سیرتِ نبوی(ﷺ):ریاست اور ہماری ذمہ داریاں
بلاشبہ تاجدارِ انبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی سیرتِ طیبہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کا جامع و کامل احاطہ کرتی ہے- چاہے امورِ سیاست ہوں،معیشت ہوں،معاشرت ہوں یا دیگر عمرانی و سماجی مسائل ان میں یقیناً ہم بحیثیتِ مسلمان حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت ِ مبارکہ سے رہنمائی لیتے ہیں-یہاں ایک سوال ہمیں دعوت ِ فکر دیتا ہے کہ جب سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی پاک نسبت کی وجہ سے اُمت کو بھی بہترین امت قراردے دیاگیا اور جب اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کی اُمت کی افضلیت کا اعلان فرمایا ہے تو آج ذلت ورسوائی ہمارا مقّدر کیوں ہے ؟
آپ(ﷺ) وہ طبیبِ اعظم ہیں جنہوں نے نہ صرف پوری انسانیت کو رہنمااصول عطا فرمائے بلکہ اپنی امت کو قرآن وسنت کی صورت میں بیش بہاخزانہ عطا فرما کرقبل از وقت اس کی کمزوریوں سے بھی آگاہ فرمایا- جیساکہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا:قریب ہے کہ دیگر اقوام تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے سے بھرے ہوئے پیالے پہ ٹوٹ پڑتاہے ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں عرض کیا:یار سول اللہ (ﷺ):کیا ان دنوں ہماری تعداد کم ہوگی ؟ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: بلکہ ان دنوں تم اکثر یت میں ہوگے لیکن ایسے بیکارہو گے جیسے سمندر کی جھاگ،اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب کو نکال دے گا اورتمہارے دلوں میں ’’وھن‘‘ کی مرض پیدا فرما دے گا-سائل نے عرض کی:یارسول اللہ (ﷺ)! وھن کیاہوتا ہے؟ تو حضور رسالت مآب (ﷺ)نے ارشادفرمایا:’’حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘، ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ‘‘-
دراصل وہن کی مرض تب لگتی ہےجب سیر ت ِ مصطفٰے (ﷺ) قلب و نظر کا مرکز ومحور نہ ہو اور دل عشق ِ مصطفٰے (ﷺ)ونورِ ایمان سے خالی ہوجائے-آج اُمت ِ مسلمہ کی موجودہ صو رت ِ حال اس حدیث مبارک کی عکاس نظر آتی ہے ، ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں؟ اس سلسلے میں نہایت اختصار سے گزارش ہےکہ اُسو ۂ رسول (ﷺ) کو مکمل طورپہ اپنایا جائے نہ کہ جزوی طور پہ-محض لباس اور وضع قطع کا بدلنا مطلوب نہیں-بلکہ جہاں ہم اپنے آقا سرورکائنات (ﷺ) کے ظاہری سنتوں کو اپنااوڑھنا بچھونا بنائیں وہاں سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی زُبان گوہر فشاں سے نکلے ہوئے ان الفاظ مبارک ’’تَنَامُ عَیْنَایَ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے باطنی اعمال صالحہ ( توکل،استغنا، اللہ عزوجل سے قلبی لَووقلبی ذکر،عزم واستقلال وغیر ہ کو بھی) اپنائیں- ہم جہاں کہیں بھی جس شعبہ میں ہیں قرآن وسنت کا فہم حاصل کریں اور اپنے وجود پہ قرآن وسنت کے احکام اورنظام مصطفٰے(ﷺ) کا نفاذ کریں-
اگر پاکستان کے تناطر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آپ (ﷺ) کی نگاہ ِ کرم اور نگاہ ِ فیض کا ہی نتیجہ تھا کہ مدینہ منورہ کے بعد دوسری نظریاتی مملکت(مملکتِ خداداد پاکستان) نظریہ’’ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی- لیکن شایدہم یہ بھول چکے ہیں کہ بانیانِ پاکستان کا مقصد صرف ایک خطہ زمین کا حصول نہیں تھا،بلکہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام تھا جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق حکومت اور نظامِ ہائے حیات کو تشکیل دیا جا سکے- بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے واضح فرما دیا تھاکہ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح 1300 سال پہلے قابل عمل تھے-میں نہیں سمجھ سکا کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا‘‘- اسی طرح قائد اعظمؒ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا-ہم نے جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی“-یعنی 1300سال قبل حضور نبی اکرم(ﷺ) نے ریاستِ مدینہ کی صورت میں ہمارے لیے ریاست اور حکمرانی کےاسلامی اصول وضع فرمادیے تھے جن پر ہمیں پاکستان کی تعمیر و تشکیل کرنی ہے -مثلاً حضور نبی کریم(ﷺ) کی قائم کردہ ریاست (ریاستِ مدینہ) میں لوگوں کو بلاتفریق ِ رنگ و نسل اور مذہب و علاقہ برابر کے انسانی حقوق میسر تھے اور وہاں یکساں معاشی و معاشرتی عدل و انصاف قانون کی حکمران،مساوات،رواداری اور اخوت و برداشت کا بول بالا تھا -الغرض! ریاستِ مدینہ کا ماڈل ہر طرح سے انسانی خوشحالی و فارغ البالی کی پوری ضمانت دیتا ہے -
بدقسمتی اسلامی جمہوریہ پاکستان جس نے دنیا میں مدینہ ثانی کا کردار ادا کرنا تھا اور خود کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر ڈھالنا تھا وہ اسلامی اصولوں سے عملی طورپر تہی دامن نظر آتا ہے -یہی وجہ ہےکہ پاکستان اس وقت کئی طرح کے سیاسی و سماجی اور معاشی ونظریاتی مسائل اور داخلی عدم استحکام سے دوچار ہے جو پاکستان کو دن بدن تنزلی کی طرف دھکیل رہاہے-
آج پاکستان کے ریاستی نظام اور ریاستی نظم ونسق کو اسلامی اصولوں پر عملاً ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے ہر فرد کو انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے -بالخصوص ملک کے اربابِ اختیار کو اپنے رویوں اور طرزِ حکمرانی کو بدلتے ہوئے پاکستان کے خوشحال مستقبل اور ان مقاصد و اہداف پر فوکس کرنا ہوگا جن کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا ہے -مزیدبرآں! سیرت النبی(ﷺ) سے رہنمائی لیتے ہوئے قرآن وسُنت کے مخالف قوانین سے اعراض کرتے ہوئے پاکستان اپنے موجودہ داخلی وخارجی مسائل اور چیلنجز سے بہتر انداز میں نمٹ سکتا ہے بشرطیکہ ہم ہر شعبے میں اپنی نوجوان نسل کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے تیار کریں اورانہیں نظریہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ پر قائم ریاستِ پاکستان کا حقیقی وفادار بنائیں کیونکہ یہی استحکام ِ پاکستان اور بقائے پاکستان کی ضمانت ہے-