مشرقِ وُسطیٰ کی ناگفتہ بہ صُورتحال اور قیادت کی ذِمّہ داریاں
قُدرت کا نظام عالمگیر انصاف پہ قائم ہے جس کی نظر میں کسی کو کسی پہ برتری نہیں سوائے اُس کے جو قوانینِ قُدرت کی پاسداری کرے - قُدرت اپنے قائم کردہ میرٹ پہ ہی اقوام و افراد کی انفرادی و اجتماعی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے، ماضی و حال کی اَقوامِ عالَم کے عروج و زوال کی تاریخ اِسی بُنیادی فلسفہ کے گرد گھومتی ہے- خود کو قُدرت کے صحیح نمائندے کہلانے کے حقدار اور’’اُمتِ وسط‘‘ کہلا کر خوشی محسوس کرنے والے مسلمان آج اسی لپیٹ میں ہیں کہ قدرت کے ہر میرٹ کو جھٹلا کر خود کو عظیم سمجھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر قُدرت کا عالمگیر انصاف اپنے تقاضے ضرور پورے کرتا ہے -
آج اسلام اور مسلمانوں کو کسی بیرونی دُشمن سے اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا انہیں خودمسلمانوں سے ہے- شام،عراق یمن اور کتنے ممالکِ اِسلامی اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں جو مختلف سیاسی و مذہبی فرقوں کی بُنیاد پہ ہم نے خود بھڑکا رکھی ہے- خاص کر عراق اور شام کے حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہیں جو کچھ اطلاعات سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق ان دِنوں شام کے تاریخی شہر حلب(Aleppo) میں بد ترین خانہ جنگی جاری ہے ہزاروں بے گناہ لقمۂ اجل بن چکے ہیں،لاکھوں بے گھر ہیں اور سینکڑوں لا پتہ ہیں،ہر طرف اسلحہ و بارود کی گھن گرج ہے،عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار ہے،میتوں اور زخمیوں کے جسموں کےاعضا ء چیتھڑوں کی شکل میں ہر جانب بکھرے ہوئے ہیں،انسانی خون اور لاشوں کے ساتھ گولہ بارود سے پھیلنے والے تعفن کی بدبو نے شہرکا ماحول سانس لینے کے قابل نہیں چھوڑا (پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا) - عالمی طاقتیں مستقبل کے عالمِ عرب کے نقشے اپنے مفاد کے مطابق ڈھالنے کی جنگ وہاں لڑ رہی ہیں اور اگر اِس سب صورتحال سے نظر چرائے اپنی اپنی فرقہ وارانہ وابستگیوں کی بنیاد پہ ایک دوسرے کو مُوردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں تو مسلمان-جنہوں نے دینِ رحمت کو دینِ حرب بنا رکھا ہے- عالمِ عرب اور ایران پہ جنگ کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فرقہ وارانہ تعصبات شدید تر سے شدید ترین ہوتے جا رہے ہیں ، کسی کو فکر نہیں کہ دونوں صورتوں میں جنگ مسلمان ہی ہاریں گے اور فتح اُن کے دشمنوں کی ہو گی،جیسا کہ اِس سے پہلے ہوئی تھی -
عالمِ عرب مختلف قومیّتوں اور نسلوں پہ مشتمل ایک خطہ تھا تاریخ میں جس کی کبھی ’’یونیفائیڈ آرمی‘‘ نہیں رہی بلکہ فقط منتشر قبائلی لشکر ہوتے تھے،اِس کی پہلی یونیفائیڈ آرمی سیّد العربِ والعجم صاحب الجودِ والکرم رسولِ محتشم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس نے تشکیل فرمائی ،اُس کے بعد سے ہمیشہ عالمِ عرب اسلام ہی کی قُوّت سے متحدو پُر امن رہا ہے اور یہی اس کی شناخت تھی جیسا کہ علامہ اقبال ()نے بھی فرمایا تھا کہ (محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی) -اس کے بعد آخری مرتبہ اِس ٹوٹے ہوئے پیالے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خلافتِ عُثمانیہ کے ہاتھ میں یکجا رہے اور منتشر ہونے سے محفوظ رہے،مگر عربوں نے فرنگی اونٹوں کو اپنے حوض پہ بٹھایا ،مغرب کی سیاسی فکریات کے بتوں کو اپنی شلفوں پہ سجایا اور اِسلامی شناخت کا خون ’’عرب نیشنل ازم‘‘ کے بے رحم دیوتا کے چرنوں پہ قربان کر کے مصیبت کا سرمایہ بدلے میں لیا اور قبائے خلافت کو تار تار کرنے کے جرم میں شریک ہوئے -یہ جانے بغیر کہ اَب اِن کے ساتھ ہونے کیا جارہی ہے (پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست) - جو کچھ مغربی سامراج نے عربوں کے ساتھ کیا ہے شاید انہوں نے اس امر کا مستحق خود کو ثابت کیا کہ یہی ہونا چاہئے تھا -مغربی قوتوں نے جو جغرافیائی لکیریں کھینچ دیں بغیر کسی تردّد کے عرب اُس پہ لبیک کہہ گئے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ تُرک عثمانیوں نے انہیں جس طرح رکھا تھا اُس میں’’ عرب وحدت‘‘ کس قدر محفوظ و مامون تھی اور مغرب نے انہیں جس طرح تقسیم کیا اُس نے سلگتی چنگاریاں اِن جُغرافیوں کے درمیان چھوڑیں تاکہ وقت آنے پہ انہیں شعلوں کی طرح بھڑکادیا جائے اور اُمت کو ایک دوسرے سے بھڑا دیا جائے- حکیم الاُمّت ()کا تبصرہ نو عشروں کے بعد بھی اُسی طرح زندہ و تابندہ ہے :
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دِل |
|
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عُقدۂ دُشوار! |
ساٹھ اور ستر کی دِہائیوں نے بھی عربوں کو کئی مواقع فراہم کئے کہ وہ اپنے اصل مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکیں مگر اُن مواقع سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا گیا اور عرب دُنیا اِسی طرح تسلسل سے انتشار کی جانب بڑھتی رہی -اِس پہ مستزاد یہ کہ عرب دُنیا کو تیل ، گیس اور دیگر قُدرتی وسائل کے مؤثر ’’قومی استعمال‘‘ سے دُوری (بلکہ غفلت) نے دِفاع و معیشت سمیت کسی بھی شُعبہ میں خاطر خواہ مستقل و مستقبل بین ترقی نہ کرنے دی-مغربی ایمأ پہ عربوں کے اپنے مابین بھی کئی جنگیں ہوئیں اور خاص کر عرب و عجم کی تقسیم کی خلیج ناقابلِ عبور ہونے کی شکل اختیار کر گئی - جہادِ افغان سے لوٹنے والے عرب مجاہدین نے عرب نوجوانوں کی سوچ کو بادشاہتوں سے متعلق بیحد متاثر کیا ، ایک سطحی سا تصور اُن کے جوان ذہنوں میں نقش ہو گیا جس کے دُور رَس نتائج شاید کسی نے محسُوس نہ کئے -
اِس سلسلے کی آخری دو کڑیوں میں سے پہلی کڑی۲۰۰۳ء میں عراق پہ امریکہ و اتحادیوں کا حملہ و قبضہ تھا جس نے مستقبل کی جنگ کا میدان صاف کرنے کے لئے خطرناک ہتھیاروں کا ڈرامہ رچا کر صدام حسین کی ’’طاقتور فوج‘‘ کو کچل کر رکھ دیا - جبکہ دوسری کڑی تیونس کے ایک نوجوان کی خود کشی سے اُٹھنے والی ’’عرب بہار‘‘ کی تحریک تھی جس نے عرب دُنیا کے ’’پولیٹیکل کلچر‘‘ اور تزویراتی ترجیحات (Strategic Priorities) کو بدل کر رکھ دِیا - مصر میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کی ہر ممکن کوشش اور پروپیگنڈا کیا گیا مگرخواہشات و توقعات کے برعکس ’’پرو فلسطین‘‘ محمد مُرسی صدر منتخب ہو گئے جنہیں عربوں ہی کی مالی و سیاسی مدد سے معزول کر کے پابندِ سلاسل کر دیا گیا - شام میں ’’پرو ایران‘‘ حکومت کے خاتمے کے لئے عربوں نے مغرب کے جنگی جنونیوں کولڑنے کے لئے ’’پوٹینشل یوتھ‘‘ فراہم کیا جس کا انجام خود عرب دُنیا نہیں جانتی تھی کہ جن کے ہاتھ میں شبابِ عرب کی باگیں تھمائی جا رہی ہیں وہ اُن کی توپوں کے رُخ خود عربوں ہی پہ پھیر دیں گے-’’القاعدہ عراق‘‘سے لےکر ’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ تک کا سفر اور اُس کے بعد عراق و شام کی اب تک کی صُورتحال سے سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عرب قیادت خاص کرخلیج تعاون کونسل(GCC) لیڈر شپ کا ہاتھ وقت کی نبض پر نہیں تھا جس کی وجہ سے عالمِ عرب مسلسل ہاتھوں سے نکلنے کی طرف جا رہا ہے -
نہ جانے کہ عرب قیادت کو یہ سمجھنے میں کیا مُشکل در پیش ہے کہ اُنہیں اِس ’’جنگ سے ‘‘اور اِس ’’جنگ میں‘‘ بچانے کے لئے کوئی نہیں آئے گا ، بالآخر عربوں کو خود ہی اِس جنگ سے نکلنا ہو گا اور ’’محفوظ مستقبل‘‘ کو تلاش کرنا ہوگا - یہ اُن کی اپنی خواہش پہ مُنحصر ہے کہ امن آج چاہیےیا کچھ گنوانے کے بعد ؟
عرب دُنیا کا مسئلہ ریشم کے دھاگے کی ایسی اُلجھی ہوئی گتھی ہے جِسے اہلِ دانش نے نہ سلجھ سکنے کی حد تک الجھا دینے کی ہر ممکن کوشش کر چھوڑی ہے ،
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سُلجھے |
|
اہلِ دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہے |
اب یہ عرب قیادت کا تاریخی امتحان ہے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو اِن مسائل سے آزاد کرواتے ہیں اور خطے کو خانہ جنگی اور مستقل فتنہ و فساد سے محفوظ بناتے ہیں - ہم نے اب ایک عادت سی بنا لی ہے کہ ہر بات پہ ’’یہود و ہنود و نصاریٰ‘‘ کی سازشوں کو مُوردِ اِلزام ٹھہراتے ہیں لیکن اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے پہ تیار نہیں،اِس لئے سب سے پہلے اِس اعترافِ حقیقت کی ضرورت ہے کہ حالات کی خرابی کے ذِمّہ دار ہم خود ہیں اِس لئے کہ ہم دُشمن سے کسی رحم کی اُمّید کیوں رکھتے ہیں ؟ اگر دُشمن ہی پہ سب کچھ لیپنا ہے تو یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ دُشمن کا آلۂ کار کون بنا ؟ اور کیوں بنا ؟
جب ہم مشرقِ وُسطیٰ میں جاری کشیدگی (unrest) کے حل کی جانب آتے ہیں تو ہمیں تین فریقین نظر آتے ہیں جن کا تاریخی و مؤثر کردار اِس خطے میں موجود ہے- (۱)خود عربوں کا (۲) ایران کا اور (۳) تُرکی کا-
یہ حقیقت ہے کہ اُمّتِ اِسلامی میں فرقہ وارانہ شدّت پسندی کے فروغ میں ایران اور عرب ممالک کا کلیدی کردار ہے - دونوں فریقوں نے اشتعال کی انتہا کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ محض فروعی ضِد بازی کی وَجہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے پہ تو کیا سُننے پہ بھی تیار نہیں ہیں - عربوں سے تو’’ گلۂ جفائے وفا نما ‘‘ اپنی جگہ، ایران کا کردار بھی اِن تمام معاملات میں بہت ہی غیر تعمیری ،منفی اور تخریبی ہے،ایران کی فرقہ وارانہ پالیسیوں نے گزشتہ تین عشروں میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ’’جنٹلمین‘‘ ہے نہ ہی بننا چاہتا ہے-ایرانی قیادت کی ایک کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اِس جنگ کو اپنی مٹی پہ نہیں لڑا بلکہ اِسے عرب سرزمین پہ دھکیلا ہے جبکہ عرب قیادت یہ سمجھنے پہ تیار نہیں ہے- دیکھا جائے تو شام اور یمن دونوں عربی الاصل ہیں نہ کہ ایرانی الاصل ،اِس لئے عرب ایران تنازعہ ایران میں نہیں عرب میں لڑا جا رہا ہے - دُکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں عرب و عجم کی تقسیم و تعصب نے زمینِ عرب کا چہرہ بے گناہوں کے خون کے دھبوں سے داغدار کر رکھا ہے- ایک تاریخی غلطی جو عرب و عجم کے دامن سے وِحدتِ اُمت سے بے وفائی کے داغ کبھی دھلنے نہیں دے گی وہ یہ ہے کہ اِس جنگ کے سبب روس اور امریکہ کو اُمتِ اِسلامی کے قلب یعنی مشرقِ وُسطیٰ میں اپنے مفادات کی جنگ لڑنے کا جواز مِلا ہے -
عرب و عجم اگر اسلام اور مسلمانوں کے واقعتاً خیر خواہ ہیں تو اُنہیں تین فیصلے کر لینے چاہئیں اور کسی بھی صُورت اِن پہ سمجھوتہ (compromise) نہیں کرنا چاہئے-
v امریکہ اور رُوس کی مشرقِ وُسطیٰ میں مداخلت کا خاتمہ ’’بہر صُورت‘‘ یقینی بنایا جائے
v یمن اور شام میں اپنی اپنی پراکسیز کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے سے فی الفور ’’سٹپ ڈاؤن‘‘ کروائیں
v ایک دوسرے کے خلاف مختلف ممالک میں جاری زر خرید فرقہ وارانہ جنونیّت کی پالیسی کو ترک کریں
درج بالا تینوں میں اوّل تجویز میں تُرکی کو بھی فیصلہ میں شامل ہونا چاہیے- ترکی کا خلافت کی وجہ سے دُنیائے عرب میں ایک تاریخی کردار رہا ہے ،جس کے اثرات آج تک موجود ہیں-عربوں کی ایک تعداد آج بھی ترکی سے ان تنازعات کے حل کرنے میں کردار کی توقع رکھتی ہے-خاص کر مسئلہ فلسطین پہ ترکی کے کردار کی وجہ سے- ترکی کا انفلوئینس عرب و عجم دونوں میں ہے اِس لئے اسےمفاہمتی عمل کے لئے کسی بڑی کاوش کا آغاز کرنا چاہیے یہ سوچتے ہوئے کہ اُسے ’’پارٹ آف پرابلم‘‘ نہیں بلکہ ’’پارٹ آف سلوشن‘‘ بننا ہے -
قُدرت کا نظام عالمگیر انصاف پہ قائم ہے جس کی نظر میں کسی کو کسی پہ برتری نہیں سوائے اُس کے جو قوانینِ قُدرت کی پاسداری کرے- قُدرت اپنے قائم کردہ میرٹ پہ ہی اقوام و افراد کی انفرادی و اجتماعی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے ،ماضی و حال کی اَقوامِ عالَم کے عروج و زوال کی تاریخ اِسی بُنیادی فلسفہ کے گرد گھومتی ہے- خود کو قُدرت کے صحیح نمائندے کہلانے کے حقدار اور ’’اُمتِ وسط‘‘ کہلا کر خوشی محسوس کرنے والے مسلمان آج اسی لپیٹ میں ہیں کہ قدرت کے ہر میرٹ کو جھٹلا کر خود کو عظیم سمجھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر قُدرت کا عالمگیر انصاف اپنے تقاضے ضرور پورے کرتا ہے -