کشمیر کے حوالے سے ، حقِ خود ارادیت کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد اور الحاقِ پاکستان ، آج کی اس چھٹی نشست کا موضوع ہے- میں اس سے پہلے کہ اپنی گفتگو کا آغاز کروں ، مَیں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ صدر باراک اوبامہ کے دورے کے بعد جو تبدیلی آئی کہ مودی صاحب سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے بے چین ہوئے جاتے ہیں اور وہ اپنے وفود میاں صاحب کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستانیوں کا غصہ ٹھنڈا کیا جائے اور سلامتی کونسل کے اندر جو بھارت کی متوقع نشست ہے، اس کو مستقل کرنے کے لئے جو پاکستان کشمیر کو سامنے رکھ کر دبائو ڈال رہا ہے ، اس معاملے کو تھوڑا کم اور ٹھنڈا کیا جائے- میری سب سے پہلی تجویز تو یہ ہے ، گو مجھے کانفرنس سے تین دن پہلے یہ قرار داد بھیجنی چاہیے تھی جو میں نہیں بھیج سکا لیکن امید ہے کہ یہ تجویز اس سہ روزہ ’’نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کی قرار دادوں اور مطالبات میں شامل کر لی جائے گی کہ ہمارا حکومتِ پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ جس بنیاد پر یہ مذاکرات منقطع کئے گئے کہ پاکستان کا سفیر جو ہندوستان میں متعین ہے وہ کشمیری قیادت سے کیوں ملا؟ اس غصہ میں ان مذاکرات کو معطل کر دیا گیا تو پاکستان کو سب سے پہلے یہ مطالبہ رکھنا چاہیے کہ اس بنیاد پر مذاکرات معطل کئے گئے تو اگر بھارت مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے ، جو ’’مذاق رات‘‘ ہوں گے ’’مذاکرات‘‘ نہیں ہوں گے، تو اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے کہ پاکستانی سفیر کا کشمیری قیادت کو ملنا درست تھا اور آئندہ بھی دہلی میں موجود پاکستانی سفارت خانہ پر بھارتی حکومت کی طرف سے کسی طرح کی کوئی قدغن ، کوئی دبائو نہیں ہوگا، ہمارے سفیرِ محترم یا سفارتی عملہ جب چاہیں کشمیری قیادت سے مل سکتے ہیں، ان سے ملاقات کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے اور وکیل کو اپنے موکل سے ملنے سے کوئی قانون نہیں روک سکتا- پاکستانیوں کو یہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ پاکستان کشمیر کا وکیل ہے اور یہ موقعہ بھی ہے کہ اس بات کو مستحکم طریقہ سے ثابت کیا جائے - بھارت کشمیر میں جو درندگی کر رہا ہے اس درندگی پر پاکستان آواز اٹھائے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی شرائط طے کرے کہ مذاکرات دہشتگردی پہ نہیں کشمیر پہ ہونگے -
ایک تو وہ مسئلہ تھا جو گزشتہ پانچ فروری کو ، جس طرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہی کی منعقدہ کانفرنس میں ناچیز نے توجہ مبذول کروائی کہ کشمیر میں جو ڈیموگرافک تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ، جو آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے، اس پر پاکستان کو شرائط عائد کرنی چاہیں کہ آبادی کا جو تناسب تبدیل ہوا، اسے ۷۴۹۱ئ کی سطح پر واپس لایا جائے اور اِس دوران جتنی بھی ڈیمو گرافک تبدیلیاں لائی گئی ہیں انہیں ’’پلیب سائیٹ‘‘ کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے مکمل طور پہ مسترد کیا جائے اور کشمیر کے آبادی کے تناسب پر کسی طرح کی لچک اور مصلحت پسندی اختیار نہ کی جائے اور ڈیمو گرافک تبدیلیوں کو کسی بھی قیمت پہ قبول نہ کیا جائے -
دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کے اندر جو بھارت کی فوج کی موجودگی ہے وہ کشمیر میں تمام معاملات ، تمام مسائل کی جڑ ہے - بھارت کشمیر سے اپنی ساتھ لاکھ فوج کو ودڈرا ﴿withdraw﴾ کرے- یہ میری قرار داد نہیں ہے- یہ قرار داد دنیا کے بڑے بڑے مہذب ممالک کی پارلیمنٹس نے پیش کی ہے - یورپ کی بیشتر پارلیمنٹس نے بھارت پر یہ دبائو ڈالا ہے کہ بھارت کشمیر سے اپنی فوجوں کو نکالے- کشمیر میں دو چیزوں کی موجودگی میں ایک غیر جانبدار اور آزاد ریفرنڈم نہیں ہو سکتا- ایک بھارت کی سات لاکھ فوج اور دوسرے بھارت کے ’’ڈریکونین لاز‘‘ یعنی وہ خونی ، قاتل اور خونخوار قوانین جو اس نے مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں مسلط کر رکھے ہیں- قلّتِ وَقت کے پیشِ نظر اختصار کرتے ہوئے مَیں آج کی اس نشست میں صرف چند ایک قوانین آپ کی کانفرنس کی پروسیڈنگ ﴿proceeding﴾ کی نظر کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں جو مظالم روا رکھے جا رہے ہیں ، وہ کیا مظالم ہیں؟ اور بھارتی فوج وہاں جو کرتوت کر رہی ہے اس کو کس طریقے سے دنیا کی بڑی جمہوریت نے تحفظ فراہم کر رکھا ہے- یہ بھی ان سے سوال کیا جانا چاہیے کہ اگر وہ مہذب ہیں، جمہوری ہیں، انصاف پسند ہیں، اگر وہ سلامتی کونسل کے ممبر بننا چاہتے ہیں تو کیا سلامتی کونسل کے ممبر بننے والے ممالک کی پارلیمنٹس، ان کے پارلیمنٹرین اس طرح کے قوانین بناتے ہیں؟ پارلیمنٹ کا کام ہے ایسے قوانین بنانا جس سے نہ صرف بنی نوعِ انسان بلکہ حیوانات ، چرند پرند حتیٰ کہ زمین ، سمندر اور فضاؤں کو بھی آلودگی ، تعفن اور ستائے جانے سے بچایا جا سکے ، لیکن ’’جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘ اُس دیس میں اراکینِ پارلیمنٹ کی ذہنیّت میں الٹی گنگا بہتی ہے کہ وہ انسانی جانوں کے تحفّظ کی بجائے انسانی جانوں کے قتلِ عام کے لائسنس بناکر ایک ظالم جابر وحشی فوج کے درندوں کو جاری کرتے ہیں - کیا جمہوریت کے دعویدار بھارتی جمہوریت پرست ان قوانین کی موجودگی میں بھی جمہوری کہلائے جانے کے حقدار ہیں ؟ کیا یہ درست نہیں ہو گا کہ ایسے قوانین بنانے والوں کو قوانین استعمال کرنے والوں سے بھی بڑا ظالم اور بڑا وحشی سمجھا جائے ؟ کشمیر میں بھارتی فوج کی وحشیانہ درندگی کو قانونی جواز دینے والے قانون سازاُن بے لگام ظالم فوجیوں سے بھی بڑے درندے ہیں -
سب سے پہلے مَیں جس قانون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں وہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ ﴿AFSPA﴾ ۰۹۹۱ئ کا ہے جس کے سیکشن فور سی ﴿4C﴾ کے مطابق :-The armed forces can be used in aid of civil authorities and even a non commissioned officer can search any place, stop/seize any vehicle, fire at any person (and kill), or arrest him even on the basis of suspicion with no obligation to inform him of the grounds thereof.