پاکستان میں قرآن فہمی کا رجحان اور ہماری دینی وملیّ ترجیحات
قرآن مجید ہردور میں انسانیت کیلئے ہدایت و نصیحت اور علم و حکمت کا بنیادی منبع رہا ہے -یہ تعلیمات ِ قرآن کے ابدی ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے - اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کو مختلف ادوار میں جتنے بھی بڑے چیلنجز ا ور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس نے اپنے روشن مستقبل کی راہیں قرآن مجید کی روشنی میں متعین کی کیونکہ یہ عظیم کتاب ہر میدان میں مسلمانوں کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے -مثلاً ماضی میں جھانکیں توپتہ چلتا ہے کہ علوم و فنون،طرزِ حکومت و معاشرت اور تہذیب وثقافت کے لحاظ سے اُمّتِ مسلمہ کا دنیا میں عروج و اقبال حکمتِ قرآن سے علمی و فکری اور روحانی طور پر آبیاری سے ممکن ہوا؛ اوریہ عظیم کتاب مسلمانوں کیلئے ڈرائیونگ فورس( Driving Force) کا کام کرتی رہی- لیکن جب مسلمانوں نے قرآن مجید سے اپنا عملی رشتہ منقطع کرلیا اور فہم ِ قرآن کا ذوق ترک کر دیا پھر ذلت، خواری اور زوال ان کا مقدر ٹھہراجس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکیم لامت علامہ اقبال فرماتے ہیں :
خوار از مہجوری قرآن شدی |
|
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی |
’’تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا اور زمانے کی گردش کے شکوے کرنے لگا‘‘-
عصرِ حاضر میں مملکتِ خداداد پاکستان واحد ریاست ہے جو نظریۂ اسلام کی بناپر معرض وجود میں آئی جس کی اساس کلمہ طیبہ اور قرآن مجید پر اُستوار ہے- لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں قرآن فہمی، قرآن سے عملی رہنمائی اور قرآ نک سائنسز کی طرف لوگوں کا رجحان بہت کم ہے - بلاشبہ قرآن مجید کی تلاوت گو وہ معنی و مطالب کو سمجھے بغیر ہویقیناً ثواب و برکت اور نفع سے خالی نہیں- لیکن کیا اس سے نزول ِ قرآن کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟ قطعاًنہیں! یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک اس کے حقیقی پیغام کو نہ سمجھا جائے-
یاد رہے! کہ اسلامی ضابطہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے قرآن مجید اور اسلامیات کی لازمی تعلیم ریاستِ پاکستان کے آئین (آرٹیکل 31 دفعہ2a) کا حصہ ہے - حکومتِ پاکستان نے قرآن مجید کی مع ترجمہ لازمی تعلیم (سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں) کا باقاعدہ بل منطور کر کے نہایت اہم اقدام کیا ہے جو قابلِ ستائش ہے لیکن تاحال اس کا مکمل نفاذ نہیں ہوسکا- وقت کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو تما م تعلیمی اداروں میں مکمل قرآن مجید کی تعلیم ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا نفاذ ہر قیمت پریقینی بنا نا ہوگا وگرنہ ہماری نئی نسل اپنے بنیادی دینی و ملی اور روحانی سرمائے سے محروم ہوجائے گی-
آج بالخصوص پاکستان کی نوجوان نسل میں قرآن مجید سے عملًا دوری کی وجہ سے بڑھتا اخلاقی اور روحانی بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے بحیثیتِ قوم کبھی اپنی دینی و ملّی ترجیحات متعین کرنے کی سنجید ہ کوشش نہیں کی-اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ طلباء بالخصو ص اساتذہ و والدین اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم کے ساتھ اپنا دینی فریضہ سمجھ کر قرآن مجید مع ترجمہ صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کریں -عصری تعلیم سے وابستہ افراد بلکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنا مضبوط رشتہ جوڑے-
مزید برآں! نوجوان نسل میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دورِ جدید کے لحاظ سے قرآن مجید کی نئی جہتوں پر فکرو تدبّر کرے اور اپنے نظریات کو قرآن کی روشنی میں پرکھے –بزبانِ حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ:
از تلاوت بر تو حق دارد کتاب |
|
تو از و کامی کہ میخواہی بیاب |
’’اے مسلمان! قرآن مجید کا تجھ پر حق ہے کہ تو اس کی تلاوت کو اپنا شعار بنا لے ( محض ثواب کی غرض سے نہیں بلکہ عمل اور اسرارِ حق تعالیٰ کی معرفت کی غرض سے) اور جو تو چاہتا ہے( اپنے تمام مقاصد اور ضروریات کی تکمیل) قرآن مجید سے حاصل کر‘‘-
سیاست سے لےکر معیشت تک اور سماج سے لے کر فلسفہ تک، قرآن کریم مختلف جہاتِ علوم میں ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے-جہاں مغرب میں یونیورسٹیز دینیات (theology) کو باقاعدہ مضمون کے طور پہ پڑھاتی ہیں تو ہمارے ہاں یونیورسٹیز قرآنی علوم کو جدید تناظر میں کیوں نہیں پڑھا سکتیں؟روایتی علوم کے ساتھ ساتھ علومِ جدید اور سائنسی اندازِ تحقیق کے ساتھ ہمیں نِت نئی جہات پہ تحقیق سے اپنے ملی و قومی مسائل کا حل قرآن کریم کی رہنمائی سے تلاش کرنا ہے- یہی بانیانِ پاکستان کا طریق تھا اور یہی فکر ہمارے گوں ناگوں مسائل کو حل کر سکتی ہے-