو سکیں -
ایہہ تن میرا، چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجّاں ھُو
لُوں لُوں دے مُڈھ لکھ لکھ چشماں، ہک کھولاں ہک کجّاں ھُو
اتناں ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہور کِدے وَل بھَجّاں ھُو
مُرشد دا دیدار ہے باھُو مینوں لکھ کروڑاں حجّاں ھُو
آپ کو صرف مرشد کی صُورت سے ہی پیار نہیں تھا بلکہ مرشد کے اسم کو بھی آپ نے اپنے رُوحانی تجربات کا حصّہ بنایا اور یہ معلوم کیا کہ ’’صاحبِ مُسمّیٰ ‘‘ کے اسم میں کیا تاثیر ہے- آپ اِسے مرتبۂ کمال پر پہنچنے کی کُنجی قرار دیتے ہیں:
’’محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کے نامِ معظم کی تاثیر سے حضوریٔ معراج کا مشاہدہ نصیب ہوتاہے-‘‘ ﴿نُورالہُدیٰ﴾
حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اِس اَمر کو عقیدہ کی حد تک راسخ فرمایا کہ تمام اہل طریقت کے لئے سُلطان الفقر ، پیرِ پیراں ، شاہ میراں ، محبوُبِ صمدانی، سرِّ سُبحانی سیّدنا شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی القادری مرشد نُور الہدٰی ہیں کیونکہ جب سالکین کی کشتی بحرِ طریقت کے بھنور میں چکراتی ہے،راہِ معرفت میں جب ابلیس اپنی ناری قوّتوں سے خد ابن بیٹھے اورجب جذب ومستی میں سالک راہِ شریعت سے فرارہونے کے قریب ہوتو اللہ تعالیٰ کے حضور سے ہدایت کبھی حضور غوث الاعظم کے رُوپ میں اورکبھی حضرت سلطان باھُو ہادی کی صُورت میں آکر طالب کو مذکورہ مصیبتوں سے نجات دِلاتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پہنچا دیتے ہیں- حضرت سُلطان باھُو کا فرمان ہے :
’’مرشد کو ایسا صاحب ِنظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدین(رح) ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزاروں ہزار طالبوں مریدوں میں سے بعض کو معرفتِ ’’اِلَّااللّٰہُ‘‘ میں غرق کر دیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضور ی بخش دیتے ہیں-پیر کو ایسا گنج بخش ہونا چاہیے کہ اُس کی ایک ہی نظر طالب اللہ کے دل کو بلا رنج و ریاضت ذکر اللہ سے چاک کر دے، نفس کو ہلا ک کر دے اور روح کو پاک کر کے موافق ِرحمٰن اور مخالف ِشیطان کردے‘‘- ﴿ شمس العارفین﴾
مرشد کامل کا کام یہ ہے کہ بے رَنج وریاضت بندگی کے کمال تک پہنچا دے اورفرد سے مردِ﴿کامل﴾اُجاگر کردے ،لآاِلَہ کے ہتھیاروں سے لیس کرکے اِلااللّٰہ کی وادی میں پہنچادے اور طالب کو اِس وادی میں مُحَمّدُ رَّسُوْل اللّٰہ کی معرفت و محبت کے محل میں داخل کروا دے- بلاشُبہ غوث الاعظم قدس سرہ العزیز اَیسے ہی رَہبر ہیں اور سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ اُن کی تربیت کے درجۂ اُولیٰ سے مستفیض ہیں-یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن جیسے مرشد اورطالب سلطنتِ فقر کے تاج وتخت ہیں -
ò طالب غوث الاعظم والے شالا کدی نہ ہوون ماندے ھُو
حضور غوث الاعظم کی ظاہری وباطنی تربیت سے اِنسان کی طلبِ مولیٰ کامل ہوکر ہمدوشِ ثُریّا ہوجاتی ہے-اِنسان اَپنے مقاصد سے پہچانا جاتا ہے - اعلیٰ اِنسان کے مقاصدبھی بلند ہوتے ہیں اوراَدنیٰ انسان کے اَہداف بھی پست ہوتے ہیں-سلطان الفقرأ کاہدف طالب کو قربِ خداوندی سے سرفراز کرنا اوراُسے آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے سرشار کرنا ہے - یہ ہدف طالب کو بھی اَدنیٰ سے اعلیٰ اِنسان بنادیتے ہیں - ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ایسا مرشد تلاش کیا جائے جو اِنسان کو حضور غوث پاک کی تعلیمات کاعملی پیکر بنادے -خوش نصیبوں کو آج بھی ایسے مرشد کامل کی رفاقت نصیب ہوتی ہے-
’’حضرت غوث الاعظم کا ہر مرید انوارِ اِلٰہی کا فیض بخش آفتاب ہے جو طالبانِ مولیٰ کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم کی حضوری بخش کر رازِرحمت کا فیض عطا کرتا ہے - باطن صفا با ھُو کہتا ہے کہ اُن کی بارگاہ میں پہنچ کر کوئی شخص بے نصیب نہیں رہتا -‘‘آپ کے مرید مرد ہیں ، پُردرد ہیں اور اہل ِتجرید ہیں-‘‘ ﴿کلید التّوحید کلاں ﴾
دستگیری کا طلبگار ہوں شیاً للہ
میرِبغداد میں ناچار ہوں شیاً للہ
حال ِدل شرم سے اب تک نہ کہا تھا لیکن
آج میں درپئے اظہار ہوں شیاً للہ
کرم خاص کے لائق تو نہیں میں پھر بھی
آپ کا حاشیہ بردار ہوں شیاً للہ
آپ ہی سنیے کے اب اور کہوں میں کس سے
بستہئ دامنِ سرکار ہوں شیاً للہ
مجھ سے اب دین کی پستی نہیں دیکھی جاتی
غلبہئ کفر سے بیزار ہوں شیاً للہ
پائے رفتن ہے نہ ہے ہند میں جائے ماندن
سخت مشکل میں گرفتار ہوں شیاً للہ
جلوئہ پاک نظر آئے تو بر آئے مراد
تشنہئ شربت ِدیدار ہوں شیاً للہ
کیا کروں میری دعا بھی تو نہیں ہے مقبول
میں کہ اک فردِ گنہ گاہوں شیاً للہ
غوثِ اعظم سے جو مانگو گے‘ ملے گا حسرت
پس کہو ’’حاضرِ دربار ہوں شیاً للہ‘‘
فقرعشقِ الٰہی کاانتہائی درجہ ہے-فقر کی ابتدا معرفتِ ربِ کریم ہے اوراِس کی انتہافنافی اللہ بقابااللہ کے مراتب ہیں -تشنۂ قرب عاشق دریائے وحدتِ حق تعالیٰ سے جام بھر بھر کے پیتے ہیں مگر پیاس ہے کہ بُجھنے کانام ہی نہیں لیتی-خدائے برحق کے انواروتجلیات غیر مُتناہی ہیں تو پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ فقیر عاشق کی طلبِ قرب محدود ہو؟اللہ تعالیٰ ان فقرأ پہ بارانِ نور برساکراپنے ربّ العالمین ہونے کاپتہ دیتاہے تو فقرأ اُسے جذب کرکے ’’ہل من مزید ‘‘کانعرۂ مستانہ بلندکر کے،اپنی کامل بندگی کاثبوت دیتے ہیں-ایسے تابندہ ستاروں سے آسمانِ اِنسانیت ازل سے چمک رہا ہے اوراَبد تک دمکتارہے گا-عاشق فقرأ کو اہل تصوف پہ ایسے برتری حاصل ہے کہ جیسے زمین پر آسمان کو اوران کی فضیلت اہل طریقت پہ ایسے ہے جیسے مرشد کامل اپنے مریدوںمیں افضل ہوتاہے-ان عاشقوں پہ سلطان الفقرأ کو تخصیص عطا کی گئی-سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہ ،العزیز اورحضرت سلطان باھُو قدس سرہ ،العزیز دونوں سلطان الفقر کی مرتبہ پہ فائز ہیں-فقر کی تشریح مختصر ترین الفاظ میں حضرت سُلطان باھُو نے یوں کی :
’’پس فقر کو مالک الملکی مراتب حاصل ہیں ‘‘- ﴿عین الفقر﴾
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی توصیف میں حضرت سُلطان باھُو فرماتے ہیں:
’’حضرت محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ شکمِ مادر ہی میں مراتب ِفقر پر سرفراز ہوئے اور اہل ِفقر ہو کر شریعت ِ محمدی
ö کی پاسداری میں مقامِ محبوبیت پر پہنچے اور بارگاہِ الٰہی سے فقیر محی الدین کا خطاب پایا‘‘ - ﴿عین الفقر ﴾
سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو کی توصیف میں آپ کے محبُوب خلیفہ پیر سیّد سُلطان بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
٭سبحان اللہ سُلطان صاحب دا، محل، مُقدّس وادی
’’ھُو ‘‘ ’’ اللّٰہ ‘‘ تے ’’یاھُو‘‘ دی ہے صدا ندا مُنادی
وجدانی، عرفانی دی واہ اِس جا کُل آبادی
اکسیر نظر تے قُلزمِ رحمت تعریف اُس راہ نُمأ دی
٭ہیں دریا بخشائش دا، باران سحابِ کرم دا
روئے زمین تے فیض حضرت دا اُچھلن بحرِ ہُمم دا
نظر اکسیر نوازیں جینوں عارف کریں قِدَمْ دا
پنج تن پاک اورصحابہ کرام کے بعد اگر سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ کسی سے متأثر ہیں تو وہ ہستی مبارک بلاشبہ سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی الحسنی والحسینی کی ہے-ایساکیوں نہ ہو؟کہ جب حضور غوث الاعظم کے قدم مبارک کاتمام اولیائے کرام کی گردنوں پہ ہونا خالق ِ دوجہان کی اپنی رضا ہواِسی لئے سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ آپ کو پیرانِ پیر کے لقب سے یاد کرتے ہیں:
سن فریاد پیراں دیا پیرا میری عرض سنیں کن دھر کے ھُو
بیڑا اڑیا میرا وچ کپراندے جتھے مچھ نہ بہندے ڈر کے ھُو
شاہ جیلانی محبوب سبحانی میری خبر لیو جھٹ کر کے ھُو
پیر جنہاندے میراں باھُو (رح) اوہی کدھی لگدے تر کے ھُو
٭
سن فریاد پیراں دیا پیرا میں آکھ سناواں کینوں ھُو
تیرے جیہا مینوں ہور نہ کوئی میں جیہاں لکھ تینوں ھُو
پھو ل نہ کاغذ بدیاں والے دَر توں دھک نہ مینوں ھُو
میں وچ ایڈ گناہ نہ ہوندے باھُو توں بخشیندوں کینوں ھُو
مرشد کے مقامِ قرب کی پہچان ہونا بڑی غَنیمت ونعمت ہے اوراِسی پہچان سے اِنسان میں حقیقی عجز واِنکسار ی دَر آتی ہے-حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اَپنی تعلیمات میں جابجا سیّدناحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ، العزیز کے مقاماتِ فنافی اللہ وبقابااللہ کا شعور عطا فرمایا اور مناجات سے اپنی عاجزی کابھی اِظہار فرمایاکیونکہ یہ مناجات خلوص ِ دِل اورمحبتِ غوث سے سرشاری کے عالم میں اَدا ہوئیں اِس لئے سماعت کرنے والے کے قلب ورُوح پہ براہِ راست تاثیر بَپا کرتیں ہیں- حضرت سُلطان باھُو نے اپنی تصانیف میں متعدّد مقامات پر طالبانِ مولیٰ کو یہ رہنُمائی دی کہ اگر کسی عُقدے میں مُبتلا ہو جائیں یا کسی کو رجعت پڑ جائے یا کوئی امتحان آگھیرے تو اُس پریشانی کے عالَم میں حضرت غوث الاعظم کی ذات اللہ تعالیٰ کی عطأ کی ہوئی طاقت سے دستگیری اور مدد فرماتے ہیں :
’’اگر کسی کو مشکل پیش آجائے اور وہ شیخ محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کو تین بار اِن الفاظ سے پکارے ’’اُحْضُرُوْابَمَلَکَ الْاَرْوَاحِ الْمُقَدَّ سِ وَالْحَیُّ الْحَقِّ یا شیخ عبد ا لقادر جیلانی حاضر شو-‘‘ اور ساتھ ہی تین بار دل پر کلمہ طیب کی ضرب لگائے تو اُسی وقت حضرت پیر(رح) دستگیر تشریف لے آتے ہیں اور سائل کی امداد کر کے اُس کی مشکل حل فرما دیتے ہیں‘‘-﴿شمس العارفین﴾
عشقِ الٰہی وارَفتگی کی ایسی رَاہ ہے کہ جس میں چہار سُو محبت ہی محبت ہے - اپنی خبر نہ کسی غیر کی ، فقط اُلفت ہی عاشق کانام ،ذات اورپہچان ہے - ایسے میں محب ومحبوب کو الگ الگ خانوں میں کیسے رکھیں؟کیونکہ اِن میں سے ہر ایک دوسرے کو ترجیح دیتاہے-کچھ ایسی ہی بات سلطان الفقرأ کے باہم پائی جاتی ہے-یہ بھی درست ہے کہ اِن کی باہمی خاصیت گوہرِ فقر ہے کہ جس پہ آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فخر کااِظہار فرمایا-یہ ہستیاں جب ایک دوسرے کی تعریف میں رَطبُ اللِّسِان ہوں تو ثنا فقر کی ہی مقصود ہوتی ہے-فقر اِن کاعشق ومحبت واُلفت ہے، فقراِن کاقلب و رُوح وجان ہے،فقر ان کے کردار وگفتار کاغماز ہے اورفقر ہی اِن کادین وایمان وشریعت وطریقت ہے - اِن میں سے کسی ایک کی رَفاقت نصیب ہونا فقرکی رَفاقت ہے-اِسی لئے سلطان العارفین نے طالبانِ مولیٰ کی تربیت کے لئے حضور غوث الاعظم کی رہنمائی لازم قرار دی ہے-
’’ یاد رہے کہ اگر کوئی شخص پورے یقین و اعتقا د اور اخلاصِ خاص کے ساتھ کہہ دے ’’یا شیخ عبد القادرجیلانی شَیْ ئًً لِلّٰہِ اُمْدُدْنِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ تو اُس پر ابتدا و انتہا کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے اور وہ ہدایت ِمعرفت اور ولایت ِفقر کے کمال پر پہنچ جاتا ہے‘‘ ﴿ نور الہُدیٰ﴾
یہ مدارج و مقامات حضرت غوث الاعظم کو ہی کیوں نصیب ہوئے ؟ یہ ایسا سوال ہے جو درج بالا عبارت پڑھ کر فوراً ہی ذہن میں جنم لیتا ہے تو ’’ بے خُودی بے سبب نہیں غالب ‘‘ اِس کی بھی کوئی وجہ ہوگی - حضرت غوث الاعظم کے اِس مقام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حضرت سُلطان باھُو اپنی ایک مشاہداتی عبارت بیان فرماتے ہیں:
’’جب حضرت محمد رسول اللہ
ö معراج کی رات قربِ الٰہی کی طرف بڑھے تو حضرت پیر دستگیر قدس سرہ ،العزیز نے اپنی گردن آپ(ص) کے قدموںمیں رکھ دی جس پر پیغمبر صاحب
ö نے فرمایا کہ اب آپ کا قدم جملہ اولیائے اللہ کی گردن پر ہوگا- ’’ اے محی الدین ! میرا قدم آپ کی گردن پر آیا ہے اور آپ کا قدم تمام اؤلیائے اللہ کی گردنوں پر ہوگا - ‘‘ ﴿نور الھُدیٰ ، محک الفقر کلاں ﴾
جس طرح کہ قصیدۂ غوثیّہ میں حضرت غوث الاعظم خُود فرماتے ہیں :
’’ تمام اولیأ پر میرا قدم ہے اور مُجھ پر رسول اللہ
ö کا قدم مُبارک ہے -‘‘
اُس کی شان کاصحیح اندازہ کیونکر لگایا جاسکتا ہے کہ جس کی گردن آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا پایۂ تخت ہو-اَیسے مرشد کے دِیدار کا کروڑوں آنکھیں بھی اِحاطَہ نہیں کرسکتیں اَوریہ شان سیّدعبدالقادر جیلانی قدس سرہ، العزیز کی ہے کہ جن کے دِیدار میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں مستغرق ہیں اوراَبدالآباد تک محوِ دِید رہیں گی - طالبانِ حق مُلتمِس ہیں کہ سلطان العارفین اِنہیں بھی وہ چشم وقلب عطا کریں کہ جس سے یہ بھی دیدِ حق باھُو کے پُر نور جلوئوں میں محوِ استغراق ہو سکیں -
ایہہ تن میرا، چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجّاں ھُو
لُوں لُوں دے مُڈھ لکھ لکھ چشماں، ہک کھولاں ہک کجّاں ھُو
اتناں ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہور کِدے وَل بھَجّاں ھُو
مُرشد دا دیدار ہے باھُو مینوں لکھ کروڑاں حجّاں ھُو
آپ کو صرف مرشد کی صُورت سے ہی پیار نہیں تھا بلکہ مرشد کے اسم کو بھی آپ نے اپنے رُوحانی تجربات کا حصّہ بنایا اور یہ معلوم کیا کہ ’’صاحبِ مُسمّیٰ ‘‘ کے اسم میں کیا تاثیر ہے- آپ اِسے مرتبۂ کمال پر پہنچنے کی کُنجی قرار دیتے ہیں:
’’محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کے نامِ معظم کی تاثیر سے حضوریٔ معراج کا مشاہدہ نصیب ہوتاہے-‘‘ ﴿نُورالہُدیٰ﴾
حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اِس اَمر کو عقیدہ کی حد تک راسخ فرمایا کہ تمام اہل طریقت کے لئے سُلطان الفقر ، پیرِ پیراں ، شاہ میراں ، محبوُبِ صمدانی، سرِّ سُبحانی سیّدنا شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی القادری مرشد نُور الہدٰی ہیں کیونکہ جب سالکین کی کشتی بحرِ طریقت کے بھنور میں چکراتی ہے،راہِ معرفت میں جب ابلیس اپنی ناری قوّتوں سے خد ابن بیٹھے اورجب جذب ومستی میں سالک راہِ شریعت سے فرارہونے کے قریب ہوتو اللہ تعالیٰ کے حضور سے ہدایت کبھی حضور غوث الاعظم کے رُوپ میں اورکبھی حضرت سلطان باھُو ہادی کی صُورت میں آکر طالب کو مذکورہ مصیبتوں سے نجات دِلاتے ہیں اور نبی اکرم
ö کی بارگاہ میں پہنچا دیتے ہیں- حضرت سُلطان باھُو کا فرمان ہے :
’’مرشد کو ایسا صاحب ِنظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدین(رح) ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزاروں ہزار طالبوں مریدوں میں سے بعض کو معرفتِ ’’اِلَّااللّٰہُ‘‘ میں غرق کر دیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضور ی بخش دیتے ہیں-پیر کو ایسا گنج بخش ہونا چاہیے کہ اُس کی ایک ہی نظر طالب اللہ کے دل کو بلا رنج و ریاضت ذکر اللہ سے چاک کر دے، نفس کو ہلا ک کر دے اور روح کو پاک کر کے موافق ِرحمٰن اور مخالف ِشیطان کردے‘‘- ﴿ شمس العارفین﴾
مرشد کامل کا کام یہ ہے کہ بے رَنج وریاضت بندگی کے کمال تک پہنچا دے اورفرد سے مردِ﴿کامل﴾اُجاگر کردے ،لآاِلَہ کے ہتھیاروں سے لیس کرکے اِلااللّٰہ کی وادی میں پہنچادے اور طالب کو اِس وادی میں مُحَمّدُ رَّسُوْل اللّٰہ کی معرفت و محبت کے محل میں داخل کروا دے- بلاشُبہ غوث الاعظم قدس سرہ العزیز اَیسے ہی رَہبر ہیں اور سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ اُن کی تربیت کے درجۂ اُولیٰ سے مستفیض ہیں-یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن جیسے مرشد اورطالب سلطنتِ فقر کے تاج وتخت ہیں -
ò طالب غوث الاعظم والے شالا کدی نہ ہوون ماندے ھُو
حضور غوث الاعظم کی ظاہری وباطنی تربیت سے اِنسان کی طلبِ مولیٰ کامل ہوکر ہمدوشِ ثُریّا ہوجاتی ہے-اِنسان اَپنے مقاصد سے پہچانا جاتا ہے - اعلیٰ اِنسان کے مقاصدبھی بلند ہوتے ہیں اوراَدنیٰ انسان کے اَہداف بھی پست ہوتے ہیں-سلطان الفقرأ کاہدف طالب کو قربِ خداوندی سے سرفراز کرنا اوراُسے آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے سرشار کرنا ہے - یہ ہدف طالب کو بھی اَدنیٰ سے اعلیٰ اِنسان بنادیتے ہیں - ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ایسا مرشد تلاش کیا جائے جو اِنسان کو حضور غوث پاک کی تعلیمات کاعملی پیکر بنادے -خوش نصیبوں کو آج بھی ایسے مرشد کامل کی رفاقت نصیب ہوتی ہے-
’’حضرت غوث الاعظم کا ہر مرید انوارِ اِلٰہی کا فیض بخش آفتاب ہے جو طالبانِ مولیٰ کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم کی حضوری بخش کر رازِرحمت کا فیض عطا کرتا ہے - باطن صفا با ھُو کہتا ہے کہ اُن کی بارگاہ میں پہنچ کر کوئی شخص بے نصیب نہیں رہتا -‘‘آپ کے مرید مرد ہیں ، پُردرد ہیں اور اہل ِتجرید ہیں-‘‘ ﴿کلید التّوحید کلاں ﴾
زأؤ
دستگیری کا طلبگار ہوں شیاً للہ
میرِبغداد میں ناچار ہوں شیاً للہ
حال ِدل شرم سے اب تک نہ کہا تھا لیکن
آج میں درپئے اظہار ہوں شیاً للہ
کرم خاص کے لائق تو نہیں میں پھر بھی
آپ کا حاشیہ بردار ہوں شیاً للہ
آپ ہی سنیے کے اب اور کہوں میں کس سے
بستہئ دامنِ سرکار ہوں شیاً للہ
مجھ سے اب دین کی پستی نہیں دیکھی جاتی
غلبہئ کفر سے بیزار ہوں شیاً للہ
پائے رفتن ہے نہ ہے ہند میں جائے ماندن
سخت مشکل میں گرفتار ہوں شیاً للہ
جلوئہ پاک نظر آئے تو بر آئے مراد
تشنہئ شربت ِدیدار ہوں شیاً للہ
کیا کروں میری دعا بھی تو نہیں ہے مقبول
میں کہ اک فردِ گنہ گاہوں شیاً للہ
غوثِ اعظم سے جو مانگو گے‘ ملے گا حسرت
پس کہو ’’حاضرِ دربار ہوں شیاً للہ‘‘