افغانستان کی حالیہ صورتحال
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کی ڈیڈ لائن 31 اگست 2021ء مقرر کی گئی لیکن اس سے قبل ہی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے- امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ’’دوحہ امن معاہدہ‘‘کے بعد بین الافغان مذاکرات میں تمام افغان دھڑوں کے درمیان کوئی ٹھوس اور واضح پیش رفت سامنے نہ آ سکی جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے کابل سمیت پورا افغانستان افغان طالبان کے زیر کنٹرول آ چکا ہے-افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی صدارتی محل چھوڑ کر ملک سے بھاگ چکے ہیں اور افغانستان میں نئی حکومت کے قیام میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے جو امید کی جا رہی ہے کہ افغانستان کےبہترین مفاد میں ہو گی-
خطہ افغانستان کو ’’Graveyard of Empires ‘‘(سلطنتوں کا قبرستان)کہا جاتا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں میں دنیا نے اس بات کی صداقت کا بچشمِ عیاں مشاہدہ کیا ہے-طاقت کے زعم میں جب بھی بیرونی طاقتوں نے افغانستان پر قبضہ کی کوشش کی تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کی واضح مثال افغانستان کی حالیہ صورتحال ہے کہ جہاں پہلے برطانوی سامراج اور سوویت افواج کی ناکامی کے بعد اب امریکہ اور نیٹو کی سربراہی میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا فوجی اتحاد 20 سال کی کوشش کے بعدشکست کھا کر بھاگنےپہ مجبور ہوا ہے-
افغانستان میں 20 سالہ جنگ نے جہاں لاکھوں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا مشاہدہ کیا وہیں لاکھوں افراد پناہ گزین کیمپوں میں پنا لینے پر مجبور ہوئے- اب جب بیرونی طاقتوں کی بساط لپیٹی جا رہی ہے تو اس موقع پربعض اہم ممالک کاانسانی حقوق کےمتعلق باربارخدشات کاذکر اُن کےدوہرےمعیارکو نمایاں کرتاہے- یہیں یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ خطے میں ہندوتوا نظریات کے زیرِ اثر مقبوضہ جموں و کشمیر اورقابض اسرائیلی طاقت کے زیرِ تسلط سرزمینِ فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم،قید وبنداورجنگی جرائم کےارتکاب پر یہی طاقتیں پُر اسرار اور مجرمانہ چُپ سادھے ہوئے ہیں- اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے متعلق خدشات دراصل سیاسی اور معاشی مفادات کے زیرِ سایہ پروان چڑھ رہے ہیں اور انہیں مخصوص طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر رہی ہیں-
افغانستان جو بجا طور پہ ایشیا کے دل کی حیثیت رکھتا ہے اس کی موجودہ صورتحال تمام مسلم اُمہ کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے- اگرافغانستان کے اندرونی معاملات افہام و تفہیم سے طےنہیں ہو پاتے تو خدانخواستہ ایک بار پھر خانہ جنگی کےخطرات منڈلا سکتے ہیں- افغانستان میں امن سے جنوبی ایشیاء اورسنٹرل ایشیاء کےممالک ایک دوسرےکےساتھ علاقائی روابط میں جُڑسکتےہیں اور خطے میں تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے-
گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ وجدل اور کشت و خون سے بیزار افغان عوام سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں- افغانستان کی قیادت اورغیور عوام کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افہام و تفہیم اور جامع حکمتِ عملی سے باصلاحیت حکومت کا قیام عمل میں لائیں تاکہ دیرپا امن قائم ہوسکے- ہمسائیہ مسلم ملک ہونے کے ناطے اور گہر ے مذہبی ، ثقافتی و تاریخی تعلقات کے سبب پاکستان نے امن عمل کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا- تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے قبضے کے دوران بھارت اپنے روایتی اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا اورافغانستان کی سرزمین کو ہر طرح سے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں اوردہشتگردوں کی پشت پناہی میں بھارت ریاستی سطح پہ ملوث ہے- ابھی بھی انہی کوششوں میں ہے کہ اس خطے کے معاشی استحکام کو ختم کیا جائے اور داسو، گوادر اور کراچی میں ہونے والی دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے پیچھے بھی یہی بھارتی سوچ کارفرما ہے- افغانستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں- اور شاید یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت گرنے کے باعث بھارتی میڈیا اپنی روایت کے مطابق پراپیگنڈا وار میں مصروف ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ پاکستان کے مخالف افغانستان میں کی گئی ان کی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے-
طویل مدتی افغانستان کے مستقبل کے متعلق مختلف پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں وہیں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ قومیں اپنی تہذیب، ادب اور ثقافت کی بنیاد پہ پہچانی جاتی ہیں- افغانستان کی تعمیر و ترقی بھی ان کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کی حفاظت اور اسی بنیاد پہ معاشرے کے قیام پہ مضمر ہے- افغانستان کے باسیوں کو اپنےاسلامی تشخص،قبائلی شناخت وروایات، اقدار،مساوات اورجذبۂ حُریت پرمبنی نظام کےتحت بسنے کا پورا پوراحق حاصل ہے- یہی پہچان پاکستان اور افغانستان کے عوام کو بھی قریب لاتی ہے- چاہے حضرت داتا گنج بخشؒ کا ذکر ہو، حکیم سنائی ہو، محمود غزنوی ہو یا احمد شاہ ابدالی، افغانستان کی تاریخ اور ادب ہی آج اس کی پہچان ہونا چاہئے- جو بھی طاقتیں اس شناخت اور نظریہ کے خلاف پراپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہیں انہیں افغانستان کے اندرونی معاملات سے دور رہنا چاہئے- افغانستان کے مسئلہ کا حل اور خطے کا امن افغان عوام اور افغان کلچر کو اپنی روایات کے مطابق اپنے میں رہنے دینے سے ہی ممکن ہے-