بیدل اور اقبال دو عظیم مسلمان شعرائ ہیں - ہماری ملّی اَنا نے جذباتی ، فکری اور رُوحانی سطح پر اپنے وجو دکو پوری توانائی کے ساتھ برقرار رکھنے کے لئے اب تک جو بلند مرتبت شعرائ پیدا کئے ہیں ان کے درمیان ان دونوں کا مقام بڑا رفیع ہے- ہم بر صغیر کے مسلمان بجا طور پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کی ہماری سیزدہ صد سالہ زندگی میں ہمارے دو ایسے شعرا ئ پیدا ہوئے جو ایک طرف اسلام کی تمام فکری اور ثقافتی روایات کے وارث ہیں اور دوسری طرف انہوں نے اپنے زمانے تک کے تمام فکر ِ انسانی کا جائزہ لے کر مستقبل پر حیات پرور انداز میں نگاہ ڈالی اور ایسا کلام چھوڑا جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری نوعِ انسانی کے لئے بصیرت افروز اور رُوح پرور ہے -
یہ ایک دعویٰ ہے جو بے دلیل نہیں -علامہ اقبال کے افکار کی طرف ، بالخصوص ان کی رحلت کے بعد ، ہم نے جو توجہ دی ہے اس کے زیرِ نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے درمیان خاصی تعداد میں ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو ا س دعویٰ کی دلیل میں کافی دلائل دے سکتے ہیں- مگر بیدل ایک ایسے شاعر ہیں جن کے سلسلے میں یہ نہیں کہا جا سکتا- ان کی طرف اِعتنا نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر غالب اور اقبال جیسے نابغۂ روز گار شعرائ ان سے مستفیض نہ ہوئے ہوتے اور اس استفاضے کا واضح ثبوت اپنے کلام میں نہ چھوڑ گئے ہوتے تو آج بمشکل دوچار آدمیوں کو بیدل کا نام معلوم ہوتا- اس کی دو وجوہات ہیں - ایک یہ کہ جب بیدل﴿ ۰۲۷۱ئ﴾ میں فوت ہوئے ہیں تو یہاں نہایت ہی المناک سیاسی خلفشار رونما ہوچکا تھا اور جب بڑے اندوہناک اور خونیں حادثات اور انقلابات کے بعد انگریز برصغیرپر قابض ہوئے اور حالات میں سکون پیدا ہوا تو بالخصوص مسلمان یہ بھول چکے تھے کہ وہ کیاتھے ؟ ان کا ثقافتی ورثہ کیاتھا ؟ اور ڈیڑھ صد سال کے طوفانی دور میں وہ کیاکچھ کھو چکے ہیں ؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ بیدل کے فکرِ رفیع تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عمودی بلندیاں طے کرنی پڑتی ہیں اور یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں-
بیدل کے سلسلے میں ان دقتوں کے ہوتے ہوئے مَیں اپنا فریضہ خیال کرتا ہوں کہ ان کے فکر کا نہایت ہی اجمالی طور پر اس طرح تعارف کرا دوں کہ اس کی امتیازی حیثیت نگاہوں کے سامنے موجود ہو جائے - اس غرض کے لئے اس فکری ماحول کی طرف اشارہ کرناضروری ہے جس میں اسلام کا ظہور ہوا- اسلام جزیرہ نمائے عرب سے شروع ہوا جس کے ایک طرف سامی تہذیب کا وطن تھااور دوسری طرف ایرانی تہذیب اپنی زندگی کے ایک خاص موڑ پر پہنچ چکی تھی - اسلام نے دونوں تہذیبوں کے عیوب و نقائص کا جائزہ لیا اور آیاتِ قرآنی کے ذریعے اخلاقی اور فکری لحاظ سے ایسی تعلیمات پیش کیں جو انسانی گذران کو ہر لحاظ سے خوشگوار بنانے والی تھیں-
چونکہ برصغیر تک پہنچنے کے لئے اسلام کو ایران میں سے ہو کر آنا پڑا اس لئے اس وقت کے ایران کا فکری لحاظ سے یہاں مختصر سا ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا -
زرتشت کی اخلاقی تعلیمات خاصی حیات افروز تھیں لیکن یہ حکیم بارہ سو سے ایک ہزار سال قبل مسیح کے درمیان ہو گزرا ہے اور اہلِ تحقیق بتاتے ہیں کہ پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح میں اس کا نام اور کام دونوں دھندلے تصورات کی صورت اختیار کر چکے تھے - تیسری صدی عیسوی میں مانی کا ظہور ہوا اور اس کے افکار کا بنیادی نقص اس بات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ ہر قسم کی تولید کو کائنات کی غرض و غایت کے منافی خیال کرتاتھا - وہ کہتا تھا کہ اس طرح نور کی مدتِ اسیری طویل ہو جاتی ہے جب کہ مقصد کائنات صرف اس طرح پورا ہوتا ہے کہ نور کو ظلمت کی قید سے آزاد کرایا جائے - مشرقی ایران میں ان دنوں بدھ مت پھیل چکا تھا اور بدھوں میں ترکِ دنیا کے ذریعے نروان یعنی نجات حاصل کرنے کا تصوّر عام پایا جاتا تھا - ظاہر ہے مانی اور بدھ کے پیروانِ کار نے ظہورِ اسلام کے وقت انسانی زندگی کو آگے بڑھنے اور فروغ پذیر ہونے سے بالکل روک دیا تھا - مزدک نے اپنے خیالات کی اشاعت پانچویں صدی عیسوی کے اواخر میں کی مگر وہ بھی اپنی اشراکیت کے باوجود مانی اور بدھ کی طرح ترکِ دنیا کا پرچار کرتا تھا- ادھر برصغیر میں بدھ کی تعلیمات کے علاوہ منو کے معاشرتی قوانین موجود تھے جونچلے طبقے کے لئے سخت جابرانہ تھے -
اس طرح جب منفی خیالات نے ایران اور ہند کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا توا سلام کا ظہور ہوا - اس نے اعلان کیا کہ انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے - جسمانی ، ذہنی اور رُوحانی لحاظ سے اس کے حسن و کمال کا کیا کہنا- اسلام نے وضاحت کی کہ اسی بنا پر اُولوالعزم پیغمبر بھی اپنے ہاں فرزندوں کی ولادت کیلئے دعائیں مانگتے رہے ہیں - اسلام کے اس اعلان کی پوری حقیقت مذکورہ بالا فکری پس منظر کو جانے بغیر واضح نہیں ہوتی - اس کے ذریعے مانی کے افکار کی تردید کی جارہی تھی اور انسانی زندگی کوکرئہ ارض ہر طرح خوش آئند بنایا جا رہا تھا - اس طرح اسلام نے ترک کی بجائے تسخیر کی تعلیم دی اور انسانی معاشرہ میں اخوت اور مساوات کا درس دیا- یہ تعلیمات ایران اور ہند دونوں کے لئے بالکل نئی تھیں - چونکہ ان سطور کا حقیقی مقصد فکری سطح پر بیدل کا تعارف کرانا تھا، مزید تاخیر کو روا نہ رکھتے ہوئے ان کا ایک شعر پیش ہے :
بگوشم از شبستان عدم آواز می آید
کہ چوں طاؤس اگر از بیضہ وارستی چراغاںکن
’’میرے کانوں میں عدم کے حرم سرا سے آواز آرہی ہے کہ اگر تو مور کی طرح ہی انڈے سے باہر نکلا ہے ﴿پھر بھی﴾ چراغاں کر‘‘-
کہتے ہیں کہ تم عدم سے اس دنیا میں آئے ہو- تمہاری یہ ولادت ہرگز ہرگز رنج وغم کا موجب بلکہ خوشی کا باعث ہے- اس موقع پر چراغاں ہونا چاہیے - کیونکہ اس ولادت نے عجیب وغریب امکانات تمہاری دسترس میں لا کر رکھ دیے ہیں- عدم سے دنیا میں آنے کے متعلق ان کا یہ شعر بھی قابل توجہ ہے :
عدم بآں نے نشانیِ رنگ گلشنی داشت کز ھوایش
چوبال طاؤس ھرچہ دیدم زیبضہ رست است گل بداماں
’’عدم ایسا بے نشان و رنگ باغ ہے کہ جس کی ہوا سے میں نے جو کچھ بھی دیکھا کہ اس کائنات میں تخلیق ہوا ، مور کے پر طرح اس کا دامن پھولوں سے بھرا ہوا ہے‘‘-
کہتے ہیں دیکھو تو سہی ، جو چیز بھی دنیا میں پیدا ہوتی ہے ، بڑی حسین وجمیل ، رنگین و رعنا اور نظر افروز ہے - اب ہم ذرا غور کریں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تعلیمات خالص اسلامی ہیں- صرف انہیں شاعرانہ انداز میں بیان کیا جا رہا ہے اور ان کامقصد ان افکار کی اصلاح ہے جو تخلیق کے سلسلے میں غلط ہیں مفکرین کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں پھیل چکے تھے - اب جلد از جلد بیدل اور اقبال کے باہمی تعلق کا ذکر ہو گا لیکن اس سے پہلے بیدل کا ایک اور شعر پیش کر دینا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیدل کے زمانے میں سادہ لوح مسلمانوں نے مانی اور بدھ کے خیالات سے متأثر ہو کر نجات و نروان اور عقبلی کی خاطر اپنی ساری زندگی اجیرن بنا ڈالی تھی حالانکہ اسلام کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا- اس نے بوضاحت کہا تھا کہ مثبت انداز میں اپنی شخصیت کی تعمیر کر کے ہم دنیا کو بہشت بریں کا نمونہ بنا سکتے ہیں ، اور جب طبعی موت آئے گی ، اس حسنِ عمل کی وجہ سے ہمیں بہشتِ جاودانی میں جگہ ملے گی- بیدل کا وہ شعر سنیے :
خرمنِِ ہستی ببرقِِ وھمِ عقبٰی سوختیم
آہ ازاں آتش کہ ما در یادش اینجا سوختیم
’’ہم نے حاصلِ زندگی کو عقبیٰ کے خیال میں جلا دیا ہے، افسوس اس آگ سے جس کی یاد میں ﴿ڈرتے ہوئے﴾ ہم یہاں جل رہے ہیں ‘‘-
’خرمنِ ہستی‘کی ترکیب اس شعر میں بڑی معنی خیز ہے - زندگی کو ایک نہایت ہی گراں قیمت چیز بتایا گیا ہے جسے آج بھی ہم یونہی وہمِ عقبیٰ میں وقف جہنم کر دیتے ہیں - ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیدل بے مقصد خیال آرائی نہیں کرتے بلکہ عجمی افکار کے مقابلے میں اسلامی صالح اور حیات افروز تعلیمات بیان کرتے ہیں اورزیادہ تر یہی چیز علامہ اقبال کی بیدل سے وابستگی کا موجب تھی-
