فاشسٹ بھارت: موجودہ صدی میں اقلیتوں کا سب سے بڑا دشمن
اکیسویں صدی میں نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کا خود ساختہ علمبردار فاشسٹ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی کھلی پامالی،نسل پرستی ،نسل کشی ،نا انصافی ،ظلم و تشدد اور شدت پسندی و ریاستی دہشت گردی کی بھیانک تصویر دیکھنے کو ملتی ہے-اس وقت بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ مت جیسی مذہبی اقلیتیں ہر طرح کے بنیادی حقوق سے محروم زبوں حالی کی زندگی بسرکررہی ہے جن کی جان و مال کا تحفط ہندو انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہے- جب سے ہٹلر ثانی(نریندر مودی) برسرِ اقتدار آیا ہے تب سے بھارت میں اقلیتوں (بالخصوص مسلمانوں) کا جینا محال ہوچکا ہے- اذا ن، حجاب،لو جہاد اور گھرواپسی جیسی تحریک اس کی اندوہناک مثالیں ہیں -بھارت میں اقلیتوں کے خوفناک حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ساؤتھ ایشیا سٹیٹ آف مائناریٹیز کی رپورٹ( 2020 ء) میں واضح بتایا گیا ہے کہ بھارت نریندر مودی دورِ حکومت میں اقلیتوں اور حکومت کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے خطرناک ملک بن گیا ہے -اپنے انتہا پسندانہ و نسل پرستانہ عزائم کی تکمیل اور مذہبی تعصب و نفرت کی آڑ میں آر ایس ایس (جس کا مقصد ہی بھارت سے اقلیتوں کا خاتمہ اور ہندوتوا کو فروغ دینا ہے) اور بی جے پی حکومت ہر طرح کی انسانی و اخلاقی اقدار، اقوام ِ متحدہ کی سینکڑوں قراردادوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی فیصلوں کی پرواہ کیے بغیر اقلیتوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعما ل کررہی ہے - بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی تاریخی نسل کشی اور انہیں سماجی، سیاسی، معاشی، آئینی اورمذہبی سطح پرپیچھےدھکیل کرہندوتوا (Hindutva) نظریےکا فروغ اور ہندوراشٹرا (ہندو ملک)کا قیام اس کا منہ بولتا ثبوت ہے- راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کئی باریہ اعلان کرچکی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں-ان کیلئے تین راستے ہیں، مسلمان بھارت سے نکل جائیں، ہندومت اختیار کرلیں یا پھر مرنے کے لیے تیار رہیں- ورلڈ آرگنائزیشنز اور سماجی محققین وماہرین نے بھارت کے ان فسطائیت زدہ اقدمات پر بھر پور خدشات کا اظہار کیا ہے- امریکہ کی تنظیم ’ورلڈ وِد آؤٹ جینو سائیڈ‘ کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلن کینیڈی (Dr. Ellen Kennedy) نے امریکی کانگریس میں بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ بھارتی حکومت ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے کمربستہ ہے -معروف سماجی دانشور نوم چومسکی (Noam Chomsky )کا اپنے ایک حالیہ بیان میں کہنا تھا کہ بھارت میں اسلامو فوبیا انتہائی مہلک اور خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے جہاں 25کروڑ بھارتی مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے- یہ مذموم بھارتی عزائم نہ صرف پوری دنیا پر ظاہر ہوچکے ہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں سے خود بھارت کے اندر سے بھارتی اقلیتی جبرو ناانصافی کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں-معروف بھارتی جرنلسٹ آ کار پٹیل نے2020ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب(Our Hindu Rashtra)میں بھارت کے اقلیت دشمن و غیر منصفانہ اقدامات کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد مسلمان ہیں جن میں 4.9فیصد مسلمان حکومتی سطح پر ،4.6 فیصد مسلمان پیرا ملٹری سروسز ، 3.2 فیصد لوگ ا نتظامیہ وپولیس کے محکمے جبکہ 1فیصد سے بھی کم مسلمان بھارتی ملٹری فورس میں شامل ہیں-اسی طرح بھارتی لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں صرف 27 مسلمان ممبران ہیں جو مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے تقریبا ً 74 فیصد ہونے چاہیں-مزید نسل پرستی کی اس سے شرمناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے کوئی بھی مسلمان لوک سبھا کا ممبر نہیں ہے اور 1998 ء سےلیکر اب تک بھارتی ریاست گجرات سے کوئی مسلمان رکن الیکشن کیلئے نامزد نہیں ہوا حالانکہ گجرات کی کل آبادی کا 9 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے- دلچسپ بات یہ ہےکہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی (RAW)میں آج تک کسی مسلمان کو شامل نہیں کیا گیا-اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ کس قدر بھارت میں سب بڑی اقلیت مسلمانوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے- عیسائی کمیونٹی کی بات کی جائےتو FIACONAکی رپورٹ (اپریل 2022ء) کے مطابق 2021ء بھارت میں عیسائیوں کیلئے بہت زیادہ پرتشدد سال رہاہے جس میں بلاواسطہ مودی سے جڑے ہندوقوم پرست گروہوں کی طرف سے عیسائی اقلیت کے خلاف تقریبا ً 761 پرتشدد کاروائیاں ہوئی ہیں -جبکہ نیویارک ٹائمز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گزشتہ 5 برسوں میں عیسائیوں پر ظلم و ستم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایک منظم نفرت انگیز مہم کے ذریعے عیسائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے-رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندو انتہا پسند عیسائی برادری کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عیسائیوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں-اس کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی انتہا پسند ہندو رویے اور نسل پرستانہ اقدامات کا سامنا کررہی ہیں-
بھارت کا مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہ غیر انسانی رویہ اور امتیازی سلوک (جس کی کسی مذہب یا آئین میں قطعاً اجازت نہیں ہے) دنیا سے ڈھکا چھپانہیں لیکن اس کے باجود دنیا ایک طویل عرصے سے سرد مہری کا رویہ اپنا ئے ہوئے ہے -اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کی اقلیت دشمن پالیسیز اور فاشسٹ اقدامات پر عالمی طاقتیں کوئی ایکشن لیں گی؟ ایسا سوچنا بے سود ہے کیونکہ بے حس عالمی رویہ اور دہرا معیار واضح کرتا ہے کہ پاور پولیٹکس زوروں پر ہے جس میں معاشی وتجارتی مفاد کی خاطر انسانی مفاد کو قربان کیا جاتا ہے-بدقسمتی تو یہ ہے کہ عالمی نظامِ انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی پاور پولیٹکس کی ہوا لگ گئی ہے جہاں مظلوم انسانیت کیلئے محض مذمتی بیانات اور برائے نام قراردادوں کے علاوہ کچھ بچا ہی نہیں - کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیزی سے جاری بھارتی جرائم اور کرفیو کو تقریباً 3 سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن عالمی اداروں کے ضمیر پر جوں تک نہیں رینگی کہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور غیرآئینی کرفیو کا خاتمہ کرواکرکشمیریوں کےلئے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں حقِ خوداردایت دلایا جائے- ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2021ء میں قابض بھارتی فوج نے معصوم بچوں اور خواتین سمیت 210 کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں 65 افراد کو جعلی ان کاؤنٹر میں شہید کیا گیا جبکہ گزشتہ سال میں 2716 کشمیریوں کو گرفتار اور 487 افراد کو زخمی کیا جاچکا ہے-
موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر میں نسلی یا مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اسلامی دنیا کو متحد ہوکر عالمی فورمز پر مؤثر آواز بلند کرنا ہوگی -مثلاً مسلم ممالک کی اپیل پر اقوامِ متحدہ میں مسلمز پروٹیکشن لاء ان دی ورلڈ (Muslims Protection Law in the World )کے نام سے باقاعدہ ایک خصوصی قانون بنایا جانا چاہیے جس پر دنیا کے وہ تمام ممالک سختی سے عملدرآمد کے پابند ہونگے جو خونِ مسلم کے پیاسے ہیں اور جنہیں کرہ ارض پر مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں-
مزید برآں! عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشی و تجارتی مفادات کی بجائے انسانی مفادات کو ترجیح دے کیونکہ عالمی امن کا انحصار عالمی برادری کے کندھوں پر ہے -سچ تویہ ہے کہ اس وقت دنیا کو بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، اقلیتوں سے امتیازی سلوک و ناانصافی اور اقلیتوں پرتشدد و مظالم کی صورت میں بھارتی فاشزم کی سرکوبی کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے جس کیلئے کوئی مستقل اور غیر جانبدارانہ عالمی قانون بنانا ہوگا تاکہ خطے میں امن واستحکام کو یقینی بنایا جاسکے - کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جب تک نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت رہےگی تب تک بھارت میں نہ تو اقلیتوں کا تحفظ ممکن ہے اور نہ ہی جنوبی ایشیاء امن کا گہوارہ بن سکتا ہے-