تبلیغِ اسلام اور صوفیائے کرام :
دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اہلِ تقویٰ حضرات کا ہی بنیادی کردار ہے جنہیں ہم صوفیائ و اَولیأ بھی کہتے ہیں- ہر دور میں مسلمانوں کے احوال سے واضح ہے کہ دینِ اسلام کی خدمت میں خلوص اور للہیت صرف انہیں ہی نصیب تھی اور ہے جو اپنے ظاہر و باطن کے تفرقہ یعنی منافقت سے پاک ہوں- صوفیائے کرام کے دل اور زبانیں ہر قسم کی فرقہ واریت سے پاک ہوتی ہیں- وہ لوگوں کو خدا کے قرب میں لے جاتے ہیں، وہ انسان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں، خود بھی اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں اور اپنے قرب میں رہنے والوں کو بھی اعلیٰ ظرفی کا سبق پڑھاتے ہیں -
دینِ اسلام کی خدمات میں برصغیر کی ہی مثال لیں کہ برِّصغیر پاک و ہِند پوری دُنیا کے اندر مذہبی طور پہ سب زیادہ متنوُّع ﴿Religiously most divers ﴾ مُلک تھا جہاں پر دُنیا کے بیشتر مذاہب آباد تھے- یہاں پر اِسلام کی تبلیغ کرنا اور اس معاشرے کو انتشار اور ٹوٹنے سے بچانا، یہ صوفیائ کا عظیم ترین کارنامہ ہے جس کی آپ کو مثال نہیں ملتی- آج ان خطوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمان نہ تو سارے سنٹرل ایشیائ سے ہجرت کرکے آئے ہیں، نہ ہی عرب سے ہجرت کرکے آئے ہیں یہ وہ مقامی قبائل ہیں جو صوفیائ کی اعلیٰ اخلاقیات، ان کی فکر و عمل اور ان کی رُوحانی تصرف اور وسعتِ قلبی کی اعلیٰ روایت سے مسلمان ہوئے ہیں -
ہند میں علوی اعوانوں کی عسکری و دینی خدمات :
اعوان تاریخی روایات اور شجرہ نسب کے مطابق علوی ہاشمی اور سادات کے نسبتی ہیں یعنی آپ کا شجرہ نسب منبع ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے- سلطان حامد رحمۃ اللہ علیہ مصنف ’’مناقب سلطانی‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسل پاک سے ہیں- جب سادات عظام نے مختلف مصیبتوں اور پریشانیوں کی وجہ سے وطن چھوڑا اور ایران اور ترکمانستان کے مختلف حصوں میں بود و باش اختیار کی، قبیلہ اعوان چونکہ سادات کرام کا قریبی اورنسبتی تھا، اس لئے اس مصیبت اور کٹھن دور میں سادات کے رفیق و معاون بنے اس وجہ سے اس کی نسبت اعوان میں تبدیل ہو گئی- عربی میں مدد کو ’’عون‘‘ کہتے ہیں یعنی سادات بنی فاطمہ کی مدد کرنے والے، علویت اور ہاشمیت کا لقب بدل کر اعوان بن گئے-
اعوان انہی علاقوں سے ہوتے ہوئے افغانستان پھر برصغیر پاک و ہند میں کوہ پکھڑ، وادی سون سکیسر، کوہ پتائو، کون کھون، کالا باغ کے علاقوں میں آباد ہو گئے- حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے آبائو اجداد وادیٔ سون سکیسر کے شہر’’ اَنگہ ‘‘میں آباد ہوئے- حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی مغل حکمران شاہجہان کے دور میں شورکوٹ کے قلعہ دار بنے اور یہاں آباد ہو گئے- یہاں بھی اس خاندان نے مذہبی و روحانی خدمات اور اعلیٰ روایات کی مثالیں قائم کیں-
قبیلہ اعوان کے لوگ جرأت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے ہی، یہاں برصغیر میں افغانستان کے راستے سے آتے ہوئے بھی انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے- حضرت سلطان باھُو(رح) کے والد ماجد حضرت حافظ بازید محمد (رح) ایک صالح ، حافظ کاتب قرآن اور جید فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہادر سپاہی بھی تھے- صوبہ ملتان کے نواح میں راجہ مروٹ کے سر قلم کرنے کا واقعہ آج تک بڑے بڑے جنگجوؤں کو حیران کر دیتا ہے-
سلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو ﴿حالات و مقامات﴾ :
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہِ ولادت 1039ھ وصال مبارک 1102ھ (ولادت 1629ء وصالِ 1691ء) ہے- آپ کا شہرِ وِلادت شور کوٹ جو ضلع جھنگ کی ایک تحصیل ہے- آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا اَؤلیائے کاملین میں سے تھیں- آپ کی والدہ ماجدہ کو الہامی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ عنقریب آپ کے بطن سے ایک ولی ٔکامل پیدا ہوگا جو تمام روئے زمین کو اپنے انوارِ فیضان اور اسرار و عرفان سے بھر دے گا لہٰذا اُن کا نام ’’باھُو‘‘ رکھنا- چنانچہ مائی صاحبہ نے آپ کا نام ’’باھُو‘‘ ہی رکھا-
تاریخِ حضرت سُلطان باھُو کے اوّلین و مستند ترین تحقیقی و سوانحی مآخذ ’’مناقب سلطانی‘‘ کے مطابق حضرت سلطان باھُو سنِ بلوغت کو پہنچتے ہی آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ میں بوسیلہ مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچ چکے تھے جہاں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو دستِ بیعت فرما کر غوث الاعظم سیّدنا عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا- حضرت پیرِ دستگیر نے آپ کو سرفراز کرتے ہی مخلوق کو ارشاد و تلقین کا حکم جاری فرمایا-
آپ نے آنے والے ولی کامل کے بارے پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا:-
òچڑھ چناں تے کر رُشنائی تیرا ذکر کریندے تارے ھُو
ہم آنے والی سطور میں اُسی ’’چاند‘‘ کی ضوفشانی کا ذکر کریں گے جنہوں نے فیضِ اسم اللہ ذات کو عام فرمایا ، یعنی مہتابِ فقر ، بانیٔ ’’اِصلاحی جماعت‘‘ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ-
حضرت سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ :
سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی اور مرشد کامل شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ آٹھویں پشت میں حضرت سلطان باھُو کی اولاد میں سے ہیں- آپ ۹۰۹۱ئ میں پیدا ہوئے- آپ کی بھی دنیا میں آمد سے متعلق پہلے ہی سے پیشین گوئیاں کی جا رہی تھیں کیونکہ آپ کی ولادت سے قبل آپ کے والد محترم سلطان فتح محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی پھر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ کی خصوسی عنایت اور ایک منفرد بشارت کے ذریعے آپ کے والد کو آپ کی وِلادت کی خوشخبری دی گئی- آپ پیدائشی ولی اللہ تھے لیکن سنت کے مطابق سلوکِ طریقت کو سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیرِ نگرانی طے فرمایا-
آپ کا کلام ایسا کہ زبان مبارک پر اللہ اور اللہ کے رسول کے علاوہ کوئی گفتگو نہیں ہوتی تھی، سالکین کی آزمائش اس قدر سخت کہ ابتدائی دور میں اکثر فاقہ آ جاتا تھا- عاجزی و انکساری اس قدر کہ اپنے پیر و مرشد کے دربار کی بنیادیں خود رکھیں، ادب کا اس قدر خیال کہ حضور پیر صاحب کے دربار کی طرف تا عمر پاؤں نہیں کئے-
جب تحریکِ پاکستان چل رہی تھی اس وقت آپ کا جوانی کا عالم تھا اور آپ نے اس تحریک میں اپنا حِصّہ شامل فرمایا اور آپ کے مریدین بڑھ چڑھ کر حصولِ پاکستان کے حامی رہے - تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے تحریکِ پاکستان میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل بھی دیا جو کہ آپ کے خانوادے کے چشم و چراغ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے چیف منسٹر پنجاب اور آبروئے صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کے ہاتھوں وصول کیا-
ولادت سلطان الفقر:
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد پاک میں نویں پُشت مبارک میں سے ہیں- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت ۷۲ رمضان المبارک بوقتِ سحر دربارِ پُر انوار حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ضلع جھنگ میں ہوئی- آپ کی وِلادت با سعادت برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی نوید ہمراہ لائی اور تقسیمِ ہند کے نتیجہ میں مملکتِ خد ا داد پاکستان معرضِ وجود میں آئی- ابتدائی تعلیم کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت آپ کے حضور والد گرامی ٔ قدر، شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمائی اور مراحلِ علمی و روحانی میں خود اپنی نگرانی میں رکھّا-
یومِ آزادی و یومِ ولادت:
سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس سرہ، العزیز کی ولادت با سعادت بروز جمعۃ المبارک بمطابق ۷۲ رمضان المبارک ﴿ لیلۃ القدر﴾، بوقتِ سحر ہوئی اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی ہندوستان سے آزادی اور پاکستان کی تخلیق کا بھی یہ دن ہی پہلا دن تھا- اس وقت کے ذرائع کے مطابق یہ دن پندرہ اگست، ۷۴۹۱ئ کا تھا اور ابتدائ میں پاکستان کی سالگرہ بھی پندرہ اگست کو ہی منائی جاتی رہی جو کہ بعد میں تبدیل کر کے چودہ اگست کر دی گئی- اب چونکہ جشنِ آزادی چودہ اگست کو منائی جاتی ہے تو اسی مناسبت سے سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کی خوشی بھی چودہ اگست کو ہی منائی جاتی ہے-
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ولادت سلطان الفقر ششم اور مملکت خداداد کا ایک ہی دن ظہور پذیر ہونا حادثاتی طور پر نہیں بلکہ یہ حکمت و حقیقت کے ایک عظیم منصوبۂ خداوندی کے تحت عمل میں آئی-
ابتدائی حالات و روحانی تربیت:
شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چار فرزند ارجمند تھے- آپ نے بحیثیت والد و بحیثیت مرشد کامل چاروں فرزندان کو باطنی تعلیم و تلقین فرمائی اور رموزِ معرفت سے آشنا کیا لیکن سلطان محمد اصغر علی (رح) صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو قدرتی لگائو تھا اس لئے آپ نے سلطان الفقر ششم کو اپنے قربِ خاص میں رکھا البتہ آپ سکول میں بھی داخل رہے لیکن سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ’’چن اصغر‘‘ کو نگاہِ کاملہ سے علومِ باطنی سے مالا مال فرما دیا اور ۹۷۹۱ئ میں شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرشد پاک شہباز عارفاں حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ صاحب کی مزار اقدس پر سلطان الفقر ششم کو بیعت فرما کر خلافتِ الٰہیہ عطا فرمائی-
بیعت ہونے سے قبل اور بیعت ہونے کے بعد بھی سلطان الفقر ششم نے اپنے مرشد کریم کی ہر قسم کی خدمت کا کام سر انجام دیا حتیٰ کہ شہباز عارفاں سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک درویش کی ڈیوٹی لگائی تھی وہ صبح چا ر بجے تہجد نماز پڑھنے کے بعد چائے بنا کر خدمت عالیہ میں پیش کرتا- کچھ دن صحیح وقت پر چائے پیش نہ کر سکا توحضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کرکے چائے پکانے کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے لی اور مسلسل ۲۱ سال یہ ڈیوٹی ادا کی- ۳۱، اپریل ۱۸۹۱ئ کو شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے-
گھڑ سواری:
بچپن ہی سے اپنے حضور مرشد پاک کے حکم کے تحت گھڑ سواری، نیزہ بازی کو پسند فرماتے- اپنے حضور مرشد پاک ہی سے گھڑ سواری اور نیزہ بازی کی تربیت لی تھی- آپ عظیم مرتبے کے شاہ سوار تھے ملک بھر میں نیزہ بازی کے کھیل میں حصہ لیتے- آپ نے ایک بہت بڑا کلب ’’ محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب آف پاکستان ‘‘ کے نام سے بنایا جس کی سر پرستی تا حیات فرمائی- اِس طرح آپ نے اِس ثقافتی ورثہ کی حفاظت و پرورش کی- اِس شعبہ کے وہ لوگ جو عموماً مساجد اور محافل میں جا کر پیغامِ حق نہیں سُنتے آپ اِس کھیل کے بہانے اُن لوگوں کو اپنے قریب فرماتے اور اُن کی اصلاحی و دینی تربیّت فرماتے-
حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ترتیب ناچیز کبھی نہ سمجھ سکتا اگر اللہ تعالیٰ کا کرم نہ ہوتا اور ناچیز نے نو برس لگا کر ملک کی عظیم دینی درسگاہوں سے دورۂ حدیث و تفسیر نہ کیا ہوتا اور ملک کی معروف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرہ شناسی حاصل نہ کی ہوتی- کیونکہ جب ہم احادیث رسول ﴿w﴾ اور سیرتِ رسول ﴿w﴾ میں جھانکتے ہیں تو ایک مکمل باب ملتا ہے اِسی روایت اور ترتیب مبارک کی وضاحت میں کہ حضور نبی کریم ﴿w﴾ اکثر مکہ میں لگنے والے میلوں میں تشریف لیجاتے اور اچھے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دعوتِ ہدایت پیش فرماتے- وہ لوگ جو بیعتِ عقبیٰ اُولیٰ و ثانیہ میں حاضر ہوئے وہ بھی تو در اصل اِسی طرح کی تقریب میں شرکت کیلئے مدینہ سے مکہ آئے تھے- آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام باقاعدگی سے عرب کے ان ثقافتی میلوں میں تشریف لے جاتے اور دعوتِ اِسلام ارشاد فرماتے- حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت بھی اِسی ترتیب کیساتھ گھوڑوں سے متعلق ان تقریبات میں تشریف لیجاتے اور آج کئی بزرگ اور نوجوانوں کو میں جانتا ہوں جو دعوت الیٰ اللہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں اُن کی حضور بانیٔ اصلاحی جماعت سے محبت و نسبت کا بنیادی حوالہ نیزہ بازی کے میدان تھے- کئی ایسے لوگوں کو بھی ہم جانتے ہیں جن میں دینداری کا رُجحان حضور بانیٔ اصلاحی جماعت نے انہی ثقافتی میلوں میں پیدا فرمایا- اس سے ہم یہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ ثقافت کسی بھی طرح اصلاح اور مذہب کے راستے میں رُکاوٹ نہیں ہے بشرطیکہ بندہ داعی ﴿دعوت دینے والا﴾ اپنے باطن میں پختگی رکھتا ہو-
میں یہاں اِسی بات کی شہادت کے طور پہ ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا جو کہ حضور بانی اصلاحی جماعت کے نیزہ بازی کے دیرینہ ساتھی اور نفسیات کے پروفیسر ہیں اور خوشاب کے معروف سیاسی گھرانے سے اُن کا تعلُّق ہے جناب ملک اکبر حیات اعوان صاحب ، انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیّت کے اِس پہلو پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ نیزہ بازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ چونکہ وہ ولی کامل تھے اور ہم جیسے لوگ جو بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو راہ پہ لانے کے لئے کسی نہ کسی طریقے کوبہانہ بنا کر اُن کو اپنے نزدیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ عام میلوں میں یا شکاروں میں، مَیں شکار میں بھی حضو ر کے ساتھ رہا ہوں، نیزہ بازی میں بھی میں ساتھ ہوا کرتا تھا تو سب سے بڑی اس کی جو ضرورت تھی وہ تو یہ تھی کہ وہ لوگ جن کا رُجحان ادھر نہیں ہوا کرتا تھا اُن کو اپنے قریب لانے کا ایک ذریعہ تھا- میلوں میں یا شکاروں میں ہم جیسے دنیا دار قسم کے آدمی جو ہوتے ہیں اُن کو اپنے نزدیک کر لے لیا کرتے تھے اور پھر یقینا ہمیں اس کا فائدہ بھی ہوا کرتا تھا ‘‘- ﴿مرأۃ العارفین انٹرنیشنل اکتوبر ۵۱۰۲ئ﴾
اِس لئے یہ صحیح کہا جاتا ہے کہ ’’ ولی اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘-
اصلاحی جماعت کی تشکیل :
ربع صدی قبل بانیٔ ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ سُلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب تفکر کے لئے خلوت گزین ہوئے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تفکر پاکستان کی مسلم معاشرت کی اِصلاح پہ کس قدر دور رَس نتائج مرتب کرے گا- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و متوسلین کو مدعو کیا- ۷۸۹۱ئ میں ’’انجمن غوثیہ عزیزیہ حق باھُو سلطان پاکستان و عالم اسلام ‘‘ کی تنظیم سازی فرمائی اور بعد ازاں ’’اصلاحی جماعت‘‘ تشکیل دی -
آپ جماعت پاک کے مستقبل کے حوالے سے اکثر یہی فرماتے تھے کہ یہ کام ہم نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ روضہ پاک والوں ﴿یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم﴾ کی مرضی سے شروع کیا ہے وہی اس کے نگہبان ہیں ہم تو صرف اُن کی غُلامی کر رہے ہیں- آپ اکثر یہ واقعہ بھی بیان فرماتے تھے کہ مجھے ’’اصلاحی جماعت‘‘ چلانے کا حکم اور اِس کی ساری ترتیب خود حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمائی ہے- آپ جماعت کا ہر فیصلہ روضہ پاک اور محل شریف والوں کی رضا اور حکم سے ہی فرماتے تھے-
اصلاحی جماعت کے صدور صاحبان جن میں اکثریت نوجوانان کی تھی، ان کی خاص خطوط پر تربیت فرمائی جس سے یہ ایک منفرد جماعت کی حیثیت سے ملک بھر میں متعارف ہوئی ان میں چند خاص باتیں یہ ہیں:-
٭ یہ ملک بھر میں پہلی جماعت ہے جو اولیائ کاملین کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی روشنی میں عام کرتی ہے-
٭ اس جماعت کو کامل توکل اور یقین محکم کی بنیاد پر چلایا گیا-
٭ ذکر کے ساتھ اسم اللہ ذات کے تصور کی تعلیم و تربیت کی گئی-
٭ قرآن کریم اور حضرت سلطان العارفین کی تصانیف لطیف سے باقاعدہ درس کا آغاز کیا گیا-
٭ ایثار کا جذبہ ؛اس جماعت میں ایثار کا جذبہ اس قدر بھر دیا گیا تھا کہ یک جسم دو قالب والی بات ثابت نظر آتی یعنی پوری جماعت کے لوگ چاہے کسی بھی علاقہ رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ان میں تفریق ختم کر دی گئی تھی-
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پرانی خانقاہی روایت کو ناپسند فرمایا کہ ہر کس و ناقص کو خرقۂ خلافت پہنا دیا جائے- اِس کی بجائے آپ نے فیضِ اسمِ اعظم کو عام فرمانے کے لئے ادارے قائم فرمائے- آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں حضرت سُلطان العارفین کے خانوادہ کے چند افراد کو خلافت عطا فرمائی، جبکہ خانوادہ سے باہر صرف ایک ہی شخصیّت کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا جن کا نام میاں محمد ضیا الدین ہے- میاں صاحب کے علاوہ آپ نے کسی کو بیعت کرنے یا ذکر اذکار دینے کی اجازت نہ فرمائی-
’’ عالمی تنظیم العارفین ‘‘ کا قیام اور کشمیریوں سے محبت:
تیرہ سال تک ’’اصلاحی جماعت ‘‘ نے اصلاحِ نفس و تزکیہ قلب کا کام سرانجام دینے کے بعد بیسویں صدی کے آخری عشرے میں آپ نے دُشمنانِ اسلام کی بڑھتی تہذیبی یلغار کو روکنے اور اور تختہ مشق بننے والے مسلمانوں کی امداد کے لئے اسی جماعت پاک کی ایک شاخ ’’عالمی تنظیم العارفین ‘‘کی بنیاد ۶۲، دسمبر، ۹۹۹۱ئ بمطابق ، ۷۱، رمضان المبارک، ۰۲۴۱ھ کو رکھی- بالخصوص آپ رحمۃ اللہ علیہ کشمیر میں موجود مسلمان نوجوانوں، بچوں بوڑھوں، مائوں بہنوں اور بیٹیوں پر بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم پر ہمیشہ غمگین رہتے تھے اور اُن کی ہر طرح کی مدد و معاونت کی تلقین فرماتے-
