دستک

دستک

نوابزادہ لیاقت علی خاں کے قتل کی سازش کے سربستہ راز 

تحریکِ قیامِ پاکستان کے رُوحِ روان شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کس نے تیار کی ؟ اور اس پہ کیسے عمل درآمدکیا گیا ؟لیاقت علی خان کو کیوں شہید کروایا گیا؟ اِس شہادت کے پسِ منظر میں کیا تھا؟ اِن سوالوں کے جوابات کو امریکی محکمۂ خارجہ کی خفیہ دستاویز میں تلاش کیا جاسکتا ہے اِن دستاویز کو کچھ عرصہ قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ڈی کلاسیفائیڈ کیا اور اِن کو اس کی ویب سائٹ پر آویزاں کر دیا گیا ہے-ان دستاویز کے مطابق امریکہ چاہتا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ایران کے تیل کے ذخائر پہ امریکی اجارہ داری قائم کروادیں لیکن لیاقت علی خان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو امریکہ نے انہیں افغان حکومت کے ذریعے قتل کروا دیا -

نوابزادہ لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورے پہ گئے تو وہاں انہوں نے اپنی شخصیّت کا جو سحر چھوڑا ، اُس نے ہر ایک کو یہ واضح کردیا تھا کہ پاکستان کیا ہے اور کن اعلیٰ اغراض کیلئے بنایا گیا ہے - ﴿اس بات کی مزید تفصیلات اُس دوسرے میں شہیدِ ملت کی سٹیٹ منٹس اور تقاریر سے واضح ہیں ﴾ ، جس دو ٹوک انداز اور الفاظ میں آپ نے پاکستان ، اس کی شناخت اور تشکیل کو واضح کیا وہ ایک طلسم سے کم نہ تھا - امریکی دانشور یہ جان گئے تھے کہ یہ عظیم وژن اِس قوم کو کس سمت لے جائے گا اور اس سے دُنیائے جدید میں اسلام کا احیا کیسے ممکن ہو جائے گا ؟ اور کس طرح معیشت سے لیکر بینکاری اور ٹیکنالوجی سے لیکر دیگر سائنسز میں نئے جذبے اور ولولے سے ابھرنے والی یہ ریاست دُنیائے اسلام کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے گی - اُنہیں یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کم از کم اسلامی ایشیا روسی و امریکی تسلط سے نکل جائے گا ﴿ایشیا یورپی نوآبادیات سے آزاد ہو رہا تھا اور زیادہ تر ہو چکا تھا﴾- اِس لئے امریکہ بطور سپر طاقت کے پاکستان پر بہر حال اپنا تسلط لازمی قائم کرنا چاہتا تھا - اِس لئے وہ روس کو براستہ پاکستان روکنا چاہتا تھا جس کیلئے اُنہیں ایران میں فوجی اڈّوں کیلئے پاکستانی تعاوُن کی ضرورت تھی -

یاد رہے کہ 1950ئ اور 1951ئ میں پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت اچھے تھے لیکن افغانستان کے ساتھ انتہائی کشیدہ تھے کیونکہ افغانستان نے پاکستان کو ایک طویل عرصہ تک تسلیم نہیں کیا تھا -اُس وقت کے امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سے سفارش کی وہ اپنے ایرانی دوستوں سے کہہ کر ایران کے تیل کے کنوئوں کا ٹھیکہ امریکہ کو دلوادیں - امریکی سفیر نے لیاقت علی خان کو یہ پیش کش کی کہ اگر ایران کے تیل کے ذخائر پہ امریکی اجارہ داری قائم کروادی جائے تو امریکہ کشمیر کے معاملے میں اپنی کارگزاری دکھا سکتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کا علاقہ پاکستان کو دلوانے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے گا-لیکن لیاقت علی خان نے امریکی احکامات کو ’’دلالی‘‘ کے مترادف قرار دیا اور یہ کام کرنے سے صریح انکار کردیا-امریکی خفیہ دستاویز میں لیاقت علی خان کی ’’حکم عدولی‘‘ کا بھی تذکرہ ہے -اس وقت پاکستان میں ایک سے زائد جگہوں پہ امریکی فوج کو سہولت دی گئی تھی -امریکہ روس کا راستہ روکنا بھی چاہتا تھا لیکن اس سے براہِ راست ٹکر لینا بھی نہیں چاہتا تھا- اس مقصد کے لیے وہ پاکستان اور قریبی ممالک میں قائم اپنے فوجی اڈوں پہ انحصار کررہا تھا - امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون کال کی لیاقت علی خانے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ’’مجھے خریدا نہیں جاسکتا‘‘ اور ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں پاکستان میں موجود تمام امریکی فوجی طیارے اپنے ملک میں واپس چلے جائیں- لیاقت علی خان کے اس الٹی میٹم نے امریکی مقاصد کے اوراق کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا اب امریکہ خود کو بے دست وپا محسوس کرنے لگا بعد ازاں امریکہ نے نئی حکمت عملی تشکیل دی اور پاکستان کو ایسے وژن رکھنے والے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے محروم کرنے کا فیصلہ کرلیا- اُن لیک ہونے والی خُفیہ دستاویزات کے مطابق امریکہ نے افغانستان کے ظاہر شاہ کولالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کو راہ سے ہٹاد و توامریکہ پاکستان سے سرحدی معاملات میں افغانستان کی معاونت کرے گا - ظاہر شاہ حکومت نے اس امر کی حامی بھر لی اور تین آدمی تلاش کیے گئے جس میں سے ایک کا نام سید اکبر تھا اور اُسے لیاقت علی خان پہ گولی چلانے کی ذمہ داری دی گئی اور دوسرے دو آدمیوں سے کہا گیا کہ جب یہ کام مکمل کرلے تو سید اکبر کو بھی ٹھکانے لگا دینا تاکہ اس سازش کا کوئی سراغ باقی نہ بچے- 15 اکتوبر کو یہ لوگ راولپنڈی پہنچے کیونکہ 16 اکتوبر 1951ئ کو نوابزادہ لیاقت علی خان نے کمپنی باغ راولپنڈی میں جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا- سید اکبر کو جلسہ گاہ میں قبل ازوقت اگلی صفوں پہ پہنچا دیا گیا- لیاقت علی خان جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور اپنے مخصوص انداز میں خطاب شروع کیا لیکن چند ساعتوں کے بعد اس بد بخت نے اپنی گن سے نوابزادہ لیاقت علی خان کے سینے پر سیدھے دو فائر داغے ایک فائر لیاقت علی خان کے سینے میں پیوست ہوا جب کہ دوسرا پیٹ میں تو آپ زخمی ہوکر گر پڑے اور اپنے آخری الفاظ یوں ادا کیے ’’ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے‘‘- ہسپتال پہنچایاگیا لیکن آپ جان بر نہ ہوسکے -آپ کے جسم سے دو کارٹیجز نکلے جن پہ امریکی ساختہ کی مہر تھی اوریہ گولیاں امریکی فوج کے اونچے درجے کے افسروں کو دی جاتیں تھیں - یوں حالیہ لیک ہونے والی دستاویزات نے اِس سازش کے سربستہ راز سے پردہ اُٹھایا ہے کہ شہیدِ ملّت نوابزادہ لیاقت علی خان کو کیسے شہید کروایا گیا -

اب سوال یہ ہے کہ اِس راز کے افشا ہونے کے بعد بطور ایک قوم کے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ بقول اقبال ﴿محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک﴾ ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ نوابزادہ صاحب! آپ نے جس قوم کی آزادی کی جنگ قائدِ اعظم کی قیادت میں لڑی تھی اور جیتی تھی آپ کے جانے کے بعد عشروں کی گرد و غبار نے ہم سے وہ آزادی چھین لی ہے ، ہم پھر غلام ہیں ، محکوم ہیں - ذہنی ، سیاسی ، معاشی ، اقتصادی ، معاشرتی ، تہذیبی - ہر ہر وصف میں غلام ہیں محکوم ہیں - آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ایسی قیادت ہے جو ہمیں اس غلامی اور محکومی سے نجات دے ، جو ہمیں ہمارے بُنیادی اور اساسی نظریے یعنی ’’نظریٔ پاکستان / دو قومی نظری‘‘ سے وابستہ کرے، جو ہمارا قومی تشخص اور ہماری ملی شناخت ہمیں لوٹا دے جیسے مشاہیرِ تحریکِ پاکستان نے لوٹائی تھی - مذہبی فرقہ واریت سے پاک ، لسانی ، علاقی اور صوبائی گروہ بندیوں سے بالا تر ہو کر ایک ایسی ملی و قومی شناخت جو دورِ جدید میں اسلام کی حقیقی روح کو آشکارا کرتی ہے -

بھارتی اسٹیٹ ایکٹر زپاکستان میں تباہی مچانے کے درپے  

بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری نے چانکیائی سازش کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا- جن کے دِلوں میں ملک پاکستان کانٹے کی مانند کھٹکتا ہے وہ ایسے سہم گئے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو - مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے میں اپنے کردار کی تعریف و توصیف کرنے والے اپنا سامنہ لے کر رہ گئے- یہ محض ایک جاسوس کی گرفتاری نہیں ہے بلکہ ارضِ وطن پہ بھارتی خُفیہ ایجنسی را کی مکروہ و گھنائونی سازشوں کا بین ثبوت ہے - بھارتی جاسوس کا اعتراف بھارت کے حوالے سے عالمی رائے عامہ میں تبدیلی کاگیم چینجر بنے گا- یہ سچ ہے کہ پاکستان اور پاک افواج کے ناقدین کے لیے یہ اصلاحِ احوال کا بہترین موقع ہے کہ وہ بھارتی عزائم سمجھیں اور بھارتی حمایت یعنی چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کاتیل ڈالنے کی روش سے باز آجائیں- بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو اس کے قلابے پاکستانی اداروں کے ساتھ ملانے والا بھارتی میڈیا اور ان کے پاکستانی ہمنوا اس موقع پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اس حوالے سے بھارتی میڈیا کا بلیک آئوٹ محض ایک منافقانہ روش ہے- لیکن کیا اُنگلی کی اُوٹ میں سورج چھپ سکتا ہے؟ یاد رہے کہ پٹھان کوٹ حملے کے وقت بھارتی میڈیا نے وہ اَت مچائی کہ خدا کی پناہ! امریکہ اور دیگر ممالک سے پاکستان پہ براہِ راست دبائو ڈلوایا گیا- آغاز میں تو بھارتی سرکار نے پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹر ز کی دہائی دی بعد ازاں یہاں تک کہا گیا کہ پاکستانی اداروں کی معاونت کے بغیر یہ حملہ نہیں ہو سکتا تھا- چند عدد فون کالز اور دوائیوں کے خالی ریپر کہ جن پر میڈ اِن کراچی لکھا ہوا تھا یہ وہ کھوکھلے ثبوت تھے جن کی بنا پہ بھارتی وزیر منوہر پاریکر نے پاکستان کے تکلیف اور دکھ پہنچانے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ایسا کرکے بھی دکھایا- لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھارت لگائے گئے الزامات ثابت نہ کرسکا اس لیے اب عالمی برادری کے لیے یہ مؤقف اجنبی نہیں رہا کہ بھارت نے جو کہانی سنائی تھی اُس میں دم نہیں ہے، سو اب بھارت عالمی سطح پہ سبکی محسوس کر رہا ہے -

لیکن کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پہ تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ بھارتی میڈیا کے منہ میں زبان ہے ہی نہیں- اہل درد ایک عرصہ سے چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام کی کاروائیوں کے پس منظر میں بھارت کے خفیہ اداروں کا ہاتھ کار فرما ہے لیکن انہیں ہمیشہ پاک افواج کا پروَردَہ کہہ کر نظرانداز کیا جاتا رہا- بھارت سال ہا سال سے بلوچستان اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کاروائیاں کر رہا ہے مگر اس سلسلے میں فراہم کردہ شواہد کو بغیر وجہ کے درِ خور اعتنا نہ گردانا گیا-پہلی بار مصر کے مقام شرم الشیخ پہ مذکورہ شواہد دیے گئے اور دوسری بار اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ڈوزئیر تھمائے گئے لیکن عالمی برادری نے بھارت کی سرزنش نہ کی مگر اب عالمی برادری اپنا دہرا معیار مزید برقرار نہیں رکھ سکے گی کیونکہ کل بھوشن یادیو کا اعترافی بیان وہ بین ثبوت ہے کہ جسے خواہش کے باوجود وہ مسترد نہیں کرسکیں گے- ان شواہد سے فائدہ نہ اُٹھا نا ہماری کوتاہی ونااہلی کے سبب ہی ہوگا- بھارتی جاسوس کی گرفتاری پاکستان کے لیے قدرت کی جانب سے نعمتِ غیر مُترقَّبہ ہے اور اسے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور سازشوں کے آگے بند باندھنے کے لیے ضرور استعمال کیاجانا چاہیے- یہ ہمارے خفیہ اداروں کی پیشہ وارانہ قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ کہ دُنیا میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی ملک میں جاسوسی کرنے والا ہائی رینک جاسوس پکڑا جائے - یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کی ہر صورت میں پذیرائی کی جانی چاہیے - اس گرفتاری کے فوراً بعد ملک کے مختلف حصوں سے را کے کئی جاسوسوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جو ایک بڑی سازش کے تانے بانے کے اہم کردار تھے -

پاکستان کے ایک سرکاری مراسلہ کے مطابق کل بھوشن یادیو بلوچستان کے علاقے مستی خیل سے پاکستانی سرحد پار کرتے ہوئے گرفتا ہوا اور اس کے پاس بھارتی پاسپورٹ اورایرانی ویزا تھا- ان دستاویز پہ کل بھوشن یادیو کاجعلی نام حسین مبارک پٹیل درج تھا- وہ انڈین نیوی کا ایک حاضر سروس افسر تھا اور 2022ئ میں اس کی ریٹائرمنٹ بہ طور کیمشن افسر ہونی تھی- وہ را کے جوائنٹ سیکرٹری انیل گپتا کے ماتحت کام کرتا تھا اور پاکستان میں تخریب کاری کے لیے اسی سے ہدایات لیتا تھا- کل بھوشن یادیو نے چاہ بہار ﴿ایران﴾ میں جیولری شاپ کی آڑ میں پاکستانی کی جاسوسی کرتا تھااور اس کا ایک معاون راکیش عرف رضوان بھی مذموم مقاصد میں اس کا ساتھ دیتا تھا-

اس گرفتاری سے بھارتی خفیہ اداروں کی جو گھنائونی سازش بے نقاب ہوئی اس کی جزئیات کچھ یوں ہیں کہ را کے ایجنٹوں اور جاسوسوں کے ذریعہ کراچی ، سندھ اور بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی منصبوبہ بندی کرنا ، ان مذموم مقاصد کے لیے کل بھوشن یادیو براہِ راست فنڈنگ کرتا تھا ، گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنا اور اس مقصد کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت کرنا اور انہیں مالی سہولت فراہم کرنا- ’’را‘‘ مستقبل قریب میں بلوچستان میں اپنے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعے کچھ بڑی کاروائیاں کرنا چاہتی تھی- کل بھوشن یادیو کی پاکستان نیوی کے اثاثوں پہ بھی نظرِ بد تھی اس مقصد کے لیے اُس نے ایک کشتی خریدی جس کو پاکستان نیوی کے اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا اور وہ بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کو پاک بحریہ کے اثاثوں کو نشانہ بنانے کی تربیت بھی دے رہا تھا- یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل مہران ائیر بیس پہ دہشت گردوں نے سویڈن سے درآمد کردہ اورین طیارے تباہ کیے تھے -یہ امر قابلِ غور ہے کہ ان طیاروں سے کسی شدت پسند تنظیم کو کوئی خطرہ نہ تھا یہ طیارے تو پاکستان نیوی کے کان اورآنکھیں تھے اور یہ حقیقت ہے کہ صرف بھارتی نیوی کو ان سے شدید خطرات لاحق تھے اسی لیے انہیں تباہ کروایا گیا- کراچی ائیر پورٹ پہ حملہ ہو یا کامرہ بیس پہ حملہ ہو یا پھر سندھ پولیس کے بہادر افسر چوھدری اسلم کی شہادت کا واقعہ ہو یہ جناب ان سب کی منصوبہ سازی میں شریک تھے -اس بندر ﴿کل بھوشن یادیو کا کوڈ نام﴾ نے کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے مابین گٹھ جوڑ قائم کرنے کے لیے براہِ راست معاونت کی اوراِسی وجہ سے سانحۂ صفورا رونما ہوا -

پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد دشمنوں کے لیے پاکستان کو براہِ راست جارحیت سے تسخیر کرنا ممکن نہ رہا تو یہ دشمن پاکستان کو اندرونی طور پہ کھوکھلا کرنے کے درپے ہوئے لیکن یہاں بھی اِ نہیں منہ کی کھانا پڑی -سی پیک منصوبہ پاکستان کے معاشی مستقبل کا محافظ ہے اس لیے پاک افواج نے اِ س منصوبہ کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی ہے سو یہ امر یقینی ہے کہ دشمن ممالک کے پیٹ میں بھلے مروڑ اُٹھتے رہیں پھر بھی اُن کی آنکھوں کے سامنے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا کیونکہ پاکستان اپنی داخلی سلامتی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے - یہ ملک ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے - اپنوں اور بے گانوں کی سازشوں سے امن کے سمندر میں ہلچل مچی رہے گی لیکن جذبے جوان اور مقاصد بلند ہوں تو اِن طوفانوں کے باوجود ملک کی کشتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گی -یہ تماشائی بننے کا وقت نہیں ہے ،سفینے کو بچانا ہے تو وہ ہاتھ کاٹ دیجئے جو اس میں سوراخ کرنا چاہتے ہیں اور اُن ہاتھوں کو مضبوط کیجئے جو کشتی کی حفاظت کررہے ہیں -

پانامہ پیپرز اور سرمایہ دارنہ نظام

سرمایہ دارانہ نظام ایک سیاہ ناگ ہے جس کے زہر میں ایک نشہ ہے یہ سچ ہے کہ یہ ناگ انسانیت کو مسلسل ڈستا آرہا ہے -لیکن انسانیت ایک بار ڈنک کھانے کے بعد دوبارہ پھر اس کے پھن کے سامنے مدہوش ہوکر کھڑی ہوجاتی ہے - اس کے زہر نے انسانوں کو ہمدردی ، مساوات اور احساس کے جذبات سے عاری کر دیا ہے- یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے کہ جس نے انسانی معاشرے کے ایک طبقے میں دولت کا حُسن اتنا بکھیرا کہ اس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں جب کہ دوسرے طبقے کے رگ و پے میں مایوسی کا زہر سرایت کر دیا ہے اور یوں معاشرے کے تمام طبقوں کے حواس معطل کرکے انہیں دولت کا پجاری بنا دیا ہے- دولت کے پجاری اخلاق باختہ ہوکر ہوس کے امین ہوجاتے ہیں - دولت کمانے کی خواہش انسانی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے کیونکہ جائز طریقے سے دولت کمانا غیرا خلاقی ہے نہ غیر قانونی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مال و دولت کی ہوس انسان کو ہمہ وقت مجبور کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے لیے قانون اور اخلاق کے دائرے کو پامال کرے -اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے دولت کمانے والے کے لیے نیکی کا راستہ کھل جاتا ہے کیونکہ وہ اسباب وسائل رکھنے کے باوجود اپنی ہوس وطمع کو قابو میں رکھتا ہے جو کہ خلاف نفس طریق ہے لیکن ایسے لوگ معاشرے میں خال خال ہوتے ہیں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو دولت کی طمع میں خود کو قانونی واخلاقی ضابطوں سے بالا تر دیکھنا پسند کرتے ہیں - سرمایہ دارانہ نظام اُن کی ہوسِ دولت کی تسکین کے وہ تمام مواقع فراہم کرتاہے کہ جن سے استفادہ کرکے اس قسم کے لوگ ناجائز طریقوں سے اپنے اردگرد دولت کے انبار اکٹھے کرلیتے ہیں - دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز معاشرے میں طبقاتی خلیج حائل کر دیتا ہے -اسی وجہ سے امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے - اسی وجہ سے معاشرتی طبقات میں مقاصد کی ہم آہنگی ناپید ہوجاتی ہے بلکہ ُان میں متضاد مرادیں دَر آتی ہیں -سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ اگر خود زندہ رہنا ہے تو دوسرے کی موت ضروری ہو جاتی ہے اور ایک انسان دوسرے کو ذلیل کرکے معزز بنتا ہے یا یہ کہ خود امیر ہونے کے لیے کسی دوسرے کو غریب کرنا ضروری ہوجاتا ہے- معاشرے میں معاشی انصاف کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں ،مساوات کا لفظ خوابوں میں بھی سنائی نہیں دیتا - معاشرے میں دکھاوے کے یکساں قوانین موجود ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی عمل داری جداگانہ ہوجاتی ہے ایک ہی قانون میں یکساں امور کے نتائج اُلٹ نکلتے ہیں -یعنی ایک ہی جرم کے ارتکاب سے ایک بندے کو تعزیز ملتی ہے جبکہ دوسرے کو تکریم ملتی ہے-

امیر زادوں سے دِلّی کے‘ مت ملا کر میر                             کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے

سولہویں صدی عیسوی میں مغرب کی اقتصادی وصنعتی ترقی کی کوکھ سے پھوٹنے والا سرمایہ دارانہ نظام عصرِ حاضر میں استحصال کودوسرا نام بن چکاہے ،آج سرمایہ داری کے معنی یہ ہیں کہ عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت اُن کے مزید استحصال کے لیے کام میں لائی جائے - سرمائے کے انبار پہ بیٹھ کر کچھ کیے بغیر غریبوں کو لوٹنا ہی سرمایہ دارانہ نظام ہے -آج سرمایہ داری کا یہی مفہوم عمل پذیر ہے-

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟                   دُنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!

عصرِ حاضر میں سرمائے کی بڑھوتری کے اَیسے اَیسے غیر اخلاقی طریقے اِیجاد ہوئے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان انگشتِ بدنداں رہ جاتا ہے -یعنی قانون کے دائرہ میں رہ کر غیر قانونی دولت کو چھپانا اور پھر اِ سے جائز بنانا، اس سلسلے میں اخلاقیات کو بائی پاس کرنے کی روایات اتنی جڑ پکڑ گئی ہیں اِنہیں غیر اخلاقی کہے جانے سے لوگ مضطرِب تک نہیں ہوتے - مثلاً اپنی آمدن پہ ٹیکس دینا ایک قانونی تقاضہ ہے لیکن اگر کوئی دولت مند یہ کہے کہ غیرضروری ٹیکس سے بچنا اس کا قانوی حق ہے تو اِس کا جواب کیا ہوسکتا ہے ؟اسی طرح اگر کسی سرمایہ دار کے پاس ایسی دولت ہے جس وہ ٹیکس نہ دینے یا کسی اور وجہ سے اپنے ملک میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا تو اُسے دُنیا میں موجود اَیسے جزائر اور جگہوں کی ضرورت ہے کہ جہاں کے ادارے اپنے مالی معاملات میں خود مختار ہوں -تو وہ وہاں موجود مالیاتی اداروں میں ایک کمپنی رجسٹرڈ کروائے جہاں اُس کا کالا دھن آسانی سے بروئے کار آسکے گا- یوں اُس کے نام ایک آف شور کمپنی وجود میں آجائے گی -یہ کمپنی اُس کے کالے دھن یا چھپائے گئے سرمائے سے مہنگی جائیداد خریدے گی یوں اُس کا غیر قانونی سرمایہ سفید دھن میں تبدیل ہوسکے گا اور ٹیکس دینے کے جنجال سے بھی بچ جائے گا-اس کی واضح مثال برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہے جو برطانیہ کے دائرہ اختیار میں ہیں لیکن اپنے مالی معاملات میں یہاں پہ قائم مالیاتی ادارے خود مختار ہیں- اس لیے یہ جزائر اَیسے سرمایہ دار کے لیے جو کسی وجہ سے اپنا سرمایہ چھپانا چاہتا ہو اُس کے لیے یہ ٹیکس چوروں کی جنت ہیں اور یہاں کالے دھن کو بھی چھپایا جاتا ہے اور بعدازاں اُسے سفید دھن میں تبدیل کرلیا جاتا ہے -اس پہ یہ امر شاہد ہے کہ 1999ئ سے 2012ئ تک برطانیہ کے لینڈ رجسٹری اعداد وشمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم آف شور کمپنیوں نے صرف برطانیہ میں ایک لاکھ فلیٹس خریدے - صاف ظاہر ہے یہ جائیدادیں یا تو غیر قانونی سرمایہ کھپانے کے لیے خریدیں گئیں یا پھر اپنے ممالک کے ٹیکس سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا-

پانامہ پیپرز کے افشا ہونے کی کہانی بھی اِسی سے ملتی جلتی ہے -پانامہ میں ایک لاکمپنی موساک فونسیکا کے نام سے گزشتہ چار دہائیوں سے قائم ہے اور یہ کمپنی اپنے غیر ملکی گاہکوں کے لیے آف شور کمپنیاں رجسٹرڈ کرکے انہیں مالی خدمات پیش کرتی تھی- دریں اثنا ایک جرمن اخبار کو ایک نامعلوم فرد نے یہ پیش کش کی کہ اُس کے پاس پانامہ کمپنی کے کھاتہ داروں کے بارے میںاَن گنت تفصیلی دستاویز موجود ہیں -چونکہ اِن اِفشا ہونے والی خفیہ دستاویز کی تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ تھی اِس لیے جرمن اخبار نے تفتیشی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ICIJ سے معاونت طلب کی -ICIJ نے ۶۷ ممالک کی سو میڈیا تنظیموں کے چار سو صحافیوں کی مدد سے کئی ماہ اِن دستاویز کی تصدیق میں صَرف کیے بعد اَزاں ICIJ نے اِن مصدقہ دستاویز کی نقول عالمی ذرائع ابلاغ پہ جاری کر دیں -پانامہ پیپرز سے اِفشا ہونے والی آف شور کمپنیوں کی تعداد دولاکھ چودہ ہزار کے قریب ہے - پانامہ پیپرز لیکس ہونے سے دُنیا کی سیاست میں بھونچال آگیا کیونکہ پانامہ پیپرز کے مطابق کئی ممالک کی برسرِاِقتدار شخصیات آف شور کمپنیوں کی مالک ہیں یا پھر یہ اِن کے عزیزو اقارب کی براہِ راست ملکیت میں ہیں -اِس لیے اِن ممالک میں شفاف تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کیونکہ اِن ممالک کے عوام کے مطابق آف شور کمپنیاں اگر غیرقانونی نہ بھی ہوں تو غیر اخلاقی ضرور ہیں اور حکمرانوں کی غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی قابلِ برداشت نہیں ہوتیں - پانامہ پیپرز سے اِفشا ہونے والی آف شور کمپنیوں کے معاملات کی نزاکت اور سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپی کیمشن نے ٹیکس چوروں کی جنت کہلانے والے علاقوں میں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرگرمیوں پہ کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے -امریکی صدر بارک حسین اوباما نے کہاکہ پانامہ پیپرز نے ثابت کردیا ہے کہ ٹیکس چوری ایک عالمی مسئلہ ہے - اُنہوں نے کانگرس سے ٹیکس لوپ ہولز کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور ٹیکس چوروں پہ بند باندھنے کے لیے قانون میں موجود خامیوں کو دُور کرنے کا مطالبہ بھی کیا کیونکہ اُن کے بقول ٹیکس لوپ ہولز سے ہونے والا نقصان دَرحقیقت امریکہ کے مڈل کلاس طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے -یہ بھی یادرہے کہ اب تک پانامہ پیپرز میں کسی امریکی کانام نہیں آیا کیونکہ امریکہ میں آف شور کمپنیاں رکھنا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے-

بلاشبہ آف شور کمپنیوں میں زیرِ استعمال سرمایہ زیادہ تر تیسری دُنیاکے ممالک کے غریب لوگوں کا ہے کیونکہ اِن ممالک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے سرمائے سے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں -شائد یہ حکمران کسی وجہ سے اپنے سرمائے کو عامۃ الناس سے چھپانا چاہتے ہوں -ظاہری سی بات ہے اگر یہ سرمایہ اِن ممالک میں موجود ہوتا تو اِس سے حاصل ہونے والا ٹیکس عوامی فلاح کے لیے استعمال کیا جاتا جس سے غریب عوام کی زندگی میں کچھ تو آسانی آتی- پانامہ پیپرز نے سرمایہ دارانہ نظام کے عیوب کو مزید گہرا کر دیا ہے -پانامہ پیپرز نے یہ ثابت کردیا سرمایہ دارانہ نظام تمام انسانوں کا نہیں بلکہ صرف ایک استحصالی طبقے اور اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے اور یہ انسان کش نظام غریبوں کی متاعِ حیات پہ نقب لگا کر امیروں کی تجوریاں بھر رہا ہے یا پھر سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ نظام ایک مخصوص اقلیت کے آگے دولت کے انبار اکٹھا کرنے کے لیے اربوں انسانوں کے معاشی حقوق پامال کررہا ہے - اِسی ظالمانہ نظام سے چھٹکارے کیلئے علّامہ اقبال صدا لگاتے ہیں :

اُٹھو مِری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو                   کاخِ اُمرا کے دَر و دیوار ھلادو

گرماؤ غریبوں کا لُہو سوزِ یقیں سے                      کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

 

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر