تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’نیشنل لائبریری آف پاکستان ‘‘اسلام آباد میں ’’کشمیر میں خونریزی عالمی توجہ کی طلب گار‘‘ کے عنوان سے بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد کشمیر میں حالیہ صورت حال کا جائزہ، کشمیری عوام کے نقطئہ نظر اور موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا اور اس مسئلہ کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانا تھا- سینیٹ کی ڈیفنس پروڈکشن کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ﴿ر﴾ سینیٹر عبد القیوم ملک نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ وقافی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان جناب محمد برجیس طاہر اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے- دیگر معزز مقررین میں سابقہ سفیر جناب مسعود خان، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جناب فیصل کریم کنڈی، سابق وزیرِ خارجہ ایمبیسیڈر جناب انعام الحق، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے پاکستان و آزاد جموں و کشمیر کے کنوینئیر جناب غلام محمد صفی اور سکول آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ پالیٹکس قائداعظم یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جناب ڈاکٹر نذیر حسین شامل تھے- ناروے کے سابقہ پارلیمنٹیرین جناب لارس رائز، کو ڈائریکٹر آئی اے سی، امریکہ محترمہ سارہ فلونڈرز اور معروف برطانوی مصنفہ محترمہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے ویڈیو لنک کے ذریعے سمینار سے خطاب کیا-
مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- سول سوسائٹی، سیاسی و سماجی شخصیات، پاکستان کے سابق سفرائ، غیر ملکی مبصرین، یونی ورسٹیز کے اساتذہ و طلبائ، وکلائ اور صحافیوں سمیت تما م شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے سیمینار میں شرکت کی- مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:-
افتتاحیہ کلمات:
صاحبزادہ سلطان احمد علی ﴿چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ﴾
مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے آج کے سیمینار میں شرکت کرنے والے تمام معزز مہمانوں کا شکر گزار ہوں- سیمینار کا موضوع خود اپنے مقصد کی وضاحت کرتا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے زائد عرصہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے درندگی اور ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال پیش کی ہے- اس صورتحال میں بطورِ پاکستانی، مسلمان اور ایک انسان ہونے کے ناطے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ مقبوضہ ریاست کے مظلوم انسانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا جائے جو اپنی آزادی اور اپنے حقِ خود ارادیت کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ دنیا کی توجہ اُن کے حالات و واقعات اور معاملات کی طرف مبذول کروائی جائے خاص طور پر نوجوان حریت رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اور اس شہادت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی لہر فقط اِس شہادت کا ردِ عمل نہیں ہے- اگرچہ اس نے شدت اسی شہادت کے بعد اختیار کی ہے لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ قریباً سات دہائیوں سے وہاں پہ سات لاکھ قابض بھارتی افواج کی موجودگی نے جو مظالم کشمیریوں پر ڈھائے ہیں، یہ عوامی تحریک اُس سب کا ردِ عمل ہے کہ لوگ آزادی کے لئے مضطرب اور بے قرار ہیں اور اپنی آواز اُٹھاتے ہیں لیکن بھارتی حکومت اس آواز کو دبانے کے لیے مسلسل کشمیریوں کو اذیت اور کوفت سے دوچار کر رہی ہے- ۱۲، جولائی کو نیویارک ٹائم نے اپنے ایڈیٹوریل میں اسی جدوجہدِ مسلسل کو یوں بیان کیا ہے:-"A major cause of the uprising is a resentment among kashmiri youths who have come of age under an Indian security apparatus that acts against civilians with impunity. Kashmir is subject to India's Armed Forces Special Power Act, which grants military wide powers to arrest, shoot to kill, occupy or destroy the property. The result is a culture of burtal disdain for the local population."
خصوصی کلمات:
جناب فیصل کریم کنڈی ﴿سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، مرکزی سیکریٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی ﴾
آج اس سیمینار میں ہم سب اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ نوجوان کشمیری برہان وانی کی شہادت اور اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں حالیہ احتجاجی لہر کے تسلسل میں شہید ہونے والے سینکڑوں لوگوں اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کو زیرِ بحث لایا جائے- کشمیر ی عوام آج تک اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق وعدہ کئے گئے اپنے بنیادی حق یعنی استصواب رائے سے محروم ہیں- مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ بھارتی ظلم و جبر نہیں دکھا رہے- پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ اگر ان کا مؤقف عالمی برادری تک نہیں پہنچ پا رہا تو اس کی کیا وجہ ہے- مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود کشمیر کمیٹی کو سرگرم اور موثر کر دار ادا کرنا پڑے گا جو کہ خاموش ہے - عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کو کشمیری عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے- آج کے اس سیمینار میںجو سفارشات پیش کی جائیں گی میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے یہ یقین دہانی کراتا ہوںکہ ان پر عمل کیا جائے گا-
کشمیر اور جغرافیائی سیاست کے ابھرتے منظر نامے پر عکسی بیانیہ:
ڈاکٹر نذیر حسین ﴿ایسوسی ایٹ پروفیسر انٹرنیشنل ریلشنز اینڈ پالیٹکس، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد﴾
9/11 کے وقوع پذیر ہونے کے بعد بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ دیکھا جائے تو بھارت خود ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے- برہان وانی ایک باشعور تعلیم یافتہ نوجوان کشمیری تھا جو بھارتی مظالم کو سطح عام پر لانے اور بے نقاب کرنے میں پیش پیش تھا- کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو طاقت کے زور سے کچلا نہیں جا سکتا اور کشمیری نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جذبۂ آزادی کو کسی صورت بھی شکست نہیں دی جاسکتی- کشمیری عوام پاکستان اور عالمی برادری کی طرف حمایت کے لئے دیکھ رہے ہیں- پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دوٹوک پالیسی ہونی چاہیے-
کشمیر، کراچی اور کابل کی تکونی صورتحال خطے میں ایک نئی جغرافیائی سیاسی حقیقت ہے جس میں بھارت پاکستان کو الجھانا چاہتا ہے- اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ نازک صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لئے لائن آف کنٹرول پر پھر سے چھیڑ چھاڑ کرے-
مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال کا عمومی جائزہ :
جناب غلام محمد صفی ﴿کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان﴾
مقبوضہ کشمیر کے حالات کو ایک یورپی وفد نے ’جموں وکشمیر ایک خوبصورت قید خانہ‘ ﴿Jammu & Kashmir, A beautiful prison﴾کے طور پر بیان کیا ہے- یہ ایک جنت ہے جسے بھارتی قابض افواج نے فی الواقع ایک جہنم بنا کر رکھ دیا ہے- کشمیر کی صورتحال ہمیشہ سے ہی نازک رہی ہے لیکن عوام نے ہمیشہ قابض افواج کی مزاحمت کی، کر رہے ہیں اور ہر ذریعہ کو بروئے کار لاتے ہوئے قابض افواج کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے- بھارت کی کشمیر سے متعلق پالیسی اس بات سے عیاں ہے کہ ایک کشمیری افضل گرو کے خلاف مقدمہ ہوا اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی لیکن اعلیٰ عدالت کے جج نے جو فیصلہ سنایا اس کے الفاط یہ ہیں:- ’’اس کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن بھارت کی اجتماعی سوچ کو مطمئن کرنے کے لئے اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے‘‘-جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور لوگ ابھی تک اس بات کے منتظر ہیں کہ وہاں اقوامِ متحدہ کے تحت استصواب رائے ہو نہ کہ بھارتی الیکشن کمیشن کے تحت- بھارتی الیکشن کمیشن جموں و کشمیر میں ڈھونگ انتخابات منعقد کر رہا ہے جو کسی بھی صورت عوامی استصوابِ رائے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا-مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلافی ورزیاں اور عالمی برادری کی ذمہ داریاں: محترمہ سارہ فلو نڈرز﴿ کو ڈائریکٹر، انٹرنیشنل ایکشن سنٹر، امریکہ﴾مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی اور برطانوی سامراج کا کردار قابلِ مذمت ہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے- یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر میں تین نسلیں گزر چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا- امریکی اور بر طانوی سامراج کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں فر قہ وارانہ تقسیم، قومی اور مذہبی تنازعات کو فروغ دیتے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں- ایسا ہی کردار انہوں نے فلسطین میں ادا کیا جب فلسطینیوں کے حقوق غصب کر کے اسرائیل کی بنیاد رکھی - امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کا ڈرامہ رچایا- دوسری طرف انہوں نے بھارتی افواج کی پشت پناہی کی اور بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں- اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت کشمیر میں استصواب رائے کروانے کا ذمہ دار ہے لیکن بھارت کو امریکی حمایت نے اس معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے اس لئے یہ عالمی برادری کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں اتفاق و یگانگت لانے کے لیے اپنی کاوشیں تیز کریں اور عالمی میڈیا کے ذریعے اس مسئلہ کو نہ صرف دوبارہ سے اُجاگر کیا جائے بلکہ اس کو حل کروانے کے لیے بھی کاوش کی جائے-خصوصی کلمات:محترمہ وکٹوریہ شو فیلڈ﴿معروف برطانوی مصنفہ ﴿ Including Books “Kashmir in Conflict” & “Kashmir in Crossfire”﴾جب سے مَیں نے وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا ہے، مسئلہ کشمیر میرے دل میں سرایت کیے ہوئے ہے- مسئلہ کشمیر پہ میری پہلی کتاب 'کشمیر ان کراس فائر' تھی اور اُس وقت کشمیر واقعتا ’کراس فائر‘ میں تھا - مَیں نے ۳۰۰۲ئ میں لکھا تھا کہ کشمیر اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک صورتحال میں ہے اس کی وجہ بذاتِ خود یہ مسئلہ نہیں بلکہ دونوں فریقین پاکستان اور بھارت کی اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکامی ہے- ۰۱۰۲ئ میں اپنی کتاب میں مزید لکھاتھا کہ کشمیر میں ظلم و خون ریزی کی لہر دوبارہ سے اُٹھ سکتی ہے اور گذشتہ چند ہفتوں میں ظلم و بربریت انتہا کو پہنچ چکی ہے او رہم تباہی کے دہانے کھڑے انگشت بدنداں ہیں- عسکری قوت کا بے جا استعمال اور چھرے پھینکنے والی بندوقوں ﴿Pellet Guns﴾ کا اندھا دھند اور ظالمانہ استعمال جموں و کشمیر کے باسیوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہے- گزشتہ تیس سالوں میں اس تنازعہ میں ہونے والا انسانی جانوں کا نقصان لاتعداد ہے جبکہ ایک انسانی جان کا نقصان بھی ناقابلِ تلافی ہے- ان تمام واقعات کے باوجود مَیں ابھی تک پُر امید ہوں کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور انسانیت کی فلاح کے لیے ضرور حل ہوگا مگر اس کے لئے کشمیریوں کو ابھی مزید جد و جہد کرنی ہوگی -مسئلہ کشمیر کا تصفیہ اور عالمی برادری پر عائد ذمہ داریاں: ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ جناب مسعود خان ﴿ڈی جی ، انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز ، اسلام آباد ، سابق پاکستانی سفیر برائے UNO ﴾عالمی سطح پہ پاکستان کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے کا ہر حق رکھتا ہے کیونکہ پاکستان اس مسئلہ کا فریق ہے - برہان وانی نے اپنے دفاع کے لئے بندوق اٹھائی جو اس کا بنیادی حق تھا- عالمی برادری کا منافقانہ رویہ قابلِ مذمت ہے کہ شام میں جو حکمتِ عملی قابلِ عمل ہے وہ کشمیر میں ناجائز قرار پاتی ہے- علاقائی اور عالمی قوتیں شام میں باغیوں کو مالی مدد اور ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے اسد حکومت کے خلاف لڑا رہی ہیں- اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شام میں ما لی اور عسکری مدد ان کے لئے جائز ہے جبکہ کشمیر میںبھارتی قابض افواج کے مظالم کے خلاف مزاحمت کے لئے عوام کی مدد کرنا نا جائز ہے - ہمیں بھارت پہ دبائو ڈالنا چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات موجود ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے اس کے ساتھ بہت معاہدے بھی ہوئے ہیں جن کی رو سے ہم اس سے بات کر سکتے ہیں- اس لیے ہمیں بے خوف و خطر کہنا چاہیے کہ وہ کشمیر میں قتل و غارت گری ختم کرے، عوامی اجتماعات پر پابندی ختم کرے ، پیلٹ گن اور اس طرح کے دیگر غیر جان لیوا لیکن مہلک ہتھیاروں کا استعمال ترک کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور مقبوضہ ریاست میں فوج