﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-’’اس ذات ﴿باری تعالیٰ﴾ کی محبت کے غم میں مرنا اصل میں زندگی ہے اور اس کے غیر کے ساتھ زندہ رہنا، چاہے ایک لمحہ کے لئے ہو، حقیقت میں موت ہے
﴿۱﴾- اگر تمہاری عقل کی آنکھ اس دنیا میں اس کے غیر کو دیکھنے سے اندھی ہو گئی تو وہ ﴿ذات﴾ تمہارے لئے اس کا اجر آخرت میں ﴿وجوہ یومئذ﴾ عطا فرمائے گا ﴿کہ اس دن کچھ چہرے دیکھ رہے ہوں گے﴾- اگر وہ تجھے اپنی محبت کی تیز دھار تلوار سے کاٹ دے تو آخرت میں تیری دیت ﴿احیائ عند ربھم یرزقون﴾ بنائے گا ﴿کہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں جنہیں رزق دیا جاتا ہے﴾- قِدم کے ساقیوں نے کچھ انسانوں کی ارواح پر شراب ﴿الست﴾ کے پیالے لے کر مجلسِ تنہائی میں چکر لگایا اور جب ﴿اذ اخذ ربک﴾ ﴿تمہارے رب کی اس پر نظر شفقت ہوئی﴾ تو اس ساقی نے اسے مست کر دیا- یہ وہ شراب نہیں جس کی مستیاں مخلوق میں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں- جب شریعت احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صبح آپ کی رسالت کے آسمان سے طلوع ہوئی اور جنابِ ازل سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس غیب کے بھید کھلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشق کے مدہوشوں کو خبردار کیا اور خوابیدہ عقلوں کو جگایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خلوتِ الست میں اپنے ساتھ گزرے زمانے کو بھی انہیں یاد دلائیں- پس وہ ارواح آپ کی طرف ﴿و عجلت الیک﴾ کے پر کے ساتھ اڑیں- آپ نے ارواح کو ﴿ھو اللہ﴾ کے قول کا مکاشفہ کرایا، ﴿الذی لا الہ الا ھو﴾ کے قول سے دلوں کو اطمینان بخشا، ﴿عالم الغیب و الشھادۃ﴾ کے قول سے پوشیدہ باتوں سے خوف بھی دلایا، ﴿الرحمن الرحیم﴾ کے قول سے عقلوں پر لطف بھی فرمایا- ہویت ایسا سمندر ہے کہ جس میں عقل کے تیراک ڈوب جاتے ہیں اور جس کے علم کی طلب میں فکر کی کشتیاں ٹوٹ جاتی ہیں‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا کہ مشاہدہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ:-’’یہ دل کی آنکھوں سے دونوں جہانوں سے اندھا ہونا ہے اور معرفت کی آنکھ سے حق کا مطالعہ کرنا ہے جس میں استدراک کا وہم، کسی ﴿سمت کے﴾ تصور کی طمع اور کوئی کیفیت نہ ہو- یہ ﴿مشاہدہ﴾ دلوں کا حق تعالیٰ کی غیب کی خبروں پر دلوں کا یقین کی صفائی کے ساتھ مطلع ہونا ہے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرب کا معنیٰ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:-’’یہ قربت کے لطف کے ساتھ سفر کو طے کرنا ہے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکر کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’یہ محبوب کے ذکر کے وقت دلوں کا جوش مارنا ہے- خوف یہ ہے کہ محبوب کے رعب و دبدبہ کے علم ہونے سے دل مضطرب ہو جائے- عالمِ غیب کے احکامات رازوں کی تحقیق ہونا یقین کہلاتا ہے- محبوب سے متصل ہونا اور اس کے غیر سے علیحدہ ہونا وصل کہلاتا ہے- سوال کرتے وقت جاہ و جلال کا ختم ہونا انبساط ہے اور ذکر میں غیبت یہ ہے کہ اگر ذکر کی حالت میں تُو خود کو دیکھے گا تو تب تُو اس سے غائب ہوگا اور غیبت حرام ہے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صبر کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’مصائب کو حسنِ ادب سے برداشت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی معیت میں ثابت قدم رہنا اور قرآن و سنت کے احکام پر اس کے عہد وپیمان سے وسعت اور خوشدلی سے ملنا صبر ہے- صبر کی کئی اقسام ہیں- ایک اللہ کے لئے صبر کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے حکم کی ادائیگی پر ثابت قدم رہنا اور اور منع کردہ چیزوں سے رک جانا- ایک اللہ کے معیت میں صبر ہے کہ اس کے فیصلوں پر خاموش و پرسکون رہے- ایک اللہ پر صبر ہے کہ ہر چیز میں اس کے وعدے کی طرف مائل ہونا اور دنیا سے آخرت کی طرف چلنا ہے- اللہ کی معیت میں صبر کرنا سخت ہے اور صبر کرنے والا فقیر شکر کرنے والے امیر سے افضل ہے اور شکر کرنے والا ﴿غنی﴾ فقیر ان دونوں سے افضل ہے ‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خوف ﴿کی اقسام﴾ کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’خوف کی بھی کئی اقسام ہیں- گنہگاروں کا خوف اور عارفین کا خوف- گنہگاروں کو سزائوں سے خوف ہے- عابدین کو عبادت کے فوت ہونے سے خوف ہے- علمائ کو اطاعت میں شرکِ خفی کا خوف ہے- محبین کو ملاقات کے ختم ہونے کا خوف ہے اور عارفین کو اس کی ہیبت اور تعظیم کا خوف ہے اور یہ سب سے سخت خوف ہے کیونکہ یہ کبھی زائل نہیں ہوتا- خوف کی یہ تمام اقسام رحمت اور لطف سے ہی قابلِ برداشت ہوتی ہیں‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کے بارے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ:-’’یہ دل کی ایک تشویش ہے جو محبوب کی طرف سے پیدا ہوتی ہے- پس اس پر دنیا انگوٹھی کے حلقے ﴿ring﴾ کی طرح ﴿خالی خالی﴾ ہو جاتی ہے یا گناہوں کا ایک مجمع ﴿بن جاتی ہے﴾- محبت ایسی مدہوشی ہے جس سے ہوش میں آنا نہیں، ایسا ذکر ہے جس کا اختتام نہیں، ایسی بیقراری ہے جس کی انتہائ نہیں- محبت اپنے ظاہر و باطن کے ہر اعتبار سے، ناچاری کے ایثار کے ساتھ نہ کہ اختیار کے جذبے سے ، ﴿اسی طرح﴾ تخلیقی ارادہ سے نہ کہ تکلفانہ ارادہ سے محبوب کے لئے خلوص کا مظاہرہ کرنا ہے- محبت، محبوب کی غیرت کھاتے ہوئے اس کے غیر سے اندھا ہو جانے اور اس ﴿محبوب﴾ کی ہیبت کی وجہ سے محبوب سے ﴿بھی﴾ اندھا ہونے کا نام ہے- یہ مکمل اندھا پن ہے- مجنوں دیوانے ایسے مدہوش ہیں جو اپنے محبوب کے مشاہدہ کے بغیر صحیح نہیں ہوتے، ایسے مریض ہیں جو اپنے مطلوب کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شوق کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’سب سے بہترین شوق مشاہدہ کا شوق ہے جو ملاقات سے گھٹتا نہیں، جو دیدار سے بجھتا نہیں، جو قریب ہونے سے ختم نہیں ہو جاتا، جو انسیت سے زائل نہیں ہو جاتا بلکہ جب جب ملاقات بڑھتی ہے شوق بڑھتا جاتا ہے- شوق اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک تمام اسباب سے خا(رح)لی نہ ہو جائے- وہ روح کے موافق ہوتا ہے یا ہمت کے تابع ہوتا ہے یا نفس کی لذت بن جاتا ہے- شوق اسباب سے خالی ہو جاتا ہے پس وہ، وہ سبب بھی نہیں جانتا جس نے اس میں شوق پیدا کر دیا تھا‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وارداتِ الٰہیہ اور شیطانی تجلیات کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا:-’’وارداتِ الٰہیہ استدعا کرنے سے آتی نہیں اور کسی سبب سے جاتی نہیں اور نہ ہی کسی ایک فرش یا کسی ایک مخصوص وقت میں آتی ہیں- جبکہ شیطانی تجلیات اس کے برعکس ہیں‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بقا کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’بقائ ملاقات کے ساتھ ہی ہوتی ہے کیونکہ بقائ کو فنا نہیں اور یہ ایسی ملاقات کے ساتھ ہی آتی ہے جس میں انقطاع نہ ہو اور یہ پلک جھپکنے میں ہی ہو جاتی ہے اور یہ سب سے قریب ہے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معرفت کے بارے میں عرض کیا گیا توآپ نے فرمایا کہ:-’’یہ کائنات کے خفیہ معانی سے مطلع ہونا اور دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ تمام اشیائ میں حق کا مشاہدہ اس طرح کرنا کہ ان میں سے ہر چیز وحدانیت کے معانی پر اشارہ کر رہی ہو ‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وفا کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’یہ عزت داروں میں اللہ کے حقوق کا ایسا لحاظ کرنا کہ نہ انہیں ظاہری آنکھ سے دیکھے نہ باطنی طور پر اور اللہ کے حدود کی قولی اور فعلی طور پر حفاظت کرنا ہے اور اللہ کی رضا کی طرف ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مکمل طور پر جلدی کرنا وفا ہے‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہمت کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-’’ہمت یہ ہے کہ اپنے نفس کو دنیاوی محبت سے خالی کرنا، اپنی روح کو اخروی تعلق سے عاری کرنا، اپنے دل کے ارادے کو مولیٰ کے ارادے کے ساتھ خالی کرنا اور اپنے راز کو کائنات کے اشارہ سے مجرد کرنا ، چاہے وہ ایک لمحہ کے لئے کیوں نہ ہو‘‘-
اپنے راز کو کائنات کے اشارہ سے مجرد کرنا ، چاہے وہ ایک لمحہ کے لئے کیوں نہ ہو‘‘-آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذکر کرنے کو اپنے ذکر سے پہلے کیوں رکھا جیسا کہ فرمایا ﴿فاذکرونی اذکرکم﴾ کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا- اور ﴿اس کے برعکس﴾ اپنی محبت کو ہماری محبت پر کیوں مقدم رکھا جیسا کہ فرمایا ﴿یحبہم و یحبونہ﴾ کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اس سے محبت رکھتے ہیں- آپ نے فرمایا کہ:-’’ذکر مقامِ طلب اور ارادہ ہے اور طلب عطا سے پہلے ہوتی ہے پس اس لئے ہمارے ذکر کرنے کو اپنے ذکر سے پہلے رکھا- جہاں تک محبت کا تعلق ہے تو وہ مقدر کی بنا پر محض عطائے الٰہی ہے اس میں بندے کی کوئی محنت شاملِ حال نہیں ہے- بندے میں محبت کا وجود عالمِ غیب سے مشیت کے ہاتھوں ہی ظہور پذیر ہوتا ہے اس میں بندہ کے کسب اور کسی سبب کا کوئی کمال نہیں اسی لئے اس نے اپنی محبت کو ہماری محبت پر مقدم رکھا ہے‘‘-
مشائخ نے شیخ ابو محمد طلحہ بن مظفر اور شیخ ابو القاسم عمر بن مسعود ﴿دونوں﴾ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-’’انہوں نے فرمایا کہ شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کے ایک مرید کا نام لے کر عرض کی گئی کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے- اس کو بلوایا گیا اور اس قول کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے- آپ نے اسے جھڑکا اور یہ بات کرنے سے منع فرمادیا اور اس سے وعدہ لیا کہ وہ دوبارہ اس بات کو نہیں دہرائے گا- آپ کے مریدین نے عرض کیا کہ کیا یہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سچ کہہ رہا ہے لیکن یہ ایک التباس میں مبتلا ہو گیا ہے وہ یہ کہ اس کی بصیرت ﴿چشمِ باطن﴾ نے نورِ جمال کا مشاہدہ کیا ہے پھر وہ نورِ جمال اس کی بصیرت سے نکل کر اس کی بصارت ﴿چشمِ ظاہر﴾ تک آن پہنچا ہے پس اس کی بصارت ﴿سر کی آنکھ﴾ نے اپنی بصیرت ﴿باطن کی آنکھ﴾ کو دیکھا ہے اور اس کی بصیرت کی روشنی اس کے مشاہدے کے ساتھ متصل ہو گئی پس اس نے یہ سمجھا کہ جو کچھ اس کی بصیرت نے دیکھا وہ اس کی بصارت نے بھی دیکھ لیا ہے بس اتنا ہی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿مرج البحرین یلتقیان بینہما برزخ لا یبغیان﴾ ﴿اس نے دو سمندر بہائے کہ دیکھنے میں معلوم ہوں ملے ہوئے اور ہے ان میں روک کہ ایک دوسرے سے بڑھ نہیں سکتا﴾- راویوں نے کہا کہ یہ کلام سن کراہلِ مجلس پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، ان میں سے بعض کھڑے ہوگئے، اپنے کپڑوں کو پھاڑ ڈالا اور عریاں ہو کر صحرا کی طرف نکل گئے‘‘-آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ :-
’’فقیر کو چاہیے کہ وہ فکر کے ارد گرد رہنے والا ہو، دائمی ذکر کرنے والا ہو، ، بہت زیادہ علم والا ہو، بہت زیادہ برداشت والا ہو، خوبصورت مناظرہ کرنے والا ہو، فورا رجوع کرنے والا ہو، وسیع سینے والا ہو، عمدہ نفس والا ہو- اس کا ہنسنا تبسم ہو، اس کا سوال سکھلانے کے لئے ہو جو غافل کو نصیحت کرے، جاہل کو تعلیم دے- جو اسے تکلیف دے وہ اسے تکلیف نہ دے، بیہودہ کاموں میں مبتلا نہ ہو، کسی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کرے، کسی کی غیبت نہ کرے، حرام سے بچنے والا ہو، شبہات سے رکنے والا ہو، غریب کی مدد کرنے والا ہو، اپنے چہرے پر مسکراہت سے یتیم کا استقبال کرنے والا ہو، اس کے غم کو اپنے دل میں محسوس کرنے والا ہو، اپنی فکر میں مشغول ہو، اپنے فقر پر مسرور ہو، شہد سے زیادہ میٹھا ہو، دین میں لوہے سے زیادہ مضبوط ہو، رازوں کو کھولنے والا نہ ہو، کسی کی عزت اچھالنے والا نہ ہو، لطیف حکمت والا ہو، روشن مشاہدہ والا ہو، بہت زیادہ فائدہ بخشنے والا ہو، عمدہ ذوق رکھتا ہو، اچھا اخلاق رکھتا ہو، نرم دل ہو، بہت زیادہ خاموش رہتا ہو، جب کوئی اس سے جہالت سے پیش آئے تو وہ برداشت کرے، جو کوئی اس سے برائی سے پیش آئے تو اس پر صبر کرے، بڑوں کا احترام کرے، چھوٹوں پر رحم کرے، عورتوں کے لئے مردہ ہو، خباثتوں سے دور ہو، اس کی الفت تقویٰ ہو، اس کا اخلاق حیائ ہو، بہت زیادہ پرہیزگار ہو، بہت کم ذلت اٹھاتا ہو، اس کی تمام حرکات ادب کے دائرہ میں ہوں، اس کی تمام باتیں عمدہ ہوں، کسی کی بھی غیبت نہ کرے، کامیاب ہو، صابر ہو، راضی ہو، شکر کرنے والا ہو، کم بولنے والا ہو، سچ بولنے والا ہو، گالیاں نہ نکالے، چغلی نہ کھائے، جلدباز نہ ہو، کینہ رکھنے والا نہ ہو، حسد کرنے والا نہ ہو، اس کی زبان حفاظ کرنے والی ہو، دل پُروقار ہو، بات وزن دار ہو، فکر ماضی و مستقبل میں گھومنے والی نہ ہو- اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہو جس کے یہ اوصاف ہوں‘‘-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:-’’پہلے فقہ حاصل کر پھر اللہ کے بندے کے ساتھ بغیر علم کے گوشہ نشینی اختیار کر ﴿کیونکہ﴾ اس ﴿علم﴾ کا فساد اس کی اصلاح سے زیادہ ہے- اپنے علم کے مطابق عمل کے ذریعے اپنے رب کی شریعت کا چراغ اپنے ساتھ رکھ ، تاکہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسے علم کا وارث بنائے جسے تو نہیں جانتا ‘‘-
حضور شہنشاہِ بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال مبارک کا تذکرہ:سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا تذکرہ ہم آپ کی کتاب ’’المجالس‘‘ سے نقل کر رہے ہیں- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :-
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾﴿آل عمران، ۴۴۱﴾’’اور محمدA ﴿بھی تو﴾ رسول ہی ہیں ، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر ﴿مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے﴾ گزر چکے ہیں‘‘-
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:-﴿وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٰ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْیَلْحَقُوْا بِھِمْ مِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ﴿آل عمران، ۹۶۱،۰۷۱﴾’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال ﴿بھی﴾ نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں ﴿جنت کی نعمتوں کا﴾ رزق دیا جاتا ہے وہ ﴿حیاتِ جاودانی کی﴾ ان ﴿نعمتوں﴾ پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرما رکھی ہیں اور اپنے ان پچھلوں سے بھی جو ﴿تاحال﴾ ان سے نہیں مل سکے ﴿انہیں ایمان اور طاعت کی راہ پر دیکھ کر﴾ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘-
روایت ہے کہ سیّدی شیخ عبد الوہاب الجیلانی نے اپنے والد شیخ الاسلام ، جمال الانام ابو محمد عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قریب الوصال کوئی وصیت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:-’’تجھ پر اللہ سے تقویٰ اور اس کی اطاعت لازم ہے- کسی سے خوف نہ کھائو، نہ کسی سے امید رکھو، اپنی تمام ضروریا ت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو- اپنی ضروریات کو اللہ تعالیٰ سے ہی مانگو اور اللہ عز وجل کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرو، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کسی پر اعتما دبھی نہ کرو- التوحید، التوحید، التوحید، اسی پر تمام کا اتفاق ہے-‘‘آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنے مرض الوصال میں فرمایا:-’’جب دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہو جائے تو اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی- میں مغز ہوں چھلکا نہیں ہوں‘‘-
آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنی اولاد سے ﴿اسی مرض الوصال کی حالت میں﴾ فرمایا کہ:-’’میرے ارد گرد سے ہٹ جائو- مَیں بظاہر تمہارے ساتھ ہوں لیکن بباطن تمہارے علاوہ دوسروں کے ساتھ ہوں- میرے اور تمہارے اور تمام مخلوق کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے- مجھے دوسروں پر قیاس نہ کرو اور نہ کسی اور کو مجھ پر قیاس کرو- تمہارے علاوہ بھی کچھ مخلوق میرے پاس موجود ہے تم ان کا احترام کرو اور ان کے لئے جگہ کھلی کر دو‘‘-آپ کے صاحبزادگان میں سے کسی نے خبر دی کہ:-’’آپ ﴿قریب الوصال﴾ فرما رہے تھے کہ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اللہ تعالیٰ میری اور تمہاری مغفرت فرمائے، اللہ تعالیٰ میری اور تمہاری توبہ قبول فرمائے، رخصت کرنے والوں کے علاوہ ﴿بسم اللہ﴾ اللہ کے نام سے شروع- آپ نے ﴿کسی کو﴾ فرمایا کہ آج کے دن اور رات تم پر ہلاکت ہو، اور مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں، نہ کسی فرشتے کی نہ موت کے فرشتے کی- اے ملک الموت! ایک طرف ہٹ جائیں ﴿ہم دیکھیں﴾ تیرے سوا ہماری جان کنی کون کرتا ہے- پھر آپ نے بہت بلند آواز نکالی- یہ وہ دن تھا جس کی شام کو آپ نے وصال فرمایا ‘‘-
آپ کے کسی صاحبزادہ نے آپ سے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا کوئی مجھ سے ﴿اس بارے﴾ سوال نہ کرے میں اللہ عزوجل کے علم میں ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتا رہتا ہوں‘‘-آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صاحبزادے سیّدی شیخ عبد الجبار سے فرمایا کہ:-’’تم میری موت کی فکر میں ہو حالانکہ تمہیں آگاہ کر دیا گیا تھا‘‘- جب آپ کے پاس ایک جماعت آئی اور آپ کی اولاد بھی آپ کے پاس موجود تھی اور آپ کے ایک صاحبزادہ سیّدی شیخ عبد العزیز آپ کی طرف سے لکھ رہے تھے کہ حکم تبدیل ہو جاتا ہے اور علم تبدیل نہیں ہوتا- حکم منسوخ ہو جاتا ہے اور علم منسوخ نہیں ہوتا- اللہ کا علم اس کے حکم سے کم نہیں ہو جاتا-آپ کے دو صاحبزادوں سیّدی حضرت عبدا لرزاق اور سیّدی حضرت موسیٰ نے خبر دی