العارفین پبلی کیشنز:
۰۰۰۲ئ میں آپ نے ’’العارفین پبلی کیشنز ‘‘ کی بنیاد رکھی جو دراصل ’’انجمن غوثیہ عزیزیہ حضرت حق باھُو سلطان پاکستان و عالم اسلام‘‘ کے شعبہ نشر و اشاعت کی ارتقائی شکل ہے- اس کے تحت ’’العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن‘‘، ’’العارفین انٹرنیشنل ریسرچ کونسل‘‘، ’’العارفین انٹرنیشنل ریسرچ لائبریری‘‘ جیسے ذیلی ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں- اس نشریاتی ادارے کے تحت حضرت سلطان باھُو اور دیگر اولیائ کاملین کی فارسی اور عربی کتب کے تراجم، اصلاحی نصابی کتب، پمفلٹس مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکے ہیں- حضرت سلطان باہو(رح) کی تعلیمات کو انتہائی آسان اور عوامی زبان میں منتقل کرکے عوام الناس تک اس کی صحیح روح کے ساتھ پہنچانا آپ رحمۃ اللہ علیہ کا زندہ و جاوید کارنامہ ہے- آپ خود ان تعلیمات کی عملی تصویر تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس راہِ ہدایت کا مسافر بنایا-
رسالہ ماہنامہ مراۃ العارفین :
سن دو ہزار ﴿۰۰۰۲ئ﴾ میں ہی آپ نے ماہانہ رسالہ ’’مرأۃ العارفین انٹرنیشنل‘‘ کا اجرائ فرمایا- اللہ تعالیٰ کے کرم اور رسولِ پاک کے سایۂ رحمت کی بدولت آج یہ رسالہ ﴿الحمد للہ تعالیٰ﴾ پاکستان کے تمام دینی رسالوں میں سب زیادہ تعداد کا حامل ہے- اِسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا مؤذّن ، اتحادِ اُمتِ مسلمہ کی سعیٔ جلیلہ کا ترجمان ، پاکستان کی نظریاتی و رُحانی اَساس کا محافظ ، نفاذِ نظامِ اِسلامی کے لئے کوشاں ، فقر و تصوف اور باھُو شناسی کے نئے زاویوں اورجدید تحقیقی معیار کا حامل ہونے کے باعث ہر خاص و عام میں اس میگزین کو سراہا جارہا ہے یہ اس کی ابتدائے منزل ہے-
دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو:
۲۹۹۱ئ میںآپ نے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر مُرَوّجہ دینی تعلیم کی اشاعت و تبلیغ کے لیے’ ’دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو سلطان‘‘ کا افتتاح کیا- آج یہاں حفظ اور تدریس کے متعدد اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں- اس مدرسے سے کثیر تعداد میں حفاظِ کرام اور علمائِ عظام فارغ التحصیل ہو کر تدریسی ، قانونی اور دعوتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں- ملک کے دیگر شہروں میں بھی اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اس مدرسہ کی ذیلی شاخیں قرآن و حدیث اور معقولات و منقولات کی تدریس کر رہے ہیں -
محنت مسلسل اور نوجوانوں کی تربیت:
بہت کم ایسے اللہ والے دنیا میں آئے جنہوںنے اپنی ’’نگاہ‘‘سے عام لوگوں کی تربیت کی اور ان کے دلوں پر اللہ کا ابدی و ازلی نقش ثبت کیا- حضرت سلطان محمد اصغرعلی (رح) کا شمار ایسی برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے راہ گم کردہ انسانوں کے دل مسخر کئے، انہیں راہِ راست دکھائی- آپ نے روایتی پیروں کی طرح صرف پیری مریدی کو اپنا شغل نہیں بنایا بلکہ علم و حکمت کے ایسے عملی مظاہر کئے جنہیں دیکھ کر انسانی عقل حیرت زدہ ہو جائے-
پابندیٔ شریعت کی تلقین:
آپ کو جتنی بھی تکلیف ہوتی آپ نماز باجماعت ادا فرماتے تھے- ساتھیوں کے ساتھ گفتگو فرماتے تو اپنی بیماری کو ظاہر نہیں کرتے تھے- حالانکہ ایک مریض کو کوئی تکلیف ہو تو وہ پریشان رہتا ہے آپ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی- آپ کی تہجّد اور باجماعت نماز کی پختہ عادت مبارک تھی، چاہے آپ سفر میں ہیں ، چاہے آپ ہاسپٹل میں ہیں، میرا جتنا بھی سفر آپ کے ساتھ رہا- شکار گاہ میں بھی آپ کے دو چار روز گذرتے وہاں بھی آپ باجماعت نماز ادا فرماتے تھے- جو لوگ آپ کو دیکھتے تو متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکتے کہ آج تک ہم نے کوئی ایسا شکاری نہیں دیکھا، شکاری آتے ہیں شکار کرکے چلے جاتے ہیں لیکن کسی کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تو باجماعت نماز اور شرعی طریقے سے شکار کیا جاتا ہے- آپ نے ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے اراکین پر بھی شریعت مطہرہ پر پابندی کو بنیاد قرار دیا- ایک با عمل صوفی کی زندگی کے عملی تقاضوں کی پرکھ کے لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ بہترین کسوٹی ہے-
اخلاقِ عالیّہ :
آپ رحمۃ اللہ علیہ سے جو بھی ملنے کے لیے آتا آپ اس سے بڑے پیار سے ملتے، اسے پورا ٹائم دیتے تھے- رات بارہ ، ایک بجے تک ملاقات کی یہ عام روٹین تھی- ایک بجے تک آپ لازمی بیدار رہتے چاہے محل پاک میں آپ کا قیام ہو چاہے کہیں اور کیونکہ جماعت پاک کے ساتھی، مریدین اور ملاقات کرنے والے آپ سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے، ان سے گفتگو کرنے اور ان کی حاجات سننے کے بعد ہی آپ آرام فرماتے تھے- آپ ڈیرہ پر آنے والے ہر مہمان سے معانقہ و مصافحہ کرتے ڈیرہ پاک پر موجود ساتھیوں کا بھی حال احوال ایسے پوچھتے کہ جیسے انہیں ملے ایک عرصہ بیت گیا ہو-
محبتِ قرآن:
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ کے درسِ قرآن کی منظر کشی کچھ یوں ارشاد فرمائی ہے:
’’آپ اکثر درس میں ، گھر میں بھی آپ ’’نور العرفان‘‘ کا درس دیتے تھے ، مریدین کو بھی آپ ’’نور العرفان‘‘ کا درس دیتے تھے- بلکہ ایک اور بھی آپ کی ترتیب مبارک تھی کہ آپ قرآن کریم جو قاری غلام رسول صاحب ﴿ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے﴾ نے جو تلاوت کی ہے اور ان کے ساتھ وجیہہ السیما عرفانی صاحب کا ترجمہ آپ سنتے تھے اور آپ کے ساتھ مختلف علمائ ہوتے تھے، سلطان معظم علی صاحب، حاجی محمد نواز صاحب، مفتی صالح محمد صاحب، مفتی اشفاق احمد صاحب، تو قرآن پاک کی آیات کا جب وہ ترجمہ ہوتا پھر سٹاپ کی جاتیں پھر یہ علمائ اس کی تشریح کرتے تھے تو یہ پوری پوری رات اس نشست میں گذر جاتی تھیں اور قرآن پاک کے اوپر گفتگو ہوتی تھی، جو حضور کے فقیر تھے ، آپ کی خدمت میں رہنے والے وہاں بیٹھے دیکھتے تھے اسے ، سنتے تھے، سوالات کرتے تھے اور آپ قرآن پاک کے اَسرار و رموز جو اس کے باطنی حوالے سے خاص کر ہیں اس کی شرح فرماتے تھے- ‘‘
علمائے کرام سے محبت:
آپ رحمۃ اللہ علیہ اہل علم کی بے پناہ عزت فرماتے تھے علمائ کرام سے ملاقات اور دعوت کے لئے خود تشریف لے جاتے تھے- ہر سال پورے ملک میں ایک مخصوص دورہ فرماتے اور ہر ضلع میں ضلعی سطح پر ایک عظیم الشان میلاد مصطفےٰ کا انعقاد بھی فرماتے تھے- پاکستان کے نامور اور جیّد علمائ کرام کو پیار سے دعوت دیتے تھے اُن کی تقاریر انتہائی ذوق سے سماعت فرماتے پیار بھرے لہجے میں ان کو داد دیتے تھے- بڑی عزت و احترام کے ساتھ تنظیم اور جماعت کے بارے میں علمائ کرام اور مشائخ عظام سے مشاورت بھی فرماتے تھے- ہر سال ۲۱،۳۱ اپریل کو ایک عظیم الشان میلاد مصطفےٰ ﴿w﴾ کا انعقاد فرماتے، ملک بھر سے نامور علمائے کرام اور مشائخِ عظام کو خود دعوت دے کر محفل میں شریک فرماتے بہت سے علمائے کرام کو تلقین و ارشاد فرماتے اور طلب کرنے پر انہیں ’’اسم اعظم‘‘ بھی عطا فرماتے-