پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور ممکنہ حل
پاکستان گزشتہ چند ماہ سے مون سون کے غیرمعمولی طویل سیزن کے دوران بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی زد میں ہے-پاکستان کی نیشنل ڈیزازٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) کے مطابق اگست کے اختتام تک کم و بیش 1191 لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی اس قدرتی آفت سے متاثر ہو چکی ہے جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے عمل میں کئی برس لگیں گئے جس پر آنے والی لاگت اس نقصان سے کہیں زیادہ ہو گی-
حکومت پاکستان کے مطابق صوبہ سندھ سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 23 اضلاع کی ایک کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے-اس طرح صوبہ بلوچستان کے 34 اضلاع کے 91 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد جبکہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع کی 48 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے-تعجب کی بات ہے بلندی پر ہونے کے باوجود خیبر پختونخواہ بھی سیلاب کی زد میں ہے اور اس کے 33 اضلاع کے 43 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثرین میں شامل ہیں -المختصر یہ کہ ملک خداداد کا ایک تہائی حصہ،مکانات، ریلوے ٹریک، موٹر ویز وغیرہ زیر آب ہیں اور بعض علاقوں کا ملک سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہے-
سیلاب سے نمٹنے اور لوگوں کی بحالی کیلئے اقوام متحدہ نے 16 کروڑ ڈالر امداد کی ہنگامی اپیل جاری کی ہے-پورے ملک میں ہنگامی صورتحال ہے، ریاست کی تمام تر توجہ سیلاب زدگان کی مدد پر مرکوز ہے-ایسی آفتوں اور مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے ہمیں ہر ممکن حد تک متاثرین کی داد رسی کرنی چائیے-ایسے حالات میں ہمیں حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی سیلاب زدگان کی خوراک اور رہائش کی کوشش کر نی چائیے-
بدقسمتی سے پاکستان میں سیلاب جیسی آفت کوئی نئی چیز نہیں -پاکستان کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ہر سال سیلاب آنا ایک معمول بن گیا ہے-اس سے قبل 1992ء، 2003ء، 2007ء، 2010ءاور 2014ء میں بڑے سیلاب آچکے ہیں -لیکن توجہ طلب بات یہ ہےکہ ایک طرف پاکستان میں پانی کی قلت کارونا رویاجاتاہے جبکہ دوسری طرف پاکستان ہر سال زیر آب آ جاتا ہے-اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں موسم گرما میں گلیشئیرز کے پگھلنےاور مون سون بارشوں کی وجہ سے پانی ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے اور اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم ضرورت سے بہت کم ہیں-پس موسم گرما میں اضافی پانی سیلاب کا باعث بنتا ہے جبکہ موسم سرما میں پانی ضرورت سے کم ہوتا ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں قحط سالی ہوتی ہے-اگر نئے ڈیم بنا لیے جائیں تو موسم سرما میں اضافی پانی کو ذخیرہ کرکے قلت کوپورا کیا جاسکتا ہے بلکہ سیلاب سے بھی بچا جا سکتا ہے-اس کے علاوہ ڈیم سستی بجلی پیدا کرنےاور بنجر زمین کو زیرکاشت لانے میں بھی معاون ثابت ہو تےہیں -
1953ءمیں کالاباغ ڈیم کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور1977ء میں ڈیم کی تعمیر پر کام کا آغاز بھی ہو گیا تھا مگرگزشتہ 30 برس سے سیاسی مسائل کی بنا پر ڈیم پر کام رکا ہوا ہے- کالاباغ ڈیم ایک اہم ڈیم ہے جو سیلابوں کو روکنے میں نہایت مددگار ثابت ہوگا - ماضی میں پاکستان میں دو ڈیم بنے تھے جن کا مجموعی قابل استعمال پانی 16.04 MAF ملین ایکڑ فٹ تھا-البتہ حکومت پاکستا ن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم کی پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں 43 فیصد کمی ہو چکی ہے اور یہ کمی مزید بڑھتی جائے گئی کیونکہ ڈیم میں آنے والے پانی میں ریت اور پتھر آتے ہیں اور وہ ڈیم میں جمع ہوتے رہتے ہیں-مزید یہ کہ جوں جوں موجودہ دو عدد ڈیم ریت اور مٹی سے بھر جائیں گے تو زراعت کیلئے فقط بارانی موسم کے 100 دن پانی ملے گا جس کے باعث کپاس اور گندم سمیت دیگر کئی فصلیں متاثر ہوں گی- نوشہرہ اور چارسدہ میں سیلاب آنے کی سب سے اہم وجہ دریائے سوات پر کسی بھی ڈیم کی غیر موجودگی ہے اس لیے دریائے سوات پر مونڈا ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے-
حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے 10 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا اور حالیہ سیلاب میں یہ نقصان 10 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے- ذرا تصور کیجئے کہ اس رقم سے کتنے نئے ڈیمز بنائے جا سکتے تھے اور ان ڈیمز کی موجودگی سے کتنے قیمتی جانی اور مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا-ابھی بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور ڈیمز کی تعمیر کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے-
