اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو برابری کی سطح پر پیدا کیا اور یکساں شرف عطا فرمایا انسانوں کی روحانی زندگی کو افضل ہونے کا اصل معیار قرار دیا اور نسلِ اِنسانی کے مابین لطافت کی ایسی کڑیاں مِلا دیں تاکہ انسان انسانوں سے جُڑے رہیں - مگر زمانہ قبل از تاریخ میں ایسی تہذیبیں وجود میں آئیں جنہوں نے انسانوں کی انسانیّت کو پامال کیا اور ادنیٰ و اعلیٰ ، کمتر و برتر اور آزاد و غلام کا تصور قائم کیا ، انسانی رشتوں کا تقدُّس تارتار کیا بالخصوص صنفِ نازک بنتِ حوّا( عورت) کو اپنی غُلامی کا سب سے بڑا ہتھیار بنایا - یہ سمجھے بغیر کہ عورت اِس معاشرے کا ایک اہم جزو ہے جو ماں ،بہن،بیٹی یا بہو کی شکل میں موجود ہے جسِ کے بارے میں علامہ اقبالؒ صاحب فرماتے ہیں کہ:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دُروں
شرف میں بڑھ کے ثُرَیّا سے مُشتِ خاک اِس کی
کہ ہر شرف ہے اِسی دُرج کا دُرِّ مکنوں
زمانہِ جاہلیت میں لڑکی پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دِی جاتی تھی یا پھر اِسے غلام بنا کر رکھا جاتا، آزادیِ رائے کی کوئی اہمیت نہیں تھی ،ظلم اور جبر کی انتہا کی جاتی تھی ،انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی لیکن اسلام نے عورت کو معاشرے میں مردوں کے برابری کا رتبہ ،عزت ، قدر ، حیاء کے ساتھ ساتھ جینے کا حق دیا- عورتوں کو معاشرے میں تحفظ ،انصاف، آزادیِ رائے جیسے بنیادی حقوق دیے - یہاں تک کہ کُفّارِ مکّہ میں بعض صرف اِس لئے ایمان نہ لائے کہ یہ کیسا مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمہارے غُلام تمہاری ہی طرح کے انسان اور تمہارے برابر ہیں وہ لونڈیا جنہیں ان کی انسانیت سمیت خریدا جاتا ہے وہ باعتبارِ انسانی برابر ہیں ، اور عورتیں بھی تمہارے برابر کی ہیں - وہ یہ کہتے کہ بھَلا یہ کیسے مُمکن ہے کہ ہم باعظمت صاحبِ جلال جنگ وجدال کے ماہر اپنی کمزور عورتوں کو اپنے برابر کا سمجھ لیں - تو یہ اِسلام تھا جس نے عورت کی ناموس اور تقدیس کو نگہبانی عطا کی - لیکن کفر و جہالت نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور عورت کو اُس کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی ، فرعونیت ، کسرائیت و قیصریت نے لِباس بدلے نام بدلے اور چہرے بدلے مگر ظُلم کا طریقہ وہی تھا کہ اِس صنفِ نازک کو ہوس کے پنجۂ خونیں کی قید میں دبوچوا دیا -اقوام ِ عالَم کے نمائندہ ادارے مثلاً اقوامِ متحدہ ، یورپین یونین اور بہت سی تنظیموں نے کئی قانون بنائے جو عورت کی تحفظ کے ضامن بنے لیکن اِن قوانین کی پابندی اور پاسداری پر ابھی تک سوالیہ نشان ہے - کیونکہ دنیا میں لاکھوں عورتیں آج بھی اِن قوانین کی موجودگی میں مختلف جرائم کا شکار ہوتی ہیں اس بڑھ کر عورت کے ساتھ زیادتی کیا ہوگی کہ اُس کا وجود جسے خالقِ کائنات نے مقدس بنایا ہو اُسے دُنیا کی ہوس پرستانہ نگاہوں کا شکار بنا دیا جائے ، اس برا ظُلم عورت کیساتھ کیا ہوگا کہ اس کے جسم و لباس کی نمائش تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائے - آج شاہراہوں پہ لگے ہورڈنگز ہوں یا اخبارات و جرائد میں چھپنے والے اشتہارات یا پھر ٹیلی ویژن سکرینوں پہ چلنے والے کمرشل ، سبھی کا اِنحصار صنفِ نازک کی تطہیر کی تجارت پہ ہے - در حقیقت یہ بھی غُلامی ہی کی ایک قسم ہے بلکہ بذاتِ خود ایک بد ترین غُلامی ہے جسے سرمایہ داروں کا ’’کارپوریٹ میڈیا‘‘ غُلامی کہنے کی اجازت اس لئے نہیں دیتا کہ بنتِ حوّا ہی تو وہ مظلُوم ہے جِسے زمانۂ قدیم کی جہلات سے لیکر زمانۂ جدید کی جہالت تک سرمایہ داروں نے ذریعۂ تجارت بنایا - یہ اِسلام کا انقلابی نظام تھا جس نے یہ تصور دِیا کہ عورت مرد کی ’’رفیق‘‘ ہے جبکہ جہالتِ جدیدہ نے یہ تصور دیا کہ عورت مرد کی ’’فریق‘‘ ہے - اِس تصور نے عورت کے تحفظ اور تقدیس کو بُری طرح مجروح کیا -عورتوں کے تحفظ، آزادی اور اُن کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ا نیس سو نو سے ہر سال آٹھ مارچ سے عورتوں کا عالمی دِن منایا جاتا ہے جِس دِن عورتوں کے معاشرے کی ترقی میں کردار کو سراہا جاتا ہے اور ساتھ ہی اِس بات کا بھی عہد کیا جاتا ہے کہ عورتوں کے اُن کا بنیادی حقوق دیے جائے گا-
آج کے ترقی یافتہ دور میں معاشرے کی عورت تنزلی کا شکار ہے اور تقریباً ستر فیصد عورتیں غربت کی زندگی گزار رہی ہیں جو کہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حقوق ِ نسواں کے علمبرداروں کے لیے بھی لمحہِ فکریہ ہے-آج کی اس نام نہاد مہذب دُنیا میں کئی مقامات پہ عورتوں کو کِسی نہ کسی طرح محکومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور حاکم کے ظلم و جبر پر کوئی آواز نہیں اُٹھائی جاتی جِس کی زندہ مثال کشمیر کی عورت ہے جو بھارتی مظالم کی شکار ہورہی ہے مگر بین الاقوامی برادری اور سول سوسائیٹی دور سے بیٹھی خاموش اِس تماشے کو دیکھ رہی ہے-بھارتی افواج نے کشمیری عوام کی خواہشات کے بر عکس اُن پر غیر قانونی قبضہ کر لیا اور کشمیری عورتوں پر طرح طرح کے مظالم کی انتہا کر دِی جِس میں عصمت دری ، ہراساں کرنا، معاشی طور پر کمزور کر دینا اور جیل کی قیدو بند کی صعوبتیں شامل ہیں -اِن مظالم کی مدد سے بھارتی افواج حُریّت کے حصول کے لیے بلند ہونے والی آواز کو دبانا چاہتا ہے اور مظالم سے کشمیری خواتین کی ایک بڑی تعدادمعذوری کا شکار ہو چکی ہے اور کشمیری عورت جِن مصائب کا شکار ہے اُن کو اِن سطور میں سمانا ممکن نہیں-
دہلی میں ایک عورت کی عصمت دری کے شرمناک واقعے پر پورا بھارت سراپاِ احتجاج ہوا لیکن انیس سو نواسی سے اب تک تقریباًدس ہزار سے زائد عورتوں کی عصمت دری کی گئی لیکن بھارتی حکومت نے کِسی مجرم کو نہ سزا دِی اور نہ ہی اِن واقعات کی مذمت کی گئی اور دکھ تو اِس بات کا ہے کہ اِن ہزاروں عورتوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہوئی-کشمیر میں انیس سو نواسی سے اب تک بیس ہزار سے زائد عورتیں بیوہ ہو گئیںجبکہ بہت سی دخترانِ کشمیر آج بھی ’’آدھی بیوہ‘‘ کی زندگی گزار رہی ہیں جن کے شوہروں کو بھارتی درندے اُٹھا لے گئے اور آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کسی قید خانے میں زندہ ہیں یا اذیتیں دے دے کر شہید کر دیئے گئے ہیں - اِن کی تعداد کا اندازہ اِ س بات سے لگایا جا سکتا ہے کے مقبوضہ کشمیر کے صرف ایک ضلع بارامولہ میں تقریباً پندرہ سو سے زائد عورتیں ایسی ہیں جِن کے خاوند بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے آج تک گمشدہ ہیں اُن کا کوئی علم نہیں -اِن خواتین کی تعداداور دُکھ کو محسوس کرتے ہوئے کشمیر کے علماء نے اِس اَمر پر اجتہاد کیا ہے کہ اِیسی خواتین چار سال انتظار کے بعد دوبارہ شادی کر سکتیں ہیں-افسوس اِس بات کا ہے کہ عالمی برادری، حقوقِ نسواں کے علمبرداروں اور انسانی حقوق کے ہیروز کی نگاہوںسے کشمیری خواتین کے مصائب اوجھل کیوں ہیں؟اِن کی آواز کب اور کون دنیا کے ایوانوں میں بلند کرے گا؟کب کشمیری عورت کو وہ حقوق ملیں گیں جِس کی وہ حقدار ہے؟
دنیا میں منائے جانے والے مختلف دِنوں جیسے عورتوں کے عالمی دِن ، انسانی حقوق کا عالمی دِن اورتاریخِ کشمیر سے جڑے دنوں کو بھر پور طریقے سے منا کر ہمیں کشمیری عورتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی باقی تمام مظلوم عورتوں کی آواز بننے اور اُن کے حقوق کے حصول کے لیے جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری کو اُن کی آواز مؤثر انداز میں سنائی جا سکے تاکہ وہ بھارت کو اُس کے مکروہ عمل بند کرنے پر مجبور کیا جا سکے- پاکستان اقوامِ متحدہ میں بھی قرارداد پیش کرے کہ جس طرح عورتوں کے کردار کو سرہاتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے تاریخ کی ایک دہائی(1976-1985) عورتوںکے نام سے منسوب کیااِسی طرح اقوامِ متحدہ ۸ مارچ ۲۰۱۵ء سے ۸ مارچ ۲۰۱۶ ء تک کا ایک سال کشمیری عورتوں کے نام کر کے اُن کی جدوجہد کوسراہا جائے اور اُن پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کا اعادہ کیا جائے اور اِ س سال کو پاکستان میں بھی سرکاری طور پر کشمیری عورت کے نام کر کے اُس رشتہ کی پاسداری کرے جِس رِشتے کو نبھاتے نبھاتے وہ یہ عبرتناک سزا ئیں بھگت رہی ہیں-