اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىoفَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىo فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِهٖ مَا اَوْحٰى‘‘(النجم:8-10)
’’پھر قریب ہوا (اللہ عزوجل، سیدنا محمد (ﷺ) سے )پھر زیادہ قریب ہوا (سیدنا محمد(ﷺ) اپنے رب سے) تو دوکمانوں کی مقدار (نزدیک ) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریب ہوئے، تووحی فرمائی اپنے بندے (عبدمقدس) کو جو وحی فرمائی ‘‘-
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’یہاں تک کہ سیدی ر سول اللہ (ﷺ)سدرۃ المنتہیٰ پہ تشریف لے گئے تو اللہ رب العزت(اپنی شان کے لائق ) بہت ہی قریب ہوا، یہاں تک دوکمانوں کے برابر یااس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا،پھر اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کی طرف وحی فرمائی ‘‘-
(صحیح البخاری ،کتاب التوحید)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ:
’’کسی نے سیّدنا غوث اعظمؓ سے پوچھا :کیا آپؒ اللہ عزوجل کو دیکھتے ہیں؟ تو آپؒ نے ارشاد فرمایا:’’اگر میں اللہ عزوجل کو نہ دیکھوں تو اسی جگہ پارہ پارہ کردیاجاؤں‘‘-سائل نے عرض کی ،آپؒ اللہ عزوجل کو کیسے دیکھتے ہیں؟آپؒ نے ارشادفرمایا:’’اس کا وجود (جیسے اس کی شان ہے) میری آنکھیں بند کردیتا ہے-اس کے بعد میرا رب جیسے جنت میں ایمان والوں کو جس طرح چاہے گا دیدار کروائے گا-مجھے اپنا دیدار کرا دیتا ہے ،میرے دل پر اپنی تجلی ڈال کر اپنی صفات،اپنے احسان،اپنے لطف و کرم اور اپنی رحمت کا ساحل دکھا دیتا ہے‘‘-ابو القاسم حضرت جنید بغدادیؓ فرمایا کرتے تھے:’’میرے پاس میرا ہے ہی کیا؟‘‘صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے پاک اور صاف ہوگیا،اس کا دل اللہ عزوجل اور اس کے بیچ قاصد بن گیااور کوئی صوفی ،صوفی ہوتا ہی نہیں ،جب تک حضور نبی کریم (ﷺ) اس کے خواب میں تشریف لا کرادب نہ سکھائیں اور اِسے امرو نہی نہ فرمائیں -پھراِس کا دل ترقی کرتا چلا جائے اور اس کا باطن صاف ہو کر بادشاہ کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا ہاتھ سیدی رسول اللہ (ﷺ)کے دستِ اقدس میں ہوتا ہے ‘‘-(الفتح الربانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
جَیں دِل عِشق خرید نہ کیتا سو دل درد نہ پھُٹی ھو
اُس دل تھیں سَنگ پَتھر چنگے جو دِل غَفلت اَٹی ھو
جَیں دل عِشق حضور نہ مَنگیا سو درگاہوں سُٹی ھو
مِلیا دوست نہ اُنہاں باھوؒ جنہاں چَوڑ نہ کیتی تَرٹّی ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ:
ایمان ، اتحاد، تنظیم
’’ایسے علاقوں کی حکومت میں جن کے درمیان اس قدر طویل فاصلہ حائل ہو، اتحاد عمل کیسے ہو سکتا ہے؟مَیں اس سوال کا ایک لفظ میں جواب دے سکتا ہوں اور وہ ہے ’ایمان ‘-ایمان ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اپنے اوپر اعتماد اور اپنے مقدر پر بھروسہ-لیکن میں سمجھ سکتاہوں کہ جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں انہیں اس مختصر سے جواب کے مضمرات کو سمجھنے میں شاید دقت محسوس ہو‘‘- (آسڑیلیا کی عوام سے نشری خطاب ،19 فروری 1948ء)
فرمان علامہ محمد اقبال ؒ:
دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرۂ مہ و مہر کو تاراج
تو معنی وَ النَّجم، نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج (ضربِ کلیم)