ریاست ِجوناگڑھ : پاکستان کی عالمی و قومی ترجیحات کا تعین
خطہ جنوبی ایشیاء عالمی سیاست میں پاک-بھارت تعلقات کی وجہ سے ہمیشہ نمایاں رہا ہے- وسط بیسویں صدی میں برطانوی سامراج کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندوتوا سامراج نے برصغیر میں اپنے پنجے گاڑھنے شروع کیے اور آزادی ہند ایکٹ 1947ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف اکثریتی شاہی ریاستوں پر قبضہ کیا بلکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر چکنے والی ریاست جوناگڑھ پر 9 نومبر 1948ء کوقبضہ کر لیا- ریاست جونا گڑھ کے شب خون نے اس خطہ میں پنپتی سنگینی کو نمایاں کیا مگر حیف وقت کی دوڑ نے عالمی برادری سمیت پاکستان کی عالمی و قومی ترجیحات کو یکسر تبدیل کر دیا- پاکستان اپنے اندرونی سیاس، معاشی، دفاعی مسائل کی وجہ سے مسئلہ ریاست جوناگڑھ پر نمایاں کام نہ کر سکا- جبکہ پاکستان کی ترجیحات کو بھانپتے ہوئے بھارت نے عالمی سیاست میں اپنے گھناؤنے کھیل سے ریاست جوناگڑھ کے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم کروا لیا جو کہ عالمی قوانین اور ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی گردانی جاتی ہے- ریاست جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات مکمل موجود ہیں، شاہی خاندان آج بھی پاکستان میں ریاست کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے مگر سات دہائیوں کے بعد بھی ریاست جوناگڑھ کو وہ ترجیح و اہمیت نہیں دی گئی جو اس کو ملنی چاہیے تھی- لیکن دیر آئے درست آئے، حکومت ِ پاکستان نے 2020ء کو پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کرتے ہوئے اپنی عالمی و قومی ترجیحات کو درست کرنے کی کوشش کی ہے جو روشن مستقبل کی نوید ہے-
دوسری طرف، بھارت نے ہمیشہ اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے عالمی برادری کو پاکستان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں میں اندھا کیا رکھا ہے جس کی مثال ڈس انفو لیب منصوبہ ہے- مزید برآں پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ مل کر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جس کے لیے کبھی کلبھوشن یادیو کو بھیجا تو کبھی ابھی نندن کو بھیجا مگر ہر بار منہ کی کھانی پڑی- آج جب پاکستان کی ریاستی اداروں کی کوششوں سے پاکستان سمیت خطے میں امن اور پاکستان اندرونی طور پر مضبوط ہو رہا ہے تو پاکستان اپنے نظریاتی و ریاستی ترجیحات کے تعین کی کوشش کر رہا ہے- موجودہ نواب آف جونا گڑھ عالی جناب جہانگیر خانجی اور نو منتخب دیوان آف جونا گڑھ ریاست پاکستان سے توقعات رکھتے ہیں حکومتِ پاکستان ریاست جوناگڑھ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے اور اس کیس کو اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تا کہ عالمی برادری و پاکستان کو ریاست جوناگڑھ کی آئینی و قانونی حیثیت کا علم ہو-
بدقسمتی سے ابتداء میں پاکستان نے جوناگڑھ کا مقدمہ لڑا لیکن جوں جوں وقت گزرا، یہ مسئلہ محض کتابوں تک محدود ہوتا گیا- المیہ یہ ہے کہ اب کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا ذکر ناپید ہوتا جا رہا ہے- عالمی نظام میں سر اٹھا کر جینے کیلئے قوموں کی خودداری بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس لئے ہمیں ہر قیمت پر جوناگڑھ اور جموں و کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہے اور انہیں بھارتی غیرقانونی و غیراخلاقی قبضہ سے آزاد کروانا ہے- اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قومیں اپنی ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنے مستقبل کا راستہ تعین کرتی ہیں- اگر پاکستان نے ماضی کی طرح مسئلہ جوناگڑھ کو پسِ پردہ رکھا تو شائد ہم کبھی بھی اس مسئلے کے حل کی طرف نہ جا پائیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس کے متعلق درست معلومات بھی فراہم نہ کر سکیں- اکیسویں صدی میں جب دشمن ہمارے نظریات و تہذیب کے درپے ہے تو پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ اور نظریات کی حفاظت اسی طرح کرے جس طرح جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے-
پاکستان کو اس ملٹی پولر گلوبل ویلیج میں اپنے عالمی تعلقات اور سفارت کاری کو بروئے کار لاکر مسئلہ جوناگڑھ کو عالمی برادری میں اجاگر کرنے اور اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے- پاکستان کو عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ مختلف ملکی ایوانوں و سفارتخانوں میں مسئلہ جوناگڑھ کے متعلق اپنی آواز بلند کرنی چاہیے- 14اگست 2021ء کو دیوان آف جوناگڑھ کی طرف سے پیش کردہ 14 نکاتی ایجنڈہ حکومت پاکستان کیلئے کار آمد ہو سکتے- حکومت پاکستان سینیٹ و پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر ریاست جوناگڑھ پر متفقہ قرارداد پاس کی جائے- اسی طرح حکومتِ پاکستان کشمیر کمیٹی کی طرح جوناگڑھ کمیٹی قائم کرے تاکہ مسئلہ جوناگڑھ کو بہتر طریقے سے اجاگر کیا جاسکے- حکومت پاکستان پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دے جس میں وزارتِ خارجہ، داخلہ، قانون اور وزارتِ سفیران کے نمائندگان شامل ہوں- اس کمیٹی کا مقصد ریاست جوناگڑھ کی قانونی پیچیدگیوں کے متعلق اپنی سفارشات حکومت کو دینا ہوگا- حکومتِ پاکستان مسئلہ جوناگڑھ پر قومی و عالمی کانفرنس منعقد کروائے تاکہ اس کے متعلق قومی آگاہی میسر ہو سکے-