میرزا عبد القادر بیدل دھلوی ، عظیم آبادی ﴿۴۵۰۱ - ۳۳۱۱ ھ﴾ ہندوستان کے فارسی گو شاعر اور سَبکِ ہندی ﴿Hindi Style ﴾ کے ممتاز نمائندہ، ۴۵۰۱ھ ، ۴۴۶۱ئ دریائے گنگا کے جنوبی کنارے ہند کے شہر عظیم آباد ﴿موجودہ پٹنہ﴾ میں پیدا ہوئے- ان کے آبائو اجداد مغل قوم اور تُرک جغتائی کے قبیلہ ’’آرلاس‘‘ سے تھے جو بُخارا ﴿اُزبِکِستان﴾ میں آباد تھے- ان کے والد گرامی میرزا عبد الخالق ایک قادری صوفی تھے جنہوں نے جوانی میں فوج میں ملازمت اختیار کی لیکن انہی سالوں میں اس کام کو چھوڑ کر عرفائ و صُوفیا کی خدمت میں مشغول ہوگئے- انہوں نے سلسلہ عالیہ قادریہ کے پیشوا شیخ عبد القادر ﴿الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے نام مبارک کی نسبت سے بطورِ تبرک اور نیک بختی کے حصول کے لیے اپنے بیٹے کا نام عبد القادر رکھا-
پانچ سال کی عمر میں میرزا عبد القادر اپنے والد کے سائے سے محروم ہو گئے جس کے بعد ان کے نوجوان اور فاضل چچا میرزا قلندر نے ان کی سرپرستی کی ذمہ داری سنبھال لی- عبد القادر اپنی مادری زبان کے علاوہ بنگالی، ریختہ ﴿جو بعد میں اردو کے نام سے مشہور ہوئی﴾، سنسکرت اور تُرکی سے آشنا تھے- انہوں نے مدرسہ میں فارسی اور عربی زبان بھی سیکھی- چھ سال کی عمر میں قرآن سے آشنا ہوئے تو ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسے مکمل فرما لیا-
عبد القادر نے اپنی پہلی شاعری اپنے چچا جو کہ ان کے پہلے مربی اور اس راہ پر چلانے والے تھے، کی خدمت میں پیش کی- شروع میں وہ اپنا تخلص ’’رَمزی‘‘ لکھتے تھے پھر بعد میں مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی کے باطنی فیوض سے ارادت کے ساتھ آپ ہی کے ایک مصرع کہ ’’بیدل از بی نشان چہ گوید باز‘‘ ﴿۱﴾ کی نسبت سے اپنا تخلص ’’بیدل‘‘ رکھ لیا-
آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بیدل نے اپنی پہلی شاعری دس سال کی عمر میں کی- آپ نے علمائ و شعرائ کی صحبت کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے بلند پایہ شعرائ کو بھی زیرِ مطالعہ رکھا- آپ کے آثار ان بزرگوں کے اشعار سے آپ کی گہری وابستگی کی گواہی دیتے ہیں- آپ پہلے سَبکِ خراسانی ﴿Khurasani Style﴾ اور سَبکِ عراقی ﴿Iraqi Style﴾ کا رُجحان رکھتے تھے لیکن دہلی آنے کی وجہ سے سَبکِ ہندی ﴿Hindi Style﴾ کی طرف متوجہ ہوئے-
آپ کی نوجوانی کے زمانہ میں شاہجہان ﴿حکومت: ۷۳۰۱- ۸۶۰۱ھ﴾ کی بیماری کے بارے خبریں عام ہونا شروع ہوئیں اور اقتدار کے حصول کے لیے اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے ’’عظیم آباد‘‘ فسادات کا بنیادی مرکز بن چکا تھا- اسی دوران میرزا قلندر نے بیدل کو ان کے ماموں میرزا ظریف کے سپرد کر دیا- میرزا ظریف ایک روحانی اور محقق بزرگ تھے جنہوں نے اپنی ﴿صحبت کی﴾ تاثیر سے بیدل کو ایک ادبی اور عرفانی شخصیت بنا دیا اور ان کی فلسفہ ، تصوفِ عملی، کلام، فقہ، حدیث اور تفسیر سے واقف کرنے میں اہم کردار ادا کیا-
بیدل ۱۷۰۱ھ ﴿۱۶۶۱ئ﴾ میں میرزا ظریف کے ساتھ ﴿بھارت کی ریاست﴾ ’’اُڑیسہ‘‘ گئے جہاں ان کی شاہ قاسم ھو اللھی سے واقفیت ہوئی جو حکمت و عرفان میں مہارت رکھتے تھے- سن ۵۷۰۱ھ ﴿۴۶۶۱ئ﴾ میں دھلی کی طرف سفر کیا اور اس شہر میں ایک بزرگ عارف شاہ کابلی کی خدمت میں پہنچے- اس زمانے کے ایک اور بزرگ عارف مولانا کمال الدین بہاری قادری تھے ، ان کے ساتھ بھی بیدل کو دلی ارادت تھی- اس دور کے برگزیدہ صوفیائ میں سے ایک شاہ فاضل تھے جو شاعری و نثر دونوں میں کمال مہارت رکھتے تھے، ان کا شمار بھی بیدل کے اساتذہ میں ہوتا ہے- بیدل خود ﴿اپنی کتاب﴾ ’’چہار عنصر‘‘ میں شاہ قاسم ھو اللھی، شاہ کابلی، شاہ ملوک، شاہ یکہ آزاد، شیخ کمال بہاری اور شاہ فاضل کو اپنا معنوی پیر اور روحانی استاد شمار کرتے ہیں - دہلی میں بیدل روزگار کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے لیکن جب اورنگزیب کے شہزادے محمد اعظم شاہ نے بیدل سے اپنی شان و شوکت کی مدح سرائی میں شعر لکھنے کا کہا تو وہ استعفیٰ دے کر دہلی سے چلے گئے- بیدل کئی سال تک ’’اکبر آباد‘‘ ، ’’لاہور‘‘، ’’حسن آباد‘‘، ’’شاہ جہان آباد‘‘ اور ’’مَتُھرا‘‘ میں گھومتے پھرتے رہے-
’’سفینۂ خوشگو‘‘ کے مصنف کے مطابق بیدل خندہ رو، بلند و بالا قدو قامت اور جسمانی طور پر بہت ہی طاقتور شخصیت کے مالک تھے- ان کی تحریروں کے نمونے بھی موجود ہیں جن کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیدل ایک پختہ اور عمدہ خطاط بھی تھے- امرائ اور بزرگ ان کی عظمت کے بہت زیادہ قائل تھے- بیدل اپنے دور کے تذکرہ نگاروں میں بھی قابلِ ستائش رہے ہیں- المختصر خوشگو نے بیدل کے علم و معرفت کی تعریف کی ہے- بیدل نے اپنے زمانے کے بہت سے شعرائ و علمائ اور عارفوں سے ہمیشہ تعلق داری رکھی-
بیدل ۷۲، جمادی الثانی، ۶۹۰۱ھ ﴿۵۸۶۱ئ﴾ کو اپنی زندگی کے درمیانی دور میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ دہلی آئے اور وہیں اقامت اختیار کر لی- وہ چونکہ معاشی تنگدستی کی وجہ سے حال و بے حال تھے تو اپنے محلے کے ایک امیر سے امداد طلب کی- حاکم نواب شکر اللہ خان نے ایک گھر بیدل کے حوالے کیا اور اس کے لیے ایک وظیفہ بھی مقرر کر دیا جو عمر بھر انہیں کو ملتا رہا- بیدل عمر بھر اسی گھر میں رہے- ۴صفر، ۳۳۱۱ھ ﴿۵،دسمبر، ۰۲۷۱ئ﴾ کو جب ان کا وِصال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی گھر میں دفنایا گیا- بیدل کا مزار عرصہ دراز تک ان کے چاہنے والوں کی زیارت گاہ بنا رہا لیکن بعد کے فتنہ و فساد میں خصوصاً نادر شاہ اور افغانیوں کی دہلی پر لشکر کشی کے دوران ان کا مقبرہ بھی حادثاتِ زمانہ کا شکار ہو گیا اور اب اس کی جگہ معلوم نہیں ﴿۱/۲﴾- افغانستان میں ان سے منسوب ایک آرامگاہ جعلی اور خود ساختہ ہے- ﴿۲/۲﴾
بیدل کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی- وہ ’’چہار عنصر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:-
’’اوائل جوانی میں وہ عارفانہ مکاشفہ کی طے میں اس موضوع سے آگاہ رہے ہیں- عمر کے آخری حصہ میں ایک بیٹے کے باپ بنے کہ جس نے چار بہاروں سے زیادہ عمر نہ پائی اور اب اس کے پاس اس کے سوگ میں کہے دل سوز اشعار ہیں‘‘-
بیدل کی تحریروں میں فارسی زبان کے تقریبا تمام عمدہ شاعروں کی تاثیر دیکھی جا سکتی ہے- اسی طرح برصغیر، تاجیکستان اور افغانستان کی شاعری اور نثر بیدل سے متاثر ہوتی رہی ہے- بیدل کی شاعری اور نثر نے ان کے شاگردوں اور تقلید کرنے والوں بالخصوص غالب دہلوی کے ذریعے اردو زبان کو بھی متاثر کیا ہے -﴿۳﴾
افغانستان اور تاجکستان میں بیدل کے یومِ وصال پر ’’عرسِ بیدل‘‘ کی تقریبات ہوتی ہیں اور بیدل شناسوں اور بیدل کے عقیدت مندوں کی شرکت سے ’’بیدل خوانی‘‘ کی محافل سجائی جاتی ہیں- ان ممالک میں بیدل کی کتب کی فراوانی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام بھی بیدل کی شاعری کو پسند کرتے ہیں-
بیدل دہلوی کی مدح و ستایش کرنے والوں اور ان کے دیوانوں میں اقبال لاہوری بھی شامل ہیںاور اپنی شاعری میں کبھی بیدل کا ایک مصرعہ یا کبھی پورے شعر کو بطورِ تضمین ذکر کرتے ہیں- بیدل اور غالب کی مابین موازنہ کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ غالب نے بیدل کے شعر کی صرف ظاہری صورت کی طرف توجہ کی ہے اور بیدل کے شعری معنی سمجھنے سے قاصر رہے ہیں- اقبال کی نظر میں شنکر اچاریہ جو کہ اپانیشدوں کا مشہور شارح ہے، کے بعد بیدل برصغیر کے دوسرے عظیم مفکر ہیں اور اپنے ہم زمانہ شعرائ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بیدل کی شاعری کی تفہیم کی طرف متوجہ ہوں- اقبال نے بیدل کا اپنے زمانے کے فرانسیسی فلسفی ہنری برگسان سے بھی موازنہ کیا ہے ﴿مطالعۂ بیدل فکرِ برگسان کی روشنی میں، از علامہ اقبال﴾ - ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شاعروں کی ایک جماعت بیدل کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور ان سے متاثر بھی ہوئی ہے-
بیدل کی تحریروں میں پیچیدہ عارفانہ مضامین، تشبیہات، استعارے، خوبصورت فنی ترکیبیں کثرت سے دکھائی دیتی ہیں- بیان کرنے کی مہارت اور عمدگی ، تخیل کی طاقت اور اس کی تمثیل بیان کرنے کی قدرت جو کہیں از حد پائی جاتی ہے، یہ تمام فنی محاسن بیدل کو سَبکِ ہندی ﴿Hindi Style﴾ کے شعرائ میں ایک ممتاز حیثیت بخشتے ہیں- بالخصوص بہت سی علاماتِ رموز سے استفادہ کرنا جیسا کہ ’’آینہ‘‘ بیدل کی شاعری میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے، یہ ان کی تحریروں کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے- انہی نئی ترکیبات کے استعمال کی وجہ سے تذکرہ نویس عام طور پر بیدل کو ایک نئے سَبک کا موجد شمار کرتے ہیں-
بیدل کے افکار بہت بلند ، گہرے اور اعلیٰ ہیں- وہ ان چند شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بلند و بالا رموز کو فلسفیانہ افکار کے شاعرانہ اندازِ بیان اور معرفت کے تجربات سے عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے- بیدل کو فلسفیانہ شاعر بھی کہتے ہیں اور یہ بات شاعر کی وجود و حیات کے موضوع پر ایک خاص نکتۂ نظر کی بھی غمازی کرتی ہے- بیدل وحدت الوجود کے قائل عارف ہیںاور ان کے بہت سے اشعار انہیں محی الدین ابن عربی جیسے مسلمان بزرگ عارف کے قریب لے جاتے ہیں-
بیدل کے اشعار میں فلسفی کے شکوک و شبہات کے رنگ و بو کا شائبہ تک نہیں ملتا لیکن بیدل کہیں کہیں یہ وہم پیدا کر دیتے ہیں کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح شک میں مبتلا ہے- در اصل ان کی شاعری میں جو عارفانہ حیرت ہے وہ عقل کی حیرت سے الگ ہے- بیدل کی نظر میں جہان اور حضرت انسان حق کے مظاہر ہیں اور حضرت احدی اپنے حسنِ مطلق کے ساتھ ان آئینوں سے طلوع ہو کر تجلی فرما رہا ہے- بیدل اس معاملہ میں دوسرے بزرگ عرفائ کی بنسبت انسان کے حق تعالیٰ سے تعلق کے لیے فطرت کی اہمیت کا از حد قائل ہے-
بیدل غزل کو ظاہری اور معنوی وسعت بخشتا ہے- ان کے موضوعات کا میدان بہت ہی وسیع ہے اور ان کی زبان کو سمجھنے کے لیے ان استعارات اور رموز کا جاننا لازمی ہے جو ان میں استعمال ہوئے ہیں- قصیدہ گوئی میں بیدل زیادہ تر خاقانی شیروانی کے قریب ہو جاتا ہے اور ان میں صرف نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ اور حضرت علی ﴿ص﴾ کی تعریف کرتا ہے- اس کے اشعار توحید، جہان شناسی اور انسان شناسی کے موضوعات پر ہیں- بیدل کی غزل گوئی میں بیدل کے آثار میں توحیدی اور عرفانی پہلو وہ عمدہ امتیاز ہے جو سَبکِ ہندی کے دیگر غزل گو شاعران سے انہیں ممتاز کرتا ہے-
بیدل کی تصانیف کا تعارف:
بیدل کی نظم اور نثر میں بہت سی کتب موجود ہیں- یہ کتب کئی مرتبہ پاکستان، ہندوستان، تاجیکستان اور ایران میں چھپ چکی ہیں- کلیاتِ بیدل کابل ﴿افغانستان﴾ میں ۱۶۹۱ئ تا ۵۶۹۱ئ کے دوران شاعری کی تین جلدوں اورنثر کی ایک جلد میں چھپ چکی ہے- ایران میں اس کی اشاعتِ جدید اکبر بہداروَند اور پرویز عباسی داکانی کی کاوش سے ۷۹۹۱ئ میں چھپ چکی ہے-
بیدل کا پہلا عرفانی مجموعہ ’’محیطِ اعظم‘‘ مثنوی کی صورت میں ہے جو ۸۷۰۱ھ ﴿۷۶۶۱ئ﴾ میں مکمل ہوئی-اس مثنوی پر ایک مقدمہ نثر کی صورت میں موجود ہے جس میں بیدل نے اشارۃً اپنے زمانے کے شعرائ کا ذکر کیا ہے- ’’محیطِ اعظم‘‘ کو عرفانی ساقی نامہ بھی کہہ سکتے ہیں- اس مثنوی میں آٹھ ’’دور‘‘ ہیں جو عالَمِ وجود کے بنانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں- یہ مثنوی بیدل نے ابن عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ سے متاثر ہو کر لکھی- بیدل وجودِ ہستی کو میخانہ قرار دیتا ہے جس کا ساقی حق تعالیٰ ہے اور اس کے ازل و ابد کا مست انسان ہے- یہ مستی عشق و عرفان کی مستی ہے اور خدا اور انسان کے دائمی رابطہ کی نشاندہی کرتی ہے- ’’محیطِ اعظم‘‘ چند بار ایران کے شہر تہران سے ۰۹۹۱ئ میں چھپ چکی ہے-
بیدل کی ایک اور اعلیٰ عرفانی مثنوی ’’طلسمِ حیرت‘‘ ہے جو ۰۸۰۱ھ ﴿۹۶۶۱ئ﴾ میں لکھی گئی- اس مثنوی کو باطنی اور عرفانی طیر سیر کے طور پر پڑھنا چاہیے - بیدل کی انسان شناسی بالخصوص اس مثنوی میں ایک خصوصی جلوئوں کے رنگ بکھیرتی ہے- وہ وجود شناسی اور جہان شناسی کی ابتدائی مباحث کے بعد انسان کی طرف متوجہ ہوتا ہے- اس روحانی سفرنامہ میں بیدل انسان کے تن من کی بھی ایک سیر کرتا ہے-
’’طورِ معرفت‘‘ بھی ایک عظیم مثنوی ہے جو بیدل نے ہند کے مرکزی علاقوں میں ۹۹۰۱ھ ﴿۸۸۶۱ئ﴾ میں لکھی- کہا جاتا ہے کہ بیدل نے نواب شکر اللہ خان کے ساتھ ’’کوہِ بیرات‘‘ کے سفر کے دوران صرف دو دن میں یہ مثنوی لکھی ہے- اس مثنوی میں بیدل اشاروں کنایوں کی صورت میں کائنات کی مابعد الطبیعات کی تصویر کشی اور تفسیر کرتا ہے- حقیقت کا ان مظاہر میں مشاہدہ کرتا ہے- فکرِ عرفانی سے کائنات کا مشاہدہ بیدل کو لامکان کی طرف پرواز کی فرصت بخشتا ہے- مثنوی کے اختتام پر بیدل ترکِ اختیار اور خاموشی کی ترغیب کرتا دکھائی دیتا ہے اور آفاقی سیر دوبارہ پھراسے ذاتی سیر کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو بیدل کی تمام شاعری کی بنیادی اور اساسی فکر ہے-
بیدل کی اہم ترین مثنوی ’’عرفان‘‘ ہے جو ۴۲۱۱ھ ﴿۲۱۷۱ئ﴾ میں لکھی گئی - ’’عرفان‘‘ عشق کی بنیاد پر خدا اور انسان کے درمیان تعلق کے بیان سے شروع ہوتی ہے- بیدل عرفائ کی رسم کے مطابق اپنے خیالات کو خاص داستانوں کے ساتھ بیان کرتا ہے اور وجود کے مراتب کو عرفائ کے نکتہ نظر سے بیان کرتا ہے اور ہر فصل کو موضوع کی مناسبت سے ’’طور‘‘ ، ’’نقش‘‘ یا ’’جہد‘‘ کے نام دیتا ہے- بیدل اس مثنوی میں ہندوئوں کی داستانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور ان زمانے کی داستان نویسی کے مسائل مثلا ذہنی و زمانی بہائو کا تذکرہ بھی بیدل کے آثار میں دکھائی دیتا ہے- مجموعی طور بیشتر بزرگ عرفائ کے افکار اس مثنوی میںدیکھے جاسکتے ہیں لیکن بلاشبہ محی الدین ابن عربی کے خیالات و آرائ کی تاثیر اور وحدت الوجودی نظریات بطورِ خاص دوسروں سے زیادہ موجود ہیں-
بیدل کے نثری افکار بھی موجود ہیں جن میںسے سب سے اہم ’’چہار عنصر‘‘ ہے جو بیدل کی ذاتی زندگی کی خود نوشت ہے- بیدل نے اس کتاب کو ۱۹۰۱ھ تا ۶۰۱۱ھ ﴿۰۸۶۱-۵۹۶۱ئ﴾ کے عرصہ میں لکھا ہے- انہوں نے اپنی نثر کو اشعار سے بھی مزین کیا ہے اور جگہ جگہ غزلیات، رباعی، مثنوی بھی لکھی ہیں- ’’چہار عنصر‘‘ کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ آگ ، ہوا، مٹی اور پانی کے چار عناصر کی طرف اشارہ ہے- بیدل انسان کو ان چار عناصر کا مجموعہ شمار کرتے ہیں- بیدل نے اپنے اس زندگی نامہ میں مسلم و غیر مسلم علمائ و دانشمندان سے اپنے مباحثے بھی ذکر کرتا ہے جو ہندوستان کی فکری شناخت کے لیے بہت اہم ہیں- اس کتاب میں اس کے اپنے اور اپنے اساتذہ کے روحانی تجربات بھی منقول ہیں- اس کتاب میں بیدل کی نثر خاص طور پر شاعرانہ رنگ و بو کی حامل ہے اور کچھ متکلفانہ بھی نظر آتی ہے-
ایک نثر کی کتاب ’’نکات‘‘ ہے جو در حقیقت بیدل کے عقاید کا بیان ہے جو بیدل کی معرفت کے بنیادی نظریات اور تعلیمات پر مبنی ہیں- یہ کتاب بھی ’’چہار عنصر‘‘ کی طرح شاعری سے معمور ہے لیکن اس کی نثر اس سے رواں تر ہے- یہ بیدل کے فلسفیانہ اور عرفانی افکار کی سمجھ بوجھ کے لیے بہترین کتاب ہے-
بیدل کے خطوط بھی موجود ہیں جو ’’رُقعات‘‘ کے نام سے مشہور ہیں- یہ خطوط دوستوں اور چند علاقائی امرائ کو لکھے گئے ہیں- ان خطوط میں بھی عرفانی، اخلاقی اور مذہبی پہلو غالب ہے- بیدل کی مثنویوں اور نثری کتابوں کا ایک مجموعہ اس کی کلیات کی صورت میں بمبئی سے ۲۸۸۱ئ میں چھپ چکا ہے-
رقعات کے علاوہ بیدل کی تحریروں میں جہاں مختلف پہلو نظر آتے وہاں رباعی بھی موجود ہے- عام طور پر جس نے بیدل کا نام سنا ہوا ہے اور ان کے کچھ اشعار پڑھے اور یاد کیئے ہوئے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ بیدل ایک غزل گو شاعر ہے اور بیدل کی چمک دمک باقی اصنافِ شعر مثلا مثنوی ، رباعی وغیرہ سے زیادہ غزل میں پائی جاتی ہے- یہ خیال غلط ہے کیونکہ بیدل شاعری کے چاروں اصناف یعنی غزل، قصیدہ، مثنوی اور رباعی میں یکساں اور حیران کن مہارت رکھتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ ہم انہیں صرف ایک غزل گو شاعر شمار کریں- بیدل کی رباعیات کا وہ مجموعہ جو موجود ہے وہ اس قدر پُرمایہ، گہرا اور اثرگزار ہے کہ ایک قاری کی جان و روح کے ذوق کو ان رباعیات کا مطالعہ ایک مدت تک یا شاید عمر بھر جلا بخشتا رہے گا- میرزا بیدل فرید الدین عطار اور خیام جیسے ایرانی رباعی گو شعرائ میں بلند اور عمدہ مقام رکھتے ہیں اور پوری جرات سے کہا جاسکتا ہے کہ بیدل کی رباعیات معیار اور مقدار کے لحاظ سے آج تک کی تمام رباعیات جو موجود ہیں سے بلند بلکہ اعلیٰ ترمقام رکھتی ہیں- بیدل کا برصغیر ﴿پاک و ہند﴾ میں وہی مقام و مرتبہ ہے جو مولانا رومی کو ایران اور ترکی میں ہے اس کے باوجود ایران میں بیدل کی طرف بہت کم توجہ ہوئی ہے-
خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرزا عبد القادر بیدل اپنے زمانے کے تمام علوم و زبان مثلا عربی، فارسی، الہیات، ریاضیات، طبیعیات، طب، نجوم، رَمل، جَفر، تاریخ، منطق، موسیقی اور انشائ وغیرہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور ہندوستان کے اسطورہ ﴿کہانیوں﴾ اور فلسفہ کی کتب کے ماہر عالم تھے- ان سب کے علاوہ ہندوستان کے مشہور شاہنامہ ’’مہابھارتا‘‘ انہیں زبانی یاد تھی- وہ سنسکرت سے بھی واقفیت رکھتے تھے - بیدل نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ ﴿سے زائد﴾ مختلف اشعار اپنی نشانی کے طور پر چھوڑے ہیں-
بیدل کی شاعری اور نثر میں درج ذیل تصنیفات ہیں:-
۱- غزلیات:دیوان غزلیات بہت ہی ضخیم اور مفصل ہے جس میں غزلیات کے تقریبا پچاس ہزار اشعار ہیں-
۲- رباعیات: بیدل کی رباعیات کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے-
۳- قطعات، مخمسات، ترکیب بند اور ترجیع بند بھی بہت زیادہ لکھے ہیں-
۴- محیطِ اعظم: یہ مثنوی بیدل نے ۸۷۰۱ھ ﴿۷۶۶۱ئ﴾میں لکھی- اس مثنوی کے چھ ہزار اشعار ہیں-
۵- طلسمِ حیرت: جو ۰۸۰۱ھ ﴿۹۶۶۱ئ﴾ میں لکھی گئی- یہ ایک تمثیلی مثنوی ہے- اس کی چھ ہزار اشعار ہیں-
۶- طورِ معرفت: یہ بیدل کی ایک طویل مثنوی ہے جو ’’بیرات‘‘ کے پہاڑ پر اقامت کے دوران لکھی- اس میں ان قدرتی مناظر کی عکس بندی کی گئی ہے جو بیدل نے بیرات کے مقام پر مشاہد ے کئے- اس مثنوی کے تین ہزار اشعار ہیں اور یہ دو دن میں لکھی گئی ہے-
۷- عرفان: یہ مثنوی ۴۲۱۱ھ ﴿۲۱۷۱ئ﴾ میں مکمل ہوئی- اس میں گیارہ ہزار اشعار ہیں- اس مثنوی کو لکھنے میں تیس سال کا عرصہ صرف ہوا ہے- بیدل کو اس مثنوی پر ناز تھا-
۸- تنبیہ المہوسین: یہ مثنوی زر اور ہوس کے پجاریوں کی مذمت میں لکھی گئی اور اس میں دو سو دس اشعار ہیں-
۹- مثنوی بیانیہ: اس مثنوی میں ۶۳۵ اشعار ہیں جو گھوڑوں، ہاتھیوں اور تلواروں کے اوصاف میں لکھے گئے ہیں-
۰۱- قصاید: اس میں انیس قصیدے ہیں اور اکثر قصیدے نعتیہ ہیں- چند قصیدے اپنے دوست احباب اور محسنین کے بارے میں ہیں لیکن وہ خوشامد والے نہیں بلکہ دوستانہ اور شکرانے کے طور پر ہیں- بیدل کو انعام و اکرام کی بالکل طمع نہ تھی-
۱۱- چہار عنصر: نثر کی کتاب ہے جو بیدل کی زندگی کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کرتی ہے- یہ ۶۱۱۱ھ ﴿۴۰۷۱ئ﴾ میں مکمل ہوئی-
۲۱- رقعات بیدل: بیدل کے خطوط کا مجموعہ ہے جس کی تعداد ۳۷۲ ہے-
۳۱- نکات: یہ کتاب ’’چہار عنصر‘‘ کے مفہوم اور اقتباسات پر مشتمل ہے جو اختصار اور عمدہ اشعار کے ساتھ مرتب کیے گئے-