افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء اور پاکستان کا کردار
قریبا بیس سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء شروع ہو چکا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ 11 ستمبر 2021ء تک یہ سلسلہ مکمل ہو جائے گا- اس جنگ میں امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں- اسی طرح امریکہ کو تقریباً 2 ٹریلین ڈالرز کا معاشی نقصان ہوا ہے- افغانستان میں لاکھوں کی تعداد میں جانوں کا ضیاع ہوا ہے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں- اس جنگ کے پاکستان پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں- جہاں 70 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنے ہیں اور پاکستانی معیشت کوڈیڑھ سو بلین ڈالرز کا نقصان بھی اٹھانا پڑا- اندازے کے مطابق اس وقت بھی 3 ملین کے قریب افغان پناہ گزین پاکستان میں رہائش پذیر ہیں-
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا ہے افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو بات چیت اور افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے- پاکستان کی سہولت کاری اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت بالآخر 2018ء میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور 29 فروری 2020ء کو قطر کے شہر دوحہ میں تاریخی امن معاہدہ طے پایا- اس معاہدے میں افغانستان کی سر زمین سے غیر ملکی افواج کا انخلاء، افغان سٹیک ہولڈرز کے مابین بات چیت کا آغاز اور طالبان کی جانب سے افغانستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے جیسی اہم شرائط شامل تھیں- قیدیوں کی رہائی کے بعد ستمبر 2020ء میں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوا ہے اور اس میں پاکستان نے ہر ممکن سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے-
پاکستان کی مخلصانہ سہولت کاری کا نہ صرف امریکی اعلیٰ قیادت بلکہ دنیا بھر نے اعتراف کیا ہے- امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بار ہا مرتبہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ افغان امن عمل میں امریکہ کو پاکستان کی مدد اور حمایت حاصل ہے- افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کا کردار افغان امن عمل میں بہت اہم دیکھتے ہیں اور پاکستان یہ کردار ادا کر رہا ہے- پاکستانی سول و عسکری قیادت افغان امن عمل خصوصاً انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے لئے کئی مرتبہ افغانستان کا دورہ کر چکی ہے- اسی طرح افغانستان کے حکومتی عہدیداران ، طالبان اور دیگر سیاسی رہنما کئی مرتبہ پاکستان تشریف لا چکے ہیں- اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں فوجی کاروائی کرنے کے لیے پاکستان ہرگز امریکہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا- کیونکہ اگر بیس سال سے افغانستان میں موجود رہ کر امریکی افواج یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں تو پاکستانی بیسز سے بھلا کیونکر حل ہو سکتا ہے-
حالیہ نیٹو ڈیفنس کالج کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان امن عمل میں پاکستان ایک اہم کرادر ادا کر رہا ہے جبکہ بھارت افغانستان میں امن نہیں چاہتا ہے اور پاکستان نے بارہا مرتبہ بھارت کے بطور Spoiler کردار پر خدشے کا ظاہر اظہار کیا ہے-یہ بھی افسوس ناک مگر تلخ حقیقت ہے کہ بھارتی ایماء پر افغانستان کے اعلیٰ حکومتی عہدیدار پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں- پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نےالزامات پر مبنی، منفی بیانیے کی تشہیر کو افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے-
پاکستانی اعلیٰ سول اور ملٹری قیادت بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء سے قبل افغان سٹیک ہولڈرز کے مابین امن عمل میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی تو افغانستان میں نوے کی دہائی کی طرح خانہ جنگی ہو سکتی ہے جس کے خطے پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-اس لئے پاکستان افغان قیادت میں، افغانوں کو قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کا خواہاں ہے- تاہم ایسے میں سازشی عناصر کے منفی ہتھکنڈوں سے دور رہنے کی اشد ضرورت ہے جو پاکستان کے کردار اور افغانستان میں امن کو برداشت نہیں کر پا رہے-
افغانستان میں قیام امن سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے میں روابط اور معاشی استحکام کا نیا دور شروع ہو گا-انٹراافغان بات چیت کی کامیابی سے مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آنے سے افغانستان کے اپنے اندر بلکہ پاکستان اور پورے خطے کی معاشی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کے نئے راستے کھل سکتے ہیں- پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم افغان مہاجرین کی باعزت اپنے گھروں کو واپسی ہو سکتی ہے اور وہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں- ایسے میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا بلکہ افغانستان سی پیک ثمرات سے بھی فوائد حاصل کر سکتا ہے دونوں ممالک کے عوام میں گہرے دوستانہ روابط قائم ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عوامی روابط کا سیاسی اور حکومتی سطح پہ صحیح ادراک ہو اور کسی تیسرے ملک کی ایماء پر فیصلے کرنے کی بجائے باہمی تعلقات کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں-