زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبدالحق محدِثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبدالحق محدِثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبدالحق محدِثِ دہلوی)

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری دسمبر 2015

تنبیہ:-

ہم (شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی ) نے جو (گزشتہ صفحات میں مختلف) روایات نقل کی ہیں ان سے (یہ) ظاہر ہوا ہے کہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان اور آپ کے بلند مرتبے میں مشائخ کی جو عبارات اور اَولیائے کرام کے جو اشارات ہیں وہ ایک دوسرے سے (کچھ) فرق کے ساتھ ہیں- بعض روایات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے زمانے کے اَولیائے کرام پر مطلقاً فضیلت میں ظاہر ہیں اور (مشائخ کی روایات اور اولیاء کرام کے اشارات) عام طور پر اُنہی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تصرف کرنے پر دلالت کرتے ہیں، (مثلاً) ان کا (یعنی حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم زمانہ اَولیاء کا) مکمل طور پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فضیلت پانا، ان سب (اولیاء) کا آپ کے تابع فرمان ہونا، ان کا اکھٹے ہو کر آپ کے انوار (باطنی) کو حاصل کرنا، ان کا ہی آپ کے آثار (فرمودات و کرامات) سے مکمل طور پر مستفیض ہونا-

 (اور اسی طرح) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا (اپنے وقت میں) سلطان الوقت ہونا، قطب الآفاق ہونا، غوث الزمان ہونا، اَولیاء کے رموز کا محافظ ہونا، اَصفیاء کے مراتب کا نگہبان ہونا، غمزدوں کا سرپرست ہونا اور ثقلین (جن و انس) کی پناہ گاہ ہونا (وغیرہ) کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ کے وقت میں آپ کے حکم کے سواء کسی کا حکم نہیں چلتا تھا- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آپ کے تصرف کے علاوہ کسی کا تصرف نہ تھا- (یعنی اس وقت) آپ کا ہی حکمِ عام تھا، آپ کا ہی مکمل تصرف تھا، کسی کو منصب عطا کرنے یا کسی کو معزول کرنے کا اختیار آپ کو ہی حاصل تھا اور آپ ہی کے پاس کسی کو (منصبِ وِلایت میں) رد کرنے یا قبول کرنے کی سند ( جاری ہوتی) تھی-

کچھ روایات (وقت کی قید سے) آزاد ہیں کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقدم و مؤخر کا ذکر کئے بغیر اور ظاہر و باطن کے درپے ہوئے بغیر  سید الاولیاء، سند الاصفیاء، مُلکِ وِلایت کے سلطان اور مرتبۂ اِنتہاء کی بنیاد ہیں- حضرت خضر علیہ السلام جیسے رازِ وِلایت کو کھولنے والے اور ابتداء و انتہاء کی آگاہی رکھنے والے کچھ بزرگان اور ان جیسے دیگر معتبر مشائخ سے جو روایات منقول ہیں وہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سابقہ اور بعد والے (تمام) مشائخ پر فضیلت اور برتری (کو ظاہر کرتی ہیں اور) ، اوّلین و آخرین پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدم ہونے پر نص کی حیثیت رکھتی ہیں- یہ (روایات) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس کلام کے ساتھ بھی موافقت رکھتی ہیں جس میں آپ اپنے مقام کے بارے آگاہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی نعمت کو بیان فرماتے ہیں (کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے)- یہ (قول مبارک اس) دعویٰ پر سب سے انصاف پسند گواہ (کی حیثیت رکھتا) ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرح کوئی بھی نہیں پہچانتا جس طرح آپ خود کو پہچانتے ہیں-

یہ بھی ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس قول {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہِ} میں سچے ہیں اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس (مقامِ بلند) پر مامور ہیں- یہ فرمان (مبارک) ہر ولی اللہ کے حق میں عام ہے (یعنی ہر ولی اللہ آپ کے تابع ہے)- اس فرمان میں اس بات کی کوئی دلیل (یا اشارہ ہی) نہیں کہ آپ نے مخصوص اپنے زمانے والوں کی بات کی ہو- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے زمانے والوں پر فضیلت کو دونوں مکتبہ فکر متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں (۱)- البتہ ایک مکتبہ فکرنے (وقت کی قید ختم کر کے) زیادہ (فضیلت) کو ثابت کیا ہے اور گواہوں کی بنیاد پر اضافہ کو ثابت کرنے والا تعارض (جھگڑے) سے اس کی سلامتی کی طرف زیادہ غالب ہوتا ہے جیسا کہ اصولِ فقہ کے قواعد سے ثابت ہے-

یہ بھی (اہم بات ہے ) کہ جو مقامات، کرامات، تصرفات اور کمالات آپ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بیان کئے گئے ہیں وہ سابقہ مشائخ اور (آپ کے) بعد والوں میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہیں، (مثلا) زمانے والوں کا آپ کی مکمل تابعداری کرنا، ان کا آپ کی پیروی کرنے پر مجبور ہونا اور تصور و امکان سے بڑھ کر آپ کی تعظیم کرنا- کوئی زمانہ بھی قابلِ اعتماد قطب اور مرجعِ خلائق غوث سے خالی نہیں ہوتا، اگر وہ سب اقطاب ہیں تو آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) قطب الاقطاب ہیں، اگر وہ افراد ہیں تو آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سیّد الافراد ہیں، اگر وہ سلاطین ہیں تو آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سلطان السلاطین، امام المقربین اور اکمل العارفین ہیں-واصلین اور مقربین میں مراتب کی ایک دوسرے پر فضیلت ثابت ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے (۲)-

اس بنیاد پر (ہم کہہ سکتے ہیں کہ) جو روایات آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے اپنے وقت اور اپنے زمانے کے اولیاء پر فضیلت میں صادر ہوئی ہیں ان سے تخصیص (مخصوص وقت) اور حصر (صرف وہی زمانہ) مراد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے مقصود پر قناعت مراد ہے اور اس کی بنیاد عرف پر ہے- یقینا عرف میں کسی کے مقامِ مدح میں اکثر کہا جاتا ہے کہ

{ھُوَ اَفْضَلُ الْعَصْرِ وَ اَکْمَلُ الدَّھْرِ ، وَحِیْدُ زَمَانِہٖ فَرِیْدًا}

’’وہ افضل العصر اور اکمل الدھر ہے، وہ اپنے زمانے کا فردِ واحد ہے-‘‘

تو یہ اس (ممدوح) کے فقط اس زمانے میں موجود ہونے اور غرض و غایت کے اس کے ساتھ وابستہ ہونے کی بنیاد پر (کہا جاتا) ہے- اس (ممدوح) کی فضیلت کے اظہار کی غالباً غرض، اس کے ہم زمانہ سالکان و طالبان کو اس (ممدوح) کی لازمی اتباع پر ابھارنا، اس سے فیض حاصل کرنا، اس کی صحبت اور محبت کی سعادت کو اپنے لیے مبارک سمجھنا (وغیرہ کی طرف ترغیب دلانا ہوتا) ہے- اسی لیے حضرت خضر علیہ السلام نے اَولیائے کرام کے مراتب میں فرق کے بیان میں اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت کے سوال پر آپ (شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے تمام اَولیاء پر بلند مرتبے کو صراحت سے بیان فرمایا-

اور جو روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہلِ زمانہ پر (سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی) افضلیت کی قید تخصیص اور حصر کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ قیدِ اتفاقی ہے ، وہ روایت ہے جو ہم نے (گزشتہ صفحات میں) شیخ ابو محمد القاسم کی حکایت میں حضرت خضر علیہ السلام سے روایت کی کہ پہلے آپ نے فرمایا کہ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر