﴿گزشتہ سے متصلہ﴾
شیخ غوث الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے عمدہ اخلاق کا کچھ تذکرہ :
شیخ معمر، ابو المظفر منصور بن مبارک بن فضل واسطی واعظ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ:-
’’میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر﴿h﴾ سے بڑھ کر حسنِ اخلاق والا، وسیع سینہ والا، معزز جسم والا، نرم دل والا اور عہد و محبت کی حفاظت کرنے والا نہیں دیکھا- آپ ﴿h﴾ اپنی قدرت کے جلال، بلند مقام و مرتبہ اور وسعتِ علم کے باوجود چھوٹوں کے ساتھ کھڑے ہوتے، بڑوں کا احترام کرتے، سلام میں پہل کرتے، کمزورں کے ساتھ بیٹھتے اور فقرائ کی تواضع کرتے تھے- آپ ﴿h﴾ کبھی کسی نافرمان اور امیر کے لیے کھڑے نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی وزیر اور بادشاہ کے دروازے پر خود کو رسوا کیا‘‘-
﴿منصور بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ﴾ ایک دن مَیں دن کے وقت آپ ﴿h﴾ کے گھر پر آپ کے پاس تھا- آپ بیٹھے نسخہ لکھ رہے تھے کہ چھت سے آپ پر مٹی گری جسے آپ نے جھاڑ لیا- ایسا تین مرتبہ ہوا کہ ﴿چھت سے﴾ آپ پر مٹی گرتی اور آپ اسے جھاڑ لیتے- پھر آپ نے چوتھی بار ﴿ایسا ہونے پر﴾ چھت کی طرف چہرہ مبارک اٹھایا تو وہاں چھوٹی سی چوہیا کو دیکھا تو ﴿دیکھتے ہی﴾ اُس کا جسم ایک طرف اور سر ایک طرف جا پڑا- آپ نے نسخہ لکھنا چھوڑ دیا اور رونے لگے- مَیں نے عرض کیا کہ حضور! کس بات نے آپ کو رولا دیا ہے؟ تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-
’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے دل کو کسی آدمی سے ﴿ایسے ہی﴾ رنج پہنچے اور کہیں اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ نہ ہو جائے جو اس چوہیا کے ساتھ ہوا ہے‘‘-
شیخ ابو القاسم عمر بن مسعود البزاز سے روایت ہے کہ:-
’’سیّدی شیخ محی الدین عبد القادر ﴿h﴾ ایک دن مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے کہ ایک چڑیا نے آپ پر بیٹ کر دی- آپ نے اپنا چہرہ اس کی طرف اٹھایا تو وہ اُڑتی ہوئی مردہ ہو کر گر پڑی- پھر جب آپ نے وضو مکمل کر لیا تو کپڑے سے بیٹ کی جگہ کو دھویا اور اس کپڑے کو اتار کر مجھے دیا اور فرمایا کہ مَیں اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کر دوں اور فرمایا کہ یہ اس ﴿چڑیا کو مارنے﴾ کے بدلے میں ہے‘‘-
بغداد کے دو شیخ ابو عَمرو عثمان الصریفنی اور شیخ ابو محمد عبد الحق الحریمی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ:-
’’ہمارے شیخ، سیّد عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے رب! میں تیرے لیے روح کو کیسے ہدایت دے سکتا ہوں حالانکہ برہان کے ذریعے یہ بات صحیح ہو چکی ہے کہ سب کچھ تیرے لیے ہی ہے‘‘-
کبھی کبھار آپ یہ شعر پڑھتے کہ :-
و ما ینفع الاعراب ان لم یکن تقی
و ما ضر ذا تقوی لسان یعجم
’’اگر کسی عربی ﴿بولنے والے﴾ میں تقویٰ نہ ہو تو عربی ہونا کیا نفع دے گا اور جو صاحبِ تقویٰ ہے اسے عجمی ﴿غیر عربی﴾ زبان کیا نقصان دے سکتی ہے‘‘- ﴿۱﴾
حافظ ابو عبد اللہ بن بخاری نے کہا کہ مجھے عبد اللہ الجبائی نے لکھ کر بھیجا اور مَیں نے ان کے خط سے اسے نقل کیا ہے کہ مجھے شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-
’’میری تمنا ہے کہ مَیں صحرائوں اور جنگلوں میں اسی طرح رہوں جیسے پہلے تھا کہ نہ مَیں مخلوق کو دیکھتا تھا اور نہ وہ مجھے دیکھ پاتے تھے- پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے مخلوق کا بھلا چاہتا ہے- میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے بھی زائد فاسق و فاجر وغیرہ تائب ہو چکے ہیں اور یہ خیر کثیر ہے‘‘- ﴿۲﴾
شیخ الولی، المقتدیٰ سیدنا عبد الرزاق بن سیّدی غوث الاعظم ﴿h﴾سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ:-
’’میرے والد ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا چرچا ہونے کے بعد ایک ہی مرتبہ حج فرمایا جس میں، مَیں جاتے ہوئے بھی آپ ﴿h﴾ کی سواری کا لگام بردار تھا اور واپسی پر بھی لگام بردار تھا- جب ہم مقامِ ’’الحلۃ‘‘ پر پہنچے تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ وہاں دیکھو کہ مجھے وہاں ﴿آرام کرنے کے لیے﴾ ایک گھر کی ضرورت ہے- ہمیں ایک کھنڈر نظر آیا جس میں ایک بالوں ﴿اور گھاس وغیرہ﴾ کا ایک جھونپڑا تھا جس میں ایک بوڑھا شیخ اور اس کی بچی رہتی تھی- میرے والد ﴿h﴾ نے اس شیخ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو اُس نے آپ ﴿h﴾ کو اجازت دے دی- آپ ﴿h﴾ اور آپ کے ساتھیوں نے وہیں کھنڈر میں پڑائو کر لیا- اسی دن ﴿آپ کی آمد کا سن کر﴾ ’’حلۃ‘‘ کے مشائخ اور امرائ آپ ﴿h﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اپنے گھروں میں یا ﴿اس جھونپڑی کو چھوڑ کر﴾ کسی اور جگہ تشریف لانے کی دعوت دی- آپ ﴿h﴾ نے انکار فرما دیا- شہر والے آپ ﴿h﴾ کے پاس بکریاں، گائے، کھانا، سونا، چاندی اور دیگربے شمار قابلِ فروخت سامان لے کر حاضر ہو گئے اور آپ کے زادِ راہ کو تیار کر دیا- لوگ چاروں اطراف سے آپ ﴿h﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئے- شیخ غوث الاعظم ﴿h﴾ نے فرمایا کہ یہاں جو سامان پڑا ہے مَیں اس سب کو اس گھر کے مالک کے حوالے کرتا ہوں- وہ سب ساتھی بولے کہ ہم بھی اس کی ملکیت سے دستبردار ہوتے ہیں- آپ ﴿h﴾ نے وہ تمام مال اس شیخ اور اس کی بچی کے حوالے کر دیا اور سحری کے وقت وہاں سے روانہ ہوگئے‘‘-
سیّدی شیخ عبد الرزاق ﴿h﴾ نے فرمایا کہ میں ایک سال کے بعد ’’الحلۃ‘‘ میں لکڑیاں کاٹنے گیا تو وہی بوڑھا شیخ اس علاقے کا سب سے امیر آدمی تھا - اس نے مجھے کہا کہ یہ سب مال جو تم دیکھ رہے ہو یہ اسی ایک رات کی برکت سے ہے- یہ مویشی بچے پیدا کرتے ہیں اور وہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں یہ سب اسی برکت سے ہے-
آپ ﴿شیخ غوث الاعظم h ﴾کا یہ معمول تھا کہ کوئی آپ کے پاس سونا لے کر آتا تو آپ اسے فرماتے کہ جائے نماز کے نیچے رکھ دے اور آپ ﴿h﴾ خود اسے ہاتھ نہ لگاتے- جب آپ کے پاس آپ کا خادم آتا تو اسے فرماتے کہ جائے نماز کے نیچے جو کچھ ہے وہ لے جا کر روٹیاں پکانے والے اور سبزی فروش کو دے آئو- اور جب آپ ﴿h﴾ کے پاس کوئی شخص خلیفہ کا لباس لے کر حاضر ہوتا تو اسے فرماتے کہ اسے چکی پیسنے والے ابو الفرح کو دے دو اور ان سے فقہائ اور مہمانوں کے لیے آٹا لے لو-
شیخ عبد القادر ﴿h﴾ کے خادم کے لقب سے مشہور شیخ ابو محمد عبد اللطیف بن شیخ ابو النجاۃ سالم بن احمد البغدادی نے فرمایا کہ :-
’’میرے والد نے مجھے بتایا کہ سیّدنا شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مرتبہ مختلف کام والوں کے لیے اڑھائی سو دینار ﴿سونے کے سکے﴾ جمع ہو گئے کہ ایک ایسا شخص آیا جسے میں نہیں جانتا تھا- وہ بغیر اجازت آپ ﴿h﴾ کے پاس آیا اور بیٹھ کر بڑی لمبی گفتگو شروع کر دی- آپ ﴿h﴾ نے اس کو سونے کے دینار دیئے اور فرمایا کہ یہ قرض کی ادائیگی کے لیے ہے- پس وہ ﴿دینار لے کر﴾ چلا گیا- پھر آپ ﴿h﴾ نے مجھے فرمایا کہ ہر حق دار کو اس کا حق پہنچائو- اور فرمایا کہ یہ تقدیر کے امور انجام دینے والا ﴿صیر فی القدر﴾ ہے- مَیں نے عرض کیا کہ’’ صیر فی القدر‘‘ کیا ہوتا ہے ؟ تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولیائے اللہ کے قرضوں کی ادائیگی کرتا ہے‘‘-
آپ ﴿h﴾ کے پاس چند دیہاتیوں سے گندم اکٹھی ہو جاتی تھی جو وہ آپ ﴿h﴾ کے لیے ہر سال کاشت کرتے تھے- کچھ لوگ اسے پکانے پر مامور تھے جو آپ ﴿h﴾ کے لیے ہر روز چار یا پانچ روٹیاں پکاتے- آپ اسے شام کو لیتے اور اس وقت جو حاضر ہوتے ان میں تقسیم فرما دیتے اور جو بچ جاتی وہ اپنے لیے رکھ لیتے-
آپ ﴿h﴾ کو اگر کوئی تحفہ دیا جاتا تو اس وقت جو حاضر ہوتے ان میں وہ تقسیم فرما دیتے تھے- آپ ﴿h﴾ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کے بدلے میں بھی کچھ عطا فرماتے تھے اور آپ ﴿h﴾ نذر قبول فرماتے تھے اور اس میں سے کھاتے بھی تھے-
شریف ابو عبد اللہ محمد بن الخضر الحسینی، الموصلی نے فرمایا کہ:-
’’میرے والد نے مجھے بتایا کہ مَیں جمعہ کے دن شیخ محی الدین عبد القادر ﴿h﴾ کے ساتھ جامع مسجد میں تھا کہ آپ ﴿h﴾ کے پاس ایک تاجر آیا اور عرض کیا کہ میرے پاس زکوٰۃ کے علاوہ مال ہے جو میں چاہتا ہوں کہ فقرائ اور مساکین کو عطا کروں لیکن مجھے کوئی مستحق نظر نہیں آتا جسے میں یہ مال دوں- آپ ﴿h﴾ کس کو دلوانا چاہیں گے؟ آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ چاہیے کسی مستحق کو دے دو یا غیر مستحق کو دے دو اللہ تعالیٰ بھی تجھے وہ دے گا جس کا تو مستحق ہے اور وہ بھی دے گا جس کا تو مستحق نہیں ہے‘‘-
﴿اس راوی نے ﴾ فرمایا کہ :-
’’ایک دن آپ ﴿h﴾ نے ایک ٹوٹے دل والے فقیر کو دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ اس نے کہا کہ آج میں دریا کے کنارے پر آرہا تھا کہ ایک کشتی کے ملاح سے کہا کہ ﴿میرے پاس پیسے نہیں ہیں کیا﴾ وہ مجھے دریا کے دوسرے کنارے تک لے جائے گا؟ اس نے انکار کیا تو میری غربت کی وجہ سے میرا دل ٹوٹ گیا- ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک اور شخص آیا جس کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں تیس دینار ﴿سونے کے سکّے﴾ تھے جو وہ شیخ ﴿غوث الاعظم h﴾ کو نذر کرنے آیا تھا- شیخ ﴿h﴾ نے اس فقیر سے کہا کہ یہ تھیلی لے لو اور اس میں سے کچھ اس ملاح کو دے دو اور یہ بھی کہو کہ کبھی کسی فقیر کو واپس نہیں موڑتے - آپ ﴿h﴾ نے اپنی قمیص اتار کر بھی اس فقیر کو عطا کر دی جو اس نے بیس دینار میں فروخت کر دی‘‘-
شیخ ابو القاسم، عمر البزاز سے منقول ہے وہ فرماتے ہیںکہ:-
’’وہ لمحات جس میں ہم شیخ محی الدین سیّدنا عبد القادر ﴿h﴾ کے ساتھ بیٹھتے تھے وہ خواب کی طرح لگتے تھے جب وہ گزر جاتے تو ہم اس خواب کو کھو بیٹھتے تھے‘‘-
آپ ﴿h﴾ کا اخلاق پسندیدہ، آپ کے اوصاف عمدہ، آپ کا وجود مبارک مودب اور آپ کا ہاتھ کھُلا تھا- آپ ﴿h﴾ ہر رات دستر خوان بچھانے کا حکم دیتے اور مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتے، کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے، طالب علموں کے ساتھ وقت گزارتے- آپ کا ہر ہم مجلس یہ گمان ہی نہیں کرتا تھا کہ کوئی اس پر آپ ﴿h﴾ سے زیادہ مہربان ہوگا- آپ ﴿h﴾ ان کی محبت کی حفاظت فرماتے تھے، ان کی خطائوں سے درگزر فرماتے تھے- جو آپ کا مرید ہوتا آپ ﴿h﴾ اس پر صدقہ کرتے اور اسے پتا ہی نہیں چلتا تھا- آپ بہت زیادہ حیا والے تھے-
شیخ عمر البزاز جب بھی شیخ ﴿غوث الاعظم h﴾ کا ذکر فرماتے تو یہ شعر پڑھتے کہ:-
الحمد للّٰہ انی فی جوار فتی
حامی الحقیقۃ نفاع و ضرار
لا یرفع الطرف الا عند مکرمۃ
من الحیائ و لایفضی علی عار
’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے پڑوس میں ایک ایسا نوجوان ہے جو حقیقت کی حمایت کرنے والا، ﴿دوستوں کے لیے﴾ نفع بخش اور ﴿دشمنوں کے لیے﴾ سبق آموز- وہ حیائ کی وجہ سے اپنی آنکھ صرف معزز لوگوں کے ہاں کھولتا ہے اور شرمندگی نہیں اٹھاتا‘‘-
شیخ ابو الحسن علی القرشی سے شیخ محی الدین سیّدنا عبد القادر ﴿h﴾ کی خوبیوں کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:-
’’آپ ﴿h﴾ ظاہری حسن و جمال کے مالک تھے، ہمیشہ مسکرانے والے، بہت زیادہ مانوس ہونے والے، بڑی حیائ والے، کھلے صحن والے، آسانی سے تابع فرمانی کرنے والے، عمدہ اخلاق والے، پاکیزہ اصل والے، بہت زیادہ مہربان، رئووف اور شفقت فرمانے والے تھے- آپ ﴿h﴾ صاحبِ مجلس کی عزت افزائی فرماتے اور اگر اسے غم زدہ دیکھتے تو اس کی دل جوئی فرماتے- مَیں نے آپ ﴿h﴾ سے بڑھ کر زبان کا ماہر اور الفاظ پر قادر کسی کو نہیں دیکھا‘‘-
ابو الحسن علی بن اردم محمدی نے خبر دیتے ہوئے فرمایاکہ مَیں نے عراق کے مفتی شیخ الامام محی الدین ابوعبد اللہ محمد بن علی بن محمد بن حامد البغدادی جو کہ توحیدی کے نام سے مشہور تھے ان کے اس کلام سے نقل کیا جو انہوں نے سن ۶۳۶ھ میں لکھا تھا کہ:-
’’سیّدنا شیخ محی الدین عبد القادر ﴿h﴾ انتہائی نرم دل، بہت زیادہ خوفِ الٰہی رکھنے والے، بہت زیادہ رعب والے، دعا کی قبولیت والے، پاکیزہ اخلاق والے، عمدہ نسب والے، لوگوں کی فحش باتوں سے بہت دور، حق تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب- جب اللہ کی حدود کو پامال کیا جاتا تو آپ ﴿h﴾ کی پکڑ بڑی شدید ہوتی- آپ اپنی ذات کے لیے کبھی غضب ناک نہیں ہوئے اور ما سوی اللہ کے لیے آپ کبھی تبدیل نہیں ہوتے تھے- کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے چاہے اسے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی دیتے- اللہ تعالیٰ کی توفیق آپ ﴿h﴾ کی تلاش میں رہتی، اس کی مدد آپ کے شاملِ حال رہتی- علم آپ کی تہذیب میں مصروف ہوتا، قرب آپ کو ادب سکھاتا، امرِ حق آپ کا مشیر تھا، نگاہ آپ کی سفیر تھی، محبت آپ کی ساتھی تھی، کشادگی آپ کی روح تھی، سچائی آپ کا جھنڈا تھا، فتح آپ کا ساز و سامان تھا، برداشت آپ کی جائیداد تھی، ذکر آپ کا وزیر تھا، فکر آپ کا ضمیر تھا، مکاشفہ آپ کی غذا تھی، مشاہدہ آپ کی شفائ تھی، شریعت کا ادب آپ کا ظاہر تھا اور حقیقت کے اوصاف آپ کا باطن تھا- اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا ، اور تمام اولیائ کرام اور ان سے محبت رکھنے والوں سے بھی راضی ہو‘‘-
شیخ غوث الاعظم کے ساتھیوں، مریدین اور محبت رکھنے والوں کی فضیلت کا تذکرہ:
شیخ صالح ابو الحسن علی بن محمد بن احمد البغدادی نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’مَیں نے خواب میں رسول اللہ ﴿w﴾ کی زیارت کی- مَیں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﴿w﴾ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میری موت اللہ تعالیٰ کی کتاب ﴿قرآن پاک﴾ اور آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آئے- آپ ﴿w﴾ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اور یہ بات میں نے تمہارے مرشد، شیخ عبد القادر ﴿h﴾ سے تین مرتبہ پوچھی تو انہوں نے تینوں مرتبہ مجھے جواب دیا ﴿کہ میں تمہارے لیے یہ دعا کروں﴾‘‘-
﴿شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ﴾ یہ حکایت بڑی لمبی تھی جسے ہم نے مختصر کر کے بیان کیا ہے-
﴿راویوں کی﴾ ایک جماعت نے مشائخ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’سیّدنا شیخ عبد القادر ﴿h﴾ نے قیامت تک کے اپنے مریدین کی ضمانت اٹھائی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی توبہ کیے بغیر فوت نہیں ہوگا‘‘-﴿۳﴾
شیخ ابو محمد، عبد اللطیف بن شیخ ابو النجیب عبد القاہر بن عبد اللہ سہروردی، فقیہ و صوفی سے منقول ہے کہ انہوںکہا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ:-
’’شیخ حماد الدباس ﴿h﴾ سے شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہر رات ایک آواز سنائی دیتی تھی- ان کے خادمین نے شیخ عبد القادر ﴿h﴾ سے عرض کی کہ آپ ان ﴿شیخ الدباس﴾ سے اس کی وجہ دریافت فرمائیں- اس دن ان سے آپ ﴿h﴾ کی ملاقات بھی تھی- جب آپ ﴿h﴾ نے ان سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے بارہ ہزار مرید ہیں- مَیں ہر رات ان کے نام لے لے کر یاد کرتا ہوں اور اس کے لیے سوال کرتا ہوں جسے اللہ تعالیٰ کی حاجت ہوتی ہے - جب میرے کسی مرید کو کوئی گناہ لاحق ہوتا ہے توایک مہینہ نہیں گزرتا کہ وہ فوت ہو جاتا ہے یا وہ توبہ کر لیتا ہے- یہ اس پر شفقت ہوتی ہے کہ کہیں وہ اس ﴿گناہ﴾ میں زیادہ مبتلا نہ رہے - شیخ عبد القادر ﴿h﴾ نے انہیں فرمایا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کی منزل عطا فرمائی تو میں اپنے رب سے اپنے مریدین کے لیے قیامت تک یہ عہد لے لوں گا کہ ان میں سے کوئی بھی بغیر توبہ کیے فوت نہ ہو اور مَیں اس کا ضامن ہوں گا‘‘-
حضرت عمران نے خبر دی کہ :-
’’شیخ ﴿غوث الاعظم h﴾ سے عرض کیا گیا کہ اگر کوئی شخص آپ کا نام لیتا ہے اور اس نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت نہیں کی اور نہ ہی آپ سے ﴿خلافت کا﴾ خرقہ پہنا تو کیا وہ بھی ﴿صرف آپ کا نام لینے سے﴾ آپ کے اصحاب میں شمار ہوگا؟ تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ جو شخص میری طرف ﴿صرف﴾ منسوب ہو گیا اور اسے میرے نام سے ذکر کیا جانے لگا تو اللہ تعالیٰ اسے ﴿بھی﴾ قبول فرما لے گا اور اسے توبہ کی توفیق دے گا- وہ اگرچہ مکروہ راستے ﴿۴﴾ پر ہی کیوں نہ چلے وہ میرے تمام ساتھیوں میں شامل ہے اور بے شک میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میرے ساتھیوں کو، میرے ہم مسلکوں کو اور مجھ سے محبت رکھنے والے ہر ایک شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا‘‘-﴿۴﴾
آپ ﴿h﴾ سے پوچھا گیا کہ جو شخص آپ کی طرف منسوب ہو جائے اس کی کیا فضیلت ہے؟ تو آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-
﴿البیضۃ منا بالف و الفرخ لا یقوّم﴾
’’ہمارا انڈا ایک ہزار ﴿دینار﴾ کا ہے اور چوزہ کی تو کوئی قیمت ہی نہیں‘‘-
آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-
’’اگر میرے مرید کی مغرب میں بے پردگی ہو جائے اور مَیں مشرق میں بھی ہوں تو بھی اس کی پردہ پوشی کروں گا‘‘-﴿۵﴾
آپ ﴿h﴾ نے فرمایا کہ:-
’’مجھے تاحدِ نگاہ ایک رجسٹر دیا گیا جس میں قیامت تک کے میرے ساتھیوں اور میرے مریدین کے نام تھے اور کہا گیا کہ یہ سب آپ کو تحفۃً عطا کیے گئے ہیں- مَیں نے جہنم کے داروغہ مالک ﴿فرشتہ﴾ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس میرے ساتھیوں میں سے بھی کوئی ﴿نام درج﴾ ہے؟ تو اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے- ﴿آپ ﴿h﴾ نے فرمایا﴾ مجھے میرے رب کی عزت و جلال کی قسم کہ میرا ہاتھ میرے مرید پر ایسے ہی ہے جیسے آسمان زمین کے اوپر ہے- اگر میرا مرید سخی نہ بھی ہو تو ہم تو سخی ہیں- مجھے میرے رب کی عزت و جلال کی قسم مَیں ﴿قیامت کے روز﴾ اس وقت تک اپنے رب کی بارگاہ سے پیچھے نہیں ہٹوں گا جب تک وہ مجھ سے اور میرے ساتھیوں سے جنّت میں کلام ﴿کرنے کا وعدہ﴾ نہیں فرمائے گا‘‘-
روایت ہے کہ شیخ محی الدین سیّدنا عبد القادر ﴿h﴾ کے ایک خادم پر ایک ہی رات میں ستر ﴿۰۷﴾ مرتبہ غسل واجب ہو گیا- وہ ہر مرتبہ ﴿خواب میں﴾ ایک نئی عورت کے ساتھ ہوتا- کسی کو وہ جانتا تھا اور کسی کو نہیں جانتا تھا- جب صبح ہوئی تو وہ شیخ ﴿h﴾ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ اس کی وجہ دریافت کرے- اس خادم کے ذکر کرنے سے پہلے ہی آپ ﴿h﴾ نے اسے فرمایا کہ :-
﴿ایک ہی رات﴾ اتنی مرتبہ غسلِ جنابت لازم ہونے سے پریشان نہ ہو- مَیں نے تمہارا نام لوحِ محفوظ پر دیکھا جس میں لکھا تھا کہ تو ستر ﴿۰۷﴾ مرتبہ فلاں فلاں عورت سے بد فعلی کرے گا- آپ ﴿h﴾ نے ان عورتوں کے نام اور شکل و صورت بھی بتائی- ﴿پھر فرمایا﴾ پس مَیں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی کہ وہ تمہارے اس فعل کو بیداری سے نیند ﴿خواب﴾ میں تبدیل فرما دے ﴿تو اس نے میری عرض قبول فرما لی﴾-
شیخ الصالح، ابو محمد دائود بن علی بن احمد البغدادی نے فرمایا کہ:-
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ شیخ معروف الکرخی ﴿h﴾ کے پاس لوگوں کے قصے آتے اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش فرماتے- پس انہوں نے مجھے بھی فرمایا کہ اے شیخ دائود ! تم بھی اپنا قصہ عرض کرو تاکہ مَیں اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کروں- مَیں نے عرض کی کہ کیا میرے شیخ یعنی سیّدی شیخ محی الدین عبد القادر ﴿h﴾ کو انہوں نے معزول کر دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم انہوں نے آپ ﴿h﴾ کو نہ ہی معزول کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کریں گے- پھر میں اٹھ گیا اور سحری کے وقت ہی شیخ ﴿h﴾ کے مدرسے آیا اور آپ ﴿h﴾ کے گھر کے دروازے پر بیٹھ گیا تاکہ آپ کو اس خواب کے بارے بتائوں- آپ ﴿h﴾ نے اپنے گھر کے اندر سے ہی میرے دیکھنے اور بات کرنے سے پہلے مجھے آواز دے کر فرمایا کہ اے دائود تمہارے شیخ کو نہ ہی انہوں نے معزول کیا ہے اور نہ آئندہ معزول کریں گے- اپنا قصہ سنائو مَیں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں- اس کی عزت کی قسم مَیں نے اپنے ساتھی یا کسی کا بھی جو قصہ سنایا ہے اس میں فوراً میرے سوال کا جواب آیا ہے‘‘-
الامام، الحافظ تاج الدین ابو بکر، شیخ عبد الرزاق بن شیخ الاسلام محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿i﴾ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’میرے والد نے اپنے بیٹے یحیٰ کی والدہ سے فرمایا کہ وہ چاول پکائے- پس وہ کھڑی ہوئیں، ﴿چاول﴾ پکا کر برتن میں ڈال کر چلی گئیں- جب آدھی رات کا وقت ہوا تو دیوار پھٹ گئی اس میں سے ایک شخص داخل ہوا اور جو کچھ وہاں پڑا تھا وہ سب کھا لیا- جب وہ واپس جانے کے لیے اٹھا تو آپ ﴿h﴾ نے مجھے فرمایا کہ ان سے ملو اور اپنے لیے دعا کی عرض کرو- مَیں ان سے دیوار سے باہر ملا اور دعا کی عرض کی- اس نے مجھے کہا کہ مَیں جو اِس بھلائی تک پہنچا ہوں یہ تمہارے باپ کی دعا اور ان کے خرقہ کی برکت کی وجہ سے ہے- جب صبح ہوئی تو مَیں نے اس واقعہ کا شیخ علی بن الہیتی سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے فرمایا کہ تمہارے والد کے خرقہ سے بڑھ کر میں نے کسی کا خرقہ نہیں دیکھا کہ جو مرید کے سر پر رکھا گیا ہو اور فوراً اس کے مقامات کھل گئے ہوں اور برکت کی کثرت ہو گئی ہو - بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں آپ ﴿h﴾ سے خرقہ ﴿خلافت﴾ پہننے والے ستر مردوں پر، اسی دن کی شام تک جس دن انہوں نے خرقہ پہنا، عظیم مقامات کھول دیئے اور آپ ﴿h﴾ کے ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے کی برکت سے بہت بڑی عطائیں انہیں نصیب ہو گئیں- مَیں نے اس دن سے زیادہ برکت والا دن نہیں دیکھا جس میں آپ کے والد ﴿h﴾ کی زیارت نصیب ہوتی ہے‘‘-
شیخ علی بن الہیتی ﴿h﴾ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ:-
’’﴿اس وقت﴾ کسی شیخ کے مریدین شیخ عبد القادر ﴿h﴾ کے مریدین سے بڑھ کر سعادت مند نہیں ہیں- پھر فرمایا کہ مَیں نے شیخ ابو سعید القیلوی ﴿h﴾ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شیخ عبد القادر ﴿h﴾ جہانِ اعلیٰ سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک اللہ نے یہ عہد نہیں فرما لیا کہ جس نے بھی آپ ﴿h﴾ کے دامن کو پکڑ لیا وہ نجات پا گیا‘‘-
مزید فرمایا کہ :-
’’مَیں نے شیخ بقا بن بُطو کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شیخ محی الدین عبد القادر ﴿h﴾ کے تمام ساتھیوں کو دیکھا ہے کہ وہ سعادت مندی میں بڑے مشہور ہیں‘‘-
شیخ عدی بن مسافر سے منقول ہے کہ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:-
’’مشائخ کے جو بھی ساتھی مجھ سے خرقہ ﴿خلافت﴾ پہنانے کا سوال کریں تو مَیںانہیں پہنا دوں گا سوائے شیخ عبد القادر ﴿h﴾ کے ساتھیوں کے ، کیوں کہ وہ رحمت کے سمندر میں مستغرق ہیں اور بھلا کوئی سمندر کو چھوڑ کر ندی کی طرف آیا کرتا ہے‘‘-
﴿جاری ہے---﴾
توضیحی نوٹ از مترجم:
﴿۱﴾ ﴿ اس شعر کے ذریعے آپ تقویٰ کی اہمیت کو اجاگر فرما رہے ہیں کہ اگر ایک انسان خوفِ خدا اور انسانیت کا درد رکھتا ہے وہ اگرچہ عربی زبان نہیں بھی جانتا دوسرے لفظوں میں اسے قرآن و احادیث سے زیادہ واقفیت نہیں بھی ہے تو پھر بھی اللہ کے نزدیک وہ پسندیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے کہ ﴿ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم﴾ کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی صاحب عزت ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے-اس آیت سے زمان و مکان، نسب و حسب اور عربی و عجمی کی بنیاد پر فضیلت قائم کرنے کی تفریق ختم ہو جاتی ہے- یاد رہے کہ سیدنا غوث الاعظم ﴿h﴾ نسباً عربی اور محلاً عجمی تھے اور آپ کی مادری زبان بھی عربی نہیں تھی﴾-
﴿۲﴾ ﴿جو شخص اللہ کا طالب ہوتا ہے اسے اکثر یہی خیال آتا ہے کہ وہ کہیں تنہائی میں چلا جائے جہاں اسے کوئی جاننے پہچاننے والا نہ ہو، وہ ہو اور صرف اس کا محبوب یعنی اللہ تعالیٰ ہو- اس کیفیت سے مغلوب ہو کر کئی بزرگ تارکِ دنیا ہوکر جنگلوں بیابانوں میں چلے گئے اور کچھ لوگوں نے ان کی کیفیات کو سمجھے بغیر ہی ان کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے اور کچھ تعصب و بغض کی بُنیاد پہ پورے تصوف کو رہبانیت کے زمرے میں شامل کر دیا اور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد کو اپنے تعصب کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے روحانیت کے فیوض و برکات سے محروم کر دیا- ایک حقیقی صوفی اپنی اس کیفیت کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور اس سے مغلوب ہو کر مخلوق کی بھلائی سے رُخ نہیں موڑتا جیسا کہ آپ اپنے اس فرمان کے دوسرے حصہ میں فرما رہے کہ میرے ہاتھوں پر کتنے لوگ تائب ہوتے ہیں اور راہِ راست پر آتے ہیں- اللہ تعالیٰ ہمیں روحانیت کے حقیقی فوائد جاننے کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے﴾-
﴿۳﴾ ﴿یہاں شیخ غوث الاعظم ﴿h﴾ نے اپنے مرید کی ضمانت لی ہے اور مرید وہی ہوتا ہے جو آخری دم تک اپنے مرشد کے احکامات کا تابع فرمان ہو جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں کہ مرید لایرید ہوتا ہے یعنی اس کے تمام ارادے مرشد کے حکم کے تابع ہوتے ہیں- نیز یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ ضمانت آپ کے مریدین کے لیے ہے اور مرید وہی ہوگا جسے آپ خود اپنا مرید قرار دیں- کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے آپ فرما دیں کہ یہ ہمارا مرید ہی نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جھوٹا شخص میرا اُمتی نہیں ہے﴾-
﴿۴﴾ ﴿یہاں آپ نے مکروہ راستے کا ذکر کیا ہے حرام یا ممنوع راستے کا نہیں کیوں کہ آپ کے اوصاف میں یہ بات بھی مذکور ہوئی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی کرنے والے کی بڑی سخت پکڑ فرمانے والے بھی ہیں﴾-
﴿۵﴾ ﴿آپ اسے حسنِ اتفاق سمجھیں یا سیّدنا غوث الاعظم ﴿h﴾ کا نورِ بصیرت ، کہ آپ نے بے پردگی کو مغرب کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور آج سب سے زیادہ بے پردگی مغرب میں ہی ہو رہی ہے- آپ کا یہ فرمانا کہ میں مشرق میں بیٹھ کر بھی مغرب میں بیٹھے اپنے مرید کو بے پردہ نہیں ہونے دوں گا تو میری ناقص سمجھ بوجھ میں یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ اگر ہم مغرب والوں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بے حیائی اور بے پردگی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیّدنا غوث الاعظم ﴿h﴾ کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اور آپ سے اپنی قربت اور نسبت قائم کرنی ہوگی- اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کی تعلیمات کی سمجھ عطا فرمائے- ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾-