تحریکِ پاکستان:تاریخی ولولہ و عصرِ حاضر کی ضرورت
دنیا کی ہر بڑی تحریک اپنے مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں متنوع اور کثیر الجہتی مسائل کا سامنا کرتی ہے -بعین جب ہم تحریکِ پاکستان کے دوران برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا- ان مسائل سے نبرد آزماہونے کے لیے بانیانِ پاکستان نے ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جوش و ولولہ، جذبہ، ا یثار، اخلاص اور اپنے مقصد سے کمٹمنٹ کے ذریعے انہوں نے بڑے بڑے مسائل کا بڑی ہمت اور حوصلے سے سامنا کیا-ان مسائل میں مسلمانوں کی نظریاتی اساس اور مسلم شناخت کو درپیش خطرات مثلاً سیاسی محرومیاں، سماجی انصاف کا فقدان، معاشی استحصال شامل تھے- اس کے ساتھ ساتھ ہندو سامراج نے مسلمانوں کو کمزور کر کے اپنا دائم غلام بنانے کا فیصلہ کیا - اس صورتحال میں دو قومی نظریہ وہ واحد راستہ تھا جس کے ذریعے مسلمانوں کی سیاسی و سماجی اور معاشی و معاشرتی حقوق کے لیے جدوجہد کی گئی -یہ ایک ایسی پرامن اور مدلل قانونی جدوجہد تھی جس کی مثال ملنا مشکل ہے اوردہائیوں پر مشتمل اس جدوجہد کے نتیجے میں14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا-
یہ ایک عجب حقیقت ہے کہ آج اگر ہم اُن حالات کا بغور جائزہ لیں جن کا سامنا بانیانِ پاکستان نے اُس وقت کیا تھا اور آج کے مسائل سے ان کا موازنہ کریں تو آج کے دور کے مسائل اگرچہ بظاہراً تھوڑے مختلف نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کے اندرونی و بیرونی مسائل نظریاتی و فلسفیانہ سطح پہ کم و بیش انہی نکات کے گرد گھومتے ہیں- مثلاً پاکستان کی نظریاتی اساس کو خطرات، مسلم شناخت کو خطرات ، اس خطے کی تہذیب و ثقافت کو خطرات، سیکولرازم کے چیلنجز، دہشت گردی اور شدت پسندی کے ذریعہ اسلامی شناخت کو مسخ کرنا، معاشی مسائل، علمی استعماریت اور ایسے دیگر مسائل انہی فکری بنیادوں پہ استوار ہیں جو فکر قیامِ پاکستان کے مخالف کھڑی تھی- حتیٰ کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بڑے واضح افکار موجود ہیں کہ کس طرح مسلمانانِ ہند کے ہیروز ہندوؤں کے ہیرو سے مختلف ہیں لیکن ابھی بھی ہمیں ہمارے ہیروز مثلاً محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، علامہ اقبال ؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی شخصیت، کردار اور کاوشوں کے متعلق کنفیوز کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے- اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو نو آبادیاتی زبان اور کلچر کے ذریعے علمی ورثے سے دور کیا جارہا ہے-
اسی طرح مسئلہ کشمیر ابھی تک حل طلب ہے جہاں کی عوام کی جدوجہد ڈوگرا راج کے خلاف قیامِ پاکستان سے پہلے سے جاری ہے- اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور ان کا ثقافتی ورثہ شدید خطرے سے دوچار ہے جو عین بعین وہی صورتحال پیش کرتا ہے جس کے باعث مسلمانانِ ہند نے پاکستان حاصل کیا تھا- کل بھی گاندھی اور نہرو قیامِ پاکستان کے مخالف تھے اور حتیٰ کہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کر سکے، اسی طرح آج بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں بھارت کی جانب سے جاری ہیں- بلوچستان سے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کاگرفتار ہونا اور لاہور میں ہونے والے حالیہ دھماکےمیں بھارت کا ملوث ہونا اس کی واضح مثالیں ہیں-
اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا اور اس کے ذریعہ پاکستان میں دراندازی عالمی سطح پہ بے نقاب ہو نا، اس پوری صورتحال میں پاکستان کو ناصرف اندرونی اتحاد کی ضرورت ہے بلکہ اسی تحرک کی ضرورت ہے جو تحریکِ پاکستان کے وقت موجود تھا- اب اگرچہ سازشوں کا سکیل پہلے سے بہت بڑا ہے لیکن الحمد للہ! مملکتِ خداداد ایک ایٹمی ریاست ہے اور ہمارے ادارے اور پاکستانی افواج اس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا چکی ہے- ہمیں آپس میں اتحاد کے ساتھ ثقافتی، علمی اور فکری سطح پہ تمام تر سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے جس طرح قائد نے قانونی جنگ لڑ کے تاجِ برطانیہ اور ہندو سامراج سے اپنا حق لیا تھا- اس کے ساتھ ساتھ پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے تاکہ ہر قسم کے دفاعی چیلنج سے کامیابی سے نبرد آزما ہوں- قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والی ففتھ جنریشن وار اور سازش کوناکام بنانا ہے-