اب بیدل اور اقبال کا باقاعدہ ذکر شروع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ حضرت علامہ اقبال نے اپنی نظموں اور دیگر تحریرات میں کون سے مواقع پر اور کس انداز میں بیدل کا نام لیا ہے- ﴿۴۰۹۱ئ ﴾میں انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’تصویرِ درد‘‘ پڑھی - ان دنوں حکومت کی طرف سے زبان بندی کا حکم تھا مگر آپ کے دل میں ہندوستان کی حالتِ زار کی وجہ سے بے پناہ درد پایا جاتا تھا -یہ درد انہوں نے اپنی اس نظم میں بیان کیا - پہلا شعر تھا:
نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے ، بے زبانی ہے زباں میری
نظم کے پہلے بند میں تمام تر اسی بے زبانی اور خاموش گفتگوکا ذکرہے اور بند کے اختتام پر بیدل کا یہ شعردرج کیا گیا ہے:
دریں حسرت سرا عمر یست افسون جرس دارم
ز فیضِِ دل طپیدن ھا خروشِِ بے نفَس دارم
’’اس غمزدہ سرزمین میں، عرصہ دراز سے ، مَیں کارواں کی گھنٹی کی سی کشش رکھتا ہوں- دل کے تڑپنے کی وجہ سے میری فریاد بے آواز ہے ‘‘-
ذراترکیب ’خروش بے نفس ‘ پر غور کیجئے - کیا اس تمام بند کا خروش اس الہام خیز ترکیب کا مرہونِ منت نہیں ؟بیدل کی اس غزل کا دوسراشعر ہے:
دریں گلشن نوائے بود دامِ عندلیبِ من
ز بس نازک دلم از بویٔ گل چوبِِ قفس دارم
’’اس باغ میں میری بلبل ﴿کو پکڑنے﴾ کا جال میری دلسوز آواز تھی- میرے دل کی بے انتہائ نزاکت کی وجہ سے پھول کے خوشبو کے سبب میرے پاس پنجرے کی شاخیں موجود ہیں‘‘-
بیدل کہتے ہیں کہ اس گلشن میں میری عندلیب ایک نوائے دل سوز اپنے اندر لئے پھرتی ہے جو بوئے گل کے ذریعے ہر طرف پھیل گئی یہ ایک اچھوتا خیال تھا - علامہ کے ذہنِ خلّاق نے بیدل سے اخذ کر کے اسے بڑے اثر انگیز اور صریح پیرایۂ بیان کے ساتھ یوں ادا کیا :
اٹھائے کچھ ورق نرگس نے ،کچھ لالے نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
یہ پہلی نظم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال بیدل کے فکر اور اسلوبِ بیان سے متأثر ہو رہے تھے- صرف میرزا غالب کی حسین و جمیل ، فکر انگیز اور اثر پرور تراکیب ہی بیدل کی تراکیب کا واضح پرتو اپنے اندر نہیں رکھتیں بلکہ علامہ اقبال کے حسنِ کلام کا خمیر بھی بڑی حد تک بیدل کے دلآویز اندازِ ابلاغ سے تیار ہوا ہے- معلوم ہوتا ہے﴿ ۴۰۹۱ئ﴾ میں اقبال بیدل کے اظہارو ابلاغ کے سانچوں سے خاصے مسحور تھے- ہم اس نقطہ نگاہ سے تصویرِ درد کا مزید مطالعہ کرتے ہیں -
علامہ کی اس مشہور نظم کا پانچواں بند ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے اس لیے کہ اس ایک ہی بند میں دو تین اشعار ایسے آگئے ہیں جو بیدل کا ترجمہ معلوم ہوتے ہیں- آپ پہلے علامہ کے اشعار پڑھیے اور پھر بیدل کے متعلقہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اقبال:
کیا رفعت کی لذّت سے نہ دل کو آشنا تو نے
گزاری عمر پستی میں مثال نقشِ پا تو نے
فدا کرتا رہا دل کو حسینوں کی ادائوں پر
مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
سراپا نالۂ بیدادِ سوزِ زندگی ہو جا
سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے!
کنوئیں میں تونے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
ارے غافل! جو مطلق تھا مقیّد کر دیا تو نے
بیدل:
اے امل آوارہ فرصت را چہ رسوا کردہ ای
نوحہ کن در یاد امروزی کہ فردا کردہ ای
’’اے آوارہ آرزو! فرصت کو تم کیا رسوا کر دیا ہے، تو آج کی یاد میں گریہ کر جو کہ کل کے لیے کیا ہوا ہے‘‘-
حسن مطلق رامقید تا کجا خواہی شناخت
آہ ازاں یوسف کہ در چاہش تماشا کردہ ای
’’حسنِ مطلق کو تم کب تک مقید ہی سمجھتے رہو گے- افسوس کہ اس یوسف کا تم نے صرف کنویں میں ہی نظارہ کیا ہے‘‘-
پشت وروی صفحۂ ادراک تست اسلام و کفر
سطرِ قرآں را ز کج بینی چلیپا کردہ ای
’’اسلام اور کفر تیرے ادارک کے صفحہ کا درست اور غلط ہونا ہے- قرآن کے احکامات کو تو نے اپنی ناسمجھی سے پیچیدہ بنا دیا ہے‘‘-
صورتِ آئینہ ای ، از حالِ خود غافل مباش
گرہمہ در خانہ باشی رو بصحرا کردہ ای
’’توخود شیشے کے مثل ہے اپنے حال سے غافل نہ ہو- اگرچہ سب کچھ گھر میں ہو ﴿پھر بھی﴾تو نے چہرہ صحرا کی طرف کیا ہوا ہے‘‘-
ساغرت بر سنگ زن تا نالہ ای گردد بلند
نشۂ ہنگامۂ پستی دوبالا کردہ ای
’’تو اپنے جام کو پتھر پر مار تاکہ کوئی آواز تو بلند ہو- تو نے پستی کے ہنگامہ کے نشہ ﴿ذلت﴾ کو دوبالا کیا ہوا ہے‘‘-
ہر کجا عشاق دامانِ مژہ افشردہ اند
قطرۂ را دیدہ ای گر سیرِ دریا کردہ ای
’’عاشقوں نے ہر جگہ اپنی پلکوں کے دامن کو پھیلایا ہوا ہے- اگر تو نے سمندر کی سیر بھی کر لی ہے تو کسی ﴿قیمتی﴾ قطرہ کو دیکھا ہے ‘‘-
اقبال کے بنداور غزل بیدل کے اشعارکی بنیادی روح پر غور کیجئے- ان میں ایک جدید شعورِذات کی تڑپ ہے، آگاہی کی ایک نئی سطح ہے جس پر دونوں اپنے معاصرین کو فائز دیکھنا چاہتے ہیں - ساتھ ہی دونوں شاعروں کی فطرت میں ایک زندہ و بیدار حسِ حرکت ہے جس نے ان کے اشعار میں ایک توانائی بھر دی ہے-یہ روح دراصل دونوں شاعروں کی اپنی روح ہے - معلوم ہوتا ہے اس عمیق مماثلت کی بنا جب اقبال نظم’’ تصویرِ درد‘‘لکھ رہے تھے تو بیدل کا کلام الہام کی صورت اختیار کر کے ان کے شعورِ تخلیق کا اس طرح جزو لاینفک بن گیا تھاگویا یہ ان کا اپنا سرمایہ ہے - غور فرمائیے، اسی احساسِ تملک کا اثرہے کہ بند میں ردیف کی آواز ایک ہوتے ہوتے رہ گئی ہے- علاوہ بریں تمام نظم کے جوش ِ فصاحت میں بھی ہمیں بیدل گویا نظر آتا ہے- اس کے باوجود ’’تصویرِ درد‘‘ اسلوب اور انداز ِ فکر کی ہم آہنگی کا اظہار تو کرتی ہے ، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان ایام میں حکمتِ بیدل بھی اقبال کے لئے جاذبِ توجہ تھی- ’’تصویرِ درد‘‘ میں بیدل کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن حضرت علامہ اقبال ’’بانگِ درا ‘‘کے تیسرے حصے میں بیدل سے استفادے کا باقاعدہ ذکر کرتے ہیں - یہ وہ زمانہ تھا جب آپ یورپ سے تحصیلِ علم کے بعد واپس آچکے تھے- آپ کی نگاہ میں وسعت اور افکار میں پختگی