غزہ کی حالیہ صورتحال اور مسئلہ فلسطین
سرزمینِ فلسطین پر اسرائیل نے برطانوی اور مغربی حمایت پر 1948ء میں قبضہ کیا جو آج تک جاری ہے- در حقیقت فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے اورفلسطین کے حریت پسند عوام نے اسرائیلی جارحیت اور قبضے کے خلاف ہمیشہ بھرپور مزاحمت کی ہے- اپنی آزادی کیلئے صیہونی فوج کے خلاف جدوجہد کرنا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے ، چاہے وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارہ میں-
اس وقت غزہ میں معصوم فلسطینی عوام اور بچوں پر جاری بد ترین تشدد اور مظالم تمام اِنسانیت بالخصوص اُمتِ مسلمہ کے لئے انتہائی غمگین امر اور باعثِ تشویش ہیں- اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ میں یہ حملے روزانہ کا معمول بن چکے ہیں- اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 5 سے 7 اگست یعنی دو دنوں کے دوران ہونے والے حملوں میں 48 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے- اس کے علاوہ سینکڑوں فلسطینی زخمی ہیں جنہیں بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے-
اسرائیل ہمیشہ اپنے ظالمانہ اقدامات پر عالمی برادری کو یہ باور کرا تا ہے کہ وہ فلسطینی حملوں کے خلاف فقط اپنادفاع کر رہا ہےجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت و بربریت کا مقصد غزہ کے معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا اور اُن کی زندگیوں کو تبا ہ کرنا ہے تاکہ ڈر اور خوف کے باعث وہاں کے حریت پسند لوگ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد سے رک جائیں اور مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیں-
یاد رہے غزہ ایک باریک پٹی ہے جہاں ڈیڑھ ملین سے زائد لوگ آباد ہیں- وہاں کے لوگ نہ تو آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکتے ہیں،نہ ہی کچھ برآمد اور درآمدکرسکتےہیں- دوسرے الفاظ میں غزہ ایک کھلی جیل کی مانند ہے- غزہ کرۂ ارض پربہت زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے جس کی لمبائی شمال سے جنوب 40 کلومیٹر جبکہ مشرق سے مغرب 10 کلومیٹر ہے یعنی 400 مربع کلومیٹر کے علاقہ میں ڈیڑھ ملین فلسطینی آباد ہیں چنانچہ 4 فلسطینی اوسطاً ایک مربع میٹر جگہ پر آباد ہیں-ایسے میں اگر اسرائیلی ایف سولہ طیارے اوپر سے سیب اور مالٹے بھی برسائیں تو بھی فلسطینیوں کوہلاک کیا جا سکتا ہے جبکہ اسرائیل جدید ہتھیاروں کے ذریعے حملے کرتا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں اموات ہوتی ہیں -
فلسطین کی اس صورتحال پر ایمنسٹی انٹرنیشنل گزشتہ برس اپنی رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف Apartheid (نسلی عصبیت)کا مرتکب ہو رہا ہے- رپورٹ میں فلسطینیوں کی زمین اور جائیداد پر’بڑے پیمانے‘ پر قبضے، غیر قانونی ہلاکتوں، فلسطینیوں کی ان کی زمین سے دوسرے مقامات پر’جبری منتقلی‘ نقل و حرکت پر سخت پابندیوں، قومیت اور شہریت سے انکار کو ایسے’نظام کے اجزا قرار دیا گیا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے-
مسئلہ فلسطین پر گزشتہ 7 دہائیوں سے بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں یکسر ناکام نظر آتے ہیں- فلسطینی عوام کی مزاحمت اور جدوجہد کا واحد مقصد ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام ہے-گو کہ اقوامِ متحدہ نے واضح طور پر اپنا لائحہ عمل دیا ہے جس کے مطابق اسرائیلی فوج کو 1967 ء کی پوزیشن پر واپس جانا چاہئے، فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کی اجازت ہونی چاہئے اور وہ جو نہ لوٹ سکیں، انہیں اس کے بدلے معاوضہ دینا چاہئے اورسرحدوں کی سکیورٹی یقینی ہونی چاہئے اور یہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے مگر اسرائیل اِن پر عمل درآمد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی عالمی ادارے اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کروانے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں-
افسوس اس بات کا ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین میں مسلسل ظلم و جبر پر خاموش تماشائی بنے ہوئی ہے- عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اور اسرائیلی جارحیت پر مجرمانہ خاموشی اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں -مگر مسلم دنیا کو یاد رکھناچاہیئے کہ جو حالت آج فلسطین و کشمیر کی ہے وہ کل کسی اور اسلامی ملک کی بھی ہو سکتی ہے- پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ متحدو یکجا ہو کر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے-