تحقیقی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام رائونڈ ٹیبل ڈسکشن بعنوان ’’مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت آرٹیکل 370ٗٗ اور بی جے پی کے عزائم " نیشنل لائبریری اسلام آباد میں منعقد ہوئی- چیف ایگزیٹو سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک اسٹڈیز جناب ایمبیسیڈر علی سرور نقوی نے پروگرام کی صدارت کی جبکہ جناب ایمبیسیڈر آصف ایزدی ، آزاد جموں و کشمیر کی وزیر برائے سماجی بہبود محترمہ فرزانہ یعقوب اور امن و پیس کے عالمی کارکن و امریکی صحافی ایڈورڈ جبروک نے بذریعہ وڈیولنک پروگرام میں گراں قدر خیالات ،احساسات ومشاہدات کا اظہار کیا- غیر ملکی وفود، یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلباء، مختلف تحقیقی ادارہ جات کے اسکالرز اور محققین، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے پروگرام میں شرکت کی-
اس موقع پر مقررین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
ریاست جموں و کشمیر سے متعلقہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370، 26جنوری 1950 میں تشکیل دیا گیا- اس کا بنیادی مسودہ مہاراجہ ہری سنگھ کے سابق دیوان گوپل سوامی آنگر نے تشکیل دیا دراصل یہ ایک چال تھی جسکا مقصد تھا کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط کو قبول کرلیں یہ آرٹیکل بھارت کی مرکزی حکومت کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرنے کا ہتھکنڈا تھا- بھارتی ایجنڈا بھارتی وزیر گلزار لال نندو کے بیان سے بھی عیاں ہوتا ہے جو اس نے 4دسمبر 1964ء کو لوک سبھا میں اپنے خطاب کی صورت میں کیا کہ ـ"بھارتی آئین کو کشمیر میں لا گو کرنے کا واحد راستہ آرٹیکل 370 ہے--- یہ ایک سرنگ ہے- یہی وہ سرنگ ہے جس کے ذریعے بے تحاشا ٹریفک گزر چکی ہے اور مزید بھی گزرے گی"- آرٹیکل 370 کے مطابق جموں کشمیر کا اپنا الگ آئین ہوگا اوربھارتی پارلیمنٹ کی طاقت صرف تین شعبہ جات یعنی دفاع، خارجہ امور اور مواصلات تک محدود رہے گی( جبکہ آرٹیکل 352ٗ اور 360جو بالترتیب قومی اور مالیاتی ایمرجنسی سے تعلق رکھتے ہیں ،کا اطلاق بھی کشمیر میں نہیں ہو سکتا ) - بھارتی لوگ مقبوضہ جموں وکشمیر کے نہ تو شہری بن سکتے ہیں اور نہ ہی جائیداد خرید سکتے ہیں حتیٰ کہ بھارتی صدر آرٹیکل 356، جسے وہ ہر ریاست میں لاگو کرسکتا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں نہیں کرسکتا جب تک مقبوضہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نہ چاہے - مقبوضہ کشمیر ریاست کسی جگہ پر کنٹونمینٹ بنانے یا دفاعی مقاصد کے حصول کیلئے زمین کی فراہمی سے انکار کرسکتی ہے-بھارتی سپریم کورٹ اپنے قوانین مقبوضہ کشمیر میں نافذ نہیں کرسکتی اورریاست میں بھارتی قومی علامات کی توہین جرم نہیں ہے-
دوسراقابل غور بنیادی نقطہ ہے کہ جب ریاست کی پہلی اسمبلی 31اکتوبر1951کو تشکیل دی گئی تو اس بات کا اختیار اسے حاصل نہیں تھا کہ وہ یونین کے ساتھ یکجا ہونے کا کوئی معاہدہ تشکیل دے سکے چنانچہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر کا آئین 17نومبر 1956 کو اختیار کیا گیا اور اسمبلی تحلیل ہوگئی اور یہی واحد راستہ تھاجو یونین کو Instrument of Accession سے بڑھ کر بے پناہ اختیارات دیتا تھا کہ اس کے اداروں کو ریاست میں تسلیم کیاجائے چنانچہ یہ واحد راستہ بھی اختتام کو پہنچا -نتیجہ یہ ہوا کہ یونین کے اختیارات میں بے تحاشا اضافہ اور اس کا استعمال اُس دن سے لیکر غیر آئینی ثابت ہوا-
بی جے پی کا ایجنڈا ہے کہ آرٹیکل 370کو تبدیل کیا جائے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں شامل کیا جائے- مقبوضہ ریاست 1947 میں کسی طور بھی بھارت کا حصہ نہیں بنی اور بھارت کا کشمیر کے ساتھ تعلق صرف آرٹیکل 370 کے ذریعے ہے جو بذاتِ خود سراسر غیر آئینی ہے- مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس امر کا ظہار کرتے ہوئے کہا ’’آرٹیکل 370 ہی مقبوضہ ریاست اور بھارت کے درمیان واحد تعلق ہے اور اس میں تبدیلی کے بارے میں کہنا نہ صرف مبالغہ آرائی ہے بلکہ غیر ذمہ دارنہ رویہ ہے‘‘-اگربی جے پی حکومت نئی دستور سازاسمبلی تشکیل دیتی ہے اور آئینی ترمیم اسمبلی کے سامنے رکھ دیتی ہے تو مقبوضہ ریاست کا بھارت کے ساتھ نام نہاد Instrumen of Accession پر بھی سوالیہ نشان آ جائے گا- اس طرح کرنے سے بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں تسلط کی آخری نام نہاد وجہ بھی کھودے گا- اگر کسی بھی طور اس طرح کی اسمبلی آئینی ترمیم اختیارکرتی ہے تو بھارت کا اگلا قدم مقبوضہ ریاست کی بھارت میں مکمل شمولیت کا حصول ہو گا جس کیلئے استصواب رائے کا انعقاد ہی واحد ذریعہ ہوگا کہ کشمیر ی عوام بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا کہ نہیں- مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ، جو بھارت کے حق میں ہے، اس نے بھی کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے یہ نئے حوالہ کے طور پر تاریخی فیصلہ ہے-
بھارتی بی جے پی حکومت کے یہ عزائم بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں کہ وہ مقبوضہ ریاست کی سماجی حیثیت تبدیل (demographic changes) کرنا چاہتی ہے اور مسلم اکثریت کے علاقوں کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے جیسا کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے جموں کے، ماسوائے چند اضلاع کے، اکثر علاقے مسلمان اکثریت سے اقلیت بن چکے ہیں- اس کے علاوہ وہ سابقہ بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں آباد کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے- چھے ماہ قبل بھارت میں موجود مغربی پاکستانی مہاجرین کو کشمیر میں مستقل سکونت دینے کی منصوبہ بندی بھی چل رہی تھی- یہ تمام محرکات ِ کشمیر کی ثقافتی وسماجی خدوخال کو تبدیل کرنے کیلئے ہیں-
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر سب سے پرانا مسئلہ ہے- اوّلاً یہ بھارت ہی تھا جو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے فورم پر لے کر گیا اور جہاں اس کے حوالے سے متعدد قرار دادیں منظور کی گئیں جن کے مطابق جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ شفاف اور غیر جانبدار استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا- کشمیر ایک علیحدگی کی تحریک یا محض دو ملکوں کا آپس کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک جمہوریت اور حقِّ خوداِرَادِیّت کی جدوجہد ہے جو عالمی طور پر جانا جانے والا بنیادی انسانی حق ہے- کشمیری عوام کا بے دریغ قتل کیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنا 'ووٹ کا حق' مانگتے ہیں- سات لاکھ بھارتی فوجیوں کی کشمیر میں موجو دگی کا کوئی جواز نہیں ہے یہ علاقہ فوجی اعتبار سے دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے- دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کو وہ عالمی توجہ نہیں ملی جو دوسرے عالمی تنازعات، جیسے جنوبی سوڈان اورمشرقی تیمور وغیرہ کو ملی - بین الاقوامی حمایت اس مسئلہ کے پرامن حل کے لئے انتہائی ضروری ہے جو تب ہی ممکن ہوگی