کہ:-’’آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنا ہاتھ اٹھاتے اور کھینچ کر فرماتے وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ- توبہ کرو اور اس صف میں باوقار طریقے سے داخل ہو جائو- میں تمہاری طرف آ رہا ہوں- آپ فرما رہے تھے کہ ذرا نرمی کرو پھر ذات حق آپ کے پاس آتی ہے اور آپ پر موت کی مدہوشی طاری ہو جاتی ہے اور فرما رہے تھے میں نے ﴿لا الہ الا اللّٰہ الحی الذی لایموت﴾ سے مدد طلب کی- وہ فوت ہونے سے خوف نہیں کھاتا جو قدرت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے- پھر آپ نے پڑھا ﴿لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ﴾‘‘-
آپ کے صاحبزادے سیّدی حضرت موسیٰ نے خبر دی کہ:-’’آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے بڑا واضح طور پر تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ کہا پھر آپ کی آواز پست ہو گئی پھر آپ وفات پا گئے- ہم تک آپ کی برکات ہی رہ گئیں- اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! تُو ہمیں اپنے کرم، فضل اور رحمت سے آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی محبت اور آپ کے راہِ طریقت پر قائم رکھ ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾ ‘‘-
سلسلہ عالیہ قادریہ کے آداب پر اس کتاب کا اختتام:
یہ آداب ہم نے قادری بزرگان کی کتب اور ان کے اعمال سے اخذ کیے ہیں اور جو خود آپ ﴿شیخ غوث الاعظم ﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلام سے سمجھے ہیں اور ہمیں ہمارے شیخ سیدنا جمال اللہ جمال الدین ابو حامد الشیخ موسیٰ بن حامد بن عبد الرزاق بن عبد القادر بن محمد بن شمس الدین بن شاہ میر بن علی بن مسعود بن احمد بن صفی بن عبد الوہاب بن شیخ الاسلام شیخ السماوات و الارضین محی الدین عبد القادر الحسنی و الحسینی، الجیلانی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تین شوال، ۵۸۹ھ ، ہفتہ کی صبح اجازت دیتے ہوئے خبر دی - ان میں سے یہ درج ذیل ہیں:-
ظاہری شریعت کی بہت زیادہ پاسداری، اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن اور رسول اللہ کی سنت کو لازما مضبوطی سے پکڑنا، قطعی طور پر سلف صالحین کے طریقے پر چلنا، اہل السنت و الجماعت کا عقیدہ رکھنا، نفس کو ریاضت کروانا اور اسے کھلا نہ چھوڑنا، طلبِ مولیٰ میں صبرجمیل اختیار کرنا، مصائب کو برداشت کرنا، دائمی کوشش، مضبوط مشقت، دینی علوم میں مشغول رہنا، فقرائ کی مجالس کو اختیار کرنا، بادشاہوں اور امرائ سے بے نیازی اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شیطان مردود کے فریبوں سے بچنے کی ہمیشہ التجائیں کرتے رہنا، اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کی پختہ امید رکھنا، دل میں ہمیشہ درد رکھنا اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھنا، دائمی روحانیت اور طویل خاموشی، جولانی ٔ فکر اور بھائی چارہ کی تلاش، مساکین پر رحم اور جود و سخا کو اختیار کرنا، بخل سے اجتناب، معاملات میں سنجیدگی، بیہودگی سے احتراز، تمام امورمیں معتدل رویہ کو اختیار کرنا، اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے ہی بغض رکھنا، معرفت و نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، عمدہ مناظرہ کرنا، دل کا نرم رکھنا، دین میں قائم رہنا، جھگڑوں کو ترک کرنا، عمدہ ذوق رکھنا، اچھے اخلاق رکھنا، احوال کو چھپانا اور معانی کو راز میں رکھنا، اعمال میں مضبوط ہونا، طریقتِ توحید پر چلنا، اختیار کو ترک کرنا، قضا پر راضی رہنا، شیخ کی محبت میں مستغرق رہنا اور ہمیشہ اسی کی طرف متوجہ رہنا، تمام احوال میں اس کی معیت کا ملاحظہ کرنا، تمام لمحات میں اسی کا مشاہدہ کرنا، اس کے غیر سے اندھا ہونا، اس کی ذات میں فنا ہونا، اس کے غیر سے حاصل ہونے والے راستے کو چھوڑنا، عقیدہ میں مضبوط ہونا، توحید کو طلب کرنا، محبت میں غیرت والے اعمال کرنا، اس کی محبت میں مطلقا فنا ہونا، اس سے مضبوط امید رکھنا، وسوسوں سے دور رہنا، ہمیشہ مشتاق رہنا، کامل عشق رکھنا، مضبوط ایمان رکھنا، مخلوق سے دوری، اس کے غیر سے بے خوف ہونا، دل کا اللہ کے ساتھ حاضر رہنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صحیح محبت رکھنا، زبان کو بیہودہ باتوں اور ظاہری شریعت کی مخالفت سے بچا کر رکھنا، مسلمانوں کو نصیحت کرتے رہنا، اپنے سلسلہ والوں کے لئے دعا کرتے رہنا، ان کے لئے ظاہری و باطنی بھلائی چاہتے رہنا، ان کی ظاہری و باطنی خدمت کرتے رہنا، ان کی موجودگی اور غیر موجودگی میں ایک جیسا رہنا، تمام گروہوں میں سے ان کے ساتھ مزید خصوصیات قائم رکھنا، ان کی ان کتب کا مطالعہ کرتے رہنا ﴿بالخصوص﴾ جو آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں، ان کی صحبت سے فائدہ اٹھانا، دوسروں کی صحبت سے اجتناب کرنا، جو باتیں دل میں تشویش پیدا کریں ان سے بچنا، سماع کا اختیار نہ کرنا، اس کی عادت نہ بنانا اور اس سے مکمل طور پر برائ ت حاصل نہ کرنا، چاہے اس سے اتفاق ہی کیوں نہ ہو، اتفاق کی صورت میں اس میں بھی حضوری قلب رکھنا، تلاوت قرآن کرتے رہنا، نمازِ اسرار کو لازمی پڑھنا جس کے بعد گیارہ قدم ﴿بغداد شریف کی طرف﴾ چلتے ہیں ﴿اور سیدنا غوث پاک سے امداد طلب کرتے ہیں﴾، احکامِ شریعت کی حفاظت کرنا، آداب طریقت کا خیال رکھنا، شیخ کی محبت میں مستغرق ہونا، اس میں ہی اللہ کی طرف وسیلہ اختیار کرنا، شیخ کی ذات میں فنا ہونا اور اسی حالت میں فوت ہونا-
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے احباب کو اس طریقت کے راستے اور دائمی محبت میں قائم رکھے- اے اللہ ہمیں شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی محبت عطا فرما اور اسی پر ہمیں موت دے اور اسی پر ہمارا حشر فرما- ہمیں ان کے طالبوں دنیا اور آخرت میں ان سے محبت رکھنے والوں میں شامل فرما- اے ہمارے رب تو ہماری یہ دعا قبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے- صلی اللّٰہ علی سیدنا محمّد سید الرسل شفیع الامم محمّد و علی آلہ و اصحابہ اجمعین اٰمین ثم اٰمین
توضیحی نوٹ از مترجم:
﴿۱﴾سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
سینے وچ مقام ہے کینداسانوں مرشد گل سمجھائی ھو
ایہو ساہ جو آوے جاوے ہو ر نہیںشے کائی ھو
اس نوں اسم الاعظم آکھن ایہو سرّالٰہی ھو
ایہو موت حیاتی باھُو ایہو بھیت الٰہی ھو
یعنی اگر سانس اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آ جا رہا ہے تو یہ سانس زندہ اور اگر ذکر کے بغیر آ جا رہا ہے تو وہ سانس مردہ ہے- اس بیت میں جہاں انسان کے سانسوں کی اصل حقیقت کو آشکار کیا جا رہا ہے وہیں ایک خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ اسم اللہ ذات ہی اسمِ اعظم ہے لیکن اس کی تاثیر بطورِ اسمِ اعظم اس وقت جاری ہوتی ہے جب وہ سانسوں میں جاری ہوتا ہے تب وہ سانس بھی اسم الاعظم بن جاتے ہیں- اس بات کی طرف آپ ان الفاظ میں اشارہ فرماتے ہیں کہ ’’ایہو ساہ جو آوے جاوے‘‘ اور ’’اس نوں اسم الاعظم آکھن‘‘- لہٰذا مرشدِ کامل سے یہ اسم الاعظم کا وظیفہ لے کر غلاف میں لپیٹ کر رکھ دینے سے تو اس کی تاثیر پیدا نہیں ہوگی بلکہ اس پہ استقامت اختیار کرنا پڑے گی تا کہ دِل کو جِلا ملے-