فلسطین اورمسجد ِاقصیٰ پہ حالیہ اسرائیلی جارحیت اور بربریت
فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم و تشدد اور مسجدِ اقصٰی کی کھلی بے حرمتی کوئی نئی بات نہیں ہےاور فلسطینی مسلمان گزشتہ سات دہائیوں سے جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت ر ہے ہیں اور اپنی ہی سر زمین میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں- یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ فلسطین پاور پولیٹکس اور عالمی معاشی مفادکی نظر ہوگیا ہے کیونکہ عالمی برادری اور بحیثیت مجموعی مسلم ممالک فلسطین میں اسرائیلی جبر واستبداد پر چپ سادھے ہوئے ہیں-
مسلسل دوسرے سال ماہ رمضان المبارک میں قابض اسرائیلی فوج نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کی بے حرمتی اور جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے نمازِ فجر کے وقت نمازیوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 160 نمازی شدید زخمی ہوئے-اسی طرح ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب اور یوم القدس کے موقع پر بھی اسرائیلی فوج نے اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر دوبارہ حملے کئے اور 50 کے قریب مزید نمازی زخمی ہوئے-ان تازہ ترین واقعات میں 300 کے قریب فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ 400 افرادکو گرفتار کیا گیا-اس سے قبل گزشتہ سال بھی ماہ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقع پر غاصب اسرائیلی فوج نے نہ صرف مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا بلکہ غزہ پر 11 روز شدید فضائی بمباری کرتے ہوئے 256 مظلوم فلسطینیوں بشمول 65 معصوم بچوں کو شہید جبکہ سینکڑوں کوشدید زخمی کیا- اس کے علاوہ بھی فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے سینکڑوں غیرانسانی واقعات ہیں جن کا ذکر کرنے سے روح کانپ اٹھتی ہے مثلا ً حال میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں الجزیرہ سے وابستہ فلسطینی عیسائی صحافی(شیریں ابو عاقلہ) کا جس قدر بے رحمی سے قتل کیا گیا یہ فلسطینی نسل کشی کی بدترین مثال ہے-
ایسےانسانیت سوز واقعات قابض صہیونی طاقت کے توسیع پسندانہ عزائم سے پرد ہ اٹھاتے ہیں کہ کس طرح فلسطینیوں کو ان کی اپنی سر زمین سے مسلسل زبردستی بے دخل کر کے صہیونی آبادکاری کی جارہی ہے -اس صورتحال کے ردِّ عمل میں فلسطینیوں کی جانب سے جب بھی شدید مزاحمت کی جاتی ہے تواسرائیلی فورسز اسے کچلنے اور فلسطینیوں کی تحریک ِ آزادی کو دبانے کیلئے تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے لیکن وہ فلسطینیوں کا جذبہ حریت ختم کرنے میں ہمیشہ ناکام ہوئی ہے-
فلسطین کی حالیہ صورتحال پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف Apartheid کا مرتکب ہو رہا ہے- رپورٹ میں فلسطینیوں کی زمین اور جائیداد پر’بڑے پیمانے‘ پر قبضے، غیر قانونی ہلاکتوں، فلسطینیوں کی ان کی زمین سے دوسرے مقامات پر’جبری منتقلی‘ نقل و حرکت پر سخت پابندیوں، قومیت اور شہریت سے انکار کو ایسے’نظام کے اجزا قرار دیا گیا جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے-مزید ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ(2022) میں بتایا ہے کہ اسرائیلی اتھارٹیز کی جانب سے سال 2021ء کے صرف پہلے 6 ماہ میں 666 فلسطینی گھروں کو تباہ کیا گیا جس کی وجہ سے تقریباً 958 لوگ بے دخل ہوئے ہیں-
بدقسمتی سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی چلے آ رہے ہیں جن کے ممکنہ حل کیلئے اقوام متحدہ میں درجنوں قرار دادیں بھی منظور ہوچکی ہیں لیکن طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود اقوام متحدہ اس پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ اور دوہرا معیار ہے- تاہم اغیار سے گلہ کیا ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراُمتِ مسلمہ مسجدِ اقصٰی کی کھلی بے حرمتی اور اپنے فلسطینی بھائیوں،بہنوں، ماؤ ں اور بیٹوں پر مظالم پر خاموش کیوں ہے؟ ہمارا ضمیر کہاں کھو گیا ہے؟کہیں ہم اپنے دینی اساس اور دینی شعائر سے غفلت و بے وفائی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ کیا خونِ مسلم اس قدر سستا ہوگیا ہے؟ کہ مسلم ممالک بشمول او آئی سی نے فلسطین میں ہونے والے حالیہ واقعات پر روایتی مذمتی بیانات دینے پر اکتفاء کیا ہے جو کہ باعث تشویش ہے- اب وہ وقت گزرچکا ہے کہ یہ مسئلہ محض قراردادوں اور مذمتی بیانات سے حل ہو- اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ متحدو یکجا ہو کر مسجدِ اقصٰی کے تحفظ اور فلسطین میں صیہونی اقدامات کے خلاف عالمی برادری،انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے اداروں پر یہ دباؤ ڈالے کہ وہ انسانی بنیادوں پر فلسطین کا مسئلہ حل کروائے -مسلم دنیا کے حکمرانوں کویہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کا روحانی ونظریاتی تعلق ہے اور اس کی حیثیت ہر مسلمان کیلئے مسلمہ ہے- ہر عام مسلمان کے دل بیت المقدس اور قبلہ اول کے ساتھ دھڑکتے ہیں اس لئے وہ مسجد ِ اقصٰی کی بے حرمتی اور فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کو کبھی برداشت نہیں کریں گے-
مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح اور دو ٹوک رہا ہے اور پاکستان نے ہر ممکنہ پلیٹ فارم پر کشمیر کی طرح بغیر کسی سمجھوتے کے فلسطینیوں کے حق ِآزادی کی کھلی حمایت اور جابرانہ صیہونی تسلط کی مخالفت کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا-
مزید برآں! آج ہمیں اپنی نئی نسل بالخصوص اپنے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ مسجدِ اقصیٰ ہماری ہے، صرف ہماری اور ہم اپنے فلسطینی بھائیوں سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ کی بنیاد پر جڑے لازوال رشتے کو کبھی نظر انداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں -ملکِ پاکستان کا علمی و ادبی اور تحقیقی طبقہ نوجوان نسل میں اس فکر کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کرسکتا ہے -