"مسئلہ کشمیر پر قا ئد اعظم کا وژن اور موجودہ صورتحال" کے عنوان پر مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ایک گول میز مباحثے کا انعقاد کیا جس میں نامور دانشوروں اور سیاسی قائدین نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا-کنو ینر تحریک حریت جموں و کشمیر پاکستان چیپٹر جناب غلام محمد صفی، سابق سفارت کار اور مشہور کالم نگار جناب آصف ایزدی ،نامور کالم نگار محترمہ عائشہ مسعود ملک اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب طاہر محمود اور دیگر صاحبان نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے -
قائد اعظم اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے انہوں نے کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ چنگل سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کی- قائداعظم کی کشمیر اور کشمیری لوگوں کے ساتھ وابستگی اور حمایت میں بال برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا کشمیر کے حوالے سے قائد کا موقف ایک اٹل حقیقت ہے- قائداعظم کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزم ہیں- انہوں نے اُس وقت کشمیر ی لوگوں کی حالت زار پر توجہ دی جب ان کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔ قائداعظم نے واضح الفاظ میں کشمیر پر بھارتی جارحیت کی مذمت کی- وہ اس مسئلہ کا پر امن حل چاہتے تھے لیکن کشمیر کو آزاد کراوانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ انہوں نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل ڈگلس گریسی کو جموں اور سرینگر میں فوجی دستے روانہ کرنے کا حکم دیا-
ڈاکٹرریاض علی شاہ کی ڈائری کے مطابق قائد نے زیارت میں اپنی شدید علالت کے دوران فرمایا کہ
"کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی قوم یا ملک اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ "
نہ صر ف پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر بلکہ گزشتہ اڑسٹھ سال سے کشمیر ی عوام کے سروںپر دشمن کی تلوار لٹکی ہوئی ہے -کشمیر کے حوالے سے قائد کی سنجیدہ دلچسپی اس با ت سے بھی عیاں ہوتی ہے جب آپ نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو 17 مئی 1947 ئ کو پاکستان کے نام کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فر مایا کہ
"پاکستان کے نام میں ﴿پ ﴾ برائے پنجاب ﴿الف﴾ برائے افغان ﴿ک﴾ برائے کشمیر ﴿س﴾ برائے سندھ ﴿تان﴾ بلوچستان کے آخری دو حرف سے اخذ کیا گیا ہے-"
آزادی ٔ پاکستان سے بیشتر بھی قائداعظم نے کشمیر کاز کی ہمیشہ حمایت کی - اُن کی بڑی تمنا تھی کہ کشمیری عوام سماجی و معاشی حقوق اور عدل و انصاف حاصل کر سکیں- کشمیر میں ڈوگرہ راج کے دوران کشمیری مسلمانوں خاص طور پر بے گناہ خواتین کو ظلم و بر بریت کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا گیا- 1926 ئ میں جب قائداعظم نے کشمیر کا دورہ کیا تو یہ بات آپ کے علم میں آئی کہ کشمیر ی مسلمانوں نے اُس وقت کے وائسرائے کو اپنا وفد بھیجا کہ وہ کشمیریوں کی مشکلات و تکالیف کا نوٹس لیں جب یہ وفد واپس آیا تو انھیں جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا اور اُن کی جائدادیں غصب کر لی گئیں- جب قائداعظم کشمیر سے واپس آئے تو لاہورمیںمسلم لیگ کاایک اجلاس بلایا گیا جس میں ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور مہاراجہ کو کشمیر میں مسلمانوںکے تعلیمی اور معاشی حقوق کی پاسداری کی طرف متوجہ کرایا گیا- قائداعظم کی طرح علامہ اقبال کی بھی یہی سوچ تھی کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو روکا جائے - اور علامہ اقبال نے بحیثیت صدر آل انڈین مسلم لیگ 1931 ئ میںاس بات کا اعلان کیا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو 14 اگست کو کشمیر ڈے کے طور پر منانا چاہیے-
قائد اعظم کے کشمیر کے تین دورے آپکی کشمیر اور اسکی سیاست میں گہری دلچسپی کا ثبوت ہیں- 1944ئ میں قائداعظم کے سری نگر کے دورے کے حوالے سے الیسٹرلیمب نے لکھا ہے " ایم اے جناح جواہر لال نہرو کے بر عکس اس وقت شاہی ریاستوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کے خلاف تھے کیونکہ آپ کے خیال میں ایسا کرنا بالکل غیر آئینی تھا -
قائداعظم نے کبھی ایسے معاملہ پر قدم نہ اٹھایاجو حقیقت کے منافی ہو-جب ایک لیڈر ایک طویل تجربے کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایسا فیصلہ نظریاتی طور پر بہت ٹھوس ہوتا ہے اور قائداعظم نے کچھ ایسا ہی مؤقف کشمیر کے حوالے سے اپنایا- جیسا کہ آپ نے قیام پاکستان کا عزم کیا پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہے اوربالآ خر کامیاب ہوئے - آپ کے بعد اب تک ہمیں مسئلہ کشمیر پر ایسی پر مصمم ارادے والی شخصیت نظر نہیں آتی-
بھارت جموں و کشمیر پر تسلط کیلئے بے تاب تھا۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی اساس ہے لیکن بھارتی ہندو رہنما اسکی نفی کرنا چاہتے تھے حتیٰ کہ انہوںنے قائداعظم کو بھی دو قومی نظریہ سے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن قائداعظم چٹان کی طرح اپنے نظریہ پہ ڈٹے رہے - چنانچہ بھارت نے دو قومی نظریہ کو ٹھیس پہنچانے کیلئے جموں و کشمیر پر زبر دستی قبضہ کر لیا تاکہ مسلم اکثریتی علاقے کو ہندو بھارت کے ساتھ شامل کر کے دو قومی نظریہ کو بے بنیاد ثابت کیا جا سکے ، حالانکہ وہاں کی مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی- کشمیری عوام دو قومی نظریہ کو صحیح معنوں میں سمجھتے تھے اور آج بھی اسکے ساتھ وابستہ ہیں- قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو متنبہ کیا کہ وہ آج کانگریس کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور آئیندہ اس پر پچھتائیں گے اور وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا - بھارت نے کشمیری عوام کا جینادوبھر کر دیا اور شیخ عبداللہ کو بھی اپنی "وفاداری" کا صلہ نہ ملا- کشمیر کے کئی قائدین کا یہ ماننا ہے کہ شیخ عبد اللہ کی ہوسِ اقتدار نے کشمیر کا معاملہ تلخ کروایا -
قائد اعظم ایک با اصول انسان تھے آپکی قیامِ پاکستان کے مقصد میں کامیابی کی بڑی وجہ پختہ یقین اور عمل پیہم تھا- قائد کے مؤقف سے انحراف استحکام پاکستان کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہو تا تو پاکستان مستقبل میں نازک ترین مسائل سے دو چار ہو سکتا ہے -
پاکستانی قیادت کو اپنے اس طویل ترین اور انصاف پہ مبنی مو قف کہ ’’کشمیریوں کو حق خودارادیت کا حق ملنا چاہیے‘‘ پہ ثابت قدم رہناچاہیے- کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کیے بغیر جنوبی ایشیائ میں خوشحالی اور امن قائم نہیں ہوسکتا - ہمارے پالیسی ساز وں اور رہنمائوں کو کشمیر کے حوالے سے قائد کے وژن پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔بھارت سے کسی قسم کے بھی ڈائیلاگ میں پاکستان کو ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو ترجیح دینی چاہیے- قائداعظم کی سیاسی بصیرت و اصولی مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہمیں ایک ٹھوس قومی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور آنے والی حکومتوں کو اس پر کار بند رہنا چاہیے موجودہ حکومت کو مضبوط مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور ہر فورم پر واشگاف الفاظ میں دو قومی نظریہ اور مسئلہ کشمیر کا دفاع کرنا چاہیے جیسا کہ قائد اعظم نے کیا -
بھارت کشمیر کی آزاد آئینی حیثیت کو ختم کر کے اسے دوسری ریاستوں کی طرح اکھنڈ بھارت میں ضم کرنا چاہتا ہے اور اس کے خصوصی درجے کو ختم کرنا چاہتا ہے- بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو آبادکاری میں اضافہ کرکے اسکی آبادیاتی اعدادو شمار کو اس طرح تبدیل کرنا چاہتا ہے کہ وہاں مسلمان اکثریت کا تناسب کم کیا جائے اسلیٔے پاکستان کو اس کُھلم کُھلی ناانصافی اور جارحیت پر آواز اُٹھانی چاہیے-
وقفہ سوال و جواب:-
معزز مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب ہوا ، مقررین نے سوالات کے تفصیلی جوابات دئے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے-
مسئلہ کشمیر ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے- یہ محض بھارتی ظلم و جبر کا مسئلہ بھی نہیں جو وہاں پہ کثرت سے ہو رہا ہے کیونکہ اگر بھارت وہاں ظلم و تشدد ختم بھی کردے تو بھی کشمیریوں کی آزادی کا سیاسی مسٔلہ جوں کا توں رہے گا - مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں ایک واضح قومی پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے اور کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کی جانی چاہئے تاکہ یہ ایک رہنما اصول بن جائے اور کوئی اسکی خلاف ورزی نہ کرسکے کیونکہ جو بھی بر سر اقتدارآتے ہیں وہ پرانی حکمت عملی کا پاس نہیں کرتے بلکہ نئی حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہی مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں ہوا ہے-
ہمیں بلا خوف و خطر کشمیری عوام کی جدوجہد کی بر ملا حمایت کرنی چاہیے-یہ خام خیالی کہ ہندو اور مسلمان دونوں اکٹھے ایک ساتھ رہتے رہے ہیں اور دو قومی نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں، حقیقت کے برعکس ہے اس لیٔے تاریخ کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی حماقت خطر ناک ہوسکتی ہے- جس کا خمیازہ ہم ماضی میں بھگت چکے ہیں اور یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم اس پر مشترکہ آواز اٹھائیں- حقیقت میں ایک خاص گروہ اسطرح کی غلط فہمیاں ہمارے ذہنوں میں ڈال رہا ہے جسکو غیر ملکی طاقتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور مالی امداد بھی ملتی ہے-پاکستان میں بیشتر NGOs غیر ملکی امداد اور ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں- وہ لوگ برطانوی راج کا دور نہیں بتاتے کہ کس طرح برطانیہ نے ہندؤوں کے ذہن مسلمانوں کو یہاں سے مستقلاً ختم کرنے کیلئے تیار کئے تھے - دو ہندوستان ہیں : ایک برطانوی سامراج کے آنے سے قبل اور ایک اُس کے بعد - پہلے والے میں اکٹھے رہنا کوئی مشکل نہ تھا لیکن دوسرے والے میں ناممکن بنا دیا گیا ، مودی اس ذہنیت کی زندہ مثال ہے -
بھارتی فوجیں مہاراجہ کے الحاقی دستاویز پر مشکوک دستخط سے پہلے ہی کشمیرمیں داخل ہوگئی تھیں بھارت کہتا ہے کہ معاہدہ الحاق26 اکتوبر کو طے پایا گیا اور بھارتی فوجیں ایک دن بعد حملہ آور ہوئی لیکن شواہد اسکے بالکل بر عکس ہیں تاہم مسئلہ کشمیر ان قانونی پیچیدگیوں سے آگے بڑھ چکا ہے اور حق خو د ارادیت کا مسئلہ آج کے دور میں زیادہ اہمیت رکھتاہے ۔ سیکورٹی کونسل کی قرار دادیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا جبکہ بھارت التوائی حربے استعمال کر رہا ہے تاکہ ان قراردادوں کو غیر مؤثر ثابت کر دیا جائے۔ حق خود ارادیت انہیں قراردادوں پہ منحصر ہے-اگر حق خود ارادیت کا حق ان قراردادوں میں موجودنہ بھی ہو تو کشمیری عوام یہ بنیادی حق رکھتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تمام لوگوں کو حق خود ارادیت حاصل ہے-
"مسئلہ کشمیر پر قا ئد اعظم کا وژن اور موجودہ صورتحال" کے عنوان پر مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ایک گول میز مباحثے کا انعقاد کیا جس میں نامور دانشوروں اور سیاسی قائدین نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا-کنو ینر تحریک حریت جموں و کشمیر پاکستان چیپٹر جناب غلام محمد صفی، سابق سفارت کار اور مشہور کالم نگار جناب آصف ایزدی ،نامور کالم نگار محترمہ عائشہ مسعود ملک اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب طاہر محمود اور دیگر صاحبان نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے-
قائد اعظم اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے انہوں نے کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ چنگل سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کی- قائداعظم کی کشمیر اور کشمیری لوگوں کے ساتھ وابستگی اور حمایت میں بال برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا کشمیر کے حوالے سے قائد کا موقف ایک اٹل حقیقت ہے- قائداعظم کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزم ہیں- انہوں نے اُس وقت کشمیر ی لوگوں کی حالت زار پر توجہ دی جب ان کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔ قائداعظم نے واضح الفاظ میں کشمیر پر بھارتی جارحیت کی مذمت کی- وہ اس مسئلہ کا پر امن حل چاہتے تھے لیکن کشمیر کو آزاد کراوانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ انہوں نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل ڈگلس گریسی کو جموں اور سرینگر میں فوجی دستے روانہ کرنے کا حکم دیا-
ڈاکٹرریاض علی شاہ کی ڈائری کے مطابق قائد نے زیارت میں اپنی شدید علالت کے دوران فرمایا کہ
"کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی قوم یا ملک اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ "
نہ صر ف پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر بلکہ گزشتہ اڑسٹھ سال سے کشمیر ی عوام کے سروںپر دشمن کی تلوار لٹکی ہوئی ہے -کشمیر کے حوالے سے قائد کی سنجیدہ دلچسپی اس با ت سے بھی عیاں ہوتی ہے جب آپ نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو 17 مئی 1947 ئ کو پاکستان کے نام کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فر مایا کہ
"پاکستان کے نام میں ﴿پ ﴾ برائے پنجاب ﴿الف﴾ برائے افغان ﴿ک﴾ برائے کشمیر ﴿س﴾ برائے سندھ ﴿تان﴾ بلوچستان کے آخری دو حرف سے اخذ کیا گیا ہے-"
آزادی ٔ پاکستان سے بیشتر بھی قائداعظم نے کشمیر کاز کی ہمیشہ حمایت کی - اُن کی بڑی تمنا تھی کہ کشمیری عوام سماجی و معاشی حقوق اور عدل و انصاف حاصل کر سکیں- کشمیر میں ڈوگرہ راج کے دوران کشمیری مسلمانوں خاص طور پر بے گناہ خواتین کو ظلم و بر بریت کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا گیا- 1926 ئ میں جب قائداعظم نے کشمیر کا دورہ کیا تو یہ بات آپ کے علم میں آئی کہ کشمیر ی مسلمانوں نے اُس وقت کے وائسرائے کو اپنا وفد بھیجا کہ وہ کشمیریوں کی مشکلات و تکالیف کا نوٹس لیں جب یہ وفد واپس آیا تو انھیں جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا اور اُن کی جائدادیں غصب کر لی گئیں- جب قائداعظم کشمیر سے واپس آئے تو لاہورمیںمسلم لیگ کاایک اجلاس بلایا گیا جس میں ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور مہاراجہ کو کشمیر میں مسلمانوںکے تعلیمی اور معاشی حقوق کی پاسداری کی طرف متوجہ کرایا گیا- قائداعظم کی طرح علامہ اقبال کی بھی یہی سوچ تھی کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو روکا جائے - اور علامہ اقبال نے بحیثیت صدر آل انڈین مسلم لیگ 1931 ئ میںاس بات کا اعلان کیا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو 14 اگست کو کشمیر ڈے کے طور پر منانا چاہیے-
قائد اعظم کے کشمیر کے تین دورے آپکی کشمیر اور اسکی سیاست میں گہری دلچسپی کا ثبوت ہیں- 1944ئ میں قائداعظم کے سری نگر کے دورے کے حوالے سے الیسٹرلیمب نے لکھا ہے " ایم اے جناح جواہر لال نہرو کے بر عکس اس وقت شاہی ریاستوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کے خلاف تھے کیونکہ آپ کے خیال میں ایسا کرنا بالکل غیر آئینی تھا -
قائداعظم نے کبھی ایسے معاملہ پر قدم نہ اٹھایاجو حقیقت کے منافی ہو-جب ایک لیڈر ایک طویل تجربے کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایسا فیصلہ نظریاتی طور پر بہت ٹھوس ہوتا ہے اور قائداعظم نے کچھ ایسا ہی مؤقف کشمیر کے حوالے سے اپنایا- جیسا کہ آپ نے قیام پاکستان کا عزم کیا پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہے اوربالآ خر کامیاب ہوئے - آپ کے بعد اب تک ہمیں مسئلہ کشمیر پر ایسی پر مصمم ارادے والی شخصیت نظر نہیں آتی-
بھارت جموں و کشمیر پر تسلط کیلئے بے تاب تھا۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی اساس ہے لیکن بھارتی ہندو رہنما اسکی نفی کرنا چاہتے تھے حتیٰ کہ انہوںنے قائداعظم کو بھی دو قومی نظریہ سے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن قائداعظم چٹان کی طرح اپنے نظریہ پہ ڈٹے رہے - چنانچہ بھارت نے دو قومی نظریہ کو ٹھیس پہنچانے کیلئے جموں و کشمیر پر زبر دستی قبضہ کر لیا تاکہ مسلم اکثریتی علاقے کو ہندو بھارت کے ساتھ شامل کر کے دو قومی نظریہ کو بے بنیاد ثابت کیا جا سکے ، حالانکہ وہاں کی مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی- کشمیری عوام دو قومی نظریہ کو صحیح معنوں میں سمجھتے تھے اور آج بھی اسکے ساتھ وابستہ ہیں- قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو متنبہ کیا کہ وہ آج کانگریس کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور آئیندہ اس پر پچھتائیں گے اور وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا - بھارت نے کشمیری عوام کا جینادوبھر کر دیا اور شیخ عبداللہ کو بھی اپنی "وفاداری" کا صلہ نہ ملا- کشمیر کے کئی قائدین کا یہ ماننا ہے کہ شیخ عبد اللہ کی ہوسِ اقتدار نے کشمیر کا معاملہ تلخ کروایا -
قائد اعظم ایک با اصول انسان تھے آپکی قیامِ پاکستان کے مقصد میں کامیابی کی بڑی وجہ پختہ یقین اور عمل پیہم تھا- قائد کے مؤقف سے انحراف استحکام پاکستان کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہو تا تو پاکستان مستقبل میں نازک ترین مسائل سے دو چار ہو سکتا ہے -
پاکستانی قیادت کو اپنے اس طویل ترین اور انصاف پہ مبنی مو قف کہ ’’کشمیریوں کو حق خودارادیت کا حق ملنا چاہیے‘‘ پہ ثابت قدم رہناچاہیے- کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کیے بغیر جنوبی ایشیائ میں خوشحالی اور امن قائم نہیں ہوسکتا - ہمارے پالیسی ساز وں اور رہنمائوں کو کشمیر کے حوالے سے قائد کے وژن پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔بھارت سے کسی قسم کے بھی ڈائیلاگ میں پاکستان کو ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو ترجیح دینی چاہیے- قائداعظم کی سیاسی بصیرت و اصولی مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر حاضر میں ہمیں ایک ٹھوس قومی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور آنے والی حکومتوں کو اس پر کار بند رہنا چاہیے موجودہ حکومت کو مضبوط مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور ہر فورم پر واشگاف الفاظ میں دو قومی نظریہ اور مسئلہ کشمیر کا دفاع کرنا چاہیے جیسا کہ قائد اعظم نے کیا -
بھارت کشمیر کی آزاد آئینی حیثیت کو ختم کر کے اسے دوسری ریاستوں کی طرح اکھنڈ بھارت میں ضم کرنا چاہتا ہے اور اس کے خصوصی درجے کو ختم کرنا چاہتا ہے- بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو آبادکاری میں اضافہ کرکے اسکی آبادیاتی اعدادو شمار کو اس طرح تبدیل کرنا چاہتا ہے کہ وہاں مسلمان اکثریت کا تناسب کم کیا جائے اسلیٔے پاکستان کو اس کُھلم کُھلی ناانصافی اور جارحیت پر آواز اُٹھانی چاہیے-
وقفہ سوال و جواب:-
معزز مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب ہوا ، مقررین نے سوالات کے تفصیلی جوابات دئے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے-
مسئلہ کشمیر ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے- یہ محض بھارتی ظلم و جبر کا مسئلہ بھی نہیں جو وہاں پہ کثرت سے ہو رہا ہے کیونکہ اگر بھارت وہاں ظلم و تشدد ختم بھی کردے تو بھی کشمیریوں کی آزادی کا سیاسی مسٔلہ جوں کا توں رہے گا - مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں ایک واضح قومی پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے اور کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کی جانی چاہئے تاکہ یہ ایک رہنما اصول بن جائے اور کوئی اسکی خلاف ورزی نہ کرسکے کیونکہ جو بھی بر سر اقتدارآتے ہیں وہ پرانی حکمت عملی کا پاس نہیں کرتے بلکہ نئی حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہی مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں ہوا ہے-
ہمیں بلا خوف و خطر کشمیری عوام کی جدوجہد کی بر ملا حمایت کرنی چاہیے-یہ خام خیالی کہ ہندو اور مسلمان دونوں اکٹھے ایک ساتھ رہتے رہے ہیں اور دو قومی نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں، حقیقت کے برعکس ہے اس لیٔے تاریخ کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی حماقت خطر ناک ہوسکتی ہے- جس کا خمیازہ ہم ماضی میں بھگت چکے ہیں اور یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم اس پر مشترکہ آواز اٹھائیں- حقیقت میں ایک خاص گروہ اسطرح کی غلط فہمیاں ہمارے ذہنوں میں ڈال رہا ہے جسکو غیر ملکی طاقتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور مالی امداد بھی ملتی ہے-پاکستان میں بیشتر NGOs غیر ملکی امداد اور ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں- وہ لوگ برطانوی راج کا دور نہیں بتاتے کہ کس طرح برطانیہ نے ہندؤوں کے ذہن مسلمانوں کو یہاں سے مستقلاً ختم کرنے کیلئے تیار کئے تھے - دو ہندوستان ہیں : ایک برطانوی سامراج کے آنے سے قبل اور ایک اُس کے بعد - پہلے والے میں اکٹھے رہنا کوئی مشکل نہ تھا لیکن دوسرے والے میں ناممکن بنا دیا گیا ، مودی اس ذہنیت کی زندہ مثال ہے -
بھارتی فوجیں مہاراجہ کے الحاقی دستاویز پر مشکوک دستخط سے پہلے ہی کشمیرمیں داخل ہوگئی تھیں بھارت کہتا ہے کہ معاہدہ الحاق26 اکتوبر کو طے پایا گیا اور بھارتی فوجیں ایک دن بعد حملہ آور ہوئی لیکن شواہد اسکے بالکل بر عکس ہیں تاہم مسئلہ کشمیر ان قانونی پیچیدگیوں سے آگے بڑھ چکا ہے اور حق خو د ارادیت کا مسئلہ آج کے دور میں زیادہ اہمیت رکھتاہے ۔ سیکورٹی کونسل کی قرار دادیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا جبکہ بھارت التوائی حربے استعمال کر رہا ہے تاکہ ان قراردادوں کو غیر مؤثر ثابت کر دیا جائے۔ حق خود ارادیت انہیں قراردادوں پہ منحصر ہے-اگر حق خود ارادیت کا حق ان قراردادوں میں موجودنہ بھی ہو تو کشمیری عوام یہ بنیادی حق رکھتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تمام لوگوں کو حق خود ارادیت حاصل ہے-