اس بارے دورائے ممکن ہی نہیں کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے- کیونکہ اس پہ ہندوستان نے ۷۴۹۱ئ کے آزادیٔ ہند ایکٹ کے خلاف غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے خلاف وہاں سات لاکھ باضابطہ فوج بٹھا رکھی ہے - مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان بنتے ہی اس کے ساتھ اپنی آبادی کے تناسب کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ’’سٹینڈ سٹل ‘‘ ایگریمنٹ کیا جس کے بعد قانونی طور پہ وہ اس بات کا مجاز نہ رہا کہ پھر ہندوستان سے ’’دستاویزِ الحاق‘‘ پہ دستخط کرتا - اور دستاویزِ الحاق بھی بذاتِ خود ایک متنازعہ اور جعلی دستاویز ہے کیونکہ اُس پہ مہاراجہ کے اصل دستخط ہی نہیں اور نہ ہی ’’برٹش امپیرئیل آرکائیو‘‘ کے کسی گوشہ میں اس کا ریکارڈ موجود ہے - جبکہ خود بھارتی قیادت اقوامِ عالم کے سامنے کئی بار ریفرنڈم کا وعدہ کرچکی ہے اور کشمیریوں کو حقِّ خود ارادیت دینے پہ رضا مند ی کی پابند خود کو بنا چکی ہے اِس لئے اِس بات کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ سات دہائیاں توپوں اور ٹینکوں کے زور پہ کشمیریوں کی آزادی کو دبا کر ظلم و جبر کا بازار گرم رکھے - جبکہ پاکستان کا مؤقف صحیح اور اصولی ہے کہ یہ کشمیریوں کی خواہش کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادیں کشمیریوں سے اِس بات کا عہد کرتی ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے ہوگا، اِس لئے کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہے - سچی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر روز اوّل سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سرفہرست رہا اور ہر پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھاتی رہی ہے- مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے بعد دنیا کی سپر پاور بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات پر زور دے رہی ہے اور اس درپیش مسئلے کو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے- ۹۲ جولائی کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن سے نہتے شہریوں کو اندھا کرنے پر امریکہ کو تشویش ہے- مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے- مسئلہ کشمیر پر جامع مذاکرات ہونے چاہئیں اور دونوں ممالک کو بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیے-مقبوضہ کشمیر میں جاری سخت محاصرے کے بعد ۷۱ جولائی کو حریت رہنما سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں قیامِ امن سے متعلق اپنا چار نکاتی امن فارمولا پیش کر دیا- انہوں نے عالمی اداروں اور سربراہانِ مملکت کے نام ایک طویل خط روانہ کیا جس میں اُنہوں نے کشمیر میں جاری حالیہ شورش کو ختم کرنے اور خطے میں پائیدار امن کی ضمانت کے لیے ۴ نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست جاری کی- سیّد علی گیلانی نے یہ مکتوب اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس جیسے ممالک کے سربراہان، سارک ممالک اور جنوب مشرقی ایشیائ کے ممالک کی تنظیم آسیان اور اسلامی ممالک تنظیم کے علاوہ پاکستان، ایران، سعودی عرب اور ترکی کے سربراہانِ مملکت کو ارسال کیا ہے- علی گیلانی نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر سے متعلق فوجی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں- چار نکاتی فارمولا کے نکات یہ ہیں:- ﴿۱﴾ جموں کشمیر کی متنازع حیثیت اوراس کے باشندوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا جائے- ﴿۲﴾ آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلائ، عوام کش فوجی قوانین کا خاتمہ- ﴿۳﴾ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، نظر بندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے ہوئے جملہ سیاسی مکاتب فکر خاص طور پر حقِ خود ارادیت کے حامی سیاسی رہنمائوں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی دی جائے- ﴿۴﴾ اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے نمائندوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے- یہ پہلا موقع ہے کہ اس قدر سنگین شورش کے دوران حریت پسندوں نے فہرستِ مطالبات جاری کی ہو- مبصرین کے مطابق وسیع پیمانے پر لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کے باوجود حریت پسندوں نے ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کر کے بھارت کو ایک سفارتی چیلنج دیا ہے-مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم نے خود بھارتی دانشوروں اور اہل الرائے کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے- ممتاز صحافی پنڈت پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں کہ:- ’’میرا خیال ہے کہ بھارتی فوجوں نے ریاستی باشندوں کی مرضی کے خلاف قبضہ جما رکھا ہے - یہ اقدام سراسر وحشیانہ چھینا جھپٹی ہے جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا- اس کا نتیجہ خطر ناک ثابت ہوگا- اگرچہ اس وقت مسلمان ہی بھارتی حکومت کے مظالم کا تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں مگر مستقبل میں بدقسمتی سے یہی صورت حال رہی تو ہندوئوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جو شاید مسلمانوں کی نسبت زیادہ تلخ ہو- لہٰذا میں پکا ہندو اور سچا کشمیری ہونے کی حیثیت سے یہ مطالبہ کروں گا کہ بھارتی فوجیں میرا پیارا وطن چھوڑ دیں-‘‘بھارت اس تلخ حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہا کہ یہ تحریک نوجوانوں کی ہے اور غیر معمولی جو مقبوضہ کشمیر میں مہلک ہتھیاروں سے لیس قابض بھارتی فوج کے سامنے سینہ سَپرہے- ہزاروں نوجوان بھارتی فوج کی غیر قانونی حراست میں شہید ہوچکے ہیں- ہزار ہا کو جسمانی طور پر اپاہج بنا دیا گیا ہے- اس جبر و قہر کے باوجود وہ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے سڑکوں پر اور گلیوں میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کا بے جگری سے سامنا کر رہے ہیں- برہان وانی کی نمازِ جنازہ میں تقریباً پانچ لاکھ کشمیریوں نے شرکت کی جن میں زیادہ تر کی عمریں تیس برس سے کم تھیں- یہ نوجوان دور دراز کا سفر طے کر کے وہاں پہنچے تھے- شہید کمانڈر کے آبائی قصبے ’’ترال‘‘ کی وسیع و عریض عید گاہ میں جگہ کم پڑ گئی- لہٰذا تمام شرکائ کو نماز ِجنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کا موقع دینے کی خاطر پچاس مرتبہ نماز جنازہ پڑھائی گئی- کشمیر کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ کسی کو نصیب نہیں ہوا- بھارتی فوج مظاہرین کے خلاف Pallet Guns استعمال کر رہی ہے- اس کا ایک کارتوس سیسے کے بنے انتہائی برق رفتار 600بال بیئرنگز پر مشتمل ہوتا ہے- انسانی چہرے پر لگیں تو آنکھیں پھوڑ کر بینائی سے مکمل یا جزوی طور پر محروم کر دیتے ہیں- اس ہتھیار سے اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں مظاہرے کے مقام کے آس پاس موجود لوگ بھی بری طرح مجروح ہو رہے ہیں حتیٰ کہ کم سن بچے بھی اس کی زد میں آرہے ہیں- ستم ظریفی کی انتہا دیکھیں کہ بھارتی حکومت اسے غیر مہلک ہتھیار تصور کرتی ہے- جن ہسپتالوں میں زخمیوں کا علاج معالجہ ہوتا ہے جو ایمبولینسیں انہیں ہسپتال پہنچاتی ہیں، بھارتی فوج انہیں بھی نہیں بخش رہی- خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دینے والے بھارت میں انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر امریکہ بہادر اور اس کے یورپی حواری مہربہ لب ہیں اور منافقت سے کام لے رہے ہیں- شاید اس لیے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے مظالم کا شکار یہ لوگ مسلمان ہیں- اگر یہ مظلوم مجبوراً ہتھیار اٹھا لیں تو امریکہ اور یورپ کی حکومتیں فوراً ان پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کر دیتی ہیں- انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عالمی برادری کا یہ دوہرا معیار ہی مسلمانوں میں انتہا پسندانہ رُجحانات کو فروغ دینے کا باعث بن رہا ہے- مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی درندگی کا سب سے بڑا سبب وہاں نافذ آرمڈ فورسز سپیشل پروٹیکشن ایکٹ (ASFPA) ہے جس کے تحت قابض فوجیوں کو سنگین جرائم کے حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے- یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیری مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو بے دھڑک اغوائ کر کے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اکثر اوقات انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں- کشمیری خواتین کی جبری آبرو ریزی آئے دن کا معمول بن چکی ہے اور اس جرم پر بھی ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی-سیکولر بھارت کی علمبردار کانگریس اور ہندو توا کی علمبردار بی جے پی کے نظریات باہم کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے اور یہ حق طلب کرنے والوں کو جبر و ستم کا نشانہ بنانے کے حوالے سے دونوں جماعتیں متحد ہیں- حکومتِ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر تمام عالمی فورمز کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے - چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا اور نے عالمی برادری کو باور کرایا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی امنگوں کا احترام کرے- اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے قانون ہلاکتوں کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرائے- برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی منصفانہ جدوجہد کو ایک نیا روپ عطا کر دیا ہے- وہاں ہونے والے مظاہروں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تواتر کے ساتھ لہرایا جا رہا ہے- ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور ’’ہر گھر سے برہان نکلے گا --- تم کتنے برہان مارو گے‘‘ کے نعرے زباں زدِ عام ہو چکے ہیں- بھارتی استبداد سے آزادی کی اس نئی لہر نے نریندرا مودی کی تشدد اور سفاکیت پر مبنی پالیسی کو ناکام ثابت کر دکھایا ہے- ہر پندرہ کشمیریوں پر ایک مسلح فوجی تعینات کر کے وہ سمجھتا تھا کہ کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو کچل دے گا مگر اس کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی ہے- کشمیری عوام کی بھارت اور اس کے کٹھ پتلی سیاستدانوں سے نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے- ان کی قربانیاں رنگ لا کر رہیں گی اور مقبوضہ وادی میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہو گا ﴿انشائ اللہ﴾- انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی رات طویل ضرور ہوتی ہے لیکن مستقل نہیں ہوتی- جس طرح کشمیری عوام نے ۴۱/ اگست کو پاکستان کے یومِ آزادی پہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے اور مقبوضہ وادی میں بہت بڑے بڑے فقید المثال جلوس نکالے ہیں شاید وہ جذبہ اور جوش خود پاکستانیوں میں بھی نہ آیا ہو اور اسی طرح اس کے ٹھیک اگلے دن یعنی ۵۱/ اگست کو بھارتی یومِ آزادی کو کشمیریوں نے یومِ سیاہ کے طور پہ منایا اور تاریخ رقم کر دی جس سے بھارتی حکومت اور انتظامیہ مکمل طور پہ بوکھلا گئی تحریک کے عروج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے حریت رہنماؤں کو نظر بند کر دیا - اُس دِن کا ایک اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی نام نہاد وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی جب بھارتی ترنگا پرچم لہرانے لگیں تو پرچم لہرانے کی بجائے زمین پہ گر گیا جس کی ویڈیو اور تصاویر آناً فاناً ’’وائرل‘‘ ہو گئیں اور جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پہ پھیل گئیں - ترنگے کا کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھ سے زمین پہ گرنا اِس بات کا روحانی اشارہ ہے کہ اب یہ غلیظ ترنگا زیادہ دیر تک پاک سر زمینِ کشمیر پہ نہیں لہرائے گا اور آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا - بھارتی گجرات کے مسلم کش فسادات میں ہزاروں بیگناہوں کے قاتل اور عالمی میڈیا میں دہشت گرد قرار پانے والے انتہا پسند بھارتی وزیرِ اعظم نریندر موذی نے اپنے یومِ آزادی پہ کشمیر کے جواب میں مسئلہ بلوچستان کو منسلک کرنے کی کوشش کی اور الزام لگایا کہ پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کے سبب ہم بلوچستان میں بلوچوں کی معاونت کریں گے - جسے تمام اصول پسند اور غیرت مند بلوچوں نے مسترد کیا اور موذی کو منہ توڑ جواب دیا کہ بلوچستان خود دار اور غیور لوگوں کی زمین ہے جس پہ کسی بھی بھارتی سازش کو بہر صورت ناکام کیا جائے گا ، اور بلوچستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ’’چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور‘‘ ﴿CPEC﴾ سے بلوچستان میں جو ترقی ہو رہی ہے بھارت کی اصل دشمنی اس ترقی سے ہے اور بھارت اپنے کلبھوشنوں کے ذریعے اس ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے - افواجِ پاکستان اور حکومت نے اس بیان کو پاکستان دشمنی قرار دیا ہے - بھارت کے چھوٹے بڑے اس بات سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ کشمیر کی ہندوستان سے آزادی اور پاکستان سے الحاق نوشتۂ دیوار ہے اسِ لئے انتہا پسند بھارتی رولنگ ایلیٹ تحریک آزادی کشمیر کے عروج سے لوگوں کی توجُّہ ہٹانے کی ہر کوشش کریں گے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ؟ کشمیر کا فیصلہ ہو چکا ، مودی جی کو باقی ماندہ بھارت بچانے پہ توجہ دینی چاہئے جو کہ وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے - بالخصوص خالصتان!