کی تعداد میں کمی کرے- حریت رہنماؤں کی چار نکاتی تجاویز پر بات کرنی چاہئے اور بھارت یہ تسلیم کرے کہ جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے-خصوصی کلمات:جناب لارس رائز﴿ سابق ممبر پارلیمنٹ، ناروے﴾بھارتی فوج کشمیر میں ایمبولینسوں پر بھی حملہ آور ہوتی ہے جبکہ سیلولر، لینڈ لائن اور انٹرنیٹ کمیونی کیشن کو ختم کر دیا ہے- بھارت جو انسانی حقوق کی پاسداری کا علمبردار ہے، خود جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی کر رہا ہے- کشمیر دنیا کا سب سے دیرینہ اور حساس مسئلہ ہے کیونکہ یہ نیوکلئیر طاقتوں میں گھرا ہوا ہے- یہ مسئلہ برہان وانی جیسے کشمیری نوجوانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ان مظالم کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوں- کشمیر میں اندھے اور کالے قوانین کا راج ہے جیسے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جو اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی فرد کو قتل کرنا، حراست میں لینا اور املاک کو تباہ کرنا جائز ہے- اگرچہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ حالیہ تشدد کو ختم کرے- لیکن زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے- ہمیں بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کو اُجاگر کرنے کے لیے بھر پور کاوش کرنی چاہیے تاکہ سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کو عمل میں لایا جا سکے-کلماتِ خاص:ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ جناب انعام الحق﴿سابق وزیر برائے امورِ خارجہ ﴾نوجوان کشمیریوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادتیں اس مسئلے کے بنیادی پہلوئوں میں سے ہیں- برہان مظفر وانی ایک مجاہدِ آزادی تھا جس نے ایک اعلیٰ مقصدکے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا- معصوم مظاہرین کے خلاف بھارتی جارحیت ریاستی دہشت گردی کی ایک بھیانک مثال ہے- ان مظالم کوچھپانے کے لئے بھارت نے رابطہ کے تمام ذرائع بند کر دئیے ہیں- بھارت کے دیر پا عزائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کشمیر کی (Demographic changes) آبادیاتی تناسب کو بھارتی براہمن ، سابقہ فوجی افسران اور ہندو مذہبی مقامات اور مندروں کے ذریعے بدل کر مسئلہ کشمیر کا تصفیہ اور عالمی برادری پر عائد ذمہ داریاں: ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ جناب مسعود خان ﴿ڈی جی ، انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز ، اسلام آباد ، سابق پاکستانی سفیر برائے UNO ﴾عالمی سطح پہ پاکستان کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے کا ہر حق رکھتا ہے کیونکہ پاکستان اس مسئلہ کا فریق ہے - برہان وانی نے اپنے دفاع کے لئے بندوق اٹھائی جو اس کا بنیادی حق تھا- عالمی برادری کا منافقانہ رویہ قابلِ مذمت ہے کہ شام میں جو حکمتِ عملی قابلِ عمل ہے وہ کشمیر میں ناجائز قرار پاتی ہے- علاقائی اور عالمی قوتیں شام میں باغیوں کو مالی مدد اور ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے اسد حکومت کے خلاف لڑا رہی ہیں- اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شام میں ما لی اور عسکری مدد ان کے لئے جائز ہے جبکہ کشمیر میںبھارتی قابض افواج کے مظالم کے خلاف مزاحمت کے لئے عوام کی مدد کرنا نا جائز ہے - ہمیں بھارت پہ دبائو ڈالنا چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات موجود ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے اس کے ساتھ بہت معاہدے بھی ہوئے ہیں جن کی رو سے ہم اس سے بات کر سکتے ہیں- اس لیے ہمیں بے خوف و خطر کہنا چاہیے کہ وہ کشمیر میں قتل و غارت گری ختم کرے، عوامی اجتماعات پر پابندی ختم کرے ، پیلٹ گن اور اس طرح کے دیگر غیر جان لیوا لیکن مہلک ہتھیاروں کا استعمال ترک کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور مقبوضہ ریاست میں فوج کی تعداد میں کمی کرے- حریت رہنماؤں کی چار نکاتی تجاویز پر بات کرنی چاہئے اور بھارت یہ تسلیم کرے کہ جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے-خصوصی کلمات:جناب لارس رائز﴿ سابق ممبر پارلیمنٹ، ناروے﴾بھارتی فوج کشمیر میں ایمبولینسوں پر بھی حملہ آور ہوتی ہے جبکہ سیلولر، لینڈ لائن اور انٹرنیٹ کمیونی کیشن کو ختم کر دیا ہے- بھارت جو انسانی حقوق کی پاسداری کا علمبردار ہے، خود جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی کر رہا ہے- کشمیر دنیا کا سب سے دیرینہ اور حساس مسئلہ ہے کیونکہ یہ نیوکلئیر طاقتوں میں گھرا ہوا ہے- یہ مسئلہ برہان وانی جیسے کشمیری نوجوانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ان مظالم کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوں- کشمیر میں اندھے اور کالے قوانین کا راج ہے جیسے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جو اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی فرد کو قتل کرنا، حراست میں لینا اور املاک کو تباہ کرنا جائز ہے- اگرچہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ حالیہ تشدد کو ختم کرے- لیکن زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے- ہمیں بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کو اُجاگر کرنے کے لیے بھر پور کاوش کرنی چاہیے تاکہ سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کو عمل میں لایا جا سکے-کلماتِ خاص:ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ جناب انعام الحق﴿سابق وزیر برائے امورِ خارجہ ﴾نوجوان کشمیریوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادتیں اس مسئلے کے بنیادی پہلوئوں میں سے ہیں- برہان مظفر وانی ایک مجاہدِ آزادی تھا جس نے ایک اعلیٰ مقصدکے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا- معصوم مظاہرین کے خلاف بھارتی جارحیت ریاستی دہشت گردی کی ایک بھیانک مثال ہے- ان مظالم کوچھپانے کے لئے بھارت نے رابطہ کے تمام ذرائع بند کر دئیے ہیں- بھارت کے دیر پا عزائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کشمیر کی (Demographic changes) آبادیاتی تناسب کو بھارتی براہمن ، سابقہ فوجی افسران اور ہندو مذہبی مقامات اور مندروں کے ذریعے بدل کر رکھ دیا جائے - دوسری طرف آرٹیکل ۰۷۳ کو کالعدم قرار دینا جو کشمیر کو ایک خاص حیثیت دیتا ہے تیسری طرف کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنا اور اس کے ایک حصہ کو بھارت کا حصہ بنانا شامل ہے- پاکستان کو سیکورٹی کونسل اور انسانی حقوق کے اداروں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میںبھارتی ظلم و بربریت کے متعلق مطلع کرتے رہنا چاہیے- بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی بجائے مقبوضہ کشمیر سے متعلق پاکستان کے تحفظات کو دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو آگاہ کیا جانا چاہیے-کلماتِ مہمانِ خصوصی:جناب چوہدری محمد بر جیس طاہر﴿ وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان﴾مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ صورت حال بڑی درد ناک اور تشویشناک ہے- یہ بات سب جانتے ہیں کہ سات دہائیوں سے بھارتی افواج نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور ظلم و جبر کا بازار گرم کیا ہوا ہے لیکن گذشتہ تین ہفتوں میں برہان وانی کی شہادت کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک بھیانک باب شروع ہو چکا ہے جس کی تاریکی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے- کشمیریوں پر تشدد، نمازِ جنازہ میں شریک لوگوں کو پیلٹ گنز ﴿Pellet Guns﴾ سے اندھا کرنا، خواتین کی عصمت دری، قتل و غارت اور انسانی تذلیل اب روز مرہ زندگی کا معمول بنتا جا رہا ہے- عالمی برادری کا فریضہ بنتا ہے کہ نہ صرف وہاں حقائق کی چھان بین کے لئے کوئی کمیشن بھیجے بلکہ حالیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے- جنوبی ایشیا کا امن اس مسئلے کی وجہ سے شدید خطرے میں ہے اور اس کے حل کے بغیر خطے میں دیرپا امن قائم نہیں کیا جاسکتا- اتنے حوصلے اور اتنی قربانیوں کے بعد کشمیر کی آزادی فطرت کا فیصلہ بن چکا ہے جو آج یا کل وقوع پذیر ہو کر رہے گا-صدارتی کلمات:جناب جنرل ﴿ر﴾ سینیٹر عبدالقیوم ملک﴿چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار﴾ہماری کشمیر پالیسی قائداعظم کے اس بیان کے ساتھ منسلک ہے جو انہوں نے فروری ۸۴۹۱ئ میں دیا کہ ہم تمام محکوم اور پسی ہوئی اقوام کے ساتھ ہیں اور انہوں نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت پر زور دیا اور مسئلہ فلسطین کی بھی حمایت کی- ہماری کشمیر پالیسی کا بنیادی ستون اقوامِ متحدہ کا منشور ہے- ہمیں اسی کے مطابق ہر قد م اُٹھانا ہے اور حق خود ارادیت کی واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بات کرنی ہے جو اس منشور میں تحریر شدہ ہے- یہ ہمارا بھی فرض ہے اور بین الاقوامی برادری کا بھی کہ اس مسئلے کے حل کے لئے آواز اٹھائیں کیونکہ ہم سب نے دنیا کہ اعلیٰ سطح کے فورم پر کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم انہیں حقِ خود ارادیت دلوائیں گے- بھارت ہمیشہ ڈائیلاگ سے دور بھاگتا ہے کیونکہ جب بھی ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میزپر بیٹھیں گے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کریں گے تو وہ مذاکرات نہیں کرے گا جیسا کہ ماضی میں بھارت کا وطیرہ رہا ہے- مَیں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ کسی حکومت، سول یا عسکری، نے کبھی اس معاملہ پر سمجھوتا نہیں کیا اور نہ کبھی کشمیر پالیسی کے حوالے سے کرے گی-اظہارِ تشکر:صاحبزادہ سلطان احمد علی﴿چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ﴾محترم جناب صدرِ اجلاس، سفرائ حضرات، سمینار میں شرکت کرنے والے حضرات، غیر ملکی وفود اور تمام مہمانانِ گرامی!مَیں آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے آج کے سیمینار میں شرکت کی- جہدِ مسلسل اور مضبوط عزم ہی مسئلہ کشمیر کا حل اور بھارتی مظالم کا جواب ہے- کشمیر ایک پرانا چاک ہے جسے عالمی ضمیر نہیں سی سکا اور اسے جذبے ، عشق اور ضربتِ پیہم ہی سے سیا جاسکے گا- سفارشات:ظ اقوام متحدہ، اس کے ماتحت ادارے ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری قتلِ عام اور ظلم و استبداد کو جلد از جلد ختم کرانے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں-ظ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی پہ انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں ، Human rights watch, UNHCR اور دیگر کو فوری نوٹس لینا چاہئے-ظ اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، حقِ خود ارادیت حاصل کرنے میں عالمی برادری بھارت پہ دباؤ ڈالے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو عالمی سطح پر قبول کرتے ہوئے پذیرائی دی جانی چاہئے-ظ عالمی برادری کو ایک منظم مہم کے تحت مائل کیا جانا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری معصوم شہریوں کے قتل پہ آواز اٹھائیں-ظ غیر جان لیوا ہتھیاروں کا استعمال جو جموں و کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگو ں کو شدید زخمی اور نابینا کر رہے ہیں ، ایک عالمی جرم ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت غیر آئینی ہے، پاکستان کو یہ معاملہ اقوامِ متحدہ اور دیگر فورمز پہ اٹھانا چاہیے تاکہ بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا جا سکے-ظپاکستان کو اس بات کا پرچار کرنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ ہے اور کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے نہ کہ بھارت کا اٹوٹ انگ جس کو بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے تحت تسلیم کیا تھا-ظ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں لاگو کالے قوانین کا انسانیت کی بنیاد پر فوری خاتمہ کروانا چاہئے-ظپاکستان کو کشمیریوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد اور اُن کشمیریوں کے لیے وظائف کا اجرا کرنا چاہیے جو بھارتی ظلم و استبداد کا شکار ہیں-ظکشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے سید علی گیلانی کا چار نکاتی ایجنڈا بڑی اہمیت رکھتا ہے اور بھارت کو ان پر کاربند ہونا چاہیے-ظ اگرچہ یہ اوّلاً پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے لیکن پاکستانی عوام پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اجاگر کرنے اور اس کے حل کے لئے اپنی مہم جاری رکھیں، پاکستانی عوام کے تمام طبقات کو اس ضمن میں کام کرنے کی ضرورت ہے-ظ پاکستانی حکومت کو اقوام متحدہ سے یہ درخواست کرنی چاہیے کہ وہ کشمیر میں اپنا ایک خصوصی مندوب مقرر کریں ﴿چاہے بھارت اس کی مخالفت بھی کرے ﴾ تاکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ ہوا جاسکے-ظ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کی ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ معمولی معاملات میں الجھائے رکھا جائے، لہٰذا پاکستان کو ہمیشہ کشمیر کے مسئلہ کو فوقیت دینی چاہیے اور اس کو کسی تجارت کے بدلے پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے-ظ پاکستان کو کشمیر سے متعلق واضح اور طویل مدتی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے جو کسی حکومت کے تبدیل ہونے پر تبدیل نہ ہو، اور ہر نئی آنے والی حکومت اس پر کاربند رہے- ظ عالمی میڈیا کو بھارتی مظالم بے نقاب کرنے اور کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے-