فلسطین لہو لہو
ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں قابض اسرائیلی افواج اور نسل پرستانہ اسلاموفوبک ہجوم کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینیوں پر حملوں کے بعد مسئلہ فلسطین عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا- قابض افواج نے بیت المقدس اور پھر غزہ میں ایک بار پھر مظالم کا نیا بازار گرم کیا- ان حملوں میں 250 کے قریب فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے جن میں عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل ہیں-موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ کا عالمی امن کا نظام بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے-یہ تیسری مرتبہ ہے جب ایک ہفتے کے دورانیہ میں سکیورٹی کونسل کی طرف سے ایمرجنسی میٹنگز کا اعلامیہ اور قرارداد پر متفق نہیں ہوا جا سکا-
فلسطین کی موجودہ صورتحال اور حالیہ اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں ہے- بالخصوص گزشتہ چند سال میں سفارتی سطح پہ ہونے والی تبدیلیوں سے ایسے حملوں کی توقع کرنا بالکل خلافِ توقع نہیں تھا- عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں پہ مظالم کے باوجود عالمی طاقتوں کی سپورٹ اور چند مسلم ممالک کی جانب سے تسلیم کئے جانے پر یقیناً اسرائیلی قیادت کو توسیع پسندانہ عزائم جاری رکھنے کا حوصلہ ملا ہے-
حالیہ حملوں کے تناظر میں عالمی میڈیا کا دوہرا پن بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ جہاں عالمی قوانین مظلوم اور مقبوضہ اقوام کو حقِ مزاحمت دیتے ہیں تو وہیں بعض میڈیا ہاؤسز کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے فطری ردِ عمل کو دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت اور مظالم کو جائز قرار دینے کی کوششیں کی گئیں- یہ دوہرے معیارات کا عملی اظہار ہے -اسرائیلی کے جنگی جرائم چھپانے کے لیے سوشل میڈیا پر بھی اسرائیل کے حق میں اور فلسطین کے خلاف باضابطہ ٹرینڈز چلائے گئے جو جرم کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے کی آزادی اظہارِ رائے کی بھی خلاف ورزی ہے- اس میں مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی بمباری سےغزہ میں الجلا ٹاور کو نشانہ بنایا گیا جس میں عالمی میڈیا ہاؤسز کے دفاتر قائم تھے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی کے مجرمانہ افعال پر چشم پوشی کی جا رہی ہے-
غیروں سے گلہ تو بجا لیکن مسئلہ فلسطین پر اپنوں کا ردِ عمل بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے- مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اپنے اندرونی انتشار اور نظریاتی اختلافات سے فرصت ہی نہیں کہ وہ القدس شریف کی حفاظت کیلئے متفقہ اور قابلِ عمل پالیسی مرتب کر سکیں- او آئی سی اجلاس بھی رسمی مذمتی قراردادوں تک محدود ہیں- اگرچہ پاکستانی اور ترکش قیادت نے چند عملی اقدامات کیلئے آوز بلند کی ہے لیکن جب تک بحیثیت مجموعی مسلم ممالک اس مقصد کیلئے اکٹھے نہیں ہو جاتے، اس وقت تک فلسطین کی آزادی اور عالمی قوانین کے مطابق ان کے حقوق کی فراہمی ایک خواب ہی محسوس ہوتی ہے-
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلم قیادت جغرافیائی، نسلی ، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم ہو چکی ہے- ایسے میں القدس شریف جو ہماری روحانی اساس ہے اس کیلئے کمر بستہ ہونا مشکل امر نظر آتا ہے- کیونکہ مسئلہ فلسطین کو پہلے ڈی اسلامائز کرکے عرب دنیا کا ایک مسئلہ بنا دیا گیا- پھر رفتہ رفتہ اسے عرب اسرائیل تنازعہ سے بھی ایک درجے آگے جاتے ہوئے اسرائیل فلسطین تنازعہ بنا دیا گیا- فلسطین کی موجودہ صورتحال میں یہ بات مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ذہن نشین ہونی چاہئے کہ بیت المقدس کی حیثیت ہر مسلمان کیلئے مسلمہ ہے اور جب تک مسلمانوں کا اسلام سے رشتہ قائم ہے ان کا بیت المقدس کے ساتھ رشتہ قائم ہے- ہر عام مسلمان کے دل بیت المقدس اور قبلہ اول کے ساتھ دھڑکتے ہیں اسلئے وہ مسجد ِ اقصٰی کی بے حرمتی اور فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کو کبھی برداشت نہیں کریں گے-
اس وقت چند مسلم ممالک نے اس اہمیت کے سمجھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے پر امن حل کیلئے سفارتی سطح پر کوششیں تیز کی ہیں جو خوش آئند ہیں- اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک متفقہ فلسطین پالیسی بنائیں جس میں مغربی ممالک پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ انہیں اس بات کا ادراک ہو کہ مسلمانوں کی زندگیاں بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی باقی دنیا کے انسانوں کی ہیں اور یہ کہ ہم کسی صورت القدس شریف پر اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے- ساتھ ہی ساتھ نئی نسل کو القدس شریف کے ساتھ اپنے روحانی تعلق کے متعلق آگاہ کیا جاتا رہنا چاہئے تاکہ کسی بھی میڈیا وار یا ڈِس انفارمیشن کا شکار ہو کر وہ اپنے حق کے متعلق غیر یقینی کا شکار نہ ہو سکیں-