صوفیانہ تحریکیں اور پاکستان کا نظریاتی استحکام
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم، ملک یا معاشرہ اپنے نظریے کو پسِ پشت ڈال کر نہ تو اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اورنہ ہی ترقی و خوشحالی کے سفر میں آگے بڑھ سکتا ہے،بالفاظ ِ دیگر نظریہ ہی وہ بنیادی ضابطہ ہے جو قوموں کے عروج وزوال میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے غفلت شکست و ریخت کا سبب بنتی ہے-آج بھی دنیا کے جس خطے میں انسانی بحران و سماجی انتشار، سیاسی و معاشی عدم استحکام پایا جاتا ہے وہاں سب سے بڑی وجہ روحانی و اخلاقی ضُعف ہے جو اسے تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے -
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ پر استوار ہے جواسے عالم ِ اسلام میں منفرد مقام عطا کرتا ہے- بلاشبہ پاکستان کی سلامتی اور عزت ووقار کی واحد طاقت اِس کا اسلامی نظریہ ہے جو اسے مضبوط و مستحکم بناتا ہے- بدقسمتی سے پاکستان کو نظریاتی سطح پر کمزور کرکے استحکام پاکستان کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں جس کی مثال اکثر و بیشتر فرقہ واریت، صوبائیت پرستی، لسانیت پرستی، مذہبی انتہا پسندی و شدت پسندی، سیاسی جماعتوں کا غیرجمہوری طرزِ عمل اور رجحانات کے علاوہ پاکستان مخالف بیانیے کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے جس میں کئی میر جعفر و میر صادق اپنا گھناؤنا کردار ادا کرکے ملکی وملّی تشخص کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کرتےہیں-لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی قطع نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان جب کبھی ایسی مشکلات اور مسائل میں گھرا اِس خطہ کے صوفیائے کرام نےہمیشہ مملکتِ خدادا کو سہارا دیا ہے- تحریک ِ پاکستان میں صوفیاء کرام کا عملی کردار قیام ِ پاکستان میں بنیادی محرک کی حیثیت رکھتاہے اس لیے کہ اسلامی اقدار و روایات میں روحانی تعلیمات و نظریات ہر دور کی بنیادی ضرورت رہی ہیں- اِ س وقت بھی صوفیاء کرام کی تعلیمات و پیغام ہی استحکامِ پاکستان کا ضامن ہے-
14 اگست 1947ء یعنی جس دن اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا اُ سی دن سولہویں صدی کے عظیم صوفی،سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی نویں پشت سے سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی ولادت باسعادت ہوئی- بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نے دراصل اس میراثِ مسلمانی کے تحفظ کیلئے کام کیا جس کا تحفظ ہر دور میں آئمہ عظام اور سلف صالحین کرتے آئے تھے- آپؒ کی قیادت و شخصیت ہمہ جہت اور پیغام عالمگیر و آفاقی ہے ،جو آپؒ کی قائم کردہ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی صورت میں نظر آتا ہے-اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استحکا م،اتحادِ اُمتِ مسلمہ اور انسانی معاشرے کی فلاح و اصلاح اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے- مزید اس تحریک کا مقصد محبّ وطن اور ذمہ دار پاکستانی شہری پیدا کرنا ہے جو اسلام اور پاکستان کی خدمت کوا پنا شعار بناتے ہوئے ہر میدان میں مملکتِ خدادا د کا نام روشن کریں - آپؒ نے اپنی تحریک سے وابستہ لوگوں کو یہی پیغام دیا کہ آپ چاہے کسی مرتبے یا عہدے پر فائز ہوں ہمیشہ ذاتی مفاد کی بجائے ملک و ملت کی بھلائی کیلئے کام کریں-اس کے علاوہ یہ موجودہ صدی کی واحد تحریک ہےجو دین ِ متین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اتحادِ ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کے روحانی و نظریاتی دفاع کیلئے ہمیشہ کمر بستہ رہی ہے-آپؒ نے عامتہ الناس کے قلوب و اذہان میں یہ فکر راسخ فرمائی کہ فی الحقیقت پاکستان کی روحانی شناخت ہی پاکستان کو نظریاتی طور پر مستحکم کرتی ہے- مزید آپؒ نے بانیان ِ پاکستان کی اُس فکر کو اجا گر کیا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ بننے کیلئے حاصل کیا گیا ہے-
پاکستان کے اسلامی و روحانی تشخص کی پاسبان سلطان الفقرؒ کی تحریک مادی ترقی و روحانی تنزّلی کے موجودہ دور میں بالخصوص پاکستان اور بالعموم پوری اُمت مسلمہ کی روحانی ونظریاتی بقاء کی ضامن ہے بشرطیکہ اِس تحریک کے پیغام اور انقلابی فکر کو سمجھ کر عمل پیرا ہوا جائے - اس وقت سلطان الفقرؒ کے شہزادگان آپؒ کی نظریاتی میراث اور تحریکی مشن کو عالمی سطح پر پھیلانے کیلئے علمی،ادبی،تحقیقی اور ثقافتی پلیٹ فارمز پر جس طرح انتھک محنت اور مؤثر کردار ادا کررہے ہیں یہ اپنی مثال آپ ہے-آپؒ کی عطا کردہ روحانی فکر اور سوچ ہمیں اسلام اور پاکستان سے محبت کا درس دیتی ہے کہ کیسے ہم نے پاکستان کو اپنی ترجیح بناتے ہوئے اسلامی نظریہ پر بنے اس ملک میں متاعِ مصطفےٰ(ﷺ) کے فروغ کیلئے ہمہ وقت اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہے- مزید برآں ! ہم آپؒ کے آفاقی و روحانی پیغام سے عملی وابستگی اختیا ر کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ اور اولیاء اللہ کے فیضان کا سرچشمہ بنا سکتے ہیں جو عصری تقاضوں کے پیشِ نظر ملکی و ملی یکجہتی واتحاد اور استحکام پاکستان کی ناگزیر ضرورت ہے-