مختصر اور آسان لفظوں میں اس قانون کی تشریح یہ ہے کہ یہ قانون اجازت دیتا ہے کہ بھارتی سول انتظامیہ بھارتی فوج کو کسی بھی طرح سے استعمال کر سکتی ہے اور ایک ’’نان کمیشنڈ آفیسر‘‘ کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جگہ کی بغیر کوئی وجہ بتائے تلاشی لے سکتا ہے ، بلا وجہ اپنی مرضی کیمطابق لوگوں کو گھروں سے نکال کر باہر کھڑا کر سکتا ہے وہ چاہے جس حالت میں بھی ہوں لوگوں کے ہاں سوگ ہو یا خوشی ، کوئی مریض ہو یا نہ ہو - وہ کسی بھی گاڑی کو روک سکتا ہے ، اس کو بغیر کوئی وجہ بتائے بند کر سکتا ہے - اور کسی بھی انسان پر جب چاہے ، جہاں چاہے ، اس کا کوئی عمل دیکھے یا نہ دیکھے ، یا اسے کسی آدمی پر صرف اتنا شک ہو کہ آج سے دو چار ، پانچ سال بعد یہ آدمی کسی طرح کے تحرک ﴿activity﴾ میں ملوث ہو سکتا ہے، آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ یہ اجازت دیتا ہے کہ نان کمیشنڈ آفیسر محض اِس خدشے کی بنا اس پر فائر کھول سکتا ہے صرف اِس شُبہ کی بنا پہ کہ یہ بندہ چار یا پانچ سال بعد کسی ایکٹیویٹی میں ملوث ہو سکتا ہے بھارتی درندہ فوج کو قانونی اجازت ہے کہ وہ اس کو قتل کر دیں - یہ وہ قوانین ہیں جو انہیں یہ مدد فراہم کرتے ہیں کہ جب چاہیں جہاں چاہیں جس بھی کشمیری کو قتل کر دیں-
آپ ذرا ٹھنڈے دل سے ، ایک عام انسانی جذبے سے بتائیں ، کسی مذہب، نظریے یا کسی بھی اور طرح کے روحانی، جسمانی، خونی رشتے سے آزاد ہو کر ، صرف خالصتاً انسانی بنیادوں پر سوچ کر بتائیے کہ اس گھٹن کے ماحول میں جو آبادی رہ رہی ہے ، کیا اُس کی اذِیّت اور کوفت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ ، خون، روحانی رشتہ تو ان چیزوں کو بہت ہی زیادہ حساس کر دیتا ہے لیکن اگر ان تمام چیزوں سے الگ ہو کر بھی انسان اپنے آپ کو دیکھے تو جس گھٹن میں کشمیری رہ رہا ہے ، جس گھٹن میں کشمیری زندہ ہیں ، یہ ایک آزاد جیل ہے جس کے گرد قوانین کی سلاخیں بُنی گئیں اور اس جیل کے اندر بھارتی درندے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑے دندناتے پھرتے ہیں - جس کو ، جب ، جہاں ، جیسے چاہیں اس کو ختم کر دیں ، کسی خاتون کی عزت تار تار کردیں ، کسی گھر کو آگ لگا دیں ، کسی خاندان کو اجاڑ دیں ، کسی کا سہاگ چھین لیں ، کسی کو یتیم کر دیں ، کسی کو بے سہارا کردیں - جب، جہاں ، جو چاہیں کر گزریں - اور عجیب حیرت کی بات کہ یہ سب کچھ کرنے کیلئے اُنہیں کسی ٹھوس ثبوت یا گواہی کی بھی ضرورت نہیں محض اتنا ہی کافی ہے کہ ’’نان کمیشنڈ افسر‘‘ کے لیول کا بندہ ہی کیوں نہ ہو اسے صرف شک ہو جائے یا الہام ہو جائے کہ آئندہ پانچ برسوں میں یہ بندہ کسی کاروائی میں ملوّث ہو سکتا ہے تو یہ شک ہی کسی کو مار دینے کیلئے کافی ہے - یہ ان شیطانی قوانین کی وہ قوت ہے جو ختم ہونی چاہیے-
ایک دوسرا قانون ہے ’’جمّوں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ ﴿ Jammu and Kashmir Public Safty Act﴾ یہ قانون :-
Enpowers the state government to detain a person without trial for two years
مزید بر آں اس ایکٹ کے مطابق:-
۔People are held in detention not on the grounds of committing any offence but on the presumption that they may one day commit
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی آدمی کو چاہے وہ عورت ہو ، چاہے مرد ہو ، چاہے بچہ ہو ، چاہے بوڑھا ہو ، چاہے جوان ہو اس ایکٹ کے تحت دو سال کے لئے بغیر کسی ٹرائل ، بغیر گواہی، بغیر شہادت ، بغیر ثبوت یا بحث کے جیل میں رکھا جا سکتا ہے یعنی کہ لوگوں کو قید کرنے کیلئے اس ایکٹ کی گواہی اور شہادت ہی کافی ہے - اگر کسی پر یہ گمان ہو جائے ، یہ شک ہو جائے کہ کوئی بھی آدمی کسی بھی دن یہ کام کر گزرے بھارتی درندے اس کو بھی اٹھا کر لے جا سکتے ہیں-
کیا یہ قانون وہاں کے لوگوں کو آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرنے موقعہ دیتا ہے؟ کیا ان لوگوں کے سر پر خوف کی یہ تلوار نہیں لٹکائی گئی کہ اگر انہوں نے اس طرح کا کوئی کام کیا جس سے وہ انڈیا کی سا لمیت ﴿integrity﴾ کو چیلنج کر رہے ہوں ، بھارتی ان کو گرفتار کر لیں گے ، ان کو گولی مار دیں گے، ان کو قتل کر دیں گے - جو کہ وہ کشمیری ہندوستان کی ﴿integrity﴾ کو تو مانتے ہی نہیں کیونکہ کشمیری یہ دعویٰ کرتے ہیں اور یہ دعویٰ بر حق ہے، دنیا اسے تسلیم کرتی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد ’’علیحدگی‘‘ کی جدوجہد نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کے جدوجہد’’ آزادی‘‘ کی جدوجہد ہے- آزادی کی جدوجہد اور علیحدگی کی جدوجہد میں ایک واضح فرق ہوتا ہے - ایک کشمیری کی بات ہندوستان کی ﴿integrity﴾کے خلاف ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو روزِ اوّل سے خود کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہی نہیں نہ ہی اُن کا الحاق ہوا ہے ہندوستان کیساتھ- لہٰذا یہ قوانین تو لاگو ہونگے ان پہ جو علیحدگی کی بات کریں - کشمیری کا آزادی کا نعرہ تو سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ نے قانونی بنا دیا ہے اس لئے اس کی ندائے آزادی کو کسی قانون کے شکنجے کی گرفت میں لایا ہی نہیں جا سکتا - اس لئے پاکستان کی ذمہ داری ان حوالوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے اور کشمیریوں پر ان قوانین کی صورت میں جو تلواریں لٹکائی گئیں ، پاکستان کو ان کا مقدمہ لڑنا چاہے اور اس مقدمہ کو لے کر عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے جو کہ میری معلومات کے مطابق بعض کشمیری راہنما تو گئے ہیں لیکن حکومت پاکستان کشمیریوں کے وکیل کے طور پر ان مقدمات کو لے ابھی تک عدالتِ انصاف میں نہیں گئی- اس کانفرنس کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ حکومتِ پاکستان کشمیریوں پر کالے قوانین کی ان لٹکتی ہوئی تلواروں کا مقدمہ لے کر دنیا کے ہر فورم پر جائے اور کشمیر کے اندر سے ان کالے قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے -
مَیں اس کے بعد چند ایک انٹرنیشنل حوالے پیش کرنا چاہتا ہوں جو ان قوانین کے بارے انٹرنیشنل کمیونٹیز کہہ رہی ہیں - کیونکہ ہمارے ہاں ایک کمیونٹی موجود ہے جس کے متعلق میں اکثر کہتا ہوں کہ ’’این جی او مارکہ صابن اجلی دھلائی چمکدار صفائی شکیل آفریدی زندہ آباد ‘‘ - اِس لئے کہ اس طبقے میں جہاں بڑے اچھے اور تعمیری لوگ موجود ہیں وہیں ایک ’’موم بتی مافیا ‘‘ بھی موجود ہے جو کسی جانور کے مرجانے پہ تو افسردہ ہو جاتا ہے اور اپنی پالتو بلی کی یاد میں تو شمعیں روشن کر لیتا ہے مگر فلسطین ، روہنگیا ، کشمیر اور اس طرح کے دیگر مظلوم مسلمان بیٹیوں ، بیٹوں اور بزرگوں نوجوانوں کی یاد میں کبھی شمعیں روشن نہیں کرتے نہ ہی اُن کی شہادتوں پہ اور اموات پہ ان کے دِل میں درد اُٹھتا ہے - البتّہ اسلام اور پاکستان کا چہرہ جس سے مسخ کیا جا سکتا ہو وہ موقعہ یہ ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دیتے - یہ زیادہ تر عالمی اداروں کے حوالے دیتے ہیں اور صرف اُسی کو حقیقت مانتے ہیں جو انٹر نیشنل فنڈنگ ادارے کہتے ہیں - اِس لئے جو ناچیز عرض کرنے جا رہا ہے یہ کوئی ایسا سیکرٹ ڈاکیومنٹ نہیں جو مَیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں ہے جو میں نے پہلی بار پیش کی ہو ، ہر کشمیری انہی باتوں کا رونا روتا ہے - مَیں تو اس طریقے سے پیش نہیں کر پایا جس طریقے سے خود کشمیری اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں لیکن مَیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں اور وہ این جی او مارکہ صابن والے موم بتی مافیا کیا کہتے ہیں جی کہ
’’یہ چند فنڈامینٹلسٹ لوگ ہیں جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور عالمی سطح پر دنیا میں کہیں بھی ایسی بات نہیں کی جاتی ، دنیا کو ان باتوں کا کوئی ادراک نہیںکہ عوام کا یہ مسئلہ ہے، وہ مسئلہ ہے اور کشمیری اپنی جگہ پر خوش ہیں ، وہ تو آپ کے ساتھ آنا نہیں چاہتے اور یہ ہے ، وہ ہے، اور کیا عالمی کمیونٹی اندھی ہے ؟ انہیں یہ چیزیں نظر نہیں آتیں؟ ‘‘مَیں صرف یہ حوالے دینا چاہتا ہوں کہ یہ چند سر پھروں ، جانبازوں اور سرفروشوں کی بات نہیں ہے - یہ ان کی بات ہے جنہیں سول سوسائٹی مانتی ہے - ان کے چند حوالے پیش کرتا ہوں کہ وہ ان قوانین کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
ہندوستانی قانون سازوں کے بنائے ایک اور قاتل قانون ’’ٹیررازم اینڈ ڈسرپٹیو ایکٹیویٹیز ایکٹ‘‘ ﴿TADA﴾ کے متعلق یونائٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ :-The powers of the TADA (Terrorist and Disruptive Activities Act) and the Armed Forces Special Power Act are incompatible with the state obligation to uphold and protect human rights, in particular the right to life.ٹاڈا ﴿TADA﴾ اور سپیشل پاور ایکٹ آف آرمڈ فورسز یہ ہیومن رائٹس چارٹر کے ایکٹ آف رائٹس کی واضح طور پر خلاف ورزی ہے - انڈیا کے یہ قوانین یونائٹڈ نیشن کے ہیومن رائٹس سے مطابقت نہیں رکھتے - یہ کسی جنگجو مجاہد کا قول نہیں ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ انسانی حقوق کی رپورٹ ہے - اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کشمیر پر ۳۰۰۲ئ کی رپورٹ ان قوانین کے بارے میں یہ کہتی ہے کہ :-The TADA gives a license to kill.؎
یعنی اس ٹاڈا ایکٹ نے کشمیر کے اندر بھارتی فوج کو کشمیریوں کے بلا وجہ خون کا لائسنس جاری کیا ہے- کشمیریوں کے قتلِ عام اور جینو سائیڈ کا یہ لائسنس بھارتی پارلیمنٹ نے جاری کیا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری پارلیمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے- یہ دنیا کے سب بڑے جمہوری ملک کے جمہوریت پرستوں نے کیا ہے- یہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے علمبرداروں نے ، عدمِ تشدد کے نظریے پر یقین رکھنے والے اور گاندھی جی کی تصویر پارلیمنٹ میں لگانے والے پارلیمنٹرین نے یہ قوانین پاس کئے ہیں- ان کے عدمِ تشدد کے فلسفہ کی یہ کیفیت ہے- یہ ان کی جمہوریت کا حسن اور یہ ان کی جمہوریت کا ثمر اور پھل ہے کہ ان کا ٹاڈا کا قانون قتل کرنے کا لائسنس جاری کرتا ہے- کیا پارلیمنٹیرین، جمہوریتیں ، انصاف پسند معاشرے ، روادار معاشرے اس طرح کے ایکٹ منظور کرتے ہیں جو قابض فوجوں کو لوگوں کے قتلِ عام کا لائسنس دیں؟ اگر بھارتی پارلیمنٹ کے اندر کوئی ضمیر رکھنے والے ،واقعتا انصاف کو ماننے والے اور انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ موجود ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان ایکٹس ﴿acts﴾ کو اپنی پارلیمنٹ سے مسدود اور ختم کروانے کی پوری کوشش کریں ، ورنہ کشمیری مسلمانوں کے قتلِ عام میں پوری بھارتی قوم ملوث ہوگی - میں نے جان بوجھ کر مشروط جملہ کہا ہے کہ ’’اگر ضمیر رکھنے والے‘‘ موجود ہیں ، لیکن دوسرا جملہ یہ ہے کہ ’’اگر بھارتی پارلیمنٹ میں ضمیر رکھنے والے‘‘ ہوتے تو ایسے قاتل قوانین بنتے ہی کیوں ؟ ایسے قوانین بے ضمیر ، بے رحم ، بے انصاف ، جھوٹی ، غیر انسانی رسومات پہ یقین رکھنے والی اور قتلِ عام کے لائسنس جاری کرنے والی غیر مہذّب پارلیمنٹ ہی بنا سکتی ہے - بھارتی قوم یہ بھی یاد رکھیں یہ صرف بھارتی فوج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بھارتی قوم کو یہ آواز اٹھانی چاہیے کہ انسانیت کے قتلِ عام کا جو لائسنس دیا گیا ہے اسے ختم کرنا چاہیے ، یہ بھارتی معاشرے کے اجتماعی ضمیر پہ سوال ہے -
ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک اور رپورٹ ہے جو مئی ۷۹۹۱ئ میں آئی تھی- اس میں ہے کہ:-
Access to redress for victims of human rights violations, a right guaranteed underinternational law, is being denied to victims in Jammu & Kashmir
ترجمہ: - ’’جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہونے والوں کو حقِ داد رسی نہیں دیا جا رہا، جبکہ اس حق کی گارنٹی بین الاقوامی قانون میں دی گئی ہے‘‘-اس کے بعد امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ۶۰۰۲ئ کی رپورٹ ہے جس میں یہ ہے کہ :-
According to the Association of Parents of Disappeared Persons, eight to ten thousand Kashmiris disappeared mysteriously in Indian ۔Held Kashmir between 1989-2003, while the Asian Centre for Human Rights put the figure at six thousand
مطلب یہ ہے کہ ان ایکٹس کے تحت جو کشمیری وہاں سے بلا وجہ قید کئے گئے اور قید کے بعد وہ غائب کر دیئے گئے ان کی تعداد ۹۸۹۱ئ سے ۳۰۰۲ئ کے درمیان تقریبا دس سے بارہ ہزار ہے - یہ انتہائی چھوٹا فگر ﴿figure﴾ہے ، حقائق اس کے برعکس ہیں لیکن یہ وہ فگر ﴿figure﴾ہے جو امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے جاری کیا- ۵۰۰۲ کی ایک رپورٹ میں وہ کہتے ہیں کہ :-۔Indian troops continue to use extra judicial killings as a method to suppress insurgency in Kashmir
بھارتی افواج ما ورائے عدالت قتلِ عام کو اس انسرجنسی﴿insurgency﴾ کو دبانے کے ایک بہترین ذریعے کے طورپر استعمال کر رہے ہیں-
The National Human Rights Commission (NHRC) reported 136 deaths in police custody and 1357 deaths in judicial custody during the period of January to March, 2004
۴۰۰۲ئ کے صرف جنوری سے مارچ تک ۶۳۱ افراد کو صرف پولیس کی تحویل ﴿custody﴾ میں شہید کیا گیا اور ۷۵۳۱ لوگوں کو عدلیہ کی کسٹڈی ﴿custody﴾ میں شہید کیا گیا- صرف اس جرم کی پاداش میں کہ وہ رائٹس آف لائف مانگتے ہیں، وہ رائٹ آف سیلف ڈٹرمینشن مانگتے ہیں ، وہ حقِّ خود ارادیّت مانگتے ہیں اور آزادی مانگتے ہیں جس کا کہ اقوامِ عالَم نے اُن سے بارہا وعدہ کر رکھا ہے - اس جرم کی پاداش میں کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے-
اگر پاکستانی قوم ، پاکستان کے منتخب نمائندے ، پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ اس پر آواز نہیں اٹھاتی ، اگر پاکستان کے مشائخ ، علمأ اور وکلائ ، گلیوں محلوں میں بیٹھنے والے لوگ، مائیں بہنیں ، بھائی ، دکاندار، ریڑھیوں والے، دکانوں والے، بنکوں والے، کالجز ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز، سٹوڈنٹس ، اساتذہ اگر اپنے کشمیری بھائیوں کے حق میں ، ان پر یہ کالے قوانین کی جہنم کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کرتے اور ان کی آزادی میں ان کا محافظ ، ممد، معاون، وکیل بن کر پوری قوم ان کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی تو میری رائے میں ہندوستانی قوم کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بھی کشمیریوں کے خون میں ملوث ہے-
بات کو مختصر کرتے ہوئے مَیں آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کی جدوجہد ، الحاقِ پاکستان کی جدوجہد ہے ہمارا بطور ایک قوم یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں ، بہنوں کی مشکلات کا احساس کریں- حکومتِ ہندوستان نے انہیں کس جہنم زار میں ڈالا ہوا ہے- وہ جہنم زار آپ کے سامنے ہے کہ بلا وجہ ، بغیر جرم کے صرف یہ گمان ہے کہ دو سال بعد یہ بندہ کسی ایکٹویٹی ﴿activity﴾ میں ملوث ہو سکتا ہے ، یہاں تک کہ نان کمیشنڈ آفیسر بھی اس کو گولی مار سکتا ہے ، اس کے چہرے کو مسخ کر سکتا ہے اور اس کو جیل میں ڈال سکتا ہے-
یہ ہے وہ کام جو حکومتِ پاکستان کو ، عوامِ پاکستان کو ، پاکستان کی سول سوسائٹی کو ، پاکستان کے تحقیقی اداروں کو کرنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ کشمیری مسلمان ہیں ، کشمیری انسان ہیں ، کشمیری پاکستانی ہیں -ہم بطور انسان کے ، بطور مسلمان کے اور بطور پاکستانی کے ہر حالت میں ، ہر حیثیت میں ، ہر فورم میں ، جو ذریعہ بھی ہمارے پاس دستیاب ہوگا ، ہم کشمیریوں کا مقدمہ بھی لڑیں گے ، کشمیریوں کی جنگ بھی لڑیں گے اور ہم کشمیریوں کی مدد بھی کریں گے- اگر ہندوستان نے یہ گھی سیدھی انگلی سے نہ نکالنے دیا تو کشمیر کا یہ گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا جائے گا- اس جذبے کی ہمیشہ اسلام نے مسلمانوں کو دعوت دی ہے اور جسے اقبال نے کہا تھا کہ:-
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالَم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی
اگر کشمیریوں پر ظلم کا یہ بازار بند نہیں ہوتا تو مسلمانانِ عالَم کا جذبۂ شہادت اور جذبۂ حریت ابھی ماند نہیں پڑا یہ سروں پر کفن باندھ کر کشمیریوں کی مدد کو نکلیں گے-