پیدا ہو چکی تھی- ’’بانگِ درا‘‘ پہلی بار ﴿۴۲۹۱ئ﴾ میں طبع ہوئی مگر اس سے پہلے ﴿۵۰۹۱ئ﴾ میں ان کی مثنوی ’’اَسرارِخودی‘‘ چھپ چکی تھی- ’’بانگِ درا‘‘ کے تیسرے حصے میں ﴿۸۰۹۱ئ﴾ سے بعد کی نظمیں ہیں - ان میں سے بعض کے نیچے سنہ تصنیف ﴿ ۲۱۹۱ئ﴾ درج ہے- اس سنہ کی نظموں کے بعد اور’’ نظم خضرِ راہ‘‘ سے پہلے جو ﴿۲۲۹۱ئ﴾ میں لکھی گئی تھی، انہوں نے مذہب کے عنوان سے چھ اشعار پر مشتمل ایک قطعہ کہا جو میر زا بیدل کے ایک شعر کی تضمین ہے - یہاں وہ میرزا بیدل کو مرشد کامل کے خطاب سے یاد کرتے ہیں - اِس قطعے سے پہلے انہوں نے تین قطعات میں میر رضی دانش ، ملک قمی اور صائب کے اشعار پر بھی تضمین کی ہے لیکن ان تینوں شعرائ کے متعلق انہوں نے کوئی خاص تعریفی کلمہ استعمال نہیں کیا- مگر بیدل کو وہ مرشد کامل کہتے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ بیدل کا خاص احترام ان کے دل میں موجود تھا - ’’بانگِ درا‘‘ میں نظموں کی ترتیب زمانی نظر آتی ہے- اس لئے جب ہم اس کے تیسرے حصے کی متذکرۃ الصدر نظموں اور مثنوی ’’اَسرارِ خودی ‘‘کے سالہائے تصنیف کو سامنے رکھتے ہیں تو خیال گزرتا ہے کہ بیدل کے شعر پرتضمین اس زمانے کے لگ بھگ ہوئی ہے جب علامہ نے مثنوی ’’اَسرارِ خودی‘‘ لکھی - یہ مثنوی فلسفیانہ ہے جس میں فلسفہ ،مذہب اور تصوف کے مطالب سامنے رکھ کر اَسرارِ ذات بیان کیے گئے ہیں -اسے اب پڑھ لینا مناسب ہوگا :
تعلیمِ پیر فلسفہ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو ہستیٔ غائب کی ہے تلاش
پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا
ہے شیخ بھی مثالِ برہمن صنم تراش
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میںہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
مذہب ہے جس کا نام وہ ہے اک جنون ِخام
ہے جس سے آدمی کے تخیل کو ارتعاش
کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش
’’با ہر کمال اندکی آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدہ ای بے جنون مباش‘‘
’’ہر کمال کے ساتھ تھوڑا سا درد بھی ٹھیک ہے- اگرچہ تو عقلِ کل ہی بن گیا ہے پھر بھی بے جنون نہ ہو ‘‘-
یہ قطعہ بھی فلسفیانہ ہے -علامہ اقبال فلاسفہ مغرب کے افکار کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے فلسفہ زندگی اپنے مرشد ِ کامل بیدل عظیم آبادی سے سیکھتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان چاہے جس قدر کمالِ خرد حاصل کر لے مگر وہ جنون کے بغیر بالکل بیکار ہے- اسی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’اَسرارِ خودی ‘‘کی تصنیف کے وقت حضرت علامہ، بیدل کا مطالعہ ایک مفکر شاعر کی حیثیت سے کر رہے تھے اور اس کے خیالات کو باقاعدہ قبول کر رہے تھے- اظہار و ابلاغ کی خوبیوٰں کو اپنانے کے بعد اگلا قدم بیدل کے افکار سے استفاضہ تھا جو اس قطعے سے ظاہر ہوتا ہے - اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ علامہ انہیں مرشد ِ کا مل یونہی نہیں کہتے -
