سیرتِ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) اور نسلِ نو
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) وہ نفوس ِ قدسیہ ہیں،جنہیں اللہ عزوجل نے قرآن پاک کے اولین مخاطب اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے بلاواسطہ فیض یاب ہونے کا شرف عطا فرمایا- بلاشبہ اللہ عزوجل کے محبوب مکرم (ﷺ) تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اللہ عزوجل کی بارگاہ ِ اقدس کے منتخب شدہ اور برگزیدہ ہستیاں ہیں جیسا کہ روایت میں ہے:
’’بے شک اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں پہ نظر فرمائی تو سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کے قلب ِ اقدس کو چُن لیا اور آپ (ﷺ) کو رسالت کے ساتھ مبعوث فرمادیا- پھر سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے دل کے بعد بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو سب میں سے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے دلوں کو بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی مکرم (ﷺ)کا وزیر بنادیا،یہ ایسے سعادت مند ہیں کہ آپ (ﷺ) کے دین کی سربلندی کیلئے جہاد کرتے ہیں‘‘- (مسنداحمد بن حنبلؒ)
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے جس جانفشانی اور مخلصانہ طور پر اللہ عزوجل کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے- بلاشبہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) مخلص، سچے مسلمان،عادل اور جنتی ہیں -ان میں غازی، شہید، مہاجر اور انصار بھی ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے بارے میں اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:
’’امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى‘‘ ’’جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے چن لیا ہے‘‘-(الحجرات : 3)
مزیدقرآن پاک میں اپنی رضا کی سند نازل فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ ’’ اللہ عزوجل ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی‘‘-(المائدہ :119)
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی زندگی مبارک کا خلاصہ اگر چند الفاظ میں بیان کرنا ہو تو وہ ’’عشق ِ مصطفٰے (ﷺ)اور ادب ِ مصطفٰے (ﷺ)‘‘ہے- بلاشبہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی حیات مبارکہ محبت و عشق ِ مصطفٰے (ﷺ) سے عبارت تھی ، جس کا اعتراف دورِ رسالت مآب (ﷺ) کے مخالفین بھی کیاکرتے تھے- جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پہ عُروہ بن مسعود(جو کفارمکہ کی طرف سے سفیر مقر رتھے )کہتے ہیں کہ:
اے لوگو! اللہ کی قسم !میں بادشاہوں، قیصر و کسرٰی اور نجاشی کے پاس گیا ہوں اور اللہ کی قسم میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا )محمد (ﷺ) کے اصحاب، محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں-پھر اس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال سنانا شروع کیا (اس نے بیان کرتے ہوئے کہا)جب بھی حضرت محمد (ﷺ) لعاب مبارک پھینکتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھ میں ہی جاتا ہےپس وہ اس لعاب کو اپنے چہرے اور اپنے بدن پر ملتے ہیں اور جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تووہ سب تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضوء فرماتے ہیں تو ان کے وضوء کا بچا ہوا پانی لینے کیلئے اس طرح جھپٹتے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گےاور جب آپ (ﷺ) گفتگو فرماتے ہیں تو ان کے سامنے وہ سب اپنی آوازوں کو پست کردیتے ہیں اور ان کی تعظیم کے لئے ان کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے‘‘- (صحیح البخاری)
اسی طرح جب غزوہ اُحد میں ایک انصاری خاتون کے والد، بھائی اورشوہر شہید ہو گئے تو اس نے پوچھا کہ میرے حبیب سید ی رسول اللہ (ﷺ) کا کیا حال ہے ؟ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے فرمایا کہ آپ (ﷺ) خیریت سے ہیں (لیکن تمہارے والد، بھائی اور شوہر مرتبہ شہادت پا گئے) تو صحابیہ رسول (ﷺ) نے جو ارشادفرمایا (وہ دل کے کانوں سے سننے کے قابل ہے) فرمانے لگیں :مجھے دکھاؤکہ رسول اللہ (ﷺ) کہاں ہیں؟ حتٰی کہ میں آپ (ﷺ) کی زیارت کرلوں جب اس نے آپ (ﷺ) کی زیارت کی تو فرمانے لگیں: آپ (ﷺ) کو سلامت دیکھنے کے بعد ہر مصیبت آسان ہے (اورمجھے کسی کی پروا نہیں )- (شرح صحیح مسلم)
یوں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی حیات مبارکہ کو دیکھ اور پڑھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا تو اوڑھنا،بچھونا ہی حضور نبی کریم (ﷺ) کا عشق ومحبت تھا-آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے وہ امت مسلمہ جس کا اوڑھنا بچھونا ہی حضور نبی کریم (ﷺ) کا عشق ومحبت اور اَدب و تعظیم تھا،اغیار کی طرف دیکھنا تودور کی بات سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ،آج وہ اپنے فیصلے ہی وہی پسند کرتے ہیں جو اغیار کرتے ہیں -
آج مسلمانوں کو انٹرنیشنل سطح پر مشکلات اورندرونی وبیرونی محاذ پر ناکامی اور پسپائی کاسامنا ہے- عصر حاضر میں صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کی مثالی زندگی کی پیروی گزشتہ صدیوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور اہم ہےکیونکہ کامیابی کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں- اِن پاکیزہ نفوس کو بھی کٹھن حالات کا سامنا تھا لیکن ان سب حالات کا مقابلہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نےجس قُوّتِ ایمانی، عشقِ رسول (ﷺ) اور صبر و استقامت، جُہدِ مسلسل اور اخوت و مروت سے کیا وہی تاریخ ہم کو دہرانی پڑے گی- ہمیں چاہیے کہ خلوصِ نیت اور حُسنِ اعتقاد کے ساتھ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی سیرت مبارکہ کا عمیق مطالعہ کریں کیونکہ ان کا ہر عمل اللہ عزوجل اور اس کے رسول (ﷺ) کے نزدیک پسندیدہ ہے- آج کی اشد ضرورت بھی یہی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے تذکرے عا م کر کے ان کی عزت و تکریم کے نقوش قلب پر ثبت کیے جائیں، ان کی تعلیمات اور طریق کو اپنی زندگی میں نمونہ عمل بنائیں تاکہ عصر حاضر میں پروان چڑھتی مادیت پرستی کے مسائل سے نبٹا جا سکے-