برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اور قومی افتخار
قوموں کی ترقی کا دارومدار ان کی تاریخ پر ہوتا ہے جس میں روایات، تہذیب وتمدن اور علمی و ادبی اور ثقافتی ورثہ شامل ہے- اپنی تاریخ پہ افتخار کرنے والی قوم اقوامِ عالم میں سر بلندی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق رکھتی ہے جبکہ اپنی تاریخ پہ شرمندہ اور نادم اقوام کے حصے میں بالآخر نفسیاتی غلامی ہی آتی ہے-
برصغیر پاک و ہند میں مسلم دورِ حکومت کے متعلق ہمیں اپنے موجودہ علمی تناظر میں بالعموم زیادہ حوصلہ افزا حقائق سننے کو نہیں ملتے- لیکن جب تاریخ کے چھپے گوشوں سے پردہ فاش ہوتا ہے تو ایسی شاہکار تصویر دکھائی دیتی ہے جس پہ ہر مسلمان فخر کر سکتا ہے- چاہے معیشت و تجارت ہو، فنون لطیفہ کی بات ہو، تہذیب و ثقافت ہو، فنِ تعمیر ہو، روحانی و اخلاقی اقدار ہوں یا ادب کی تخلیق ہو، ہر شعبہ میں جنوبی ایشیاء کامسلم دورِ حکمرانی اپنے دور کے بہترین خطوں میں سے محسوس ہوتا ہے-
برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے دور میں بننے والے فنِ تعمیر کے عظیم شاہکارمیں غزنوی محل،قطب مینار، جامع مسجد قوت الاسلام ، اجمیر شریف میں اڑھائی دن کی مسجد ، لودھی باغ دہلی، بڑا گنبد اور شیشہ گنبد مساجد، سلطان بلبن کا مقبرہ، علائی دروازہ ، مقبرہ شاہ رکن عالم ؒ اور اس طرح کی بیسیوں عمارات شامل ہیں، یہ سب دنیا میں کسی بھی قوم کے ثقافتی ورثہ سے کم نہیں ہیں-
مغل دور میں تعمیر ہونے والی عمارتیں نہ صرف شان و شوکت کا اظہار ہیں بلکہ علم دوستی اور فنی ترقی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں مثلاً کابلی باغ مسجد، استاد شاگرد کے مقبرے، جامع مسجد قلعہ کہنہ،قاسم باغ، عام خاص باغ ملتان، زینت المسجد دہلی، اجمیر فورٹ، اونچی مسجد لاہور، بادشاہی مسجد لاہور، مسجد جہا ن نامہ ، تاج محل آگرہ، لال قلعہ دہلی ،پری محل سری نگر،آگرہ فورٹ ،مقبرہ ہمایوں بادشاہ، فتح پور سکری میں اکبر کے دور میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد، مزار سلیم چشتی، بلند دروازہ، پنج محل ،ہرن منار، دیوانِ خاص، الٰہ آباد فورٹ ،اکبری فورٹ،مقبرہ اعتماد الدولہ،تاج المسجد بھوپال اورخسرو باغ ایسے شاہکار ہیں جن کی مثال پوری دنیا میں تلاش کرنا مشکل ہے-
اسی طرح معیشت اور انڈسٹری میں بھی بہت زیادہ ترقی دیکھنے کو ملتی ہے جس کے نتیجے میں مقامی اور بین الاقوامی تجارت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا-مشہور مؤرخ اینگس میڈیسن کے مطابق ایک وقت برصغیر کی مجموعی جی ڈی پی پوری دنیا کی کُل جی ڈی پی کا 24.4فیصد تھی جو کہ اس وقت پورے یورپ کی کل جی ڈی پی(23.3فیصد)سے بھی زیادہ ہے-مغل دور میں بحری جہاز سازی کی انڈسٹری اپنے عروج پہ پہنچی اور صرف صوبہ بنگال میں بائیس لاکھ ٹن سے زائد پیداوار ہوتی تھی جو برطانیہ، ڈچ اور شمالی امریکہ کی کُل پیداوار (بالترتیب تین لاکھ چالیس ہزار ٹن، ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ لاکھ ٹن اور دو لاکھ تیس ہزار ٹن)سے کہیں زیادہ تھی-
مسلم دورِ حکمرانی میں ہی ’’Indo-Persian Painting Style‘‘میں ترقی ہوئی اورکلامِ امیر خسرو،فردوسی کا شاہنامہ ، بوستانِ سعدی، نعمت نامہ جیسی کتب کو پینٹنگز کے ساتھ پیش کیا گیا –اسی طرح اردو اور فارسی ادب میں بہت زیادہ ترقی دیکھنے کو ملتی ہے اور بہت سی نابغۂ روزگار شخصیات نے اپنے قلم سے ایسے ادبی شاہکار تخلیق کیے جو آج تک اپنی مثال آپ ہیں- ان میں میرزا عبدالقادر بیدل، میر تقی میر، مرزا غالب،فیضی ،عرفی، نذیری،ابوالفضل، میر درد، سودا، ذوق، غنی کاشمیری، ا میر خسرو جیسی عظیم ادبی شخصیات کے کام شامل ہیں- نیز ادب، اخلاقیات اور روحانی حوالے سےصوفیا ئے کرام کی خدمات بے مثل ہیں- مثلاً حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ،حضر ت مجدد الف ثانیؒ، لعل شہباز قلندر، حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ، حضرت عثمان علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ، غوث بہاو الدین زکریا ؒ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ، حضرت شاہ عنایت قادریؒ ، حضرت سید عبدالرحمن دہلویؒ اورحضرت سلطان باھوؒ- ان بزرگانِ دین نے اپنی خدمات سے تمام تر معاشرتی اور نسلی تفریق کو مٹاکر انسانیت کی بنیاد پر مخلوق کو خالق سے ملانے کے لیے جدوجہد کی جس نے صدیوں تک پُرامن معاشرے کے قیام کو یقینی بنایا-
ان تمام تر حقائق کے باوجود یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اس دور کے ثقافتی و علمی ورثے کو مجرمانہ غفلت کے ذریعے سے فراموش کیا جا رہا ہے-اس کے برعکس اگر ہم دنیا کے دیگرخطوں میں دیکھیں تو وہاں بہت معمولی ورثے کو بھی آئیڈیل کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ گویا پوری دنیا میں اس سے بڑھ کے نہ کوئی اور تہذیب اور نہ کوئی ثقافت ہےاور یہی امر اپنی تاریخ سے ناواقف قوم کیلئے احساسِ کمتری اور نفسیاتی غلامی کو جنم دیتا ہے-
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی صحیح تاریخ سے روشناس کروایا جائےتاکہ وہ اپنی تاریخ پہ فخر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بتا سکیں کہ معیشت، تجارت، تہذیب و ثقافت، فنِ تعمیر، ادب، بین المذاہب ہم آہنگی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں برصغیر کا مسلم دورِحکومت اپنی مثال آپ ہے-