علامہ مرحوم نے بیدل کا ذکر ایک مفکر شاعر کی حیثیت سے اپنے خطبات میں بھی کیا ہے - وہاں علامہ ان کا پورا نام عبدالقادر بیدل عظیم آبادی درج کرتے ہیں - اسی طرح علامہ کے ملفوظات میں بھی بیدل کے فلسفہ زندگی کا ذکر آیا ہے جس کی طرف اشارہ عبداللہ انور بیگ نے بھی اپنی تصنیف ’’شاعرِ مشرق ‘‘میں بھی کیا ہے - اپنے ایک ملفوظ میںغالب کے مقابلے میں بیدل کے فلسفے کو علامہ مرحوم نے ’’حرکی‘‘ کہا ہے - وہ کہتے ہیں کہ اپنے اسی نوعیت کے فلسفۂ حیات کی وجہ سے ناصر علی سرہندی کی طرح بیدل افغانستان اور وسط ایشیائ میں مقبول ہیں- اس موقع پر حرکت و عمل اور صفاتِ مردانہ سے متعلق بیدل کے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں ، لیکن طوالت کے خوف سے ہمیں یہ بات زیادہ مناسب نظر آتی ہے کہ آگے بڑھا جائے اور بتایا جائے کہ اور کون کون سے مواقع پر علامہ مرحوم نے بیدل کا ذکر کیا -علامہ کے تخیل اور تفکر کا شاہکار ’’جاوید نامہ‘‘ ﴿۲۳۹۱ئ﴾ میں طبع ہوا - اس کی ایک غزل بیدل کا’’ فیضِ جاریہ ‘‘ہے اور پروفیسر محمد منور اپنے مقالے’ علامہ اقبال کی فارسی غزل ‘﴿’صحیفہ ‘ اقبال نمبر حصہ دوم ، جنوری ۴۷۹۱ئ ﴾ میں بجا طور پر فرماتے ہیں کہ بیدل کے ساتھ علامہ کی فنی یگانگت ہی نہیں بلکہ رویے اور نقطہ ٔ نظر کی مماثلت بھی اس غزل سے ظاہر ہوتی ہے- یکے بعد دیگرے دونوں شاعروں کی غزلوں کا مطالعہ فرمائیے:
اقبال:
بہ آدمی نر سیدی، خدا چہ می جوئی
ز خود گریختہ ای ،آشنا چہ می جوئی
’’تو انسان تک نہیں پہنچا ، خدا کی کیا تلاش میں ہے، تو خود سے فرار ہے ، کوئی آشنا کیا ڈھونڈتا ہے‘‘-
دگر بشاخِ گُل آویز و آب و نم در کش
پریدہ رنگ ز بادِ صبا چہ می جوئی
’’پھر پھول کی شاخ سے پیوستہ ہو کر اس کی روح کو اپنے اندر اتار، اے اُڑی رنگت والی بادِ صبا سے تو کیا تلاش کرتا ہے-‘‘
دو قطرہ خونِِ دل است آنچہ مشک می نامند
تو اے غزالِ حرم در خطا چہ می جوئی
’’جس خوشبو کا مُشک نام ہے وہ دل کے خون کے دو قطرے ہی تو ہیں، تو حرم کا ہرن ہے ’’خطا‘‘ میں کیا ڈھونڈ رہا ہے‘‘-
عیارِ فقر ز سلطانی و جہانگیر یست
سریرِِ جَم بطلب، بوریا چہ می جوئی
’’فقر کی آزمائش سلطانی اور جہانگیری میں ہوتی ہے ، تو جمشید کے تخت کی طلب کر ، بوریا کے بستر کو کیا تلاش کر رہا ہے‘‘-
سراغ او زِ خیابانِ لالہ می گیرم
نوائے خوں شدہ ما زما چہ می جوئی
’’میں اس ﴿محبوب حقیقی﴾ کا سراغ سرخ رنگ کے لالہ کی گلیوں میں پاتا ہوں، ہماری خون میں ڈوبی صدا ہے ، تو ہم سے کیا چاہتا ہے‘‘-
نظر ز صحبتِ روشندلاں بیفزاید
زدردِ کم بصری توتیا چہ می جوئی
’’روشن دل والوں کی صحبت سے نگاہ تیز ہوتی ہے، تو آنکھوں کی کم روشنی کے لیے سرمہ کیا ڈھونڈ ھ رہا ہے‘‘-
قلندریم و کرامات ما جہاں بینی است