پاکستان میں زور پکڑتا اَخلاقی بحران
وطن عزیز پاکستان میں جہاں سیاسی، سماجی،معاشی اور دیگر دفاعی نوعیت کے داخلی اور خارجی مسائل ہیں وہاں ملکِ پاکستان میں جاری اخلاقی بھی زوال ہے جس کے کئی مظاہر مختلف اوقات میں نمودار ہوتے ہیں جو چند عرصہ بعد فقط ماضی کی پرانی خبریں بن جاتی ہیں لیکن ان مسائل کا کوئی تدارک نہیں ہوتا- اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں اخلاقی بحران اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ گویا اَخلاق ایک فعلِ ممنوع بن گیا ہو -مثلاً جس طرح یہاں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ، کرپشن اور رشوت کا کلچر عام ہے، اخلاقیات سیاسی طورپر بھی پستی کا شکار ہیں،عوامی اور پارلیمنٹ کی سطح پہ ووٹوں کی خرید و فروخت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، شعبہ صحت میں ڈاکٹرز اور ادویات ساز کمپنیوں کے ذاتی مفاد پہ مبنی نسخہ جات کی ترتیب ایک بہت بڑا المیہ ہے جو کہ انتہائی توجہ طلب ہے - نظامِ انصاف کے بارے گردش کرتی خبریں اور بعض وکلا کے متجاوز افعال اور رویے بھی اخلاقی بحران ہی کی پیداوار ہیں - مزید برآں نصاب سے علم الاخلاق کی کتب کی رُخصتی کی وجہ سے مذہبی طبقات میں بھی بعض کی اخلاقی حالت معاشرے کے دیگر طبقات سے مختلف نہیں -
صد افسوس کہ! پاکستان میں کسی بھی سطح پہ اخلاقیات(Ethics) بطور مضمون نہیں پڑھائی جاتیں اور اگر پڑھائی جاتی ہیں تو وہ لوگوں میں ایک متحرک قوت کے طور پر نہیں ابھرتی-گوکہ تعلیمی اداروں میں بھی فلسفہ کا ایک مضمون ہے جس میں اخلاقیات (Ethics)پڑھائی جاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے فلسفے کے مضمون میں اتنے طلباء ہی نہیں جاتے جو اس کو پڑھ سکیں اور اپنے وجود پہ لاگو کر سکیں- یعنی وہ’’Functional Literacy‘‘کے طورپر کام نہیں کرتا- ہمیں اپنی نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت اور ان میں شعور پیداکرنے کی ضرورت ہے- اخلاقیات کو فلسفیانہ اور عملی طورپر پڑھانے اور لاگو کروانےکےلئے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے- تاریخ میں دیکھیں تو کئی فلسفیانہ تعلیمات نے پوری پوری تحریکوں کو جنم دیا، انقلاب و اصلاحات لائیں،کسی نئے ملک کوبنانے اور سنوارنے میں کامیاب ہوئیں جیساکہ انقلاب فرانس میں ژاں ژاک روسوکی تحریریں بنیادی اہمیت کی حامل ٹھہریں- جیریمی بینتھم اورجان اسٹورٹ مل نے برطانیہ کو فلاحی ریاست بنانے کےلئے راہ ہموار کی- مزید برآں والٹیئراور مارٹن لوتھر نے مغربی معاشرے میں موجود چرچ کی (Hegemony)کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا، بیرن ڈی مونٹیسکیؤ ، جو محض مونٹیسکیؤ کے نام سے مشہور ہیں،کے نظریہ ’’اختیارات کی علیحدگی‘‘ (Separation of Power) کے اثرات ہمیں امریکی آئین میں واضح طور پر ملتے ہیں جبکہ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور لینن کے نظریات نے کیمونسٹ انقلاب برپاکیا- مملکتِ خدادا پاکستان کا نظریہ بھی ایک عظیم فلسفی علامہ محمداقبالؒ نے ہی دیا جن کا تصورِ خودی بنیادی طور پہ ایک اخلاقی و روحانی تصور ہے ، آج ہمیں ان کی دی گئی اخلاقی تعلیمات کواپنانے کی ضرورت ہے -
تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی مختلف جہتوں کو فقط بطور ایک مضمون کے پڑھا دیا جاتا ہے لیکن وہ طلباء کے وجود میں ایک متحرک قوت پیدا نہیں کرتیں مثلاًبزنس ایتھکس(Business Ethics)،میڈیکل ایتھکس(Medical Ethics)، بائیو میڈیکل ایتھکس(Bio-Medical Ethics) اور لیگل ایتھکس (Legal Ethics) وغیرہ-
اَخلاق کے مآخذ میں غور کریں تو تاریخ انسانی میں اخلاق ہمیشہ سے مقدس شخصیات سے حاصل کیا گیا ہے یعنی پہلی امتیں اپنے انبیاء کرامؓ سے اخلاق حاصل کرتی تھیں، اُمتِ اسلامیہ حضورنبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس سے اخلاق حاصل کرتی ہے اور ہمارے سلف صالحین کے ہاں اخلاق ایک مضمون کے طور پہ موجود تھا-اس کے ساتھ انہوں نے عملی طورپر اور انسانی ذہن کے مطابق معاشرہ کی اخلاقی تربیت کےلئے مختلف طریقہ ترتیب دیئے،کبھی شاعری کی صورت میں تو کبھی داستان و کہانیوں کی صورت میں اور کبھی پیکرِ اخلاق کی صورت میں یعنی خود اخلاق کا نمونہ بن کر- لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ درسِ نظامی کے نصاب میں اخلاق کی کوئی مخصوص کتاب نہیں پڑھائی جاتی جو طلباء کو اخلاق و آداب کے مضمون کا ماہر بنائے- یہی وجہ ہے کہ اخلاق کو ثانوی درجے کی حیثیت بھی حاصل نہیں رہی-
معاشرے میں اخلاقیات کا ڈھانچہ پوری طرح سے بکھر چکا ہے جس کے باعث اس قدر سنجیدہ نوعیت کے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب شاید تلاش کرنا ممکن نہ ہو-لیکن یہ سوالات انتہائی مدبرانہ غورو فکر اور عملی جوابات کے متقاضی ہیں- مثلاً :
v کیا کبھی یہاں اخلاقی ڈھانچہ وجود بھی رکھتا تھا؟
v اگر کوئی اخلاقی ڈھانچہ موجود تھا تو وہ کس نے تعمیر کیا؟
v اخلاقی ڈھانچہ کب سے تباہ ہونا شروع ہوا؟
v اس کی تباہی کی ذمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے؟
v اگر ہم اس اخلاقی سانچے کی تعمیر نو چاہتے ہیں تو اس کی ذمہ داری بنیادی طور پہ کس کے اوپر عائد ہوتی ہے؟
اگر درج بالا اٹھائے گئے سوالات پہ غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پہ ایک اخلاقی ڈھانچہ اور اخلاقی نظام موجود تھا جو ایک متحرک قوت کے طور پہ معاشرے میں جاری و ساری تھا- اس کی تعمیر کرنے والے اسلام کے مبلغین علماءِ ربانیین یعنی صوفیاء کرام تھے جن میں حضرت داتا گنج بخش، حضرت معین الدین اجمیری، حضرت سلطان باھو، حضرت لال شہباز قلندر، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ سرفہرست ہیں کیونکہ ان کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ اخلاق کی تعلیم وتربیت پہ مشتمل تھا- جیساکہ بہت سے فرقوں کے لوگ صوفیانہ تصورات سے تو اختلاف رکھتے نظر آتے ہیں لیکن صوفیانہ اخلاق کی کبھی نفی نہیں کرتے -کیونکہ صوفیاء نے جو اخلاق کی تعلیم دی وہ فقط تھیوری کے طور پر ایک مضمون نہیں تھا جس کو لوگوں کی نظروں سے گزار دیا جاتا تھا بلکہ وہ لوگوں میں اخلاق کو بطور ایک متحرک قوت کے پیدا کرتے تھے-
ستم ظریفی! جب انگریز سامراج یہاں آن پہنچا، اس نے دیکھا کہ معاشرے کی سب سے بڑی قوت لوگوں کی صوفیاء کرام سے وابستگی اور محبت ہے-یہی وجہ ہے تعلیماتِ صوفیاء کو ختم کرنے کے لئے اس نے فرقہ بندی کو اپنا کامیاب ہتھیار بنایا اور دوسری جانب اخلاق کی تعلیم و تربیت عام کرنے والی خانقاہوں پہ کاری ضرب لگائی- پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں ایک بڑی بھیانک تبدیلی یہ بھی تھی کہ جویہاں پہ موجود صوفیانہ فکر کو اختیارات کی طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں –مثلاًآج بھی اگر کہیں پہ کوئی مناظرانہ نوعیت کی گفتگو کی جائے تو اس کو مذہبی طبقات کے عوام و خواص میں زیادہ پذیرائی ملتی ہے جبکہ اخلاقی تعلیم و تربیت کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا-جس کی وجہ سے معاشرے میں شدت پسندی، گھٹن اور چھوٹی چھوٹی بات پہ قتل و غارت کی لہر نے سر اٹھایا جس کی حالیہ مثال سانحۂ سیالکوٹ ہے اور اس قسم کے دل خراش واقعات ماضی میں بھی ہو چکے ہیں-
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیائے کرام کے تربیتی نظام کو بحال کیا جائے اور ان کی تعلیمات سے عملی استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ ہم اخلاقی تربیت کو اپنی زندگی کا ایک فعال حصہ بنا سکیں اور اس کی ترویج میں ایک اہم کردار ادا کر سکیں-کیونکہ اخلاق ہمارے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ایک عظیم صفت ہےجیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘(القلم:4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خُلق پر قائم ہیں ‘‘-
مزید آقا کریم (ﷺ) نے خود بھی ارشاد فرمایا:
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ‘‘(سنن الکبرٰی للبیہقی)
’’ بے شک میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-