مقبوضہ جموں و کشمیر:5 اگست 2019ء سے 2022ء تک
5 اگست 2019ء میں فاشسٹ نظریہ کے تحت مودی حکومت نے صدارتی احکامات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کے 1954ء کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مخصوص تشخص (Special Status ) کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کیلئے غیر قانونی و حقِ خود ارادیت کے منافی اقدام اٹھایا جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی کو کچلنا اور اپنے نوآبادیاتی نظام کو آئینی چھاپ لگانا تھا-اس عمل کے بعد کشمیری عوام کے علاوہ بھارتی لوگوں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف زمین و کاروبار کا حق حاصل ہوا بلکہ استصواب رائے کی صورت میں بھارت کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع بھی مل گیا-عوامی مخالفت کے خوف سے کئی کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور مقبوضہ کشمیر میں لامحدود مدت کیلئے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا - جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو گئے- عالمی برادری نے اس اقدام کی مذمت کی جبکہ پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کے سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کردیا-
دنیا ہر سال 5 جنوری کو یوم حقِ خود ارادیت کے طور پر مناتی ہے کیونکہ اس کا مقصد عالمی قوانین کے تحت ترکِ نو آبادیات کی تحریکوں کو ان کا حق دلوانا ہے - اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں حقِ خودارادیت سے لوگوں کو اپنا مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے- مگر صرف قوانین سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ عالمی برادری کی سیاسی رضامندی کے بغیر ایساممکن نہیں- اس کی مثال تقسیم سوڈان اور ایسٹ تیمور کی تخلیق ہے- جبکہ کشمیر و فلسطین آج بھی عالمی ضمیرو نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں - 5 جنوری2022ء ایک بار پھر عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی غیر انسانی صورتحال کی جھلک دکھا گیا کہ جہاں دنیا میں کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے تنگ لوگوں نے مظاہروں کے ذریعے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا وہیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی و نسل پرستانہ لاک ڈاؤن کو کووڈ 19 کا لیبل لگا کر کوئی رعایت نہیں دی اور لوگ ابھی بھی سخت سماجی و سیاسی پابندیوں میں زندگی گزار رہے ہیں-
تاریخ ِکشمیر بالخصوص موجودہ تین سالہ (2019ء-2021)لاک ڈاؤن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بدترین تاریخ ہے جو آج تک کسی بھی جمہوریت میں دیکھی گئی ہے- ایک رپورٹ کے مطابق جابر بھارتی حکومتی فورسز نے اگست 2019 ءمیں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک تقریباً 515 سے زائد کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے جن میں صرف گزشتہ سال (2021ء ) شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعد اد 210 ہے-اس کے علاوہ سیاسی نمائندگی، تعلیم، آزادیٔ اظہار، زندگی کا حق جیسے بنیادی حقوق کشمیری مسلمانوں کیلئے شاید ناممکن ہیں مگر حیف کہ عالمی جمہوری علمبرداد اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی بدولت بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور کالے قوانین پر چپ سادھے بیٹھے ہیں- اقوام متحدہ کی جولائی 2019ء کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ کے بعد بھی بھارت کو روکنے اور کشمیریوں کے حق میں عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے- اس میں جہاں تک بھارت کی کامیاب لابنگ کا عکس ہے وہیں پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی غفلت و سیاسی مصلحتیں بھی شامل ہیں کہ کس طرح مسئلہ کشمیر کو پسِ پردہ رکھ کر بھارت نواز پالیسیاں بنائی گئی ہیں-
سالِ نو مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک امید کی کرن بن سکتا ہے اگر عالمی برادری پاکستان کی طرح سیاسی مصلحتیں چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر کو انسانی بنیادوں پر ترجیح دے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر بھارت پر غیر انسانی لاک ڈاؤن اور کالے قوانین کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالا جائےتو پاکستان کی حکومت مسئلہ کشمیر کے لیے او آئی سی کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے مسلمان ممالک کو مقبوضہ کشمیر پر متحد کر کے دباؤ بڑھا سکتا ہے- عالمی برادری و ادارے جذبہ انسانی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں امداد و عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کرنے کی کوشش کریں- اگر اسرائیل کے حصار میں موجود فلسطینی علاقوں میں امداد پہنچ سکتی ہے تو بھارت کے قبضہ میں کشمیر میں امداد کیوں نہیں پہنچ سکتی؟
حکومت ِ پاکستان کو سفارت کاری مشن کے ذریعے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کی آڑ میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے مذموم مقاصد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے- پاکستان سلامتی کونسل میں UNMOGIP کی طرح ایک کمیشن کی تشکیل کی درخواست دے سکتا ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کو دیکھے، روکے اوراس طرح کے بھارت کو دیگر اوچے ہتھکنڈوں سے باز رکھے- اس سلسلے میں پاکستانی میڈیا ہاوسسز، تھنک ٹینکس، یونیورسٹیز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں -اسی طرح نوجوان سوشل میڈیا کو استعمال کر کے دنیا کے اندر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کریں- مقبوضہ کشمیر ایک جہد ِ مسلسل ہے جس کو مخصوص دنوں سے منسوب کر کے صرف آواز بلند نہیں کی جانی چاہئے بلکہ ہر وقت، ہر لمحے، ہر گھڑی کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے ایوانوں میں گونجنے کی ضرورت ہے-بقول حکیم الاُمتؒ:
گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب |